یادِ رفتگاں

اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ برطانیہ 2021ء کے موقع پر سید طالع احمد شہید کی یاد میں ایک نشست

مجلس خدام الاحمدیہ یوکے کے سالانہ اجتماع 2021ء کے موقع پر مختلف نوعیت کے پروگرامز منعقد کیے گئے۔ اجتماع کے پہلے روز 18؍ستمبر 2021ء کو حال ہی میں شہادت کا عظیم رتبہ پانے والے ایک ہونہار خادم سلسلہ سید طالع احمد کے حوالہ سےThe Hub میں ایک نشست کا انعقاد کیا گیا جس میں شہید مرحوم کےاوصاف کا تذکرہ ہوا۔ اس نشست میں شہید مرحوم کے والد محتر م سید ہاشم اکبر احمد صاحب، شہید مرحوم کے دو بھائی سید عادل احمد صاحب اور سید حمید احمدصاحب ، سابق قائد مجلس ہارٹلے پول ودود احمد صاحب ، مکرم سید عامر سفیر صاحب (ایڈیٹر ریویو آف ریلیجنز) اور مکرم ابراہیم اخلف صاحب (سیکرٹری تبلیغ جماعت احمدیہ یوکے) شامل ہوئے۔

٭…سب سے پہلے سید طالع احمد کے اخلاق اور کیریکٹر کا ذکر آپ کے بھائی سید عادل احمد نے کیا۔ آپ نے بتایا کہ سید طالع احمد قائدانہ اوصاف کے حامل تھے۔باوجود اس کے کہ ہارٹلے پول میں کچھ نسلی امتیاز کی ہوا چلی ہوئی تھی ان کے اخلاق کی وجہ سے لوگ ان کی بہت عزت کرتے تھے۔ ہارٹلے پول میں کرکٹ کلب کے کپتان ہونے کے ساتھ ساتھ شہید فٹبال کے اچھے کھلاڑی تھے ۔ ایک مرتبہ فٹبال کے میچ میں طالع کے دوست کی ٹانگ ٹوٹ گئی ۔ اس موقع پر coach بھی موجود تھے لیکن کوئی بھی اس کا حال پوچھنے نہیں گیا اور سب کا کہنا تھا کہ اسے کچھ نہیں ہوا، وہ توجہ حاصل کرنے کے لیے اس طرح ظاہر کر رہا ہے وغیرہ۔ لیکن طالع جو اس وقت صرف 13، 14 سال کا تھا اس نے فوری طور پر تمام فرسٹ ایڈ کے انتظامات کیے اور ایمبولینس بلوائی ۔ شہادت کے واقعہ کے بعد اس کے دوست نے ایک خط لکھا جس میں اس واقعہ کا ذکر کیا اور بڑے اچھے الفاظ میں طالع کے اخلاق کا ذکر کیا کہ طالع نے سب سے پہلے میری مدد کی اور میرا خیال رکھا، اور اب میں اس کی پہلے سے زیادہ عزت کرتا ہوں۔

٭… سید عادل احمد نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ طالع بہت اچھا شاعر تھا۔ طالع کی ایک نوٹ بُک تھی جس میں اس نے اپنے اشعار درج کیے ہوئے تھے۔ یہ اشعار ایسے تھے کہ ایک نظم پڑھ کر میں محظوظ ہوتا تو دوسری کا مضمون ایسا ہوتا کہ میں بہت سنجیدہ اور جذباتی ہو جاتا یہاں تک کہ مجھے رونا بھی آجاتا۔ میں نے اس بات کا کبھی اس سے ذکر نہیں کیا کہ میں نے نوٹ بُک میں لکھے اشعار پڑھے ہیں۔ ان اشعار سے بھی طالع کی ذہانت کا اندازہ ہوتا ہے۔

٭…ایک وقت ایسا بھی آیا کہ میں ہر بات میں اس کی تقلید کرتا اور اس کے ساتھ ساتھ رہتا تھا۔

٭…سید طالع احمد کو اپنے مسلمان ہونے پر فخر تھا۔ ایک مرتبہ سکول میں تقاریر کا پروگرام تھا۔ طالع شلوار قمیص میں سکول پہنچا اور اپنی تقریر کی اور اس کی تقریر تمام تقریروں سے بہترین قرار پائی۔

…………………………………………

٭…طالع شہید کے سب سے چھوٹے بھائی سید حمید احمد نے بتایا کہ ایک دفعہ جلسہ کے ایام میں مَیں طالع بھائی اور اُن کے بیٹے کے ساتھ living room میں زمین پر سو رہا تھا۔ لیکن جب صبح اٹھا تو مَیں صوفے پر تھا۔ میری والدہ نے جب طالع بھائی سے پوچھا کہ حمید صوفے پر کیوں ہےتو انہوں نے جواب دیا کہ وہ اپنے مہمانوں کے لیے بہترین سہولت مہیا کرنا چاہتے ہیں۔ اس واقعہ سے ان میں پائی جانے والی اکرام ضیف کی عالی صفت کا اندا زہ ہوتا ہے۔

٭…ایک دفعہ میں اپنی والدہ کے ساتھ لجنہ کے ایک اجتماع کے لیے لندن آیا ۔ مَیں اور میری بہن چونکہ اجتماع میں شامل نہیں ہو سکتے تھے اس لیے میں نے ایم ٹی اے سٹوڈیوز میں طالع بھائی کے ساتھ وقت گزارا۔ اس وقت پھر طالع بھائی مجھے اور میری بہن کو آئس کریم کھلانے کے لیے باہر لے گئے۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بہت مہربان اور فراخ دل تھے۔

…………………………………………

٭…شہید مرحوم کے والد محترم سید ہاشم اکبر صاحب نے بتایا کہ طالع کی تربیت کے لیے ہمیں زیادہ کچھ نہیں کرنا پڑا۔ اللہ تعالیٰ نے خود ہی ایسے حالات پیدا فرما دیے کہ اس کی خود بخود تربیت ہوتی رہی۔

شہادت کا مطلب ہے گواہی دینا۔ ایسا شخص جس نے کچھ دیکھا ہے اور وہ اسے بیان کرسکتا ہے۔ اگر کوئی North pole پر جائے اور پھر واپس آئے تو اس کے بیانات کو بہت سنجیدگی سے سنا جائے گا کیونکہ اس نے اس مقام کو بذات خود دیکھا ہے۔ شہادت بھی یہی ہے۔ آپ کو خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے ، آپ کو معلوم ہے کہ خدا کی ہستی موجود ہے اور آپ اس کی گواہی دیتے ہیں۔ چنانچہ شہادت صرف اپنی جان قربان کرنے کا نام نہیں ہے ۔آپ اپنے اعمال اور اپنے طور طریق سے شہید ہو سکتے ہیں۔ جہاں تک طالع کا تعلق ہے میرا یہ پختہ ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا بطور شہید یعنی بطور خدا تعالیٰ کی ہستی کے گواہ کے طور پر انتخاب قبل از ولادت ہی کر لیا تھا۔جہاں تک اس کے والدین ہونے کا تعلق ہے تو یہ ہماری سعادت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کے والدین ہونے کے لیے پر منتخب کیا۔

٭… آپ کے والد صاحب نے طالع شہید کی ولادت سے قبل ایک خواب کا ذکر کیا کہ جس میں اس کو ہیرا قرار دیا گیا ہے۔ (اس خواب کا ذکر طالع شہید پر بنائی گئی ڈاکیومنٹری میں ان کی والدہ نے بھی کیا)

٭…طالع شہید کی تربیت کے حوالہ سے آپ کے والد محترم نےبتایا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی تربیت کے سامان اپنے خاص فضل سے فرماتے ہوئے اس کی پیدائش کے بعد ایسے حالات پیدا کر دیے کہ ہماری بھی خود بخود تربیت ہوتی چلی گئی۔یہ سوال کرنا اتنا درست نہیں کہ میں نے طالع کی کس طرح تربیت کی جتنا یہ سوال درست ہو گا کہ طالع نے میری کس طرح تربیت کی۔

٭…طالع کے اٹھنے بیٹھنے، چال ڈھال میں خدا تعالیٰ کی محبت کا عکس جھلکتا تھا، اس میں مخلوقِ خدا کی محبت کا جذبہ بھی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے مبارک دَور میں رہنا چاہتا تھا۔ اور اسی مناسبت سے وہ اس زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کہ نمائندہ حضرت خلیفۃ المسیح کے سب سے قریب ر ہنا چاہتا تھا۔ وہ اس تعلق کو سمجھتا تھا ۔ اس کی روح 1400سال قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں سرگرداں پھرتی تھی اور اس کے جسم کا ہر ایک ذرہ خلافت کی دہلیز پر نثار تھا۔

…………………………………………

٭…سابق قائد ہارٹلے پول ودود صاحب نے بتایا کہ طالع شہید ہر معاملے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اسوۂ مبارک پر چلنے کی کوشش کرتا۔ بہت سچ بولنے والا تھا۔ اگر اس سے کوئی غلطی بھی ہو جاتی تو پھر بھی سچ پر قائم رہتا۔ اس نے ‘حمید ٹیبل ٹینس ٹورنامنٹ’ کا بھی آغاز کیا۔ اور اس کی رپورٹ اس تفصیل اور مہارت سے لکھی ہوتی تھی کہ اسے پڑھتے وقت یوں محسوس ہوتا کہ گویا کہ آپ خود اس موقع پر موجود تھے۔ طالع نے یہی طریق اپنی ڈاکومنٹریز کی تیاری میں بھی اختیار کیا۔ وہ اپنا چندہ بھی سب سے پہلے ادا کرتا تھا۔ وہ کبھی بھی اپنی دنیاوی ترقی پر فخر نہ کرتا۔ بہت عاجز انسان تھا۔وہ بہت ذہین تھا لیکن کبھی بھی کسی اَور کو اپنی ذہانت کی وجہ سے نیچا نہیں دکھایا بلکہ اگر کسی سے کوئی غلطی ہو جاتی تو دوسرے کو محسوس تک نہ ہونے دیتا ۔ وہ نہایت خوش طبع اور بذلہ سنج تھا لیکن اس کا مزاح نہایت شستہ اور شائستہ ہوا کرتا تھا۔

٭…بطور قائد میں یہی کہوں گا کہ جب بھی میں اس سے ملتا تو یوں محسوس ہوتا کہ کوئی بہت ہی قریبی عزیز مل رہا ہے۔ وہ پیار اور اپنائیت سے بات کرتا تھا۔ آخری دفعہ جلسہ پر ملاقات ہوئی تھی اور اس وقت بھی گفتگو کے دوران یہی محسوس ہوا۔

…………………………………………

٭…مکرم عامر سفیر صاحب نے ریویو آف ریلیجنز کے انڈیکس کی تیاری کے حوالہ سے بتایا کہ طالع شہید نے عرصہ 100سال کے شماروں کا انڈیکس تیار کیا جو ایک غیر معمولی کام تھا۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ سے لے کر اب تک تمام شماروں کا بغور مطالعہ کرکے اس کے مضامین کو سمجھ کر انڈیکس کےلیے ترتیب دینا بہت بڑا کام تھا۔ یہ انڈیکس عناوین (topics)کے تحت ریویو آف ریلیجنز کی ویب سائٹ پر اب بھی موجود ہے اور یہ طالع شہید کی طرف سے ایک صدقہ جاریہ ہے ۔

Topics | The Review of Religions

٭…اُس میں جماعت اور خلافت احمدیہ کی خدمت کا اتنا جوش تھا کہ مجھے خود طالع کو کچھ نہیں بتانا پڑا کہ کون سا کام کس طرح کرنا ہے۔ وہ اتنا ذمہ دار تھا کہ اس نے خود کام کرنے کا طریقہ سوچا، خود اپنی ٹیم بنائی (جو 11 افراد پر مشتمل تھی)، خود ہی اس نہایت قیمتی علمی اور تاریخی مواد سے گزرا اور مجھے مشورے دیتا رہا کہ اس اس طرح ہمیں اسے ترتیب دینا چاہیے۔ پھر اگر اسے کسی کام کے بارے میں تسلی نہ ہوتی تو کچھ عرصے بعد خود بلا جھجھک واپس آ کر کہتا کہ مجھے تسلی نہیں اس پر نظرِ ثانی کرلیتے ہیں۔

٭…سب کو معلوم ہو چکا ہو گا کہ اس کا حضور انور کے ساتھ قریبی رشتہ بھی تھا لیکن وہ کبھی بھی اس بات کو ظاہر نہیں کرتا تھا، اس پر بے جا فخر نہیں کرتا تھا۔اس کے باوجود جب بھی میں اسے حضور انور کا کوئی بھی ارشاد پہنچاتا تو اس کی آنکھیں چمکنے لگ جاتیں گویا کہ اسے کسی نے کوئی قیمتی چیز دے دی ہو۔ میں نے شاذ ہی کسی کو اس طرح کرتے دیکھا ہے۔ اس کے افریقہ جانے سے پہلے ایک گفتگو میں مَیں نے حضورِ انور کے حوالے سے کچھ باتیں کیں تو اس نے حضور انور کی بات کو سمجھنے کے لیے کئی مرتبہ دوہرا کر ہر زاویے سے تسلی کر کے بات کو درست طور پر سمجھا اور مجھ سے پوچھا کہ کیا میں درست طور پر سمجھ گیا ہوں۔ اس حوالہ سے تقریباً 5 منٹ ہماری گفتگو جاری رہی۔

٭… طالع جب ریویو آف ریلیجنز سے ایم ٹی اے میں گیا تو ہمارا ایک دوستانہ تعلق قائم رہا۔ اُس میں جماعتی خدمت میں جوش اور جذبے کے علاوہ بھی ہر چھوٹے سے چھوٹے کام کے لیے جذبہ اور جوش پایا جاتا تھا خواہ ایک دوستانہ فٹبال میچ ہی کیوں نہ ہو۔ ایک مرتبہ ایم ٹی اے کی ٹیم ریویو کی ٹیم سے چار صفر سے ہار گئی ۔ اگلے روز ریویو کے لوگ سڑک کی ایک سائڈ پر جارہے تھے جبکہ طالع سڑک کی دوسری طرف سے گزر رہا تھا۔ ریویو والوں نے ازراہِ تفنّن نعروں وغیرہ کے ساتھ اسے اپنی فتح جتلائی کہ طالع ہم چار صفر سے جیت گئے ہیں۔ طالع اس بات سے رنجیدہ تو نہیں ہوا لیکن اس نے اسے بہت سنجیدگی سے لیا۔ اس موقع پر وہ خاموش رہا لیکن اگلے روز میرے ایک کزن نے جو ایم ٹی اے نیوز میں کام کرتا ہے مجھے میسج کیا کہ تم نے کیا کِیا ہے؟ طالع نے ایم ٹی اے کے لڑکوں کو جمع کر کے ایک دھواں دار تقریر کی ہے۔ پھر مجھے معلوم ہوا کہ اس نے کئی دن لگا کر strategies اور tactics تیار کیں۔ باقی تو سب معمول کے کاموں میں مصروف ہو گئے ہوں گے لیکن وہ کبھی بھی چھوٹے درجے پر رہنے کے لیے تیار نہیں ہوتا تھا۔ چنانچہ پوری تیاری کے بعد اس نے مجھے میسج کیا کہ عامر دوبارہ فٹبال میچ کھیلتے ہیں۔ ہم نے دوبارہ فٹبال میچ کھیلا اور وہ ایسے کھیل رہا تھا گویا Champions League کا فائنل ہو، پوری طرح کھیل میں مگن اور ساری توجہ اسی کی طرف مرکوز۔ اس نے اس معاملے کو اس قدر سنجیدگی سے لیا کہ اس میچ میں اس کی ٹیم نے ہمیں آٹھ صفر سے یادگار شکست دی۔ یعنی طالع ہر کام میں بہترین کارکردگی دکھانا چاہتا تھا اور اس کے اندر بہترین پوزیشن حاصل کرنے کی جستجو اور صلاحیت تھی۔

٭…آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور جماعت احمدیہ کی عزت کو قائم کرنے کے لیے اس کے اندر اتنا جوش تھا کہ ایک مرتبہ بعض اعتراضات کے حوالہ سے گفتگو ہو رہی تھی۔ اس وقت ریویو آف ریلیجنز کے کارکنان کی ٹیم بہت چھوٹی تھی اور اتنے مربیان ابھی موجود نہیں تھے کہ ہر ایک اعتراض کا بروقت جواب دیا جاتا۔ تو طالع نے سارے اعتراضات کے حوالہ سے ریسرچ کر کے ایک رات میں ہی ان کے جوابات پر مشتمل 16 صفحات کا مسودہ تیار کر لیا۔ اور جب اس نے یہ 16 صفحے بھیجے تو کہا کہ یہ شائع کرنے ہیں تو اپنے نام سے ہی کر دیں مجھے تو صرف اللہ تعالیٰ کی رضا چاہیے اس لیے میں نے یہ کیا ہے۔ اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور جماعت احمدیہ کی عزت و ناموس کا اتنا خیال تھا۔

٭…ایک اَور دلچسپ بات یہ ہے کہ طالع جب ریویو کا انڈیکس تیار کر رہا تھا تو وہ اس کام کا نگران تھا اور ایک وقت میں طالع کی والدہ محترمہ اس کی نائبہ کے طور پر ٹیم میں شامل تھیں۔ اس وقت میں نے اس میں یہ وصف دیکھا کہ طالع کا اپنی والدہ کے ساتھ ایک بہت پیارا دوستی کا تعلق بھی تھا۔ میں نے دیکھا کہ تمام کام دوستانہ ماحول میں ہوتے اور کبھی محسوس ہی نہیں ہوا کہ کون افسر ہے اور کون نائب۔ اس سے میری توجہ اُس حدیث کی طرف گئی کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔ میں نے دیکھا کہ وہ اپنی والدہ کی بہت عزت کرتا لیکن ساتھ ہی وہ اپنی والدہ کا بہترین دوست بھی تھا۔

٭…طالع کو دنیاوی امور سے کوئی غرض نہیں تھی۔وہ جو کپڑے پہنتا وہ سادہ لیکن صاف ستھرے ہوتے۔

٭…ہر کام کرتے ہوئے طالع کا مطمعِ نظر خدا تعالیٰ کی رضا کا حصول ہوتا تھا۔ وہ محض لوگوں کو خوش کرنے کے لیے کوئی کام نہیں کرتا تھا۔ اس لیے شاید بعض لوگ اس کی شخصیت کو درست طور پر سمجھ بھی نہ پاتے ہوں۔

…………………………………………

٭…حضورِ انور کی مصروفیات پر مبنی معروف پروگرام This week with Huzoor کے حوالے سے طالع کے بھائی سید عادل احمد نے اور مباہل شاکر صاحب (کارکن ایم ٹی اے نیوزجو سامعین میں موجود تھے) نے بتایا کہ اس کی خواہش تھی کہ اگر مجھے حضورِ انور کی بابرکت معیت میں رہنے کا موقع مل رہا ہے تو باقی تمام دنیا کو بھی معلوم ہو کہ حضورِ انور کی مصروفیات کیا ہیں۔ اس کا آغاز مکرم عابد خان صاحب کی ڈائیریز سے inspirationحاصل کرنے سے ہوا۔

…………………………………………

٭…ابراہیم اخلف صاحب نے بتایا کہ یہ میری اور میری فیملی کی سعادت ہے کہ خلیفۂ وقت کے فیصلہ کی بدولت 3 سال تک ہم طالع شہید کی ہمسائیگی میں رہتے رہے۔

٭…عربی کا ایک محاورہ ہے رُبَّ اَخٍ لکَ لَمْ تَلِدْہُ اُمُّک کہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں تمہاری ماں نے تو نہیں جنا ہوتا لیکن وہ تمہارے حقیقی بھائیوں کی طرح ہی ہوتے ہیں۔ طالع یقیناً ایسا ہی حقیقی بھائی تھا ۔

٭…آنحضرتﷺ نے ہمسایوں کے حقوق پر اتنا زور دیا ہے کہ گویا ان کا وراثت میں حق ہے۔ مَیں بطور اس کے ہمسایہ کے کہہ سکتا ہوں کہ وہ واقفِ زندگی ہونے کا جیتا جاگتا ثبوت تھا۔ جب ہم اس کے ہمسائے بنے تو ہم نے اسے یہ حق ادا کرتے قریب سے دیکھا۔

٭…ایک مرتبہ وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ ابراہیم مجھے معلوم ہے کہ آپ کی بہت سی مصروفیات ہیں ۔ اگر آپ کو کوئی کام وغیرہ ہو تو مَیں آپ کے بچوں کا خیال رکھوں گا اور اگر سکول وغیرہ چھوڑنے کی ضرورت پڑے تویہ کام بھی بخوشی کر سکتا ہوں۔ اس وقت اس کا بیٹا طلال شاید دو یا تین سال کا تھا۔ اور ابھی سکول نہیں جاتا تھا۔ تو جب بھی میری اہلیہ اس سے پوچھتیں کہ ابراہیم کہیں گیا ہوا ہے میرے بچوں کو سکول چھوڑ کر آ سکتے ہو؟ تواس نے بتایا کہ وہ اس قدر ذمہ داری سے اس کام کو سرانجام دیتا کہ اگر عمومی طور پر فجر کے بعد سونا اس کی عادت تھی تو اُس دن غالباً فجر کے بعد سوتا ہی نہ تھا اور عین آٹھ بجے گاڑی میں بیٹھ کر ایک میسج بھیجتا کہ میں گاڑی میں بیٹھ گیا ہوں، بچوں کو بھیج دیں۔ یہ تھا طالع شہید کا کردار۔

٭…حضور ِانور نے اپنے خطبہ جمعہ میں فرمایا تھا کہ بعض اوقات طالع گھر سے بیت الفتوح پیدل جاتا اور راستے میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی درس القرآن کلاسز سنتا جاتا۔ یہ بات بھی درست ہے کہ وہ پیدل چلتے ہوئے حضور کی کلاسز کو سنتا تھا لیکن اس کی ایک اَور وجہ یہ بھی تھی کہ وہ زیادہ تر جماعت سے سفر خرچ وغیرہ کا مطالبہ نہیں کرتا تھا۔اور وہ اس حد تک کفایت شعاری سے کام لیتا کہ یوں محسوس ہوتا کہ وہ غربت کا شکار ہے۔ لیکن ایسا کبھی بھی نہیں ہوا کہ اُس کے کام رُکے ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ اس کا خیال رکھتا تھا۔ ایک مرتبہ طالع شہید مجھے کہنے لگا کہ ابراہیم میں آپ کے گھر کے سامنے اپنی گاڑی park کر سکتا ہوں؟ میں نے کہا ضرور کر لو لیکن تم گاڑی کو اپنے گھر کے سامنے سڑک پر کیوں کھڑی نہیں کرتے؟ اس پر طالع کہنے لگا کہ وہاں پارکنگ کے لیے اجازت نامے (permit)کی ضرورت ہے جس کی فیس 90 پاؤنڈز ہے۔ میں یہ رقم ادا نہیں کر سکتا اور جماعت سے اس کے لیے مطالبہ بھی نہیں کرنا چاہتا اس لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں ایک مہینہ پیدل چل کر پیسے جمع کروں گا اور پھر پارکنگ پرمٹ کی فیس ادا کر وں گا۔

٭…اس کی روحانیت کی کچھ مثالیں پیش کرتا ہوں۔ وہ باقاعدگی سے روزہ رکھتا تھا۔ قرآنِ کریم کی تلاوت کرتا تھا۔ تہجد پڑھتا تھا جیساکہ حضور انور نے بھی اس کا ذکر کیاہے۔ وہ شرک سے پاک تھا اور ہر ممکنہ احتیاط رکھتا کہ کبھی بھی، کسی بھی طرح وہ شرک میں مبتلا نہ ہو۔

٭…طالع فجر کے بعد تلاوت کرتا تھا ۔ ایک مرتبہ کہنے لگا کہ ابراہیم پہلے آپ قرآن کریم کا پورا سپارہ پڑھتے تھے اب آپ نے کیوں پڑھنا چھوڑ دیا؟ میں نے کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ دیواریں بہت باریک ہیں اور آواز آتی ہے اس لیے میں نے اپنی جگہ بدل لی ہے اور اب میں ایسی جگہ پر قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہوں کہ آپ کو آواز نہ آئے اور آپ تنگ نہ ہوں۔ اس پر طالع نے کہا نہیں نہیں ابراہیم صاحب، میں فجر کے بعد تلاوت کرتا ہوں اس کے بعد آپ کی ایک سپارےکی تلاوت سنتا ہوں اس لیے آپ ادھر ہی پڑھا کریں جہاں پہلے پڑھتے تھے۔

٭…آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنی اہلیہ سے بہترین سلوک کرنے والا ہے۔ میں نے بذاتِ خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ ہر چھوٹی سے چھوٹی بات میں طالع ہمیشہ اپنی اہلیہ کا عزت و احترام کرتا تھا۔

٭…غالباً 2017ء میں طالع کہنے لگا کہ میں نے یہ عہد کیا ہے کہ اس سال سورۃ الفاتحہ سے سورۃ الناس تک قرآن کریم کا مکمل ترجمہ سیکھوں گا ۔ پھر وہ میرے سے عربی قواعد پوچھتا اور ترجمہ سمجھنے کی کوشش کرتا۔ مولوی شیر علی صاحب کا ترجمہ پڑھتا اور پھر پوچھتا کہ یہ ترجمہ ایسے کیا گیا ہے لیکن عربی قواعد کے مطابق میرے نزدیک ایسے ہونا چاہیے۔

٭…طالع تو گویا عجز و انکسار کا پیکر تھا۔ جب بھی اپنی کوئی ڈاکومنٹری تیار کرتا تو مجھے اور میری اہلیہ کو بھی دکھاتا۔ ہم جب بھی اسے کوئی مشورہ دیتے تواسے باقاعدہ دلائل کے ساتھ قائل کرنا پڑتا۔ اور اگر ہم اسے قائل کرنے میں کامیاب ہو جاتے تو وہ بشاشت کے ساتھ اس مشورے پر عمل کرتا۔

٭…طالع تبلیغ کا بھی جنون کی حد تک شوق رکھتا تھا۔ وہ میرے پاس آتا اور پورے نیشنل تبلیغ پلان کو دیکھتا اور کہتا کہ حضورِ انور نے آپ کو منتخب کیا ہے اور آپ عرب ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کی قوم سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے لوگ آپ کی بات زیادہ غور سے سنیں گے۔ اس نے رضاکارانہ طور پر ایک ویب سائٹ تیار کی تھی جس کا نام wikiahmadiyya ہے۔ یہ اس نےعابد خان صاحب کی نگرانی میں خود بنائی تھی ۔ طالع مجھے کہنے لگا کہ ابراہیم صاحب یہ ویب سائٹ کوئی استعمال نہیں کرتا، میں آپ کو دیتا ہوں آپ اسے بھر پور استعمال کریں۔

٭…جب میں (کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کی وجہ سے) زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہسپتال میں داخل تھا تو طالع نے مجھے کہا کہ میں نے یہ عہد کیا ہے کہ اگر آپ کو کچھ ہو گیا تو میں اپنی آخری سانس تک آپ کی فیملی کا خیال رکھوں گا۔

٭…ابراہیم صاحب نے طالع شہید کی ایک خواب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ محسوس ہوتا ہے کہ طالع کو پہلے سے معلوم تھا کہ اس کی شہادت قریب ہے۔ اور اس نے مجھے واضح الفاظ میں کہا کہ میری وفات کا وقت قریب ہے اور میں شہید ہوں گا۔خواب سننے کے بعد میں نے اسے کہا کہ اللہ خیر کرے گا! اس نے مجھ سے وعدہ لیا کہ میں یہ خواب کسی کو نہ سناؤں۔ میں نے اس سے اجازت لی کہ کم از کم اپنی اہلیہ کو میں یہ خواب سنانا چاہتا ہوں۔ اس پر اس نے مجھے اجازت دے دی۔ میں نے جب اپنی اہلیہ کو یہ خواب سنائی تو ہم نے صدقہ دیا۔

٭…طالع شہید دن کے چوبیس گھنٹے accessible تھا جو کہ وقف کی حقیقی روح ہے۔

٭…اس کا گھر ہمیشہ کھلا ہوتا۔ اس نے لوگوں کے دل جیتے۔ اطفال کا کوئی پروگرام ہوتا تو وہ اطفال کی تربیت کا خاص خیال رکھتا۔

…………………………………………

پروگرام کے آخر پرطالع شہید کے والد محترم نے بعض مزید پہلوؤں پر مختصر گفتگو کی جس کے بعد یہ نشست اختتام کو پہنچی۔

اللہ تعالیٰ شہید مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور تمام واقفینِ زندگی کو توفیق دے کہ وہ اپنے وقفِ زندگی کے عہد کا حق ادا کرنے والے ہوں۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button