متفرق مضامین

وقف کے سات معانی اور واقفین نو بچوں کے والدین کی ذمہ داریاں

(فرید احمد نوید۔ پرنسپل جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل، گھانا)

وقف وہی ہے جس پرآدمی وفا کے ساتھ تادم آخر قائم رہتاہے، ہر قسم کے زخموں کے باوجود انسان گھسٹتا ہوا بھی اسی راہ پر بڑھتاہے۔

ظہیر الدین بابر جو مغل سلطنت کابانی تھا اس کے متعلق یہ ذکر ملتا ہے کہ اپنے بیٹے ہمایوں کی شدید علالت کے موقع پر اس کے لیے صحت کی دعا کرتے ہوئے اس کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ مجھے اپنے بیٹے ہمایوں کی زندگی بچانے کے لیے اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی کوئی عزیز ترین چیز قربان کرنی چاہیے۔ اس نے سوچا کہ فلاں ہیرا مجھے بہت پیارا ہے وہ اللہ کی راہ میں پیش کردیتا ہوں۔ فلاں مال بہت پیارا ہے وہ اللہ کی راہ میں پیش کردیتا ہوں۔ لیکن ہر مرتبہ اس کے دل نے یہ جواب دیا کہ اس ہیرے کی اوراس مال کی بیٹے کے مقابل پر حیثیت ہی کیاہے۔ اپنے بیٹے کے لیے تو میں پوری سلطنت بھی دے سکتا ہوں۔ لیکن پھر دل میں کہیں یہ خیال بھی آیا کہ سلطنت دے کر بھی تو تم اپنی جان ہی بچا رہے ہو اس کا مطلب ہے کہ جان سب سے زیادہ قیمتی چیز ہے۔ چنانچہ ا س نے یہ دعا کی کہ اے اللہ! مجھے اپنی جان بہت پیاری ہے لیکن میں اسے پیش کرنے کا وعدہ کرتا ہوں تو میرے بیٹے کو شفا دےدے۔ چنانچہ تاریخ میں آتا ہے کہ اس دعا کے چند دن کے اندر اندر ہمایوں کی صحت بہتر ہونے لگ گئی جبکہ بابر کی صحت بگڑنے لگ گئی۔

اگر ہم غور سے دیکھیں تو واقفین نو بچوں کے والدین تو محبت کے اس معیار سے بھی ایک قدم آگے بڑھے ہوئے ہیں۔ بابر نے اپنے بیٹے کی محبت میں اپنی جان پیش کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن وقف نوبچوں کے والدین تو وہ خوش قسمت لوگ ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی محبت کو ہر ایک چیز پر ترجیح دیتے ہوئے اس کی محبت میں اپنے جان سے پیارے بیٹوں اور بیٹیوں کو وقف کیا ہے۔ ان کی جانیں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں دے دی ہیں اور ان نمونوں کو زندہ کرنے کا وعدہ کیا ہے جن کے متعلق ایک دنیاوی بادشاہ تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔

ان ماں باپ نے تو روحانی دنیا کے ان عظیم الشان ستاروں کی پیروی کرنے کا عہد باندھا ہے جن کی مثالیں قرآن کریم پیش کرتا ہے۔ وہ انبیاء اور صلحاء جنہوں نے ہر ایک پیارے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ سے پیار کیا اور اس کی محبت میں ہر ایک قربانی پیش کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔ ان والدین نے تو آل عمران کی اس پاکباز خاتون کے عہد کی مانند ایک عہد اپنے خدا سے باندھا ہے جس کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کریم فرماتا ہے کہ جب عمران کی ایک عورت نے کہا اے میرے ربّ! جو کچھ بھی میرے پیٹ میں ہے یقینا ًوہ میں نے تیری نذر کر دیا۔ اور پھر جب اُس نے اُسے جنم دیا تو اس نے کہا اے میرے ربّ! میں نے تو بچی کو جنم دیا ہے۔ لیکن پھر بھی انہوں نے ہمت نہیں ہاری بلکہ اپنے وعدے کو نبھاتے ہوئے عرض کی اے میرے خدا یقیناً میں نے اس کا نام مریم رکھا ہے، اور میں اسے اور اس کی نسل کو راندۂ درگاہ شیطان سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔

(سورۃآل عمران36تا37)

ہم سب جانتے ہیں کہ یہ وہی مریم ہیں جنہیں بعد میں اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام جیسے پاک اور وجیہ اور مقرب اور عظیم المرتبت بیٹے سے نوازا۔ جن کی پاک دامنی کی قرآن نے گواہی دی اور جنہیں الہام سے سرفراز فرمایا۔ جنہیں اللہ تعالیٰ نے چنیدہ قرار دیتے ہوئے ان کے زمانے کی تمام عورتوں پر فضیلت عطا فرمادی۔ وہی مریم جنہیں قرآن سورۃ التحریم میں تمام مومنوں کے لیے ایک مثال کے طور پر بیان کرتا ہے۔ اور وہی مریم جنہیں قرآن ایک نشان قرار دیتا ہے۔ یہ سب برکات اس عہد کی تھیں جو ان کی والدہ نے ان کی پیدائش سے بھی پہلے اللہ تعالیٰ سے باندھا تھا اور پھراس عہد کو نبھانے کے لیے کمر بستہ بھی ہوگئی تھیں۔

واقفین نو کے والدین نے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نمونے کو زندہ کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے جنہوں نے اپنے بڑھاپے کی عمر میں اللہ تعالیٰ سے ایک بیٹے کے حصول کے لیے ان الفاظ میں دعا کی تھی کہ

رَبِّ ہَبۡ لِیۡ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ۔ (الصافات: 101)

اے میرے ربّ! مجھے صالحین میں سے (وارث) عطا کر۔

لیکن یہی مناجات اور دعاؤں سے حاصل کردہ بیٹا جب کچھ بڑا ہوا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو اس کی قربانی کا حکم دے دیا۔ جیسا کہ فرمایا:

فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعۡیَ قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّیۡۤ اَرٰی فِی الۡمَنَامِ اَنِّیۡۤ اَذۡبَحُکَ فَانۡظُرۡ مَاذَا تَرٰی ؕ قَالَ یٰۤاَبَتِ افۡعَلۡ مَا تُؤۡمَرُ ۫ سَتَجِدُنِیۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیۡنَ۔ (الصافات: 103)

پس جب وہ اس کے ساتھ دوڑنے پھرنے کی عمرکو پہنچا تواس نے کہا اے میرے پیارے بیٹے! یقیناً میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تجھے قربان کر رہا ہوں، پس غور کر تیری کیا رائے ہے؟ اس نے کہا اے میرے باپ! وہی کر جو تجھے حکم دیا جاتاہے۔ یقینا ًاگر اللہ چاہے گا تو مجھے تُو صبر کرنے والوں میں سے پائے گا۔

پس عہد وقف کی یہ ایک اور خوبصورت مثا ل ہے جو قرآن نے ہمارے لیے محفوظ کی ہے۔ بوڑھے والدین جو اپنے بڑھاپے کی عمر کو دیکھتے ہوئے ایک بیٹا مانگتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ یہ دعا قبول بھی کر لیتا ہے لیکن کچھ عرصے کے بعد اسی پیارے اور عزیز بیٹے کی قربانی کا امتحان درپیش آجاتا ہے۔ ایک لمحے کو رک کر اگر غور کیا جائے تو انسان اس امتحان کا ذکر سن کر ہی کانپ کر رہ جاتا ہے۔ منتوں، دعاؤں، مناجات سے حاصل کردہ بڑھاپے کا وہ بیٹا اسماعیل جو ماں باپ کی آنکھوں کا تارا رہاہوگا۔ جو انہیں جان سے بھی پیارا رہاہوگا۔ جس کے مستقبل کے لیے ان کی آنکھوں نے کئی خواب سجائے ہوں گے۔ سب پیاروں سے بڑھ کر پیارے خدا کا ایک حکم ملتے ہی وہ ہر ایک تعلق محبت سے بے نیاز ہوکر اس کی قربانی کے لیے آمادہ ہوجاتے ہیں اور وہ بیٹا بھی کیسا سعادت مند اور پاک طبیعت اور پاک تربیت کا حامل تھا کہ اس نے اس الٰہی حکم کے سنتے ہی اپنی گردن پیش کردی اور کہا کہ اے میرے والد! اگر یہی خدا تعالیٰ کی مرضی اور منشاء ہے تو میں اس کے لیے دل وجان سے تیار ہوں۔ مجھے اپنی جان کی کچھ بھی پرواہ نہیں ہے آپ وہی کیجیے جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔

پس وقف کی اس عظیم الشان داستان کو بھی اللہ تعالیٰ نے نہایت محبت اور پیار کے ساتھ ہمیشہ کےلیے قرآن کریم میں محفوظ کردیا۔ ابراہیمؑ کو خلیل اللہ کا مرتبہ عطا کردیا کیونکہ آپؑ نے ہر ایک تعلق کو خداتعالیٰ کی خاطر قربان کرنے کا عملی مظاہرہ پیش کرکے خود کو اس کا اہل ثابت کردیا تھا۔ آپ کو اسوۂ حسنہ قرار دیا گیا۔ آپ کے لیے جلائی جانے والی ہر ایک آگ کو ٹھنڈا کردیا گیا اور آپ کو کئی نسلوں کا امام اور راہ نما بنا دیا گیا۔ جبکہ وہ بچہ جس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کو مانتے ہوئے عہد وقف کو نبھانے کا کامل نمونہ دکھایا تھااسے سچے وعدوں والا رسول اور نبی قرار دیا گیا۔ ہمیشہ کے لیے اس کی قربانی کی یاد کو قائم کردیا گیا۔ اس کی اولاد میں نبیوں اور رسولوں کے فخر، خاتم الانبیاء، حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ پیدا ہوئے اور ہر سال لاکھوں کروڑوں جانور اسماعیل کی وفاداری کی اس ایک اداکی یاد میں قربان کردیے جاتے ہیں۔ یقیناً اسماعیل علیہ السلام کا ذکر خیر ایسا ہے جسے آنے والی نسلوں کے لیے ایک نمونہ کے طور پر قائم رکھا گیا ہے۔

حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کی امت میں شامل ہوکر اورحضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی پاک جماعت کا حصہ بننے کے بعد واقفین نو بچوں کے والدین نے تواپنی مرضی اور دلی رضامندی کے ساتھ اس اسوہ ٔحسنہ کی پیروی کا بھی عہد کیا ہے جو یہ بتاتا ہے کہ وفا میں کامل ترین وجود حضور اکرمﷺ کو اللہ تعالیٰ نے یہی کہنے کا حکم دیا تھا کہ اے محمد:

قُلۡ اِنَّ صَلَاتِیۡ وَ نُسُکِیۡ وَ مَحۡیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ (الانعام:163)

آپ کہہ دیجئے کہ میری عبادت اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مَرنا اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا ربّ ہے۔

پس وقف کی ابتدائی دو مثالوں کے بعد یہ تیسری اور انتہائی اعلیٰ مثال ہے جو قرآن ہمارے فائدے کے لیے بیان کرتا ہے کہ ایک حقیقی واقف زندگی تو اللہ سے یہ عہد باندھتا ہے کہ میں اپنے لیے کچھ بھی رکھنا نہیں چاہتا بلکہ میری زندگی اور میری موت میری سب عبادتیں، ریاضتیں، کوششیں اور قربانیاں اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہیں اور میں دنیا کے ہر ایک تعلق پر اپنے پیارے خدا کے تعلق کو ترجیح دیتا ہوں۔

پس یہ ہیں وہ عظیم الشان وجود جن کے وقف کے واقعات کو قرآن ہمارے لیے بنیاد اور درجات کے طور پر بیان کرتا ہے اور وقف نو کی تحریک میں ان تمام نیک نمونوں کی یاد کو جمع کردیا گیا ہے۔ والدین اپنے بچوں کو حضرت مریمؑ کی طرح ان کی پیدائش سے بھی پہلے وقف کرنے کا عہد باندھتے ہیں۔ حضرت اسماعیلؑ کی طرح ان بچوں کو وقف کے لیے تیار کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ خود اس قربانی کے لیے تیار ہوجاتے ہیں اور ان کی روح پکار اٹھتی ہے کہ ہاں ہاں یقیناً

’’میری عبادت اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مَرنا اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا ربّ ہے۔ ‘‘

عہد وقف کے ان عظیم الشان نمونوں کو سمجھے بغیر یہ خیال کرلینا کہ ہم اپنے عہد وفا کو نبھانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں محض ایک خیال اور خواب ہے جس کی کوئی بھی حقیقت نہیں ہے۔

یہ راہ تنگ ہے پہ یہی ایک راہ ہے

دلبرکی مرنے والوں پہ ہردم نگاہ ہے

اس مضمون پر مزید آگے بڑھنے سے پیشتراگر وقف کے بعض بنیادی معانی کوبھی جان لیا جائے اور ان کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے تو وقف نو بچوں اور ان کے والدین اور خاندانوں کے ذہن میں آنے والے بہت سے دیگر سوالوں کے جوابات بھی آجاتے ہیں۔

اگر ہم لغت کے اعتبار سے اس لفظ کے معانی پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ

1۔ …وقف کے معنی کسی ایک مقام پر ٹھہرنے اورچپ چاپ کھڑے ہوجانے کے ہیں:

جیسا کہ روزمرہ زندگی میں ہم قرآن پڑھتے ہوئے وقف کی علامت دیکھ کر رک جاتے ہیں اور چپ ہوجاتے ہیں۔ پس ایک حقیقی واقف زندگی اطاعت کا ایک کامل نمونہ ہوا کرتا ہے اور جیسی اطاعت کی قرآن اس سے توقع کرتا ہے وہ ویسی اطاعت کے لیے تیار اور مستعد کھڑا ہوجاتا ہے۔ قرآن کہتا ہے اللہ کی اطاعت کرو، اور اس کے رسول کی اور اپنے حکام کی بھی اطاعت کرو۔ پس چپ چاپ اطاعت کرتے چلے جانا یہ ایک واقف زندگی کی شان اور اس کا شعار ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ اطاعت مکمل محبت اورپیار سے مزین بھی ہونی ضروری ہے جیسا کہ فرمایا:

اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ (آل عمران: 32)

اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرو یہ پیروی تمہیں محبت کے سلیقے، طریقے اور قرینے سکھا دے گی۔

اگر شعور کی ابتدائی منزلوں پر ہی ہم ایک وقف نو بچے کو یہ بتادیں کہ اسے کن راہوں کی پیروی کرنی ہے اور کس کو اپنا راہ نما سمجھنا ہے۔ کس کی بات ماننی ہے اور کس کے حکم کو بجا لانا ہے تو اس کے لیے مستقبل کے بہت سے مراحل آسان ہوجاتے ہیں اور یہ تب ہی ہوسکتا ہے اگر ہم حضور اکرمﷺ کی خوبصورت صفات اور محاسن سے خود بھی باخبر ہوں اور اپنے لیے اور اپنی اولادوں کے لیے آپﷺ کو ایک اسوۂ حسنہ کے طور پر سمجھیں کیونکہ دلی محبت پیدا کرنے کا یہی ایک طریقہ ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’میرا یہ ذاتی تجربہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچے دل سے پیروی کرنا اور آپ سے محبت رکھنا انجام کار انسان کو خدا کا پیارا بنا دیتا ہے۔ اس طرح پر کہ خود اُس کے دل میں محبتِ الٰہی کی ایک سوزش پیدا کر دیتا ہے۔ تب ایسا شخص ہر ایک چیز سے دل برداشتہ ہو کر خدا کی طرف جھک جاتا ہے اور اس کا اُنس اور شوق صرف خدا تعالیٰ سے باقی رہ جاتا ہے۔ ‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22صفحہ67)

پس والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کے دل میں رسول اللہﷺ کی محبت ایسی بسا دیں کہ ان کے لیے یہ محبت دنیا کی ہر ایک محبت سے بڑھ جائے اور جس کے بغیر ان کا ایک لمحہ بھی نہ گزر سکے۔ تاریخ اسلام میں یہ ذکر ملتا ہے کہ

اُحد کے دن مدینہ میں یہ خبر پھیل گئی کہ رسول اللہؐ شہید ہوگئے ہیں۔ مدینہ میں عورتیں رونے اور چلانے لگیں۔ ایک عورت کہنے لگی تم رونے میں جلدی نہ کرو میں پہلے پتہ کرکے آتی ہوں، وہ گئی تو پتہ چلا کہ اس کے سارے عزیز شہید ہوچکے تھے۔ اس نے ایک جنازہ دیکھا، پوچھا یہ کس کا جنازہ ہے۔ بتایا گیا کہ یہ تمہارے باپ کا جنازہ ہے۔ اس کے پیچھے تمہارے بھائی، خاوند اور بیٹے کا جنازہ بھی آرہا ہے۔ وہ کہنے لگی مجھے یہ بتاؤ رسول اللہؐ کا کیا حال ہے؟ لوگوں نے کہا نبی کریمؐ وہ سامنے تشریف لارہے ہیں۔ وہ رسول اللہؐ کی طرف لپکی اور آپؐ کے کرتے کا دامن پکڑ کر کہنے لگی میرے ماں باپ آپؐ پرقربان اے اللہ کے رسولؐ ! جب آپؐ زندہ ہیں تو مجھے کوئی پرواہ نہیں۔

(مجمع الزوائدلھیثمی جلد4صفحہ115 بیروت بحوالہ طبرانی)

پس یہ ہیں محبت رسول کے وہ معیار جو ہم نے اپنے وقف نو بچوں میں پیدا کرنے ہیں اور اگر ایسا ہو جائے تو ہماری ذمہ داریاں بہت ہی آسان ہو جاتی ہیں۔

2۔ …دینی اور دنیاوی معاملات کا علم حاصل کرنابھی وقف کا ایک معنی ہے:

یہ لفظ ہماری روزمرہ بول چال میں بھی کافی استعمال ہوتا ہے جیسے ہم کہتے ہیں کہ وہ میرے حال سے واقف ہے، یا یہ کہ میں ان کی کیفیت سے واقف ہوں۔ پس واقف زندگی وہ وجود ہوتا ہے جو نہ صرف اس زندگی کی حقیقت سے آگاہ ہو بلکہ ابدی زندگی کے معاملات کو بھی جانتا ہو۔ قرآن کریم ہمیں یہی بتاتا ہے کہ

وَ مَا ہٰذِہِ الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا لَہۡوٌ وَّ لَعِبٌ ؕ وَ اِنَّ الدَّارَ الۡاٰخِرَۃَ لَہِیَ الۡحَیَوَانُ (العنکبوت: 65)

کہ یہ دنیاوی زندگی تو محض ایک غفلت اور کھیل کا سامان ہے اور اخروی زندگی کا گھر ہی دراصل حقیقی گھر ہے۔

لیکن اس علم کو سکھانے کے لیے بھی ہمیں ایسے راستوں کو چننا پڑے گا جو محبت سے بچوں کے دلوں میں ان علوم کو راسخ کردیں۔

وقف نو بچوں کے والدین کو اپنے بچوں کا دینی علم بڑھانا پڑے گا اور محبت ہی محبت میں اور دلچسپ انداز میں انہیں دین اور دنیا کے علوم سکھانے ہوں گے۔ ان کو پیار اور محبت کے ساتھ سجا کر، سنوار کر، پوری خوبصورتی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے دین کی خدمات کے لیے پیش کرنا ہوگا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’قربانیاں اور تحفے دراصل ایک ہی ذیل میں آتے ہیں آپ بازار سے شاپنگ کرتے ہیں، عام چیز جو گھر کے لئے لیتے ہیں اسے باقاعدہ خوبصورت کاغذوں میں لپیٹ کر اور فیتوں سے باندھ کر سجا کر آپ کو پیش نہیں کیا جاتا لیکن جب آپ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے تحفہ لینا ہے تو پھر دکاندار بڑے اہتمام سے اس کو سجا کر پیش کرتا ہے پس قربانیاں تحفوں کا رنگ رکھتی ہیں اور ان کے ساتھ سجاوٹ ضروری ہے…انسانی زندگی کی سجاوٹ تقویٰ سے ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے پیار اور اس کی محبت کے نتیجہ میں انسانی روح بن ٹھن کر تیار ہوا کرتی ہے۔ پس پیشتر اس کے کہ یہ بچے اتنے بڑے ہوں کہ جماعت کے سپرد کئے جائیں ان ماں باپ کی بہت ذمہ داری ہے کہ وہ ان قربانیوں کو اس طرح تیار کریں کہ ان کے دل کی حسرتیں پوری ہوں۔ جس شان کے ساتھ وہ خدا کے حضور ایک غیر معمولی تحفہ پیش کرنے کی تمنا رکھتے ہیں وہ تمنائیں پوری ہوں ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍فروری1989ء)

3۔ …وقف کے ایک اور معنی دینی خدمات کے لیے خود کو پیش کرنا بھی ہیں:

یہ وہ معروف وقف ہے جسے قرآنی اصطلاح میں ہم نذر بھی کہتے ہیں اور عرف عام میں اسے وقف زندگی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ عمومی طور پر یہ وہ معروف معنی ہیں جن سے ہم سب آگاہ ہیں۔ وقف نو بچوں کے والدین تو اپنے بچے کوتحریک وقف نو میں پیش کرکے اس مرحلہ کے ایک حصہ سے گزر جاتے ہیں لیکن انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ابھی انہوں نے اور ان کے وقف نو بچوں نے اس عہد وقف کی دوسری منازل سے بھی گزرنا ہے۔ ماں باپ کا فرض ہے کہ وہ اپنے وقف نو بچوں کو اس طریق پر بڑا کریں جیسا کہ اس کا حق ہے۔ ان بچوں کو یہ بتانا ہوگا کہ اگر وہ اپنے اس عہد وقف کو نبھانا چاہتے ہیں اور دین کے لیے اپنی زندگی وقف کرنا چاہتے ہیں تو وہ یہ یاد رکھیں کہ اب ان کی زندگی جماعت اور دین اسلام کی سربلندی کے لیے وقف ہے۔ وہ نظام جماعت اور حضرت خلیفۃ المسیح کے ادنیٰ سپاہی ہیں اور ان کی ہدایات کے مطابق ہی انہیں اپنی زندگی کے فیصلے کرنا ہوں گے۔ ان سے یہ پوچھنا پڑے گا کہ اے میرے پیارے بچے تمہاری اس بارے میں کیا رائے ہے؟ سوچ سمجھ کر ایک فیصلہ کرو اور اگر خود کو اس عہد کو پورا کرنے کا اہل پاتے ہو تو پھر قدم آگے بڑھا دو اور دنیا کی کسی چیز کی پرواہ نہ کرو۔ انہیں بہادربنانا ہوگا، انہیں بتانا ہوگا کہ ان سے پہلے اس راہ پر جو بھی لوگ اخلاص اور وفا کے ساتھ چلے ہیں اللہ تعالیٰ نے انہیں کبھی ضائع نہیں کیا۔ انہیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا عطا کردہ یہ یقین مہیا کرنا ہوگا کہ اللہ اپنے بندوں کو کبھی ضائع نہیں کیا کرتا۔ جیسا کہ آپؑ فرماتے ہیں:

’’میں جانتا ہوں کہ خداتعالیٰ میرے ساتھ ہے اگر میں پیسا جاؤں اور کچلا جاؤں اور ایک ذرّے سے بھی حقیر تر ہوجاؤں اور ہر ایک طرف سے ایذا اور گالی اور لعنت دیکھوں تب بھی میں آخر فتح یاب ہوں گا مجھ کو کوئی نہیں جانتا مگر وہ جو میرے ساتھ ہے میں ہرگز ضائع نہیں ہوسکتا دشمنوں کی کوششیں عبث ہیں اور حاسدوں کے منصوبے لاحاصل ہیں۔ اے نادانو اور اندھو مجھ سے پہلے کون صادق ضائع ہوا جو میں ضائع ہو جاؤں گا۔ کس سچے وفادار کو خدا نے ذلت کے ساتھ ہلاک کر دیا جو مجھے ہلاک کرے گا۔ یقیناً یاد رکھو اور کان کھول کر سنو کہ میری روح ہلاک ہونے والی روح نہیں اور میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں مجھے وہ ہمت اور صدق بخشا گیا ہے جس کے آگے پہاڑ ہیچ ہیں۔‘‘

(انوار الاسلام، روحانی خزائن جلد 9صفحہ 23)

4۔ …پھر اسی مادے سے وقّف بھی ہے جس کے معنی ڈھال یا دیوار بنانے کے ہیں :

بحیثیت والدین ان بچوں کو یہ بتانا اور سکھانا ہوگا کہ وہ اسلام اور احمدیت، نظام جماعت اور نظام خلافت جو ہماری جماعت کی روح اور جان اور بنیاد ہیں، اس کے سامنے ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے ہونے کے لیے تیار کیے جارہے ہیں۔ وہ عام بچے نہیں ہیں۔ وہ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے ان نمونوں کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے دنیا میں بھیجے گئے ہیں جو انہوں نے احد کے معرکے میں آنحضرتﷺ کی محبت میں دکھائے تھے۔

جب غزوہ احد میں صحابہ کی ایک بھول کی وجہ سے مسلمانوں کی فتح شکست میں تبدیل ہوتی دکھائی دینے لگی تو دشمن کے حوصلے بہت بڑھ گئے، انہوں نے اکٹھے ہو کر ایسا حملہ کیا کہ صحابہؓ کے پاؤں اکھڑ گئے۔ ان کا ناپاک ارادہ یہ تھا کہ کسی طرح آنحضرتﷺ تک پہنچ جائیں اور آپ کی ذات پر نور کو مٹا دیں تاکہ اسلام کی طاقت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے۔ ہر جانب سے تیروں کی بارش ہورہی تھی، تلواریں شمع اسلام کو گل کرنے کے لیے بڑھتی چلی آرہی تھیں، اس موقع پر حضرت طلحہؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور دشمن کے درمیان ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح حائل ہوگئے، اپنے جسم کواپنے آقا کے سامنے بطور ڈھال کرلیا، جس جانب سے آپ پر تیر آتا، اس جانب پہنچتے اور ہر تیر کو اپنے سینہ اور ہاتھوں اور جسم پر روکتے اور ہر ایک زخم سہہ کر بھی آپ نے کسی ناپاک ہاتھ کو اپنے محبوب امام تک نہ پہنچنے دیا۔

واقفین نو بچے بھی اسلام اور خلافت احمدیہ کے وہ سپاہی ہیں جن کی تربیت میں یہ تعلیم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے شامل کرنی لازم ہے کہ ان کی جان، مال، وقت اور عزت، اسلام کی عزت کے ساتھ وابستہ ہے، خلافت کی عزت کے ساتھ وابستہ ہے۔ اور جب تک ایک بھی وقف نو بچہ دنیا میں موجود ہے کوئی ناپاک حملہ اسلام کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ وہ اپنی ہر ایک صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے ہر ایک میدان میں دین کی حفاظت کا کام کریں گے پھر خواہ اس کے لیے انہیں کیسی ہی قربانیا ں کیوں نہ دینی پڑیں۔

ہمیں پورے عزم اور ہمت اور بہادری کے ساتھ ان راہوں پر آگے سے آگے بڑھتے چلے جانا ہے یہاں تک کہ ہم اللہ تعالیٰ کے تما م انبیاء کی عزت اور سچی عظمت کو دوبارہ دنیا میں قائم کردیں اورتمام مذاہب کے ماننے والوں کو محبت اور پیار اور دلیل کے ساتھ ان سچی راہوں کی طرف واپس لے کر آئیں جو ابراہیمؑ کی راہیں تھیں، جو موسیٰؑ کی راہیں تھیں، جو عیسیٰؑ کی راہیں تھیں اور جوآج حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کی تعلیم کی صورت میں روحانی سفر کو آسان کرنے کے لیے ایک کشادہ شاہراہ کے طور پر دنیا کو عطا کی گئی ہیں۔

5۔ …وقف کا ایک مطلب ایک دوسرے کے پیچھے کھڑے ہونا بھی ہے، جیسے ہم نماز میں کھڑے ہوتے ہیں:

بحیثیت والدین اپنے وقف بچوں کو ابتدا سے ہی یہ بات سکھانی ہوگی کہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور نظام جماعت کی اطاعت کے ساتھ ساتھ عہدیداران جماعت کی اطاعت اور فرمانبرداری کو بھی اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔ وقف کے مضمون میں یہ بات شامل ہے کہ نظام جماعت کے ماتحت جس فرد کو بھی کسی خدمت کے میدان میں قیادت کے لیے آگے کھڑا کیا جائے پوری بشاشت اور محبت کے ساتھ اس کی بات مانی جائے اگر کسی عہدیدار سے گلہ یا شکوہ ہو بھی جائے تو ان بچوں کو یہ امر سمجھانا ہوگا کہ جماعتی ذمہ داریاں اور خدمت کے یہ میدان محض انتظامی عہدے ہوا کرتے ہیں جو نظم اجتماعی کو قائم رکھنے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ کسی عہدیدار کی کسی ذاتی کمزوری کو بنیاد بنا کر ہمیں نظام جماعت کے ادب اور احترام میں کمی کرنے کا کوئی بھی جواز حاصل نہیں ہے۔ کیا کسی حکومتی عہدیدار، پولیس کے کسی اہلکار، یا دفتروں کے کسی ذمہ دار کے رویہ اور ذاتی زندگی کی چھان بین کے بعد ہم اس کی اطاعت یا عدم اطاعت کا فیصلہ کرتے ہیں؟ نہیں بلکہ ہم حکومت پر اور قوانین پر کامل اعتماد کرتے ہوئے ایک ایسے پولیس افسر کے ہاتھ کے اشارے پر بھی رک جاتے ہیں جس کے اخلاق اور کردار کے بارے میں ہم کچھ بھی نہیں جانتے۔

پس یاد رکھیں کہ بالکل اسی طرح یہ آسمانی بادشاہت جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے دنیا میں قائم کی گئی ہے اور خلافت احمدیہ کے زیر نگرانی اور زیر سایہ دنیا بھر میں پھیلتی جارہی ہے ہمیں اس آسمانی بادشاہت کا دست و بازو بنتے ہوئے اس کے ہر ایک حکم اور قانون پر پوری بشاشت سے عمل کرتے چلے جانا ہے۔

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزخطبہ جمعہ 27؍جون 2003ءمیں فرماتے ہیں:

’’بعض دفعہ ظاہر اً ہر قسم کی نیکی ایک شخص کررہاہوتاہے۔ نمازیں بھی پڑھ رہا ہے، مسجد جا رہاہے، لوگوں سے اخلاق سے بھی پیش آ رہا ہے لیکن نظام جماعت کے کسی فرد سے کسی وجہ سے ہلکا سا شکوہ بھی پیدا ہو جائے یا اپنی مرضی کا کوئی فیصلہ نہ ہو تو پہلے تو اس عہدیدار کے خلاف دل میں ایک رنجش پیدا ہوتی ہے۔ پھر نظام کے بارہ میں کہیں ہلکا سا کوئی فقرہ کہہ دیا، اس عہدیدار کی وجہ سے۔ پھر گھر میں بچوں کے سامنے بیوی سے یا کسی اور عزیز سے کوئی بات کر لی تو اس طرح اس ماحول میں بچوں کے ذہنوں سے بھی نظام کا ا حترام اٹھ جاتاہے۔ اس احترام کو قائم کرنے کے لئے بہرحال بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے الفاظ میں یہ نصیحت آپ تک پہنچاتاہوں۔

’’بہت ضروری ہے کہ( واقفینِ نَوکو) نظام کا ا حترام سکھایا جائے۔ پھر اپنے گھروں میں کبھی ایسی بات نہیں کرنی چاہئے جس سے نظام جماعت کی تخفیف ہوتی ہو یا کسی عہدیدار کے خلاف شکوہ ہو۔ وہ شکوہ اگر سچا بھی ہے پھر بھی اگر آپ نے اپنے گھر میں کیا تو آپ کے بچے ہمیشہ کے لئے اس سے زخمی ہو جائیں گے۔ آپ تو شکوہ کرنے کے باوجود اپنے ایمان کی حفاظت کر سکتے ہیں لیکن آپ کے بچے زیادہ گہرا زخم محسوس کریں گے۔ یہ ایسا زخم ہواکرتاہے کہ جس کو لگتاہے اس کو کم لگتاہے، جوقریب کا دیکھنے والاہے اُس کو زیادہ لگتاہے۔ اس لئے اکثر وہ لوگ جو نظام جماعت پر تبصرے کرنے میں بے احتیاطی کرتے ہیں، ان کی اولادوں کو کم و بیش ضرور نقصان پہنچتاہے۔ اور بعض ہمیشہ کے لئے ضائع ہو جاتی ہیں۔ …

(خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍فروری 1989ء)‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 27؍جون2003ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 22؍اگست2003ءصفحہ7)

6۔ …اسی طرح اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے کو بھی واقف کہتے ہیں:

ہمیں اپنے بچوں کو قرآن کریم کی ان ابتدائی آیات کے مضمون کو سمجھانا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ یعنی اللہ تعالیٰ نے جو صلاحیت بھی انہیں دی ہے اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کی عادت ڈالیں۔ اچھی آواز عطا ہوئی ہے تو تلاوت اور نظموں میں اس آواز کو خرچ کریں۔ اگر تقریر اور تحریر کی صلاحیت ملی ہے تو اسے اللہ تعالیٰ کے دین کی تبلیغ و اشاعت کے لیے خرچ کریں۔ اگر صحت اچھی ملی ہے تو خدمت خلق اور وقار عمل کے کاموں کے لیے اسے استعمال کریں۔ اگر فارغ وقت میسر آیا ہے تو اسے عبادات اور دعاؤں میں خرچ کریں۔ غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے جو بھی عمدہ صلاحیت انہیں عطا کی ہو، سب سے پہلا خیال یہ آنا چاہیے کہ ہم اس صلاحیت کو اللہ کی راہ میں کیسے خرچ کرسکتے ہیں۔ یہ امر انہیں ایک بہترین انسان، ایک بہترین مومن اور ایک بہترین واقف زندگی بنادے گا۔

7۔ …وقف کے معانی میں سے ایک معنی ثابت قدم ہو جانے کا بھی ہے:

یہ ثابت قدمی جسے قرآن کی اصطلاح میں وفاداری کہتے ہیں اسے وقف کی معراج کہا جا سکتا ہے۔ اپنے اللہ سے وفاداری، رسول اللہﷺ سے وفاداری، حضرت اقدس مسیح موعودؑ سے وفاداری، اور خلافت احمدیہ سے سچی محبت اور غیر مشروط وفاداری ہی وہ خلق ہے جو کسی واقف زندگی کو کامیاب واقف زندگی بنا سکتا ہے۔

جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل سے فارغ التحصیل ہونے والے طلباء کے نام اپنے پیغام میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے واقفین کو خصوصیت کے ساتھ اس خلق کو اختیار کرنے کی نصیحت فرمائی تھی اور فرمایا تھا:

’’اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے لیے اپنی زندگیاں پیش کرنا اور خلافت احمدیہ کے مددگار بننا اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیمات کو پھیلانا ایک عظیم الشان کام ہے، چنانچہ آپ کو اپنی تمام صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہوئے اپنے اس عہد کو وفا اور مکمل اطاعت کے ساتھ پورا کرنا ہے۔ میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ کبھی بھی خدا تعالیٰ سے بے وفائی نہ کریں بلکہ ہمیشہ اپنے پروردگار کے وفادار رہیں۔ ‘‘

(پیغام سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بر موقع سالانہ کانووکیشن جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا2019ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ اس بارے میں فرماتے ہیں:

’’واقفین بچوں کو وفا سکھائیں۔ وقف زندگی کا وفا سے بہت گہرا تعلق ہے…واقفین بچوں کو یہ سمجھائیں کہ خدا کے ساتھ ایک عہد ہے جو ہم نے تو بڑے خلوص کے ساتھ کیاہے لیکن اگر تم اس بات کے متحمل نہیں ہو تو تمہیں اجازت ہے کہ تم واپس چلے جاؤ۔ ایک گیٹ(Gate) اور بھی آئے گا۔ جب یہ بچے بلوغت کے قریب پہنچ رہے ہوں گے، اس وقت دوبارہ جماعت ان سے پوچھے گی کہ وقف میں رہنا چاہتے ہو یا نہیں چاہتے؟ وقف وہی ہے جس پرآدمی وفا کے ساتھ تادم آخر قائم رہتاہے۔ ہر قسم کے زخموں کے باوجود انسان گھسٹتا ہوا بھی اسی راہ پر بڑھتاہے، واپس نہیں مڑا کرتا۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ10؍فروری1989ء)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔ اور حضورؑ کے اس ارشاد پر میں اپنی گزارشات کو ختم کرتا ہوں۔آپؑ فرماتے ہیں:

’’میں اپنا فرض سمجھتاہوں کہ اپنی جماعت کو وصیت کروں اور یہ بات پہنچا دوں۔ آئندہ ہرایک کو اختیار ہے کہ وہ اسے سنے یا نہ سنے کہ اگر کوئی نجات چاہتاہے اور حیات طیبہ اور ابدی زندگی کا طلبگارہے تو و ہ اللہ کے لئے اپنی زندگی وقف کرے اور ہر ایک اس کوشش اور فکر میں لگ جاوے کہ وہ ا س درجہ اور مرتبہ کو حاصل کرے کہ کہہ سکے کہ میری زندگی، میری موت، میری قربانیاں، میری نمازیں اللہ ہی کے لئے ہیں اور حضرت ابراہیم کی طر ح اس کی روح بول اٹھے

(اَسۡلَمۡتُ لِرَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ)۔

جب تک انسان خدا میں کھویا نہیں جاتا، خدا میں ہو کر نہیں مرتا وہ نئی زندگی نہیں پا سکتا۔ پس تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو تم دیکھتے ہو کہ خدا کے لئے زندگی کا وقف میں اپنی زندگی کی اصل اور غرض سمجھتاہوں۔ پھر تم اپنے اندر دیکھو کہ تم میں سے کتنے ہیں جو میرے اس فعل کو اپنے لئے پسند کرتے اور خدا کے لئے زندگی وقف کرنے کو عزیز رکھتے ہیں۔ ‘‘

(الحکم جلد4نمبر31بتاریخ31؍اگست1900ء)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان نصائح پر عمل کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button