حج و عمرہمتفرقمتفرق مضامینمضامین

حج اور مقاماتِ حج کا تعارف(قسط اوّل)

(ظہیر احمد طاہر ابن نذیر احمد خادم۔جرمنی)

یقیناً پہلا گھر جو بنی نوع انسان (کے فائدے ) کے لئے بنایا گیا وہ ہے جو بَکَّہ میں ہے(آل عمران:97)

’’کوئی مسلمان خانہ کعبہ کی پرستش نہیں کرتا اور نہ حجر اسود سے مرادیں مانگتا ہے‘‘

مکہ مکرمہ اور اس کے ارد گرد کی بابرکت سرزمین ابتدائے آفرینش سے خدائے ازل لم یزل کی نگاہِ خاص کامورد بن کر رہتی دنیا تک مرکز توحید کے درجہ پر فائز ہوگئی ہے۔یہی وہ بابرکت شہر اور بستی ہے جو ابتدائے دنیا سے ارضِ حرم اور حج کا مقام ہے۔یہ وہ مقدس سر زمین اور علاقہ ہے جو اپنے دامن میں والہانہ عشق ومحبت کی بے شمار اور ان گنت داستانوں کو سموئے ہوئے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ارضِ پاک ہمیشہ سے بندگانِ خدا کی خاص توجہ کا مرکز رہی ہے۔ اسی بستی میںوہ مرکز توحید موجود ہے جو بیت (گھر)، بیت اللہ ( اللہ کا گھر)، بیت الحرام ( حرمت والا گھر)، مسجد حرام ( حرمت والی مسجد )، بیت عتیق (پرانا گھر) اور قبلہ جیسے مبارک ناموں سے موسوم ہے۔

اس قدیم گھر کی وجہ سے اس علاقے کو ’’حرم ‘‘کا درجہ ملا جس بنا پر اس میں موجود ہر چیز کو امن وامان حاصل ہوگیا۔ یہاں تک کہ اس میں موجود درخت اور خود رَو نباتات بھی کاٹے جانے سے محفوظ ہوگئے نیز پرندوں اور جانورں کو بھی امان حاصل ہوئی۔نہ تو انہیں مارا جاسکتا ہے اور نہ ہی ڈرایا بھگایاجاتا ہے۔ سوائے موذی جانوروں اور کیڑے مکوڑوں کے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے :وَمَنۡ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا (آل عمران:98) اور جو بھی اس میں داخل ہوا وہ امن پانے والا ہوگیا۔ آنحضرت ﷺنے صرف اذخر نامی گھاس کو اس کی افادیت اور گھروںمیں استعمال کی وجہ سے کاٹنا جائز قرار دیا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے : مجھے صرف یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں اِس شہر کے ربّ کی عبادت کروں جس نے اِسے حرمت بخشی ہے اور ہر چیز اُسی کی ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں فرمانبرداروں میں سے ہوجاؤں۔ (النمل:92) ایک اور مقام پر فرمایا:کیا ہم نے انہیں پُر امن حرم میں سکونت نہیں بخشی جس کی طرف ہر قسم کے پھل لائے جاتے ہیں (یہ ) ہماری طرف سے بطور رزق (ہیں)۔لیکن ان میں سے اکثر علم نہیں رکھتے۔(القصص:58)

یہ بھی پڑھیے:

حج اور مقامات حج کا تعارف(قسط دوم)

حج اور مقامات حج کا تعارف(قسط سوم)

حج اور مقامات حج کا تعارف(قسط چہارم۔آخری)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے دن فرمایا: اس شہر کو اللہ نے حرم قرار دیا ہے۔ اس کا کانٹا نہ توڑا جائے اور نہ اس کا شکار بھگایا جائے اور نہ اس کی گری پڑی چیز کوئی اُٹھائے، سوائے اس شخص کے جو اُس کی شناخت کرائے (تاجس کی ہو اُس کو پہنچ جائے۔)(صحیح بخاری کتاب الحج بَاب فَضۡلُ الۡحَرَمِ حدیث نمبر1587)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فتح مکہ کے دن فرمایا:…یہ وہ شہر ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حرمت سے نوازا ہے، اس دن سے کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور وہ اللہ کی اس حرمت سے قیامت کے دن تک حرمت والا رہے گا۔ مجھ سے پہلے کسی کے لیے اس میں لڑائی جائز نہیں ہوئی اور مجھے بھی صرف ایک دن کی ایک گھڑی (لڑائی کی ) اجازت دی گئی ہے۔ سو وہ اللہ کی حرمت کی وجہ سے قیامت تک (اپنی حرمت) پر قائم رہے گا۔ اس کا کانٹا نہ توڑا جائے گا۔ اس کا شکار نہ چونکایا جائے گااور اس کی گری پڑی چیز نہ اُٹھائی جائے، اس شخص کے سوا جو اس چیز کو پہچانے اور اس کی گھاس نہ کاٹی جائے۔ حضرت عباسؓ نے کہا: یارسول اللہ! مگر اذخر گھاس کیونکہ وہ ان کے لوہاروں اور ان کے گھروں کے استعمال کی چیز ہے۔ (روای نے ) کہا: آپؐ نے فرمایا : اذخر کے سوا۔(صحیح بخاری کتاب جزاء الصیدبَاب لَا یَحِلُّ الۡقِتَالُ بِمَکَّۃَ حدیث نمبر1834)

عربی زبان میں ’’حرم ‘‘قابل تعظیم اور محفوظ شے کو کہتے ہیں۔ جس کی حمایت اور حفاظت اور ادب ہر انسان کے لیے ضروری ہو۔ شرعی اصطلاح میں حرم سے مرادبیت اللہ کا وہ احاطہ ہے جسے بیت اللہ کی وجہ سے حرم یعنی قابل ادب اور امن کی جگہ بنا دیا گیا ہے۔ یہاں ہر قسم کا جنگ و جدال اور خلافِ شریعت فعل قطعاًممنوع ہے۔ حرم کا یہ مفہوم مکہ مکرمہ اور اس کے مضافات پر بھی اطلاق پاتا ہے۔ مکہ مکرمہ کے خاص علاقے اور شکار گاہیں وغیرہ بھی حرم میں شامل ہیں۔ پس ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ حرم کے آداب کو ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھے اور اس کے اندر محرماتِ الٰہیہ کا خاص پاس رکھتے ہوئے اس کے امن میں کسی قسم کی رخنہ اندازی نہ کرے بلکہ حرم کے اندر خشوع وخضوع اور توجہ کے ساتھ عبادت کرے اوراپنی تمام تر توجہ ذکر الٰہی اور دعاؤں کی طرف مرکوز رکھے۔

حرم کی حدود مکہ مکرمہ کے چاروں طرف پھیلی ہوئی ہیں البتہ یہ حدود ہر طرف ایک جیسی نہیں ہیں۔ اسی وجہ سے مکہ مکرمہ کی طرف آنے والے بڑے بڑے راستوں پر حدود حرم کی نشاندہی کرکے نشانات لگادیے گئے ہیںتاکہ حرم کے علاقے کا تعین ہوسکے۔اس وقت حدودِ حرم اور مسجد حرام کی درمیانی مسافت نئے راستوں کے ذریعہ اس طرح ہے۔مدینہ منورہ روڈ (تنعیم کی سمت) 6.5کلومیٹر۔ جدہ ہائی وے کی طرف سے 22کلومیٹر۔ نئے لیث روڈ کی سمت 17 کلومیٹر۔طائف روڈ (طریق سیل کی سمت ) 12.85کلومیٹر۔(مکہ مکرمہ ماضی وحال کے آئینہ میں صفحہ39۔ سعودی عرب 2010ء )

مدینہ منورہ سے شائع ہونے والی ایک کتاب کے مطابق خانہ کعبہ سے مختلف جہتوںمیں حدود حرم کا فاصلہ اس طرح ہے:

اَلۡتَنۡعِیۡم(مسجد عائشہؓ) 7.5کلومیٹر

وادی نخلۃ 13کلومیٹر

اِضَا ۃُ لِبۡن (عقیشیہ) 16کلومیٹر

اَلۡجِعِرَّانَۃ 22کلومیٹر

اَلۡحُدَیۡبِیَۃ (الشمیسی) 22کلومیٹر

جبل عرفات 22کلومیٹر

(تاریخ مکہ مکرمہ از ڈاکٹر محمد الیاس عبدالغنی۔ مطابع الرشید مدینہ منورہ ایڈیشن2002ء صفحہ 16)

مسجد عائشہؓ(تنعیم)

یہ مسجدمسجدِ حرام سے جانب شمال مکہ، مدینہ روڈ پر ساڑھے سات کلومیٹرکی دوری پر واقع ہے۔حدودِ حرم میں سے سب سے نزدیک حدِّ حرم یہی ہے۔اس مبارک مسجد کی تعمیر اس جگہ پر ہوئی ہے جہاں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے سنہ 9ھ میں حج وداع کے موقع پر عمرہ کے احرام کی نیت کی تھی۔(صحیح بخاری کتاب الحج،باب اَلۡحَجُّ عَلَی الرَّحۡلِ حدیث نمبر 1518)

بعدازاں محمد بن علی شافعی نے اس جگہ مسجد تعمیر کی۔ اس مسجد کی نئی توسیع شاہ فہد بن عبدالعزیز کے دَور میں ہوئی ہے۔ مسجد کا کل رقبہ مع ملحقات 84500 مربع میٹر ہے، مسجد کی تعمیر چھ ہزار مربع میٹر پر ہے،اس مسجد میں پندرہ ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے۔

جِعرانہ

جِعرانہ مسجد حرام سے شمال مشرق سمت میں 24 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک بستی کانام ہے۔ایک سڑک اس کو مکہ سے ملاتی ہے، یہاں کا پانی اپنی شیرینی میں ضرب المثل ہے، یہاں ایک مسجد ہے جہاں سے اہل مکہ عمرہ کی نیت کرتے ہیں۔مسجد کا رقبہ 430 مربع میٹر ہے اور ایک ہزار نمازی اس میں نماز پڑھ سکتے ہیں۔

حدیبیہ

یہ جگہ حدود حرم سے باہر مکہ جدہ کی قدیم شاہراہ پر ایک مقام ہے، یہاں حدیبیہ نام کا ایک کنواں ہے جس کی نسبت کی وجہ سے جگہ کا نام بھی حدیبیہ پڑ گیا۔آج کل یہ جگہ شمیسی کے نام سے معروف ہے، یہ نسبت بھی شمیسنامی کنویں کی وجہ سے ہے۔ اس جگہ ایک نئی مسجد تعمیر کی گئی ہے، یہ جگہ مسجد حرام سے چوبیس کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اور یہاں سے حرم کی حدود دو کلومیٹر پر واقع ہیں،اس جگہ پر ایک قدیمی مسجد کے آثار بھی ملتے ہیں جو پتھر اور چونے سے تعمیر کی گئی تھی۔

مقام نخلہ

مکہ اور طائف کے درمیان نخلہ ایک مقام ہے جو مشرق اور شمال کی سمت میں حرم مکہ کی حد ہے۔اس کی دو جہتیں ہیں ایک جہت نخلہ یمانی کہلاتی ہے، یہ طائف سے بائیں ہاتھ پر ہے اوردوسرے کو نخلہ شامی کہتے ہیں اس کادوسرا نام مضیق ہے جومکہ سے 45کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔ ان دونوں نخلوں، یمانی وشامی کو ایک طویل پہاڑی سلسلہ ایک دوسرے سے جدا کرتا ہے جس کانام ’’وادۃ‘‘ ہے اس مقام نخلہ پر رسول کریمﷺ نبوت کے دسویں سال مشہور سفر طائف سے واپسی پر ٹھہرے تھے۔نخلہ سے حدودِ حرم کی نشاندہی 13کلومیٹر کے فاصلہ پر کی گئی ہے۔

اضاۃ لبن

یہ ایک جھیل نما مقام ہے، لبن دودھ کو کہتے ہیں اس کے نزدیک پہاڑ کا رنگ سفیدی مائل ہے۔ اس مناسبت سے اس جگہ کو اس نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔یہ جنوبی سمت میں حدِحرم ہے،یہاں سے مسجد حرام کی مسافت 16کلومیٹر ہے۔آج کل یہ جگہ عقیشیہکے نام سے معروف ہے۔

اہل حرم

اہل حرم سے مراد وہ لوگ ہیں جو مکہ مکرمہ میں مستقل یا عارضی طور پر قیام پذیرہیں، اسی طرح وہ لوگ بھی اہل حرم کہلاتے ہیں جو حدود حرم کے اندر رہتے ہیں، یہ حضرات حج کا احرام اپنی رہائش گاہ سے ہی باندھیں گے، البتہ عمرے کے لیے انہیں حرم کی کسی حد پر جاکر احرام باندھنا ہوگا۔

اہل حِلّ

وہ لوگ اہل حِلّ کہلاتے ہیں جن کی رہائش میقات اور حدحرم کے درمیان ہو۔ یہ لوگ حج وعمرہ کا احرام اپنے گھر سے باندھیں گے۔

آفاقی

وہ لوگ جو حدودِ میقات سے باہر رہتے ہیں، وہ حج وعمرہ کا احرام اپنے اپنے میقات سے باندھیں گے۔(تاریخ مکہ مکرمہ از ڈاکٹر محمد الیاس عبدالغنی ایڈیشن2002ء صفحہ 16تا 24)

نوع انسان کی ہدایت کے اس مرکز کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :اِنَّ اَوَّلَ بَیۡتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیۡ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًا وَّہُدًی لِّلۡعٰلَمِیۡنَ۔ فِیۡہِ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبۡرٰہِیۡمَ ۬ۚ وَمَنۡ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا…۔(آل عمران:97تا98)یقیناً پہلا گھر جو بنی نوع انسان (کے فائدے ) کے لئے بنایا گیا وہ ہے جو بَکَّہمیں ہے۔ (وہ) مبارک اور باعثِ ہدایت بنایا گیا تمام جہانوں کے لئے۔اس میں کھلے نشانات ہیں (یعنی) ابراہیم کا مقام۔ اور جو بھی اس میں داخل ہوا وہ امن پانے والا ہوگیا۔

خانہ کعبہ وہ پہلا گھر ہے جوخالصتاً اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے تعمیر کیا گیا۔ یہی وہ مبارک گھر ہے جس کے طواف کا دنیا کے تمام انسانوں کوحکم دیا گیاتاکہ اُن کی روح کی کثافتیں دور ہوں اور اُنہیںپاکی اور پاکیزگی عطا ہو۔وَلۡیَطَّوَّفُوۡا بِالۡبَیۡتِ الۡعَتِیۡقِ۔(الحج:30)اور اس قدیم گھر کا طواف کریں۔

دنیا بھر کے مسلمان اسی مقدس اور بابرکت گھر کی طرف منہ کرکے نمازیں پڑھتے،قیام اور رکوع وسجود کرتے ہوئے اپنے پروردگار کی عظمت اور بڑائی بیان کرتے ہیں۔وہ اُس سے بخشش طلب کرتے اور اُس کے آگے اپنی حاجتیں پیش کرتے ہوئے دنیا و آخرت میں حسنات کے عطا ہونے کے امیدوار ہوتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ فرماتاہے: فَوَلِّ وَجۡہَکَ شَطۡرَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِؕ وَحَیۡثُ مَا کُنۡتُمۡ فَوَلُّوۡا وُجُوۡہَکُمۡ شَطۡرَہٗ۔(البقرۃ:145) پس اپنا منہ مسجدِ حرام کی طرف پھیرلے۔اور جہاں کہیں بھی تم ہو اسی کی طرف اپنے منہ پھیرلو۔

غرض یہ مقدس گھر، یہ شہر اور اس کے ارد گرد مقامات ایسی جگہیں ہیں جہاں اللہ تعالیٰ کے سینکڑوں عظیم الشان نشان ظاہر ہوئے۔ اس جگہ کا چپہ چپہ گواہ ہے کہ جولوگ اللہ تعالیٰ کی خاطر قربانیاں دیتے اور اُس کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں کبھی ضائع نہیں ہونے دیتابلکہ وہ حیاتِ جاودانی سے ہمکنار کر دیے جاتے ہیں۔یہ وہ جگہ ہے جہاں اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میںسے متعدد نشانیاں موجود ہیں جن کو دیکھنے سے انسان کو یقین محکم حاصل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان نشانیوں کی یاد کو تازہ کرنے، اپنے ایمانوں کی مضبوطی اور ان کی حلاوت کے لیے مسلمانوں کو حکم دیا گیاکہ وہ کعبہ اور دوسرے شعائر اللہ کی زیارت کریں اوراپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ کس طرح خدا تعالیٰ نے اپنے تمام وعدوں کو پورا کردکھایاہے۔

بیت اللہ کا مختصر تعارف

بیت اللہ توحید باری تعالیٰ کا پہلا گھر ہے جواللہ تعالیٰ کو یاد کرنےاوراس کے ذکر کو بلند کرنے کے لیے تعمیر کیا گیا ۔یہی وہ مبارک گھر ہے جس کے بارے میں دنیا بھر کے مسلمانوں کو یہ حکم ہوا کہ وہ نمازقائم کرتے وقت اپنا رُخ اس کی طرف کرلیاکریں۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:فَوَلِّ وَجۡہَکَ شَطۡرَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِؕ وَحَیۡثُ مَا کُنۡتُمۡ فَوَلُّوۡا وُجُوۡہَکُمۡ شَطۡرَہٗ۔(البقرۃ:145)پس اپنا منہ مسجدِ حرام کی طرف پھیر لے۔ اور جہاں کہیں بھی تم ہو اسی کی طرف اپنے منہ پھیر لو۔اس مبارک گھر کی بلندی 14 میٹر ہے۔اس کی دیواریں یکساں نہیں بلکہ اُن میں فرق ہے۔چنانچہ دروازے کی سمت والی دیوار کا عرض 11.68 میٹر ہے، حجر(حطیم) کی سمت والی دیوار 9.9 میٹر ہے،رکن شمالی اور رکن یمانی کے درمیان والی دیوار کا عرض 12.04میٹر ہے جبکہ حجر اسود اور رکن یمانی والی دیوار کا عرض 10.18میٹر ہے۔کعبہ کا مشرقی کونہ حجر اسود والا رکن کہلاتا ہے جبکہ کعبہ کا شمالی کونہ رکن عراق،مغربی سمت والا کونہ رکن شامی اور جنوبی سمت میں خانہ کعبہ کا کونہ رکن یمانی کہلاتا ہے۔(مکہ مکرمہ ماضی وحال کے آئینہ میں۔تالیف محمود محمد حمو۔سن اشاعت 2010ء سعودی عرب صفحہ 44)

مکہ مکرمہ کا محل وقوع

مکہ مکرمہ سعودی عرب کی مغربی سمت میں سرزمین حجاز کی ایک ایسی وادی میں واقع ہے جو چاروں طرف سے پہاڑوں میں گھری ہوئی ہے۔ مکہ مکرمہ کا ہموار نشیبی علاقہ ’’بطحا‘‘کے نام سے جانا جاتا ہے۔اس کے مشرقی حصے کو ’’معلاۃ‘‘ (بلند جگہ) کہا جاتا ہے جبکہ مغربی اور جنوبی سمت کا علاقہ ’’مسفلہ‘‘(نشیبی زمین) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ نبی کریم ﷺ اہل معلاۃسے تھے۔ وہیں آپؐ کی جائے پیدائش ہے اور ہجرت سے پہلے تک آپؐ یہیں قیام پذیر رہے۔

مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کے لیے تین اہم راستے معلاۃ، مسفلہاور شبیکہ ہیں۔ سطح سمندر سے اس کی بلندی تین سو میٹر سے زیادہ ہے جبکہ یہ کرۂ ارضی کا وسط اور اس کا درمیانی مقام ہے۔(تاریخ مکہ مکرمہ مصنفہ محمد الیاس عبدالغنی۔ ایڈیشن اوّل 2002ء صفحہ 7)

قرآن کریم میں مذکور مکہ مکرمہ کے نام

قرآن کریم میں اس مقدس و بابرکت شہر کو مختلف ناموں سے موسوم کیا گیا ہے جس میں سے چند ایک کا ذیل میں ذکر کیا جارہاہے۔(نوٹ:آیات کا ترجمہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا بیان فرمودہ ہے)

٭…بکَّۃَ:مکہ مکرمہ کا قدیمی نام بکہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :اِنَّ اَوَّلَ بَیۡتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیۡ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًا وَّہُدًی لِّلۡعٰلَمِیۡنَ۔(آل عمران :97)یقیناً پہلا گھر جو بنی نوع انسان (کے فائدے) کے لئے بنایا گیا وہ ہے جو بَکَّہ میں ہے۔ (وہ ) مبارک اور باعثِ ہدایت بنایا گیا تمام جہانوں کے لئے۔

٭…مکۃ:اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:وَہُوَ الَّذِیۡ کَفَّ اَیۡدِیَہُمۡ عَنۡکُمۡ وَاَیۡدِیَکُمۡ عَنۡہُمۡ بِبَطۡنِ مَکَّۃَ مِنۡۢ بَعۡدِ اَنۡ اَظۡفَرَکُمۡ عَلَیۡہِمۡ (الفتح:25)اور وہی ہے جس نے اُن کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ اُن سے وادیٔ مکہ میں روک دیئے تھے، بعد اس کے کہ اس نے تمہیں ان پر کامیابی عطا کی۔

٭…اُمُّ الْقُریٰ:فرمایا:وَہٰذَا کِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰہُ مُبٰرَکٌ مُّصَدِّقُ الَّذِیۡ بَیۡنَ یَدَیۡہِ وَلِتُنۡذِرَ اُمَّ الۡقُرٰی وَمَنۡ حَوۡلَہَا…۔ (الانعام:93)اور یہ ایک مبارک کتاب ہے جسے ہم نے اُتارا۔ اس کی تصدیق کرنے والی ہے جو اس کے سامنے ہے تاکہ تُو بستیوں کی ماں اور اس کے اردگرد بسنے والوں کو ڈرائے۔

وَکَذٰلِکَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ قُرۡاٰنًا عَرَبِیًّا لِّتُنۡذِرَ اُمَّ الۡقُرٰی وَمَنۡ حَوۡلَہَا۔(شوریٰ:8)اور اسی طرح ہم نے تیری طرف عربی قرآن وحی کیا تاکہ تو بستیوں کی ماں کو اور جو اسکے اردگرد ہیں ڈرائے۔

٭…اَلْبَلَد:وَاِذۡ قَالَ اِبۡرٰہِیۡمُ رَبِّ اجۡعَلۡ ہٰذَا الۡبَلَدَ اٰمِنًا…۔(ابراھیم:36)اور (یاد کرو) جب ابراہیم نے کہا اے میرے ربّ! اس شہر کو امن کی جگہ بنادے۔

٭…واد غیر ذی زرع:رَبَّنَاۤ اِنِّیۡۤ اَسۡکَنۡتُ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ بِوَادٍ غَیۡرِ ذِیۡ زَرۡعٍ عِنۡدَ بَیۡتِکَ الۡمُحَرَّمِ…۔(ابراھیم:38)اے ہمارے ربّ! یقیناً میں نے اپنی اولاد میں سے بعض کو ایک بے آب وگیاہ وادی میں تیرے معزز گھر کے پاس آباد کردیا ہے۔

٭…اَلْبَلْدَۃ:اِنَّمَاۤ اُمِرۡتُ اَنۡ اَعۡبُدَ رَبَّ ہٰذِہِ الۡبَلۡدَۃِ الَّذِیۡ حَرَّمَہَا وَلَہٗ کُلُّ شَیۡءٍ…۔(النمل:92)مجھے صرف یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں اِس شہر کے ربّ کی عبادت کروں جس نے اِسے حرمت بخشی ہے اور ہر چیز اُسی کی ہے۔

٭…حرم امن:اَوَلَمۡ نُمَکِّنۡ لَّہُمۡ حَرَمًا اٰمِنًا۔ (القصص:58) کیا ہم نے انہیں پُر امن حرم میں سکونت نہیں بخشی۔

٭…معاد:اِنَّ الَّذِیۡ فَرَضَ عَلَیۡکَ الۡقُرۡاٰنَ لَرَآدُّکَ اِلٰی مَعَادٍ ؕ قُلۡ رَّبِّیۡۤ اَعۡلَمُ مَنۡ جَآءَ بِالۡہُدٰی وَمَنۡ ہُوَ فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ۔ (القصص:86)یقیناً وہ جس نے تجھ پر قرآن کو فرض کیا ہے تجھے ضرور ایک واپس آنے کی جگہ کی طرف واپس لے آئے گا۔ تُو کہہ دے میرا ربّ اسے زیادہ جانتا ہے جو ہدایت لے کر آتا ہے اور اسے بھی جو کھلی کھلی گمراہی میں ہے۔

٭…قریۃ: وَکَاَیِّنۡ مِّنۡ قَرۡیَۃٍ ہِیَ اَشَدُّ قُوَّۃً مِّنۡ قَرۡیَتِکَ الَّتِیۡۤ اَخۡرَجَتۡکَ…۔(محمد:14)اور کتنی ہی بستیاں تھیں جو تیری (اِس ) بستی سے زیادہ طاقتور تھیں جس نے تجھے نکال دیا۔

٭…مسجدالحرام:لَقَدۡ صَدَقَ اللّٰہُ رَسُوۡلَہُ الرُّءۡیَا بِالۡحَقِّ ۚ لَتَدۡخُلُنَّ الۡمَسۡجِدَ الۡحَرَامَ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ اٰمِنِیۡنَ…۔ (الفتح:28)یقیناً اللہ نے اپنے رسول کو (اس کی) رؤیا حق کے ساتھ پوری کر دکھائی کہ اگر اللہ چاہے گا تو تم ضرور بالضرور مسجدِ حرام میں امن کی حالت میں داخل ہوگے۔

٭…البلدالامین:وَالتِّیۡنِ وَالزَّیۡتُوۡنِ۔وَطُوۡرِ سِیۡنِیۡنَ۔ وَہٰذَا الۡبَلَدِ الۡاَمِیۡنِ۔(التین:1تا4)قَسم ہے انجیر کی اور زیتون کی۔ اور طورِ سینین کی۔اور اس امن والے شہر کی۔

حج کیا ہے؟

اَلۡحَج کے لغوی معنے قصد کرنا، بار بار آنا اور متوجہ کرنابیان ہوئے ہیں جبکہ اصطلاحِ شریعت میں بیت اللہ کی زیارت کرنا اور اس کے متعلقہ اعمال، طواف وغیرہ بجالانامراد ہے۔(فتح الباری جزء 3صفحہ 476)حج ایک ایسی عبادت ہے جو دنیا بھر کے مسلمانوں کے اتحاد،یگانگت اور وحدت کو ظاہر کرتی ہے جہاں ہر ملک وقوم اور رنگ ونسل سے تعلق رکھنے والا مسلمان کسی بھی امتیاز اور فرق کے بغیر ایک نقطۂ اتحاد پر حاضرہوکر خدائے واحدویگانہ کے لیے اپنی تمام خواہشوں،اُمنگوں اور ارادوں سے الگ ہوجاتا ہے اور لبّیک اللّٰھم لبّیک کاوِرد کرتے ہوئے اپنے مالک حقیقی کی خاطر اپنے جسم وروح کوکلیۃً اُس کی مرضی کے تابع کرلیتا ہے۔ دراصل یہی جذبہ اسلامی عبادات کی حقیقی روح اوراس کا مرکزی نقطہ ہے۔

اگر ہر مسلمان اسلام کے مفہوم کو اچھی طرح سمجھ لے توہرعبادت بجالاتے ہوئے اُس کی روح اُن وجد آمیز کیفیات سے لطف اندوز ہوسکتی ہے جو اُس کی پیدائش کا اوّلین مقصد اور اُس کی حیات کی علّت غائی ہے۔اس لیے اسلام کو اچھی طرح سمجھنا اور اُس کے مناسب حال عمل ہر مسلمان کے لیے ایک ایسے سفر کا آغاز ہوگا جواُسے تاریکی کے اندھیروں سے نکال کر روشنیوں اور نور کی طرف لے جانے والا ہوگا۔

اسلامی عبادتیں دو قسم کی ہیں۔ ایک وہ عبادت جو کامل اطاعت پر مبنی ہے۔ جس میں خدا اور بندے کے درمیان آقا اور غلام کا تعلق قائم رکھنا مقصود ہے۔ ایسی عبادت بجالاتے ہوئے غلام خالصتاً اپنے آقا کی مرضی کے تابع ہوتا ہے۔ یعنی اس کا صرف یہ کام ہے کہ جو مالک چاہے وہی کرے اور اُس کے حکم سے ذرہ برابر اِدھر اُدھر نہ ہو۔اس کا نمونہ اسلامی نماز میں بجا طور پر دیکھا جاسکتا ہے یعنی ایک مسلمان اِیَّاکَ نَعۡبُدُ کے اقرار کے سااتھ اپنی عبودیت کا اقرار کرتے ہوئے یہ عہد کرتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے تمام احکام کو بجالائے گا اور اپنی نفسانی خواہشات کو درمیان میں نہیں لائے گا۔ یہ اسلامی عبادت تکبیر تحریمہ کے ساتھ شروع کی جاتی ہے۔ جس کے بعد نماز پڑھنے والا اپنی تمام تر توجہ عبادت کی طرف مرکوز رکھتا ہے اس کے سوا ہر دوسری بات اُس پر حرام ہوجاتی ہے۔

جبکہ دوسری عبادت اپنے اندر عاشقانہ رنگ رکھتی ہے اور اس عبادت کا تعلق حج اور عمرےسے ہے جس کا آغاز تلبیہ سے ہوتا ہے۔ اس عبادت میں جذبہ محبت و عشق شیفتگی اور وارفتگی کا کامل مفہوم پایا جاتا ہے۔ ایک مسلمان دنیوی عیش و عشرت سے دستکش ہوکر کفن کی طرح دو اَن سلی چادریں اپنے اوپر لپیٹ کر ننگے سر اپنے محبوب ازلی کی طرف دیوانہ وار لپکتا اور وارفتگی کے عالم میں بار بارلَبَّیۡکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیۡکَ۔ لَبَّیۡکَ لَا شَرِیۡکَ لَکَ لَبَّیۡککا وِرد کرتا اور اپنا سب کچھ اُس پر نثار کرنے کو تیار ہوجاتا ہے۔

پس حج ایک عاشقانہ عبادت ہے جس طرح ایک انسان کسی سے محبت کرنے لگتا ہے اور اُس کا عاشق جاںنثاربن جاتا ہے تو وہ ا پنے محبوب کی خوشی اور خوشنودی کے لیے ہر طرح کے جتن کرتا اور اُس کو خوش کرنے کے لیے ہرحربہ استعمال کرتا ہے۔وہ دیوانوں کی طرح در محبوب کے چکر لگاتا اور اُس کے دیدار کے لیے ہر وقت بیتاب رہتاہے۔یہاں تک کہ وہ اپنے محبوب سے تعلق رکھنے والی چیزوں سے والہانہ پیار کرتا اور انہیں اپنے سینے سے لگاکر الفت کا اظہار کرتا ہے تاکہ اس کی ان ادائوںسے اس کا محبوب خوش ہوجائے اور اس کے پیار کی نظریں اُس پر پڑیں۔بالکل اسی طرح خدا تعالیٰ کے عاشق جاںنثارحج کے دوران تمام دنیاوی خواہشوں سے الگ تھلگ ہوکر اپنا سب کچھ اپنے محبوب پر نثار کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ اُن کا جسم ا و رروح عاشقوں کی طرح درِ محبوب کے گرد چکر لگاتی اور اپنے ولولہ عشق کو ظاہر کرتی ہے۔

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام حج کی اسی حکمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’محبت کے عالم میں انسانی روح ہر وقت اپنے محبوب کے گرد گھومتی ہے اور اس کے آستانہ کو بوسہ دیتی ہے۔ ایسا ہی خانہ کعبہ جسمانی طور پر محبان صادق کے لئے ایک نمونہ دیاگیا ہے اور خدا نے فرمایا کہ دیکھو یہ میرا گھر ہے اور یہ حجرِ اسود میرے آستانہ کا پتھر ہے اور ایسا حکم اِس لئے دیا کہ تا انسان جسمانی طور پر اپنے ولولہ عشق اور محبت کو ظاہر کرے سو حج کرنے والے حج کے مقام میں جسمانی طور پر اُس گھرکے گرد گھومتے ہیں ایسی صورتیں بنا کر کہ گویا خدا کی محبت میں دیوانہ اور مست ہیں۔ زینت دُور کردیتے ہیں سر منڈوادیتے ہیں اور مجذوبوں کی شکل بنا کر اس کے گھر کے گرد عاشقانہ طواف کرتے ہیں اور اس پتھر کو خدا کے آستانہ کا پتھر تصور کرکے بوسہ دیتے ہیں اور یہ جسمانی ولولہ رُوحانی تپش اور محبت کو پیدا کردیتا ہے اور جسم اس گھر کے گرد طواف کرتا ہے اور سنگ آستانہ کو چومتا ہے اور رُوح اُس وقت محبوب حقیقی کے گرد طواف کرتا ہے اور اس کے رُوحانی آستانہ کو چومتا ہے اور اس طریق میں کوئی شرک نہیں ایک دوست ایک دوست جانی کا خط پاکر بھی اُس کو چومتا ہے کوئی مسلمان خانہ کعبہ کی پرستش نہیں کرتا اور نہ حجر اسود سے مرادیں مانگتا ہے بلکہ صرف خدا کا قرار دادہ ایک جسمانی نمونہ سمجھا جاتاہے وبس۔ جس طرح ہم زمین پر سجدہ کرتے ہیں مگر وہ سجدہ زمین کے لئے نہیں ایسا ہی ہم حجر اسود کو بوسہ دیتے ہیں مگر وہ بوسہ اس پتھر کے لئے نہیں پتھر تو پتھر ہے جو نہ کسی کو نفع دے سکتا ہے نہ نقصان مگر اُس محبوب کے ہاتھ کا ہے جس نے اُس کو اپنے آستانہ کا نمونہ ٹھہرایا۔‘‘(چشمۂ معرفت، روحانی خزائن جلد 23صفحہ 100تا101)

خانہ کعبہ وہ پہلا گھر ہے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے تعمیر کیا گیا۔ اسی کا نام بیت اللہ، بیت العتیق، بیت المعمور اور کعبہ ہے۔ تمام دنیا کے مسلمان اسی کی طرف منہ کرکے نمازیں پڑھتے ہیں۔ غرض یہ گھر، یہ شہر اور اس کے مقامات ایسی جگہیں ہیں جہاں اللہ تعالیٰ کے سینکڑوں عظیم الشان نشان ظاہر ہوئے۔ اس جگہ کا چپہ چپہ گواہ ہے کہ جولوگ اللہ تعالیٰ کی خاطر قربانیاں دیتے ہیں انہیں کبھی ضائع نہیں کرتا۔ ان شعائراللہ کی یاد تازہ کرنے اوریقین محکم حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کو حکم ہوا کہ وہ کعبہ اور دوسرے شعائر اللہ کی زیارت کریں تاکہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ سچے وعدوں والا خدا اپنے وعدوں کو کس طرح پورا کیا کرتا ہے۔

(جاری ہے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button