یادِ رفتگاں

محترمہ امۃ اللطیف خورشید صاحبہ کی یاد میں

(آصف محمود باسط)

اچھے پڑوسی میسر آجانا بہت ہی خوش قسمتی کی بات ہے۔ میں نے ربوہ کے جس گھر میں آنکھ کھولی اور ہوش سنبھالا، اس گھر کی اچھی یادوں میں سے ایک ہماری بائیں دیوار سے جڑا ہمارا پڑوس تھا۔

اس مکان میں نائب ایڈیٹر صاحب الفضل ربوہ رہتے۔ ان کی اہلیہ مدیرہ ماہنامہ مصباح رہتیں۔ ہماری سانجھی دیوار میں ایک دروازہ نما کھڑکی تھی۔ اس کے ذریعے ہمارا ان کے یہاں اور ان کا ہمارے یہاں آنا جانا بھی رہتا تھا۔ وہ ایسے کہ مدیرہ صاحبہ مصباح امۃ اللطیف خورشید میری پھوپھی اور نائب مدیر الفضل محترم شیخ خورشید احمد صاحب میرے پھوپھا تھے۔

کچھ روز ہوئے میری پھوپھو امۃ اللطیف خورشید صاحبہ اس جہان سے کوچ کرگئیں۔ ان کی یادیں تو کئی روز سے دل و دماغ میں ہجوم کررہی تھیں، مگر انہیں جمع کرنا وقت مانگتا تھا۔ اور اس وقت کا کیا کریں کہ اسی کی قلت مجھ میں اور میری پھوپھو میں کئی دہائیوں تک حائل رہی۔ یہاں تک کہ وہ ہم سے جدا ہو گئیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

میں نے اپنی رشتہ داری سے پہلے ان کے پڑوسی ہونے کا ذکر اس لیے کیا کہ ان کے پڑوس میں رہنے کی وجہ سے میرے بچپن پر بہت گہرے اثرات پڑے۔ جو آج تک میرے ذہن پر مرتسم ہیں۔ دونوں بے انتہا علم دوست طبیعت کے مالک تھے۔ اور علم پرور بھی کہ ہمارے یہاں اخبار انہی کے گھر سے آیا کرتا۔ الفضل بھی اور نوائے وقت بھی۔ جب ان کا گھرانہ ان اخبارات کو پڑھ چکتا تویہ ہمارے حصے میں آتے۔ یہ الفضل سے میری پہلی شناسائی تھی۔ اور نوائے وقت سے بھی۔

محترم شیخ صاحب مرحوم کا ربوہ کی گرمیوں کی چلچلاتی دوپہروں میں سائیکل پر دفتر الفضل سے واپس اپنے گھر لوٹنا مجھے آج تک یاد ہے۔ دور سڑک پر گرمی سے بچاؤ کے لیے سر اور گردن کے گرد تولیہ لپیٹے، carrier پر اخبار پھنسائے (یا سامنے کی ٹوکری میں ) وہ دور، جھلملاتے سراب کے پیچھے سے سائیکل پر آتے نظر آتے۔ یہ میرے سکول سے واپس آنے کا وقت ہوتا اور ہماری سڑک پر قطار میں لگے کیکر کے درخت گرمی کی شدت سے ہانپ رہے ہوتے اور ان کی پھلیاں ٹوٹ کر نیچے مٹی پر گر رہی ہوتیں۔

محترم شیخ صاحب نہایت نرم خو اور نہایت ہی شفیق بزرگ تھے۔ صاف ستھرے، پیارے آدمی۔ مجھے ان کی یہی باتیں یاد رہ گئیں کہ بہت بچپن میں ہی ہم اس پڑوس سے محروم ہو گئے۔ اور یہ بھی یاد ہے کہ پھوپھو کو انہوں نے گویا مختارِعام مقرر کر رکھا تھا جو گھر بھر کی منتظمہ تھیں۔ بلکہ منتظمۂ اعلیٰ۔

دوپہر تو کمروں میں گزرتی مگر شام ہوتی تو ان کے صحن سے ان کے گھرانے کی آوازیں ہمارے گھر میں آنے لگتیں۔ ربوہ (بلکہ پنجاب) کے گھروں کی ساخت ایسی تھی کہ آوازیں تو دیوار میں لگی کھڑکی کی بھی محتاج نہ تھیں۔ وہ یونہی چلی آتیں اور یونہی کانوں میں پڑ جایا کرتیں۔ مگر بہت بچہ ہونے کے باوجود مجھے اس گھرانے سے آنے والی آوازوں میں علمی نوعیت کی بات چیت یاد ہے۔ حالاتِ حاضرہ پر تبادلۂ خیال۔ الفضل میں چھپے کسی مضمون یا کسی خبر پر گفتگو۔ کھیل کی خبروں پر تبصرہ۔ اور ایسا ہی بہت کچھ جو سب بہت مثبت ہوتا۔ ریڈیو کی آواز آتی تو یا تو خبریں ساتھ لاتی یا کسی کھیل کی کمنٹری اور اس پر ہمارے پھوپھا جان کا مومنانہ، معصومانہ اظہار جوش و خروش۔ پھر چھڑکاؤ کرتے ہوئے پائپ کے پھٹ جانے یا نل خراب ہوجانے کی شکایت تو ہر گھرانے میں چلتی ہی ہے۔

مگر اس گفتگو کے مقابلے پر میرے کانوں سے ایسے گھرانوں کی گفتگو بھی گزرتی رہتی جو لوگوں کی شخصی کمزوریوں اور دنیاداری کے گرد گھوما کرتی۔ سوآج تک ایسی گفتگو سے انقباض اور دنیا کے اصل مسائل پر ہونے والی گفتگو کی طرف میلان شاید پھوپھو کے گھرانے سے آنے والی آوازوں کا مرہونِ منت ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں اس کی بہت جزا عطا فرمائے۔

پھر ان کے گھرانے کی ایک خاص بات یہ تھی کہ سب بچے بہت اچھی تعلیم حاصل کررہے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ان کی بیٹی، جنہیں ہم عفت باجی کہا کرتے، سے میں نے پہلی مرتبہ ’’جغرافیہ‘‘ کا لفظ سنا تھا۔ چار پانچ سال کی عمر میں یہ لفظ بہت عجیب لگا اور تب تو یہ بھی معلوم نہ ہوسکا کہ یہ کس علم کو کہتے ہیں۔ مگر جیسے وہ اس مضمون کو پڑھنے میں اپنی نحیف جان کو کھپائے رکھتیں، وہ اس عمر سے لے کر آج تک میرے ذہن پر نقش ہے۔ پھر ان سے بڑی بیٹی باجی نصرت میڈیکل کالج میں تعلیم حاصل کررہی تھیں۔ بیٹے انجنیئرنگ کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ سب سے بڑے بیٹے، لئیق بھائی دبئی جا چکے تھے۔ اور یہ دبئی جانا پھوپھو کے گھرانے میں کشائش کا باعث ہوا تھا۔ ورنہ پھوپھو اور پھوپھا جان نے بہت کٹھن وقت بھی دیکھ رکھے تھے۔

اب یہ بھی بتاتا چلوں کہ یہ کشائش ایک پانچ سات سال کے بچے کو کیوں یاد رہ گئی۔ تو یہ بتانے کے لیے ہم موسم گرما کی چلچلاتی دوپہر سے ربوہ کی دھند آلود سرما کی خوبصورت صبحوں میں چلتے ہیں۔ سو ذکر ہوتا ہے ربوہ کی سردیوں کی صبح کا تو گلی میں سبزی فروشوں اور چھان بورے والوں کی آوازوں اور سامنے گراؤنڈ میں واقع پرائمری سکول سے بچوں کے پہاڑے رٹنے کی آوازوں کے ساتھ ساتھ ایک اور آواز بھی کانوں میں گونج جاتی ہے۔ وہ ہے پھو پھو کے گھر سے آتی ہوئی juicerکی آواز۔ یہ مشین دبئی سے آئی تھی اور پھوپھو اس سے مالٹوں اور گاجروں کا جوس نکالا کرتیں۔ یہ جوس پھوپھو کے یہاں سے بہت مرتبہ پیا جو اس عمر میں (اور اس زمانے کے حالات میں ) جنت کا مشروب لگا کرتا۔

یہ جس دور کی بات ہے، یعنی 1980ء کے اوائل کی، تب ربوہ میں کسی کے گھر میں ٹیلی وژن ہونا ایک بہت ہی انوکھی سی بات تھی۔ اور یہ انوکھی سی بات ہماری پھو پھو کے یہاں تب ہو بھی چکی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ نیلام گھر نامی پروگرام پہلی مرتبہ پھو پھو کے یہاں ہی دیکھا تھا۔

پھر اس پیارے گھرانے کی ایک اور یاد عید کی خوبصورت صبح ہے۔ ہم سب بہن بھائی صبح صبح تیار ہو کر پھو پھو سے عید ملنے جاتے۔ پھو پھو یا تو باورچی خانے میں مصروف ہوتیں یا اپنے بستر پر آبیٹھی ہوتیں۔ سامنے میز پر ایک ایک روپے کے نئے نوٹوں کی تھدیاں پڑی ہوتیں۔ ہمیں کہتیں کہ وہاں سے سب دو دو نوٹ عیدی کے لے لو۔ ہمیں ان کورے نوٹوں میں ظاہر ہے کہ اور طرح کی دلچسپیاں بھی ہوتیں مگر نئے نکور نوٹ کو یوں گڈی سے جدا کرنے کا جو لطف تھا وہ بھی خوب رہتا کہ یہ بھی صرف عید کے عید اور پھو پھو ہی کے یہاں نصیب ہوا کرتا۔ کچھ ایسے رشتہ دار بھی تھے جو رقم کے لحاظ سے زیادہ عیدی دیا کرتے، مگر پھوپھو کے دیے ہوئے دو روپے ہمیشہ ان پر بھارے رہے۔ شاید بچپن میں بھی بچوں کو معلوم ہوجاتا ہے کہ عیدی میں اصل بات خلوص ہے نہ کہ دکھاوا اور رسم کیشی۔ سو دنیاداری سے انقباض اور خلوص کی اہمیت اور طاقت بھی پھوپھو سے سیکھنے کو ملیں۔ اللہ انہیں بہت بہت جزادے۔

میں نے ابھی ذکر کیا کہ پھوپھو بعض اوقات اپنے بستر پر بیٹھی ہوئی ملتیں۔ تو اس کے ساتھ بھی ایک یاد ہے جو یہاں بیان کردینا ضروری ہے۔ اگر بستر پر بیٹھی ہوتیں تو اپنے پیر پائنچوں میں چھپائے کچھ آرام کررہی ہوتیں۔ سرہانے دوائیوں کا ایک پیالہ سا رکھا ہوتا۔ مگر سرہانے اور بہت سے خزانے پڑے ہوتے جن میں الفضل، دوسرے اخبار، کوئی کتاب، قلم اور کچھ ورق پڑے ہوتے۔ پہلو میں پھوپھا جان کا بستر بھی کچھ ایسا ہی ہوتا۔ ہاں ان کے بستر کے پاس دوائیاں یاد نہیں کہ ماشا ءاللہ بڑی اچھی صحت کے مالک تھے، مگر کتابوں اور صفحات کے ڈھیر ان کے سرہانے بھی لگے ہوتے۔ کمرے میں جو خوشبو ہوتی اسے کسی بھی دوسری خوشبو کی طرح بیان کرنا الفاظ میں توممکن نہیں۔ تازہ موسمی پھل، کتاب، اوراق اور خس کے room coolerکی خوشبوؤں کو ملا لیں تو شاید آپ بھی اس خوشبو کا تصور کرسکیں۔

تو کتاب سے محبت اور صحت کے مسائل کو بالائے طاق رکھتے ہوئے لکھنے پڑھنے سے شغف رکھنے کا سنہرا سبق بھی پھوپھو ہی کے گھر سے حاصل ہوا۔ بعد میں اپنے والد صاحب سے بھی مگر وہ تو تب ہوا جب ان کے ساتھ رہنے کا موقع ملا۔

چونکہ مجھے ایسے گھرانوں سے بھی خوب واقفیت تھی جہاں یا تو کتاب ہوتی ہی نہ تھی یا اس کے پرانے پن کو دیکھ کر اسے چھان بورے والے کے پاس بیچ دیا جاتا تھا۔ جہاں کتابوں کو طاقوں اور کوٹھڑیوں سے نکال کر کپڑوں کے لیے جگہ بنائی جاتی۔ سو پھوپھو کے گھرانے میں ہر دیوار سے بیل کی طرح لپٹی علم کی محبت نے دل پر گہرا اثر کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی روح کو ابدی سکون عطا فرمائے اور بہت جزا دے۔

پھر یہ ہوا کہ ہم زیمبیا چلے گئے۔ تین سال بعد 1985ء میں کچھ دن کے لیے ربوہ دوبارہ جانا ہوا تو ہمارے گھر میں تو کرایہ دار رہ رہے تھے، سو پھو پھو نے ہمیں اپنے مکان کی بالائی منزل پر رہنے کے لیے جگہ دی۔ کچھ دن اور پھو پھو کی محبتیں سمیٹیں۔ ہم پھر واپس چلے گئے۔ جب 1990ء میں مستقل ربوہ واپسی ہوئی، تو پھوپھو کینیڈا جا چکی تھیں۔ ہمیشہ کے لیے۔

اس کے بعد کے کئی سال میری کوتاہیوں اور کمزوریوں کی کہانی ہے۔ مگر پھوپھو کا بڑا پن تقاضا کرتا ہے کہ میں اپنی کوتاہیوں کے بیان سے گریز نہ کروں۔

کوئی کینیڈا گیا تو واپسی پر پھوپھو کا پیغام میرے لیے ضرور لایا کہ اُسے کہو کینیڈا آئے۔ جب ان سے فون پر بات ہوتی تو ہمیشہ یہی بات کہتیں۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس پیغام میں ’’ایک مرتبہ تو آکر مل جائے‘‘ کا افسردہ کردینے والااضافہ ہو گیا۔ میں مجبوری کا اظہار کرتا۔ ندامت کا اظہار معلوم نہیں کر پا تاتھا یا نہیں، مگر دل میں سخت نادم بھی ضرور ہوتا۔

بالعموم پھوپھو کے نام ہی کی طرح یہ پیغام بھی لطیف ہی ہوتا۔ اکثر دوسروں کے ذریعہ مجھ تک پہنچا کرتا۔ مگر ایک روز میرے فون پر پھوپھو کا فون آیا۔ ان کی آواز میں ایک خاص چمک تھی۔ کچھ اور کہے بغیر فرمایا:

’’بس اب تو آنا ہی پڑے گا۔ میں نے حضور کو خط لکھا تھا کہ میرے بھتیجے کو کہیں کہ مجھے آکر مل جائے۔ ابھی عصر کی نماز کا سلام پھیرا ہی ہے تو حضور کا جواب آیا ہے۔ فرمایا ہے کہ ’اگر وہ جاسکتے ہیں تو ضرور چلے جائیں ‘۔ تو بس اب تم آجاؤ۔ اب کوئی بہانہ نہیں۔ اب حضور نے کہہ دیا ہے۔ ‘‘

جلسے کے دن تھے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ جلسے کے مہینے تھے۔ اس مصروفیت کی آڑ مل گئی ورنہ پھوپھو کا حکم اور حضور کے الفاظ جنہیں پھوپھو نے حکم کا درجہ دے دیا تھا، دونوں ہی عمل انگیز تھے۔

پھر کورونا وائرس نے دنیا کے نظام کو تہ و بالا کردیا۔ ایسے میں پھوپھو نے سفر پر تو اصرار نہ کیا، البتہ ماضی میں میری کوتاہی کی طرف توجہ ضرور دلائی۔ بڑی محبت سے۔ ’’آجاتے تو کیا تھا؟ ‘‘ اور ایسے اور پیار بھرے جملے آج کانوں میں تو گونجتے ہی ہیں، دل اور دماغ کو سُن کر کے بھی رکھ دیتے ہیں۔

پھو پھو سے میری آخری بات ان کی وفات سے تقریباً ایک ماہ پہلے ہوئی۔ وہ اس وقت کورونا وائرس کا حفاظتی ٹیکہ لگوانے جارہی تھیں۔ اس روز ان کے آخری الفاظ تھے کہ ’’میں نہیں رہوں گی تو پھر کہو گے کہ جا کر مل ہی آتا تو اچھا تھا۔ ‘‘

یہ الفاظ جو اَب میرے دل کو دکھ سے بھر دیتے ہیں، حرف بہ حرف پورے ہوئے۔ میں آج بالکل یہی سوچ رہا ہوں، کئی دن سے، کہ کاش میں ایک بار کہا مان کر چلا گیا ہوتا۔ ایک تو ان کی خواہش تھی۔ اور میری بھی۔ دوسرا یہ کہ پھوپھو کو بہت سی باتوں پر شکریہ کہنا تھا جو میں اکثر سوچتا کہ کبھی ان کے پاس گیا تو مل کر اپنے جذبات کا اظہار کروں گا۔ مگر ایسا ہو نہ سکا۔

تو آج پھو پھو کے لیے ان الوداعی سطور کے ذریعے اپنے جذبات پیش کرتا ہوں۔ شاید ان تک پہنچ جائیں۔ سو عرض کرتا ہوں کہ پھوپھو! آپ کا بہت سا شکریہ۔ الفضل سے متعارف کروانے کا شکریہ۔ ان آوازوں کا شکریہ جو آپ کے گھر سے آیا کرتیں اور ایک بچے کو بتایا کرتیں کہ دنیا میں کون سے مسائل لائقِ بحث ہیں۔ نوائے وقت کے پرچوں کا شکریہ کہ ایک بچے نے سیکھا کہ اپنی ذات اور خواہشات سے باہر بھی ایک دنیا ہے جس سے آگاہ رہنا ہمارے لیے ضروری ہے۔ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کا شکریہ کہ ایک بچے نے آپ کے اس عمل سے سیکھا کہ حصولِ تعلیم کی راہ میں قربانیاں بھی دینی پڑیں تو ضرور دے دی جائیں کہ یہ زندگی بھر کا سرمایہ ہے۔ اپنے سرہانے بند، کھلی، ادھ کھلی کتابیں رکھنے کا شکریہ کہ اس سے بہت سوں میں علم کی لگن اور محبت پیدا ہوئی۔ اور ان عیدیوں کا بھی شکریہ۔ اور گاجر کے جوس کا بھی۔ کہ اس میں بھی پڑوسی کے حقوق اور ایتاءذی القربیٰ سے بڑھ کر احسان کا سبق تھا۔

اس محبت بھری دعوت کا شکریہ جو آپ ہر آنے جانے والےکے ہاتھ مجھے بھیجا کرتیں۔ ہر بار فون پر مجھے خود بھی کہا کرتیں۔ وہ دعوت جسے قبول کرنے کا شرف میں حاصل نہ کرسکا۔ میرے عذر آپ کی زندگی کے ساتھ ختم ہوگئے۔ آج میرے پاس کوئی بہانہ نہیں۔ معاف کردینا۔ فی امان اللہ۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button