متفرق مضامین

اعتکاف اور اس کے مسائل

(‘ابو فاضل بشارت’)

یوں تو رمضان المبارک کا سارا مہینہ ہی رحمت ومغفرت اورحصول انواروبرکات کا ذریعہ ہے لیکن اس بابرکت مہینہ کا آخری عشرہ اس کی اصل اور معراج ہےکیونکہ پہلے عشرہ میں حصول رحمت اور دوسرے عشرہ میں طلب مغفرت کے بعدتیسرے عشرہ میں مومن اعتکاف میں عظیم الشان عبادات بجالاتاہے جس کے نتیجہ میں وہ نہ صرف آگ سے آزادی حاصل کرتا ہے بلکہ مزید قرب الٰہی کی سعادت کے ساتھ اس مبارک گھڑی سے بھی فیضیاب ہونے کا موقع پاتا ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نےفرمایا ہے:

لَیۡلَۃُ الۡقَدۡرِ ۬ۙ خَیۡرٌ مِّنۡ اَلۡفِ شَہۡرٍ (القدر:4)

قدر کى رات ہزار مہىنوں سے بہتر ہے۔

اعتکاف کے لغوی و شرعی معنی

اعتکاف کا لفظ

عَكَفَ يَعْكُفُ ويَعْكِفُ

سے ہے جس کے معنے ہیں کسی جگہ سے چمٹ جانا اور عکوف سے مراد ہے کسی چیز اور جگہ پر اقامت اختیار کرنا اور ان سے چمٹ جانا۔

(لسان العرب جزء9صفحہ255)

امام راغب اصفہانی (متوفی:502ھ)بیان کرتے ہیں کہ

اعتکاف کے(لغوی )معنی کسی چیز کو پوری توجہ سے قبول کرنے اور اس سے ازراہ تعظیم چمٹ جانے کے ہیں۔ اور شرع میں اعتکاف سے مراد قرب الٰہی کے حصول کے لیے مسجد میں بند ہوجانا ہے۔

(المفردات فی غريب القرآن صفحہ 579)

علامہ بدرالدین عینی(متوفی: 855ھ)لکھتے ہیں :

شرعی اصطلاح میں اعتکاف سے مراد مسجد میں نیت کے ساتھ قیام کرنا ہے۔

(البناية شرح الهداية جزء4صفحہ121)

رمضان المبارک میں تمام عبادات کا مرکزی وبنیادی مقصد وصال الٰہی اور حصول قرب الٰہی ہوتا ہے۔ اعتکاف اس میں نہایت ممدومعاون ہے کیونکہ اس کے ذریعہ مومن شہوات نفسانی اور لذات دنیوی سے منقطع ہوکر ایک عارضی رہبانیت اختیار کرتا ہے۔ اس تبتل اور انقطاع سے وہ مستغرق الاوقات ہو کرخدا تعالیٰ کے قرب اور اس کی محبت کے حصول کو تمام مال و متاع سے برتر ثابت کرتا ہے۔ عبادات اور دعاؤں میں شب و روز منہمک رہ کرخداتعالیٰ کے فضلوں کا مورد بن جاتا ہے۔

اعتکاف کے بارے میں سنت رسولﷺ

رسول اللہﷺ ایام جوانی میں ہر سال غار حرا ميں ايک مہینہ کے لیے اعتکاف فرمايا کرتے تھے۔ اعتکاف مکمل ہونے پر خانہ کعبہ کے طواف کے بعدہی آپؐ گھر تشريف لے جایاکرتے۔ آپﷺ کو پہلی وحی بھی رمضان المبارک کے بابرکت مہینہ میں، دوران اعتکاف غارحرا میں ہوئی۔

( السیرۃ النبوۃ لابن ہشام جلد 1صفحہ 235)

پھر جب 2ھ میں روزے کی فرضیت ہوئی توآپؐ نے ایک سال کے ماہ رمضان المبارک کے وسطی عشرے میں اعتکاف فرمایا۔ اس کے بعد آخری عشرہ میں اعتکاف فرمانا شروع کردیا۔ چنانچہ بخاری میں روایت ہے کہ

حضرت ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ رمضان کے درمیانی عشرے میں اعتکاف بیٹھا کرتے تھے۔ آپؐ ایک سال(انہی دنوں میں ) معتکف ہوئے یہاں تک کہ جب اکیسویں رات ہوئی اور یہ وہ رات تھی جس کی صبح کو آپؐ اعتکاف سے نکلا کرتے تھے تو آپؐ نے فرمایا: جو میرے ساتھ معتکف تھا اسے چاہیے کہ آخری عشرے میں اعتکاف بیٹھے اور آج رات مجھے لیلة القدر کے بارے میں بتایا گیا ہےاور میں نے دیکھا کہ اس کی صبح کو میں پانی اور کیچڑ میں سجدہ کررہا ہوں۔ تم آخری عشرے میں اس کی تلاش کرو اور ہر طاق رات میں اسے ڈھونڈو۔

(بخاری کتاب الاعتکاف باب الاعتکاف فی العشر الاواخر)

حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ نبی کریمﷺ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف بیٹھتے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو وفات دی۔ پھر آپؐ کے بعد آپؐ کی ازواج معتکف ہواکرتی تھیں۔

(بخاری کتاب الاعتکاف باب الاعتکاف فی العشر الاواخر)

رسول اللہﷺ نے اعتکاف کے بہت فضائل بیان کیے ہیں جیسے فرمایا کہ معتکف مسجد میں رہ کر کئی گناہوں سے بچ جاتا ہے اور محروم شدہ نیکیوں کا اجر بھی پاتا ہے۔ (ابن ماجہ)پھرمعتکف اور جہنم کے درمیان اللہ تعالیٰ تین خندقوں جتنا فاصلہ ڈال دیتا ہے۔ (المعجم الاوسط)غرضیکہ ایسی کئی فضیلتیں بیان کی ہیں۔

اسی طرح آپﷺ نے معتکف کولیلة القدر کی تلاش کے ساتھ آداب اعتکاف بھی سکھائے کہ قراءت بالجہر نہ کی جائے تاکہ دوسروں کی عبادات میں خلل نہ پڑے۔ مسجد میں صفائی وپاکیزگی اپنائی جائے، اپنی زینت وآرائش کا خیال رکھاجائے۔ حوائج ضروریہ کےلیے نکلنا پڑے تو چلا جائے، بیمار کی عیادت کے لیے جانا پڑے تو چلا جائے۔ دوران اعتکاف بیوی سے مباشرت منع ہے۔لغو گفتگو سے احتراز برتےصرف ضروری شائستہ گفتگو کرے وغیرہ۔

شرائط وارکان اعتکاف

جمہورفقہاء کے نزدیک ارکان اعتکاف چار ہیں :

1۔ معتکف

2۔ نیت اعتکاف

3۔ معتکف فیہ(اعتکاف کی جگہ)

4۔ مسجد میں قیام

جبکہ حنفیوں کے نزدیک اعتکاف کا ایک ہی رکن ہے اور وہ صرف مسجد میں رہنا ہے باقی سب اس کی شرائط اور جزئیات ہیں، ارکان نہیں۔ مالکیوں نے ان چار ارکان کے علاوہ ایک اور رکن کا اضافہ کیا ہے اور وہ ہے روزہ۔

(الفقہ المیسرجزء3صفحہ101)

معتکف کی شرائط

جہاں تک معتکف کی شرائط کا تعلق ہے تو اعتکاف کےلیے مرد، عورت اورممیز(تمیزکی عمر تک پہنچنے والے)بچے کامسلمان ہونا، عاقل و بالغ اور اعتکاف کے بارے میں آگاہی و فرق کامعلوم ہونا ضروری ہے۔ نیز مردوں کا جنابت سےاور عورتوں کا حیض اور نفاس سے پاک ہونا شرط ہے۔ مالکی مسلک کے نزدیک ایک اور شرط یہ ہے کہ عورت اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر اعتکاف نہیں بیٹھ سکتی۔

(الفقہ علی المذاہب الاربعة جزء 1صفحہ531)

ازواج مطہرات رسول اللہﷺ سے اعتکاف بیٹھنے کی اجازت لیا کرتی تھیں۔ چنانچہ بخاری میں ہے:

فَاسْتَأْذَنَتْهُ عَائِشَةُ أَنْ تَعْتَكِفَ، فَأَذِنَ لَهَا

(بخاری کتاب الاعتکاف باب الاعتکاف فی شوال)

کہ حضرت عائشہؓ نے رسول اللہﷺ سے اعتکاف کی اجازت مانگی اور اجازت ملنے پر اعتکاف بیٹھیں۔

نیت اعتکاف

حنفی اور حنبلی مسالک کے نزدیک اعتکاف کی نیت کرنا شرط ہے رکن نہیں جبکہ مالکی اور شافعی اسے رکن گردانتے ہیں۔

(الفقہ علی المذاھب الاربعة جزء1صفحہ529)

بغیر نیت کے اعتکاف درست نہیں، چاہے وہ مسنون اعتکاف ہو یا فرض۔ ان دونوں میں نیت سےفرق کرنا لازم ہے۔ اس کی دلیل حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم

اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ

بیان کی جاتی ہے۔

معتکف فیہ یعنی اعتکاف کی جگہ

اعتکاف کی جگہ کے بارے میں فقہاء کی مختلف آراء ہیں مثلاًمسجد حرام میں اعتکاف کرنا افضل ہے، پھر مسجد نبویؐ میں، پھر مسجد اقصیٰ میں اور اس کے بعد کسی جامع مسجد میں۔ اس کا تفصیلی ذکر آگے بیان کیا جائے گا۔

مسجد میں رہنا

فقہاء کے نزدیک مسجد میں رہنا بھی رکن اعتکاف ہے۔ لیکن قیام کے وقت میں اختلاف ہےحنفیوں کے نزدیک کم ازکم ایک گھنٹہ، مالکیوں کے نزدیک کم از کم ایک دن رات، شافعی کے نزدیک مسجد میں قیام کےوقت کے تعین کی ضرورت نہیں جتنا بھی رہے اعتکاف میں شمار ہوتا ہے۔

روزہ

مالکیوں کے نزدیک روزہ بھی رکن اعتکاف میں شامل ہے۔ اور اعتکاف میں روزہ رکھنے کے قائلین میں حضرت عائشہؓ، حضرت علیؓ، حضرت ابن عمرؓ، امام مالکؒ وغیرہ شامل ہیں جبکہ امام شافعیؒ اور امام احمدؒ اس کو ضروری نہیں سمجھتے تھے۔

(الفقہ المیسر جزء3صفحہ101تا104)

حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں :

وَلَا اعْتِكَافَ إِلَّا بِصَوْمٍ

(ابو دا ؤد۔ کتاب الصیام باب المعتکف یعود المریض)

کہ روزہ کے بغیر اعتکاف درست نہیں۔

اور یہ بات بالکل درست ہے کیونکہ روزہ (فرض عبادت) چھوڑ کر اعتکاف (نفلی عبادت) بجالانا صالح اور موزوں عمل نہیں۔

مندرجہ بالا امور خالصتاً علمی بحث کے طور پر پیش کیے گئے ہیں وگرنہ جماعت احمدیہ کے موقف کے مطابق اعتکاف کی شرائط میں نیت، مسجد میں قیام اور روزہ کا ہونا ضروری ہے۔

اعتکاف کب شروع کیاجائے

اعتکاف کے وقت کا تعین بھی رسول اللہﷺ کی سنت سے ثابت ہے۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ کی روایت سے ثابت ہے کہ رسول اللہﷺ آخری عشرے میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے جو رمضان کی بیسویں تاریخ سے آخر تک رہتا ہے۔ چنانچہ صحیح مسلم میں ہے، حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ

’’رسول اللہﷺ (ماہ رمضان کے آخری عشرہ میں )اعتکاف کا ارادہ کرتے توفجر کی نماز ادافرماکر آپؐ اپنے معتکف میں تشریف لے جاتے تھے۔‘‘

(مسلم کتاب الصیام با ب متی یدخل من اراد الاعتکاف)

اس روایت کی بناپر بعض علماء مثلاًاوزاعی، ثوری، لیث وغیرہ نے نماز فجر کے بعد اعتکاف بیٹھنا مراد لیا ہے جبکہ ائمہ اربعہ کے نزدیک غروب شمس سے قبل اعتکاف کا آغاز ہوتا ہے۔

(شرح نووی علی المسلم جزء8صفحہ68)

اسی طرح علماء کے ایک گروہ نے بیس رمضان المبارک کی فجر کے بعد اعتکاف بیٹھنا بیان کیا ہے جیساکہ علامہ بدرالدین عینی (متوفی:855ھ)نے لکھا ہے کہ اعتکاف بیس رمضان کو بیٹھا جائے۔

(البنایة شرح الھدایة جزء4صفحہ121)

تو دوسرے گروہ کے نزدیک اکیس رمضان المبارک کی فجر کی نماز کے بعد۔ اس بارے میں علماء میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ جس کی مختلف توجیہات پیش کی جاتی ہیں جیسے دس راتوں کا پورا ہونا وغیرہ۔

اعتکاف کے تعیین وقت کے متعلق جماعت احمدیہ کا مسلک

ان اختلافات کا حل جماعت احمدیہ کے خلفاء کے ارشادات سے بخوبی ہوجاتا ہے۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :

’’صبح کو 20ویں کی اعتکاف میں داخل ہوتے ہیں اور یہی مسنون ہے۔‘‘

(درس القرآن یکم اگست 1912ء)

حضرت مولانا حکیم نور الدین صاحب خلیفة المسیح الاولؓ اس مسئلہ کے بارے میں اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ

’’شیخ محمد خزرجی کو صحاح ستہ پر کافی عبور حاصل تھا۔ ایک دفعہ ابوداؤدؔ پڑھتے ہوئے اعتکاف کے مسئلہ پر کچھ اختلاف پیدا ہو گیا۔ شیخ صاحب فرماتے تھے کہ یہ حدیث بہت مشکل ہے کیونکہ اگر اکیسویں تاریخ کی صبح کو اعتکاف بیٹھا جائے تو ممکن ہے اکیسویں رات کو لیلۃ القدر ہو اور اگر بیسویں تاریخ کو عصر کے وقت بیٹھیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔‘‘

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں :

’’میں نے کہا اگر بیسویں تاریخ کی صبح کو بیٹھ جائیں تو کیا حرج ہے؟ فرمایا، یہ تو اجماع کے خلاف ہے۔ آپ نے فرمایا، اجماع کا لفظ تو یونہی بول دیا جاتا ہے۔ آپ کے اس فقرہ کو سُن کر شیخ صاحب کچھ خفا سے ہو گئے اور جا کر مولوی رحمت اللہ صاحب سے ذکر کر دیا۔ آپ جب مولوی موصوف کے پاس پہنچے تو انہوں نے فرمایا، آج تمہارا اپنے شیخ سے کیا مباحثہ ہوا؟ عرض کی، جناب! یہ ایک جزوی مسئلہ تھا۔ اکیسویں تاریخ کو اعتکاف نہ بیٹھے بیسویں کو بیٹھ گئے، فرمایا کہ یہ تو اجماع کے خلاف ہے۔ عرض کیا، بھلا اس چھوٹی سی بات پر کیا اجماع ہوگا؟ فرمایا۔ اچھا سبق کل پڑھیں گے۔ چلو مکان پر چلیں۔ جب خلوت خانہ سے نکل کر مسجد کے صحن میں پہنچے تو آپ نے قبلہ کی طرف اشارہ کر کے عرض کی۔ حضرت! اس کوٹھے کی طرف لوگ سجدہ کیوں کرتے ہیں ؟ فرمایا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے۔ عرض کیا۔ انبیاء کا اجماعی قبلہ تو بیت المقدس ہے، آپ ایک شخص کے فرمان پر اجماع انبیاء بنی اسرائیل کو کیوں چھوڑتے ہیں ؟ مولوی صاحب موصوف آپ کی اس دلیل کا جواب نہ دے سکے۔ وقت گزرتا گیا۔ کچھ مدت کے بعد حضرت شاہ عبدالغنی مجددیؒ مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ میں تشریف لائے۔ قبلہ شاہ صاحب چونکہ بہت بڑے عالم تھے۔ آپ کی آمد سے شہر میں دھوم مچ گئی۔ آپ بھی ان کی خدمت میں پہنچے۔ اور عرض کیا کہ حضرت اعتکاف کب بیٹھا جائے؟ فرمایا۔ بیس کی صبح کو، عرض کی۔ حضرت علماء کہتے ہیں یہ اجماع کے خلاف ہے۔ فرمایا۔ حنفیوں میں فلاں فلاں، شافعیوں میں فلاں، حنابلہ میں فلاں، مالکیوں میں فلاں، کئی کئی آدمیوں کے نام لے کر کہا کہ ہر فرقہ میں اس بیس کے بھی قائل ہیں۔‘‘

آپؓ فرماتے ہیں :

’’میں اس علم اور تجربہ کے قربان ہو گیا۔ ایک وجد کی کیفیت طاری ہو گئی کہ کیا علم ہے۔ تب وہاں سے ہٹ کر میں نے ایک عرضی لکھی کہ میں پڑھنے کے واسطے اس وقت آپ کے ساتھ مدینہ میں جا سکتا ہوں ؟ (آپ نے) اس (میرے) کاغذ کو پڑھ کر یہ حدیث مجھے سُنائی المُسْتَشَارُ مُؤْتَمِنٌ۔ پھر فرمایا کہ تمام کتابوں سے فارغ ہو کر مدینہ آنا چاہئے۔ میں نے یہ قصہ جا کر حضرت مولانا رحمت اللہ کے حضور پیش کیا اور عرض کیا کہ علم تو اس کو کہتے ہیں۔ یہ بھی عرض کیا کہ ہمارے شیخ تو ڈر گئے تھے مگر حضرت شاہ عبدالغنی صاحب نے تو حرم میں بیٹھ کر ہزارہا مخلوق کے سامنے فتویٰ دیا مگر کسی نے چُوں بھی نہ کی۔ فرمایا۔ شاہ صاحب بہت بڑے عالم ہیں۔‘‘

(حیات نوراز عبد القادرسوداگرمل باب اول صفحہ 53-54و مرقاة الیقین فی حیات نور الدین صفحہ 112و115)

حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں :

’’اعتکاف بیسویں کی صبح کو بیٹھتے ہیں۔ کبھی دس دن ہو جاتے ہیں اور کبھی گیارہ‘‘

(الفضل جلد2نمبر64مورخہ 12؍نومبر 1914ء ضمیمہ درس صفحہ84)

ہمارے پیارے امام سیدناحضرت خلیفة المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک دوست کے نام اپنے ایک خط میں تحریر فرمایا:

’’آپ نے اعتکاف شروع کرنے کی تاریخ کے بارہ میں سوال اٹھایا ہے۔ مرکز میں تو ہمیشہ سے یہ طریق رہا ہے کہ لوگ 20رمضان کی صبح سے لے کر عصر کے بعد تک بیٹھتے رہے ہیں۔ آجکل چونکہ رمضان کی تاریخوں کا پہلے ہی واضح طور پر پتہ لگ جاتا ہے اور اعتکاف میں دس دن پورے کرنے بھی ضروری ہوتے ہیں اس لئے انتظامیہ سہولت کے مطابق فیصلہ کر لیتی ہے۔ اور 20کی عصر کے بعد بھی بیٹھیں تو 10 دن تو پورے ہو ہی جاتے ہیں۔‘‘

(خط بنام مکرم ناز احمد ناصر صاحب محررہ 26؍اگست 2011ء)

پس ان ارشادات کی روشنی میں اعتکاف بیس رمضان المبارک کی صبح کوہی بیٹھنا چاہیے۔

اعتکاف کی جگہ

اعتکاف بیٹھناسنت رسولﷺ اور رمضان المبارک کا اہم عمل ہے۔ قرآن کریم نے اعتکاف کےلیے مساجد کوپسندیدہ جگہ اور انہیں لازم و ملزوم قرار دیا ہے جیساکہ سورة البقرة میں فرمایا:

…وَ عَہِدۡنَاۤ اِلٰۤی اِبۡرٰہٖمَ وَ اِسۡمٰعِیۡلَ اَنۡ طَہِّرَا بَیۡتِیَ لِلطَّآئِفِیۡنَ وَ الۡعٰکِفِیۡنَ وَ الرُّکَّعِ السُّجُوۡدِ۔ (البقرة:126)

ہم نے ابراہىم اور اسماعىل کو تاکىد کى کہ تم دونوں مىرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف بىٹھنے والوں اور رکوع کرنے والوں (اور) سجدہ کرنے والوں کے لئے خوب پاک و صاف بنائے رکھو۔

اسی طرح فرمایا:

وَ لَا تُبَاشِرُوۡہُنَّ وَ اَنۡتُمۡ عٰکِفُوۡنَ ۙ فِی الۡمَسٰجِدِ (البقرة:188)

اور ان سے ازدواجى تعلقات قائم نہ کرو جبکہ تم مساجد مىں اعتکاف بىٹھے ہوئے ہو۔

علماء نے مندرجہ بالا قرآنی آیات سے استدلال کرتے ہوئےمرد کامسجد میں اعتکاف ضروری قرار دیا ہے۔ چنانچہ علامہ نووی(متوفی:676ھ) بیان کرتے ہیں کہ

’’مرد کا مسجد کے سوا کسی اور جگہ اعتکاف کرنا درست نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

وَ لَا تُبَاشِرُوۡہُنَّ وَ اَنۡتُمۡ عٰکِفُوۡنَۙ فِی الۡمَسٰجِد

جو اس بات کی دلیل ہے کہ مسجد کے سوا کسی اور جگہ اعتکاف بیٹھنا جائز نہیں۔‘‘

(المجموع شرح المهذب جزء6صفحہ478)

اسی طرح حنبلی علامہ ابن قدامہ(متوفی:620ھ) لکھتے ہیں :

’’اگر معتکف مرد ہے تو اس کا مسجد کے علاوہ کہیں اور اعتکاف بیٹھنا درست نہیں۔ ہمارے نزدیک اہل علم کااس میں کوئی اختلاف نہیں اور اس کی بنیاد سورة البقرة کی آیت 188 ہے۔‘‘

(المغني لابن قدامة جزء3صفحہ 189)

اسی طرح حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں :

’’ولا اعتكافَ إلَّا في مسجدٍ جَامعِ‘‘

(ابوداؤد کتاب الصوم باب المعتكف يعود المريض)

کہ اعتکاف جامع مسجد میں بیٹھنا چاہیے۔

اس روایت کو بھی علماء بطور دلیل بیان کرتے ہیں کہ اعتکاف مسجد میں ہی بیٹھنا چاہیے۔ چنانچہ علامہ شوکانی(متوفی:1250ھ) اس حدیث کے ضمن میں بیان کرتے ہیں :

’’فِيهِ دَلِيلٌ عَلَى أَنَّ الْمَسْجِدَ شَرْطٌ لِلِاعْتِكَافِ‘‘

(نیل الاوطارللشوکانی جزء4 صفحہ317)

کہ یہ روایت اس بات کی دلیل ہے اعتکاف مسجد کے ساتھ مشروط ہے۔

اب مساجد میں اعتکاف کے بارے میں بھی علماءوفقہاء میں اختلاف ہے۔ علماء کا ایک گروہ(حضرت حذیفہؓ، سعید بن مسیبؒ وغیرہ) اس بات کا قائل ہے کہ صرف تین مساجد یعنی مسجدحرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ میں اعتکاف کیا جاسکتا ہے۔ جبکہ دوسرےگروہ (امام مالکؒ، ابن عبدالحکمؒ وغیرہ)کے نزدیک اعتکاف صرف جامع مسجد میں ہی بیٹھا جاسکتا ہے ہر مسجد میں نہیں کیونکہ اگر دوسری مسجد میں بیٹھے گا تو نماز جمعہ کی ادائیگی کےلیے اسے اپنی مسجد سے جامع مسجد آناپڑے گا جو اعتکاف کو منقطع کرنے کے مترادف ہوگا۔

تیسرے گروہ (امام ابوحنیفہؒ، امام شافعیؒ، ثوریؒ وغیرہ) کے نزدیک ہر مسجد جہاں مؤذن اور امام ہواور پنجوقتہ نمازیں ادا کی جاتی ہوں وہاں اعتکاف کیا جاسکتا ہے۔

جبکہ چوتھا گروہ مسجد کے علاوہ بھی ہر جگہ اعتکاف بیٹھنے کو جائز قرار دیتا ہے۔ مثلاً محمد بن عمر بن لبابہ مالکی وغیرہ

(بدایة المجتھد و ہدایة المقتصد جزء2صفحہ76)

علامہ ابن حجر(متوفی:852ھ) لکھتے ہیں :

’’وَاتَّفَقَ الْعُلَمَاءُ عَلَى مَشْرُوطِيَّةِ الْمَسْجِدِ لِلِاعْتِكَافِ إلَّا مُحَمَّدَ بْنَ عُمَرَ بْنِ لُبَابَةَ الْمَالِكِيَّ، فَأَجَازَهُ فِي كُلِّ مَكَان، وَأَجَازَ الْحَنَفِيَّةُ لِلْمَرْأَةِ أَنْ تَعْتَكِفَ فِي مَسْجِدِ بَيْتِهَا وَهُوَ الْمَكَانُ الْمُعَدُّ لِلصَّلَاةِ فِيهِ. وَفِيهِ قَوْلٌ الشَّافِعِيِّ قَدِيمٌ. وَفِي وَجْهٍ لِأَصْحَابِهِ وَلِلْمَالِكِيَّةِ: يَجُوزُ لِلرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ لِأَنَّ التَّطَوُّعَ فِي الْبُيُوتِ أَفْضَلُ‘‘

(فتح الباري لابن حجر جزء4صفحہ272)

یعنی علماء مسجد میں ہی اعتکاف بیٹھنےپر متفق ہیں سوائے محمد بن عمر بن لبابہ مالکی کے، اس نے ہر جگہ اعتکاف بیٹھنے کو جائز قرار دیا ہے۔ اور حنفیوں کے نزدیک صرف عورت اپنے گھر میں نماز کی مقرر کردہ جگہ پر اعتکاف بیٹھ سکتی ہے۔ اور اس بارے میں شافعی کا بھی ایک قدیم قول ہے۔ اور اس کے اصحاب اور مالکیوں کےلیے ایک توجیہ یہ ہے کہ وہ مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے یہ جائز قرار دیتے ہیں کیونکہ نفلی عبادت گھروں میں کرنا افضل ہے۔

یہی بات علامہ شوکانی نے نیل الاوطارمیں بیان کی ہے۔

الغرض نصّ سے تو مسجد میں ہی اعتکاف بیٹھنا رائج عمل ہے۔ لیکن بامر مجبوری یاکسی وبائی بیماری جیسے آج کل کورونا وبا کا زور ہے، تو ایسی صورت حال میں گھروں میں بھی صرف ایسی جگہ اعتکاف کیا جاسکتا ہے جو نمازیں ادا کرنے کےلیے مخصوص کی گئی ہو۔

چنانچہ جماعت احمدیہ کے پہلے خلیفہ حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحبؓ سے الہٰ آبادکے ایک دوست نے دریافت کیا کہ یہاں احمدیوں کی مسجد تو کوئی نہیں۔ میں نے ایک مکان اپنی رہائش کےواسطے کرایہ پر لیا ہوا ہے اسی کے ایک کمرے میں احمدی برادران نماز اور جمعہ پڑھ لیتے ہیں کیا ماہ رمضان میں وہاں میں اعتکاف کر سکتا ہوں ؟ فرمایا:

’’ہاں آپ وہیں اعتکاف کر لیں۔‘‘

(بدر کلام امیر اکتوبر تا دسمبر1912ء صفحہ11)

اسی طرح حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ سے سوال ہوا کہ کیا گھر میں اعتکاف ہوسکتا ہے؟ تو آپؓ نے فرمایا کہ مسجد کے باہر اعتکاف ہو سکتا ہے مگر مسجد والا ثواب نہيں مل سکتا۔

(الفضل6؍مارچ1962ء)

ہمارے پیارے امام سیدنا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس وبائی صورت حال میں بذریعہ سرکلراز طرف جماعت احمدیہ یوکےنہایت اعلیٰ راہ نمائی فرمائی کہ

’’اس بارہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا ارشاد بڑا واضح ہے کہ ’’مسجد کے باہراعتکاف ہوسکتا ہےمگر مسجد والا ثواب نہیں مل سکتا۔‘‘اور یہی میرا موقف ہے۔ تاہم عورتوں کو گھروں میں اعتکاف بیٹھنے کی اجازت ہے۔

نیز فرمایا:

’’باقی اعتکاف بیٹھنا ہر ایک کے لیے ضروری بھی نہیں لیکن چونکہ آجکل لوگوں کو مسجدوں میں نماز یا جمعہ کے لیے آنے کی اجازت نہیں، اس لیے گھروں میں کسی نے نماز کے لیے کوئی معین جگہ کی ہوئی ہے جہاں لوگوں کا عام آنا جانا نہیں ہے تو وہاں اعتکاف بیٹھا جاسکتا ہے۔ اس صورت میں پھر گھر والے مل کر باجماعت نمازوں کے ساتھ ساتھ اس جگہ جمعہ بھی ادا کریں۔ لیکن یہ اجازت صرف مجبوری کے حالات میں ہے۔ عام دنوں میں مسجدوں میں ہی اعتکاف بیٹھنا چاہیے۔‘‘

(سر کلر از طرف جماعت یوکےمورخہ9؍مئی 2020ء)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ

٭…اعتکاف بیٹھناہر ایک کے لیے ضروری بھی نہیں ہے۔

٭…اعتکاف مسجد میں بیٹھنا افضل، لازم اور پسندیدہ عمل ہے۔

٭…بامر مجبوری یا وبائی صورت حال میں گھر میں قائم کردہ مسجد میں اعتکاف کیا جاسکتا ہے۔

٭…معتکف کوگھر میں قائم کردہ مسجدسے غیرضروری باہر نہیں نکلنا چاہیے سوائے حوائج ضروریہ کے۔

٭…گھر کی مسجد میں معتکف اپنے آپ کو عبادات میں مشغول رکھے۔ نماز باجماعت، نوافل، روزہ، ذکرالٰہی، تلاوت قرآن کریم کا خصوصی التزام کرے۔

٭…امسال اعتکاف کی نیت کرنےوالے کو اس صورت حال میں مسجد میں اعتکاف نہ ہونے کی صورت میں بھی اللہ اجر عطا فرماسکتا ہے۔

٭…ان حالات کے پیش نظر گھر میں اعتکاف بالکل اعتکاف نہ ہونے سے بہتر ہے لیکن یہ وقتی اجازت ہے تاآنکہ اللہ تعالیٰ اس وبا سے نجات بخشے اورمعمولات زندگی بحال ہوں اورمساجد میں اعتکاف کیا جا سکے۔

اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ وہ ہمیں اس وبا سے جلد نجات عطا فرمائے تاکہ ہم مساجد میں پہلے سے بڑھ کر خدائے وحدہ لاشریک کی عبادت بجالانے والے ہوں اور ماہ رمضان کی برکات و فیوض سے مستفیض ہوکر قرب و رضائے الٰہی کے وارث بنیں۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button