https://www.youtube.com/watch?v=P1MRONzc2q4 جلسۂ امنِ عالَم پر ایک نظم (بزبان سیدنا حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام) نوحۂ غم: ہر طرف آفات اور آلام کا اک رقص ہےیہ جہاں اب حشر کے میدان کا اِک عکس ہےجب کہ انساں غربت و فاقہ کشی سے چُور ہےیہ جہانِ نو، ترقی پر بہت مغرور ہےآدمیت کی سبھی اقدار ہیں پستی میں گمآدمی ہے نفرت و تفریق کی بستی میں گم’’ایشیا و یورپ و امریکہ و افریقہ سب‘‘کر کے بیٹھے ہیں فراموش اپنی ہستی کا سببرعب اب دجال کا ہے گشت پر دَرّانہ دَر’’نیل کے ساحل سے لے کر تا بہ خاکِ کاشغر‘‘مسجدوں کی شان و شوکت میں اذانیں کھو گئیںسوز کے ترکش، دعاؤں کی کمانیں کھو گئیںجنگجوئی سے جہاں سارا شکستہ تر ہوااور زلازل سے زمیں کا نقشہ خستہ تر ہوااسلحہ سے لیس ہیں اقوامِ عالم کی حدودمٹ گئی ہیں جنگ کے آداب کی ساری قیودرُوس نے مشرق سے مغرب کو جو للکارا ہے پھراتحادِ یورپ و امریکہ صف آراء ہے پھرمستعد ہر سمت وہ ہتھیار ہیں جن کا شررایک ہی جنبش میں کر دے گا زمیں زیر و زبربھوک ہے، افلاس ہے، امراض ہیں چاروں طرفاور وباؤں کے نئے انداز ہیں چاروں طرفہائے! انساں بے خدا ہو کر کہاں پر آگیاوقت کیسے خوف کا سارے جہاں پر آگیانغمۂ شادی: دے رہا ہے آج میرا جا نشیں میرا پیاماور مخاطب ہیں سبھی اقوام کے سب خاص و عاماُس کے لفظوں میں چُھپی اقوام کی تقدیر ہےجو قیامِ امن کی اب آخری تدبیر ہےہے ترقی میں ہوس کا بیج یوں بویا گیاصنعت و حرفت کی چکی میں خدا کھویا گیاوہ یہ کہتا ہے خدا کے ہاتھ کو پھر ڈھونڈ لوگم شدہ ساتھی ہے، اُس کے ساتھ کو پھر ڈھونڈ لوآدمی ہی آدمی کو کاٹ کر آگے بڑھادنیوی سبقت کا یوں اندھا سفر آگے بڑھاطاقت و کثرت نے لوٹا جب غریبوں کا اناجاقتصادی لالچوں کو مل گیا دنیا پہ راجاِس نرالی دوڑ میں شرم و حیا جاتی رہیجسم سے انسانیت کے ہر رِدا جاتی رہیوہ بلاتا ہے جہاں کو امنِ عامہ کی طرفاک نئے معجز نما قرطاس و خامہ کی طرفقومِ احمدؐ کو وہ دیتا ہے پیامِ زندگیاور یہ کہہ کر عطا کرتا ہے جامِ زندگیشست باندھے، تاک میں بیٹھا ہوا اب غیر ہے’’صدق سے میری طرف آؤ اِسی میں خیر ہے‘‘’’اب اِسی گلشن میں لوگو راحت و آرام ہے‘‘مہرباں ہم پر ہمیشہ چرخِ نیلی فام ہےآگ سے کندن میں ڈھل کر ہم نکلتے ہیں مدامآگ ہے میرے غلاموں کے غلاموں کی غلامآؤ مل کر سرد کر دیں نفرتوں کی آگ کوآؤ مل کر آج گائیں آسمانی راگ کوشوکتِ پُر رعب سے نصرت عطا اُس کو ہوئیاور مسیحائی کی اک طاقت عطا اُس کو ہوئیآج اُس کی بات پر دنیا ہمہ تن گوش ہےاُس کا ہی مضمون بالا ہے، جہاں خاموش ہے