حج و عمرہ

حج اور مقامات حج کا تعارف(قسط چہارم۔آخری)

(ظہیر احمد طاہر ابن نذیر احمد خادم۔جرمنی)

حقیقت یہ ہے کہ کعبہ وحدت کی نشانی اور حیات نو کی علامت ہے جبکہ حج کی ہر حرکت وسکون میں ایک پیغام مضمر ہے جو اللہ تعالیٰ کے قریب کرنے والا اور اُس کی رضا کی طرف لے جانے والا ہے۔ خوش قسمت ہے وہ انسان جو اس پیغام اور اس کی حقیقت کو جان کر اُسے عمل کے سانچے میں ڈھالنا شروع کردے

[قسط سوم کے لیے ملاحظہ کریں الفضل انٹرنیشنل 8؍جولائی 2022ء]

سعی صفا ومروہ

خانہ کعبہ کا طواف کرنے کےبعدصفا اور مروہ کے درمیان سات چکر لگانے کو سعی کہتے ہیں۔پہلے صفا کے پاس آنا چاہیے اور بیت اللہ کی طرف منہ کرکے اور ہاتھ اٹھا کر اپنے ربّ کے حضور دعا مانگے۔درودشریف پڑھے،تلبیہ اور تکبیر کہے پھر یہاں سے مروہ پر جائے اور مروہ پر بھی اسی طرح دعائیں مانگنی چاہئیں۔ یوں ایک چکر مکمل ہوجائے گا۔ اس کے بعد صفا کی طرف جانے سے دوسرا چکر مکمل ہوجائے گا۔ یوں سات چکر مکمل کیے جائیں۔حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہﷺ حج اور عمرے میں پہلے آتے ہی طواف کرتے تو آپ تین چکر بیت اللہ کے گرد دوڑتے اور چار چکر عام رفتار سے چلتے پھر دو رکعت نماز ادا فرماتے۔ پھر آپؐ صفا اور مروہ کے درمیان طواف فرماتے۔(یعنی سعی کرتے )(صحیح مسلم کتاب الحج باب اسۡتِحۡبَابُ الرَّمَلِ فِی الطَّوَافِ وَالۡعُمۡرَۃِ…)صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنے کے بعد انسان فارغ ہوجاتاہے۔ آٹھویں ذوالحجہ کو مِنٰی میں جائے گا۔

یہ بھی پڑھیے:

حج اور مقاماتِ حج کا تعارف(قسط اوّل)

حج اور مقامات حج کا تعارف(قسط دوم)

حج اور مقامات حج کا تعارف(قسط سوم)

مَسۡعیٰ:(سعی کی جگہ )

مسعیٰاُس جگہ کو کہا جاتا ہے جو اوپر مذکور پہاڑیوں صفا اور مروہ کے درمیان کی جگہ ہے۔ اس جگہ کا طول (لمبائی)395میٹراوراس کاعرض(چوڑائی)40میٹر ہے۔(مکہ مکرمہ ماضی وحال کے آئینہ میں صفحہ 70تا71 سن اشاعت 2010ء سعودی عرب)

سعی کے لیے دو راستے بنائے گئے ہیں ایک رستہ صفا سے مروہ تک جانے کے لیے اور دوسرا مروہ سے صفا تک آنے کے لیے۔سعی کرنے والوں کے لیے مختلف جگہوں پر آبِ زمزم کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔اس جگہ بھی فرش پر سنگ مرمرکی ٹائلیں قبلہ کی سمت میں لگائی گئی ہیں تاکہ نماز کے وقت قبلہ کی سمت بآسانی معلوم ہوسکے اور صفیں درست بنیں۔

طواف اور سعی کیا ہے؟

طواف اور سعی نام ہے تلاش کا،جستجو کا،بقائے حیات کے لیے کوشش کا۔ ایک ایسی حرکت کاجس میں وصلِ یار کی تڑپ اور دیدار ِمحبوب کے لیے بےقرار ی پائی جائے گویابغیر کسی خاص مقصد کے اور کسی عہد وپیمان کے بغیر، یہ طواف اور سعی فضول اور یہ تگ ودَو بے محل ہے۔حضرت حاجرہ ؑ کا اس نہایت کڑی آزمائش کی گھڑی میں بے بسی اور بے کسی کے عالم میں اپنے بچے کے لیے پانی کی تلاش میں بے قرار ہوکر اِدھر اُدھر دوڑنا گویا راہ ِسلوک کے پہلے مرحلے کی ایک علامت ہے۔جب خدائے قادرو قیوم نے بے کس حاجرہ کی اس قربانی کو قبول فرمایا جو اُس نے مرکز توحید کی آباد کاری کے لیے دی تھی اور اُس نے اپنی قدرت نمائی کا جلوہ دکھاتے ہوئے اُس بے آب وگیاہ بنجر کو سرسبزوشاداب کرنے کے لیے زمزم کی صورت میں جاری کردیا۔ پس اللہ تعالیٰ کی شانِ الوہیت کا مشاہدہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہرانسان پہلے حاجرہ بنے اور مقام عرفان حاصل کرنے کے لیے اپنے آپ کو ترکِ اسباب کی کڑی آزمائش میں ڈالے کیونکہ ابتدائے دنیا سے یہی سنتِ الٰہیہ ہے۔سو جاننا چاہیے کہ یہی راہ چقماق کا وہ پتھر ہے جس کے ساتھ ابتلاؤں کی رگڑ سے پوشیدہ نور آشکار ہوجاتا ہے اور اُس بزرگ و برتر ذات کی شان ِالوہیت اپنا جلوہ دکھاتی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :بے شک طوافِ بیت اللہ، سعی صفا ومروہ اور رمیٔ جمار کا مقصد ذکرِ الٰہی کو قائم کرناہے۔(مسنداحمد23215،سنن ابوداؤد1882)

مِنٰی

مکہ مکرمہ سے مشرق کی جانب وادیٔ منٰی ہے۔اس میدان کی خاص بات وہ تین پتھر ہیں جن کو جمرہ یا شیطان کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ ان تین پتھروں کے نام یہ ہیں: جَمۡرَۃُ الْاُوْلٰی۔ جَمۡرَۃُ الۡوُسۡطٰی۔ جَمۡرَۃُ الۡعقبَہ۔حج کرنے والے آٹھ ذوالحجہ کو مکّہ مکرمہ سے منٰی میں آجاتے ہیں اور اُس دن یہیں پر نماز ظہر وعصر اور مغرب وعشاء ادا کرتے ہیں۔ رات اسی جگہ قیام کے بعد نو ذوالحجہ کی نماز فجر ادا کرتے ہیں۔جس کے بعد میدان عرفات کے لیے روانہ ہوجاتے ہیں۔ اسی میدان کے ایک حصے میں وہ قربان گاہ بھی ہے جہاں حضرت ابراہیم ؑاور حضرت اسماعیل ؑکی یادگار قربانی کا واقعہ پیش آیا تھا۔جسے خدا تعالیٰ نے ذبحِ عظیم قرار دیا ہے۔اُس یاد میں ہرسال لاکھوں فرزندان توحید اپنے جانور ذبح کرتے ہیں۔دس، گیارہ، بارہ اور تیرہ ذوالحجہ کومنٰی میں ان جمرات کو کنکریاں ماری جاتی ہیں۔جو جمرہ یا شیطان کہلاتے ہیں۔اس عمل کو ’’رمی الجمار‘‘ کہا جاتا ہے۔ ’’رمی الجمار‘‘ بتوں سے نفرت کا اظہار،شرک سے بیزارگی کا اعلان عام دل کے نہاں خانوںسے اپنے خالق حقیقی سے اظہار وابستگی کا اقرار،جسم کے روئیں روئیں سے توحید کی آوازکانام ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :وَاذۡکُرُوا اللّٰہَ فِیۡۤ اَیَّامٍ مَّعۡدُوۡدٰتٍ ؕ فَمَنۡ تَعَجَّلَ فِیۡ یَوۡمَیۡنِ فَلَاۤ اِثۡمَ عَلَیۡہِ ۚ وَمَنۡ تَاَخَّرَ فَلَاۤ اِثۡمَ عَلَیۡہِ ۙ لِمَنِ اتَّقٰی ؕ وَاتَّقُوا اللّٰہَ …۔(البقرۃ:204)اور اللہ کو (بہت ) یاد کرو اِن گنتی کے چند دنوں میں۔ پس جو بھی دو دنوں میں جلد فارغ ہوجائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں اور جو پیچھے رہ جائے تو اس پر (بھی ) کوئی گناہ نہیں (یعنی) اس کے لئے جو تقویٰ اختیار کرے۔

میدان عرفات

مکہ مکرمہ سے مشرق کی جانب عرفات کا میدان ہے جسے عرفہ بھی کہتے ہیں۔ اس میدان میں نو ذوالحجہ کو تمام حج کرنے والے جمع ہوتے ہیں۔ ظہر کے وقت سے لے کر سورج غروب ہونے تک اس جگہ قیام کیا جاتا ہے اس عمل کو وقوفِ عرفہ کہتے ہیں۔ غروب آفتا ب کے بعد یہاں سے نماز مغرب ادا کیے بغیر روانگی ہوتی ہے۔ اسی میدان میں ایک پہاڑی کا نام جبل الرحمت ہے۔ میدانِ عرفات وقوف حج کا اہم ترین حصہ ہے۔ اگر کسی وجہ سے یہ رہ جائے تو اس سال حج نہیں ہوگا۔

مزدلفہ

عرفات کے میدان سے منٰی کی جانب تقریباً تین میل کے فاصلہ پر ایک اور میدا ن ہے جو مزدلفہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ عرفات سے واپسی پر حج کرنے والے اس میدان میں رات بسر کرتے ہیں اور یہیں پر نماز مغرب وعشاء جمع کرکے پڑھتے ہیں۔ دس ذوالحجہ کی نماز فجر بھی اسی جگہ ادا کی جاتی ہے۔ مزدلفہ میں واقع پہاڑی مشعرالحرام کے پاس جاکر بکثرت ذکرالٰہی کرنے کا خداتعالیٰ کی طرف سے حکم ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :فَاِذَآ اَفَضۡتُمۡ مِّنۡ عَرَفٰتٍ فَاذۡکُرُو االلّٰہَ عِنۡدَ الۡمَشۡعَرِ الۡحَرَامِ (البقرۃ:199)پس جب تم عرفات سے لوٹو تو مَشعرِحرام کے پاس اللہ کا ذکر کرو۔

مَناسِک حج ایک نظر میں

مَناسِک۔منسککی جمع ہے۔جس کا مطلب حج کے ارکان یا حاجیوں کی عبادت کے مقامات ہے۔ جہاں انسان ناسِک حق کی جستجو میںالفت ومحبت کی تصویر بنے، وارفتگی کے عالم میں،گہری وابستگی کا اظہار کرتے ہوئے، خشوع وخضوع کی حالت میںلیکن نہایت اِنْضِباط اوقات(وقت کی پابندی) کے ساتھ ان تمام مناسک کو ادا کرتاہے۔مناسکِ حج کا خلاصہ درج ذیل ہے۔

احرام و تلبیہ

احرام باندھتے وقت بلند آواز سے حج یا عمرہ کا نام لے کر لَبَّیۡکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیۡکَ۔ لَبَّیۡکَ لَا شَرِیۡکَ لَکَ لَبَّیۡکَ اِنَّ الۡحَمۡدَ وَالنِعۡمَۃَ لَکَ وَالۡمُلۡکَ لَکَ لَا شَرِیۡکَ لَکَپڑھنا۔ یہ تلبیہ وتسبیح وتحمید وتکبیربحالت احرام سفر کے دوران بیت اللہ پہنچنے تک جاری رہتا ہے۔ اس کے بعد مندرجہ ذیل اعمال عبادتِ حج کا حصہ شمار ہوتے ہیں۔طوافِ بیت اللہ، سعی بین الصفا والمروہ، وقوفِ عرفات، قیامِ مزدلفہ، قیام منٰی، رمیٔ جمرات اور قربانی۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے حضرت فضلؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ برابر لبیک کہتے رہے یہاں تک کہ آپؐ جمرہ پر پہنچے۔(صحیح بخاری کتاب الحج بَاب اَلنُّزُوۡلُ بَیۡنَ عَرَفَۃَ وَ جَمۡعٍ حدیث نمبر1670)سفر حج میں مختلف موقعوں پر تلبیہ دہرانے کا حکم ہے تاکہ حج کامقصدِ اعلیٰ ہر وقت یاد رہے۔ اس لیے چاہیے کہ محرم ابتدائے احرام سے جمرۃ العقبہ تک لَبَّیۡکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیۡکَ…کہتا رہے۔حضرت انس (بن مالک) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے مدینہ میں ظہر کی چار رکعت نماز پڑھی اور ذوالحلیفہ میں عصر کی دو رکعتیں اور میں نے سنا ہے کہ وہ حج اور عمرہ دونوں کا اکٹھا ہی نام لے کر بلند آواز سے لبیک پکارتے تھے۔(صحیح بخاری کتاب الحج بَاب رَفۡعُ الصَّوۡتِ بِالۡاِھۡلَالِحدیث نمبر1548)

بعض فقہاء نے بلند آواز سے لبیک پکارنا ضروری قرار دیا ہے جبکہ جمہور کے نزدیک بلند آواز سے لبیک کہنا مستحب تو ہے لیکن واجب نہیں۔نیز جمہور نے بلندی پر چڑھتے وقت اور ساتھیوں سے ملتے وقت تلبیہ بآوازِ بلند مستحب قرار دیا ہے۔ رسول کریمﷺ نے فرمایا ہے کہ أَتَانِیۡ جِبۡرِیۡلُ فَاَمَرَنِیۡ اَنۡ آمُرَ اَصۡحَابِی اَنۡ یَّرۡفَحُوۡا اَصۡوَاتَھُمۡ بِالۡاِھۡلَالِ وَالتَّلۡبِیَّۃِ (ترمذی کتاب الحج باب ماجاء فی رفع الصوت بالتلبیۃ)جبریل میرے پاس آئے اور مجھ سے فرمایا کہ میں اپنے ساتھیوں کو حکم دوں کہ وہ اپنی آوازیں احرام باندھتے وقت اور تلبیہ میں بلند کیا کریں۔

عمرہ

عمرہ عمارۃ سے مشتق ہے جس کے معانی آباد رکھنا ہے۔ (عمدۃ القاری جزء 10صفحہ 106)عمرہ سے اصل غرض یہ ہے کہ بیت اللہ میں عبادت، ذکر الٰہی اور دعائیں ہوتی رہیں اور یہ گھر ہر وقت آباد رہے۔ کعبہ کی اسی آباد کاری کی پیشگوئی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کو وَالۡبَیۡتِ الۡمَعۡموۡرِ (الطّور:5)قرار دیا ہے یعنی یہ گھر اللہ کی یاد اور اُس کے ذکر سے ہمیشہ آباد رہے گا۔عمرے کا حکم دیتے ہوئے فرمایاہے: وَاَتِمُّواالۡحَجَّ وَالۡعُمۡرَۃَ لِلّٰہِ (البقرۃ:197) اوراللہ کے لیے حج اور عمرہ کو پورا کرو۔ عمرے میں بھی حج کی طرح کسی میقات سے احرام باندھنا چاہیے اور تلبیہ کا التزام کرنا چاہیے۔ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ عمرے میں تلبیہ پڑھنا اس وقت چھوڑتے تھے جب حجر اسود کو بوسہ دیتے۔ (جامع ترمذی اَبۡوَابُ الۡحَجِّ بَابُ مَا جَآءَ مَتٰی یُقۡطَعُ التَّلِبۡیَۃُ فِی الۡعُمَرَۃِ)گویا عمرہ کرنے والے کو چاہیے کہ طواف کعبہ شروع کرنے تک تلبیہ کا ورد جاری رکھے۔

عمرہ بیت اللہ کے طواف اور الصفاء والمروہ کے درمیان سعی کانام ہے۔ اس کے لیے مکہ سے باہر کسی میقات سے احرام باندھنا چاہیے۔ مکہ میں رہنے والے عمرہ کے احرام کے لیے تَنعِیم(مسجد عائشہ)جاتے ہیں اور وہاں سے عمرہ کا احرام باندھ کر مکہ واپس آتے ہیں تاکہ اس عباد ت کے لیے ایک گونہ سفر کی شرط پر عمل کرلیں۔ عمرے کے لیے کوئی خاص وقت مقرر نہیں۔ اسے سال کے کسی حصہ میں ادا کیا جاسکتا ہے۔ البتہ نویں ذوالحجہ سے لے کر تیرہ ذوالحجہ تک ان چار دنوں میں عمرہ کا احرام باندھنا درست نہیں۔ کیونکہ یہ حج ادا کرنے کے دن ہیں۔

عمرےکی فضیلت

حضرت ابوہریرہؓ سےروایت ہےکہ رسول اللہﷺنے فرمایا: ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک ان دونوں کے درمیان کے لیے کفارہ ہوجاتا ہے اور نیکی پر مشتمل حج کا اجرسوائے جنت کے اور کوئی نہیں ہے۔ (صحیح مسلم،کتاب الحج بَاب فِی فَضۡلِ الۡحَجِّ وَالۡعُمۡرَۃِ…)ایک مرتبہ رسول اللہﷺ نے ایک انصاری عورت سے فرمایا: جب رمضان آئے تو تم عمرہ کرلینا کیونکہ اس مہینہ میں عمرہ حج کے برابر ہے۔(صحیح مسلم، کتاب الحج باب فَضۡلِ الۡعُمۡرَۃِ فِی رَمَضَانَ)

حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے عمرے کے تعلق میں فرمایا:بات یہ ہے کہ ثواب تو اس مقدار سے ہوتا ہے جتنا آپ خرچ کریں اور جتنی مشقت برداشت کریں۔(صحیح بخاری ،کتاب الۡعُمۡرَۃِ بَاب أَجۡرُ الۡعُمۡرَۃِ عَلَی قَدۡرِ النَّصَبِحدیث نمبر1787)

عمرے کی فضیلت ان ارشاداتِ رسولﷺ سے بخوبی عیاں ہے۔جب انسان اللہ تعالیٰ کے لیے خالص ہوکر کسی چیز کا قصد کرتا ہے اور وہ دعاؤں اور ذکر الٰہی کی طرف متوجہ رہتا ہے تو اس توجہ الیٰ اللہ کا نیک اثر اُس کے نفس پر ہوتا ہے۔ اسی مبارک اثر کے نتیجے میں اُس کے گناہوں کی میل دور ہونا شروع ہوجاتی ہے اور اُس کی زندگی میں ایک روحانی انقلاب رونماہوجاتاہے۔جیساکہ اللہ تعالیٰ نےفرمایاہے:وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّہَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّیۡلِ ؕ اِنَّ الۡحَسَنٰتِ یُذۡہِبۡنَ السَّیِّاٰتِ ؕ ذٰلِکَ ذِکۡرٰی لِلذّٰکِرِیۡنَ۔(ھود:115)اوردن کے دونوں کناروں پر نماز کو قائم کر اور رات کے کچھ ٹکڑوں میں بھی۔ یقیناً نیکیاں بدیوں کو دور کردیتی ہیں۔ یہ نصیحت کرنے والوں کے لئے ایک بہت بڑی نصیحت ہے۔

حج اور عمرہ میں ممنوع چیزیں

حج اور عمرہ میںمردوں کے لیے سلے ہوئے کپڑے پہننا، عورتوں کے لیے نقاب، خوشبو، مباشرت، مقدمات (یعنی بوسہ، نکاح وغیرہ) اور شکار کرنا ممنوع ہے۔

سر منڈوانا یابال کتروانا

عمرہ کا احرام کھولنے کا بھی وہی طریق ہے جو حج کے احرام کھولنے کا ہے یعنی عمرہ کرنے کے بعد اپنا سر منڈوا دے یا بال کتروا دے اور عورت ایک دو لٹیں کاٹ کر احرام کھولے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے :لَقَدۡ صَدَقَ اللّٰہُ رَسُوۡلَہُ الرُّءۡیَا بِالۡحَقِّ ۚ لَتَدۡخُلُنَّ الۡمَسۡجِدَ الۡحَرَامَ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ اٰمِنِیۡنَ ۙ مُحَلِّقِیۡنَ رُءُوۡسَکُمۡ وَمُقَصِّرِیۡنَ ۙ لَا تَخَافُوۡنَ…۔(الفتح:28)یقیناً اللہ نے اپنے رسول کو (اس کی) رؤیا حق کے ساتھ پوری کر دکھائی کہ اگر اللہ چاہے گا تو تم ضرور بالضرور مسجدِ حرام میں امن کی حالت میں داخل ہوگے، اپنے سروں کو منڈواتے ہوئے اور بال کترواتے ہوئے، ایسی حالت میں کہ تم خوف نہیں کروگے۔

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کہا کرتے تھےکہ رسول اللہﷺ نے اپنے حج میںسر منڈوایا۔(صحیح بخاری،کتاب الحج بَاب اَلۡحَلۡقُ وَالتَّقۡصِیۡرُ عِنۡدَ الۡاِحۡلَالِ حدیث نمبر1726)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اے اللہ!سر منڈوانے والوں پر رحم کر۔ صحابہؓ نے کہا : یارسول اللہ!بال کتروانے والوں پر۔ فرمایا: اے اللہ ! سرمنڈوانے والوں پر رحم کر۔ صحابہؓ نے کہا:یار سول اللہ اوربال کتروانے والوں پر بھی ۔ فرمایا: اور بال کتروانے والوں پر بھی۔(صحیح بخاری کتاب الحج بَاب اَلۡحَلۡقُ وَالتَّقۡصِیۡرُ عِنۡدَ الۡاِحۡلَالِ حدیث نمبر1727)

فقہاء نے اس ضمن میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ بال کس قدر منڈوائے جائیں یا کتروائے جائیں۔ امام مالک ؒ اور امام احمد بن حنبلؒ کے نزدیک سارے اور امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک چوتھائی کافی ہیں۔(فتح الباری جزء 3صفحہ 713)

بعض اصطلاحات مع مختصر تشریح

مناسب معلوم ہوتاہے کہ حج اور عمرہ کے متعلق چند اہم اور مخصوص اصطلاحات بیان کردی جائیں تاکہ دوران حج وعمرہ جب جب اُن کا بیان ہو،قاری کو سمجھنے میں آسانی ہو۔

احصار

احصار کے معنی محدود و محصور کرنے کے ہیں یعنی ایسی رکاوٹ جس کی وجہ سے عازم حج وعمرہ یا محرم سفر سے روک دیا جائے یا اُسے سفر ملتوی کرنا پڑے۔حج یا عمرہ سے روکے جانے والے کے لیے قربانی کی تاکید کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَاَتِمُّوا الۡحَجَّ وَالۡعُمۡرَۃَ لِلّٰہِ ؕ فَاِنۡ اُحۡصِرۡتُمۡ فَمَا اسۡتَیۡسَرَ مِنَ الۡہَدۡیِ…(البقرۃ:197)اور اللہ کے لئے حج اور عمرہ کو پورا کرو۔ پس اگر تم روک دیئے جاؤ تو جو بھی قربانی میسر آئے (کردو)۔

احرام

لغت کی رو سے احرام کے معنے حرام کرنے کے لکھے ہیں۔ گویا حج یا عمرہ کرنے والا میقات سے حج کی نیت کرکے تلبیہ پڑھ لیتا ہے تو چند جائز باتوں کو اپنے اوپر حرام کرلیتا ہے۔ مرد اِحرام کے طور پر دو بے سلی چادریں اوڑھتا ہے۔ ایک تہبندکا کام دیتی ہے اور دوسری کندھوں پر ڈالی جاتی ہے۔ جبکہ عورتیں عام سادہ کپڑوں میں حج اداکرتی ہیں۔ احرام باندھنے والے کو مُحۡرِمکہتے ہیں۔

اِھۡلَالِ

احرام باندھتے وقت آواز بلند کرنا یعنی تَلۡبِیَۃکہنا۔

میقات

میقات وہ جگہیں ہیں جہاںسے حج وعمرہ کے لیے آنے والے احرام باندھتے ہیں۔ اہل مکہ کے لیے مکہ ہی میقات ہے۔ وہ حرم سے باہر کسی مقام سے احرام باندھ سکتے ہیں۔اسی طرح جو لوگ ان مقامات اور مکہ کے درمیان بستے ہیں۔ان کی اپنی بستی ہی ان کے لیے میقاتِ احرام ہے۔

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے اہل مدینہ کے لیے ذوالحلیفہ اور اہل شام کے لیے جحفہ اور اہل نجد کے لیے قرن المنازل اور اہل یمن کے لیے یلملم احرام باندھنے کے مقامات مقرر کیے ہیں۔یہ اُن کے لیے بھی ہیں اور ان لوگوں کے لیے بھی جو دوسرے ملکوں سے آئیں۔ یعنی جو حج اور عمرہ کرنا چاہتے ہوں تو پھر وہ ان جگہوں سے شروع کریں۔ اہل مکہ بھی مکہ سے ہی احرام باندھیں۔(صحیح بخاری کتاب الحج بَاب مُھَلُّ أَھۡلِ مَکَّۃَ لِلۡحَجِّ وَالۡعُمۡرَۃِ حدیث نمبر1524)

حضرت (عبداللہ ) بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب یہ شہر فتح کیے گئے تو لوگ حضرت عمرؓ کے پاس آئے اور انہوں نے کہا: امیرالمومنین ! رسول اللہﷺ نے اہل نجد کے لیے قرن مقرر کیا ہے اور وہ ہمارے راستہ سے ایک طرف ہے اور اگر ہم قرن جانا چاہیں تو ہمارے لیے مشکل ہوگی۔ حضرت عمرؓ نے کہا: تم اپنے راستہ میں اس کے مقابل پر کوئی اور مقام دیکھو۔ چنانچہ انہوں نے ان کے لیے ذاتِ عرق مقرر کیا۔(صحیح بخاری کتاب الحج بَاب ذَاتُ عِرۡقٍ لِأھۡلِ الۡعِرَاقِ حدیث نمبر1531)

نوٹ:حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب رضی اللہ عنہ عراق والوں کے میقات سے متعلق حدیث کی تشریح بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ عراق والوں کے لیے میقات ذات عرق کا مقام خود آنحضرتﷺ نے مقرر فرمایا تھا۔ نسائی ؒ نے بھی اس مفہوم کی بعض روایتیں نقل کی ہیں۔ مگر یہ سب روایات امام بخاریؒ کے نزدیک غیر مستند ہیں۔ امام مالک ، امام شافعی، امام رافعی اور امام نووی رحمہم اللہ نے بھی یہی رائے قائم کی ہے۔ طاؤس، ابن سیرین اور جابر بن زیدؒ نے مذکورہ بالا حدیث سے استدلال کیا ہے کہ اہل عراق کے لیے کوئی میقات نہیں، جیسا کہ دوسرے ممالک کے لیے بھی نہیں۔ ان جگہوں سے آنے والے مقررہ شدہ میقات سے گزرتے ہوئے کسی ایسے مقام سے جو کسی میقات کے مقابل واقع ہو، احرام باندھ سکتے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے اپنے قیاس سے جو فتویٰ دیا ہے، دوسرے ممالک کے لیے بھی قابل عمل ہے۔ یہ اُن کا قابل قدر اجتہاد ہے۔‘‘(صحیح البخاری جلد 3کتاب الحج صفحہ 189)

اضطباع

احرام کی اوپر والی چادر کو دائیں بغل سے نکال کر بائیں کندھے پر اس طرح ڈالنا کہ دایاں کندھا ننگا رہے،اضطباع کہلاتا ہے۔

تلبیہ

حج اور عمرہ کی نیت کے بعد احرام کی حالت میں لَبَّیۡکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیۡک…کا جو ورد کیا جاتا ہے اس کو تلبیہ کہتے ہیں۔

استلام

حجر اسود کو بوسہ دینا یا ہاتھ سے چھونا استلام کہلاتا ہے اگر ایسا کرنا ناممکن ہوتو دور سے اشارہ کرکے بوسہ دیا جاسکتا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے اونٹ پر سوار ہوکر بیت اللہ کا طواف کیا۔ جب آپؐ حجر اسود کے پاس آتے تو آپؐ اس کی طرف کسی چیز سے جو آپؐ کے پاس تھی، اشارہ کرکے اللہ اکبر کہتے۔(صحیح بخاری،کتاب الحج بَاب اَلتَّکۡبِیۡرُ عِنۡدَ الرُّکۡنِ)

رکن یمانی

خانہ کعبہ کا جنوب مغربی کونہ چونکہ یمن کی سمت ہے اس لیے اسے ’’رکن یمانی ‘‘کہتے ہیں طواف کے وقت اس کونے کو ہاتھ سے چھونا یا اُسے بوسہ دینا مستحب ہے۔(فقہ احمدیہ حصہ اوّل صفحہ 324)

حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے روایت ہے انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہﷺکو بیت اللہ کے صرف دو یمنی رکنوں کو چھوتے دیکھا۔(صحیح مسلم، کتاب الحج باب اسۡتِحۡبَابُ اسۡتِلَامِ الرُّکۡنَیۡنِ الۡیَمَانِیَیۡنِ فِی الطَّوَافِ…)

طواف اور اس کی مختلف اقسام

لغوی طور پر طواف کے معنی گھومنا اور چکر لگانا ہے۔اسلامی اصطلاح میںخانہ کعبہ کے گرد سات چکر لگانے اور دعا کرنے کوطواف کہتے ہیں۔طواف کی مختلف اقسام ہیں۔

٭…طواف قدوم : حج میں تین طواف ہوتے ہیںجن میں سے ایک طوافِ قدوم ہے یعنی وہ طواف جو مکہ مکرمہ میں داخل ہوتے وقت کیا جاتا ہے۔ یہ طواف حج مفردیا قران کرنے والے آفاقی کے لیے بطور سنت ہے جبکہ تمتع یا عمرہ کرنے والا خواہ وہ آفاقی ہو یا مکی مسنون نہیں ہے۔

٭…طواف زیارت یا اضافہ:دوسرا طوافِ افاضہ جس کی نسبت قرآن مجید میں بایں الفاظ ارشاد ہے:ثُمَّ لۡیَقۡضُوۡا تَفَثَھُمۡ وَلۡیُوۡفُوۡا نُذُوۡرَھُمۡ وَلۡیَطَّوَّفُوۡا بِالۡبَیۡتِ الۡعَتِیۡقِ (الحج:30) پھر چاہئے کہ وہ اپنی (بدیوںکی ) میل کو دور کریں اور اپنی منتوں کو پورا کریں اور اس قدیم گھر کا طواف کریں۔ منیٰ میں قربانی کرکے جمرۃ العقبہ پر رمی کرنے کے بعد بیت اللہ کا طواف کیا جاتا ہے اور یہ طواف حج کے ضروری ارکان میں سے ہے۔اسے طواف زیارت بھی کہتے ہیں۔

٭…طواف صدریاطواف وداع:تیسراطواف الوداع ہے جو مکہ مکرمہ سے لوٹتے وقت کیا جاتا ہے۔ ان طوافوں میں سے طواف الاضافہ کے فرض ہونے پر اَئمہ اور فقہاء کا اتفاق ہے۔ ان تینوں طواف کا تعلق حج کے ساتھ مخصوص ہے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا : لوگوں کو حکم ہوا کہ ان کا (اعمالِ حج میں سے ) آخری عمل بیت اللہ کی زیارت ہو۔ مگرحائضہ اس زیارت سے مستثنیٰ کی گئی ہے۔(صحیح بخاری، کتاب الحج بَاب طَوافُ الۡوَدَاعِ)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بتایاکہ نبیﷺ نے ظہر اور عصر اور مغرب اور عشا ء کی نمازیں پڑھیں۔ پھر محصّب میں تھوڑا سا س`وئے۔ پھر آپؐ سوار ہوکر بیت اللہ کی طرف گئے اور اس کا طواف کیا۔(صحیح بخاری، کتاب الحج بَاب طَوافُ الۡوَدَاعِ حدیث نمبر1756)

نوٹ:وہ وادی جو مکہ مکرمہ اور منٰی کے درمیان ہے، اسے ابطح اور بطحاءکہتے ہیں۔ بوجہ وسعت اور پھیلاؤ کے اور اس کا نام محصّب اور معرس بھی ہے۔(فتح الباری جزء 3صفحہ 745بحوالہ صحیح بخاری جلد سوم صفحہ 435)

رسول اللہﷺ نے فرمایاہے :تم میں سے کوئی شخص ہرگز نہ جائے یہاں تک کہ آخر میں بیت اللہ کی زیارت نہ کرلے۔(صحیح مسلم ،کتاب الحج باب وُجُوبُ طَوَافِ الۡوَدَاعِ…حدیث نمبر2336)

٭…طواف عمرہ: یہ طواف عمرہ کا ہم رکن اور فرض ہے۔

٭…طواف تحیہ:یہ طواف مسجد حرام میں داخل ہونے والوں کے لیے مستحب ہے۔

٭…طواف نفل:یہ طواف کسی بھی وقت کیا جاسکتا ہے۔ یہ بڑی سعادت ہے اس لیے جب بھی موقع ملے طواف کر لینا چاہیے۔

٭…طواف نذر:یہ طواف نذر ماننے والے پر واجب ہوتا ہے۔والدین یا دیگر لوگوں کی طرف سے یہ طواف کیا جاسکتا ہے۔

تشریح:حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب رضی اللہ عنہ تحریر کرتے ہیں کہ ’’طواف کے بعد مناسک حج میں دو رکعت نماز سنت ہے جو آنحضرتﷺ نے مقام ابراہیم کے پیچھے پڑھیں۔ اس پر تمام اَئمہ کا اتفاق ہے۔طواف سات پھیروں پر مشتمل ہے۔ہر طواف پر دو رکعتیں پڑھی جاتی ہیں۔اگر کوئی شخص دو طواف کرتا ہے یعنی چودہ چکر کاٹتا ہے تو وہ چار رکعتیں نماز پڑھے گا۔ جمہور کے نزدیک ہر طواف یعنی سات پھیرے مکمل کرنے پر دو دو رکعتیں الگ الگ پڑھے۔ گوبعض متأخرین نے دو طواف کرنے کے بعد چار رکعتیں پڑھنا بھی جائز قرار دیا ہے۔ لیکن امام ابوحنیفہ ؒ نے اسے مکروہ گردانا ہے کہ سنت نبویہ کے خلاف ہے۔‘‘(صحیح بخاری ،کتاب الحج جلد سوم صفحہ302)

شوط

خانہ کعبہ کے گرد ایک مکمل چکر کو ’’شوط‘‘کہتے ہیں۔ طواف، حجر اسود سے شروع کیا جاتا ہے۔

مطاف

وہ جگہ جہاں خانہ کعبہ کے گرد طواف کیا جاتاہے مطاف کہلاتی ہے۔

رَمَل

طواف کے پہلے 3چکروں میں کندھا ہلاتے ہوئے، قریب قریب قدم رکھ کر قدرے تیز رفتاری سے چلنا رَمَلکہلاتا ہے۔ حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ نبیﷺ حج اور عمرہ میں تین پھیرے دوڑ کر چلے اور چار پھیرے معمولی چال سے۔(صحیح بخاری ،کتاب الحج باب اَلرَّمَلُ فِی الۡحَجِّ وَالۡعُمۡرَۃِ)

سَعی

سعی حج و عمرہ کے متعلق ایک اسلامی اصطلاح ہے۔حج اورعمرہ کے دوران صفا اور مروہ پہاڑیوں پر چڑھنے اور مخصوص انداز میں ان کے درمیان سات چکر لگانے کو سعی کہتے ہیں۔

مسعیٰ

جس جگہ سعی کی جاتی ہے اُس جگہ کومسعیٰ کہتے ہیں۔

مَیلَین اخضرَین

صفا اور مروہ کے درمیان وہ سبز ستون،جن کے درمیان حاجی کو عام رفتا ر سے تیز چلنا ہوتا ہے۔

جنایت

جنایت کے معنی خطا اور قصورکے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں ہر اس فعل کو جنایت کہتے ہیں جس سے شریعت نے منع کیا ہو۔ اسی طرح حرم کے اندر یا احرام میں ایسا کام کرنا جو ممنوع ہوجنایت کہلاتا ہے۔

اہلِ حرم

مکہ اور حرم میں بسنے والے لوگ اہل حرم کہلاتے ہیں۔ یہ لوگ حج کا احرام اپنی رہائش گاہ سے باندھیں گے البتہ عمرہ کےلیے انہیں حرم کی کسی حد پر جاکر احرام باندھنا ہوگا۔(تاریخ مکہ مکرمہ صفحہ 25)

وُقُوف

وقوف کےمعنےٹھہرنابیان ہوئےہیں۔اصطلاحِ شریعت میں منیٰ، مزدلفہ اور عرفات میں حاجیوں کے ٹھہرنے کو وقوف کہتے ہیں۔

یوم الترویہ

یوم الترویہ یعنی 8؍ذوالحجہ کی ظہر سے لے کر 9؍ذوالحجہ کی فجر تک پانچوں نمازیں حاجی کو منیٰ میں ادا کرنا ہوتی ہیں۔

یوم عرفہ

ذوالحجہ کی 9تاریخ کو تمام حاجی میدان عرفات میں جمع ہوتے ہیں، وہاں قیام کرتے ہیں اور خطبہ سنتے ہیں۔ یہ دن یوم عرفہ کہلاتا ہے۔

ایام تشریق

ماہ ذی الحج کی 13,12,11تاریخوں کو ایام تشریق کہا جاتا ہے۔ ان دنوںمیں رمی جمار، قربانی اور طواف افاضہ کیا جاتا ہے۔

رمی جمار

عرفات سے واپسی کے بعد حاجی حضرات منیٰ میں تین ستونوں(تین علامتی شیطانوں) پر کنکریاں مارتے ہیں اس عمل کو رمی جمار کہتے ہیں۔ یہ حج کا ایک اہم رکن ہے۔ دس، گیارہ، اور بارہ ذوالحجہ کو یہ عمل کیا جاتا ہے۔ ہر حاجی کے لیے لازم ہے کہ ان تین علامات پر سات سات کنکر ترتیب وار مارے۔

ہدی

حج تمتع یا قران والوں کی طرف سے قربانی جسے اصطلاحاً ہدیکہا جاتا ہے۔ یہ قربانی واجب ہے جبکہ حج مفرد کرنے والوں کے لیے مستحب ہے۔

یوم النحر

یعنی قربانی کا دن۔10؍ذوالحجہ کو حاجی میدان عرفات اور مزدلفہ سے واپس آکر قربانی کرتے ہیں۔

حلق یا قصر

مزدلفہ سے واپسی پر 10ذوالحجہ کو قربانی کے بعد سر منڈوانے کو حلق اور بال کتروانے کو قصر کہتے ہیں۔

یہاں حج اور مقامات حج کا مختصر تعارف مکمل ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ کعبہ وحدت کی نشانی اور حیات نو کی علامت ہے جبکہ حج کی ہر حرکت وسکون میں ایک پیغام مضمر ہے جو اللہ تعالیٰ کے قریب کرنے والا اور اُس کی رضا کی طرف لے جانے والا ہے۔ خوش قسمت ہے وہ انسان جو اس پیغام اور اس کی حقیقت کو جان کر اُسے عمل کے سانچے میں ڈھالنا شروع کردے۔ پس جو لوگ زندگی کی اس حقیقت کو جان کر اُسی کے مطابق قدم آگے بڑھاتے ہیں وہ بامراد زندگی سے ہمکنار ہوجاتے ہیں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button