متفرق مضامین

خلافت اولیٰ اور خلافت ثانیہ میں اسلام کی ترقی اور استحکام کے لیے احمدی خواتین کا کردار (قسط دوم۔ آخری)

(’ثمین احمد‘۔ جرمنی)

چندے کی وصولی کے لیے لجنہ اماء اللہ کی قلمی خدمات

اس مسجد کی تعمیرکے لیے رقم وصول کرنے کی خاطر لجنہ اماءاللہ کی بعض ممبرات نے مضامین بھی لکھے۔ چنانچہ اس کاذکر لجنہ اماءاللہ کی تاریخ میں اس طرح ملتاہے:

’’مسجد برلن کی تحریک کو بہنوں میں وسیع تر کرنے کے لیے اس زمانہ کی بعض خواتین نے بھی قلم اٹھایا چنانچہ الفضل میں اہلیہ صاحبہ منشی کظیم الرحمٰن، مریم بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت حافظ روشن علی صاحب اور استانی سکینۃ النساء صاحبہ کے مضامین شائع ہوئے۔ یہ مضامین اس امر پر بھی روشنی ڈالتے ہیں کہ گو یہ وہ زمانہ تھا جب کہ قادیان میں عورتوں میں تعلیم نہ ہونے کے برابر تھی لڑکیوں کے مدرسے ابھی پرائمری تک ہی تھے پھر بھی اس زمانہ کی خواتین میں چند کا مضمون نگار بن جانا اس عظیم الشان انقلاب کی نشاندہی کرتا ہے جس انقلاب کے برپا کرنے کے لیے حضرت مسیح موعودؑ تشریف لائے تھے۔ ‘‘

(تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد اوّل صفحہ 102)

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ

’’جب تقسیمِ ملک ہوئی اور ہم ہجرت کرکے پاکستان آئے تو جالندھر کی ایک احمدی عورت مجھے ملنے کے لئے آئی۔ رتن باغ میں ہم مقیم تھے وہیں وہ آکر ملی اور اپنا زیور نکال کر کہنے لگی کہ حضور میرا یہ زیور چندے میں دیدیں۔ مَیں نے کہا: بی بی! عورتوں کو زیور کا بہت خیال ہوتا ہے۔ تمہارے سارے زیور سکّھوں نے لوٹ لئے ہیں۔ پارٹیشن کے وقت سکّھوں نے مسلمانوں کا سارا سامان لوٹ لیا تھا۔ تو یہی ایک زیور تمہارے پاس ہے۔ تم اسے اپنے پاس رکھو۔ اس پر اس نے کہا حضور! جب میں ہندوستان سے چلی تھی تو میں نے عہد کیا تھا کہ میں امن سے لاہور پہنچ گئی تو میں اپنا یہ زیور چندہ میں دیدوں گی۔ اگر سکھ باقی زیورات کے ساتھ یہ زیور بھی چھین کر لے جاتے تو میں کیا کر سکتی تھی۔ جس کی نیت کی تھی کہ چندہ میں دیدوں گی وہ بچ گیا اور باقی سارا زیور لوٹا گیا اور سارا سامان لوٹا گیا اس لئے میں مجبور ہوں، آپ میری اس بات کو ردّ نہ کریں اور اس کو وصول کرلیں۔ ‘‘

( الازہار لذوات الخمار حصہ دوئم صفحہ 175مطبوعہ قادیان)

قربانی و ایثار کے باب میں مردوں کے دوش بدوش احمدی مستورات نے بھی کئی اہم سنگ میل نصب کیے ہیں۔ مسجد فضل لندن، مسجد مبارک ہیگ (ہالینڈ) اور مسجد نصرت جہاں کوپن ہیگن (ڈنمارک) کی تعمیر کے تمام تر اخراجات خواتین نے ہی برداشت کیے ہیں۔ جبکہ نائیجیریا میں چار مساجد احمدی مستورات کے چندوں سے تعمیر کی گئی ہیں۔ نیز بشمول جرمن، دو زبانوں میں تراجم قرآن کریم کی اشاعت بھی خواتین کے چندے سے کی گئی ہے۔

جب حضرت مصلح موعودؓ نے مسجد فضل لندن کی تعمیر کے لیے چندے کی تحریک فرمائی تو کئی خواتین نے اپنا تمام تر زیور بلاجھجھک حضورؓ کے قدموں میں نچھاور کردیا۔ ایک مخلص خاتون محترمہ کریم بی بی صاحبہ زوجہ محترم منشی امام الدین صاحب پٹواری نے اپنی والدہ کی نشانی کے طور پر صرف ایک زیور اپنے پاس رکھ کر باقی سارا زیور پیش کردیا جو ترازو میں سیروں کے حساب سے تولا گیا۔

(اصحاب احمد جلد اول صفحہ125)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جرمنی میں ایک مسجد بنانے کی تحریک فرمائی جس کے خرچ کا اندازہ ڈیڑھ لاکھ روپیہ تھا۔ یہ تحریک گو تمام جماعت کے لیے تھی، لیکن جماعت کی مخلص اور قربانی کرنے والی خواتین نے بھی اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اس تحریک میں شامل ہونے والوں کے لیے کم از کم ڈیڑھ صد روپے دینے کی شرط تھی۔ اس مسجد کی بنیاد 22؍فروری1957ء کو رکھی گئی اور 22؍جون 1957ء کو اس کا افتتاح ہوا جس کے لیے مرکز سے حضرت مصلح موعودؓ نے خاص طور پر صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کو ہیمبرگ بھجوایا۔

(تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد دوم صفحہ 464، ایڈیشن 1972ء)

حافظ قدرت اللہ صاحب نے ہالینڈ کی سرزمین میں انوار قرآنی پھیلانے کے لیے اوّلین توجہ ہیگ کے مختلف ڈچ خاندانوں اور شخصیتوں سے خوشگوار تعلقات پیدا کرکے انہیں دعوت اسلام دی۔ بعدازاں آہستہ آہستہ ہالینڈ کے دوسرے شہروں اور علاقوں کی طرف بھی تبلیغی سفر کیے اور پیغام حق پہنچایا۔ حافظ صاحب کی اس مساعی کا نتیجہ یہ نکلا کہ چند ماہ کے اندر اندر مشرقی ہالینڈ کی ایک مخلص خاتون اسلام میں داخل ہوگئی جس نے قبول حق کرتے ہی مالی قربانی کا ایسا بہترین نمونہ پیش کیا کہ قرن اول کی مسلم خواتین کی مالی قربانیوں کی یاد تازہ ہوگئی۔

(تاریخ احمدیت جلد 11 صفحہ 153تا 154)

شدھی کے خلاف جہاد میں احمدی مستورات کی شمولیت

1923ء کے شروع میںحضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے شدھی تحریک کے خلاف خصوصی جہاد کا اعلان فرمایا۔ ہندوستان کے علاقہ یوپی میں ارتداد کی تحریک اُٹھی تھی۔ ملکانہ راجپوت کہلانے والی مسلمان قوموں کو آریہ دوبارہ شُدھ کرنے لگے تھے۔ احمدی عورت دینی اغراض کے لیے بڑھ کے قربانی کے لیے ایسی تیار ہو چکی تھی کہ فوراًا پنے پیارے امام کی خدمت میں خطوط لکھے۔ جس پر 13؍مارچ 1923ءکے درسِ قرآن میں آپؓ نے خوشنودی کا اظہار فرمایا:

’’راجپوتوں میں تبلیغ کے متعلق تحریک کی گئی ہے اس کو سُن کر عورتوں کی طرف سے بھی کہا گیا ہے کہ اس موقع پر ہمیں بھی خدمتِ دین کا موقع دیا جائے ان کو اس خدمت دین میں شامل کرنے کا سوال تو الگ ہے اور اس کے متعلق پھر فیصلہ کیا جائے گا مگر اس سے یہ تو ظاہر ہےکہ مستورات میں بھی قربانی اور ایثار کے جذبات پائے جاتے ہیں اور وہ بھی ہر خدمتِ دین میں حصہ لینے کے لئے تیار ہیں۔ ‘‘

(الفضل قادیان 15؍مارچ1923ءصفحہ 11)

ایک خاتون محترمہ سعیدہ صاحبہ نے لاہور سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں لکھا:

’’عاجزہ نے پرچہ اخبار زمیندار میں پڑھا ہے کہ بیس مسلمان عورتیں ہندو ہوچکی ہیں۔ عاجزہ کی عرض ہے کہ یہ واقعہ پڑھ کر میرے دل کو سخت چوٹ لگی ہے میرا دل چاہتا ہے کہ اسی وقت اُڑ کر چلی جاؤں اور اُن کو جاکر تبلیغ کروں اگر حضور پسند فرمائیں اور حکم دیں تو عاجزہ تبلیغ کے واسطے تیار ہے۔ ‘‘

ایک خاتون محترمہ سردار بیگم صاحبہ دختر شیخ محمد حسین صاحب سب جج زیرہ ضلع فیروز پور نے لکھا :

’’مرد اکثر اوقات کسی نیک کام کرنے سے اس لئے بھی رُک جاتے ہیں کہ اُن کی عورتیں راہ میں حائل ہوجاتی ہیں۔ پیاری بہنو اور بزرگو! خبردار ! اس کام کے کرنے میں ہرگز حائل نہ ہونا ورنہ جہنم کا منہ دیکھنا پڑے گا تم خود مردوں سے کہو کہ نکلو اسلام کی عزت رکھنے کا وقت ہے …جو بہنیں اپنے مردوں کو بھیجنے کے ذریعے سے مدد نہیں کرسکتیں وہ اپنے مال سے مدد کریں ‘‘۔

(تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد اوّل صفحہ 121، ایڈیشن 2009ء)

محترمہ محمودہ خاتون صاحبہ(اہلیہ عبد الرحیم صاحب مالیر کوٹلہ ) نے مردوں کی خدمات کے مواقع پر رشک کے جذبات کا اظہار کیا اور میدانِ عمل میں ایک مربی کو بھجوانے کا خرچ اُ ٹھانے کا وعدہ کیا۔ محترمہ امۃ الرحمٰن صاحبہ( ہمشیرہ قاضی عبد الرحیم صاحب) اور محترمہ عمر بی بی صاحبہ والدہ محمد عبد الحق صاحب آ گرہ نے اپنے آپ کو خدمت کے لیے تین ماہ کےلئےوقف کرنے کے خطوط لکھے۔ لجنہ اماء اللہ کی طرف سے حضرت سیّدہ امۃا لحئی حرم حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے عید کے موقع پر ان راجپوت عورتوں کے لیے دوپٹوں کے تحفے بھیجے جنہوں نے فتنہ ارتداد کا جواں مردی سے مقابلہ کیا۔ چھ سالہ صاحبزادی امۃ القیوم صاحبہ نے بھی ایک چھوٹا دوپٹہ تحفے میں بھیجا۔ محترمہ زینب صاحبہ زوجہ فقیر محمد صاحب رائے پور نے اپنے سارے گھر کا اسباب چندہ میں دے دیا اور دونوں میاں بیوی نے میدان ِ ارتداد میں خدمات کے لیے خود کو پیش کیا۔ سکندرآباد اور حیدر آباد دکن کی 75خواتین نے ایک جلسہ کیا۔ اہلیہ صاحبہ حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب نے ارتداد سے بچانے کے لیے مربیان بھجوانے اور اُن کے اخراجات برداشت کرنے کے لیے اپیل کی۔

(ماخوذ ازتاریخ لجنہ اماء اللہ جلد اوّل صفحہ 123,122، ایڈیشن2009ء)

احمدیت کی ترقی میں احمدی عورتوں نے بھی بےشمار قربانیاں دی ہیں اپنے ایمان کو بچایااور مخالفین اسلام کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے۔

تحریک تحفظ ناموسِ رسولؐ

1927ء میں لجنہ اماء اللہ کو منضبط اور مضبوط انداز میں تحریک ِتحفظ ناموسِ رسولؐ میں حصہ لینے کا موقع ملا۔ آریہ سماجی راجپال نے رنگیلا رسول جیسی اشتعال انگیز کتاب لکھ کر اہل غیرت کو للکارا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے پُر زور تحریک چلائی اور خواتین سے اپیل کی کہ وہ چندہ جمع کریں۔ خواتین نے بہت جلد مطلوبہ رقم جمع کی اس کے علاوہ 22؍جولائی 1927ء کو حضرت سیّدہ سارہ بیگم حرم حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی زیر صدارت ایک جلسہ کر کے نَو ریزولیوشنز (RESOLUTIONS)پاس کیںجس کی نقل ہزایکسی لینسی گورنر صاحب پنجاب کو بھی بھیجی گئی۔ یہ ریزولیوشنز خواتین کی بیدارمغز ی، بہادری، جرأت اور دلیری کی آئینہ دار ہیں۔

(الفضل قادیان26؍جولائی1927ءصفحہ10کالم3)

خواتین کا جوش تبلیغ اسلام

حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے مبارک عہد خلافت میں جماعت ميں تبلیغ کی روح اس طرح سےپھونک دي تھي کہ ان کے سر پر ہر وقت یہی دھن سوار تھی کہ ہر لمحہ تبلیغ میں صرف ہو۔ ان يوم التبليغ کي رپورٹس اور بيعتوں کي تعداد الفضل ميں باقاعدگي سے شائع ہوتي جس سے پتہ چلتا ہے کہ کس جوش وخروش سے ان دِنوں تبليغ کي جاتي تھي۔ مرد تو مرد خواتين بھي اس کارِخير ميں کسي سے پيچھے نہ تھيں۔ 20؍فروري 1934ء کے الفضل ميں حضرت سيدہ اُمّ طاہرؓ کي جانب سےا يک رپورٹ شائع ہوئي جس ميں آپ تحرير فرماتي ہيں کہ

’’لجنہ کو خدا کے فضل سے تبليغي کام کي طرف خاص توجہ ہے اور ممبرات اپنے اپنے حلقہ ميں تبليغ کا کام کرتي رہتي ہيں۔ سال زير رپورٹ ميں حسبِ دستور سيرت النبي صلی اللہ علیہ وسلم کا جلسہ قاديان ميں زيراہتمام لجنہ منعقد ہوا۔ اور خدا کے فضل سے بہت کامياب رہا۔ حاضرات کي تعداد جن ميں غيرمسلم عورتيں بھي کثرت سے شامل تھيں۔ سات آٹھ سو کے قريب تھي۔ يوم التبليغ ميں بھي لجنہ نے خاص طور پر حصہ ليا۔ ہندو اور سکھ خواتين کے ہاں جانے کے علاوہ اچھوت کہلانے والي قوم کے محلہ ميں بھي ممبرات اور دوسري بہنوں نے جا کر انفرادي طور پر تبليغ کي۔ جس کے نتيجہ ميں خدا کے فضل سے بہت سي عورتوں نے اسلام قبول کيا۔ اور کئي غيراحمدي عورتوں نے بيعت کي، فالحمدللّٰہ عليٰ ذالک۔ ‘‘

(الفضل قادیان 20؍فروری1934ءصفحہ5کالم2)

یہ تو اپنوں کی رپورٹس ہیں آیئے ایک اور غیر اخبار کی رائے اس بارے میں پڑھتے ہیں۔ اخبار آریہ مسافر25؍مارچ 1934ء کے شمارے میں ایک آریہ اپدیشک احمدیوں کے یوم التبلیغ کاآنکھوں دیکھا حال سناتے ہوئے لکھتا ہےکہ

’’… میں 4؍ مارچ 1934ء کو قادیان گیا۔ اسٹیشن سے اتر کرجب شہر پہونچا۔ تو سارا شہر سنسان تھا۔ وردیاں پہنے ہوئے مسلمان والنٹیر ہاتھوں میں لٹھ لئے گھوم رہے تھے۔ اور برقعہ والی عورتوں کے جھنڈ ادھر ادھر پھر رہے تھے۔ میں نے ان والنٹیروں سے پوچھا آج کیا ہے جواب ملا تبلیغی ڈے یہ سن کر آ گے بڑھا۔ آگے بھی عورتوں کے غول کے غول ادھر ادھر جا رہے تھے۔ اتنے میں آریہ سماج کے پردہان مل گئے۔ ان سے تبلیغی ڈے کے متعلق بات چیت ہونے لگی۔ انہوں نے کہا۔ مرزائی انجمن ہر سال تبلیغی ڈے مناتی ہے۔ اب کے تو کھلے طور پر ہندوئوں میں تبلیغ کرنے کے لئے یہ دن رکھا گیا ہے۔ میں سارا دن ان کےجوش اور مستعدی کاادا سنیتا سے وچار کرتا رہا۔ نانا پرکار کے خیال میرے دل میں آتے جاتے تھے۔ چت اداس رہا۔ سائینگ کال کے سمے باہر گھومنے کے لئے جب نکلا۔ تو کیا دیکھتا ہوں۔ کہ باہر سے لوگوں کے غول اتنے خوشی میں اور امنگوں سے بھرے ہوئے۔ کہ پائوں پر دھول پڑی ہے۔ چہروں پر پسینہ کے نشان ہیں۔ چاروں طرف سے آ رہے ہیں۔ پوچھا کہاں گئے تھے۔ جواب ملا۔ تبلیغ کے لئے عورتیں بھی سارا دن ہندو محلوں میں پھرتی رہیں …‘‘

(الفضل قادیان یکم اپریل 1934ءصفحہ 4)

دین کی خاطر جان کا نذرانہ

قربانی کرنے والوں کی مثالوں میں ایک احمدی خاتون کا ذکر جماعت کی تاریخ میں ملتا ہے جن کا نام پھوپھی سید صاحبہ تھا۔ 1946ء میں یہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں حضرت مصلح موعودؓ کی تصویر دیکھ کر احمدی ہوئی تھیں۔ اس وقت اس خاتون کی عمر 80سال تھی۔ بیوہ اور بےاولاد تھیں اور گاؤں کے بچوں کو قرآن کریم پڑھاتی تھیں۔ بہت سارے بچے بچیاں ان کے پاس پڑھتے تھے۔ بیعت کرتے ہی لوگوں نے ان سے بچے پڑھائی کرنے سے اٹھوا لیے کہ تم احمدی ہو گئی ہو، کافر ہو گئی ہو اب قرآن کریم تم سے نہیں پڑھوانا اور وہ اپنے گاؤں میں بالکل بے سہارا ہو گئیں۔ آپ کے قبول احمدیت کی شہرت ہوئی تو ان کے بھائی وزیر علی شاہ ان کو اپنے پاس رَن مل شریف گجرات میں لے گئے اور ایک کمرے میں وہاں لا کر ان کو بند کر دیا اور ان کا کھانا پینا بند کردیا۔ اس طرح یہ بھوکی پیاسی کئی دنوں کے فاقے اور بھوک اور پیاس کی وجہ سے اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہو گئیں۔ انہوں نے کوئی آہ و بکا نہیں کی۔ کوئی احتجاج نہیں کیا اور نہ ہی احمدیت چھوڑی۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے بھوکی پیاسی مر جاؤں گی لیکن احمدیت نہیں چھوڑوں گی ۔

(ماخوذ ازجلسہ سالانہ جرمنی 2018ء کے موقع پر امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا مستورات سے خطاب)

سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر مضامین کا سلسلہ

جب ہندوؤں کی طرف سےکتاب ’’رنگیلا رسول‘‘ اور رسالہ ’’ورتمان‘‘میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان مبارک کے خلاف گستاخیاں انتہا کو پہنچ گئیں اور ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی نہایت خطرناک شکل اختیارکرگئی تو حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس اورحرمت کی حفاظت کے لیے 1927ء کے آخر میں خدا تعالیٰ کی طرف سے القاء کی گئی ایک تحریک اور مہم ملک کےطول وعرض میں جاری فرمائی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کےحالات، پاک سیرت کے درخشاں واقعات اور عالمگیر احسانات کے تذکروں کے لیے جلسوں کے علاوہ نظم و نثرپر مشتمل ایک خاتم النبیینؐ نمبر بھی اس بابرکت سکیم میں شامل فرمایا۔

اس نمبر میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کےمتعلق کل 35مضامین شائع کیےگئےجن کو حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ، احمدی وغیراحمدی علماءومستورات اور غیر مسلم احباب نے بڑے جوش اورمحبت سےتحریرکیا۔

(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 5 صفحہ 29تا34)

حضرت خلیفة المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ عنہ کےارشاد پر ادارہ الفضل قادیان نے 12؍جون 1928ء بمطابق 23؍ذی الحجہ1346ہجری کو بہتّر(72) صفحات پر مشتمل ایک نہایت شاندار شمارہ ’’خاتم النبیینؐ نمبر‘‘شائع کیا جس میں حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کےمتعلق حضرت مسیح موعودؑ کی کتب میں سےاقتباسات، حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ اور دوسرے ممتاز بزرگان احمدیت و علمائے سلسلہ اور احمدی و غیر احمدی مستورات کے مضامین کے ساتھ ساتھ بعض مشہور غیر احمدی زعماء اور غیر مسلم اصحاب کے بھی نہایت بلند پایہ مضامین شامل تھے۔ ان مضامین کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں حضرت مسیح موعودؑ اور حضرت مصلح موعودؓ کی نعتوں کے ساتھ بعض دیگر احمدی احباب کا کلام بھی درج کیا گیا۔

اس خاص نمبر میں 14احمدی خواتین کےمضامین شائع کیےگئےجن میں اکثر مضامین کاموضوع بانی اسلام حضرت اقدس محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا عورتوں کےحقوق اورحسن سلوک قائم فرمانےکےمتعلق تھا۔ یہ مضامین غیرمسلم دنیا کے اسلام پر عورتوں کے حقوق کےمتعلق اعتراض کےجواب میں بےمثال ہیں۔ جن مستورات کےمضامین خاتم النبیین نمبر میں شائع ہوئے ان کے اسماءدرج ذیل ہیں :

فاطمہ بیگم صاحبہ اہلیہ ملک کرم الٰہی صاحب، مریم بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ، زبیدہ خاتون صاحبہ لاہور، ہاجرہ بیگم صاحبہ اہلیہ ایڈیٹرالفضل، سکینة النساء صاحبہ قادیان، ایس ایس نسیم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر سید محمد حسین صاحب، زکیہ خاتون صاحبہ اہلیہ مولوی محمدیوسف صاحب مونگھیر، سیدہ فضیلت صاحبہ سیالکوٹ، بنت شیخ مولابخش صاحب مرحوم لاہور، عزیزہ رضیہ صاحبہ اہلیہ مرزا گل محمد صاحب، امة الحفیظ بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر گوہرالدین صاحب، فاطمہ بیگم صاحبہ اہلیہ حکیم محمد یعقوب صاحب قریشی لاہور، سیدہ محمودہ بیگم صاحبہ بنت سیدغلام حسین صاحب، اور امة الحق صاحبہ بنت حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ۔

(الفضل قادیان 12؍جون 1928ء)

محترمہ امة الحق صاحبہ بنت حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ نے اپنے مضمون ’’صنف نازک سےبانی اسلام کاحسن سلوک‘‘میں لکھا کہ

’’غرض میں بصیرت سے علی الاعلان یہ بات کہنے کےلیےتیارہوں کہ مذہب اسلام کےبانی محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم صنف نازک کو حیات روحانی اورجسمانی عطاکرنے میں بےنظیرہیں۔ ‘‘

(الفضل قادیان 12؍جون 1928ءصفحہ 61کالم3)

دین اسلام کے لیے جذبات کی قربانی

تبلیغ میں واقفین زندگی کی بیویوں کا کردار اس پھول کی طرح ہے جس سے عطر بنتا ہے۔ عطر کی خوشبو تو محسوس ہوتی ہے لیکن پھول نظر نہیں آتا۔ واقفین زندگی کی بیویوں کی زندگی بھی وقف ہوتی ہے۔ وہ ہر گرم اور سرد میں ان کا ساتھ دیتی ہیں، مشکلات کے وقت حوصلہ افزائی کرتی ہیں اور اپنے خاوند کے کام کو خوش اسلوبی سے جاری رکھنے میں اپنے خلوص اور اعلیٰ اخلاص سے خاصا اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ان کی خاموشی میں ایک گو یائی ہو جاتی ہے، ایسی گو یائی جو حیرت انگیز طور پردلوں پر اثر کرنے والی ہوتی ہے۔ ہماری جماعت ایسی مثالوں سے منور ہے۔ مبلغین اسلام کی بیویوں نے شروع میں جب حالات اچھے نہیں تھے، بڑی بڑی قربانیاں دیں اور بغیر خاوندوں کے رہیں اور بچے اس طرح پالے جیسے یتیمی میں پالے جاتے ہیں۔ اسی طرح کا ایک واقعہ انڈونیشا کے مبلغ حضرت مولوی رحمت علی صاحب کا ہے۔ مکرم مولوی رحمت علی صاحب متفرق اوقات میں 26سال باہر رہے۔ ان کے بچے بچپن میں تو پوچھا کرتے تھے کہ ہمارے اباکہاں ہیں۔ آخر جب ایک وقت آیا جب بچے جوان ہو گئے، بڑے ہو گئے، شادیاں ہو گئیں تو حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے فیصلہ کیا کہ اُن کو واپس بلا لیا جائے تو اس وقت ان کی بیوی حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے پاس آئیں اور بڑے درد سے یہ بات کہی کہ دیکھیں جب میں جوان تھی تو اللہ کی خاطر مَیں نے صبر کیا تھا اور اپنے خاوند کی جُدائی پر اُف تک نہ کی۔ اپنے بچوں کوکس مپرسی کی حالت میں پالا پوسا اور جوان کیا۔ اب جبکہ میں بوڑھی اور بچے جوان ہوچکے ہیں، اب ان کو واپس بلانے سے کیا فائدہ۔ اب تو میری تمنا پوری کر دیجئے، میری یہ خواہش پوری کریں کہ میرا خاوند مجھ سے دور خدمتِ دین کی مہم میں دوسرے ملک میں مر جائے اور مَیں فخر سے کہہ سکوں کہ میں نے اپنی شادی شدہ زندگی دین کی خاطر قربان کردی۔

(ماخوذ از روزنامہ الفضل ربوہ 3؍نومبر 2004ء صفحہ 5)

حکیم فضل الرحمٰن صاحب مبلغ افریقہ کی زندگی بھی بہت لمبا عرصہ باہر گزری حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ حکیم فضل الرحمن صاحب کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

’’وہ شادی کے تھوڑاعرصہ بعد ہی مغربی افریقہ میں تبلیغ کے لیے چلے گئے تھے اور تیرہ چودہ سال تک باہر رہے جب وہ واپس آئے تو ان کی بیوی کے بال سفید ہو چکے تھے اور ان کے بچے جوان ہو چکے تھے‘‘

(محسنات صفحہ 120)

مولوی نذیر احمد صاحب مبشر سیالکوٹی کے بارے میں اسی کتاب میں لکھا ہے کہ مولوی نذیر احمد صاحب مبشر نکاح کے بعد رخصتانہ سے قبل ہی افریقہ چلے گئے تھے اس زمانے میں مبلغین کی بھی اتنی کمی تھی …پھر جنگ کی وجہ سے واپس نہ ہو سکے وہ لکھتے ہیںکہ اب ان کو 9,8سال کے قریب ہوگئے ہیں اور ابھی عزیزہ موصوفہ کا رخصتانہ نہیں ہوا۔مجھے یاد نہیں کہ کتنی مدت کے بعد آئے تھے تو وہ کنواری دلہن بوڑھی ہو چکی تھی اور اس عمر میں داخل ہوگئی تھی کہ جس کے بعد پھر بڑھاپے کے انتظار کے چند سال ہی رہ جاتے ہیں انہوں نے اکثر وقت تنہائی اور جدائی میں کاٹا۔

(محسنات صفحہ 121)

حضرت فضل عمرؓ نے 1956ءمیں لجنہ کے سالانہ اجتماع میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

’’ہمارے کئی مربی ایسےہیں جو دس دس پندرہ پندرہ سال تک بیرونی ممالک میں فریضہ تبلیغ ادا کرتے رہے اور وہ اپنی نئی بیاہی ہوئی بیویوں کو پیچھے چھوڑ گئے۔ ان عورتوں کے بال اب سفید ہو چکے ہیں لیکن انہوں نے اپنے خاوند کو کبھی یہ طعنہ نہیں دیا کہ وہ انہیں شادی کے بعد چھوڑ کر لمبے عرصے کے لیے باہر چلے گئے تھے۔ ہمارے ایک مبلغ مولوی جلال الدین صاحب شمس ہیں وہ شادی کے تھوڑا عرصہ بعد ہی یورپ چلے گئے تھے۔ ان کے واقعات سن کر انسان کو رقت آ جاتی ہےایک دن انکا بیٹا گھر آیا اور اپنی والدہ سے کہا کہ امی ابا کسے کہتے ہیں ؟ ہمیں پتہ نہیں ہمارا بابا کہاں گیا ہے؟ کیونکہ وہ بچے ابھی تین تین چار چار سال کے تھے کہ شمس صاحب یورپ تبلیغ کے لیے چلے گئے اور جب واپس آئے تو وہ بچے 17، 18 سال کے ہو چکے تھے اب دیکھو یہ ان کی بیوی کی ہمت اور اس بیوی کی ہمت کا ہی نتیجہ تھاکہ وہ ایک لمبے عرصے تک تبلیغ کا کام کرتے رہے۔ اگر وہ انہیں اپنی درد بھری کہانیاں لکھتی رہتیں تو وہ یا تو خود بھاگ آتے یا سلسلے کو مجبور کرتے ہیں کہ انہیں بلا لیا جائے۔

(محسنات صفحہ122تا123)

احمدی خواتین کی ملی قربانیاں

تحریک پاکستان کی نامور مجاہدہ اور برصغیر کی پہلی مسلمان صحافی خاتون محترمہ قریشیہ سلطانہ المعروف بیگم شفیع احمد نے 1920ء میں احمدیت قبول کی۔ جب مسجد فضل لندن کےلیے چندےکی تحریک ہوئی تو بیگم شفیع احمد نے اپنا پنج لڑا ہار پیش کردیا۔ 18؍اپریل 1927ء کو دہلی میں لجنہ اماء اللہ کا قیام حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کے ذریعے ہوا تو بیگم شفیع احمد پہلی سیکرٹری مال مقرر ہوئیں۔ آپ بہت اعلیٰ مقررہ بھی تھیں۔ خواتین کے جلسہ سالانہ 1934ء میں بھی آپ کو تقریر کرنے کا موقع ملا۔ 31؍ اکتوبر 1941ء کو حضرت سید شفیع احمدؓ وفات پاگئے تو گھریلو رئیسانہ ٹھاٹھ باٹھ پر نظر ڈال کر آپ کے مونہہ سے بے ساختہ نکلا ’’یا اللہ اب ہمارا کیا بنے گا؟‘‘ اسی لمحے ایک جلالی آواز آپ کے کانوں میں آئی کہ ’’تیرا خدا تو نہیں مرا وہ تو ہمیشہ زندہ رہے گا‘‘۔ …پھر ایک روز آپ نے خواب میں اپنے خاوند کو دیکھا جو کہہ رہے تھے کہ آپ اخبار ’’دستکاری‘‘جاری کریں۔ یہ اخبار 1913ء سے حضرت سید شفیع احمد صاحبؓ کی وفات تک جاری ہوتا رہا تھا۔ اس خواب کے بعد 1943ء میں بیگم شفیع احمد بھی میدان صحافت میں آگئیں اور ہفتہ وار ’’دستکاری‘‘جاری کردیا۔ آپ کے کئی اداریوں نے نہ صرف آپ کو شہرت کی منزل پر پہنچا دیا بلکہ آپ کو دہلی کی کئی انتظامی کمیٹیوں کا ممبر بھی بنادیا گیا۔ اس سے پہلے سے آپ مسلم لیگ کی پرجوش رکن بھی تھیں۔ 1938ء میں آپ کو محمد علی جناح صاحب نے مقامی شعبہ خواتین کا نگران بنادیا اور بعد میں ورکنگ کمیٹی کا ممبر بھی نامزد کردیا۔ آپ پریس کانفرنسوں اور میٹنگوں میں پردے کی رعایت کے ساتھ اور اپنے بیٹے کے ہم راہ شامل ہوتیں۔ ایک موقع پر مسز سروجنی نائیڈو نے آپ کو گلے سے لگا کر برملا اعتراف کیا کہ واقعی برقع آپ کی ترقی میں رکاوٹ نہیں بنا۔ بیگم شفیع احمد نے شملہ کانفرنس اور 1946ء میں عارضی حکومت کی افتتاحی تقریب میں بھی بطور نامہ نگار شرکت کی۔ تقسیم ملک کے بعد مسلمانوں اور قادیان کی حفاظت کے سلسلے میں بھی آپ نے جرأت کے ساتھ نمایاں خدمت انجام دی۔

( روزنامہ الفضل ربوہ 13؍ اگست 1997ء۔ بشکریہ خادم مسرور ویب سائٹ)

عظیم الشان مائیں

تاریخ سے ہمیں ایسی ایسی عظیم الشان ماؤں کی نظیر ملتی ہے جنہوں نے اپنی اولاد کے دل میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ڈال دی۔ حضرت حاجرہؑ کی تقلید میں خدا کے فضل سے ایسی مائیں پیدا ہو رہی ہیں جو اپنے بچوں کو خدا کی رضا کی خاطرقربانی کے لیے تیار کرتی ہیں یہ اسلام کے دورِ اول میں بھی تھیں اور دورِ آخر میں بھی ہیں۔ حضرت سیّدہ اماں جانؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کے وصال کے وقت بچوں کو یوں تسلی دی کہ ’’بچو !خالی گھر دیکھ کر یہ نہ سمجھنا کہ تمہارے ابا تمہارے لیے کچھ نہیں چھوڑ گئے انہوں نے آسمان پر تمہارے لیے دعاؤں کا بڑا بھاری خزانہ چھوڑا ہے۔ جو تمہیں وقت پر ملتا رہے گا۔ ‘‘

(محسنات صفحہ56)

حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی وفات پر جو آپ نے صبر دکھایا کہ حضرت مسیح موعودؑ کو وحی ہوئی ’’خدا خوش ہو گیا‘‘۔ جب حضرت اماں جانؓ نے یہ سنا تو فرمایا۔ ’’مجھے

اس الہام سے اس قدر خوشی ہوئی ہے کہ دو ہزار مبارک احمد بھی مر جاتا تو میں پرواہ نہ کرتی۔ ‘‘

(محسنات صفحہ58)

حضرت اُمّ المومنینؓ کے دینی جذبات کا اندازہ اس مکتوب سے بھی کیا جاسکتا ہے جس میں تربیتی پہلو بھی نہایت عظیم درجے کا ہے:

’’خط تمہارا پہنچا۔ سب حال معلوم ہوا۔ مولوی صاحب(یعنی حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ) کا مشورہ ہے کہ پہلے حج کو چلے جاؤ۔ اور میرا جواب یہ ہے کہ میں تو دین کی خدمت کے واسطے تم کو اللہ تعالیٰ کی خدمت میں دے چکی ہوں۔ اب میرا کوئی دعویٰ نہیں۔ وہ جو کسی دینی خدمت کو نہیں گئے بلکہ سیر کو گئے۔ ان کو خطرہ تھا۔ اور تم کو کوئی خطرہ نہیں۔ خداوند کریم اپنے خدمتگاروں کی آپ حفاظت کرے گا۔ میں نے خدا کے سپرد کردیا۔ ‘‘

(محسنات صفحہ118)

حضرت صاحبزادہ عبداللطیفؓ کی اہلیہ حضرت شاہ جہاں بی بی صاحبہ نے انتہائی درد ناک حالات دیکھے مگر ہر موقع پر یہی فرمایا کہ اگر احمدیت کی وجہ سے میں اورمیرے چھوٹےچھوٹے بچے قربان کر دیے جائیں تو اس پر خدا تعالیٰ کی بے حد شکر گزار ہوں گی اور بال بھر بھی اپنے عقائد میں تبدیلی نہ کروں گی۔

(محسنات صفحہ118)

سیالکوٹ کے ایک احمدی نوجوان غلام محمد ابن مستری غلام قادر صاحب کو ان کی والدہ نے نصیحت کی تھی کہ بیٹا اگر اسلام احمدیت کی حفاظت کے لیے تمہیں لڑنا پڑے تو کبھی پیٹھ نہ دکھانا۔ اس سعادت مند اور خوش قسمت نوجوان نے اپنی بزرگ والدہ محترمہ حسین بی بی صاحبہ کی اس نصیحت پر عمل کیا کہ قادیان میں احمدی عورتوں کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جان دے دی مگر دشمن کے مقابلہ میں پیٹھ نہیں دکھائی۔ مرنے سے پہلے اس نوجوان نے اپنے ایک دوست کو اپنے پاس بلایا اور اپنے آخری پیغام کے طور پر اس نے یہ لکھوایا کہ

’’مجھےاسلام اور احمدیت پر پکا یقین ہے۔ میں اپنے ایمان پر قائم جان دیتا ہوں میں اپنے گھر سے اس لئے نکلا تھا کہ میں اسلام کے لئے جان دوں گا آپ لوگ گواہ رہیں کہ میں نے اپنا وعدہ پورا کر دیا اور جس مقصد کے لئے جان دینے کے لیے آیا تھا میں نے اس مقصد کے لئے جان دے دی۔ جب میں گھر سے چلا تھا تو میری ماں نے نصیحت کی تھی کہ بیٹا ! دیکھنا پیٹھ نہ دکھانا۔ میری ماں سے کہہ دینا کہ تمہارے بیٹے نے تمہاری وصیت پوری کردی اور پیٹھ نہیں دکھائی اور لڑتے ہوئے مارا گیا۔ ‘‘

(تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد دوم صفحہ 26، ایڈیشن 1972ء)

حضرت مصلح موعودؓ نے قرون اولیٰ کی خواتین کی قربانیوں کی مثالیں پیش کیں اور پھر احمدی عورتوں کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ

’’اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے اسلام کو عزت دینے کے لئے ایک اسلامی علاقہ (پاکستان) قائم کردیا … لیکن ہر نعمت کے لئے کچھ قربانی دینی پڑتی ہے… جب ملک ہمارے پاس آچکا ہے تو اس کو بچانا ہمارا کام ہے۔ اب انگریزوں کے خون سے اس ملک کو بچا یا نہیں جا سکتا بلکہ خود مسلمانوں کے خون سے اس ملک کو بچا یا جائے گا۔ … میں نے بار بار جماعت احمدیہ کے افراد کو توجہ دلائی کہ وہ اٹھیں اور ملک کی خدمت کریں … میں بتاتا ہوں کہ تم میں سے بعض عورتیں ایسی ہیں جنہوں نے نہایت ہی اعلیٰ درجے کا نمونہ دکھا یا ہے۔ اگر وہ ان پڑھ جاہل اور غریب عورتیں ایسا اچھا نمونہ دکھا سکتی ہیں تو آسودہ حال اور پڑھی لکھی عورتیں کیوں ایسا نمونہ نہیں دکھا سکتیں۔ ایک جگہ رنگروٹ بھرتی کرنے کے لیے ہمارے آدمی گئے انہوں نے جلسہ کیا اور تحریک کی کہ پاکستانی فوج میں شامل ہونے کے لئے لوگ اپنے نام لکھوائیں …جن قوموں میں لڑائی کی عادت نہیں ہوتی اکثر ایسے موقع پر عموما ًاپنے نام لکھنے سے ہچکچاتے ہیں۔ چنانچہ اس موقع پر بھی ایسا ہی ہوا تحریک کی گئی کہ لوگ اپنے نام لکھوائیں مگر چاروں طرف خاموشی رہی اور کوئی شخص اپنا نام لکھوانے کے لیے نہ اٹھا تب ایک بیوہ عورت جس کا ایک ہی بیٹا تھا اور جو پڑھی ہوئی بھی نہیں تھی اس نے جب دیکھا کہ باربار احمدی مبلغ نے کھڑے ہوکر تحریک کی ہے کہ لوگ اپنے نام لکھوائیں مگر وہ ہچکچانےکی وجہ سے آگے نہیں بڑھتے تو وہ عورتوں کی جگہ سے کھڑی ہوئی اور اس نے اپنے لڑکے کو آواز دے کر کہا’’اوئے فلانے تو بولتا کیوں نہیں تو نے سنا نہیں کہ خلیفہ وقت کی طرف سے تمہیں جنگ کے لئے بلایا جا رہا ہے‘‘ اس پر وہ فوراً اٹھا اور اس نے اپنا نام جنگ پر جانے کے لیے پیش کردیا تب اس کو دیکھ کر لوگوں کے دلوں میں بھی جوش پیدا ہوا اور انہوں نے نام لکھوانے شروع کر دیے۔ وہ عورت زمیندار طبقہ میں سے نہیں تھی بلکہ غیر زمیندار طبقہ سے تعلق رکھتی تھی۔ جس کے متعلق زمیندار بڑی حقارت سے یہ کہا کرتے تھے کہ وہ لڑنا نہیں جانتے۔ مگر اس نے غیر زمیندار ہو کر اپنی ذمہ داری کو محسوس کیا اور ایسی حالت میں محسوس کیا جب کہ وہ بیوہ تھی اور اس کا صرف ایک ہی بیٹا تھا اور آئندہ اسے کوئی بیٹا ہونے کی امید نہیں تھی۔ اس نے کہا جب خدا اور اسلام کے نام پر ایک آواز اٹھائی جارہی ہے تو پھر میرا کوئی بیٹا رہے یا نہ رہے مجھے اس آواز کا جواب دینا چاہیے۔ شدید جذبات مقابل میں ویسے ہی جذبات پیدا کیا کرتے ہیں۔ اور جب اس نے یہ بات کہی تو کئی بزدل جو اپنے آپ کو پہلے بچا رہے تھے انہوں نے بھی اپنے ارادوں کو پیش کرنا شروع کر دیا اور جب یہ اطلاع میرے پاس پہنچی اور خط میں مَیں نے یہ واقعہ پڑھا تو پیشتر اس کے کہ میں اس خط کو بند کرتا میں نے خدا تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے کہا ’’اے میرے ربّ! یہ بیوہ عورت اپنے اکلوتے بیٹے کو تیرے دین کی خدمت کے لئے یا مسلمانوں کے ملک کی حفاظت کے لئے پیش کر رہی ہے، اے میرے ربّ!اس بیوہ عورت سے زیادہ قربانی کرنا میرا فرض ہے۔ میں بھی تجھ کو تیرے جلال کا واسطہ دے کر تجھ سے یہ دعا کرتا ہوں کہ اگر انسانی قربانی کی ضرورت ہو تو اے میرے ربّ! اس کا بیٹا نہیں بلکہ میرا بیٹا مارا جائے‘‘

(تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد دوم صفحہ 108، تا109، ایڈیشن 1972ء)

بہادری اور جرأت

1958ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر افتتاحی خطاب میں حضرت مصلح موعودؓ نے خواتین کی دلیری کے واقعات بیان کرتےہوئےفرمایا:

’’اب تو ہماری عورتیں بھی ایسی ہیں جو مردوں سے زیادہ دلیر ہیں۔ ضلع جھنگ کے چنڈ بھروانہ اور منگلہ کے لوگ نئے احمدی ہوئے ہیں وہاں کی ایک عورت یہاں آیا کرتی ہے وہ جب بیعت کرنے کے لئے ربوہ آئی تو مہمان خانہ میں ٹھہری رات کو اس کی بیٹی بھی آ گئی اس نے کہا اماں تو نے مجھے کس قبیلہ میں بیاہ دیا ہےوہ تو احمدیت کی بڑی سخت مخالفت کرتے ہیں۔ بہتیری تبلیغ کرتی ہوں وہ سنتے ہی نہیں۔ اس کی ماں کہنے لگی، بیٹی تو میری جگہ آ جا اور اپنے باپ اور بھائیوں کا کھانا پکا میں تیرے سسرال جاتی ہوں اور میں دیکھتی ہوں کہ وہ کس طرح مخالفت کرتے ہیں اور احمدیت کی تبلیغ نہیں سنتے۔ تو اب ہماری عورتیں بھی ایسی ہی ہیں کہ جو کہتی ہیں کہ ہم دیکھیں گے کہ لوگ ہماری تبلیغ کیسے نہیں سنتے۔ ‘‘

( الفضل قادیان 8؍جنوری 1958ءصفحہ 4کالم3)

بہادری اور جرأت کو خراج تحسین

1936ءمیں گھریلو ڈکیتی کو ناکام بنانےکا ایک واقعہ پیش آیا جوخاتونِ خانہ کی بہادری سے خلیفۂ وقت سے خراج تحسین کا باعث بنا اور تاریخ احمدیت میں جگہ پاگیا۔ واقعہ یہ تھا کہ ایک احمدی بھائی بشیر محمد صاحب لدھیانوی (ضلع مظفر گڑھ) کی عدم موجودگی میں مسلح ڈاکوؤں نے رات کے وقت مکان میں گھس کر مال و اسباب لوٹنا چاہا اور تلوار دکھا کر ان کی اہلیہ غلام فاطمہ صاحبہ اور اُن کے بچوں کو قتل کی دھمکی دی مگر غلام فاطمہ صاحبہ نے بہادری سے ڈاکوؤں کا مقابلہ کیا اور اُن کو بھگا دیا۔

( ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد ہشتم صفحہ 302)

حضرت خلیفۃ ا لمسیح ا لثانیؓ نے اس کے متعلق اپنے قلم سے تحریر فر مایا:

’’گو یہ خطرہ تھا، مگر آپ کی اہلیہ نے جس بہادری سے اور عقلمندی سے کام کیا ہے وہ اس واقعہ کو ایک مبارک واقعہ بنا دیتا ہے میری طرف سے بھی اُ نہیں مبارک باد دے دیں۔ ‘‘

( الفضل قادیان 3؍مارچ 1936ءصفحہ6)

سیدنا حضرت مصلح موعودؓ ایک اور احمدی خاتون کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’جب قادیان میں ہندوؤں اور سکھوں نے حملہ کیا تو شہر کے باہر کے ایک محلہ میں ایک جگہ پر عورتوں کو اکٹھا کیا گیا اور ان کی سردار بھی ایک عورت ہی بنائی گئی جو بھیرہ کی رہنے والی تھی اس عورت نے مسلم مردوں سے بھی زیادہ بہادری کا نمونہ دکھایا ان عورتوں کے متعلق یہ خبریں آئی تھیں کہ جب سکھ یا ہندو حملہ کرتے تو وہ عورتیں ان دیواروں پر چڑھ جاتیں جو حفاظت کی غرض سے بنائی گئی تھیں اور ان سکھوں ہندوؤں کو جو تلواروں اور بندوقوں سے حملہ آور ہوتے تھے بھگا دیتی تھیں اور سب سے آگے وہ عورت ہوتی تھی جو بھیرہ کی رہنے والی تھی اور ان کی سردار بنائی گئی تھی۔ ‘‘

( تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد دوم صفحہ 25، ایڈیشن 1972ء)

1948ء میں فرقان فورس کے احمدی مجاہد آزادی کشمیر کی جنگ میں بہادرانہ کارنامے سر انجام دے رہے تھے یہ امر احمدی مستورات اور بالخصوص لجنہ اماءاللہ کی تنظیم کے لیے باعث فخر ہے کہ احمدی خواتین نے ان مجاہدین کے لیے وردیوں اور کپڑوں کی تیاری میں شبانہ روز محنت اور بڑے ذوق شوق سے حصہ لیا اور اس طرح ان صحابیات کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق پائی جورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مختلف غزوات میں اپنے دائرہ عمل کے لحاظ سے اہم جنگی خدمات ادا کرتی رہیں۔ …اس کے علاوہ پانچ صد روپیہ نقد بھی لجنہ اماء اللہ مرکزیہ نے مجاہدین کے لیے پیش کیا جس میں ایک سو روپے کے تولیے اور چار سو روپے کی جرابیں خریدی گئیں۔ بیرونی لجنات نے بھی چندہ دیا۔

( تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد دوم صفحہ88تا90، ایڈیشن 1972ء)

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں :

’’جب تک دنیا کے چپہ چپہ میں اسلام نہ پھیل جائے اور دنیا کے تمام لوگ اسلام قبول نہ کر لیں اس وقت تک اسلام کی تبلیغ میں وہ کبھی کوتاہی سے کام نہ لیں۔ خصوصاً اپنی اولاد کو میری یہ وصیت ہے کہ وہ قیامت تک اسلام کے جھنڈے کو بلند رکھیں اور اپنی اولاد در اولاد کو نصیحت کرتے چلے جائیں کہ انہوں نے اسلام کی تبلیغ کو کبھی نہیں چھوڑنا اور مرتے دم تک اسلام کے جھنڈے کو بلند رکھنا ہے۔ ‘‘

(الفضل 17؍فروری 1960ء صفحہ 2بحوالہ تاریخ احمدیت جلد8صفحہ 153تا154)

بے شمار لعل و جواہرات سے سجی تاریخ سے یہ چند گوہرنایاب نکال سکی ہوں۔ ہمیں پوری ہمت اور عزم کے ساتھ ان ماؤں کے نقوش کو اپنی ذات میں اتار کر اگلی نسل میں منتقل کرنا ہے تاکہ ہمارے بچے ہمیشہ ہر طرح کی قربانی کے لیے تیارر ہیں۔ اگر احمدی ماؤں نے ایسا کیا تو خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیت کو دنیا میں کوئی خطرہ نہیں۔ خدا تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعا ہے کہ وہ ہمیں اور ہماری نسلوں کو خلافت کے ساتھ مضبوطی سے وابستہ رکھے آمین ثم آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button