حضرت مصلح موعود ؓ

قرونِ اُولیٰ کی نامور خواتین اور صحابیات کے ایمان افروز واقعات (قسط نمبر4۔آخری)

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ (فرمودہ ۳۱ ؍جولائی ۱۹۵۰ء بمقام کوئٹہ)

غرض جب خداتعاليٰ اور اس کے رسول کا کسي اَور سے مقابلہ آ جاتا ہے تب دين اس ميں روک بنتا ہے۔ اسلام دنياکمانے، تجارتيں اور زميندارياں کرنے ميں روک نہيں بنتاہاں يہ کہتا ہے کہ جب يہ زميندارياں اور تجارتيں وغيرہ خداتعاليٰ کے مقابلہ ميں آ جائيں توہر سچے اور مخلص مومن کا فرض ہے کہ انہيں چھوڑ کر خدا تعاليٰ کي طرف متوجہ ہوجائے،اِس کو تقويٰ کہتے ہيں۔ ورنہ يہ کہنا کہ خدا تعاليٰ دنيا کمانے سے روکتا ہے درست نہيں۔صحابہ تجارتيں کرتے تھے، زميندارياں کرتے تھے،رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم خود زمينداري کرتے تھے چنانچہ جب خيبر فتح ہوا تو آپ نے اُس کاايک حصہ اپنے خاندان کے لئے وقف کردياتھا۔ بہر حال دنيا کمانا منع نہيں۔ ہاں جب خدا تعاليٰ کي آواز آ جائے تو دوسرے تمام کاموں کو چھوڑ کراُس طرف متوجہ ہو جانا چاہئے۔ يہي اسلام کي تعليم ہے۔

خدا تعاليٰ کي آواز تو بہت بڑي چيز ہے دنيا ميں ہم ديکھتے ہيں کہ ماں اپنے کام ميں مشغول ہوتي ہے ليکن جب اُسے بچے کے رونے کي آواز آتي ہے تو وہ سب کام چھوڑ کراُس کي طرف دَوڑپڑتي ہے۔مثلاًايک عورت دودھ دوہ رہي ہوتي ہے، فرض کرو کہ وہ کسي اونچي جگہ پر بيٹھي دودھ دوہ رہي ہے (اور دودھ کا خراب ہوجانازميندار کے لئے بہت بڑا نقصان ہے) اِدھر سے اسے بچہ کے رونے کي آواز آ جاتي ہے تو وہ عورت دودھ پھينک کر بچہ کي طرف چلي جائے گي۔ اسي طرح جب اللہ تعاليٰ کي آواز آئے تو ہميں سمجھ لينا چاہئے کہ اب کوئي اَور کام کرنا ہمارے لئے جائز نہيں۔

اسلام کے تنزل کے زمانہ ميں بھي ہم ديکھتے ہيں کہ جہاں ان ميں کمزورياںتھيں وہاں ان کے اندر بعض اچھي خوبياں بھي پائي جاتي تھيں۔خلفائے عباسيہ کي حکومت جب کمزور ہوئي تواُس وقت خليفہ کي حالت ايسي ہي تھي جيسے ہندوستان پر جب انگريزوں نے قبضہ کرلياتو مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کي حالت تھي۔عکہ تک تمام علاقہ چھن گيا تھاايک دفعہ خليفہ جب شطرنج کے مہروں کي طر ح رہ گيا تھا۔ عکہ ميں سے ايک قافلہ گزر رہا تھاکہ ايک عورت کو کسي عيسائي نے چھيڑااور اسے قيد کرلياوہ ايک ديہاتي عورت تھي اُسے يہ علم نہيں تھاکہ آجکل مسلمانوں پر ضعف کا زمانہ آيا ہواہے وہ مسلمانوں کي پہلي شان ہي سمجھتي تھي،معلوم ہوتا ہے کہ اُس زمانہ ميں عورتوں ميں تعليم کم ہو گئي تھي۔ اس لئے جوش ميں آ کر کہا يَالَلْخَلِيْفَة۔اے خليفہ! ميں تمہيں اپني مددکے لئے پکارتي ہوں۔ حالانکہ اُس وقت عيسائي بڑے بڑے بادشاہوں کوبھي شکست دے چکے تھے اور خليفہ تو اُس وقت دہلي کے آخري بادشاہ کي طرح تھا۔قافلہ کے لوگ اُس عورت کي اِس بات پر ہنس پڑے اور کہا يہ کتني پاگل ہے خليفہ کو تو اِس وقت کوئي پوچھتا بھي نہيں ليکن يہ اس کو مدد کے لئے پکار رہي ہے۔ وہ سارا راستہ اِس لطيفہ پر ہنستے آئے۔ پرانے زمانہ ميں ريل وغيرہ کي سہولتيں نہيں تھيں اس لئے خبريں دير سے پہنچتي تھيں۔جب کوئي تجارتي قافلہ شہر ميں آتا تو لوگ اس کا استقبال کرتے اور اُس سے تازہ خبريں پوچھتے۔اِسي طرح جب يہ قافلہ بغداد پہنچاتو لوگ جمع ہوگئے اور کہاکوئي تازہ لطيفہ سناؤ۔قافلہ والوں نے بتايا فلاں جگہ سے جب ہم گزر رہے تھے تو کسي عيسائي نے ايک مسلمان ديہاتي عورت کو چھيڑا اور اس نے جوش ميں آکر کہا يَالَلْخَلِيْفَة! يہ کتني عجيب بات ہے کہ خليفہ کي حالت تو اِس وقت ايک وظيفہ خوار کي سي ہے اور وہ اسے اپني مدد کے لئے پکار رہي تھي۔پھيلتے پھيلتے يہ خبر خليفہ کے دربار ميں بھي پہنچي۔ باوجو د اِس کے کہ خليفہ کي حيثيت اُس وقت محض ايک وظيفہ خوار کي سي تھي ليکن دہلي کے بادشاہوں کي طرح وہ اُس زمانہ ميں بھي اپنا دربار لگايا کرتا تھا۔دربار ميں کسي شخص نے دوسرے کے کان ميں کہاکہ يہ لطيفہ ہوا ہے۔ اُس درباري نے تو يہ بات لطيفہ کے رنگ ميں بيان کي تھي ليکن خليفہ کے ذہن ميں اب بھي يہ بات تھي کہ وہ بادشاہ ہے۔ يہ بات سن کراُس کے دل پر ايک چوٹ سي لگي اور وہ تخت سے اُتر آيااور ننگے پاؤں باہر نکل گيااور کہنے لگا ميرے ساتھ کوئي جائے يانہ جائے ميں ضرور جاؤں گااور يا تو اس عورت کو چھڑا لاؤں گا يا وہيں مارا جاؤں گا۔يہ ايک ايسي چيز تھي کہ جب ايک بناوٹي اور موم کي مانند خليفہ کے منہ سے بھي يہ بات نکلي کہ خواہ کوئي ميرے ساتھ جائے يا نہ جائے ميں جاؤں گااوراُس عورت کو چھڑا لاؤں گايا خود مارا جاؤں گا تو بہت سے اور مومنوں نے بھي خيال کيا کہ ہم بھي اس مظلوم عورت کو بچانے کے لئے نکليں چنانچہ ہزاروں ہزار افراد پرمشتمل ايک لشکر تيا ر ہوگيا۔ پھر جب اِرد گرد کے علاقہ ميں خبر پہنچي تو دوسرے نوابوں نے بھي يہ خيا ل کياکہ ہم کيوں پيچھے رہيں وہ بھي اپنے آدميوں کو ساتھ لے کر اس کے ساتھ مل گئے۔جب خليفہ شام تک پہنچا تو ايک لشکر جرار اکٹھا ہوگيا۔چنانچہ لڑائي ہوئي اور وہ عورت دشمن کے پنجہ سے چھڑالي گئي۔

پس اگر ايک مظلوم عورت کي آواز نے جس ميں رحم کي اپيل پائي جاتي تھي ايک مردہ خليفہ کے اندر جس کي حکومت نہيں تھي صرف گورنر کچھ روپے دے ديتے تھے اور ان کے ساتھ وہ شطرنج اور شراب ميں اپنا وقت صَرف کر ديتاتھاايک بيداري پيدا کر دي اور اُس نے اس کي رحم کي اپيل سے متأثر ہو کر يہ ارادہ کر لياکہ وہ جب تک اس مظلوم عورت کو دشمن سے نجات نہيں دلائے گا واپس نہيں آئے گا۔تو خدا اور اُس کے رسول کي آواز ہمارے اندر يہ جوش کيوں پيدا نہيں کرتي۔اِس وقت عملاًخدا اور اس کارسول اپني مدد کے لئے پکار کر رہے ہيں ليکن باوجود اِس کے کہ ہم ان کي آواز سنتے ہيں ہميں کوئي غيرت نہيں آتي کہ ہم بيدار ہو ں اور ايسے کام کريں جن سے خدا اور اس کے رسول کي حکومت دنيا ميں قائم ہو۔

ايک بزرگ نے جو بھوپال کے رہنے والے تھے ايک دفعہ خواب ميں ديکھاکہ ايک نحيف اور کمزور انسان زمين پر پڑاہے وہ کوڑھي ہے، آنکھيں اُس کي نکلي ہوئي ہيں ناک اور منہ پر زخم ہيں اور ان زخموں پر کثرت سے مکھياں بيٹھي ہوئي ہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ ميں نے کہا تو کون ہے جو اِس حالت ميں پڑا ہو ا ہے۔اُس نے کہاميں خدا ہوں۔ميں نے کہاہم تو قرآن کريم ميں پڑھتے ہيں کہ خدا تعاليٰ اتنا حسين ہے کہ اس سے زيادہ حسين اَور کوئي نہيں اور تم کہتے ہوکہ ميں خدا ہوں۔اُس نے کہا ميں بھوپال کا خداہوں۔ بھوپال والوں کے نزديک ميري ايسي ہي حالت ہے۔ نہ وہ ميرا احترام کرتے ہيں نہ ان ميں ميرا ادب ہے۔مجھ سے انہيں کوئي محبت نہيں ايک ادنيٰ سے ادنيٰ غلام کا بھي انہيں لحاظ ہوگا مگر ميرا انہيں کوئي لحاظ نہيں۔

پس خدا خدا تو ہے ليکن ديکھنا يہ ہے کہ انسان کے دل ميں اُس کي کياقدر ہے۔اِسي طرح رسول ہيں۔ رسول رسول تو ہے مگر ديکھنا يہ ہے کہ انسان کے دل ميں اُس کي کيا قدر ہے۔آخر وہ کون سي بات ہم ميں پائي جاتي ہے جو دوسروں کے لئے کشش کا موجب ہو۔ رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم نے جو قربانياں کيںوہ کہاں ہيں۔رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم نے جو انکسار کا نمونہ دکھاياوہ کہاں ہے؟رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم کي غريبوں پر مہرباني کي جو حالت تھي وہ کہاں ہے؟ اگر کسي ميں يہ چيزيں پائي جاتي ہيں يا وہ اپنے اندر ايسي خوبياں پيدا کرنے کي کوشش کرتا ہے تو ہم کہيں گے کہ اُس کا خدا اور اُس کا رسول زندہ ہيں۔ليکن اگر خدا تعاليٰ ان کي آواز نہيں سنتااور وہ خدا تعاليٰ کي آواز کو نہيں سنتے تو وہ زندہ کيسے ہو ئے۔سو تم ايسي روح اپنے اندر پيدا کرو کہ جس سے معلوم ہو کہ تمہارا خدا اور رسول دونوں زندہ ہيں۔تم اسلامي اخلاق اور اسلامي علوم سيکھواور ا ن پر عمل کرو اور اِس کے لئے قرآن کريم کا پڑھناضروري ہے جس ميں لکھا ہے کہ يوں کرنا چاہئے اور يوں نہيں کرنا چاہئے۔ليکن اگرہميں اس کے معني نہيں آتے يا معنے تو آتے ہيں مگر ہم اسے پڑھتے نہيں تو اِس کا فائدہ کيا؟

مصر کے ايک عالم نے ايک کتاب لکھي ہے جس ميں اُس نے قرآن کريم کے نزول کي اٹھارہ اغراض بيان کرکے اِس پر تمسخر اُڑايا ہے۔ ان ميں سے تين اغراض اس نے يہ بتائي ہيں کہ قرآن کريم اس لئے نازل ہوا ہے کہ دوسرے سے چارآنے يا آٹھ آنے لے کر اس کے حق ميں جھوٹي قسم کھائي جائے۔دوسرے قرآن کريم اس لئے نازل ہوا ہے تا ريشم کا غلاف چڑھا کر اسے طاق ميں رکھ ديا جائے۔ تيسرے قرآن کريم اس لئے نازل ہوا ہے تا ہر چيز کو صفائي سے رکھا جائے مگر قرآن کريم پر سے گرد کو نہ ہٹايا جائے۔ اسي طرح اس نے اٹھارہ اغراض گنائي ہيں۔ اس نے لکھا ہے کہ قرآن کريم کي نزول کي باقي سب اغراض ہيں صرف اس کاپڑھنا يا اس پر عمل کرنا اس کے نزول کي غرض نہيں۔ فرض کرو اگر قرآن کريم ہميں آتا نہيں يا اس کو ہم پڑھتے نہيں تو اس کا فائدہ ہي کيا ؟

ہمارے استاد حضرت خليفة المسيح الاوّلؓ فرمايا کرتے تھے کہ عورتوں سے جب ميں پوچھتا ہوں کہ کيا قرآن کريم پڑھتي ہو؟ توبہت سي عورتيں يہ جواب ديتي ہيں کہ ہم تو اَن پڑھ ہيں۔ حضرت خليفة المسيح الاوّلؓ فرمايا کرتے تھے کہ سب غلط عذر ہيں بلکہ يہ بات کہہ کروہ اپنے گناہ کوبڑھاليتي ہيں۔پڑھي ہوئي عورت کے پاس اگراس کے کسي عزيز کا خط آتا ہے تو وہ اسے ايک دفعہ پڑھ کر رکھ ديتي ہے ليکن اگر کسي اَن پڑھ عورت کے عزيز کا خط آجائے تو وہ جب تک سات دفعہ کسي سے پڑھوا کر سن نہ لے اُسے چين نہيں آتا۔ وہ ايک شخص سے خط پڑھواتي ہے تو سمجھتي ہے کہ شايديہ کوئي بات چھوڑ گيا ہو۔پھر وہ دوسرے کے پاس جاتي ہے تو اس کے متعلق بھي وہ يہي خيال کرتي ہے۔پھر تيسرے کے پاس جاتي ہے۔اِسي طرح وہ کئي افراد سے خط پڑھوا کر سنتي ہے پھر کہيں اسے صبر آتا ہے۔ آپ فرمايا کرتے تھے جب دنيا ميں ہم ديکھتے ہيں کہ پڑھي ہوئي عورت تو اپنے کسي عزيزکے خط کو ايک ہي دفعہ پڑھ کر رکھ ديتي ہے ليکن اَن پڑھ عورت سات سات آٹھ آٹھ دفعہ اسے پڑھوا کر سنتي ہے تو اسے قرآن کريم بھي زيادہ سننا چاہئے اور بار بار سننا چاہئے تا پڑھنے والے کي غفلت سے کوئي بات چھوٹ گئي ہوتو و ہ اَور کسي سے پڑھا کر سن لے۔

بہر حال قرآن کريم کا پڑھنامقدم ہے۔پھر اِس پر عمل اِس طرح ہوگاکہ ہميں دوسروں کو قرآن کريم سکھانا ہوگااور اس بارہ ميں ہميں کبھي بھي دوسرے سے دشمني کا طريق اختيار نہيں کرنا۔ اس سے آگے کئي بحثيں ہيں کہ عورتوں کو تعليم ديني چاہئے يا نہيں؟ حکومت ميں يہ کہاں تک حصہ لے سکتي ہيں؟پردہ کرناچاہئے يا نہيں ؟مسلمانوں ميں ايک فريق مذہبي ہے۔وہ کہتا ہے کہ پردہ اسلام سے ثابت ہے مگر بعض دوسرے لوگ پردہ کے مخالف ہيں وہ اسے پسند نہيں کرتے۔ ان حالات ميں ہماري عورتوں کوچاہئے کہ وہ دوسري عورتوں کو نرمي اور پيار اور محبت سے سمجھائيں۔ وہ انہيں علمي اورعملي لحاظ سے بيمار سمجھيں اور ان کے علاج کي طرف متوجہ ہوں۔ جب کسي ماں کا بچہ بيمار ہوتاہے تووہ اس پر قہقہے نہيں لگاتي بلکہ بيمار بچہ کو ديکھ کر اُس کے اندر زيادہ رحم پيداہوتاہے۔ تم تندرست بچہ اور تندرست عورت کي طرف اتنا دھيان نہيں کرتيں جتنا دھيان تم ايک بيمار بچے يا ايک بيمار عورت کي طرف کرتي ہو۔پس ہميشہ دوسروں کے غلط خيالات کي ہمدردي سے اصلاح کرني چاہئے۔ ساتھ ہي خداتعاليٰ سے دعائيں کرني چاہئيں کہ وہ ان کي اصلاح کرے اوراس غلط روش سے جس پر وہ جارہي ہيں انہيں محفوظ رکھے۔پھر اگر دوسري عورتيں يہ سمجھتي ہيں کہ پردہ اسلام سے ثابت نہيں تو انہيں بھي چاہئے کہ وہ پردہ کي حامي عورتوں کو بجائے جاہل ،بے دين اور بدتہذيب کہنے کے ہمدردي اور محبت سے اپنا نقطہ نگاہ سمجھائيں۔ اگر اسلام ميں پردہ کا حکم ہے جيسا کہ ہم سمجھتے ہيں تودوسروں کو مغربيت زدہ کہنے کي بجائے ہمدردي سے سمجھائو۔ آگے ان کي مرضي ہے کہ وہ تمہاري بات پر عمل کريں يا نہ کريں۔ ہم يورپ ميں تبليغ کرتے ہيں تو جو عورتيں احمديت ميں داخل ہوتي ہيں وہ پردہ نہيں کرتيں ليکن ہم انہيں کھلے طور پر بتا ديتے ہيں کہ اسلام عورت کو پردہ کا حکم ديتا ہے ہماري بہن رقيہ مارگرٹ آجکل يہاں آئي ہوئي ہيں۔ ربوہ ميں جب وہ آئيں تو جمعہ کے لئے ميري بيويوں کے ساتھ باہر نکليں دوسري سب عورتوں کو پردہ کئے ہوئے ديکھ کر وہ بھي متأثر ہوئيں اورکہنے لگيں کہ مجھے بھي کوئي کپڑ ادے دو کہ ميں پردہ کرلوں۔ غرض اسلام بيشک پردہ کا حکم ديتاہے ليکن دوسري عورتوں کي اصلاح اِسي طرح ہوسکتي ہے کہ نرمي اور پيا رکے ساتھ اُنہيں اِس طرف توجہ دلائي جائے اوربُرا بھلا نہ کہا جائے۔

ميں نے ايک دفعہ لندن کے مبلغ سے کہا کہ وہ انگريز عورتيں جواسلام ميں داخل ہوں تم اُن سے کہا کرو کہ بے شک ملکي حالات کي وجہ سے تم اِس وقت پردہ نہيں کرسکتيں ليکن يہ خيال رکھوکہ پردہ اسلامي حکم ہے اور تم بھي پردہ کي ويسي ہي پابند ہو جيسي دوسري عورتيں تاکہ انہيں اِس بات کا احساس ہوجائے اور جب بھي انہيں توفيق ملے وہ اِس پر عمل پيرا ہو جائيں۔ چنانچہ ان کي طرف سے اب تازہ رپورٹ يہ ملي ہے کہ اِس دفعہ عيد پر عورتوں نے الگ جگہ پر نماز پڑھي ہے پہلے وہ عليحدہ نماز پڑھنا گوارہ نہيں کرتي تھيں ليکن اِس دفعہ اِس حدتک تيار ہوگئي ہيں انہوں نے الگ نماز پڑھنا برداشت کرليا ہے۔ اِس طرزپر قرآن کريم کو سيکھو اورجس طرح تم نے قرآن کريم سيکھا ہے اس پر اگر کسي کو اعتراض ہے تو پيار اور اخلاص کے ساتھ ان کے پاس جائو اور ان کي اصلاح کي کوشش کرو اور پھر ان کو موقع بھي دوکہ وہ اپنے خيالات کاتم پر انحصار کريں۔ تم ايک ملک کي رہنے والي ہو،تم ايک نبي ايک قرآن کي طرف منسوب ہونے والي ،آخر دشمني کيسي؟ اگر کوئي تعليم يافتہ ہے تووہ غيرتعليم يافتہ کوجاکر سمجھائے اور اگر غير تعليم يافتہ حق پر ہيں تو وہ تعليم يافتہ طبقہ کو سمجھائيں۔ اگرتم اِس طرح عمل کرو تو تعليم يافتہ اور غير تعليم يافتہ اور ملکي اور غير ملکي کے درميان جو اِس وقت دُوري ہے وہ دُور ہوجائے گي اورپھر اکٹھے بيٹھنے سے ذہن ميں فکري اتحاد بھي پيداہوتاہے اور دلوں ميں صفائي پيداہوجاتي ہے۔(الفضل ربوہ۲۱،۱۴؍نومبر۱۹۶۲ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button