حج و عمرہ

حج اور مقامات حج کا تعارف(قسط دوم)

(ظہیر احمد طاہر ابن نذیر احمد خادم۔جرمنی)

’’حج سے صرف اتنا ہی مطلب نہیں کہ ایک شخص گھر سے نکلے اور سمندر چیر کر چلا جاوے اور رسمی طور پر کچھ لفظ منہ سے بول کر ایک رسم ادا کرکے چلا آوے۔

اصل بات یہ ہے کہ حج ایک اعلیٰ درجہ کی چیز ہے جو کمال سلوک کا آخری مرحلہ ہے‘‘

حج کی فرضیت

حج کے لغوی معنے زیارت اور ارادہ کرنے کے ہیں جبکہ شرعی اصطلاح میں حج سے مراد نیت کرکے خاص وقت میں،خاص جگہوں پر مقررہ افعال کا بجالاناہے۔حج 9؍ہجری میں فرض ہوا۔آنحضرت ﷺ نے دس ہجری میں اپنی زندگی کا واحد حج کیا جو حجۃ الوداع کے نام سے موسوم ہے۔اللہ تعالیٰ حج کی فرضیت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الۡبَیۡتِ مَنِ اسۡتَطَاعَ اِلَیۡہِ سَبِیۡلًا وَمَنۡ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الۡعٰلَمِیۡنَ۔(آل عمران:98) اور لوگوں پر اللہ کا حق ہے کہ وہ (اس کے ) گھر کا حج کریں ( یعنی ) جو بھی اس (گھر) تک جانے کی استطاعت رکھتا ہو اور جو انکار کردے تو یقیناً اللہ تمام جہانوں سے بے نیاز ہے۔نیز فرمایا: وَاَتِمُّوا الۡحَجَّ وَالۡعُمۡرَۃَ لِلّٰہِ (البقرۃ:197)اور اللہ کے لیے حج اور عمرہ کو پورا کرو۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایاہے:بُنِیَ الۡاِسۡلَامُ عَلٰی خَمۡسٍ: شَھَادَۃِ اَنۡ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوۡلُ اللّٰہِ وَاِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَاِیۡتَاءِ الزَّکٰوۃِ وَالۡحَجِّ وَصَوۡمِ رَمَضَانَ۔(صحیح بخاری کتاب الایمان بَاب دُعَاؤُکُمۡ اِیۡمَانُکُمۡ حدیث نمبر8)اسلام کی بنیاد پانچ باتوں پر رکھی گئی ہے۔ یہ اقرار کرنا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، محمد(ﷺ) اللہ کے رسول ہیں اور نماز کو ادا کرنا اور زکوٰۃ دینا اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔

حج عاقل بالغ مسلمان پر فرض ہے۔اس کی صحت اس قابل ہو کہ وہ آسانی سے سفر کرسکے۔وہ اتنا مالدار ہو کہ گھر والوں کے اخراجات کے علاوہ مناسب زاد راہ اُس کے پاس موجود ہو۔ یعنی سفر کے مصارف کے لیے وافر رقم موجود ہو۔ تندرست اور سفر کے قابل ہو۔ راستے کا پُر امن ہونا بھی ضروری ہے یعنی مکہ جانے میں کوئی روک نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے:وَتَزَوَّدُوۡا فَاِنَّ خَیۡرَالزَّادِ التَّقۡوٰی(البقرۃ:198)اور زادِ سفر جمع کرتے رہو۔ پس یقینا ًسب سے اچھا زادِ راہ تقویٰ ہی ہے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اہل یمن حج کیا کرتے تھے اور وہ زاد راہ نہیں لیتے تھے اور کہتے تھے : ہم تو متوکل ہیں۔ جب مکہ میں پہنچتے تو لوگوں سے مانگتے۔ اللہ تعالیٰ نے وحی کی :اور تم زادِ راہ لے لیا کرو ، کیونکہ بہتر زادِ راہ وہی ہے جس میں بچاؤ کا سامان ہو۔(صحیح بخاری کتاب الحج بَاب قَوۡلُ اللّٰہِ تَعَالٰی وَتَزَوَّدُوۡا فَاِنَّ خَیۡرَالزَّادِ التَّقۡوٰی حدیث نمبر1523)گویا شریعت اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ کھانے پینے وغیرہ کے سامان کے بغیر انسان متوکل بن کر حج کے لیے نکل کھڑا ہو۔پھر اُس کا توکل راستے میں ہی کہیں گم ہوجائے اور وہ اپنی بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانا شروع کردے۔پس حج کی پہلی اور بنیادی شرط:مَنِ اسۡتَطَاعَ اِلَیۡہِ سَبِیۡلًابیان ہوئی ہے یعنی آمدورفت کے لیے بنیادی سامانِ سفر میسر ہو۔ورنہ قرآن کریم کے اس صریح حکم کی نافرمانی ہوگی اور اس حکم پر عمل نہ کرنے کے نتیجے میںانہیں مقام توکل سے گر کر غیراللہ کے سامنے اپنے ہاتھ پھیلانے پڑ جائیں گے اور اس طرح وہ ثواب کمانے کی بجائے معصیت کے مرتکب ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیے:

حج اور مقاماتِ حج کا تعارف(قسط اوّل)

حج اور مقامات حج کا تعارف(قسط سوم)

حج اور مقامات حج کا تعارف(قسط چہارم۔آخری)

حج کی اہمیت

حج کی اہمیت کا اندازہ درج ذیل احادیث سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺسے پوچھا گیا کہ عملوں میں سے کونسا عمل افضل ہے؟آپؐ نے فرمایا: اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔ پوچھا گیا: پھر اس کے بعد کونسا؟ فرمایا: اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنا۔ پوچھا گیا : پھر کونسا؟ فرمایا: وہ حج جو سراسر نیکی اور طاعت شعاری پر مبنی ہو۔(صحیح بخاری کتاب الحج باب فَضۡلُ الۡحَجِّ الۡمَبۡرُوۡرِ حدیث نمبر1519)

سب سے بڑھ کر جہاد وہ حج ہے جو سراسر نیکی اور طاعت شعاری پر مبنی ہو۔ حضرت عائشہ ام المومنین رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: یارسول اللہ ! ہم جہاد کو ہر ایک عمل سے بڑھ کر دیکھتے ہیں۔ کیا ہم بھی جہاد نہ کریں ؟ آپؐ نے فرمایا: نہیں ، سب سے بڑھ کر جہاد وہ حج ہے جو سراسر نیکی اور طاعت شعاری پر مبنی ہو۔(صحیح بخاری کتاب الحج باب فَضۡلُ الۡحَجِّ الۡمَبۡرُوۡرِ حدیث نمبر1520)

حج کے بعد انسان نومولود کی مانند پاک ہو جاتاہے۔حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے۔انہوں نے نبی ﷺ سے سنا۔ آپؐ فرماتے تھے : جس نے اللہ کے لیے حج کیا اور پھر شہوانی بات نہ کی اور نہ احکام الٰہی کی نافرمانی کی تو وہ ایسا ہی (پاک ہوکر ) لوٹے لگا ، جیسا اس دن (پاک) تھا، جس دن اس کی ماں نے اُسے جنا۔(صحیح بخاری کتاب الحج باب فَضۡلُ الۡحَجِّ الۡمَبۡرُوۡرِ حدیث نمبر1521)

نبی کریم ﷺ کے ان ارشادات سے حج کی اہمیت معلوم ہوتی ہے یعنی وہ حج جو سراسر اطاعت شعاری،کامل فرمانبرداری اور نیکی پر مبنی ہو اور جس کے بجالانے سے انسان کے گناہوں کی میل مکمل طور پر دُور ہوجائے۔ گویا ایسا حج جس میں ایک بندۂ مومن اپنے نفس کو مغلوب کرکے اُس کوقربان کردیتا ہے اوریہ عہد کرتا ہے کہ وہ آئندہ ہر قسم کی بدیوں سے مجتنب رہے گا اور نافرمانی کی ہر راہ سے دور رہے گا۔ قرآن کریم سے بھی یہی ثابت ہے کہ نفس کا جہاد نہایت دشوار راہ اور مشکل ترین مرحلہ ہے۔ پس حج کا اصل مقصد نفس کی قربانی اور نفسانی خواہشات سے دوری ہی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :لَنۡ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوۡمُہَا وَلَا دِمَآؤُہَا وَلٰکِنۡ یَّنَالُہُ التَّقۡوٰی مِنۡکُمۡ(الحج: 38)ہرگز اللہ تک نہ ان کے گوشت پہنچیں گے اور نہ ان کے خون لیکن تمہارا تقویٰ اس تک پہنچے گا۔ مناسک حج کی اسی غرض و غایت کو بیان کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام خطبہ الہامیہ میں فرماتے ہیں: ’’اور اس پوشیدہ بھید کی طرف خدا تعالیٰ کی کلام میں اشارت کی گئی ہے۔ چنانچہ خدا جو اَصدق الصادقین ہے اپنے رسول کو فرماتا ہے کہ ان لوگوں کو کہہ دے کہ میری نماز اور میری عبادت اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت سب اس خدا کے لیے ہے جو پروردگار عالمیاں ہے پس دیکھ کہ کیونکر نُسُککے لفظ کی حیات اور ممات کے لفظ سے تفسیر کی ہے اور اس تفسیر سے قربانی کی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ پس اے عقلمندو! اس میں غور کرو اور جس نے اپنی قربانی کی حقیقت کو معلوم کرکے قربانی ادا کی اور صدقِ دل اور خلوصِ نیت کے ساتھ ادا کی ، پس بہ تحقیق اس نے اپنی جان اور اپنے بیٹوں اور اپنے پوتوں کی قربانی کردی اور اس کے لئے اجر بزرگ ہے جیسا کہ ابراہیم کے لئے اس کے ربّ کے نزدیک اجر تھا۔

اور اسی کی طرف ہمارے سید برگزیدہ اور رسول برگزیدہ نے جو پرہیز گاروں کا امام اور انبیاء کا خاتم ہے اشارہ کیا اور فرمایا اور وہ خدا کے بعد سب سچوں سے زیادہ تر سچا ہے۔ بہ تحقیق قربانیاں وہی سواریاں ہیںکہ جو خدا تعالیٰ تک پہنچاتی ہیں اور خطاؤں کو محو کرتی ہیں اور بلاؤں کو دور کرتی ہیں۔ یہ وہ باتیں ہیں جو ہمیں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے پہنچیں جو سب مخلوق سے بہتر ہیں ان پر خدا تعالیٰ کا سلام اور برکتیں ہوں اور آنجناب نے ان کلمات میں قربانیوں کی حکمتوں کی طرف فصیح کلموں کے ساتھ جو موتیوں کی مانند ہیں اشارہ فرمایاہے۔ پس افسوس اور کمال افسوس ہے کہ اکثر لوگ ان پوشیدہ نکتوں کو نہیں سمجھتے اور اس وصیت کی پیروی نہیں کرتے۔‘‘(خطبہ الہامیہ ، روحانی خزائن جلد 16صفحہ43تا45)

گویا اسلامی عبادات کا مغز اوراُن کی اصل روح تقرب الی اللہ اور تقویٰ کا حصول ہے۔ اس لیے حج جیسی عبادت کی بنا بھی اسی اصول کے تحت ہے۔ جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نےفرمایا ہے :’’حج سے صرف اتنا ہی مطلب نہیں کہ ایک شخص گھر سے نکلے اور سمندر چیر کر چلا جاوے اور رسمی طور پر کچھ لفظ منہ سے بول کر ایک رسم ادا کرکے چلا آوے۔ اصل بات یہ ہے کہ حج ایک اعلیٰ درجہ کی چیز ہے جو کمال سلوک کا آخری مرحلہ ہے۔ سمجھنا چاہیے کہ انسان کا اپنے نفس سے انقطاع کا یہ حق ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ ہی کی محبت میں کھویا جاوے اور تعشُّق باللہ اور محبتِ الٰہی ایسی پیدا ہوجاوے کہ اس کے مقابلہ میں نہ اُسے کسی سفر کی تکلیف ہو اور نہ جان ومال کی پرواہو، نہ عزیزواقارب سے جدائی کا فکر ہو ، جیسے عاشق اور محب اپنے محبوب پر جان قربان کرنے کو تیار ہوتا ہے اسی طرح یہ بھی کرنے سے دریغ نہ کرے۔ اس کا نمونہ حج میں رکھا ہے۔ جیسے عاشق اپنے محبوب کے گر د طواف کرتا ہے اسی طرح حج میں بھی طواف رکھا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 102تا103،ایڈیشن 2003ء)

حج کے اوقات

حج کے لیے ابتدا ہی سے خاص مہینے مقرر ہیں جنہیںاَشۡھُرٌ مَّعۡلُوۡمَاتٌ یا اَشۡھُرُ الۡحَجۡ یعنی حج کے مہینے کہاجاتاہے۔ جمہور اَشۡھُرٌ مَّعۡلُوۡمَاتٌ سے شوال ، ذیقعدہ کے دو مہینے اور ذوالحج کے صرف دس دن مراد لیتے ہیں۔جبکہ حضرت امام مالکؒ کے نزدیک ذوالحج کا سارا مہینہ ان میں شامل ہے۔ ان کے نزدیک اگر کوئی شخص طوافِ افاضہ ذوالحج کے خاتمہ پر کرنا چاہے تو کرسکتا ہے۔بہرحال ان مہینوں کے مقرر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ان ایام میں انسان حج کی تیاری کرسکے۔اپنے اخلاق کی درستی کرلے نیز حج کے دیگرعملی احکام مثلاً احرام وغیرہ کا آغاز کرسکے۔ قرآن شریف میںاللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے کہ اَلۡحَجُّ اَشۡہُرٌ مَّعۡلُوۡمٰتٌ ۚ فَمَنۡ فَرَضَ فِیۡہِنَّ الۡحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوۡقَ ۙ وَلَا جِدَالَ فِی الۡحَجِّ ؕ وَمَا تَفۡعَلُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ یَّعۡلَمۡہُ اللّٰہُ ؕؔ وَتَزَوَّدُوۡا فَاِنَّ خَیۡرَ الزَّادِ التَّقۡوٰی ۫ وَاتَّقُوۡنِ یٰۤاُولِی الۡاَلۡبَابِ۔(البقرۃ:198)حج چند معلوم مہینوں میں ہوتا ہے۔ پس جس نے ان ( مہینوں ) میں حج کا عزم کرلیا تو حج کے دوران کسی قسم کی شہوانی بات اور بدکرداری اور جھگڑا (جائز) نہیں ہوگا۔ اور جو نیکی بھی تم کرو اللہ اسے جان لے گا۔ اور زادِ سفر جمع کرتے رہو۔ پس یقینا ًسب سے اچھا زادِ راہ تقویٰ ہی ہے۔ اور مجھ سے ڈرو اے عقل والو۔

ارکانِ حج

حج کے تین بنیادی ارکان ہیں :(1) احرام یعنی نیت باندھنا(2)وقوف عرفہ۔ یعنی نوذوالحجہ کو عرفات کے میدان میں ٹھہرنا(3)طواف زیارت جسے طوافِ افاضہ بھی کہتے ہیں۔ یعنی وہ طواف جو وقوف عرفہ کے بعد دس ذوالحجہ یا اس کے بعد کی تاریخوں میں کیا جاتا ہے۔ نو ذوالحجہ کو اگر کوئی شخص عرفات کے میدان میں خواہ تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی نہ پہنچ سکے تو اس کا حج نہیں ہوگا۔(فقہ احمدیہ ،حصہ اوّل صفحہ 331۔مطبوعہ قادیان )

حج کی اقسام

حج کی تین قسمیں ہیں : (1) حج مفرد (2)حج تمتّع (3) حج قِران۔

حج مفرد:اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الۡبَیۡتِ مَنِ اسۡتَطَاعَ اِلَیۡہِ سَبِیۡلًا(آلِ عمران:98)اور لوگوں پر اللہ کا حق ہے کہ وہ (اس کے )گھر کا حج کریں (یعنی )جو بھی اس (گھر) تک جانے کی استطاعت رکھتا ہو۔حج کی نیت سے آنے والے کے لیے فقہ احمدیہ میں لکھا ہے کہ ’’جب مکہ میں داخل ہوتو سامان وغیرہ رکھ کر اور وضوء یا غسل کرکے سیدھا مسجد حرام میں جائے۔تکبیر اور تلبیہ کہتے ہوئے حجر اسود کے سامنے کھڑا ہوجائے اور جس طرح سجدہ میں ہاتھ رکھتے ہیں اس طرح کعبہ کی دیوار پر ہاتھ رکھتے ہوئے حجر اسود کو چومے اور اگر چوم نہ سکے تو اپنے ہاتھ سے اُسے چھوئے۔ اور اگر چھو بھی نہ سکے تو چھڑی یا ہاتھ سے اشارہ کرکے اُسے چوم لے۔ دھینگا مشتی کرکے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرے۔ حجر اسود کو اس طرح بوسہ دینے کو ’’ استلام ‘‘ کہتے ہیں۔ اِستلام کے بعد طواف شروع کرے یعنی حجر اسود کی دائیں جانب جدھر دروازہ ہے اس کی طرف چلتے ہوئے بیت اللہ کے سات چکر لگائے۔

حطیم بھی کعبہ کا حصہ ہے اس لیے چکر لگاتے ہوئے اس کے باہر سے گزرے۔ پہلے تین چکروں میں رَمَلۡ یعنی کسی قدر فخریہ انداز میں کندھے مٹکاتے ہوئے تیز تیز قدم چلنا مسنون ہے۔ ہر چکر میں جب بھی حجر اسود کے سامنے پہنچے تو اس کا استلام کرے۔ رکنِ یمانی کا استلام بھی مستحسن ہے۔ ساتواں چکر حجر اسود کے سامنے آکر ختم کرے۔ پھر مقام ابراہیم کے پاس آکر طواف کی دو رکعت پڑھے۔ مکہ مکرمہ میں پہنچنے کے بعد بیت اللہ کا یہ پہلا طواف ہے جسے طواف القدوم کہتے ہیں۔

بہرحال اس طواف کے بعد صفا پر آئے اور بیت اللہ کی طرف منہ کرکے اور ہاتھ اٹھا کر اللہ تعالیٰ کے حضور دعا مانگے۔ درود شریف پڑھے۔ تکبیر اور تلبیہ کہے پھر یہاں سے مروہ کی طرف جائے۔ مروہ پر بھی اسی طرح دعائیں مانگے۔ یہ اُس کا ایک چکر ہوگا۔ اس کے بعد صفا کی طرف جائے یہ اس کا دوسرا چکر ہوگا۔ اس طرح صفا اور مروہ کے سات چکر لگائے۔ آخری چکر مروہ پر ختم ہوگا۔ ان سات چکروں کو ’’سعی‘‘کہتے ہیں۔

سعی بین الصفا والمروہ کے بعد وہ فارغ ہے۔ قیام گاہ پر آکر آرام کرے ، بازار میں گھومے پھرے۔ کوئی پابندی نہیں۔ اس کے بعد آٹھویں ذوالحجہ کو مِنٰی میں جائے۔وہیں ظہر ، عصر ، مغرب اور عشاء کی نمازیں پڑھے۔ نویں کی فجر پڑھ کر مِنٰی سے عرفات کے لئے روانہ ہو۔ ظہر سے لے کر مغرب تک میدانِ عرفات میں وقوف کرے۔ ظہر اور عصر کی نمازیں یہیں جمع کرکے پڑھے۔نویں ذوالحج کو میدان عرفات میں وقوف حج کا اہم ترین حصہ ہے۔اگر کسی وجہ سے یہ رہ جائے تو اس سال حج نہیں ہوگا۔

وادی عُرَنَہ جو عرفات کے پہلو میں ہے اُسے چھوڑ کر عرفہ کا سارا میدان مؤقف ہے۔ ظہر اور عصر کی نماز سے فارغ ہوکر حج کرنے والا تلبیہ و تکبیر ، ذکر الٰہی ، استغفار اور دعا میں مشغول رہے۔ جب سورج غروب ہوجائے تو عرفات سے چل کر ’’ مزدلفہ‘‘ میں آجائے۔ وادی کو چھوڑ کر مزدلفہ کا باقی سارا میدان مؤقف ہے۔ یہاں عشاء کے وقت میں مغرب وعشاء کی نمازیں جمع کرکے پڑھے۔ صبح کی نماز بہت سویرے پڑھی جائے۔ اس کے بعد مشعرالحرام کے قریب جاکر ذکر الہٰی کرے۔ تکبیر اور تلبیہ پر زور دے جب کچھ روشنی ہوجائے تو مزدلفہ سے چل کر واپس مِنٰی میں آجائے۔ راستہ سے ستّر کنکریاں اُٹھالے۔ جب مِنٰی پہنچے تو سب سے پہلے جَمۡرَۃُ الۡعَقۡبَہ کو رمی کرے۔ یعنی عقبہ نامی ٹیلے کو اللہ اکبر کہتے ہوئے سات کنکریاں مارے۔ پہلی کنکری کے ساتھ بار بار تلبیہ کہنے کا وجوب ختم ہوجائے گا۔ اس کے بعد اگر اس کا ارادہ قربانی دینے کا ہے تو مذبح جاکر قربانی ذبح کرے۔ ورنہ اپنے بال کٹواکر یا منڈوا کر احرام کھول دے۔ بال کٹوانے یا منڈوانے کو احرام کھولنا یا حلال ہونا کہتے ہیں۔ عورت احرام کھولنے کے لئے اپنے سر کی ایک ،دو مینڈھیاں قینچی سے کاٹ دے۔ اُس کے لئے سارے بال کٹوانا یا منڈوانا جائز نہیں۔ یہ دسویں ذوالحجہ کا دن ہے۔ حجاج کے لئے اس دن عید کی نمازنہیں ہے۔ بہرحال احرام کھولنے کے بعد دسویں ذی الحجہ کو حج کرنے والا مِنٰی سے مکہ آکر بیت اللہ کا طواف کرے۔ یہ طواف بھی حج کا بنیادی رکن ہے۔ اس کو طواف زیارت اور طواف افاضہ کہتے ہیں۔ طواف زیارت کے بعد حج کرنے والے کے لئے وہ سب اشیاء جائز ہوجاتی ہیں جو احرام کی وجہ سے اس کے لئے ممنوع تھیں۔ طواف زیارت سے فارغ ہوکر وہ پھر واپس مِنٰی میں چلا جائے اور تین دن یہیں مقیم رہے۔ مِنٰی میں تین جمرے ہیں۔ جمرۃ الاولیٰ ، جمرۃ الوسطیٰ ، جمرۃ الۡعَقۡبَہ۔ یہ جمرے جو پہلے چھوٹی چھوٹی چٹانیں تھیں اب بُرجیوں کی شکل میں ہیں۔

گیارہویں ذوالحجہ کو حج کرنے والا زوال کے بعد تینوں جمروں کو رمی کرے۔ سب سے پہلے اس جمرے کو سات کنکر مارے جو مسجد الخیف کے پاس ہے اور جسے جمرۃ الاولیٰ کہتے ہیں۔ اس کے بعد اس جمرہ کو سات کنکر مارے جو اس کے قریب ہے جسے جمرۃ الوسطیٰ کہتے ہیں۔ آخر میں تیسرے جمرہ یعنی جمرۃالۡعَقبَہ کو سات کنکر مارے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ دسویں کو مزدلفہ سے واپسی کے بعد بھی اس جمرہ کو سات کنکر مارے گئے تھے۔ بارہویں ذوالحجہ کو بھی گیارہویں کی طرح تینوں جمروں کو رمی کرے۔ اس کے بعد اختیار ہے اگر کوئی چاہے تو تیرھویں تاریخ کو رمی کرنے کے لئے مِنٰی میں قیام کرے۔ اور چاہے تو:فَمَنۡ تَعَجَّلَ فِیۡ یَوۡمَیۡنِ فَلَاۤ اِثۡمَ عَلَیۡہِ (البقرۃ:204)پھر جو شخص جلدی کرے (اور)دودنوں میں(ہی واپس چلا جائے)تو اسے کوئی گناہ نہیں۔کی اجازت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے بارہویں تاریخ کو رمی کے بعد مکہ واپس آجائے بہرحال بارہویں یا تیرھویں کو مکہ آکر واپسی کا طواف کرے۔ یہ طواف اُن کے لئے ہے جو مکہ کے باشندے نہیں ہیں اوراپنے گھر واپس آنا چاہتے ہیں۔ اس طواف کو ’’طواف الصَّدر‘‘ یا ’’طواف الوداع‘‘ کہتے ہیں۔ الوداعی طواف سے فارغ ہوکر حج کرنے والا زمزم کا پانی پیئے۔ دہلیز کعبہ کو چُومے۔ ملتزم پر اپنا سینہ رکھ کر رو رو کر دعائیں کرے۔ استار کعبہ یعنی کعبے کے غلاف کو پکڑ کر اپنے مولیٰ کے حضور اپنے گناہوںکی معافی مانگے اور اُس سے بخشش کی التجا کرے۔ پھر پچھلے پائوں ہٹتے ہوئے اپنی آخری نگاہ ِ شوق کعبہ پر ڈالے اورواپس آجائے۔‘‘(فقہ احمد یہ حصہ اوّل صفحہ 333تا 335)

حج تمتّع :تمتّع کے معنی فائدہ اٹھانے کے ہیں۔ یعنی حج کرنے والا ایک ہی سفر میں دو فائدے اُٹھاتا ہے۔ پہلے عمرہ کرتا ہے اور پھر حج ادا کرتا ہے۔حج مفرد ادا کرنے والے کے لیے دسویں ذوالحجہ کو قربانی ضروری نہیںہوتی لیکن حجِ تمتّع کرنے والے کے لیے قربانی ضروری ہے۔ اس قربانی کو دَمِ تمتّع کہتے ہیں۔ اگر کوئی قربانی نہ دے سکے تو اس کے بدلہ میں دس روزے رکھنا ہوںگے۔ تین روزے حج کے دنوں میں اور سات روزے گھر واپس آکرپورے کرے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :فَمَنۡ تَمَتَّعَ بِالۡعُمۡرَۃِ اِلَی الۡحَجِّ فَمَا اسۡتَیۡسَرَ مِنَ الۡہَدۡیِ ۚ فَمَنۡ لَّمۡ یَجِدۡ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ فِی الۡحَجِّ وَسَبۡعَۃٍ اِذَا رَجَعۡتُمۡ ؕ تِلۡکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ ؕ ذٰلِکَ لِمَنۡ لَّمۡ یَکُنۡ اَہۡلُہٗ حَاضِرِی الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ(البقرۃ:197) جو بھی عمرہ کو حج سے ملاکر فائدہ اٹھانے کا ارادہ کرے تو (چاہئے کہ ) جو بھی اسے قربانی میں سے میسر آئے ( کردے )۔ اور جو (توفیق) نہ پائے تو اسے حج کے دوران تین دن کے روزے رکھنے ہوں گے اور سات جب تم واپس چلے جائو۔ یہ دس (دن) مکمل ہوئے۔ یہ (اوامر) اُس کے لئے ہیں جس کے اہلِ خانہ مسجد حرام کے پاس رہائش پذیر نہ ہوں۔

اس آیت کریمہ میں حجِ تمتّع کا ذکر کیا گیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ حج کے مہینوں میں سب سے پہلے صرف عمرہ کا احرام باندھے اور مکہ پہنچ کر عمرہ کرے اس کے بعد احرام کھول دے۔ پھر آٹھویں ذوالحجہ یا اس سے پہلے حج کا احرام باندھے اور مقررہ طریق پر حج کرے۔ گویا حج کے مہینوں میں پہلے عمرہ کرنا اور اس کے بعد نئے احرام کے ساتھ حج کرنا تمتّع کہلاتا ہے۔

حج قِران:حج قران اسے کہتے ہیں کہ شروع میں عمرہ اور حج دونوںکا اکٹھا احرام باندھے یعنی حج اور عمرہ دونوں کی نیت کرتے ہوئے تلبیہ کہے۔ اس طرح احرام باندھنے والا جب مکہ پہنچے گا تو سب سے پہلے عمرہ کرے گا۔ اس کے بعد احرام نہیں کھولے گا بلکہ اسی احرام کے ساتھ حج کے مناسک بھی ادا کرے گا۔اور جس طرح اُس نے عمرہ کا اور حج دونوں کا اکٹھا احرام باندھا تھا۔ اسی طرح دسویں ذوالحجہ کو دونوں کا اکٹھا ہی احرام کھولے گا۔ (ماخوذاز فقہ احمدیہ حصہ اول صفحہ 336) اس بابت اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے :وَاَتِمُّواالۡحَجَّ وَالۡعُمۡرَۃَ لِلّٰہِ (البقرۃ:197)اور اللہ کے لئے حج اور عمرہ کو پورا کرو۔

حج کا طریق

ایک صاحب استطاعت ،مالدار اور تندرست مسلمان پر حج فرض ہوجاتا ہے۔جبکہ حج کاراستہ پر امن ہو اور کسی قسم کی روک درمیان میں حائل نہ ہو۔

احرام: مکہ مکرمہ کے گرد مقررہ جگہوں سے احرام باندھ کر حج یا عمرہ کی نیت کی جاتی ہے۔ مکہ مکرمہ کے گرد اُن جگہوں کومیقات کہتے ہیں جہاں سے احرام باندھ کر حج یا عمرہ کرنے والے آگے جاسکتے ہیں۔سنت یہ ہے کہ حج یا عمرہ کی نیت سے آنے والا میقات کے مقام پر پہنچ کر وضو کرے یا نہائے۔ خوشبو لگائے۔مرد دو صاف بے سلی چادریں پہنے۔ ایک بصورت تہ بند باندھے اور دوسری بصورت چادر اوڑھے۔ سرننگا رکھے۔ عورت اُسی لباس میں جو اُس نے پہن رکھا ہے حج کرسکتی ہے۔ البتہ عام حالات میں احرام کے بعد اپنا منہ ننگا رکھے اس پر نقاب نہ ڈالے۔ سوائے اس کے کہ کسی نامحرم کا آمنا سامنا ہو اور اُس سے پردہ کرنا ضروری ہوجائے۔

احرام باندھنے کے بعد دورکعت نفل پڑھنے چاہئیں اور پھر حج کی نیت کرتے ہوئے تلبیہ کہے۔تلبیہ احرام کا ضروری حصہ ہے۔اگر تلبیہ کے الفاظ حج کے ارادہ کے ساتھ نہ کہے جائیں تو احرام مکمل نہیں ہوگا۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا تلبیہ یہ تھا :

لَبَّیۡکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیۡکَ۔ لَبَّیۡکَ لَا شَرِیۡکَ لَکَ لَبَّیۡکَ۔ اِنَّ الۡحَمۡدَ وَالۡنِعۡمَۃَ لَکَ وَالۡمُلۡکَ لَکَ لَا شَرِیۡکَ لَکَ یعنی میں حاضر ہوں۔ اے میرے اللہ میں حاضر ہوں۔ میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں۔ میں حاضر ہوں۔ ہر خوبی اور ہر ایک نعمت تیری ہی ہے اور بادشاہی بھی تیری ہی ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔(صحیح بخاری کتاب الحج بَاب اَلتَّلۡبِیَۃُ حدیث نمبر 1549)

لبیک کہنے سے پہلے قبلہ رخ ہونا حج کے آداب میں شامل ہے۔مُحرِم کے لیے بلندی پر چڑھتے اور بلندی سے اترتے وقت تلبیہ واجب ہے۔فقہ احمدیہ میں لکھا ہے کہ ’’تلبیہ کے بعد انسان محرم ہوجاتا ہے۔ یعنی حج کے مناسک اور احکام بجالانے کے قابل ہوجاتا ہے محرم کو بہت سی ایسی باتوں سے بچنا پڑتا ہے جو عام حالات میں اس کے لئے جائز ہیں۔ مثلاً خشکی کا شکار کرنا۔ یاکسی سے کروانا۔ خوشبو یا تیل لگانا۔ کنگھی کرنا۔ بال کٹوانا۔ ناخن کاٹنا۔ مرد کے لئے قمیص یا سلا ہوا کپڑا پہننا ، سر اور چہرہ ڈھانکنا۔ پگڑی باندھنا یا ٹوپی پہننا۔ موزے یا فُل بوٹ استعمال کرنا۔ بیوی سے مباشرت کرنا یا اُس کے مقدمات کا ارتکاب کرنا جیسے بوسہ لینا وغیرہ۔ غرض ایسے تمام امور سے اجتناب لازمی ہے جو آسائش اور آرام کی زندگی کا لازمہ ہیں۔‘‘(فقہ احمدیہ حصہ اوّل صفحہ 332)

پس احرام باندھنے کے بعد بکثرت تلبیہ کہنا چاہیے۔اُٹھتے بیٹھتے ، چلتے پھرتے ،غرض ہرحالت میں التزام کے ساتھ تلبیہ، ذکرالٰہی ، درودشریف اور استغفار کی طرف توجہ رہنی چاہیے۔ ان مقامات مقدسہ میں انسان کا خدا تعالیٰ میں محو ہوکر اُس کی رضاجوئی کے حصول کے لیے اپنی روح کو آستانۂ الٰہی پر جھکائے رکھنا ہی مقصود نظر ہونا چاہئے۔ احرام کی حالت میں فسق وفجور، لڑائی جھگڑا اور دنگا فساد کرنے کی قطعاًاجازت نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے : فَمَنۡ فَرَضَ فِیۡہِنَّ الۡحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوۡقَ ۙ وَلَا جِدَالَ فِی الۡحَجِّ(البقرۃ:198)ترجمہ:پس جس نے ان (مہینوں) میں حج کا عزم کرلیا تو حج کے دوران کسی قسم کی شہوانی بات اور بدکرداری اور جھگڑا (جائز) نہیں ہوگا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: جس نے اس گھر کا حج کیا اور شہوت کی بات نہ کی اور نہ الٰہی احکامات کی نافرمانی کی تو گویا وہ لوٹ گیا، ایسا ہی جیسا کہ اس کی ماں نے اسے جنا۔(صحیح بخاری کتاب المحصربَاب قَوۡل اللّٰہِ تَعَالٰی فَلَا رَفَثَ حدیث نمبر1819)گویا احرام باندھ کر انسان ایک نئی زندگی کی طرف سفرکا آغاز کرتا ہے جو گناہ آلود زندگی سے تقویٰ شعار زندگی کی طرف لے جانے والی سیدھی راہ ہے۔

ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بحالت کشف یا رؤیا دیکھا کہ وہ وادی میں اُتر رہے ہیں اور لَبَّیۡکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیۡک پکار رہے ہیں۔حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: موسیٰ ؑجب وادی میں اُترے تو وہ لبیک کہہ رہے تھے۔ گویا اَب بھی میں ان کو اُترتے دیکھ رہا ہوں۔(صحیح بخاری کتاب الحج باب اَلۡتَّلۡبِیَۃُ اِذَا انۡحَدَرَ فِی الۡوَادِیۡ حدیث نمبر:1555)

پس سفر حج کے دوران مختلف موقعوں پر تلبیہ دہرانا سنت ابرارہے۔پس محرم کے لیے ضرور ی ہے کہ ابتدائے احرام سے جمرۃ العقبۃ تک لَبَّیۡکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیۡکَ۔ لَبَّیۡکَ لَا شَرِیۡکَ لَکَ لَبَّیۡکَ… دہراتا رہے۔حضرت فضل بن عباسؓ سے رایت ہے رسول اللہ ﷺ نے مزدلفہ سے منیٰ تک مجھے اپنے ساتھ سواری پر بٹھالیا تھا۔ آپﷺ جمرۃ عقبہ کو کنکریاں مارنے تک لبیک کہتے رہے۔(جامع ترمذی اَبۡوَابُ الۡحَجِّ بَابُ مَاجَآئَ مَتٰی یُقۡطَعُ التَّلۡبِیَۃُ فِی الۡحَجِّ)

(جاری ہے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button