متفرق مضامین

اپنے بچوں کو خطبات سنوانا اور سمجھانا وقت کی اہم ضرورت

(ظہیر احمد طاہر ابن نذیر احمد خادم۔جرمنی)

’’اسلام احمدیت کی مضبوطی اور اشاعت اور نظام خلافت کے لئے آخر دم تک جدو جہد کرنی ہے اور اس کے لئے بڑی سے بڑی قربانی پیش کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہنا ہے اور اپنی اولاد کو ہمیشہ خلافت احمدیہ سے وابستہ رہنے کی تلقین کرتے رہنا ہے اور ان کے دلوں میں خلیفہ وقت سے محبت پیدا کرنی ہے۔ اتنا بڑا اور عظیم الشان نصب العین ہے کہ اس عہد پر پورا اترنا اور اس کے تقاضوں کو نبھانا ایک عزم اور دیوانگی چاہتا ہے‘‘

اسلام نے جہاں اولاد کو والدین کی اطاعت اور ان سے حسن سلوک کی تعلیم دی ہے وہیں والدین پر بھی یہ ذمہ داری ڈالی ہے کہ وہ اپنی اولاد کو مناسب تعلیم دلائیں اورعمدہ تربیت کے ذریعہ انہیں اچھا انسان بننے میں مدد دیں تاکہ وہ بڑے ہوکر دنیا کے لیے مفید وجود ثابت ہوں اورنیک اعمال کے ذریعہ اپنی آخرت سنوار سکیں۔ اس ضمن میں والدین کو رسول اللہﷺ کادرج ذیل ارشاد ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہیے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اچھی تربیت سے بڑھ کر کوئی اعلیٰ تحفہ نہیں جو باپ اپنی اولاد کو دے سکتا ہے۔ ‘‘(ترمذی ابواب البروالصلۃ باب فی ادب الولد)

قرآن شریف سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وجود کے سوا دنیا کی ہر چیز تغیر پذیر اور ختم ہونے والی ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کو کائنات کے ذرّہ ذرّہ پرکامل ا ختیار و اقتدار حاصل ہے اورنظام عالم کی ہرچیز اُسی کی تابع فرمان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کوبہترین ارتقائی حالت میں تخلیق فرماکر اشرف المخلوقات کا درجہ عطا فرمایاہے۔ جیسا کہ فرمایا: لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡۤ اَحۡسَنِ تَقۡوِیۡمٍ۔ (التّین: 5)یقیناً ہم نے انسان کو بہترین ارتقائی حالت میں پیدا کیا۔ پھر اُس کی ہدایت اور راہنمائی کے لیے کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزارانبیاء مبعوث فرمائے۔ اللہ تعالیٰ کے یہ فرستادے اپنے متبعین کے دلوں میں محبت الٰہی کی کھیتیاں اُگانے اور اُنہیں پروان چڑھانے کے لیے انتھک محنت اور کوشش کرتے رہے۔

قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ انبیاء کے بعد خلافت کا نظام جاری کیا جاتا ہے تاکہ خلفاء کے ذریعہ انوار نبوت ہر سُو پھیلیں اور مستعد دل اُن سے مستفیض ہوتے رہیں۔ گویا خلافت ایک ریفلکٹرکی طرح نبوت کی روشنی کو دنیا میں پھیلاتی ہے۔ اس لیے خلفاء کے ساتھ کامل اخلاص ووفا کا تعلق رکھنا انجام کار انسان کو خدا تعالیٰ کا پیارا اور محبوب بنا دیتا ہے۔ خلافت کے مقاصد میں اوّلین طور پر داخل ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو توحید کا درس دیں اور انہیں خدا تعالیٰ کی راہوں سے آگاہ کریں۔ اس لیے جماعت مومنین کے لیے ضروری ہے کہ وہ نہ صرف خود خلیفہ وقت سے مضبوط تعلق پیدا کریں بلکہ اپنی اولاد کو بھی اس تعلق کی اہمیت سے آگاہ کرتے رہیں تاکہ یہ فیض نسل در نسل منتقل ہوتا رہے اور خلافت کی برکت سے ہمارا اور ہماری نسلوں کا اپنے پیدا کرنے والے سے مضبوط اور زندہ تعلق قائم رہے۔

جہاں تک اسلامی تعلیم کا تعلق ہے ہر انسان کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے نفس کی اصلاح کرے اوراپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے غضب سے بچانے کی کوشش میں لگا رہے۔ پھر اس پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ کرتا رہے اور اُن کے دلوں کو نور ایمان سے بھرنے کی کوشش میں لگا رہے تاکہ وہ شیطان کے پھیلائے ہوئے جال سے بچ کر پوری بشاشت اور دلی محبت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہوں کی پیروی کرنے لگ جائیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے والدین کو یہ نصیحت فرمائی ہے کہ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا قُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَاَہۡلِیۡکُمۡ نَارًا(التحریم: 7)اے لوگو جو ایمان لائے ! اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو آگ سے بچائو۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ اس آیت کریمہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’سورۃ التحریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : قُوۡا اَنۡفُسَکُمۡ وَاَھۡلِیۡکُمۡ نَارًا (التحریم:7)اپنے نفسوں کو اور اپنے اہل کو خداتعالیٰ کے غضب کی آگ سے بچانے کی کوشش کرو۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اَھۡلِیۡکُمْ کا ایک انذاری پہلو یہ بھی بتایاکہ بعض دفعہ ایک انسان خود تو ایمان رکھتا ہے اپنے دل میں اور اس کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور بشارتوں کا مستحق ہوتاہے لیکن اس کے اہل اس کے لیے فتنہ بنتے اور صراطِ مستقیم سے اسے دور لے جانے والے بن جاتے ہیں ۔ اس واسطے کسی ایک شخص کا یہ کہنا کہ میں صراطِ مستقیم پر قائم ہوگیا ہوں ، یہ کافی نہیں ہے ، یہ اس لیے کافی نہیں کہ جو قریب ترین فتنہ اس کی زندگی میں ہے وہ اس کے گھر میں موجود ہے۔ اس واسطے آئندہ نسلوں کی صحیح تربیت کرنا ان نسلوں کی بھلائی میں بھی ہے اور اپنے بھلائی بھی یہی تقاضا کرتی ہے کہ انسان فتنے سے اپنے آپ کو بچائے اور خدا تعالیٰ کے غضب سے محفوظ رہنے کی کوشش کرے اور جو پیار اُسے حاصل ہو وہ پیار اسے اور اس کے خاندان کو مرتے دم تک اس دنیا میں حاصل رہے تا خدا تعالیٰ کی رضا کی جنتوں میں گزرنے والی ابدی زندگی کے وہ مستحق بنیں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 5؍مارچ 1982ء مطبوعہ خطبات ناصر جلد نہم صفحہ 392)

اولاد اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے جس کی قدر کرنا اور انہیں اچھے رنگ میں پروان چڑھانا والدین کی اہم ترین ذمہ داری ہے۔ اس لیے بچوں کی تعلیم وتربیت کے لیے چھوٹی عمر میں ہی کوشش شروع کردینی چاہیے۔ والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ بچپن میں ہی انہیں ایسا ماحول فراہم کریں جس میں ان کی ذہنی نشوونما اسلام کے اعلیٰ اصولوں کے مطابق ہو تاکہ بڑے ہوکر وہ اسلام احمدیت اور دنیا کے لیے مفید وجود ثابت ہوں۔ تربیت اولاد کے ضمن میں والدین کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا درج ذیل ارشاد ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’خود نیک بنو اور اپنی اولاد کے لیے ایک عمدہ نمونہ نیکی اور تقویٰ کا ہوجائو اور اس کو متقی اور دیندار بنانے کے لیے سعی اور دعا کرو۔ جس قدر کوشش تم ان کے لیے مال جمع کرنے کی کرتے ہو اسی قدر کوشش اس امر میں کرو…وہ کام کرو جو اولاد کے لیے بہترین نمونہ اور سبق ہو اور اس کے لیے ضروری ہے کہ سب سے اوّل خود اپنی اصلاح کرو۔ اگر تم اعلیٰ درجہ کے متقی اور پرہیز گار بن جائو گے۔ اور خدا تعالیٰ کو راضی کرلو گے تو یقین کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد کے ساتھ بھی اچھا معاملہ کرے گا۔ ‘‘(ملفوظات جلد 4صفحہ 444تا445، ایڈیشن 2003ء)

اللہ تعالیٰ کا کس قدر فضل واحسان ہے کہ اُس نے جماعت احمدیہ میں خلافت علیٰ منہاج النبوت کا بابرکت نظام جاری فرمادیا ہے۔ خلیفہ وقت اپنے وقت میں چونکہ خدا تعالیٰ کا سب سے پیارا اور محبوب شخص ہوتا ہے اس لیے اس کی باتوں میں غیرمعمولی برکت رکھ دی جاتی ہے۔ اس لیے اپنی اولاد کو خلیفہ وقت کے ساتھ وابستہ کرنے ہی میں ہماری تمام تر کامیابیوں اور ہماری اولاد کی تربیت کا راز مضمر ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک مرتبہ والدین کو اولاد کی تربیت کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’اسلام نے اس بات پر زور دیا ہے کہ بچے کو بچپن کی عمر میں ہی اسلامی تعلیم کی بنیادی باتیں سکھانا شروع کردینا چاہئے جیسا کہ حضرت لقمان علیہ السلام کا بچے کو وعظ کے رنگ میں ان حقائق اور صداقتوں کی طرف متوجہ کرنا جو قرآن کریم کی صداقتیں اس زمانہ کے لوگوں کو دی گئی ہیں۔ اس طرح حضرت مریم علیہ السلام کا واقعہ ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں ہے اور اسی قسم کے دوسرے واقعات ہیں جن میں اسلام کی بنیادی تعلیم کو بیان کیا گیا ہے۔ ان سب واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ بچے کو بچہ کہہ کر اس کی تعلیم اور تربیت سے غافل نہیں ہونا چاہئے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ8؍اگست 1969ء مطبوعہ خطبات ناصر جلد دوم صفحہ 790)

بچوں کی تربیت کس رنگ اور کس انداز میں کرنی چاہیے اس کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے بچوں سے ایک خطاب کا مختصر حوالہ درج کیا جا رہاہے جس سے والدین اندازہ لگا سکتے ہیں کہ انہیں کس رنگ اور کس طریق پر اپنے بچوں کی تربیت کرنی چاہیے۔ حضور رحمہ اللہ نے بچوں سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا: ’’خدا کی محبت ایک ایسا پاکیزہ جذبہ ہے، ایک ایسا باوفا جذبہ ہے جو دل میں ایک دفعہ داخل ہوجائے تو بڑھتا تو رہتا ہے، چھوڑتا کبھی نہیں اور اس کے لئے بہت ہی اچھی عمر، بہت ہی صحیح عمر بچپن کی عمر ہے۔ جن دلوں میں بچپن میں اللہ تعالیٰ کی محبت داخل ہوجائے وہ بہت خوش قسمت ہوتے ہیں۔ کیونکہ پھر ساری زندگی یہ محبت وفا کرتی ہے۔ انسان کسی حالت میں بھی چلا جائے وہ اس محبت سے خالی نہیں رہ سکتا۔ اسی لئے یہی وہ عمرہے جس میں آپ کواپنے ربّ سے پیارکرنا چاہئے۔ اپنے ربّ سے محبت کے آداب سیکھنے چاہئیں اور ذاتی تعلق قائم کرلینا چاہئے۔ یہاں تک کہ ہر بچہ کے دل میں یہ یقین پیدا ہوجائے کہ میرا خدا میر ا ہے اور میرے ماں باپ کا بھی واسطہ بیچ میں نہیں۔ میں براہ راست اپنے اللہ سے محبت رکھتا ہوں۔ اس سے میرا ذاتی تعلق ہے۔ ‘‘(مشعل راہ جلد سوم صفحہ 57)

پس خدا تعالیٰ کو حاصل کرنے اور اس کی محبت پانے کے لیے اُس کے محبوب بندوں کے ساتھ تعلق پیدا کرنا اور ان کی راہنمائی میں قدم آگے بڑھانا آخر کار انسان کو خدا تعالیٰ کا پیارا اور محبوب بنادیتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نےیہ نصیحت فرمائی ہے کہ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَکُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ۔ (التوبۃ: 119)اے وہ لوگو جو ایمان لائےہو ! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور صادقوں کے ساتھ ہوجاؤ۔ اس لیے خلافت کے ساتھ کامل اخلاص ووفا سے چمٹ جانے میں ہی سب برکتیں اور ہر قسم کی کامیابیاں پنہاں ہیں۔

یہی دین ہے۔ یہی توحید ہے۔ یہی مرکزیت ہے

حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 2010ء میں لجنہ اماء اللہ پاکستان کی مجلس شوریٰ کے نام اپنے پیغام میں تحریر فرمایاتھا کہ’’آج دنیا میں صرف جماعت احمدیہ ہی ہے جس کو خلافت کا بابرکت نظام عطا ہوا ہے۔ پس اس کی برکات سے دائمی حصہ پانے کے لئے، اپنی آئندہ نسلوں کو محفوظ رکھنے کے لئے خلافت کے ساتھ چمٹے رہیں۔ یہی دین ہے۔ یہی توحید ہے۔ یہی مرکزیت ہے اور اس کے ساتھ وابستگی میں خدا تعالیٰ کی رضا ہے۔ اس لیے اس نعمت کی قدر کریں۔ خدا کا شکر بجالائیں اور خلیفۂ وقت کے ساتھ ادب، احترام، اطاعت اور وفا اور اخلاص کا تعلق مضبوط تر کرتی چلی جائیں۔ ‘‘(الفضل انٹرنیشنل 28؍ جنوری 2010ء صفحہ 2)

اپنی اولاد کو خلافت سے وابستہ کرنا

27؍ اکتوبر 1959ء کو مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے اٹھارھویں سالانہ اجتماع کے موقعہ پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے جو نہایت ایمان افروز اور روح پرور پیغام دیا اُس خصوصی پیغام میں آپ نے خدام سے یہ عہد بھی لیا کہ وہ نسلاً بعد نسلٍ اسلام کے جھنڈے کو بلند کرنے اور نظام خلافت کے استحکام کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے۔ اس تاریخ ساز عہد میں سے ایک حصہ ذیل میں درج کیا جار ہا ہے: ’’ہم اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ ہم نظام خلافت کی حفاظت اور اس کے استحکام کے لئے آخر دم تک جدو جہد کرتے رہیں گے اور اپنی اولاد اور اپنی اولاد در اولاد کو ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے اور اس کی برکات سے مستفیض ہونے کی تلقین کرتے رہیں گے تاکہ قیامت تک خلافت احمدیہ محفوظ چلی جائے اور قیامت تک سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ اسلام کی اشاعت ہوتی رہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا کے تمام جھنڈوں سے اونچا لہرانے لگے۔‘‘(روزنامہ الفضل ربوہ 28؍اکتوبر 1959ء صفحہ 4)

انصار کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کو سنبھالیں

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے مورخہ27؍ اکتوبر 1978ء کو مجلس انصاراللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع کے موقع پر انصار کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:’’پس جو بزرگوں کی ذمہ داری ہے وہ ان کو اٹھانی چاہئے۔ ان کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنی اولاد کے کانوں میں ہمارے دین کی باتیں ڈالیں۔ ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائیں۔ اس زمانے کی ضرورت یاد دلائیں۔ یہ وہی زمانہ ہے جس میں پیشگوئیوں کے مطابق غلبہ اسلام کی ضرورت مہدی معہود علیہ السلام کی بعثت کا باعث بنی … انصار کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کو سنبھالیں اور ان کو تیار کریں ذہنی طور پر اور اخلاقی طور پر اور روحانی طور پر کہ اس نقطہ نگاہ سے ان پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، وہ انہیں بشاشت قلب کے ساتھ اور مسکراتے چہروں کے ساتھ ادا کرنے والے بنیں خواہ ساری دنیا ہی اکٹھی ہو کر ان کے مقابلے پر کیوں نہ آجائے۔ انہوں نے قدم آگے ہی بڑھاتے چلے جانا ہے۔ تب خدا تعالیٰ کی برکتوں کی جماعت وارث بن سکتی ہے۔ اور انشاءاللہ بنے گی۔ پس تربیت اولاد بڑی اہم ذمہ داری ہے۔ اس کی طرف خاص توجہ کرنی چاہئے۔ ‘‘(سبیل الرشاد جلد دوم صفحہ362-360)

انصاراللہ کا فرض ہے کہ اپنی نسلوں کی صحیح تربیت کریں

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے مورخہ26؍ اکتوبر 1979ء کو مجلس انصاراللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’’پس انصار اللہ کا یہ فرض ہے کہ اپنی زندگیاں اس نمونہ کے مطابق ڈھالیں اور انصار اللہ کا یہ فرض ہے کہ اپنی نسلوں کی صحیح طور پر تربیت کریں، اپنے گھروں میں بچوں کو اسلام سکھائیں، قرآن پڑھائیں، پیارے رسولؐ کی باتیں ان کے کانوں میں ڈالیں، محمدﷺ کے سب سے بڑے عاشق حضرت مہدیؑ کی باتیں ان تک پہنچائیں مہدی علیہ السلام کی کتب کا خود بھی مطالعہ کریں اور اپنی نسلوں کو بھی کروائیں تا کہ جو ہماری ذمہ داری ہے کہ ساری دنیا میں اسلام غالب ہو اس ذمہ داری کو ہم کَمَاحَقُّہٗ ادا کر سکیں اور اپنے خدا کے حضور سُرخرو ہو جائیں۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو۔ اور خدا تعالیٰ نے جو کام ہمارے سپرد کیا ہے وہ ہمیں کامیاب طریقے پر کرنے کی وہ خود توفیق عطا کرے۔ آمین‘‘(سبیل الرشاد جلد دوم صفحہ 390تا391)

اپنی اولاد کو اپنے ہی ہاتھوں سے قتل نہ کریں

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ وَلَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ نَسُوا اللّٰہَ فَاَنۡسٰہُمۡ اَنۡفُسَہُمۡ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ۔ (الحشر: 20)ترجمہ: اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائو جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے انہیں خود اپنے آپ سے غافل کردیا۔ یہی بدکردار لوگ ہیں۔ کی تشریح بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’خدا کی عبادت سے غافل ہونے کی ایک یہ سزا ہے کہ جو لوگ اپنے بچوں کی عبادت کا خیال نہیں کرتے ان کی اولادیں لازماً ہلاک ہوجایا کرتی ہیں اس لئے وہ اس طرف توجہ کریں اور اپنی اولاد کو اپنے ہی ہاتھوں سے قتل نہ کریں۔

الغرض اللہ تعالیٰ نے مختلف رنگ میں نصیحت فرمائی ہے اور بچوں کی تربیت کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اس معاملے میں اگرچہ مردوں کو پابند کیا گیا ہے لیکن اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ جب مرد باہر ہوتا ہے تو عورت اس کی جگہ لے لیتی ہے اور اس پر بھی تربیت کی ایک بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ مرد کو اس لئے ذمہ دار قرار دیا ہے کہ اسے عورت پر قوّام بنایا گیا ہے۔ اگر عورت کو ذمہ دار بنایا جاتا تو مرد اس ذمہ داری سے باہر رہ جاتے۔ مرد کو ذمہ دار بنایا کہ صرف بچے ہی اس کے تابع نہ رہیں بلکہ عورت بھی تابع رہے اور مرد اس کو بھی پابند کرے اور اس طرح سارا نظام تربیت کے دائرے کے اندر جکڑ جائے۔

جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے میرا تاثر یہ ہے کہ جو مائیں بے نماز ہوتی ہیں، اگر باپ کوشش بھی کریں تب بھی ان کی کوشش اتنا اثر نہیں رکھتی جتنا اس صورت میں کہ جب مائیں نمازی ہوں۔ اسی لیے قرآن کریم مردوں کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ سب سے پہلے اپنی عورتوں کی حفاظت کر و اور ان کو تربیت دو۔ چنانچہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام والی مثال میں بچوں کا ذکر نہیں فرمایا بلکہ یہ فرمایا کہ وہ اپنے خاندان کے ہر فرد کو نماز کی تعلیم دیتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا بھی یہی طریق تھا کہ آپؐ اپنی بیویوں کو نماز کے لیے اٹھاتے تھے۔ پھر بچوں اور دامادوں کو بھی جگایا کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے متعلق آتا ہے کہ حضور ان کے ہاں گئے اور فرمایااٹھو نماز کا اور عبادت کا وقت ہوگیا ہے۔

پس ہمیں بھی اپنے گھروں میں یہی اسوہ زندہ کرنا پڑے گا۔ مرد اپنی بیویوں کو نماز کا پابند کریں اور ان سے یہ توقع رکھیں کہ جب وہ خود گھر پر نہ ہوں تو عورتیں ان کے نائب کے طور پر بچوں کی نمازوں کی حفاظت کریں گی۔ اگر گھروں میں نمازوں کی فیکٹریاں نہ بنیں تو پھر جماعتی تنظیم کی کوششیں پوری طرح کار آمد نہیں ہوسکتیں۔ خدام الاحمدیہ اور انصاراللہ کو ان بچوں کے لیے بہت محنت کرنی پڑتی ہے جن کے والدین نماز سے غافل ہوتے ہیں۔ ہزار کوشش کے بعد ان کو وہ پھل ملتا ہے جو گھر میں والدین صرف چند کلمات کے ذریعہ حاصل کرسکتے ہیں۔ جب دیکھیں نماز کا وقت ہوگیا ہے تو بچے کو بتائیں اور نماز کے لیے کہیں چنانچہ لجنہ اماء اللہ کی طرف سے ماؤں کو تاکید ہونی چاہیے اور خاوندوں کی طرف سے بیویوں کو تاکید ہونی چاہیے کہ وہ اس کام میں مدد کریں اور اپنی اولاد کو بچانے کی کوشش کریں۔ ‘‘(مشعل راہ جلد سوم صفحہ 148تا149)

خلیفہ وقت کے خطبات کی اہمیت

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نئی نسل کے لیے خلیفہ وقت کے خطبات کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’آپ سے میں توقع رکھتا ہوں کہ آپ اپنی نئی نسلوں کو خطبات باقاعدہ سنوایا کریں یا پڑھایا کریں یا سمجھایا کریں کہ خلیفہ وقت کے یہ خطبات جو اس دور میں دیئے جارہے ہیں یہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہونے والی نئی ایجادات کے سہارے بیک وقت ساری دنیا میں پھیل رہے ہیں اور ساری دنیا کی جماعتیں ان کو براہ راست سنتی اور فائدہ اٹھاتی اور ایک قوم بن رہی ہیں اور امت واحدہ بنانے کے سامان پیدا ہورہے ہیں …سب اگر خلیفہ وقت کی نصیحتوں کو براہ راست سنیں گے تو سب کی تربیت ایک رنگ میں ہوگی۔ وہ سارے ایک قوم بن جائیں گے خواہ ظاہری طور پر ان کی قوموں کا فرق ہی کیوں نہ ہو … وہ ایسے روحانی وجود بنیں گے جو خدا کی نگاہ میں مقبول ٹھہریں گے کیونکہ وہ قرآن کریم کی روشنی میں تربیت پارہے ہوں گے۔ قرآن کریم کے نور سے حصہ لے رہے ہوں گے … اپنی اولاد کو خطبات سنانے کا انتظام کریں …اپنی اولادوں کو ہمیشہ خطبات سے جوڑدیں، اگر آپ یہ کریں گے تو ان پر بہت بڑا احسان کریں گے۔ اپنی آئندہ نسلوں کے ایمان کی حفاظت کرنے والے ہوں گے ان کو غیروں کے حملے سے بچانے والے ہوں گے۔ ان کے اخلاق کی حفاظت کرنے والے ہوں گے۔ ‘‘(روزنامہ الفضل ربوہ 30؍اگست 2008ء صفحہ 2)

خلفائے راشدین کا تعلق چونکہ عالم روحانی سے ہوتا ہے اس لیے ان کی باتیں اور ان کی نصائح انسانی روح پر اثر کرتی ہیں جس کے نتیجے میں انسان کی اندرونی کمزوریاں دور ہوکر روحانیت کی کھیتیاں شاداب ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ اس لیے ان بابرکت وجودوں سے اپنے آپ کو وابستہ رکھنا ضروری ہے بلکہ اپنی اولادوں کے دلوں میں نظام خلافت کی محبت داخل کرنا ہمارا فرض اوّلین ہے تاکہ وہ بھی خلافت جیسی عظیم نعمت کے زیر سایہ اسلام احمدیت کی ترقی اور اُس کی ترویج و اشاعت میں بھرپور کردار ادا کرسکیں۔ اسی لیے ایک مرتبہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے ایک پیغام میں احباب جماعت کوخاص طور پر اپنی اولاد کو خلافت احمدیہ سے وابستہ رکھنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا: ’’اسلام احمدیت کی مضبوطی اور اشاعت اور نظام خلافت کے لئے آخر دم تک جدو جہد کرنی ہے اور اس کے لئے بڑی سے بڑی قربانی پیش کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہنا ہے اور اپنی اولاد کو ہمیشہ خلافت احمدیہ سے وابستہ رہنے کی تلقین کرتے رہنا ہے اور ان کے دلوں میں خلیفہ وقت سے محبت پیدا کرنی ہے۔ اتنا بڑا اور عظیم الشان نصب العین ہے کہ اس عہد پر پورا اترنا اور اس کے تقاضوں کو نبھانا ایک عزم اور دیوانگی چاہتا ہے۔ ‘‘( الناصر جرمنی، جون تا ستمبر 2003ء صفحہ 1)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ تربیت اولاد کا ایک نہایت اہم گر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’سب سے بڑی دولت اولاد کی دولت ہے۔ اگر ساری عمر کی کمائی آپ گنوا بیٹھیں تو کتنا دکھ محسوس کرتے ہیں لیکن یاد رکھیں اولاد کی دولت سے بڑھ کر دنیا کی کوئی دولت نہیں ہے۔ اگر اولاد ہاتھ سے نکل جائے تو گویا ساری عمر کی کمائی ہاتھ سے گئی۔ پس اس کی فکر کریں اور اس ضمن میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ اگر آپ باقاعدگی کے ساتھ خطبات کو خود بھی سنیں اور اپنے بچوں کو بھی سمجھائیں تو چونکہ ان میں قرآن کریم کا ذکر چلتا ہے، آنحضرتﷺ کے اخلاق حسنہ کا ذکر چلتا ہے اور چونکہ حضرت مسیح موعودؑ کے کلام سے نصیحتیں پیش کی جاتی ہیں اس لیے تربیت کا ایک بہت ہی اچھا ذریعہ ہیں اور آپ کی نئی نسل کو قرآن اور دین اور محمد رسول اللہﷺ اور مسیح موعودؑ سے ان خطبات کے وسیلے سے انشاء اللہ ایک گہرا ذاتی تعلق پیدا ہوجائے گا اور جب خدا سے تعلق پیدا ہوجائے تو پھر دنیا والے اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔ کیسا ہی گندا معاشرہ ہو لیکن جس کا اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا ہوجائے وہ محفوظ ہوجاتاہے۔ پس اس سے فائدہ اٹھائیں۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 31؍مئی 1991ءروزنامہ الفضل ربوہ 23؍ستمبر 1991ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے 8؍جنوری 1993ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا: ’’میں تمام دنیا کی جماعتوں کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ جن کمزوروں کے دل میں ایک اچنبھے کی خاطر ہی سہی، تعجب کی وجہ سے ہی سہی، ایک شوق تو پیدا ہوا ہے کہ مجھے ٹیلی ویژن کے ذریعے سےدیکھیں اور سنیں اگر وہ ایک دو دفعہ سن کر واپس چلے جائیں تو ہمیں کچھ حاصل نہیں ہوگا، ہمیں یہ کوشش کرنی چاہئے کہ جو آئے وہ مستقل آجائے جو ہمارا ہوہمارا ہوکر رہ جائے، آکر چلے جانے والوں سے ہمیں کوئی مقصد، کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوسکتا۔ دل میں بڑی تمنا یہ ہے کہ ساری جماعت ایک مرکز کے گرد اس طرح اکٹھی ہوجائے جس طرح شہد کی مکھیاں شہد کی ملکہ کے گرد اکٹھی ہوتی ہیں اور اپنی الگ زندگی کا تصور ہی نہیں کرسکتیں اور الگ زندگی میں وہSurviveنہیں کرسکتیں یعنی ان کی بقا کی کوئی ضمانت نہیں۔ اکیلی اکیلی مکھی لازماً مرجایا کرتی ہے۔ تو یہی روحانی جماعتوں کا حال ہوا کرتا ہے …۔ پس جو بکھرے بکھرے احمدی ہیں، جو کناروں پر چلے گئے، جن کا مرکز سے تعلق کمزور ہوگیا، اب بہت اچھا موقع ہے کہ ان کو جب وہ ایک دفعہ آجائیں تو انہیں اپنالیا جائے، ان سے محبت اور پیار کا سلوک کیاجائے، آئندہ اگر وہ نہ آئیں تو ان کو بلانے کے لئے آدمی بھیجے جائیں اور اسی طرح اور کمزوروں کی تلاش کی جائے کہ جہاں جہاں کوئی کمزور ہے وہاں اس تک پہنچ کر اسے یہ تحریک کی جائے کہ ایک دفعہ آجائو دیکھ تو لو اور پھر میں امید رکھتا ہوں کہ جو رفتہ رفتہ آجائے وہ پھرخدا کے فضل سے آ ہی جاتا ہے۔

…ہر جگہ سے یہی خبریں مل رہی ہیں کہ جو ایک دفعہ آجائے پھر وہ نہیں چھوڑتا بار بار آتا ہے…تو اس سلسلہ کو اللہ کے فضل کے ساتھ آپ اورزیادہ عام کرنے کی کوشش کرتے چلے جائیں اور ہوگا تو سہی کیونکہ میں تو یہ دیکھ رہاں ہوں کہ اللہ کی تقدیر ہے جس نے جماعت کو اس نئے دور میں داخل کیا ہے اور اب یہ سلسلہ پھیلنا ہی پھیلنا ہے دنیا کی کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی، ہوا کے رخ پر چل کر اس کی مدد کریں تو مفت کا ثواب حاصل ہوگا۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 8؍جنوری 1993؍مطبوعہ خطبات طاہر جلد 12صفحہ23تا24)

خلافت احمدیہ سے اپنی وفا، اخلاص اور محبت کے رشتے کو مضبوط تر کرتے چلے جائیں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کے سالانہ اجتماع 2007ء کے موقع پر خدام اور اطفال کے نام اپنے پیغام میں فرمایا: ’’خلافت احمدیہ سے اپنی وفا اخلاص اور محبت کے رشتے کو مضبوط تر کرتے چلے جائیں۔ اس سے ایسی للہی محبت آپ کے دلوں میں ہو کہ اس کے مقابل پر تمام دوسرے رشتے آپ کو کمتر نظر آنے لگیں۔ یادرکھیں وہی شاخ پھول پھل سکتی ہے جو درخت کے ساتھ پیوستہ ہو۔ آج آپ کی تمام خوشیاں کامیابیاں اور ترقیات خلافت احمدیہ سے وابستہ کردی گئی ہیں۔ خلافت ہی آپ کے دین کو مضبوط کرے گی، آپ کے خوف کو امن میں بدلے گی۔ جس قدر آپ کا تعلق خلافت سے مضبوط ہوگا اسی قدر آپ روحانیت میں ترقی کریں گے اسی سے آپ کی آئندہ نسلوں کی تربیت ہوگی، اسی سے آپ کا دین سنورے گا اور اسی سے آپ کی دنیوی فلاح وبہبود کے راستے کھلیں گے۔ آپ خوش قسمت ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے خلافت جیسی عظیم نعمت عطا فرمائی ہے۔ اس حبل اللّٰہکو مضبوطی سے تھام لیں۔ اس سے دلی وابستگی کی برکت سے آپ کا آپس میں پیار ومحبت بھی بڑھے گااور دنیا میں حقیقی توحید کا قیام ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے آپ کو اس نعمت کی قدر کرنے کی توفیق دے اور ہمیشہ اپنے شکر گزار بندوں میں شامل رکھے۔ دعائیں بھی کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ جماعت اور خلیفۂ وقت کے باہمی تعلق کو ہمیشہ تقویٰ پر استوار رکھے اور اسے مضبو ط سے مضبوط تر کرتا چلاجائے اور حاسدین یا منافقین کی کوئی شرارت کبھی اس تعلق میں کوئی رخنہ نہ ڈال سکے۔ (آمین )‘‘(نورالدین جرمنی۔ شمارہ نمبر 3۔ 2007ء صفحہ 4)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 24؍جنوری 1960ء کو جلسہ سالانہ کے موقع پر جماعت کے تمام افراد کو کھڑا کرکے ایک تاریخ سازعہد لیا تھا۔ جس میں اپنی اولاد در اولاد کو ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے کا عہد بھی شامل تھا۔ اس عہد کے الفاظ یہ ہیں: ’’ہم نظام خلافت کی حفاظت اور اس کے استحکام کے لئے آخر دم تک جدو جہد کرتے رہیں گے اور اپنی اولاد در اولاد کو ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے اور اس کی برکات سے مستفیض ہونے کی تلقین کرتے رہیں گے تاکہ قیامت تک خلافت احمدیہ محفوظ چلی جائے اور قیامت تک سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ اسلام کی اشاعت ہوتی رہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا کے تمام جھنڈوں سے اونچا لہرانے لگے۔ اے خدا ! تو ہمیں اس عہد کو پورا کرنے کی توفیق عطافرمااللّٰھم آمین۔ اللّٰھم آمین۔ اللّٰھم آمین۔ ‘‘(روزنامہ الفضل ربوہ 16؍فروری 1960ء صفحہ 4)

مضمون کے آخر میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک اقتباس درج کیا جارہا ہے جس سے اظہر من الشمس ہے کہ خلفائے سلسلہ افراد جماعت کے تعلیم وتربیت میں ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں اور انہیں اس بات کی فکر رہتی ہے کہ جماعت کا کوئی ایک فرد بھی تربیت کی کمی کے باعث ضائع نہ ہو۔ حضورؓ نے فرمایا کہ’’آپ کا نام انصار اللہ اس لئے رکھا گیا ہے کہ جہاں تک ہو سکے آپ دین کی خدمت کی طرف توجہ کریں۔ اور یہ توجہ مالی لحاظ سے بھی ہوتی ہے اور دینی لحاظ سے بھی ہوتی ہے۔ دینی لحاظ سے بھی آپ لوگوں کا فرض ہے کہ عبادت میں زیادہ سے زیادہ وقت صرف کریں۔ اور دین کا چرچا زیادہ سے زیادہ کریں۔ تاکہ آپ کو دیکھ کرآپ کی اولادوں میں بھی نیکی پیدا ہو جائے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قرآن کریم میں یہی خوبی بیان کی گئی ہے کہ آپ اپنے اہل و عیال کو ہمیشہ نماز وغیرہ کی تلقین کرتے رہتے تھے۔ یہی اصل خدمت آپ لوگوں کی ہے۔ آ پ خود بھی نماز اور ذکر الٰہی کی طرف توجہ کریں اور اپنی اولادوں کو بھی نماز اور ذکر الٰہی کی طرف توجہ دلاتے رہیں۔ جب تک جماعت میں یہ روح پیدا رہے اور لوگوں کے ساتھ خدا تعالیٰ کے فرشتوں کا تعلق قائم رہے اور اپنے اپنے درجہ کے مطابق کلام الٰہی ان پر نازل ہوتا رہے۔ اسی وقت تک جماعت زندہ رہتی ہے۔ کیونکہ اس میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی آواز سن کر اسے لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔ اور جب یہ چیز مٹ جاتی ہے اور لوگ خدا تعالیٰ سے بے تعلق ہو جاتے ہیں تو اس وقت قومیں بھی مرنے لگ جاتی ہیں۔ پس آپ لوگوں کو ہمیشہ خداتعالیٰ کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور اپنی اولاد وں کو بھی ذکر الٰہی کی تلقین کرتے رہنا چاہئے۔ ‘‘(خطاب فرمودہ یکم نومبر1958ء بحوالہ روزنامہ الفضل ربوہ 6؍نومبر 1958ء)

پس اپنی اولاد کو خطبات سنانا اور سمجھانا اس لیے ضروری ہے کیونکہ خلافت عافیت کا حصار ہے۔ خلافت نظام وحدت کی عکاس ہے۔ خلافت ایک مہربان سائے کی طرح ہماری حفاظت کرتی ہے۔ خلافت سے مومنوں کا خوف امن میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ خلافت اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والی عطائے ربانی ہے۔ خلافت خدا تعالیٰ کی راہوں کی طرف ہماری راہنمائی کرتی ہے۔ خلافت سے تعلق رکھنے والے نیکی کے ہر میدان میں ترقی کرتے ہیں۔ گویا خلافت تاریکیوں سے نکال کر روشنی اور نور کی طرف لے جاتی ہے۔ اور سب سے بڑھ کر خلافت سے دین ترقی کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی خالص توحید دنیا میں قائم ہوتی ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button