الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

رسول عربی ﷺ

جناب جی ایس دارا بیرسٹر ایٹ لاء (ایڈووکیٹ ہائی کورٹ پنجاب) ایک انگریزی اخبار میں کالم نگار تھے اور ایک رسالہ ’’ہند‘‘ بھی آپ نے شروع کیا۔ آپ نے سیرۃ النبیﷺ کے حوالے سے ایک کتاب ’’رسول عربیﷺ‘‘ مرتب کی جس میں سے ایک اقتباس ماہنامہ ’’خالد‘‘ربوہ نومبر دسمبر 2012ء میں شامل اشاعت ہے۔ اس کتاب کا پیش لفظ حفیظ جالندھری نےلکھا اور دیباچہ سیّد سلیمان ندوی نے تحریر کیا۔ اس کتاب کے مرتّب کرنے کا پس منظر بیان کرتے ہوئے جناب جی ایس دارا صاحب لکھتے ہیں:

’’پیغمبر اسلامﷺ کی شان کے خلاف اس نوع کی کہانیاں اور من گھڑت قصے مَیں نے سنے کہ جس کے سننے سے انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔ … میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ مَیں پیغمبر اسلام کی زندگی کے حالات پڑھوں اور جو جو باتیں مَیں نے سنی ہیں ان کی تصدیق یا تردید کی جستجو کروں۔ پہلی دفعہ جب مَیں نے اس مضمون پر ایک کتاب دیکھی تو اس کے پڑھنے سے مجھے ازحد دلچسپی پیدا ہوئی۔ جوں جوں میرا مطالعہ بڑھتا گیا اتنی ہی آنحضرتﷺ کی عظمت میرے دل میں بڑھتی گئی۔ یہاں تک کہ میرے دل میں ایک آرزو پیدا ہوگئی کہ مَیں ان سب خیالات کو ایک جگہ اکٹھا کروں۔

طرح طرح کی کتابوں کے مطالعہ نے جو مَیں نے اس مضمون پر پڑھی تھیں میرے عالمِ خیال میں ایک پھلواری سی پیدا کردی۔ پنجابی، ہندی، اردو، فارسی، عربی کے پھول جہاں جہاں سے مجھے دستیاب ہوئے مَیں نے اپنے گلدستہ کے لیے چُن لیے اور نام اس کا ’’رسول عربیﷺ‘‘ رکھ کر قوم کی خدمت میں نذر کیا۔‘‘

………٭………٭………٭………

آنحضورﷺ کے خطوط

ماہنامہ’’خالد‘‘ربوہ نومبر دسمبر 2012ء میں مختلف حکمرانوں کے نام آنحضورﷺ کے تبلیغی خطوط کے بارے میں مکرم اویس احمد صاحب کا مختصر مضمون شائع ہوا ہے۔

آنحضورﷺ کا پہلا خط حبشہ کے فرمانروا نجاشی کے نام تھا جسے عمرو بن امیہ الضمریؓ کے ذریعے بھجوایا گیا۔ نجاشی نے یہ خط اپنی آنکھوں سے لگایا اور آپؐ کے دعویٰ کی تصدیق کی۔ بعدازاں اُس کی وفات پر آنحضرتﷺ نے اس کا جنازہ غائب بھی پڑھایا۔

قیصر روم کے نام خط حضرت وحیہ کلبیؓ کے ذریعے بھجوایا گیا۔ انہوں نے حاکم بصریٰ کے توسط سے یہ خط قیصر روم کو روانہ کیا۔ قیصر نے بھی آپؐ کے نامۂ مبارک کو عزت کی نگاہ سے دیکھا اور محفوظ کرلیا۔

کسریٰ شاہ ایران کے نام خط حصرت عبداللہ بن حذافہؓ کے ذریعے بھجوایا گیا۔ اُس نے گستاخی کرتے ہوئے خط کو پھاڑ دیا۔ آنحضرتﷺ کو جب یہ بات پتہ چلی تو آپؐ نے دعا کی: اے اللہ! اس کی حکومت کو بھی اسی طرح پارہ پارہ کردے۔ چنانچہ آپؐ کی یہ دعابڑی شان سے پوری ہوئی اور کسریٰ اپنے بیٹے کے ہاتھوں مارا گیا۔

شاہ مصر مقوقس کے نام آنحضرتﷺ نے خط حضرت حاطب بن ابی بلتعہؓ کے ذریعے روانہ فرمایا۔ مقوقس نے اس خط کو عزت کی نگاہ سے دیکھا اور قبطیوں کے معزز خاندان کی دو لڑکیاں رسول کریمﷺ کی خدمت میں بھجوائیں جن میں حضرت ماریہ قبطیہؓ آنحضورﷺ کے عقد میں آئیں۔

غسّان کے بادشاہ الحارث بن ابی شمرالغسانی کے نام بھی آنحضورﷺ نے تبلیغی خط بھجوایا جو حضرت شجاع بن وہب الاسدیؓ لے کر گئے۔

اس کے علاوہ بھی آنحضورﷺ نے کئی بادشاہوں اور حاکموں کے نام تبلیغی خطوط روانہ فرمائے جن میں حاکم یمامہ، سردار طائف اور عمان و بحرین کے سردار شامل ہیں۔

………٭………٭………٭………

مکرم حاجی شریف اللہ شیخ صاحب

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 20؍مارچ 2013ء میںمکرم حاجی شریف اللہ شیخ صاحب ولد مکرم عبداللہ شیخ صاحب مرحوم آف سفینہ ٹیکسٹائل فیصل آباد کی وفات کی خبر شائع ہوئی ہے۔ آپ یکم مارچ 2013ء کو بعد نماز فجر بعمر 78سال وفات پاکر قبرستان گوکھووال میں مدفون ہوئے۔

مرحوم شیخ صاحب بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ ملنسار، مہمان نواز، جماعتی عہدیداران کی عزت اور ان سے تعاون کرنے والے، خلافت سے تعلق رکھنے والے ، غرباء کا خیال رکھنے والے اور جماعتی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے۔

محترم شیخ مظفر احمدظفر صاحب امیر ضلع فیصل آباد نے آپ کی وفات کے دن یعنی یکم مارچ کو خطبہ جمعہ کے دوران مرحوم کی مالی قربانیوں کا خصوصیت سے ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ایک دفعہ جماعتی عمارت کی توسیع کے لیے خطبہ جمعہ میں عطیات کے لیے تحریک کی گئی تو بعد میں مکرم حاجی شریف اللہ صاحب میرے پاس آئے اور کہا کہ یہ پانچ لاکھ روپے میری طرف سے لے لیں۔ مَیں نے انہیں کہا کہ شیخ صاحب آپ سے میں نے پانچ لاکھ نہیں لینے۔ اس پر وہ کہنے لگے کہ میری بات تو سن لیں ۔مگر میں نے کہا کہ شیخ صاحب! مَیں نے آپ سے پانچ لاکھ لینے ہی نہیں ۔ اس پر دوبارہ انہوں نے کہا کہ میری بات تو سن لیں۔ تب میں نے کہا کہ بتائیں۔ تو کہنے لگے کہ یہ پانچ لاکھ روپے رکھ لیں اور جب تک توسیع کا کام ہوتا رہے ہر ماہ مجھ سے پانچ لاکھ لیتے رہیں۔

مکرم امیر صاحب نے بتایا کہ ایک دفعہ مکرم شیخ صاحب سے میری ملاقات ہوئی تو ایک مرکزی عمارت کی تعمیر میں اپنے چار لاکھ روپے کے وعدے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے خود مجھے کہا کہ فلاں عہدیدار کو پیغام دے دیں کہ وہ وعدے کی رقم مجھ سے وصول کر لیں۔

محترم شیخ صاحب مرحوم کے پسماندگان میں مکرمہ صادقہ بیگم صاحبہ بیوہ ، دو بیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔

………٭………٭………٭………

محترم چودھری محمد عبدالوہاب صاحب

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 19؍اپریل 2013ء میں مکرمہ ح۔بشیر احمد صاحبہ نے اپنے بھائی محترم چودھری محمد عبدالوہاب صاحب کا ذکر خیر کیا ہے۔

مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے میرے والدین کو سات بیٹے عطا فرمائے۔ محترم بھائی جان ڈاکٹر عبدالسلام صاحب سب سے بڑے اور عزیزم محمد عبدالوہاب صاحب سب سے چھوٹے بھائی تھے۔چھوٹا ہونے کی وجہ سے وہ ہم سب کو بہت پیارے تھے۔ مولا کریم نے بھی انہیں بہت ہی سلجھا ہوا، دین دار اور ہر ایک سے محبت کرنے والا وجود بنایا تھا۔ ہر ملنے والا ان کے حسن سلوک سے متاثر ہوکر ان کا گرویدہ ہوجاتا تھا۔ ہمارے والدین مکرم چودھری محمد حسین صاحب و مکرمہ ہاجرہ بیگم صا حبہ نے جھنگ میں اپنے گھر میں ہمیشہ دینی ماحول قائم رکھا۔ والد محترم اپنے بیٹوں کو فجر، مغرب اور عشاء کی نمازوں کے لیے مسجد میں لے جاتے۔ایسی ہی تربیت کا نتیجہ تھا کہ بھائی محمد عبدالوہاب کو شروع سے ہی خدمت دین کی توفیق ملتی رہی۔ آپ نے شیخوپورہ کالج سے B.A کیا اور اس دوران 1962-64ء میں وہاں قائد مجلس خدام الاحمدیہ رہے۔ اس کے بعد آپ کراچی چلے گئے۔ اُس وقت کراچی کی مجلس خدام الاحمدیہ آٹھ حلقوں میں تقسیم تھی۔ آپ نے مجلس سوسائٹی میں 1970ء سے 1974ء تک بطور قائد خدمت کی توفیق پائی اور اس دوران 1973ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے دست مبارک سے علم انعامی بھی حاصل کیا۔ نومبر1974ء میں آپ قائد ضلع کراچی مقرر ہوئے اور اس سا ل بھی جلسہ سالانہ پر مجلس سوسائٹی کو دوبارہ علم انعامی عطا ہوا تو آپ سٹیج پر قائد ضلع کے طور پر حاضر تھے۔ آپ نے1973-75ء حلقہ سوسائٹی کے جنرل سیکرٹری کے طور پر بھی خدمت کی توفیق پائی۔

برادرم محمد عبدالوہاب صاحب کی شادی مکرمہ امۃالباسط صا حبہ بنت مکرم چودھری نذیر احمد صاحب سابق نائب ناظر زراعت ربوہ کے ساتھ ہوئی تھی۔ وہ بتاتی ہیںکہ 1967ء میں شادی کے بعد سے کراچی میں ہمیشہ ان کا گھر نماز فجر کا سنٹر ہوتا تھا اور رمضان میں ان کے ہاں درس وافطاری کا بندوبست بھی کیا جاتا تھا۔حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ بھی قبل از خلافت ایک بار آپ کے ہاں تشریف لے گئے تھے۔

مکرم چودھری صاحب یونائیٹڈ بنک میں کام کرتے تھے۔ 1976ء میں آپ کا تبادلہ کراچی سے مردان ہوا۔ پھر پشاور اور پھرنوشہرہ تبادلہ ہوا۔ہردفعہ تبادلہ سے قبل آپ کو رؤیا میں آپ کی والدہ محترمہ ہاجرہ بیگم صا حبہ دکھائی جاتی تھیں۔ اللہ کے فضل سے ہر جگہ آپ کو جماعت کی خدمت کی توفیق ملتی رہی۔ آپ کی شخصیت دل موہ لینے والی تھی اور آپ بچوں اور بڑوں کا دل جیت لیتے تھے۔ایک مرتبہ صوبہ سرحد کے گورنر(عبدالغفورہوتی صاحب) کے پاس بنک کے کام کے سلسلہ میں گئے تویہ ملاقات دوستی میں بدل گئی۔

آپ جہاں بھی رہے، مرکز ربوہ سے آنے والے مہمانوں کی خوب خدمت کرتے رہے۔آپ نے بنک میں گریڈ2آفیسر کی حیثیت سے کام شروع کیا تھا اورخدا کے فضل سے ترقی کرتے کرتے سینئر وائس پر یذیڈنٹ بنے۔ آپ فارن ایکسچینج شعبہ کے ماہر تھے۔ 1988ء میں آپ کو ایبٹ آباد تعینات کیا گیا لیکن وہاں سخت مخالفت ہوئی اور دیواروں پر بھی آپ کے احمدی ہونے کی وجہ سے نعرے لکھے گئے۔1988ء میںہی آپ کی تعیناتی اسلام آباد میں ہوئی اور آپ پشاور، جہلم اور کشمیر کےلیے سرکل آڈٹ چیف مقرر کیے گئے۔

آپ کو خدمت دین کے ساتھ بنی نوع انسان کی خدمت کی توفیق بھی ملتی رہی۔مالی امداد اور دیگر کاموں کے سلسلے میں ہر ممکن مدد کرتے۔ مکرم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے پاکستان میں مالی امور(برائے امداد و و ظائف)کی دیکھ بھال آپ ہی کرتے تھے۔ امیر جماعت اسلا م آباد کی عاملہ میں بھی شامل رہے اور 1998-99ء میں ناظم انصاراللہ ضلع اسلام آباد کے طور پر بھی خدمت کی توفیق پائی۔ خلفائے کرام سے اطاعت و وفا کاخاص تعلق تھا۔ 1989ء کے جلسہ جوبلی کے موقع پر لندن میں حاضر ہو کر حضورؒ کی شفقت پائی۔ 1991ء اور1992ء میں قادیان کے جلسوں سے بھی مستفیض ہوئے۔

محترم محمد عبدالوہاب صاحب7ستمبر2010ء (27 رمضان المبارک)کو وفات پاگئے۔ پسماندگان میں ان کے دو بھائی، ایک بہن، اہلیہ اور تین بیٹے شامل ہیں۔

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button