دعا

جمعۃ المبارک کے دن قبولیت دعا کی خاص گھڑی کا کونسا وقت ہے؟

سوال: ایک دوست نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ایک خطبہ جمعہ میں بیان جمعۃ المبارک کے دن قبولیت دعا کی خاص گھڑی کے وقت کے بارے میں حضور انور کے ارشاد، اسی طرح جلسہ سالانہ یوکے 2019ءکے آخری دن کے خطاب میں نماز تراویح میں پورا سپارہ پڑھنے کی بجائے چھوٹی سورتیں پڑھنے کے بارے میں حضور انور کے ارشاد کے بارے میں مزید وضاحت چاہی؟حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 04؍فروری2020ءمیں ان دونوں امور کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:

جواب: میں نے اپنے خطبہ جمعہ میں جمعہ کے روز آنے والی قبولیت دعا کی خاص گھڑی کے بارے میں احادیث اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ارشادات کی روشنی میں بیان کیا تھا کہ ایک تو یہ بہت مختصر گھڑی ہوتی ہے اور دوسرا اس کے مختلف وقت بیان ہوئے ہیں۔ علمائے حدیث اور فقہاء نے بھی اس گھڑی کا وقت زوال آفتاب سے لےکر سورج غروب ہونے تک مختلف وقتوں میں بیان کیا ہے۔

میرے نزدیک اس گھڑی کے مختلف وقت بیان ہونے میںحکمت یہ ہے کہ جمعہ کا سارا دن ہی بہت برکت والا ہے اس لیے یہ سارا دن ہی انسان کو دعاؤں میں گزارنا چاہیے۔

جہاں تک نماز کو مختصر کرنے کی بات ہے تو اس بارے میں آپ نے میری دو باتوں کو آپس میں الجھا دیا ہے۔ حدیث کے حوالے سے ایک بات میں نے یہ بتائی تھی کہ حضورﷺ کی خدمت میں کسی نے ایک امام کی شکایت کی جو بہت لمبی نماز پڑھاتا تھا۔اور اس پر حضور ﷺ نے ناراضگی کا اظہار فرمایا۔

پھر میں نے یہ بات کی تھی کہ نماز کے مختصر کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ جلدی جلدی ٹکریں مار کر نماز پڑھی جائے اور اس ضمن میں بطور مثال میں نے سوشل میڈیا پر دکھائی جانے والی ایک نماز تراویح کا ذکر کیا تھا جس میں امام چند منٹوں میں نماز تراویح کی ساری رکعتیں پڑھا دیتا ہے۔

پس اصل بات یہ تھی کہ نہ نماز کو اتنا لمبا کرنا چاہیے کہ مقتدی اکتا جائیں اور ان کے دل میں نماز کےلیے نفرت پیدا ہو اور نہ ہی نماز کو اس قدر مختصر کرنے کی اجازت ہے کہ وہ نماز نہیں بلکہ ٹکریں مارنا دکھائی دے۔

پھر اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ حضورﷺ نے جس نماز کے مختصر کرنے کی ہدایت فرمائی ہے وہ فرض نماز ہے۔اور اس کی وجہ یہ ہے کہ فرض نمازیں تمام مردوں پر باجماعت ادا کرنا لازم ہیں۔اور حضور ﷺ نے فرمایا کہ چونکہ مقتدیوں میں بیمار،بوڑھے، کمزور اور کام کاج پر جانے والے بھی ہوتے ہیں، اس لیے امام کی ذمہ داری ہے کہ ان سب کا خیال رکھتے ہوئے نماز کو مناسب وقت میںپڑھائے۔

لیکن نماز تراویح چونکہ نفلی نماز ہے اور اس کےلیے کوئی ایسی شرط نہیں کہ تمام لوگ ضرور اس میں شامل ہوں ۔ بلکہ جو آسانی سے اس میں شامل ہو سکے اسے شامل ہونا چاہیے اور جسے کوئی عذر ہو وہ بے شک شامل نہ ہو۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ دوسرانماز تراویح کا آغاز حضرت عمر ؓکے عہد خلافت میں ہوا اور آپ نے خاص طور پر قرآن کریم کی قراءت کےلیے ہی اس کو جاری فرمایا تھا۔اس لیے اس میں نسبتاً لمبی قراءت ہونی چاہیے اور اگر ممکن ہو تو رمضان المبارک میں نماز تراویح میں قرآن کریم کی تکمیل کرنی چاہیے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button