https://youtu.be/7aUNAs2BWvo ایک حکم یہ ہے کہ تم نے یتیم پر مالی کشائش رکھتے ہوئے اگر نہیں بھی خرچ کیا یا مالی کشائش نہ رکھتے ہوئے خرچ کیا بھی ہے تب بھی جب وہ یتیم بالغ اور عاقل ہو جائے اور جب تم اس کا مال اسے لوٹانے لگو تو پورے حساب کتاب کے ساتھ اسے لوٹاوٴ کہ یہ جائیداد تھی۔ بلکہ یہ بات زیادہ مستحسن ہے کہ اس کے مال کو تجارت میں بھی لگا دو اور بڑھاوٴ اور حساب کتاب دیتے ہوئے یہ بتاوٴ کہ یہ تمہارا اصل سرمایہ تھا، یا یہ جائیداد تھی یا یہ رقم تھی اور اس پر اتنا منافع ہوا ہے اور یہ جو ٹوٹل منافع اور اصل زر ہے وہ تمہیں واپس لوٹا رہا ہوں۔ اسی طرح اگر کسی غریب نے اُس مال میں سے یتیم کی پرورش کے لئے خرچ کیا ہے تو بلوغ کو پہنچنے پر ایک ایک پائی کا تمام حساب کتاب اسے دو۔ اور یہ حساب کتاب دیتے وقت گواہ بھی بنا لیا کرو تا کہ کسی وقت بھی بد ظنی پیدا نہ ہو۔ یتیم کے دل میں کبھی رنجش نہ آئے۔ کیونکہ بعض دفعہ، بعد میں، یتیم کے دل میں وسوسے بھی آ سکتے ہیں۔ یا بعض اوقات بعض لوگ یتیموں کے ہمدرد بن کراس کے دل میں وسوسے ڈال سکتے ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت کو سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ جب بھی یتیم کا مال لوٹاوٴ تو پورا حساب دو اور اس میں گواہ بنا لو۔ … جس تفصیل سے قرآن کریم میں یتیموں کے حقوق کے بارہ میں حکم دیا گیا ہے، کہیں اور نہیں دیا گیا۔ کسی اور شرعی کتاب میں نہیں دیا گیا۔(خطبہ جمعہ فرمودہ۲۶؍فروری ۲۰۱۰ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۹؍مارچ ۲۰۱۰ء)