متفرق مضامین

خلیفۂ وقت کا دل…دعاؤں کا خزینہ

(عطاء المجیب راشد۔ امام مسجد فضل لندن)

نظام خلافت کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک نعمت یہ ہے کہ خلیفۂ وقت کے وجود میں ساری جماعت کو ایک ایسا دردمند اور دعا گو وجود نصیب ہوتا ہے جو ہر دکھ درد میں ان کا سہارا اور ہر خوشی میں ان کے ساتھ برابر شریک ہوتا ہے۔ یہ کیفیت دنیاوی راہ نماؤں میں کہاں جن کو ان کے عوام تب یاد آتے ہیں جب انہیں ووٹ کی ضرورت پڑتی ہے لیکن خلافت کے بابرکت نظام میں خلیفۂ وقت اسوۂ نبوی ؐکی اقتدا میں جماعتِ مومنین کے لیے ہر روز اور ہر وقت ایک رؤوف و رحیم باپ کی طرح ہوتا ہے۔ غم کے مارے اس کے آستانہ پر آکر اپنے بوجھ ہلکے کرتے ہیں اور دعاؤں کے خزانوں سے جھولیاں بھر کر لوٹتے ہیں۔ یہ ایسی نعمت ہے جو آج سوائے جماعت احمدیہ کے دنیا کے کسی اور نظام میں لوگوں کو میسر نہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کے زمانے کا واقعہ ہے۔ چودھری حاکم دین صاحب بورڈنگ کے ایک ملازم تھے۔ ان کی بیوی، پہلے بچے کی ولادت کے وقت بہت تکلیف میں تھی۔ اس کر بناک حالت میں رات کے بارہ بجے وہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کے دروازہ پر حاضر ہوئے۔ دروازہ پر دستک دی۔ آواز سن کر پوچھا کون ہے؟ اجازت ملنے پر اندر جا کر زچگی کی تکلیف کا ذکر کیا اور دعا کی درخواست کی۔ حضورؓ فوراً اٹھے، اندر جا کر ایک کھجور لےکر آئے اور اُس پر دعا کرکے انہیں دی اور فرمایا: ’’یہ اپنی بیوی کو کھلادیں اور جب بچہ پیدا ہوجائے تو مجھے بھی اطلاع دیں۔ ‘‘

چودھری حاکم دین صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں واپس آیا کھجور بیوی کو کھلا دی اور تھوڑی ہی دیر میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بچی کی ولادت ہوئی۔ رات بہت دیر ہو چکی تھی میں نے خیال کیا کہ اتنی رات گئے دوبارہ حضور کو اس اطلاع کے لیے جگانا مناسب نہیں۔ نماز فجر میں حاضر ہوکر میں نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے کھجور کھلانے کے بعد بچی پیدا ہوگئی تھی۔ اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے جو فرمایا وہ سننے اور یاد رکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ دلگداز الفاظ طبیعت میں رقت پیدا کر دیتے ہیں۔ آپؓ نے فرمایا: ’’میاں حاکم دین! تم نے اپنی بیوی کو کھجور کھلادی اور تمہاری بچی پیدا ہوگئی۔ اور پھر تم اور تمہاری بیوی آرام سے سوگئے۔ مجھے بھی اطلاع کردیتے تو میں بھی آرام سے سو رہتا۔ میں تو ساری رات جاگتا رہا اور تمہاری بیوی کے لئے دعا کرتا رہا!‘‘

چودھری حاکم دین صاحب نے یہ واقعہ بیان کیا اور بے اختیار رو پڑے اور کہنے لگے: ’’کہاں چپڑاسی حاکم دین اور کہاں نورالدین اعظم۔ ‘‘(مبشرین احمد صفحہ 38 نیز اصحاب احمد جلد 8 صفحہ 71تا72)

٭…٭…٭

حضرت مصلح موعود رضی اللہ نے ایک بار احباب جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے اپنی قلبی کیفیت کا نقشہ اس طرح کھینچا تھا، فرمایا: ’’تمہارے لئے ایک شخص تمہارا درد رکھنے والا، تمہاری محبت رکھنے والا، تمہارے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنے والا، تمہاری تکلیف کو اپنی تکلیف جاننےوالا، تمہارے لئے خدا کے حضور دعائیں کرنے والاہےمگر ان (دوسرے لوگوں )کے لئے نہیں ہے۔ تمہارا اسے فکر ہے، درد ہے اور وہ تمہارے لئے اپنے مولیٰ کے حضور تڑپتا رہتا ہے لیکن ان کے لئے ایسا کوئی نہیں ہے۔ کسی کا اگر ایک بیمار ہو تو اس کو چین نہیں آتا۔ لیکن کیا تم ایسے انسان کی حالت کا اندازہ کر سکتے ہو جس کے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں بیمار ہوں ‘‘(برکات خلافت، انوار العلوم جلد 2 صفحہ 158)

٭…٭…٭

اسی مضمون کے تسلسل میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کا ایک ارشاد پیش کرتا ہوں جس میں آپ نے اپنی قلبی کیفیات اور دعاؤں کا تذکرہ ایک دلگداز رنگ میں کیا ہے۔ آپؒ نے فرمایا: ’’میں آپ میں سے آپ کی طرح کا ہی ایک انسان ہوں اور آپ میں سے ہر ایک کے لئے اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اتنا پیار پیدا کیا ہے کہ آپ لوگ اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے بعض دفعہ سجدہ میں مَیں جماعت کے لئے اور جماعت کے افراد کے لئے یوں دعا کرتا ہوں کہ اے خدا ! جن لوگوں نے مجھے خطوط لکھے، انہیں ان کی مرادیں پوری کر دے۔ اے خدا جو مجھے خط لکھنا چاہتے تھے لیکن کسی سستی کی وجہ سے نہیں لکھ سکے ان کی مرادیں بھی پوری کردے۔ اور اے خدا! جنہوں نے مجھے خط نہیں لکھا اور نہ انہیں خیال آیا ہے کہ دعا کے لئے خط لکھیں اگر انہیں کوئی تکلیف ہے یا ان کی کوئی حاجت اور ضرورت ہے تو ان کی تکالیف کو بھی دور کردے اور حاجتیں بھی پوری کردے۔‘‘(روزنامہ الفضل ربوہ 21؍دسمبر 1966ء)

جماعتی روایات کے مطابق ربوہ میں جلسہ سالانہ پر آنے والے معزز مہمانوں کو جماعت کے تعلیمی ادارہ جات میں ٹھہرایا جاتا تھا۔ 1972ءمیں حکومت وقت نے ان سب ادارہ جات کی تعمیر ات کواپنی تحویل میں لے لیا تا ہم 1974ء تک جلسے کے دنوں میں ان عمارات میں جلسہ کے مہمانوں کو ٹھہرانے کا سلسلہ جاری رہا۔ 1975ء میں جلسہ سالانہ سے چند روز قبل اچانک محکمہ تعلیم کی طرف سے پیغام آیا کہ جماعت کو امسال جلسہ سالانہ کے مہمانوں کو ٹھہرانے کے لیےتعلیمی ادارے نہیں ملیں گے۔

جماعتی نظام کی طرف سے جب یہ چونکا دینے والی اطلاع حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کو دی گئی تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ’’اگر مہمان باہر کھلے آسمان کے نیچے سوئیں گے تو میں بھی کھلے آسمان کے نیچے سوؤں گا۔ ‘‘

سبحان اللہ ! افرادِ جماعت سے دلی محبت اور شفقت کا کیا خوبصورت اظہار ہے!

٭…٭…٭

کینیڈا کے ایک پروفیسر ڈاکٹرGultieriحضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ سے پہلی بار ملنے آئےتو ان کی حضورؒ سے ملاقات سے پہلے اس عاجز کو بھی ان سے ملنے کا موقع ملا اور میں نے بطورِ تعارف حضور انور کی ذات کے حوالے سے چند باتیں اپنے انداز میں کیں۔ بعد ازاں وہ حضور رحمہ اللہ سے ملاقات کرنے چلے گئے۔ واپس آئے تو انہوں نے اظہار کیا کہ ملاقات کے لیے جاتے وقت میں آپ کی باتوں سے یہ تاثر لے کر گیا کہ احباب جماعت اپنے خلیفہ سے بہت محبت کرتے ہیں۔ وہاں جو باتیں ہوئیں ان کے بعد میں یہ کہوں گا کہ احباب جماعت کی اپنے خلیفہ سے محبت اپنی جگہ، لیکن میں اس یقین سے واپس لوٹا ہوں کہ جماعت کا خلیفہ اپنی جماعت کے افراد سے ان سے بھی زیادہ محبت رکھتا ہے۔ کیا سچی اور برحق بات اس پروفیسر نے کہی۔ ماں سے زیادہ محبت کرنے والا اور دن رات ان کو دعاؤں پر دعائیں دینے والا، ان کے غم میں گھلنے والا اور ان کی خوشیوں میں پوری طرح شامل وجود کسی نے دیکھنا ہو تو خلیفۂ وقت کے وجود میں نظر آتا ہے! عالَم احمدیت سے باہر یہ نعمت آج کسی اور کو نصیب نہیں۔

جل رہا ہے سارا عالَم دھوپ میں بے سائباں

شکرِ مولیٰ کہ ہمیں یہ سایہ رحمت ملا

٭…٭…٭

آج بھی خدائے رحمٰن نے اپنے بے پایاں فضل و کرم سے ہمیں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ذات اقدس میں ایسا مہربان آقا عطا فرمایا ہے جو ہم میں سے ہر ایک کو اس محبت سے گلے لگاتا ہے کہ غم بھول جاتا ہے اور دل کی پاتال تک خوشی و مسرت کا بسیرا ہوجاتا ہے۔ خدائے ذوالمنن کا احسان ہے کہ اس نے ایسا خلیفہ ہمیں عطا فرمایا ہے جو محبت بھری دعاؤں کا کبھی نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے۔ اس کا محبت بھراسلوک دلوں کو لُوٹتا چلا جاتا ہے!

خلفائے احمدیت کی محبت و شفقت اور دعاؤں کے فیض کا سلسلہ اتنا وسیع اور اتنا دلگداز ہے کہ بیان کا یارا نہیں۔ کاش میرے لیے ممکن ہوتا تو میں دنیا کو بتا تا کہ ہم خلافتِ احمدیہ کے سایہ میں رہتے ہوئےکس جنت میں دن رات بسر کر رہے ہیں۔ حق یہ ہے کہ یہ کیفیت لفظوں میں بیان کرنے والی نہیں بلکہ ذاتی تجربات کی روشنی میں محسوس کرنے اور جاننے والی عظیم دولت ہے۔ مَیں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ آج اکناف ِ عالم میں بسنے والے کروڑوں عشاقِ احمدیت اس بات پر زندہ گواہ ہیں کہ آج خلافت احمدیہ کے سایہ سے بڑھ کر کوئی اور عافیت بخش سایہ نہیں اور خلیفۂ وقت ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ذاتِ اقدس سے محبت، الفت اور فدائیت کی لہریں ہر احمدی کے دل میں ٹھا ٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی طرح موجزن ہیں۔ خلافت احمدیہ اور خلیفۂ وقت کے ساتھ آج کروڑوں احمدیوں کی یہ بے لوث فدائیت اور محبت ایک خداداد دولت ہے جس سے ہر احمدی کا دل مالا مال ہے۔ ہر احمدی کے دل کے جذبات کا ترجمان یہ دعائیہ شعر ہے

میرے آقا کی محبت ہو مری روح کی راحت

اس کی شفقت بھری نظروں کی عطا ہو دولت

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے دل میں اکنافِ عالم میں پھیلے ہوئے ساری دنیا کے احمدیوں کے لیے محبت والفت کی کیفیت اور ان کے لیے دن رات ایک خاص تڑپ سے دعائیں کرنے کی جو کیفیت موجزن رہتی ہے اس کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا ہے: ’’کون سا ڈکٹیٹر ہے جو اپنے ملک کی رعایا سے ذاتی تعلق بھی رکھتا ہو۔ خلیفۂ وقت کا تو دنیا میں پھیلے ہوئے ہر قوم اور ہر نسل کے احمدی سے ذاتی تعلق ہے۔ ان کے ذاتی خطوط آتے ہیں جن میں ان کے ذاتی معاملات کا ذکر ہوتا ہے۔ ان روزانہ کے خطوط کو ہی اگر دیکھیں تو دنیا والوں کے لئے ایک یہ ناقابل یقین بات ہے۔ یہ خلافت ہی ہے جو دنیا میں بسنے والے ہر احمدی کی تکلیف پر توجہ دیتی ہے۔ ان کے لئے خلیفۂ وقت دعا کرتا ہے۔

کون سا دنیاوی لیڈر ہے جو بیماروں کے لئے دعائیں بھی کرتا ہو۔ کون سا لیڈر ہے جو اپنی قوم کی بچیوں کے رشتوں کے لئے بے چین اور ان کے لئے دعا کرتا ہو۔ کون سا لیڈر ہے جس کو بچوں کی تعلیم کی فکر ہو۔ حکومت بیشک تعلیمی ادارے بھی کھولتی ہے۔ صحت کے ادارے بھی کھولتی ہے۔ تعلیم تو مہیا کرتی ہے لیکن بچوں کی تعلیم جو اس دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں ان کی فکر صرف آج خلیفۂ وقت کو ہے۔ جماعت احمدیہ کے افراد ہی وہ خوش قسمت ہیں جن کی فکر خلیفۂ وقت کو رہتی ہے کہ وہ تعلیم حاصل کریں۔ ان کی صحت کی فکر خلیفۂ وقت کو رہتی ہے۔ رشتے کے مسائل ہیں۔ غرض کہ کوئی مسئلہ بھی دنیا میں پھیلے ہوئے احمدیوں کا چاہے وہ ذاتی ہو یا جماعتی ایسا نہیں جس پر خلیفۂ وقت کی نظر نہ ہو اور اس کے حل کے لئے وہ عملی کوشش کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتا نہ ہو۔ اس سے دعائیں نہ مانگتا ہو۔ مَیں بھی اور میرے سے پہلے خلفاء بھی یہی کچھ کرتے رہے۔

مَیں نے ایک خاکہ کھینچا ہے بے شمار کاموں کا جو خلیفہ وقت کے سپرد خدا تعالیٰ نے کئے ہیں اور انہیں اس نے کرنا ہے۔ دنیا کا کوئی ملک نہیں جہاں رات سونے سے پہلے چشم تصور میں مَیں نہ پہنچتا ہوں اور ان کے لئے سوتے وقت بھی اور جاگتے وقت بھی دعا نہ ہو۔ یہ مَیں باتیں اس لئے نہیں بتا رہا کہ کوئی احسان ہے۔ یہ میرا فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ اس سے بڑھ کر مَیں فرض ادا کرنے والا بنوں۔ کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ خلافت اور دنیاوی لیڈروں کا موازنہ ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ ویسے ہی غلط ہے۔ بعض دفعہ دنیاوی لیڈروں سے باتوں میں جب مَیں صرف ان کو روزانہ کی ڈاک کا ہی ذکر کرتا ہوں کہ اتنے خطوط مَیں دیکھتا ہوں لوگوں کے ذاتی بھی اور دفتری بھی توحیران ہوتے ہیں کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے۔ پس کسی موازنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ6؍ جون 2014ء)

آئیے ہم اس حصار عاطفت کی محبت کو اپنے دلوں میں جگہ دیں اور اپنے دل کی گہرائیوں سے پیارےآقا کے لیے مجسم دعا بن جائیں

وہ جو دیتا ہے تمہیں ہر دم دعا

رات دن تم بھی دعا دیتے رہو

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button