متفرق مضامین

شاہِ حبشہ سے شاہِ برطانیہ تک(قسط اوّل)

(آصف محمود باسط)

جس طرح حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے معزز اصحابؓ سیاسی، نظریاتی اور مذہبی اختلافات کو پسِ پشت ڈال کرشاہ حبشہ نجاشی کے شکر گزار رہے، ہم بحیثیت احمدی مسلمان آپﷺ کی مثال کی پیروی میں برطانوی بادشاہت کے لیے احسان مندی کے مخلص جذبات کے ساتھ شکرگزار ہیں

برطانیہ کے شاہی خاندان کا تذکرہ ہمیشہ سے ہی ذرائع ابلاغ کی زینت رہا ہے لیکن حال ہی میں ہونے والی ملکہ برطانیہ ایلزبتھ دوم (Queen Elizabeth II) کی وفات کے موقع پر اس خانوادے کے بارہ میں جس قدرکہا اور سنا جارہا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔اسی طرح ٹی وی کی سکرین ہو،ریڈیو کے مذاکرے ہوں یا سوشل میڈیا پر بحثیں، قریبا ًہر جگہ ہی اس شاہی خانوادے کی بابت ہونے والی گفتگواور مذاکروں میں شرکا ءمختلف آ راء کا اظہار کرتے پائے جاتے ہیں ؛ کچھ تجزیہ کار تو شاہی خاندان کے متعلق ’’صرف اچھا دیکھو، اچھا سنو،اچھا بولو ‘‘ کی تاکید پر ہی عمل پیرا نظر آتے ہیں جبکہ اس کے بالمقابل بعض آوازیں ایسی بھی ہیں جو اس چمن کے محض خوش رنگ پھولوں کے تذکرہ پر ہی اکتفانہیں کرتیں بلکہ چاہتی ہیں کہ اس سے وابستہ کچھ کانٹوں کا بھی ذکر چلے۔

میری اس تحریر کا محرک ’’بی بی سی ‘‘ پر نشر ہونے والی ایک گفتگو ہے جہاں بحث تھی کہ شاہ انگلستان چارلس (تلفظ: چارلز) سوم(King Charles III) کا عہد کس نام سے موسوم ہو گا؟ کیایہ (Carolean era) دورِ کیرولین کہلائے گا یا معاصرین و مؤرخین اس عہد حکومت کو (era of the House of Windsor)ونڈسر ( تلفظ : وِنزَر) گھرانے کا ہی شاہی دور سمجھا جائے گا۔ بظاہر دیکھا جائے تو دونوں صورتیں ہی بیک وقت ممکن ہیں، کیونکہ شاہ چارلس سوم ، ونڈسرمحل کے مکینوں کے چشم و چراغ ہیں جس کی روایات کو جاری رکھنے کا بادشاہ خود کئی مرتبہ اعادہ کر چکا ہے۔ اس موضوع پر مزید بات کرنے سے قبل ونڈسر محل کا کچھ تعارف۔

ونڈسرمحل کا شاہی گھرانہ

ملکہ وکٹوریہ کی وفات پر (the House of Hanover) ہینووَر گھرانے کے طویل دور شاہی کا اختتام ہوا، کیونکہ اس ملکہ کے بعد تخت شاہی کا وارث بننے والا اس کا بیٹاشہزادہ ایلبرٹ (Prince Albert of Saxe-Coburg & Gotha) کی اولاد تھا۔ یوں شاہِ انگلستان(Edward VII) ایڈورڈ ہفتم کا دور اسی خاندان سے موسوم ہے۔1910ء میں ایڈورڈ ہفتم کی وفات کے بعد اس کا بیٹا تخت نشین ہوا تو اس کو شاہی خطاب کے طور پر شاہ جارج پنجم (King George V)کا نام دیا گیا۔ یوں ہر خاص و عام کی نگاہ میں یہ نیا قلمرو بھی پہلے بادشاہ کے دور کا ہی تسلسل بنا۔ تاہم شاہ انگلستان جارج پنجم کا دور حکومت براعظم یورپ کے سیاسی افق پر ہونے والی ہنگامہ خیزیوں کے باعث بطور خاص متاثر ہوا۔ ایک طرف شاہ جرمنی قیصر ولہیلم ثانی (Kaiser Wilhelm II) اپنی ہی رعایا کے غیر معمولی احتجاج کے سامنے نہ ٹھہر سکا تو دوسری طرف شہنشاہ روس زار نکولس دوم (Tsar Nicholas II)کو بھی اس کی اپنی رعایانے تخت شاہی سے اٹھا کر حالت زار تک پہنچاڈالا تھا۔ یاد رہے کہ یہ دونوں صاحبِ ثروت بادشاہ شاہان یورپ میں ایک خاص مقام رکھتے تھے اور دونوں بادشاہ ملکہ وکٹوریہ کی اسی طرح اولاد میں سے تھے جس طرح شاہِ انگلستان جارج پنجم تھا۔

شاہ جارج پنجم نے اپنے دونوں قریبی عزیزوں کے عبرت ناک انجام کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کیا کہ وہ جرمن خون او ر نسب سے نہ صرف خود کو الگ کرلے بلکہ برطانوی شاہی خاندان کا بھی نیا قبلہ بنادے۔ شاہِ برطانیہ کے لیے ان نئے اور اہم فیصلوں میں چنداں تاخیر نہ کرنے کا دوسرا بڑا سبب وہ مخالف و تندعوامی جذبات تھے جوجنگ عظیم اول کے تناظرمیں سلطنت برطانیہ کے اندر بڑی تیزی سے پنپ رہے تھے۔

یوں شاہ انگلستان جارج پنجم نے 1917ء کے موسم گرما میں درج ذیل شاہی فرمان جاری کیا:’’جبکہ ہم نے، اپنے شاہی گھرانے اور خاندان کے نام اور خطابات کی بابت، یہ طے کیا ہے کہ اب سے ہمارے گھرانے اور خاندان کو ونڈسر کے گھر اور خاندان کے نام سے جانا جائے گا:اور جب کہ ہم نے آئندہ اپنے لیے اور اپنی اولادوں کے لیے اور اپنی معزز دادی ملکہ وکٹوریہ کی دیگر تمام اولادوں کے لیے تمام جرمن خطابات اور مراتب و اعزازات کے استعمال کو ترک کرنے اور استعمال نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس لیے، اب، ہم، اپنی شاہی مرضی اور اختیار سے، یہ اعلان عام کرتے ہیں کہ اس شاہی اعلان کی تاریخ سے ہمارے گھرانے اور خاندان کو ونڈسر کے گھرانے اور خاندان کے نام سے جانا جائے گا، اور یہ کہ ہماری مذکورہ بالا دادی ملکہ وکٹوریہ کی نرینہ اولادیں جو اس شجرہ سے منسوب اور تابع ہیں،نیز ان خواتین کی اولاد وں کے علاوہ جو شادی کریں گی یا شادی کر چکی ہیں، ونڈسر کے نام سے موسوم کریں گے۔اور اس شاہی اعلان کے ذریعے مزید فیصلہ صادر کرتے ہیں کہ ہم اپنے لیے اور اپنی اولاد کی طرف سے اور اپنی مذکورہ بالا دادی ملکہ وکٹوریہ کی دیگر تمام اولادوں کی طرف سے جو اس شجرہ سے منسلک اور اس کے تابع ہیں وہ سب لوگ دیگر تمام سابقہ جرمن خطابات و اعزازات وغیرہ سے مکمل طور پر دستبردار ہو تے ہیں اور ان القابات کا استعمال ترک کرتے ہیں۔‘‘

(The London Gazette, 17 July 1917, Number 30186.)

آج سلطنتِ برطانیہ کے تخت شاہی پر شاہ چارلس سوم موجود ہیں جو ونڈسر گھرانے کے فرزند اورردائے شاہی سپرد ہونے پر اس کے امین ہیں۔ بادشاہ کے سپرد اس امانت پر آگے چل کر بات ہوگی، یہاں اس سوال کا جواب ضروری ہے جو آج کل کچھ زیادہ تیزو تند لہجے اور انداز میں اٹھایا جارہاہے۔

جماعت احمدیہ کی تاجِ برطانیہ سے وفا شعاری

ملکہ ایلزبتھ دوم کی وفات کے موقع پر دنیا بھر کے میڈیاچینلز نے اور بطور خاص برطانوی میڈیا جہاں اس کے لیے تعظیمی کلمات نشر کیے وہاں مخصوص حلقوں میں ملکہ برطانیہ کے استعماریت (colonialism) سے ناطوں اور سفید فام برتری(White supremacy) کے حوالے سے بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ یوں اس پس منظر میں جماعت احمدیہ کی تاجِ برطانیہ سے وفاداری کی تاریخ پر بھی باتیں ہورہی ہیں جس حوالے سے اصل حقیقت سامنے لانا ضروری ہے۔ جماعت احمدیہ کی تاج برطانیہ سے وفاداری کے سلسلوں کاآغاز بانی جماعت احمدیہ مسلمہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی تحریرات سے ہی شروع ہوتا ہے، جن کی ولادت برطانوی راج کے عہد میں ہوئی اور آپ کی ساری زندگی تاج برطانیہ کے زیرِحکومت ملک ہند وستان میں ایک شہری کےطور پر بسر ہوئی۔

دیکھا جائے تو مذکورہ بالا حقیقت ہی آپؑ کی وفاداری کے سبب کے طور پر کافی ہے، اور یہی امر آپؑ کی اس واضح تعلیم کی اساس ٹھہرتا ہے کہ ہندوستان میں حکومت وقت یعنی تاج برطانیہ کی اطاعت سب رعایا پر فرض ہے۔ کیونکہ یہی درست اسلامی تعلیم ہے کہ ہر شہری پر حکومت وقت کی اطاعت و وفاداری لازم ہے۔

یاد رہے کہ آپ نے بارہا یہ نکتہ اپنی تحریر و تقریر میں بیان فرمایا ہے کہ اہلِ ہندوستان پر برطانوی راج کی وفاداری اس وجہ سے لازم ہے کہ اس حکومت نے اپنے تمام شہریوں کو یکساں مذہبی آزادی مہیاکی ہےاور یہی وہ بنیادی حق ہے جس کی حفاظت کرنے میں سابق مقامی حکمران یکسر ناکام رہے تھے۔ برصغیر کے طول و عرض میں جہاں عیسائیوں کو مذہبی آزادی میسر تھی وہاں دیگر تمام مذاہب اور اقوام کے ماننےوالوں کی طرح مسلمان بھی اپنی عبادات اور اپنے ایمان و عقائد کی تبلیغ میں مکمل آزاد تھے۔

یاد رہے کہ یہ صرف حضرت مرزا صاحب کی ہی ذاتی روش اور آواز نہیں تھی جوبرصغیر کے مسلمانوں کو حکومت وقت کی وفاداری کی طرف بلارہی تھی بلکہ وسیع و عریض ملک ہندوستان میں جگہ جگہ مسلمان علماء اور مسلم انجمنوں کی ایک بھاری تعداد بھی عوام کی مذہبی آزادی کو یقینی بنانے پر حکومت وقت کی وفاداری کا اقرار اور اعلان کررہی تھیں۔برطانیہ اور برطانوی ہندوستان کے تاریخی ریکارڈ میں ہندوستان بھر سے فلاں انجمنِ اسلام اور فلاں مسلم جماعت کی طرف سے قیصرہ ہند ملکہ وکٹوریہ کی جانب بھیجے گئے وفاداری کے اقرار پر مبنی مراسلے اور ان کے جوابات آج بھی محفوظ ہیں۔

پس جب مذکورہ بالا سوال کا جماعت احمدیہ کی طرف سےتسلی بخش جواب دے دیا جاتا ہے تو اگلا سوال یہ ہوا کرتا ہے کہ جماعت احمدیہ کو کیوں وہ مظالم پیشِ نظر نہیں رہتے جوبرطانوی حکام نے نوآبادیات کےدور میں اپنی مفتوح اقوام پر ڈھائے تھے۔

اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں براعظم یورپ کی تاریخ کے اس دور پر نظر ڈالنا ضروری ہے جب سامراجیت نے اپنی طاقت اور قبضہ کو وسعت دینا شروع کی اور نوآبادیات کی مہمات نے مشرق و مغرب کا رخ کیا۔

یاد رہے کہ طاقت وَر بادشاہتوں کی طرف سے کمزور اقوام اورناتوان حکومتوں پر قبضہ کرکے ان کو اپنا دست نگر بنانے کی روش صدیوں پرانی ہے نہ کہ براعظم یورپ کی ایجاد۔کیونکہ مستحکم بادشاہوں اور عسکری طور پر مضبوط سلطنتوں کی طرف سے زیادہ سے زیادہ خِطوں اور قوموں کو زیرِ نگیں کرلینے کی ہوس کسی ایک زمانے او رخطے تک محدود نہیں ہے۔ حتیٰ کہ سلطنت اسلامی پر بھی اس کے عروج کے زمانے میں ہونے والی توسیع پر آج تک سوال اٹھائے جارہے ہیں۔

سلطنتِ عثمانیہ جو بانی اسلام حضرت محمدﷺ کی جانشینی کا بلند و بانگ دعویٰ بھی رکھتی تھی، اس کا دامن بھی زیادہ سے زیادہ خطوں کو زیرِ نگیں کرنے سے پاک نہیں ہے اور ان سلاطین کی طرف سے اپنی سلطنت کی سرحدوں کو دور دراز تک پھیلانے اور ہوس اقتدار میں ہر جائز و ناجائز طریق اور نہایت بےشرمی سے ہر ظلم وستم کو بھی روا سمجھا گیا۔

قابلِ غور بات ہے کہ جب ہندوستان میں قریہ قریہ تحریکِ خلافت کے نام پر برصغیر کے مسلمانوں سے مالی اور حالی خدمات طلب کی جارہی تھیں تب تک اس تحریک کے عمائدین کی یادداشتوں سے سلطنتِ عثمانیہ (یا نام نہاد خلافتِ اسلامیہ) کی طرف سے آرمینیا کے غیر مسلم باشندوں کے قتل عام جیسی وارداتیں محو تو نہ تھیں۔

کیونکہ تب مسلمانان ہند کی طرف سے سلطنت عثمانیہ کی مدد مذہبی جذبے کے ماتحت کی جارہی تھی اور برصغیر کی مسلم عوام عثمانی بادشاہ کے سیاسی عزائم اور جغرافیائی توسیع پسندی سے صرف نظر کررہی تھی۔ تب مسلمانانِ ہند کی نظر میں ترکی ؛جو عثمانی سلطنت کا مرکز تھا، ایک ایسا خطہ تھا جہاں مسلمان رعایا ایک مسلمان بادشاہ کے ماتحت امن و سکون سے زندگی گزار سکتے تھے۔ تحریکِ خلافت کی اسی علت غائی کو مرکزی خیال مان کر مسلمانان ہند نے عثمانی ملوکیت کی طرف سے اپنی سلطنت کو وسیع کرنے کی فوجی مہمات اور عسکری کارروائیوں سے صرفِ نظر کیا اور سلطنتِ عثمانیہ اور عثمانی بادشاہ کو بچانے کے لیے میدان میں اتر آئے۔

مسلمان ایک عیسائی بادشاہ کی سلطنت میں

یہ تو دور جدید کی ایک مثال ہوئی۔ اب کچھ تاریخ کا سفر کرتے ہیں۔یہ بات ہے ابتدائی دور اسلام کی جب بانی اسلام حضرت محمدﷺ کو اعلانِ نبوت کیے ابھی پانچ ہی بر س گزرے تھے اور اہل مکہ کی دشمنی اور سفاکیوں سے مسلمانوں کی زندگیاں اجیرن ہوچکی تھیں۔ آپﷺ نے اپنے متبعین کو دینِ اسلام کے مطابق آزادانہ عبادت کرنے اوربلاخوف و خطر زندگیاں گزارنےکے لیے سلطنت اکسوم (معروف بہ حبشہ)کے دارالحکومت کی طرف ہجرت کا حکم دیا۔ یوں مسلمانوں کا ایک گروہ اپنا گھر بار چھوڑ کر حبشہ میں زندگیاں گزارنے چلا گیا۔ یاد رہے کہ یہ سلطنت اکسوم ان چار بڑی بڑی بادشاہتوں میں سے ایک تھی جو زمانہ قبل از اسلام اور ظہورِ اسلام کے ابتدائی زمانے میں جزیرہ نما عرب کے اردگرد قائم اور آباد تھیں۔

مسلم مؤرخین، خواہ ان کاتعلق ابتدائی دور سے ہو یا زمانہ حال سے، اس بات پر متفق ہیں کہ ’’یہ عین اسلامی تعلیم ہےکہ جس ملک میں ناانصافی کا راج ہوجائے، اور ظلم وزیادتی ہی مملکت کا آئین بن جائے، اس جگہ کو چھوڑ دینا اور کسی ایسے ملک کی طرف ہجرت کرجانا جہاں مسلمان اکٹھے اپنی قوت کو مجتمع کرسکیں تا اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کا انصرام کرسکیں۔ تاریخ اسلام میں اصلاحی اور تجدیدی تحریکوں کا ہر دور میں یہی طرز عمل رہا ہے ‘‘ ۔

(Mohamed El Fasi and I. Hrbek, The coming of Islam and the expansion of the Muslim Empire, in General History of Africa III: Africa from the Seventh to the Eleventh Century, Heinemann Educational Books, London, 1988)

یہی اسلامی تعلیم ابن اسحاق اور ابن ہشام جیسے ابتدائی مؤرخین نے بھی اپنی کتب میں درج کی ہے اور علمائے متقدمین میں سے علامہ طبری، ابن کثیراور ابن خلدون نے بھی اپنی تصنیفا ت میں اسی تعلیم کا اعادہ کیا ہےاور ہجرت کا اسلامی فلسفہ بیان کرتے ہوئے مسلم علماء میں سے ابن الجوزی، جلال الدین سیوطی اور محمد بن عبدالباقی البخاری المکی وغیرہ نے بھی یہی بیان کیا ہے۔ ماہرین علومِ اسلامیہ کی طرف سے ہجرت کے موضوع،اس کی شرائط، اس کے اجروثواب اور دیگر متعلقہ سوالات پر سینکڑوں نہیں تو ہزاروں کتب لکھی جاچکی ہیں، وہ سب مذکورہ بالا بیان کی ہی تائید کرتی نظر آتی ہیں۔

یوں محقق حسین احمد نے بالکل برحق لکھا ہے کہ ’’ہجرت حبشہ اپنی ذات میں 622عیسوی میں ہونے والی ہجرت مدینہ کے ہی ہم پلہ اور اسی کی طرح نتیجہ خیز رہی‘‘

(Hussein Ahmed, Aksum in Muslim Historical Traditions, in Journal of Ethiopian Studies, December 1996, Institute of Ethiopian Studies)

یہاں قابل غور امر یہ ہے کہ مذکورہ بالا تمام مسلم علماء اور محققین نے ہجرت حبشہ کے ضمن میں کہیں اشارةً بھی ذکر نہیں کیا کہ ملک حبشہ میں تو ایک عیسائی بادشاہ حکمران تھا جس کے پاس پناہ کی تلاش میں مسلمان جا پہنچے تھے۔ اور کیونکر صحابہ جیسے عالی قدر ایمان والے مسلمانوں نے ایک عیسائی سلطنت کی طرف ہجرت کی اور ایک عیسائی بادشاہ کے پاس پناہ گزین ہوئے۔ یقیناً مسلم علماء کی یہ خاموشی ہی جواب ہے کیونکہ ہر دور کے ذی علم طبقہ کی نگاہ میں مسلمانوں کا یہ فعل سراسر جائز تھا۔

(Muhammad Husein Haykal, The Life of Muhammad, translation by Ismail Raji al-Faruqi, Islamic Book Trust, Kuala Lumpur, 2002)

ابتدائے اسلام میں اس نئے دین کو قبول کرنے والے ان مسلمانوں کے ایک عیسائی بادشاہ کے پاس پناہ گزین ہوجانے پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے، کہ ان سب نے بانی اسلام حضرت محمدﷺ کے ہی ایما اور حکم پر ایک عیسائی سلطنت کا رخ کیا تھا۔ نہ صرف یہ کہ کوئی ہجرت حبشہ پر اعتراض نہیں کرتا ہے بلکہ اس عیسائی بادشاہ کے بیدار مغزاورانصاف پسند ہونے، اس کے اپنی سلطنت میں قائم کردہ عدل وانصاف کے اعلیٰ معیار اور دیگر خوبیوں پرہر دور کے سب مسلمان عوام و خواص رطب اللسان رہے ہیں۔ اور اس کی ایک سادہ سی وجہ، جس سے کسی مسلمان کو اختلا ف نہیں ہوسکتا، یہ ہے کہ اس عیسائی بادشاہ نے ایک مظلوم جماعت کو نہ صرف اپنی پناہ میں لے لیاتھا بلکہ انہیں اپنے عقیدے پر عمل کرنے اور سلطنت کی مقامی رعایا کے مساوی حقوق بھی دیے تھے۔ شاہِ حبشہ نجاشی کے کارِ خیر کے گن گانے والوں میں سے کسی کو اس بات سے سروکار نہیں کہ اکسوم کی بادشاہت کیسے وجود میں آئی، براعظم افریقہ کے ایک خاص کنارے پر واقع سلطنت کی بنیادوں میں کتنا خون بہایا گیا تھا اورکتنی ہی فوجی مہمات نے روایتی جبر و استبداد کا مظاہرہ کیا تھا، جس کے بعد اس عیسائی سلطنت کو استحکام نصیب ہوا۔

مسلمانوں کی ہجرت سے صدیوں پہلے کس طرح اکسوم کے سابقہ بادشاہوں نےدورحاضر کے ملک سوڈان کی سرحد کے قریب واقع ’’ساسو‘‘ نامی علاقہ سے سونا حاصل کرنے کے لیے فوجی مہمات بھیجی تھیں،یہ بھی نجاشی کی مسلمانوں کے لیے دکھائی گئی رحم دلی کے آگے ہیچ ہے۔

(The Christian Topography, by a sixth-Century Christian monk Cosmas Indecopleustes, translation by JW McCrindle, Hakluyt Society, London, 1897; quoted by David W Phillipson, Foundations of an African Civilisation, James Currey, Suffolk, 2012)

کسی کوکچھ سروکار نہیں ہے کہ وہ تاریخ کو کھوج کر دیکھے کہ کس طرح اکسوم کے بادشاہ کلیب نے جو نجاشی اصحمہ بن ابجرکے پیش رو بادشاہوں میں سےتھا، عسکری طاقت کی بنا پر جنوبی عرب (موجودہ ملک یمن کا علاقہ) کی حمیرائی سلطنت پر فتح حاصل کی۔ اورنہ ہی کوئی ان تفصیلات کو اہم سمجھتا ہے کہ اس حملہ آور بادشاہ نے اس نئی سرزمین کو فتح کرکے حمیری بادشاہ کو زیر نگین کیا اور اس مفتوحہ ملک میں اپنے اکسومی وائسرائے کو انصرام سپردکیا تھا۔

(Procopius, History of the wars II, translation by HB Dewing, Harvard University Press, 1916)

اکسوم پر فوجی قبضے کے خلاف اہلِ حمیر کی بغاوت پر بازنطینی شہنشاہ جسٹن کاطرز عمل بھی سب کو بھول جاتا ہے، جس نے نہ صرف کلیب کوحمیریوں کی بغاوت کی سرکوبی کرنے کی ترغیب دی تھی بلکہ اس کی ہر طرح سے حمایت کرنے کا وعدہ بھی کیاتھا اور اس وعدہ کو عسکری قوتیں مہیا کر کے پورا بھی کیا تھا۔ اسی طرح اہل فارس کے خلاف کلیب کی دیگر فوجی مہمات کبھی موضوع بحث نہیں بنتیں جن میں کشور کشائی کے لیے بےحساب خون بہایاگیا تھا۔ (ایضاً) یہ بات عام بیان نہیں ہوتی، مگر یہاں سیرت ابن ہشام کے حوالے سے تحریر کی جاتی ہے کہ صحابی رسولؐ حضرت زبیر بن العوام ؓ نے نجاشی کی فوج کے ساتھ ایک مقامی بغاوت کو فرو کرنے میں بھی حصہ لیا تھا۔

سیرت ابن ہشام میں روایت ہے کہ ’’ایکاایکی ایک مقامی حبشی شاہ حبشہ نجاشی کی مخالفت پر اتر آیا اور اس کی حکومت سے کشمکش کرنے لگا۔ اللہ کی قسم! میں نے اپنے لوگوں یعنی صحابہ کو اس وقت سے زیادہ رنجیدہ کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس ڈر سے کہ کہیں اس شخص نے نجاشی پر غلبہ پالیا تو ایسا شخص آئے گا جو ہمارے وہ حقوق نہ سمجھے گا جو نجاشی سمجھتا تھا۔ پھر نجاشی اس کے مقابلہ کے لیے چلا اوران دونوں کے درمیان دریائے نیل کاعرض تھا۔ رسول اللہﷺ کے اصحاب نے کہا کہ کون ایسا ہے جو باہر نکلے…زبیر بن العوام نے کہا کہ میں اس کام کو سرانجام دوںگا۔ ان لوگوں نے کہا کہ تم یہ کام کروگے۔ حالانکہ وہ سب سے زیادہ کمسن تھے۔ سب نے ان کے لیے ایک مشک میں ہوا بھردی۔ حضرت زبیرؓ نے اس مشک کو اپنے سینے کے نیچے رکھا اور تیرتے چلے گئے یہاں تک کہ نیل کے کنارے میدان کارزار تک پہنچ گئے…روایت کرنے والی بتاتی ہیں کہ ہم لوگ اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگ رہے تھے کہ نجاشی اپنے دشمن پر غلبہ پائے اور اپنے ممالک میں اس کو پوری قدرت حاصل رہے… اللہ کی قسم، ہم اسی حالت میں تھے کہ ایکا ایکی حضرت زبیر نکلے اور وہ دوڑتے چلے آرہے تھے اور اپنی چادر سے اشارہ کررہے تھے کہ خوش ہوجاؤ کہ نجاشی نے فتح پائی اور اللہ تعالیٰ نے اس کے دشمن کو برباد کیا اور نجاشی کو اپنے ملکوں میں اقتدار حاصل ہوگیا ہے۔

حضرت ام سلمہؓ روایت کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ اللہ کی قسم! میں نے اپنے لوگوں کی اس وقت کی سی خوشی بھی کبھی نہیں دیکھی۔ اس کے بعد نجاشی ایسی حالت میں واپس ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے دشمن کو برباد کرڈالا تھا اوراس کو اس کے ملکوں میں پورا اقتدار حاصل ہوگیا اور حکومت حبشہ اس کے لیے مستحکم ہوگئی اور ہم اس کے پاس بڑی عزت سے رہے۔‘‘ (سیرت ابن ہشام، حصہ اول، اردو ترجمہ، صفحہ 344، باب: فرح المھاجرین بنصرة النجاشی علی عدوہ)یوں مسلمان پناہ گزینوں نے شاہ حبشہ نجاشی کے نیک عمل کا بدلہ دیا اور اکسوم کی عیسائی سلطنت سے اپنی وفاداری اور اطاعت کا اظہار کیا۔ اس سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کوئی شخص بیک وقت کسی غیر مسلم حکمران کے ساتھ سیاسی وابستگی بھی رکھ سکتا ہے،اور کسی نبی یا خلیفہ کے ساتھ اپنی روحانی بیعت بھی کماحقہ نبھا سکتا ہے۔

یوں حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمدمصلح موعودؓکے اس موقف کی بھی تائید ہوتی ہے جب تحریکِ خلافت کے دنوں میں آپؓ نے سمجھایا تھا کہ جماعت احمدیہ کے افراد آپ سے خلیفہ کے طور پر بیعت کرتے ہیں، اور ہندوستان پر حکمران بادشاہ جارج پنجم کو زمینی حاکم کے طور پرمانتے ہیں اور اس لحاظ سے اس کے وفادار ہیں۔ حکومت وقت سے اطاعت اور وفاداری کا تعلق رکھنا ایک سراسر اسلامی فعل ہے اور اس کاہرگز یہ مطلب نہیں کہ کسی نے اپنے ایمان پرہی سمجھوتہ کرلیا ہے۔ اور نہ ہی حکومت وقت سے وفاداری کا یہ مطلب ہے کہ ایسا شخص بادشاہ کے حکم پر ہونے والی ملک کی تمام سیاسی سرگرمیوں کا حصہ ہے۔ (ترک موالات اور احکام اسلام۔انوارالعلوم جلد5)

واپس حبشہ چلتے ہیں اور ملتا ہے کہ جزیرہ نما عرب کی جنوبی پٹی پر حمیر کے تخت پر ابرہہ کو شاہ اکسوم کی طرف سے وائسرائے مقرر کیا گیا تھا۔ جی ہاں ! وہی ابرہہ جس نے ہاتھیوں پر سوار ایک بھاری نفری کے ساتھ حمیر میں اپنے مرکز سے کعبۃاللہ کی عمارت کو ڈھانے اور صنعاکے علاقہ میں قائم اپنے کلیسا کی بالادستی قائم کرنے کے ارادے سے مکہ مکرمہ کی طرف پیش قدمی کی تھی۔

(AJ Drewes, Inscriptions de l-Ethiopie Antique, Leiden, Brill, 1962, and quoted by DW Phillipson)

پس آج مسلمانوں کے لیے صرف ایک ہی بات اہمیت رکھتی ہے اورصرف یہی اہمیت دینے کے قابل بھی ہے، یعنی شاہِ حبشہ نجاشی کے زیر سایہ ابتدائے اسلام کے کمزور اور بےسہارا مسلمانوں کی پناہ گزینی۔ اور اس وقت صحابہ رسولؐ نے عیسائی بادشاہ نجاشی کے ساتھ اپنی وفاداری اور اطاعت کے عہد کو نہ صرف زبانی بلکہ یکساں طورپر عملی رنگ میں خوب نبھایا، یہ ایک ایسی لازوال مثال ہے کہ آج تک غیر مسلم حکمرانوں کے ما تحت رہنے والے مسلمانوں کے لیے ایک نمونہ ہے،تاوقتیکہ یہ غیر مسلم حکومتیں آزادیٔ مذہب کے حق کو پامال نہ کرتی ہوں۔

ابرہہ کی خانہ کعبہ پر حملہ کرنے کی مذموم کوشش کے بارے میں اس نوٹ کو ختم کرنے سے قبل مختصراً یہ ذکر کرنا مناسب ہوگا کہ اکسوم کے بادشاہ کلیب نے ابرہہ کی عرب کی دو مہمات پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا، جن میں سے ایک وہ ہے جو قرآن کریم کی سورۃ الفیل میں مذکور ہے۔ اکسوم میں تخت نشین شاہِ حبشہ نے ان ناواجب مظالم کی مذمت کرتے ہوئے ابرہہ سے سیاسی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کردیا تھاجبکہ ابرہہ خود کوحمیر کی سلطنت کے بادشاہ کے طور پر مسلط کرچکا تھا۔ یوں شاہ حبشہ نے خود کو اپنے نام پر ہونے والی بربریت سے لاتعلق کر لیا تھا۔

یہاں اس دلچسپ اور اہم امر کا اظہار بھی ضروری ہے کہ بادشاہتیں تاریخ کے کسی موڑ پر ایک خطِ تقسیم کھینچ کر نئے سرے سےمعاملات کا آغازکیا کرتی ہیں۔ جرمن خطابات ترک کرکے برطانوی بادشاہت نے خود کو ونڈسر گھرانے کے طور پر متعارف کرنے کا جو شاہی فرمان جاری کیا تھا، اس کو ماضی و حال کے تناظر میں خوب سمجھا جاسکتا ہے۔

پس جس طرح حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے معزز اصحابؓ سیاسی، نظریاتی اور مذہبی اختلافات کو پسِ پشت ڈال کرشاہ حبشہ نجاشی کے شکر گزار رہے، ہم بحیثیت احمدی مسلمان آپﷺ کی مثال کی پیروی میں برطانوی بادشاہت کے لیے احسان مندی کے مخلص جذبات کے ساتھ شکرگزار ہیں۔ تاج برطانیہ نے جماعت احمدیہ مسلمہ کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب کے مظلوم و لاچار فرقوں کے لیے بھی وہی رحم اور شفقت کا دامن وسیع کیا ہوا ہے۔ حال ہی میں لندن کی ریجنٹ پارک مسجد میں مسلمان بچوں کا ’’God save our glorious king‘‘ ترانہ پڑھنا بتاتا ہے کہ اب برطانیہ میں مقیم مسلمانوں کے بعض دیگر حلقے بھی اس حقیقت کے قائل ہوتے جاتے ہیں۔

(جاری ہے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button