اسلام کی ترقی اور استحکام کے لیے احمدی خواتین کا کردار (قسط اوّل)
دورِ خلافت اولیٰ اور خلافت ثانیہ میں اسلام کی ترقی اور استحکام کے لیے احمدی خواتین کا کردار
آئندہ جماعت کی ترقی کا انحصار بھی زیادہ تر عورتوں ہی کی کوشش پر ہے۔ چونکہ بڑے ہو کر جو اثر بچے قبول کر سکتے ہیں وہ ایسا گہرا نہیں ہوتا جو بچپن میں قبول کرتے ہیں(حضرت مصلح موعودؓ)
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
وَ لِکُلٍّ وِّجۡہَۃٌ ہُوَ مُوَلِّیۡہَا فَاسۡتَبِقُوا الۡخَیۡرٰتِ (البقرۃ :149)
اور ہر ایک کے لئے ایک مطمحِ نظر ہے جس کی طرف وہ منہ پھیرتا ہے۔ پس نیکیوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاؤ۔
مسابقت فی الخیربلاشبہ ایک احمدی مسلمان خاتون کی شان اورطرّہ امتیاز ہے۔ قربانیاں دینے اور نیکیوں میں آگے بڑھنے کے میدان وہ کسی پہلو سے مردوں سے پیچھے نہیں۔اس کا حوصلہ بلند، ارادہ مضبوط اور عزم غیرمتزلزل ہوتا ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ گھر کی وہ ملکہ جس کا باپ، بھائی، شوہر یا بیٹا اشاعت اسلام کے لیے قربانیوںکے اعلیٰ نمونے دکھا رہا ہوں،دنیامیں اسلام اور احمدیت کی فتح کا علم بلند کررہا ہوں، خود میدانِ عمل سے دور رہے۔یہی وجہ ہے کہ نیکیوں میں سبقت لے جانے کا مقصد ابتدا ہی سے احمدی مستورات کے پیش نظر ہے۔ جن کی آبدیدہ کردینے والی مثالوں سے تاریخ احمدیت کے صفحات چمک رہے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ ابتلا اور مصائب الٰہی جماعتوں پر آتے ہیںمگر الٰہی جماعتیں ہمیشہ اپنے ایمان میں مستحکم اور ابتلاؤں کے سامنے ثابت قدم رہتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں وعدہ دیا ہوا ہے کہ
وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا(النور:56)
کہ اللہ تعالیٰ ان کے خوف کو امن میں بدل دے گا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائےتو جماعت احمدیہ کی ساری تاریخ اس وعدہ الٰہی کی عملی تفسیر ہے۔ہر عہد خلافت میں عظیم الشان کامیابیوں کے ساتھ ساتھ مخالفتوں کے طوفان بھی اٹھتے رہے، سخت مشکل مراحل بھی آتے رہے لیکن ہر موقع پر ساری کی ساری جماعت بالخصوص احمدی خواتین خلافت کے زیر سایہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ثابت قدم اور متحد رہیں اور مِن حیث الجماعت ، ہر ابتلا کے بعد پہلے سے زیادہ مضبوط ہوکرابھریں۔جماعت احمدیہ مسلمہ کی تاریخ کا ایک ایک باب اس بات پر گواہ ہے کہ ہر ابتلا خلافت حقہ اسلامیہ کے لیے مزید استحکام اور ترقی کی نوید بن کرآیا۔ مضمون ہذا میں خاکسار کی کوشش ہوگی کہ خلافت اولیٰ اور ثانیہ میں احمدی خواتین کا ترقی اور استحکام اسلام کے حوالے سے کردار بیان کر سکوں۔
سب سے پہلے جس مبارک ہستی کا ذکر کرنا چاہوں گی وہ سیدہ حضرت اماں جانؓ ہیں ۔جنہوں نے استقلال ،حوصلے اور اطاعت امام کا بے نظیر نمونہ دکھاکرقرون اولیٰ کی یادتازہ کردی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی ایک تصنیف میں حضرت اماں جان کے حوالے سے تحریرفرمایا:
’’…خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ میری نسل میں سے ایک بڑی بنیاد حمایت اسلام کی ڈالے گا اور اس میں سے وہ شخص پیدا کرے گا جو آسمانی رُوح اپنے اندر رکھتا ہوگا۔ اس لئے اُس نے پسند کیا کہ اِس خاندان کی لڑکی میرے نکاح میں لاوے اور اِس سے وہ اولاد پیدا کرے جو اُن نوروں کو جن کی میرے ہاتھ سے تخم ریزی ہوئی ہے دنیا میں زیادہ سے زیادہ پھیلاوے۔ اور یہ عجیب اتفاق ہے کہ جس طرح سادات کی دادی کا نام شہربانو تھا اسی طرح میری یہ بیوی جو آئندہ خاندان کی ماں ہوگی اِس کا نام نُصرت جہاں بیگم ہے۔یہ تفاول کے طور پر اس بات کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے تمام جہان کی مدد کے لئے میرے آئندہ خاندان کی بنیاد ڈالی ہے۔‘‘
(تریاق القلوب،روحانی خزائن جلد 15صفحہ 275)
’’حضرت اماں جانؓ قدرت ثانیہ کی الٰہی بشارات کے مطابق اس کے ظہور پر ایمان رکھتی تھیں۔چنانچہ جہاں دیگر افراد جماعت کے ذہنوں میں مولانا نور الدین صاحبؓ کا نام خلافت کے انتخاب کے لئے جوش مار رہا تھا وہاں آپ کا دل بھی اسی نام پر متفق تھا۔حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ ظہور قدرت ثانیہ کے دن کا حال بیان کرتے ہوئے اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں:
’’…پھر خواجہ کمال (الدین) صاحب جماعت کی طرف سے حضرت (اماں جانؓ)کے پاس تشریف لے گئے۔انہوں نے کہا میں کسی کی محتاج نہیں اور نہ محتاج رہنا چاہتی ہوں جس پر قوم کا اطمینان ہے اس کو خلیفہ کیا جائے اور حضرت مولانا صاحب کی سب کے دل میں عزت ہے وہی خلیفہ ہونا چاہیے‘‘
(اصحاب احمد جلد دوم) (ماخوذ از روزنامہ الفضل 23؍جنوری 2013ء صفحہ 6)
جب خلافت کا انتخاب عمل میں آگیا تو خواتین میں سے آپؓ اوّل المبائعات تھیں۔چنانچہ اخبار البدر لکھتا ہے کہ
’’مردوں کی طرح عورتوں نے بھی حضرت خلیفۃ المسیح مولوی نورالدین صاحب ؓکے ہاتھ پر بیعت شروع کر دی ہے اور سب سے اول بیعت کنندہ حضرت (اماں جانؓ )بیوی صاحبہ تھیں۔
(اخبار بدر 2؍جون 1908ءصفحہ 7کالم 1)
ظہور قدرت ثانیہ کے بعد آپ ساری زندگی اس نعمت الٰہی سے وابستہ رہیں اور خلیفہ وقت کی اطاعت اور فرماں برداری کا اعلیٰ نمونہ دکھایا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓنے جون 1912ءمیں احمدیہ بلڈنگ لاہور میں خلافت کے موضوع پر اپنے خطاب میں فرمایا :
’’…مرزا صاحب کی اولاد دل سے میری فدائی ہے… مَیں کسی لحاظ سے نہیں کہتا بلکہ مَیں امر واقعہ کا اعلان کرتا ہوں کہ ان کو خدا کی رضا کے لیے محبت ہے۔ بیوی صا حبہ کے منہ سے بیسیوں مرتبہ میں نے سنا ہے کہ میں تو آپ کی لونڈی ہوں۔…مرزا صاحب کے خاندان نے میری فرماںبرداری کی ہے اور ایک ایک ان میں سے مجھ پر ایسافدا ہے کہ مجھے کبھی وہم بھی نہیں آ سکتا کہ میرے متعلق انہیں کوئی وہم آتا ہو۔‘‘
(اخبار بدر 11،4؍جولائی 1912 بحوالہ حیات نور صفحہ 564 عبدالقادر صاحب سابق سوداگرمل ،بحوالہ روز نامہ الفضل ربوہ 23؍جنوری 2013ءصفحہ 6)
تاریخ احمدیت اس بات کی گواہ ہےکہ قدرت ثانیہ کے مظہر اوّل سیدنا حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفۃ المسیح الاوّل کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعدجب خلافت کی رداء پہنائی گئی تو اس دَور میں جماعت میں اندرونی فتنوں نے سر اٹھانا شروع کردیا تھاجن کا مقصد نظام خلافت کو درہم برہم کرنا تھا ۔ آپؓ کی اولوالعزمی کے نتیجے میں جماعت احمدیہ نے اس بڑے فتنے سے بہت جلداور بر وقت نجات پائی اور خلافتِ احمدیہ کو استحکام حاصل ہوا۔ ان تمام فتنوں کے سدباب کے ساتھ ساتھ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی نظر جماعتی ترقیات اور احباب جماعت کی روحانی ترقیات کی طرف بھی قائم رہی۔ حضرت خلیفةالمسیح الاوّلؓ نےیکم مارچ1909ء کو مدرسہ احمدیہ کی بنیاد رکھی تاکہ اشاعت اسلام کے لیے مبلغین تیار ہوں۔
خلافت اولیٰ میں اشاعت اسلام کی غرض سےمختلف اخبارات و رسائل جاری ہوئے جن کے ذریعہ مرکزِ احمدیت سے اسلام کا پیغام مختلف ممالک تک پہنچا۔چنانچہ اکتوبر1909ء میں اخبار ’’نور‘‘، 1910ء میں اخبار ’’الحق‘‘ اور18؍جون1913ء کو اخبار ’’الفضل‘‘ جاری ہوئے۔اس کے علاوہ جنوری1911ء میں رسالہ ’’احمدی‘‘ اور ستمبر1912ء میں رسالہ ’’احمدی خاتون‘‘ شائع ہونا شروع ہوئے۔1913ء میں عربی ممالک میں اشاعت احمدیت کے لیے ’’بدر‘‘ میں مصالح العرب کے نام سے ایک ہفتہ وار عربی ضمیمہ شائع ہوا۔قادیان کی پہلی لائبریری بھی آپؓ ہی کے دورِ خلافت میں قائم ہوئی۔حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ نے جنوری 1914ء میں ہندوستان بھر میں تبلیغ و اشاعت اسلام کے لیے ایک سکیم مرکزِ احمدیت میں حضرت خلیفة المسیحؓ کی منظوری سے پیش کی۔علمائے سلسلہ نے مرکزِ احمدیت کی اس سکیم پر لبیک کہااور اس تبلیغی سکیم کی تکمیل کے لیے حضرت صاحبزادہ صاحب نے دعوت الیٰ الخیر فنڈ بھی کھولا۔1910ءکی پہلی سہ ماہی میں مسجدِ اقصیٰ کی توسیع اوّل ہوئی جس میں ایک بڑا کمرہ اور ایک لمبا برآمدہ تیار ہوا۔ اور منارۃ المسیح کے ساتھ مستورات کی نماز کے لیےایک چبوترہ بھی بنایا گیا۔یہ تمام وہ کام ہیں جو مخالفین کی سازشوں کے ساتھ ساتھ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مختصر دورِ خلافت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوئے ۔ان تمام ترقیات میں ام المومنین حضرت اماں جان ؓ کے حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ کے لیے پرخلوص جذبات خواتین مبارکہ کا خلیفۂ وقت کی ہر آواز پہ والہانہ لبیک کہنا اور حسب ضرورت مالی امداد کرنا وہ خاص الخاص کارہائے نمایاں ہیں جنہوں نے اس دور میں استحکام خلافت میں نمایاں کردار ادا کیا اس سلسلہ میں خاص طور پہ اہل بیت مسیح محمدی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر طرح سے حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ عنہ کا ساتھ دیا جو تاریخ احمدیت میں درخشاں باب کے طور پہ یاد رکھا جائے گا ۔
(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ 187تا523)
خلافت اولیٰ میں مسجد اقصیٰ کی توسیع کا کام بھی عمل میں لایا گیا جس کی وجہ یہ تھی کہ ’’مسجد اقصیٰ چونکہ تنگ تھی اس لیے احمدی مستورات ابھی تک جمعہ میں حاضر ہو کر خطبہ نہیں سن سکتی تھیں۔ ہاں روزانہ نماز بیت الفکر میں جماعت کے ساتھ ادا کرتی تھیں مگر اب جو مسجد اقصیٰ کی توسیع کا کام شروع ہوا تو احمدی خواتین کو جمعہ میں شامل ہونے کی سعادت نصیب ہونے لگی۔چنانچہ 21؍جنوری 1910ء کے جمعہ میں احمدی مستورات نے جن میں حضرت ام المومنین بھی شامل تھیں مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھی اور خطبہ سنا اس طرح خلافت اولیٰ میں ایک سنت نبوی کا احیاء ہوا۔‘‘
(تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ315)
حضرت اماں جان ؓکی عظیم الشان قربانیاں
حضرت اماں جانؓ کی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے لیےجو قربانیاں ہیں ان کی نظیر بہت کم ملے گی۔ کوئی وقت اور موقع ایسا نہیں آیا کہ اسلام کے لیے کسی مالی ضرورت کا سامنا ہو اور آپؓ نے اس میں حصہ نہ لیا ہو۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نےجب منارۃ المسیح کی تعمیر کے لیے ایک اعلان فرمایا۔آپؑ نے ایک اشتہار ’’اپنی جماعت کے خاص گروہ کےلیے‘‘ شائع فرمایا اور ایک سَو ایک خدام کومخاطب فرمایا کہ وہ ایک ایک سَو روپیہ اس مقصد کے لیے ادا کریں۔اللہ تعالیٰ نے آپ کے خدام کو توفیق دی کہ اپنے امام کی آواز پر لبیک کہیں۔ حضرت اقدسؑ نے مینارے کی تعمیر پر دس ہزار روپے کا تخمینہ لگایا تھا۔ حضرت اماں جانؓ نے اپنی ایک جائیداد واقع دہلی کو فروخت کر کے اس رقم کا 10/1حصہ ادا کیا۔
(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 2صفحہ 113تا117)
یہ واقعہ حضرت اُمّ المومنین کی بلند ہمتی اور خدا تعالیٰ کی خاطر قربانی کا بے نظیر نمونہ ہے اور سلسلہ عالیہ کی مستورات کے لیے خدمت دین کے لیے اسوۂ حسنہ ہے نیز حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کا ثبوت ہے۔ آپؓ کو حضرت مسیح موعودؑکی ہر تحریک اور کام پر اس قدریقین کامل تھا کہ اس کے لیے اپنے اموال کو خرچ کرنے میں ذرا دریغ نہیں فرماتی تھیں۔
حضرت اماں جانؓ کی زندگی کا ہر لمحہ خواتین اور احباب جماعت کی ترقی اور بہبود میں صَرف ہوتا۔مدرسۃ البنات کے لیے آپؓ نے اپنےگھر کا ایک حصہ پیش کردیا۔ آپؓ کی قربانیوں کو دیکھتے ہیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔ مسجد بنانے کی تحریک ہو یا کہیں مبلغ سلسلہ کی ضروریات کو پورا کرنے کا مسئلہ درپیش ہو، لٹریچر کے لیے رقم کی ضرورت ہو یا تحریک جدید نے پکارا ہو۔ آپؓ ہر تحریک میں بڑی فراخدلی سے حصہ لیتی تھیں اور سب سے پہلے اپنا چندہ ادا فرماتی تھیں یہاں تک کہ بعض مواقع پر اپنی جائیداد اور زیورات فروخت کرکے خوشی سے امامِ وقت اور خلیفۂ وقت کے قدموں میں پیش کردیتیں۔ آپؓ کی زندگی میں سلسلےکی کوئی تحریک ایسی نہیں جس میں آپؓ نے حصہ نہ لیا ہو۔ مساجد کی تعمیر، لنگر خانہ، لجنہ اماء اللہ، مسجد فضل لندن، مسجد برلن، لنگر کے لیے دیگوں کا انتظام، اخبار الفضل، منارۃالمسیح، تحریک جدید۔ صرف تحریک جدید کے پہلے نو سال میں آپؓ نے مجموعی طور پر 3142؍روپے پیش کیے۔
(ماخوذ ازسیرت حضرت نصرت جہاں بیگم صاحبہ از یعقوب علی عرفانی صاحبؓ صفحہ 295تا301)
حضرت اماں جان ؓکی مالی قربانیوں کا تذکرہ تاریخ احمدیت میں ان الفاظ میں ہے کہ
’’جماعتی چندوں میں بھی حضرت اماں جان ؓ بڑے ذوق و شوق سے حصہ لیتی تھیں اور تبلیغِ اسلام کے کام میں ہمیشہ اپنی طاقت سے بڑھ کر چندہ دیتی تھیں۔ تحریک جدید کا چندہ جس سے بیرونی ممالک میں اشاعتِ اسلام کا کام سرانجام پاتا ہے اُس کے اعلان کے لیے ہمیشہ ہمہ تن منتظر رہتی تھیں اور اعلان ہوتے ہی بلاتوقّف اپنا وعدہ لکھا دیتی تھیں بلکہ وعدہ کے ساتھ ہی نقد ادائیگی بھی کردیتی تھیں اور فرمایا کرتی تھیں کہ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں وعدہ جب تک ادا نہ ہوجائے دل پر بوجھ رہتا ہے ۔ دوسرے چندوں میں بھی یہی ذوق و شوق کا عالَم تھا۔‘‘
(تاریخ احمدیت جلد 14صفحہ105)
ایک مرتبہ حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت اماں جانؓ کی مالی قربانیوں کے متعلق فرمایا:
’’والدہ صا حبہ اپنے چندوں میں جہاں تک میرا تجربہ اور علم ہے اس نسبت کے لحاظ سے جو دوسرے مرد ادا کرتے ہیں میرے نزدیک بہت سے مردوں سے بڑھی ہوئی ہیں۔‘‘
(الفضل 27؍اپریل 1922ء)
اخبار الفضل کے اجرا میں حضرت امّ ناصر محمودہ بیگم صاحبہ کی مالی قربانی
حضرت ام ناصر صاحبہ کی عظیم الشان قربانی جو تاریخ احمدیت میں نمایاں حیثیت رکھتی ہے ۔اخبار الفضل کا اجرا 18؍جون1913ء کوہوا۔آپ خواتین میں علم پھیلانے کی اپنے شوہر کی لگن کو خوب سمجھتی تھیں ۔آپ نے اپنا گھر،اپنی صلاحیت،اپنا وقت سب کچھ وقف کر دیا اور مال تو بہت زیادہ قربان کیا۔ حضرت مصلح موعودؓ اپنی اس حرم اور اپنی بیٹی صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ کے بے نظیر ایثار اور قربانی کا ذکر اس طرح بیان فرماتے ہیں:
’’خدا تعالیٰ نے میری بیوی کے دل میں اس طرح تحریک کی جس طرح خدیجہؓ کے دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی تحریک کی تھی۔ انہوں نے اس امر کو جانتے ہوئے کہ اخبار میں روپیہ لگانا ایسا ہی ہے جیسے کنویں میں پھینک دینا اور خصوصاً اس اخبار میں جس کا جاری کرنے والا محمود ہو جو اس زمانہ میں شاید سب سے بڑا مذموم تھا۔اپنے دو زیور مجھے دے دئیے کہ میں ان کو فروخت کر کے اخبار جاری کردوں ان میں سے ایک تو ان کے اپنے کڑے تھے اور دوسرے ان کے بچپن کے کڑے تھے جو انہوں نے اپنی اور میری لڑکی عزیزہ ناصرہ بیگم کے استعمال کے لئے رکھے ہوئے تھے۔میں زیورات کو لے کر اسی وقت لاہور گیا اور پونے پانچ سو کے وہ دونوں کڑے فروخت ہوئے یہ ابتدائی سرمایہ الفضل کا تھا۔الفضل اپنے ساتھ میری بے بسی کی حالت اور میری بیوی کی قربانی کو تازہ رکھے گااور میرے لئے تو اس کا ہراک پرچہ گوناگوں کیفیات کا پیدا کرنے والا ہوتا ہے۔بارہا وہ مجھے جماعت کی وہ حالت یاد دلاتا ہے جس کے لئے اخبار کی ضرورت تھی بارہا وہ مجھے اپنی بیوی کی وہ قربانی یاد دلاتا ہے جس کا مستحق نہ میں اپنے پہلے سلوک کے سبب سے تھا نہ بعد کے سلوک نے مجھے اس کا مستحق ثابت کیا۔وہ بیوی جن کو میں نے اس وقت تک ایک سونے کی انگوٹھی بھی شاید بنا کر نہ دی تھی اور جن کو بعد میں اس وقت تک میں نے صرف ایک انگوٹھی بنوا کر دی ہے ان کی یہ قربانی میرے دل پر نقش ہے۔اگر ان کی اور قربانیاں اور ہمدردیاں اور اپنی سختیاں اور تیزیاں میں نظر انداز بھی کردوں تو ان کا یہ سلوک مجھے شرمندہ کرنے کے لئے کافی ہے اس حسن سلوک نے نہ صرف مجھے ہاتھ دیئے جن سے میں دین کی خدمت کرنے کے قابل ہوا اورمیرے لئے زندگی کا ایک نیا ورق الٹ دیا بلکہ ساری جماعت کی زندگی کے لئے بھی ایک بہت بڑا سبب پیدا کردیا۔کیا ہی یہ سچی بات ہے کہ عورت ایک خاموش کارکن ہوتی ہے۔اس کی مثال اس گلاب کے پھول کی سی ہے جس سے عطر تیار کیا جاتا ہے۔لوگ اس دکان کو تو یاد رکھتے ہیں جہاں سے عطر خریدتے ہیں مگر اس گلاب کا کسی کو خیال نہیں آتا جس نے مر کر ان کی خوشی کا سامان پیدا کیا۔میں حیران ہوتا ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ یہ سامان پیدا نہ کرتا تو میں کیا کرتا۔اور میرے لئے خدمت کا کون سا دروازہ کھولا جاتااور جماعت میں روز مرہ بڑھنے والا فتنہ کس طرح دور کیا جاسکتا۔‘‘
(یادایام، انوارالعلوم جلد8صفحہ369تا370)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ سوانح فضل عمر میں مذکورہ زیور کے فروخت کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’یہ زیورحضرت صاحبزادہ صاحب (خلیفۃ المسیح الثانیؓ ) نے خود لاہور جاکر پونے پانچ سوروپے میں فروخت کئے۔یہ تھا الفضل کا ابتدائی سرمایہ جیسی قیمتی امداد تھی اس کا اندازہ حضرت صاحبزادہ صاحب (خلیفۃ المسیح الثانیؓ)کے ان الفاظ سے لگایا جاسکتاہے۔
’’اس حسن سلوک نے نہ صرف مجھے ہاتھ دیئے جن سے میں دین کی خدمت کرنے کے قابل ہوااور میرے لئے زندگی کا ایک نیا ورق الٹ دیا بلکہ ساری جماعت کی زندگی کے لئے بھی ایک بہت بڑا سبب پیدا کردیا….‘‘
(الفضل قادیان28؍دسمبر1939ء،تاریخ احمدیت جلد 3صفحہ 446)
پس اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اخبار ’’الفضل‘‘ دراصل ایک پیشگوئی کا رنگ رکھتا تھا کہ وہ فضل خداوندی جو خلافت علی منہاج النبوۃ کی صورت میں ظاہر ہوا اب جاری و ساری ہے اور اس کا آغاز بھی خلافت کی بھرپور تائید سے ہوا ہے ۔
تاریخ احمدیت سے معلوم ہوتا ہے کہ الفضل کے لیے جن مبارک ہستیوں نے سرمایہ مہیا کیا ان میں دو اور وجود بھی تھے۔ایک تو حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ۔آپؓ نے اپنی ایک زمین مالیتی ایک ہزار روپے الفضل کے لیے عنایت فرمائی ۔دوسرے حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ جنہوں نے نقد رقم کے علاوہ زمین بھی دےدی جو 1300سو روپیہ میں فروخت ہوئی۔
(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 3صفحہ 446)
جہاں تک حضرت اماں جان ؓکا تعلق ہے اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے دَور میں حضرت مسیح موعودؑ کے عقد میں آنے کی بنا پر آپ حضور ؑکی وفات کے بعد 44سال تک احمدیت کی فتوحات کا نظارہ کرتی رہیں اور ان کا مبارک وجود ہمیشہ جماعت کے لیے ایک تعویذ کاکام دیتا رہا ۔پس آپ کی اس مالی قربانی میں بھی اللہ تعالیٰ نے بے پناہ برکت ڈالی۔حضرت اماں جان ؓ کے عظیم احسان کا ذکرحضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ اس طرح فرماتے ہیں:
’’دوسری تحریک اللہ تعالیٰ نے حضرت اماں جان کے دل میں پیدا کی اور آپ نے اپنی ایک زمین جو قریباً ایک ہزار روپیہ میں بکی الفضل کے لئے دے دی۔ مائیں دنیا میں خدا کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہیں مگر ہماری والدہ کو ایک خصوصیت ہے اور وہ یہ کہ احسان صرف ان کے حصہ میں آیا ہےاور احسان مندی صرف ہمارے حصہ میں آئی ہے۔‘‘
(یادایام،انوارالعلوم جلد8صفحہ370تا371)
اخبار کے اجرا سے قبل آپ ؓنے استخارہ کیا اور حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ کی خدمت میں اجازت کے لیے عرض کیا تو آپ نے فرمایا:
’’جس قدر اخبار میں دلچسپی بڑھے گی خریدار خود بخود پیدا ہوں گے۔ ہاں تائید الٰہی، حسن نیت، اخلاص اور ثواب کی ضرورت ہے۔ زمیندار، ہندوستان، پیسہ میں اور کیا اعجاز ہے وہاں تو صرف دلچسپی ہے اور یہاں دعا۔نصرت الٰہیہ کی امید بلکہ یقین۔ توکلا ًعلی اللہ کام شروع کردیں۔‘‘
( تاریخ احمدیت جلد 3صفحہ 446)
الفضل کا نام بھی حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ نے عطا فرمایا اور الفضل 1914ء کے ایک اداریہ میں درج ہے کہ حضرت خلیفة المسیح الاول نے فرمایا:
’’مجھے رویا میں بتایا گیا ہے کہ الفضل نام رکھو ‘‘ (الفضل 19؍ نومبر 1914ء صفحہ3)چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اس مبارک انسان کا رکھا ہوا نام ’’الفضل‘‘ فضل ہی ثابت ہوا۔
(یادایام،انوارالعلوم جلد8صفحہ371)
لجنہ اماء اللہ کی تنظیم کا قیام
حضرت مصلح موعودؓ نےاپنے دَورخلافت کےابتدائی سالوں میں ہی خواتین کی تعلیم وتربیت کے لیے ایک تنظیم قائم کرنے کا ارادہ فرما لیا تھا تا کہ خواتین اپنی تنظیم کے لائحہ عمل کی پیروی کرتے ہوئے اعلیٰ کردار کی حامل ہوں اور دینی و دنیاوی تعلیمات سے آراستہ ہو کر اپنی اولاد کی بہتر رنگ میں پرورش کر سکیں تا احمدیت کا مستقبل روشن اور تابناک ہو۔حضرت مصلح موعودؓ اس تنظیم کے قیام کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئےفرماتے ہیں:
’’…پس علاوہ اپنی روحانی علمی ترقی کے آئندہ جماعت کی ترقی کا انحصار بھی زیادہ تر عورتوں ہی کی کوشش پر ہے۔ چونکہ بڑے ہو کر جو اثر بچے قبول کر سکتے ہیں وہ ایسا گہرا نہیں ہوتا جو بچپن میں قبول کرتے ہیں۔ اسی طرح عورتوں کی اصلاح بھی عورتوں کے ذریعہ سے ہوسکتی ہے۔ ان امور کو مدنظر رکھ کر ایسی بہنوں کو جو اس خیال کی مؤید ہوں اور مندرجہ ذیل باتوں کی ضرورت کوتسلیم کرتی ہوں دعوت دیتا ہوں کہ ان مقاصد کو پورا کرنے کے لئے مل کر کام شروع کریں۔…‘‘
(الازھار لذوات الخمار یعنی اوڑھنی والیوں کے لیے پھو ل،حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؒ کے مستورات سے خطابات کا مجموعہ،حصہ اوّل صفحہ 52)
حضرت مصلح موعودؓکے خطاب کے ساتھ ہی لجنہ اماءاللہ کی تنظیم کا قیام عمل میں آیا اور خوا تین مبارکہ کی مقدس قیادت میں یہ قافلہ اپنی منزل کی طرف بڑی تیزی سے سفر پر روانہ ہوا اور ایک منظم تنظیم کی شکل اختیار کر گیا۔ حضورؓ کی ہدایات کی روشنی میں احمدی خواتین نے اپنے اندر روحانی تبدیلی پیدا کرنے اور دینی تعلیم و تربیت میں پرورش پانے کے لیے مساعی شروع کی اور مختلف دینی مہمات میں صفِ اوّل کی مجاہدات ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ان اعلیٰ خدمات کا اظہار اپنوں نے ہی نہیں بلکہ غیروں نے بھی کیا کہ احمدی عورتوں کی تنظیم اصلاحِ معاشرہ میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔لجنہ کے کاموں کے اعتراف میں اخبار ’’تنظیم‘‘ سے مولوی عبد المجید صاحب قریشی کی ایک تحریر درج ہے جس کا عنوان ’’لجنہ اماء اللہ‘‘ ہے۔ وہ تحریر کرتے ہیں:
’’لجنہ اماء اللہ قادیان احمدیہ خواتین کی انجمن کا نام ہے۔ اس انجمن کے ما تحت ہر جگہ عورتوں کی اصلاحی مجالس قائم کی گئی ہیں۔ اور اس طرح ہر وہ تحریک جو مردوں کی طرف سے اُ ٹھتی ہے۔ خواتین کی تائید سے کامیاب بنائی جاتی ہے۔ اس انجمن نے تمام احمدیہ خواتین کو سلسلے کے مقاصد کے ساتھ عملی طور پر وابستہ کر دیا ہے۔ عورتوں کا ایمان مردوں کی نسبت زیادہ مخلص اور مربوط ہوتا ہے عورتیں مذہبی جوش کو مردوں کی نسبت زیادہ محفوظ رکھ سکتی ہیں۔لجنہ اماء اللہ کی جس قدر کار گزاریاں اخبارات میں چھپ رہی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ احمدیوں کی آئندہ نسلیں موجودہ کی نسبت زیادہ مضبوط اور پُرجوش ہوں گی اور احمدی عورتیں اس چمن کو ہمیشہ تا زہ دم رکھیں گی جس کا مرورِ زمانہ کے باعث اپنی قدرتی شادابی اور سر سبزی سے محروم ہونا لازمی ہے۔ کیا غیر احمدی مسلمانوں نے بھی اپنی خواتین کی تنظیم کے لئے کوئی ایسا قدم اُٹھایا؟‘‘
(الفضل قادیان4؍جنوری 1927ءصفحہ 13کالم 4)
تعلیم نسواں
جب اللہ تعالیٰ کے وعدوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں کے مطابق حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓمسند خلافت پر متمکن ہوئے تو قادیان میں بچیوں کے لیے صرف ایک پرائمری سکول جاری تھا۔ جس میں تیس چالیس تک طالبات کی تعداد تھی۔ آ پؓ نے مسند خلافت پر متمکن ہوتے ہی عورتوں کی تعلیم کی طرف خصوصی توجہ فرمائی۔پرائمری سکول سے مڈل سکول ہوا۔ مڈل سکول سے ہائی سکول بنا۔ ہجرت کے وقت قادیان میں دو زنانہ سکول تھے۔ ایک ہائی اور ایک مڈل۔ ہائی سکول کے ساتھ بچیوں کی اعلیٰ دینی تعلیم کے لیے بھی ایک دینیات کالج جاری فرمایا اور عورتوں کی تعلیم کے لیے 17؍مارچ 1925ء کو آپؓ نے ایک مدرسۃ الخواتین جاری فرمایا جس میں آپؓ خود بھی پڑھایا کرتے تھے۔ یہ مدرسہ اس غرض سے جاری کیا گیا تھا تا جماعت کی مستورات دینی و دنیوی علوم کے زیور سے آراستہ ہو کر جماعت کی بچیوں کی تعلیم و تربیت میں حصہ لے سکیں۔ چنانچہ آپؓ فرماتے ہیں:
’’عورتوں کی تعلیم سے مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی خاص دلچسپی ہے۔ …مَیں پورے یقین کے ساتھ اس رائے پر قائم ہوں کہ عورتوں کی تعلیم کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی۔ جب جماعت احمدیہ کا انتظام میرے ہاتھ میں آیا اس وقت قادیان میں عورتوں کا صرف پرائمری سکول تھا لیکن مَیں نے اپنی بیویوں اور بیٹیوں کو قرآن کریم اور عربی کی تعلیم دی اور انہیں تحریک کی کہ مقامی عورتوں کو قرآن کریم کا ترجمہ اور حدیث وغیرہ پڑھائیں۔ میں نے اپنی ایک بیوی کو خصوصیت کے ساتھ اس کے لیے تیار کیا اور میرا خیال تھا کہ وہ اپنی تعلیمی ترقی کے ساتھ دوسری عورتوں کو فائدہ پہنچائیں گی لیکن خدا تعالیٰ کی مشیت تھی کہ میرے سفر ولایت سے واپسی پر وہ فوت ہوگئیں۔‘‘
(الفضل قادیان 29؍ستمبر1931ء صفحہ 5)
حضرت مصلح موعودؓ کی خواہش تھی کہ وہ اپنی ازواج کو تعلیم دے کر احمدی خواتین کے تعلیمی معیار کو بلند کرنے کی خدمت پر لگادیں۔حضرت سیدہ امۃ الحئی صاحبہ حضرت سیدہ سارہ بیگم صاحبہ اور حضرت سیدہ ام طاہر صاحبہؓ کے عرصہ ٔحیات مختصر ہونے کی وجہ سے یہ شوق آپ کے بلند عزائم کے مطابق پورا نہ ہوسکا۔حضرت مصلح موعودؓ ایک مثالی احمدی خاتون حضرت سیّدہ اُم طاہر صاحبہؓ کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے ان کے کس وصف کو سراہتے ہیں ؟ الفاظ سے بنی ہوئی یہ خوبصورت تصویر دیکھیے:
’’مریم ایک بہادر دل کی عورت تھیں۔ جب کوئی نازک موقع آتا میں یقین کے ساتھ اُن پر اعتبار کر سکتا تھا۔ اِن کی نسوانی کمزوری اُس وقت دب جاتی، چہرہ پر استقلال اور عزم کے آثار پائے جاتے اور دیکھنے والا کہہ سکتا تھا کہ اب موت یا کامیابی کے سوا اس عورت کے سامنے کوئی تیسری چیز نہیں ہے۔یہ مر جائے گی مگر کام سے پیچھے نہ ہٹے گی۔ ضرورت کے وقت راتوں کو اس میری محبوبہ نے میرے ساتھ کام کیا ہے اور تھکان کی شکایت نہیں کی۔اِنہیں صرف اتنا کہنا کافی ہوتا کہ یہ سلسلہ کا کام ہے یا سلسلہ کے لئے کوئی خطرہ یا بدنامی ہے اور وہ شیرنی کی طرح لپک کر کھڑی ہو جاتی تھیں اور بھول جاتیں اپنے آپ کو، بھول جاتیں کھانے پینے کو، بھول جاتیں اپنے بچوں کو، بھول جاتیں بلکہ مجھ کو بھی اور انہیں صرف وہ کام ہی یاد رہ جاتا…‘‘
(میری مریم، انوار العلوم جلد17صفحہ353تا354)
یہ سعادت حضرت چھوٹی آپا کے حصے میں آئی اور خوب ہی آئی۔ایم اے تک تعلیم حاصل کی اور دینی تعلیم و تربیت اس پر مستزاد۔ قرآن کریم اور عربی صرف و نحو سبقاً سبقًا حضورؓ آپ کو پڑھاتے اور امتحان بھی لیتے۔آپ نےتیزی سے لکھنے پر بہت دفعہ حضور ؓکی خوشنودی حاصل کی۔تفسیر کے نوٹس لکھنا آپ کی ایک بہت بڑی سعادت تھی۔حضورؓنے1947ء کے بعد با لعموم اپنےخطوط،مضامین اور تقاریر کے نوٹس آپ ہی سے لکھوائے۔
(گلہائے محبت صفحہ95)
ایک موقع پہ حضرت مصلح موعو رضی اللہ تعالیٰ عنہ احمدی مستورات کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’مردوں کے مقابلہ میں عورتوں نے قربانی کا نہایت اعلیٰ نمونہ پیش کیا ہے۔ …میں سمجھتا ہوں کہ جو روح ہماری عورتوں نے دکھائی ہے اگروہی روح ہمارے مردوں کے اندر کام کرنے لگ جائے تو ہمارا غلبہ سو سال پہلے آجائے ۔ اگر مردوں میں بھی وہی دیوانگی اور وہی جنون پیدا ہو جائے جس کا عورتوں نے اس موقع پر مظاہرہ کیا ہے۔ تو ہماری فتح کا دن بہت قریب آجائے۔‘‘
(الازھار لذوات الخماریعنی اوڑھنی والیوں کے لیے پھول،حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؒ کے مستورات سے خطابات کا مجموعہ410تا411)
عمر رسیدہ خواتین کے لیے تعلیم بالغاں کا کام
’’1946ء میں الیکشن ہونا تھا اور ہر بالغ عورت جو خواندہ ہو ووٹ ڈالنے کا حق رکھتی تھی قادیان میں خواندہ بالغ عورتوں کی فہرستیں بن رہی تھیں زیادہ سے زیادہ ووٹر ز حاصل کرنے کے لئے حضرت سیدہ ام داؤدؓ کی نگرانی میں ہنگامی بنیادوں پر خواتین کو لکھنا پڑھنا سکھانے کا کام ہوا۔ قادیان اور اس کے نواحی دیہات میں خواتین نے نمایاں کام کیا۔‘‘
(تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد اوّل صفحہ 629ایڈیشن 2009ء)
گھر گھر قرآن کریم اور ابتدائی لکھنا پڑھنا سکھانے کا کام ہونے لگا۔ جو عورتیں گھر سے نہیں نکل سکتی تھیں ان کے گھروں تک معلّمات پہنچ کر ان کو سکھاتیں۔
مالی قربانیوں کی لازوال داستانیں
خلفائے احمدیت نے اپنی تاثیر قدسی سے احمدی مستورات میں جو انقلاب پیدا کیا ، اُن میں بھی مالی قربانیوں کا ذکر بڑی کثرت سے ملتا ہے۔2؍فروری 1923ء کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مسجد برلن جرمنی کی تعمیر کے لیے خواتین کو مالی قربانی کی تحریک فرمائی۔ جس پر لبیک کہتے ہوئے جماعت احمدیہ کی مستورات نے حیرت انگیز اخلاص اور قربانی کا مظاہرہ کیا۔ اس کے لیے حضورؓ نے 50ہزار روپیہ تین ماہ میں اکٹھا کرنے کا اعلان فرمایا۔ لجنہ اماء اللہ کے قیام کے بعد یہ سب سے پہلی مالی تحریک تھی جس کا خالصتاً تعلق مستورات سے تھا۔ اس تحریک احمدی خواتین کے مطمح نظر کو یکسر اتنا بلند کر دیا کہ ان میں اخلاص و قربانی اور فدائیت اور للہیت کا ایسا زبردست ولولہ پیدا ہو گیا کہ جس کی کوئی مثال نہیں تھی۔
(الازھار لذوات الخماریعنی اوڑھنی والیوں کے لیے پھول،حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؒ کے مستورات سے خطابات کا مجموعہ116تا118)
مسجد برلن کے چندہ کے لیے لجنہ اماء اللہ کی بےمثال مالی قربانیاں
لجنہ اماء اللہ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی آواز پر والہانہ لبیک کہتے ہوئے بے مثال عملی نمونہ کا اظہار کیا۔احمدی مستورات نے جس جوش اور ولولے سے اس تحریک پر عملی نمونہ کا آغاز فرمایا اس کا ذکر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے الفضل کے ایک مضمون میں کچھ یوں فرمایا:
’’…مجھے مسجد برلن کے چندہ کے متعلق اعلان کیے ابھی ایک ماہ نہیں گزرا کہ ہماری بہنوں کے اعلیٰ درجہ کے اخلاص اور بے نظیر ایثار کے سبب سے چندہ کی رقم بیس ہزار سے اوپر نکل چکی ہے ہماری جماعت ایک غریب جماعت ہے اور درحقیقت ہمارے پاس ایمان اور محبت باللہ و محبت بالرسل …کے متاع کے سوا کہ وہی حقیقی متاع ہے اور کوئی دنیوی متاع اور سامان نہیں ہے….‘‘ (الفضل قادیان یکم مارچ 1923ءصفحہ1)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس حوالے سے لجنہ اماء اللہ کی مالی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’…برلن کی مسجد کےلیے جیسا کہ پہلے بھی ایک دفعہ بتا چکا ہوں عورتوں نے چندہ جمع کیا تھا اور بڑی قربانی کرکے انہوں نے چندہ جمع کیا تھا۔لجنہ نے اس زمانہ میں ہندوستان میں یا صرف قادیان میں، زیادہ تو قادیان میں کہنا چاہیے ہوتی تھیں، تقریباً ایک لاکھ روپیہ جمع کیا تھا اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں پیش کیا جو اس وقت کے لحاظ سے ایک بہت بڑی رقم تھی، بڑی خطیر رقم تھی اور زیادہ تر قادیان کی غریب عورتوں کی قربانی تھی جس کا مَیں پہلے ذکر کر چکا ہوں۔ کسی نے مرغی پالی ہوئی ہے تو بعض مرغی لے کے آجاتی تھیں۔ کوئی انڈے بیچنے والی ہے تو انڈے لے کر آگئی۔ کسی کے گھر میں بکری ہے تو وہ بکری لے کر آگئی۔ کسی کے گھر میں کچھ نہیں ہے تو گھر کے جو برتن تھے تو وہی لے کر آگئی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے ایک دفعہ تحریک جو کی تھی میرا خیال ہے کہ یہی تحریک تھی۔ فرماتے ہیں کہ مَیں نے جو تحریک کی تو عورتوں میں اس قدر جوش تھا کہ ان کا دل چاہتا تھا کہ سب کچھ گھر کا سامان جو ہے وہ دے دیں۔ایک عورت نے اپنا سارا زیور جو تھا سارا چندے میں دے دیا۔اور گھر آئی اور کہنے لگی کہ اب میرا دل چاہتا ہے کہ(غریب سی عورت تھی معمولی زیور تھا)کہ اب مَیں گھر کے برتن بھی دے آؤں۔اس کے خاوند نے کہا کہ تمہارا جو زیور تم نے دے دیا ہے کافی ہے۔ تو اس کا جواب یہ تھا کہ اس وقت میرا اتنا جوش ہے کہ میرا اگر بس چلے تو تمہیں بھی بیچ کے دے آؤں۔ تو گو کہ جواب صحیح نہیں ہے لیکن یہ اس جوش کو ظاہر کرتا ہے جو قربانی کے لیے عورتوں میں تھا۔ حیرت ہوتی تھی اس وقت کی عورتوں کی قربانی دیکھ کر اور آج کل جو آپ اُس وقت کے حالات کے مقابلے میں بہت بہتر حالات میں ہیں تو کہنا چاہیے انتہائی امیرانہ حالت میں رہ رہے ہیں۔ فرق بڑا واضح نظر آتا ہے۔ آپ لوگ آج شاید وہ معیار پیش نہ کر سکیں۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے جو ان لوگوں نے کیے تھے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 29؍ دسمبر 2006ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 19؍جنوری 2007ء صفحہ 5)
نیز ایک اَورموقع پرحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس حوالے سے فرمایا:
’’اُس وقت احمدی عورتوں نے نقد رقمیں اور طلائی زیورات حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں پیش کیے۔ پہلے دن ہی 8ہزار روپے نقد اور وعدوں کی صورت میں قادیان کی احمدی عورتوں نے یہ وعدہ پیش کیا اور یہ رقم ادا کی اور 2ماہ کے تھوڑے سے عرصہ میں 45ہزار روپے کے وعدے ہو گئے اور 20ہزار روپے کی رقم بھی وصول ہو گئی۔ پھر کیونکہ اخراجات کا زیادہ امکان پیدا ہو گیا تھا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اس کی مدت بھی بڑھا دی اور ٹارگٹ بڑھا کے 70ہزار روپے کر دیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی عورتوں نے اس وقت 72 ہزار 700کے قریب رقم جمع کی۔…‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ17؍ اکتوبر 2008ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 7؍نومبر 2008ءصفحہ6)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے یکم مارچ 1923ء کو الفضل میں ایک مضمون ’’مسجد برلن۔ مخلص بہنوں کے اخلاص کا نمونہ‘‘ میں احمدی خواتین کی قربانیوں کو سراہتے ہوئے فرمایا:
’’قادیان سے باہر چندوں میں سب سے اول نمبر پر کپتان عبدالکریم صاحب سابق کمانڈر انچیف ریاست خیرپور کی اہلیہ کا چندہ ہےجنہوں نے اپنا کل زیور اور اعلیٰ قیمتی کپڑےقیمتی ڈیڑھ ہزار روپیہ فی سبیل اللہ دےکے ایک نیک مثال قائم کی ، دوسری مثال اسی قسم کے اخلاص کی چودھری محمد حسین صاحب صدر قانون گو سیالکوٹ کے خاندان کی ہے۔ان کی بیوی، بھاوج، بہو نے اپنے زیورات قریباً سب کے سب اس چندہ میں دے دیے جن کی قیمت اندازاً دو ہزار روپیہ تک پہنچتی ہے۔‘‘
(الفضل قادیان یکم مارچ 1923ء)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ ایک واقعہ بیان کیا کہ ایک نہایت غریب وضعیف بیوہ جو پٹھان مہاجر تھیں اور سوٹی سے بمشکل چل سکتی تھیں ، خود چل کر آئیں اور حضورؓ کی خدمت میں دو سو روپے پیش کر دیے۔یہ عورت بہت غریب تھی۔اس نے دوچار مرغیاں رکھی ہوئی تھیں جن کے انڈے فروخت کر کے اپنی کچھ ضروریات پوری کیا کرتی تھیں ،باقی دفتر کی امداد پر گزارا چلتا تھا۔اسی طرح ایک پنجابی بیوہ جس کی واحد پونجی صرف ایک زیور تھا وہی اُس نے مسجد کے لیے دےدیا۔
ایک بیوہ عورت جو کئی یتیم بچوں کو پال رہی تھی اور زیور یا نقدی کچھ بھی اُس کے پاس نہ تھا، اس نے استعمال کے برتن چندے میں دےدیے۔قربانی کا ایک جوش تھا، ایک جذبہ تھا جس کے تحت انہوں نے یہ مالی قربانی کی۔ایک بہاولپورکے دوست تھے۔اُن کی بیوی کے پاس دو بکریاں تھیں وہ بکریاں لے کر چندے میں دینے کے لیے آگئی۔
(ماخوذ از الحکم 21؍فروری 1923ء صفحہ 7)
٭…٭…(جاری ہے)…٭…٭