متفرق مضامین

خلفائےاحمدیت کا ایٹمی جنگ کے بارے دنیا کو واضح انذار

(’در مکنون‘)

’’پس تیسری عالمگیر تباہی کی انتہا اسلام کے عالمگیر غلبہ اور اقتدار کی ابتدا ہو گی اور اس کے بعد بڑی سرعت کے ساتھ اسلام ساری دنیا میں پھیلنا شروع ہو گا اور لوگ بڑی تعداد میں اسلام قبول کر لیں گے اور یہ جان لیں گے کہ صرف اسلام ہی ایک سچا مذہب ہے اور یہ کہ انسان کی نجات صرف محمد رسول اللہؐ کے پیغام کے ذریعہ حاصل ہو سکتی ہے‘‘(حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو متعدد بار یہ الہام ہوا کہ ’’دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا۔ لیکن خدا اسے قبول کرے گا۔ اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا‘‘(تذکرہ صفحہ104،ایڈیشن چہارم1977ء)

آپ علیہ السلام نے ساری زندگی مسلمانوں کو بھی اور ساری دنیا کو بھی بار بار انذار کیا کہ اگر انہوں نے توبہ نہ کی اور سچے خدا پر اور اس کے رسولﷺ اور وقت کے امام پر ایمان نہ لائے تو اللہ تعالیٰ کے سخت عذاب میں گرفتار ہوں گے۔ آپ کی زندگی میں بھی زلزلوں،طوفانوں اور خوفناک وبا جیسے عذاب آئے جن کے نتیجے میں بہت سے ہلاک ہو گئے اور بہت سے توبہ کر کے امان پا گئے۔ ایک خوفناک عذاب کا بھی آپؑ نے ذکر فرمایا جس کو پڑھ کر ایٹمی جنگ کا نظارہ آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:’’اس قدر موت ہوگی کہ خون کی نہریں چلیں گی۔ اس موت سے پرند چرند بھی باہر نہیں ہوں گے اور زمین پر اس قدر سخت تباہی آئے گی کہ اس روز سے کہ انسان پیدا ہوا ایسی تباہی کبھی نہیں آئی ہوگی اور اکثر مقامات زیر و زبر ہو جائیں گے کہ گویا اُن میں کبھی آبادی نہ تھی اور اس کے ساتھ اور بھی آفات زمین اور آسمان میں ہولناک صورت میں پیدا ہوں گی یہاں تک کہ ہر ایک عقلمند کی نظر میں وہ باتیں غیر معمولی ہو جائیں گی اور ہیئت اور فلسفہ کی کتابوں کے کسی صفحہ میں اُن کا پتہ نہیں ملے گاتب انسانوں میں اضطراب پیدا ہوگا کہ یہ کیا ہونے والا ہے۔ اور بہتیرے نجات پائیں گے اور بہتیرے ہلاک ہو جائیں گے۔ وہ دن نزدیک ہیں بلکہ میں دیکھتا ہوں کہ دروازے پر ہیں کہ دنیا ایک قیامت کا نظارہ دیکھے گی…اے یورپ تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں۔ اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا۔ میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں۔ وہ واحدیگانہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اُس کی آنکھوں کے سامنے مکر وہ کام کئے گئے اور وہ چپ رہا مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا جس کے کان سُننے کے ہوں سُنے کہ وہ وقت دور نہیں۔ میں نے کوشش کی کہ خدا کی امان کے نیچے سب کو جمع کروں پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اِس ملک کی نوبت بھی قریب آتی جاتی ہے نوح کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آجائے گا اور لوط کی زمین کا واقعہ تم بچشم خود دیکھ لوگےمگر خدا غضب میں دھیما ہے توبہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے جو خدا کو چھوڑتا ہے وہ ایک کیڑا ہے نہ کہ آدمی اور جو اُس سے نہیں ڈرتا وہ مُردہ ہے نہ کہ زندہ۔‘‘(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ268تا269)

خلافت ثانیہ میں مورخہ6؍اگست 1945ء کو امریکہ نے جاپان کے شہر ہیروشیما پر ’’لٹل بوائے‘‘(Little Boy)نامی ایٹم بم گرایا تھا۔ دنیا کے اس پہلے ایٹمی حملے میں تقریباً ایک لاکھ 40 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے جب کہ ان گنت افراد اس صدمے سے سالوں تک نہیں نکل سکے۔ اب تک اس سے کئی گنا زیادہ طاقتور جوہری ہتھیار تیار ہو چکے ہیں اور دنیا کے متعدد ملکوں کے پاس سینکڑوں کی تعداد میں موجود ہیں۔

خلفائے جماعت احمدیہ تسلسل کے ساتھ دنیا کو اس خوفناک تباہی سے ہوشیار کرتے رہے ہیں کہ وہ توبہ کر کے اپنے پیدا کرنے والے کے حضور جھک جائے ورنہ اس تباہی سے بچ نہ سکیں گے۔ ذیل میں چند اقتباسات پیش کیے جاتے ہیں۔

سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا دنیا کو انذار

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سورہ قارعہ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’الْقَارِعَةُ وہ عذاب ہے جو کسی نبی کی صداقت کے اظہار کے لئے آئے…جب لوگ خدا تعالیٰ کے مامور کی آواز نہیں سنتے اور روحانی طور پر سوئے رہتے ہیں تو خدا تعالیٰ دستک دے کر جگانے کے لئے کچھ عذاب بھجواتا ہے۔ان دستکوں سے آخرو ہ روحانی نیند سے بیدار ہو جاتے ہیں اور رسول کی آواز سننے کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں ‘‘(تفسیر کبیر جلد 9 صفحہ508)

فرمایا:’’میں سمجھتا ہوں کہ القارعہسے ایٹم بم مراد ہے اور اس عذاب کی ساری کیفیت ایسی ہے جو ایٹم بم سے پیدا شدہ تباہی پر پوری طرح چسپاں ہوتی ہے۔یہ بم ایسا خطرناک اور تباہ کن ہے کہ اس سے بچنے کی سوائے اس کے اَور کوئی صورت نہیں کہ لوگ منتشر اور پراگندہ ہو جائیں۔ یہ بم جس جگہ گرتا ہے سات سات میل تک کا تمام علاقہ خس و خاشاک کی مانند جلا کر راکھ کر دیتا ہے۔ بلکہ ایٹم بم کے متعلق اب جو مزید تحقیق ہوئی ہے وہ بتاتی ہے کہ سات میل کا بھی سوال نہیں چالیس چالیس میل تک یہ ہر چیز کو اڑا کر رکھ دیتا ہے۔ ہیروشیما پر اٹومک بم گرایا گیا تو بعد میں جاپانی ریڈیو نے بیان کیا کہ اس بم سے ایسی خطرناک تباہی واقعہ ہوئی ہے کہ انسانوں کے گوشت کے لوتھڑے میلوں میل تک پھیلے ہوئے پائے گئے ہیں۔ یہ بالکل وہی حالت ہے جس کا قرآن کریم نے ان آیات میں ذکر فرمایا ہے کہ انسانوں کا وجود تک باقی نہیں رہے گا۔ ہڈی کیا اور بوٹی کیا سب باریک ذرات کی طرح ہو جائیں گے۔ اور پتنگوں کی مانند ہوا میں اڑتے پھریں گے۔‘‘(تفسیر کبیر جلد 9 صفحہ 515)

فرمایا:’’غرض الْقَارِعَةُ وہ عذاب ہے جو موجودہ زمانہ میں ایٹم بم کی صورت میں ظاہر ہوا۔اور جس کے ہولناک نتائج آج دنیا پر ظاہر ہو چکے ہیں۔لیکن ابھی کیا ہے ابھی تو صرف ایک قدم اٹھایا گیا ہے پھر اور ایجادات ہوں گی پھر اور ہوں گی یہاں تک کہ انہی ایجادات کی لپیٹ میں یوروپین اقوام اپنے آپ کو تباہ کر لیں گی۔ سو سنا ر کی اور ایک لوہار کی ضرب المثل کے ماتحت آخری حملہ خدا تعالیٰ کا ہو گا اور جن لوگوں کے اعمال کو حقیقی وزن حاصل ہو گا وہ جیت جائیں گے اور دنیا پر ان کو غلبہ و اقتدار حاصل ہو جائے گا۔‘‘(تفسیر کبیر جلد 9 صفحہ522)

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کا انذار

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے مورخہ 28؍جولائی 1967ء کو وانڈز ورتھ ٹاؤن ہال لنڈن میں ایک تاریخی خطاب فرمایا جو ’’امن کا پیغام اور ایک حرف انتباہ ‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ اس میں آپؒ فرماتے ہیں:’’پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک تیسری جنگ کی بھی خبر دی ہے جو پہلی دونوں جنگوں سے زیادہ تباہ کن ہو گی۔ دونوں مخالف گروہ ایسے اچانک طور پر ایک دوسرے سے ٹکرائیں گے کہ ہر شخص دم بخود رہ جائے گا۔ آسمان سے موت اور تباہی کی بارش ہو گی اور خوفناک شعلے زمین کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔نئی تہذیب کا قصر عظیم زمین پر آ رہے گا۔ دونوں متحارب گروہ یعنی روس اور اس کے ساتھی اور امریکہ اور اس کے دوست ہر دو تباہ ہو جائیں گے ان کی طاقت ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گی۔ ان کی تہذیب و ثقافت برباد اور ان کا نظام درہم برہم ہو جائے گا۔ بچ رہنے والے حیرت اور استعجاب سے دم بخود اور ششدر رہ جائیں گے۔

روس کے باشندے نسبتاً جلد اس تباہی سے نجات پائیں گے اور بڑی وضاحت سے یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ اس ملک کی آبادی پھر جلد ہی بڑھ جائے گی اور وہ اپنے خالق کی طرف رجوع کریں گے اور ان میں کثرت سے اسلام پھیلے گا اور وہ قوم جو زمین سے خدا کانام اور آسمان سے اس کا وجود مٹانے کی شیخیاں بھگار رہی ہے وہی قوم اپنی گمراہی کو جان لے گی اور حلقہ بگوش اسلام ہوکر اللہ تعالیٰ کی توحید پر پختگی سے قائم ہو جائے گی۔ شاید آپ اسے ایک افسانہ سمجھیں مگر وہ جو اس تیسری عالمگیر تباہی سے بچ نکلیں گے اور زندہ رہیں گے وہ دیکھیں گے کہ یہ خدا کی باتیں ہیں اور اس قادر و توانا کی باتیں ہمیشہ پوری ہی ہوتی ہیں کوئی طاقت انہیں روک نہیں سکتی۔

پس تیسری عالمگیر تباہی کی انتہاء اسلام کے عالمگیر غلبہ اور اقتدار کی ابتداء ہو گی اور اس کے بعد بڑی سرعت کے ساتھ اسلام ساری دنیا میں پھیلنا شروع ہو گا اور لوگ بڑی تعداد میں اسلام قبول کر لیں گے اور یہ جان لیں گے کہ صرف اسلام ہی ایک سچا مذہب ہے اور یہ کہ انسان کی نجات صرف محمد رسول اللہؐ کے پیغام کے ذریعہ حاصل ہو سکتی ہے…اسلام کا سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ طلوع ہو گا اور دنیا کو منور کرے گا۔لیکن پہلے اس سے کہ یہ واقع ہو ضروری ہے کہ دنیا ایک اور عالمگیر تباہی میں سے گزرے ایک ایسی خونی تباہی جو بنی نوع انسان کو جھنجھوڑ کر رکھ دے گی۔ لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ ایک انذاری پیشگوئی ہے اور انذاری پیشگوئیاں توبہ اور استغفار سے التواء میں ڈالی جا سکتی ہیں بلکہ ٹل بھی سکتی ہیں۔ اگر انسان اپنے رب کی طرف رجوع کر ے اور توبہ کرے اور اپنے اطوار درست کر لے، وہ اب بھی خدائی غضب سے بچ سکتا ہے اگر وہ دولت اور طاقت اور عظمت کے جھوٹے خداؤں کی پرستش چھوڑ دے اور اپنے رب سے حقیقی تعلق قائم کرے، فسق و فجور سے باز آ جائے…اگر دنیا نے دنیا کی مستیاں اور خرمستیاں نہ چھوڑیں تو پھر یہ انذاری پیشگوئیاں ضرور پوری ہوں گی اور دنیا کی کوئی طاقت اور کوئی مصنوعی خدا دنیا کو موعودہ ہولناک تباہیوں سے بچا نہ سکے گا۔پس اپنے پر اور اپنی نسلوں پر رحم کریں اور خدائے رحیم و کریم کی آواز کو سنیں۔ اللہ تعالیٰ آپ پر رحم کرے اور صداقت کو قبول کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا کرے۔‘‘(امن کا پیغام اور ایک حرف انتباہ،صفحہ10تا13)

آپ رحمہ اللہ تعالیٰ روس کے بارے فرماتے ہیں:’’ اگر یہ ایٹامک ورلڈ ہو گئی ایٹم کی جنگ کے اندر یہ ملوث ہوئے اور دوسرے گروہوں کے ساتھ لڑ پڑے،تو جہاں بڑی کثرت سے تباہی آئے گی اور اس کے ملک میں بھی بعض علاقے ایسے ہوں گے کہ جہاں زندگی کا خاتمہ ہو جائےگا،وہاں ساتھ ہی یہ بھی بتایا ہے کہ اس ملک میں بسنے والوں کی کافی تعداد بچ جائے گی مرے گی نہیں اور پھر وہ اپنے ملک میں پھیلے گی اور اسے آباد کرے گی…تو سوائے احمدیت کی گود کے اورکہیں ان کو پناہ نہیں ملے گی… اگر ایٹم کی جنگ ہو جائے تو امریکہ کے متعلق جہاں تک مجھے علم ہے یہ نہیں بتایا گیا کہ سارے مر جائیں گے تباہ ہو جائیں گے یا بچیں گےنہیں بچیں گے۔ لیکن روس کے متعلق بتایا گیا ہے کہ اگرچہ اس کے بعض علاقے تباہ ہو جائیں گے لیکن اس قوم کی اکثریت زندہ رہے گی وہ اسلام کو قبول کرے گی اور اپنے رب سے تعلق قائم کرے گی‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ7؍جولائی1967ءمطبوعہ خطبات ناصرجلد 1 صفحہ774تا775)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا انذار

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ جماعت کو خوشخبری دیتے ہوئے فرماتے ہیں:’’میں تمہیں خوشخبری دیتا ہوں کہ اگلی صدی میں تم یہ نظارے دیکھو گے کہ عظیم الشان طاقتوں کے پہاڑ ریزہ ریزہ کر کے ہموار میدان کی طرح تمہارے سامنے بچھا دیئے جائیں گے۔ اور احمدیت کی فتح کے گھوڑے دندناتے ہوئے اگلی دنیاؤں کو اور پھر مزید اگلی دنیاؤں کو فتح کرتے چلے جائیں گے۔‘‘(احمدیت کی پہلی صدی کے آخری خطبہ جمعہ کا خلاصہ 17؍مارچ 1989ءالفضل 27؍مارچ 1989ء)

آپ نے دنیا کو واشگاف الفاظ میں ایٹمی جنگ کی خوفناک تباہی سے متنبہ فرمایا جس کی طرف تیزی سے دنیا بڑھ رہی ہے۔ سورۃ القارعہ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’یہاں AtomicWarfareکا ذکر ہے۔ خصوصاً رسول اللہ ؐکے زمانے کے انسان کو اس قارعۃ کا کوئی تصور بھی نہیں تھا۔ جس قارعۃکی طرف یہ سورت اشارہ کر رہی ہے۔ یعنی اس آخری قارعۃکی طرف۔ یہی وہ وقت ہو گا جب بڑی بڑی طاقتور حکومتیں اور طاقت کے پہاڑ دھنی ہوئی روئی کی طرح ہو جائیں گے۔ دھنی ہوئی روئی میں کوئی طاقت نہیں ہوتی۔‘(ترجمۃ القرآن کلاس نمبر 305)

سورۃ الهُمَزَة کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’حُطَمَةکو تو عرب جانتے تھے کہ یہ باریک سے باریک ذرہ کا نام ہے لیکن ایٹم کو نہیں جانتے تھے جس کا یہاں ذکر ہو رہا ہے۔ ایسے ستون جو کھینچ کر لمبے کیے گئے ہوں۔ یہی نقشہ ایٹمی دھماکہ کا ہے یہ آگ ان ایٹموں میں محفوظ رکھی گئی ہے۔ اگر یہ محفوظ نہ ہوتی تو ایٹم بم بناتے ہوئے ہی پھٹ جائے تو کوئی محفوظ نہ رہتا۔‘(ترجمۃ القرآن نمبر 305)

کیا عجب تو نے ہر اک ذرہ میں رکھے ہیں خواص

کون پڑھ سکتا ہےسارا دفتر ان اسرار کا

سورت الدخان کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’یہاں دخان سے مراد وہ دھواں ہے جو دجال کے زمانے میں خدا تعالیٰ کی طرف سے Atomic Explosion کے نتیجے میں نکالا جائے گا…وہ جہاں سے گزرے گا وہاں موت کا پیغام دے گا۔…یہ عذاب ضرور دنیا پر نازل ہو گا اور بڑے رقبوں پر پھیل جائے گا۔ جن پر پھیلے گا ان رقبوں کو زندگی سے عاری کر دے گا۔‘(ترجمۃ القرآن کلاس نمبر 255)

سورت طہٰ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:’’جہاں تک جبلکا لفظ ہے، قرآن کریم سے ثابت ہے کہ جبلسے مراد عظیم الشان طاقتیں ہیں جو دنیاوی طاقتیں ہیںچنانچہ سورت طہٰ میں اس مضمون کو یوں بیان فرمایا۔ وَيَسْأَلُوْنَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ يَنْسِفُهَا رَبِّي نَسْفًا۔(طہ:106) اے محمدؐ! تجھ سے یہ پوچھتے ہیں کہ یہ جو چاروں طرف تیرے بڑی بڑی حکومتیں دنیا میں قائم ہیں، یہ انسانی کے پہاڑ بنے ہوئے ہیں، ان کا کیا بنے گا؟ ان پر تجھے کیسے غلبہ نصیب ہو گا؟تُو تو دنیا کے لحاظ سے کوئی طاقت نہیں رکھتا۔ تُو ان سے کہہ دے ان پوچھنے والوں سے يَنْسِفُهَا رَبِّي نَسْفًا۔ میرا رب ان کو پارہ پارہ کر دے گا،ریزہ ریزہ کر دے گا۔ فَيَذَرُهَا قَاعًا صَفْصَفًا۔(طہٰ:107)اور ان کو ایک چٹیل میدان میں تبدیل کرے گا۔ لَا تَرٰى فِيْهَا عِوَجًا وَلَا أَمْتًا۔(طہ:108)پھر تو ان کو بڑی بڑی عظیم الشان قوموں کو ایسے برابر اور سدھری ہوئی حالت میں پائے گا کہ ان کے اندر نہ کوئی کجی باقی رہے گی،نہ کوئی تکبر باقی رہے گاکوئی اونچ نیچ باقی نہیں رہے گی۔ يَوْمَئِذٍ يَتَّبِعُوْنَ الدَّاعِيَ لَا عِوَجَ لَهُ (طہٰ: 109) وہ دن ہو گا اور وہ زمانہ ہو گا۔جب کہ اس داعی یعنی محمد مصطفیٰﷺ کی پیروی کے لئے یہ ذہنی اور قلبی طور پر تیار ہوں گے۔جس میں کوئی عِوَجَ نہیں کوئی کجی نہیں۔ پس پہلے خدا ن کی کجیاں دور کرے گا،ان کے تکبر توڑے گا، ان کی Civilizationsکو تباہ کرے گاا ور ملیا میٹ کردے گا۔ اور ان پہاڑوں کو پارہ پارہ کرے گا پھر ان میں سے زندگی کے نئے آثار پھوٹیں گے۔…چاروں طرف جو بڑی بڑی حکومتوں کے پہاڑ ہیں۔کہیں آپ کو مشرق میں روس دکھائی دیتا ہے اور کہیں مغرب میں آپ کو امریکہ دکھائی دیتا ہے۔ کہیں شمالی یورپ کی طاقتیں ہیں کہیں جنوب مشرق میں جاپان اور دوسری بڑی بڑی طاقتیں پھیلی پڑی ہیں۔ یہ ساری طاقتیں یہ تمام پہاڑ آپ کے زیر نگیں کرنے کے لئے بنائے گئے ہیں لیکن محبت کا جادو ہے جو ان پر چلے گا۔ اپنے ماحول میں محبت کے جادو جگانے لگیں کہ اس کے ذریعے ہی روحانی مردے زندہ ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ‘‘(خطبہ عید الاضحی فرمودہ 3؍جولائی1990ءمطبوعہ خطبات عیدین )

امریکہ اور اقوام متحدہ کے بارے فرماتے ہیں: ’’Desert Stormکی باتیں کرتے ہیں۔ یعنی صحراؤں کا ایک طوفان ہے جو دشمن کو ہلاک اور ملیا میٹ کر دے گا۔ یہ نہیں جانتے کہ طوفان کی باگیں بھی خدا کے ہاتھ میں ہوتی ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ خدا کی تقدیر کیا فیصلہ کرے گی مگر یہ ضرور جانتا ہوں کہ خدا کی تقدیر جو بھی فیصلہ کرے گی وہ بالآخر متکبروں کو ہلاک کرنے کا موجب بنے گا۔ آج نہیں تو کل یہ تکبر ملیا میٹ کئے جائیں گےکیونکہ وہ بادشاہت جو آسمان پر ہے اسی خدا کی بادشاہت زمین پر ضرور قائم ہو کر رہے گی۔پس آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں،آپ دیکھیں گے کہ یہ تکبردنیا سے مٹادیا جائے گا۔اور طوفان ان پر الٹائے جائیں گے۔ اور ایسے ایسے خوفناک Storms خدا کی تقدیر ان پر چلائے گی کہ جن کے مقابل پر ان کی تمام اجتماعی طاقتیں بھی ناکام اور پارہ پارہ ہو جائیں گی یہ نظام کہنہ مٹایا جائے گا۔ آپ یاد رکھیں اور اس بات پر قائم رہیں اور کبھی محونہ ہونے دیں۔ یہ اقوام قدیم جن کو آج اقوام متحدہ کہا جاتا ہے ان کے اطوار زندہ رہنے کے نہیں ہیں۔ یہ قومیں یادگار بن جائیں گی اور عبرتناک یادگار بن جائیں گی اور ان کےکھنڈرات سے، آپ ہیں۔اے توحید کے پرستارو! وہ آپ ہیں جو نئی عمارتیں تعمیر کریں گے،نئی اقوام متحدہ کی عظیم الشان فلک بوس عمارتیں تعمیر کرنے والے تم ہو۔ اے مسیح محمدی کے غلامو! جن کے سپرد یہ کام کیا گیا ہے تم دیکھو گے، آج نہیں تو کل دیکھو گے اگر تم نہیں دیکھو گے تو تمہاری نسلیں دیکھیں گی۔ اگر کل تمہاری نسلیں نہیں دیکھیں گی تو پرسوں ان کی نسلیں دیکھیں گی۔مگر یہ خدا کے منہ کی باتیں ہیں اور اس کی تقدیر کی تحریریں ہیں جنہیں دنیا میں کوئی مٹا نہیں سکتا…میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ان دنیا کی آنکھوں سے آپ دیکھ سکیں یا نہ دیکھ سکیں میری روح کی آنکھیں آج ان واقعات کو دیکھ رہی ہیں۔ ان عظیم الشان تغیرات کو اس طرح دیکھ رہی ہیں جیسے میرے سامنے واقعہ ہو رہے ہیں ‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ25؍جنوری 1991ءمطبوعہ خلیج کا بحران صفحہ 179)

آنحضرتﷺ کی ذات بابرکا ت پر ناپاک الزام لگانے والوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:’’سب سے گندا حملہ کرنےو الے امریکن ہیں۔ان کے سرغنوں میں سارے امریکی ہیں۔ امریکہ کے بدبخت پادریوں میں کوئی نیک نظر نہیں آتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دجل کا جھنڈا امریکہ نے اٹھانا تھا۔ امریکہ کی تائید میں کوئی دعا نہیں ملتی۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ امریکہ کے مقدر میں ذلت و رسوائی کے سوا اور کچھ نہیں۔ شَيْطَانٍ مَرِيدٍ کا ذکر قرآن میں ہے وہ امریکہ ہے۔ احمدیت کی نسلیں امریکہ کا بد انجام ضرور دیکھیں گی۔ خدا کی قدرت ہے کہ وہ ہم کو زندہ رکھے یا نہ رکھے یہ انجام لازما ًامریکہ کو ملے گا۔‘‘(عالمی درس 4؍جنوری 1999ء الفضل 15؍جنوری 1999ء)

ایٹمی جنگ کے بارے خبردار کرتے ہوئے فرمایا:’’جہاں تک تیسری عالمی جنگ کا تعلق ہے اور اس کی اٹامک حیثیت کا تعلق ہے اس بارے میں ایک ادنیٰ بھی شک نہیں کہ لازماً ہو کے رہنے والا واقعہ ہے۔ایسا واقعہ ہے ہی نہیں جو ٹالا جا سکے۔ اگرچہ مصیبتیں ٹالی جا سکتی ہیں لیکن عالمی جنگ جس بنا پر وارد ہونے والی ہے اس کا جیسا کہ میں نے بارہا ذکر کیا ہے سورت طہٰ میں بڑی تفصیل سے ذکر موجود ہے اور اس کی آخری وجہ آنحضرتﷺ کا باقی ادیان پر غالب آنا ہے۔ یا اسلام کا باقی ادیان پر غالب آنا ہے۔کیونکہ وجہ بہت اعلیٰ درجہ کی ہے اور کوئی صورت نظر نہیں آتی کہ اس عظیم تباہی اور تکبروں کے ٹوٹے بغیر اسلام کو وہ غلبہ نصیب ہو جائے۔ رسول کریمﷺ کو وہ غلبہ نصیب ہو جائے۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ باوجود اس کے کہ مصیبتیں ٹالی جاسکتی ہیں مگر مقصد پورا نہیں ہو سکتا۔ اگر یہ مصیبتیں ٹل جائیں اور کوئی اس کی صورت نظر ہی نہیں آتی کہ ایسا کر سکتے، دنیا جو اتنی دور جا چکی ہے وہ واپس آ جائے، از خود ہی یہ نہیں ہو سکتا۔ اس لیے ہو سکنے کے باوجود نہیں ہو سکتا کا مطلب یہ ہے جہاں تک میں سمجھتا ہوں ایسا ہرگز نہیں ہو گا۔‘(ترجمۃ القرآن کلاس 18؍نومبر 1998ء)

ایٹمی جنگ کا آغاز کہاں سے ہو گا؟اس کی خبر دیتے ہوئے فرماتے ہیں:’اس سلسلہ میں ایک دفعہ ایک رویاءبھی دیکھی تھی…کئی سال پہلے کی ہے۔ وہ بہت ہی واضح ہے…اکثر رویاء جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہےوہ وہم و گمان میں ویسے آ ہی نہیں سکتیں۔مَیں نے دیکھا کہ میں ایک Russia کا نام تو نہیں ہے لیکن یہاں سے جو میرے ذہن میں سمت ہے وہ Russiaکی سمت ہے اور Russiaکا بھی شمالی حصہ۔وہاں ایک بہت بلند پہاڑ ہے میں وہاں کھڑا ہوں۔ اور وہ جو ماہرین ہیں زمین کی ساخت کے Geologist، ان میں کوئی ایک چوٹی کا ماہر ہے جو مجھ سے سبق لینے کے لیے وہاں میرے ساتھ کھڑا ہے…تو میں یہ دیکھتا ہوں کہ وہ جو Russia کے پہاڑ ہیں۔ سارے پہاڑ بُھربُھرے ہو جاتے ہیں اور چوٹیوں سے ڈھلکنے لگتے ہیں۔Wave after wave. Wave after wave۔جس طرح لہریں چلتی ہیں اس طرح پہاڑ اتر رہے ہیں۔جیسے کسی نرم چیز کے ڈھیر کو زیادہ اونچا کر دیا جائے تو خود بخود ڈھلکنے لگتا ہے اور وہ ایک سمت میں آر ہے ہیں اور میں دور سے دیکھتا ہوں نظارہ تو ساری دنیا بھاگی جا رہی ہے اس قدر Panicہے۔قیامت آئی پڑی ہے اور دیکھتا ہوں،اس سمت میں ہوں جس طرف یورپ کا باقی حصہ ہے۔ اور لوگ چھوڑ چھوڑ کر دوڑ رہے ہیں۔ اور لگتا ہے کہ اب یہ جو بُھرتے ہوئے پہاڑ ہیں یہ ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے اس وقت جو ہمارے ساتھ ہیں ان میں بھی تھوڑی گھبراہٹ ہوتی ہے کہ کیوں نہیں میں اب جلدی چل رہا۔میں ان سے کہتا ہوں کہ مجھے کوئی فکر نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے وہ رستے بنائے ہوئے ہیں جن سے میں آرام سے نکل جاؤں گا اس لئے کوئی گھبراہٹ نہیں آرام سے بیٹھو تیاری کرو اور دروازے بند کر کے پھر ہم کار سٹارٹ کرنے لگتے ہیں تو خواب ختم ہو گئی۔

اس سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ جو جنگ عظیم آئے گی آئندہ۔اس میں کوئی دھماکہ Russia کی طرف سے پہلے ہو گا۔ کوئی آغاز وہاں سے ہو گا اور پھر جس طرح پہاڑ بُھرتے ہیں۔ اس طرح ہو گا مجھے بعد میں خیال آیا کہ قرآن کریم نے جو یہ فرمایا ہے سورت طہٰ میں کہ خدا تعالیٰ پہاڑوں کو اکھاڑ پھینکے گا اور چٹیل میدان بنا دے گا تو یہ تو اس کی تعبیر ہے بالکل…تو ہو سکتا ہے کہ آغاز Russiaکی طرف سے ہو کسی وجہ سے… کوئی ایسا واقعہ ہو جس کے نتیجے میں پھر وہ دھماکہ ہو جائے۔ تو یہ یقیناً ہونے والی باتیں ہیں جو آئندہ زمانے میں ہوں گی… مگر یہ خوشخبری ہے کہ احمدیوں کو اللہ بچا لے گا رستہ رکھا ہوا ہے جس رستے سے وہ نکل جائیں گے انشاء اللہ ‘ (ترجمۃ القرآن کلاس نمبر 74)

عالمی طاقتوں کو مخاطب کرتے ہوئے واشگاف الفاظ میں انذار فرمایا کہ:’’اے طاقتو! تم مقابر تک جا پہنچو گی۔ یعنی ایک ملک میں ایک قبر یاایک قبرستان کی بات نہیں یہ تو ہر براعظم میں بعض مقابر بننے والے ہیں۔ اور ان بڑی بڑی طاقتوں کو جب خدا کی سزا زمین کے ساتھ ہموار کر دے گی اور ان کے تکبر کو توڑکر پارہ پارہ کرے گی تو ان کے مقابر بھی تمام عالَم میں بکھرے ہوئے دکھائی دیں گے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ22؍جنوری 1993ء الفضل 25؍ جنوری1993ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا انذار

حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بھی جہاں جماعت کو اس کے روشن مستقبل کی بشارت دی وہاں مخالفین کو ان کے بد انجام سے بھی خبردار کیا اور دنیا کو واشگاف الفاظ میں متعدد بار خوفناک ہلاکتوں اور تباہیوں سے ڈرایا کہ اگر اس نے توبہ نہ کی تو عالمگیر ایٹمی جنگ کی ہولناک تباہی انکا مقدر بن جائے گی۔آپ کے ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ اب وہ وقت آنے ہی والا ہے۔فرمایا:’’انشاء اللہ وہ دن دور نہیں جب تمام مخالفین ہوا میں اڑ جائیں گے اور مخالفت کرنے والے آپ کے سامنے جھکنے پر مجبور ہوں گے۔‘‘(اختتامی خطاب جلسہ سالانہ قادیان 28؍دسمبر 2006ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 26؍جنوری 2007ء)

آپ نے تمام دنیا کو انذار کرتے ہوئے فرمایا:’’آجکل دنیا میں چھوٹے پیمانے پر جنگیں شروع ہیں۔ آج دنیا کو ضرورت اس امر کی ہے کہ ان جنگوں کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔ ورنہ عالمی جنگ کی صورت بھی بن سکتی ہے۔ جس کی تباہی نا قابل یقین ہو گی۔‘‘(خطبات مسرور جلد9صفحہ 610تا611)

فرماتے ہیں:’’اب تک ہم دو عالمی جنگیں دیکھ چکے ہیں۔ دنیا پھر اس لپیٹ میں آنے کی کوشش کر رہی ہے۔ دنیا کے فوجی بجٹ باقی تمام ضروریات کو پس پشت ڈال رہے ہیں اور صرف فوج بڑھانے اور اسلحہ رکھنے اور فوجی طاقت بننے کی طرف دنیا کی زیادہ توجہ ہو رہی ہے۔ اس لئے دنیا کو پھر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ بد امنی دنیا میں مذہب کی وجہ سے نہیں پھیل رہی بلکہ لالچ اور سیاست اس کی وجوہات ہیں۔‘‘(خطبات مسرور جلد 12 صفحہ 147)

حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز دنیا کی بڑی طاقتوں کے ایوانوں میں ان کے رو برو کھڑے ہو کر ان کو اپنی اصلاح کرنے اور دنیا کو تباہی و بربادی سے بچانے کے لیے انہیں بار بار متنبہ کر رہے ہیں۔مثلاً برطانوی پارلیمنٹ کے ہاؤس آف کامنز میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’’آج دنیا ایک اضطراب اور بے چینی کا شکار ہے۔ محدود پیمانہ پر جنگوں کی آگ بھڑک رہی ہے۔ بعض جگہوں پر بڑی طاقتیں یہ دعویٰ کر رہی ہیں کہ ہم امن کے قیام کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔ اندیشہ یہ ہے کہ اگر عدل و انصاف کے تقاضے پورے نہ کیے گئے تو ان چھوٹی چھوٹی جنگوں کے شعلے بہت بلند ہو جائیں گے۔ اور ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ اس لیے میری آپ سے یہ عاجزانہ درخواست ہے کہ دنیا کو تباہی سے بچائیں‘‘(عالمی بحران اور امن کی راہ،صفحہ11)

نویں سالانہ امن کانفرنس کے موقعہ پر انگلستان کے بہت سے حکومتی وزراء اور سیاسی و سماجی شخصیات کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:’’آج کے دور میں خدا کی ایک قہری تجلی ایک اور عالمی جنگ کی صورت میں ظاہر ہوسکتی ہے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ایسی جنگ کے بداثرات اور تباہی صرف ایک روایتی جنگ یا صرف موجودہ نسل تک ہی محدود نہیں رہیں گے۔ درحقیقت اس کے ہولناک نتائج آئندہ کئی نسلوں تک ظاہر ہوتے رہیں گے۔ ایسی جنگ کا المناک نتیجہ تو ان نومولود بچوں کو بھگتنا پڑے گا جواب یا آئندہ پیدا ہوں گے۔ جو ہتھیار آج موجود ہیں وہ اس قدر تباہ کن ہیں کہ ان کے نتیجہ میں نسلاً بعد نسلٍ بچوں کے جینیاتی یا جسمانی طور پر معذور پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔‘‘(عالمی بحران اور امن کی راہ،صفحہ43)

کیپیٹل ہل واشنگٹن ڈی سی میں امریکی عمائدین اور سرکردہ لیڈروں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:’’خلاصہ کلام یہ کہ اگر ہم عالمی امن کے خواہاں ہیں تو ہمیں اعلیٰ مقصد کی خاطر ذاتی اور قومی مفادات کو بالائے طاق رکھنا ہوگا اور اس کی بجائے ایسے باہمی تعلقات قائم کرنا ہوں گے جومکمل طور پرمبنی بر انصاف ہوں۔ بصورت دیگر آپ میں سے بعض مجھ سے اتفاق کریں گے کہ مختلف ممالک کے گٹھ جوڑ اور بلاکس کی وجہ سے جو مستقبل میں بن سکتے ہیں یا میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ بننے شروع ہو گئے ہیں، بعید نہیں کہ فساد بڑھتا ہی جائے اور بالآخر ایک بڑی تباہی پر منتج ہو۔ ایسی جنگ اور تباہی کے اثرات یقینی طور پر کئی نسلوں تک باقی رہیں گے۔ اس لیے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو دنیا کے طاقتور ترین ملک ہونے کے اعتبار سے اپنا کردار حقیقی انصاف کے ساتھ اور ان نیک عزائم کے ساتھ ادا کرنا چاہیے جن کا میں نے ذکر کیا ہے۔‘‘(عالمی بحران اور امن کی راہ،صفحہ79)

یورپین پارلیمنٹ کے وسیع ہال میں 30؍ممالک کے 350؍نمائندگان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:’’مظالم کو ختم ہونا چاہیے کیونکہ اگر انہیں پھیلنے دیا گیا تو نفرت کے شعلے لازماً تمام دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے اور پھر یہ نفرت اس حد تک بڑھ جائے گی کہ دنیا حالیہ معاشی بحران سے پیدا ہونے والے مسائل کو بھی بھول جائے گی اور اس کی جگہ پہلے سے بھی بڑھ کر ہولناک صورتحال کا سامنا ہوگا۔ اس قدر جانیں ضائع ہوں گی کہ ہم اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔ پس یوروپین ممالک، جودوسری جنگ عظیم میں بڑے نقصان دیکھ چکے ہیں،ان کا فرض ہے کہ وہ ماضی کے اپنے تجربہ سے سبق حاصل کر یں اور دنیا کو تباہی سے بچائیں…اگر ہم اس مقصد میں کامیاب نہ ہوئے تو دنیا کا کوئی بھی حصہ جنگ کی ہولناکیوں اور تباہ کن اثرات سے محفوظ نہ رہے گا۔‘‘(عالمی بحران اور امن کی راہ،صفحہ96تا98)

انگلستان کے پارلیمنٹ ہاؤس لنڈن میں خطاب کرتے ہوئے ممبران پارلیمنٹ، ممبران ہاؤس، لارڈز اور متعدد وزراءکو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:’’ہم سبھی پچھلی دو عالمی جنگوں کی ہولناک تباہیوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ بعض ممالک کی پالیسیوں کی وجہ سے ایک اَور عالمی جنگ کے آثار دنیاکے افق پر نمودار ہورہے ہیں۔ اگر عالمی جنگ چھڑ گئی تو مغربی دنیا بھی اس کے دیر تک رہنے والے تباہ کن نتائج سے متاثر ہوگی۔ آ ئیں خود کو اس تباہی سے بچالیں۔ آئیں اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کو جنگ کے مہلک اور تباہ کن نتائج سے محفوظ کر لیں کیونکہ یہ مہلک جنگ ایٹمی جنگ ہی ہوگی اور دنیا جس طرف جارہی ہے اس میں یقینی طور پر ایک ایسی جنگ چھڑنے کا خطرہ ہے ‘‘(عالمی بحران اور امن کی راہ،صفحہ129)

آپ نے نہ صرف اپنے خطبات اور خطابات میں مسلسل دنیا کو اپنی اصلاح کرنے کی طرف توجہ دلائی بلکہ دنیا کے بعض طاقتور ممالک کے سربراہان کو خطوط لکھ کر بھی ان کو اس طرف خصوصیت سے توجہ دلائی۔مثلاً اسرائیل کے صدر صاحب کو تحریر فرماتے ہیں:’’عالمی جنگ چھڑ نے کا خطرہ نہایت سنجیدگی سے سامنے آ رہا ہے جس سے مسلمانوں،عیسائیوں اور یہودسب کی جانوں کو خطرہ ہے۔ خدانخواستہ اگر ایسی جنگ چھڑ گئی تو یہ انسانی تباہی کا ایک جاری سلسلہ ہوگا جس کا شکار آنے والی نسلیں ہوں گی جو اپاہج یا معذور پیدا ہوں گی اس کی وجہ یہ ہے کہ اگلی جنگ میں ایٹمی ہتھیار استعمال ہوں گے۔ میری آپ سے درخواست ہے کہ دنیا کو جنگ کے دھانہ پر پہنچانے کی بجائے اپنی انتہائی ممکن کوشش کریں کہ انسانیت عالمی تباہی سے محفوظ رہے۔ باہمی تنازعات کو طاقت کے استعمال سے حل کرنے کی بجائے گفت وشنید اور مذاکرات کا راستہ اپنائیں تا کہ ہم اپنی آئندہ نسلوں کو تاب ناک مستقبل مہیا کر سکیں نہ یہ کہ ہم انہیں معذور یوں کا تحفہ دینے والے ہوں۔‘‘(عالمی بحران اور امن کی راہ،صفحہ160)

صدر اوباما کولکھا:’’ہم سب جانتے ہیں کہ جنگ عظیم دوم کے بنیادی محرکات میں لیگ آف نیشنز کی نا کامی اور 1932ء میں رونما ہونے والا معاشی بحران سر فہرست تھا۔ آج دنیا کے چوٹی کے ماہرین معاشیات برملا کہہ رہے ہیں کہ موجودہ دور کے معاشی مسائل اور 1932ءوالے بحران میں بہت ہی قدریں مشترک دکھائی دے رہی ہیں۔ سیاسی اور اقتصادی مسائل نے کئی چھوٹے ممالک کو ایک بار پھر جنگ پر مجبور کر دیا ہے۔ اور بعض ممالک داخلی بدامنی اور عدم استحکام کا شکار ہیں۔ ان تمام امور کا منطقی نتیجہ ایک عالمی جنگ کی صورت میں ہی نکلے گا۔ اگر چھوٹے ممالک کے جھگڑے سیاسی طریق کار اور سفارت کاری کے ذریعہ حل نہ کیے گئے تو لازم ہے کہ دنیا میں نئے جتھے اور بلاک جنم لیں گے۔ اور یقیناً یہ امر تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ ہوگا۔ ایسی صورت حال میں دنیا کی ترقی پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے زیادہ ضروری، بلکہ ناگزیر ہے کہ ہم دنیا کو اس عظیم تباہی سے بچانے کی کوشش کر یں۔‘‘(عالمی بحران اور امن کی راہ،صفحہ176)

وزیر اعظم کینیڈا کو مخاطب کر کے لکھا:’’میں آپ سے پرزور استدعا کرتا ہوں کہ اپنی تمام تر کوششیں صرف کر کے دنیا کی چھوٹی بڑی طاقتوں کو تیسری عالمی جنگ میں کودنے سے بچائیں ‘‘(عالمی بحران اور امن کی راہ،صفحہ184)

سعودی عرب کے فرمانروا کو مخاطب کرتے ہوئے تحریر فرمایا:’’ میری آپ سے درخواست ہے کہ اس سلسلہ میں اپنی بھر پور کوشش کریں۔ اگر تیسری عالمی جنگ واقعی مقدر ہے تو کم از کم ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ اس کی ابتدا کسی مسلم ملک کی طرف سے نہ ہو…پس اے سعودی عرب کے بادشاہ! دنیا کو تباہی سے بچانے کے لیے اپنی تمام تر طاقت اور اثر و رسوخ صرف کر دیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو آمین۔ آپ کے لیے اور تمام مسلم امت کے لیے اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْم َ کی دعا کے ساتھ۔‘‘(عالمی بحران اور امن کی راہ صفحہ:193 )

اور برطانیہ کے وزیر اعظم کو لکھا:

’’میری درخواست ہے کہ ہم ہر جہت اور ہر ایک پہلو سے اپنی تمام تر سعی بروئے کار لا کر دنیا سے نفرت کو مٹا دیں۔ اگر ہم اس کوشش میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ کامیابی ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کے روشن مستقبل کی ضمانت ہوگی۔ اور ناکامی کی صورت میں ہماری آئندہ نسلیں ہمارے اعمال کی پاداش میں ایٹمی جنگ کی وجہ سے ہر جگہ تباہ کن نتائج کا سامنا کریں گی ‘‘(عالمی بحران اور امن کی راہ صفحہ :209)

عیسائی دنیا کے سربراہ پوپ بینیڈکٹ XVIکو خط لکھتے ہوئے فرماتے ہیں:’’نہایت افسوس کا مقام ہے کہ اگر ہم دنیا کے موجودہ حالات کا غور سے جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ ایک اور عالمی جنگ کی بنیاد رکھی جا چکی ہے۔ اگر دوسری عالمی جنگ کے بعد عدل و انصاف کی راہ اپنائی جاتی تو آج دنیا کی یہ حالت نہ ہوتی جس کی وجہ سے یہ ایک بار پھر آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آ چکی ہے۔ متعدد ممالک کے پاس ایٹمی ہتھیار ہونے کے باعث بغض و عدادت بڑھ رہی ہے اور دنیا تباہی کے دھانہ پرپہنچ چکی ہے۔ اگر وسیع پیمانہ پر تباہی پھیلانے والےیہ ہتھیار پھٹ جائیں تو آئندہ نسلیں اس غلطی پر ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی کہ ہم نے انہیں معذوری اور اپاہچ پن تحفہ میں دیا ہے…میں دنیا کو بار بار توجہ دلاتا رہتا ہوں کہ ایک دوسرے کے ساتھ حد سے بڑھی ہوئی عداوتیں اور انسانی اقدار کی پامالی دنیا کو تباہی کی طرف لے جار ہی ہیں۔‘‘(عالمی بحران اور امن کی راہ، صفحہ 152تا153)

روس اور یوکرائن کی جنگ کے موقع پر آپ نے24؍ فروری 2022ءکو پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے فرمایا:’’گزشتہ کئی سال سے مَیں دنیا کی بڑی طاقتوں کو متنبہ کرتا چلا آیا ہوں کہ انہیں تاریخ سے، بالخصوص بیسویں صدی میں ہونے والی دو تباہ کن عالمی جنگوں سے، سبق حاصل کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں مَیں نے مختلف اقوام کے سربراہوں کو خطوط لکھ کر پرزور توجہ دلائی کہ وہ اپنے قومی اور ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر معاشرے کی ہر سطح پر حقیقی انصاف کوقائم کرتے ہوئے دنیا کے امن و سلامتی کو ترجیح دیں۔یہ امر نہایت افسوسناک ہے کہ یوکرائن میں جنگ چھڑ گئی ہے اور حالات انتہائی سنگین صورتِ حال اختیار کر چکے ہیں۔ نیز یہ بھی عین ممکن ہے کہ روسی حکومت کے آئندہ اقدامات اوراس پر نیٹو(NATO) اور بڑی طاقتوں کے ردّعمل کے باعث یہ جنگ مزید وسعت اختیار کر جائے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے نتائج انتہائی خوف ناک اور تباہ کن ہوں گے۔ لہذا یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ مزید جنگ اورخون ریزی سے بچنے کی ہر ممکنہ کوشش کی جائے۔ اب بھی وقت ہے کہ دنیا تباہی کے دہانے سے پیچھے ہٹ جائے۔مَیں روس، نیٹو (NATO)اور تمام بڑی طاقتوں کو پُرزور تلقین کرتاہوں کہ وہ اپنی تمام تر کوششیں انسانیت کی بقا کی خاطر تنازعات کو ختم کرنے میں صَرف کریں اور سفارتی ذرائع سے پُر امن حل تلاش کریں۔‘‘(مطبوعہ الفضل یکم مارچ2022ءصفحہ1تا2)

وہ جو ماہ فروری میں تم نے دیکھا زلزلہ

تم یقیں سمجھو کہ وہ اک زجر سمجھانے کو ہے

آنکھ کے پانی سے یارو کچھ کرو اس کا علاج

آسماں اے غافلو اب آگ برسانے کو ہے

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button