متفرق مضامین

کتب مینار (قسط دوم)

(اواب سعد حیات)

[تسلسل کے لیے دیکھیں الفضل انٹرنیشنل 12؍مارچ2021ء]

تائید حق

مصنفہ

حضرت مولوی حسن علی رضی اللہ عنہ

(ولادت:22؍اکتوبر1852ء۔وفات:2؍فروری1896ء)

حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ مولوی حسن علی صاحب بھاگلپوری رضی اللہ عنہ کے متعلق فرماتے ہیں کہ

’’انہوں نے ایک کتاب تائید حق بھی لکھی ہے۔جو نہایت اعلیٰ درجہ کی کتا ب ہے۔ میں نے ایک دفعہ اس کتاب کو پڑھنا شروع کیا۔ تو میں اس وقت تک سویا نہیں جب تک کہ میں نے اس ساری کتاب کو ختم نہ کرلیا۔ ‘‘

(الفضل 11؍جنوری 1958ءصفحہ 3کالم 4)

حضرت مولوی حسن علی صاحب بھاگلپور صوبہ بہار انڈیا کے رہنے والے تھے۔ انٹرنس تک تعلیم مکمل کی تو ایک مقامی بزرگ کی صحبت میں توکل علی اللہ اور دعا کی طرف رجحان ہوگیا۔ 1874ء میں شادی کے بعد آپ پٹنہ ہائی سکول میں ہیڈ ماسٹر بن گئے۔ آپ عابد و زاہد، بڑے فصیح البیان واعظ اور اعلیٰ درجہ کے اوصاف سے متصف تھے۔ لوگ آپ کے تجدیدی کاموں کودیکھ کر آپ سے شدید متاثر ہوتے تھے۔ مولوی صاحب اپنے فطری رجحان کی وجہ سے اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں مصروف رہتے تھے۔ اور1886ء میں سکول کی ہیڈماسٹری سے استعفیٰ دے کر اسلام کی تبلیغ و اشاعت کااہم فریضہ اپنے ذمہ لیا۔ اور شہر بہ شہر لیکچر دینے لگے۔

حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نےایک دفعہ آپ کے متعلق فرمایا کہ مولوی حسن علی بھاگلپوری گریجوایٹ نہ تھے۔ مگر انگریزی میں ان کی اتنی قابلیت تھی کہ ہزاروں آدمی جمع ہوجاتے تھے اور ان کی تقریر سنتے تھے۔

انہوں نے 1894ء میں بیعت کی سعادت پائی ان کی مشہور ترین کتاب تائید حق ہے۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ نے ان کے بارے میں قابل رشک الفاظ میں فرمایا:

’’خدا مولوی حسن علی مرحوم پر اپنا رحم اور برکت نازل کرے۔ میں یہ دعا اس لئے بھی کرتا ہوں کہ اس کا خاتمہ بالخیر ہو۔ اور وہ قابل رشک خاتمہ ہے کہ وہ امام الزماں کی محبت اور اس کے تعلق کو آخری دم تک ساتھ رکھتا تھا۔ میری دلی تمنا اور سچی پیاس ہے کہ میرا ایمان مرزا صاحب کی محبت کو آخری دم تک رکھے اورمیر ا خاتمہ اسی صادق امام کی محبت میں ہو۔ حسن علی اس غدار دنیا سے اٹھ گیا اور اس کے ایمان کا بھی اس کے ساتھ ہی خاتمہ ہوا۔ لیکن کس قدر خوشی کی بات ہے کہ غداری کا داغ اس نے نہ لیا۔ وہ ابتلاؤں اور ٹھوکروں سے محفوظ رہا۔ اور اسی ایمان پر وصال پا گیا۔ خدا ایسا ہی خاتمہ میرا اورمیرے دوسرے بھائیوں بلکہ کل مسلمانوں کاکرے۔ آمین‘‘

آپ1887ءمیں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی زیارت کے لیے آئے۔

(تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحہ 209)

اس کی تفصیل یوں ہے کہ مولوی صاحب 1887ء میں انجمن حمایت اسلام لاہور کے جلسہ پر تشریف لائے اور امرتسر میں بابو محکم الدین صاحب مختار عدالت اور دوسرے لوگوں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر سنا۔ اس وقت آپ نے کوئی دعویٰ نہیں کیا تھا۔ اور نہ ابھی بیعت لیتے تھے البتہ براہین احمدیہ اور دوسری کتابیں شائع ہو چکی تھیں۔ اکثر نیک دل اور سلیم الفطرت لوگ آپ سے فیض پانے کے لیے قادیان بھی آتے رہتے تھے۔ حضرت مولوی حسن علی صاحبؓ نے اپنے واقعہ کا خود اپنی قلم سے ذکر کیا جو ان کی کتاب تائید حق میں چھپاہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں :

’’جب میں امرتسر گیا تو ایک بزرگ کا نام سنا۔ جو مرزا غلا م احمد کہلاتے ہیں ضلع گورداسپور کے ایک گاؤں قادیان نامی میں رہتے ہیں اور عیسائیوں، برہمو اور آریہ سماج والوں سے خوب مقابلہ کرتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے ایک کتاب براہین احمدیہ نام بنائی ہے جس کا بڑاشہرہ ہے۔ ان کا بہت بڑا دعویٰ یہ ہے کہ ان کو الہام ہوتاہے۔ مجھ کویہ دعویٰ معلوم کر کے تعجب نہ ہوا۔ گو میں ابھی تک اس الہام سے محروم ہوں جو نبی کے بعد محدث کو ہوتا رہاہے لیکن میں اس بات کو بہت ہی عجیب نہیں سمجھتا تھا۔ مجھ کو معلوم تھا کہ علاوہ نبی کے بہت سے بندگان خدا ایسے گزرے ہیں جو شرف مکالمہ الٰہیہ سے ممتاز ہوا کرتے ہیں۔ غرض میرے دل میں جنا ب مرزا غلام احمد صاحب سے ملنے کی خواہش ہوئی۔ امرتسر کے دو ایک دوست میرے ساتھ چلنے کو مستعد ہوئے۔ ریل پر سوار ہو کر بٹالہ پہنچا۔ ایک دن بٹالہ میں رہا پھر بٹالہ سے یکہ کی سواری ملتی ہے اس پر سوار ہو کر قادیان پہنچا۔ مرزا صاحب مجھ سے بڑے تپاک اور محبت سے ملے۔ جناب مرزا صاحب کے مکان پر میرا وعظ ہوا۔ انجمن حمایت اسلام لاہور کے لئے چندہ بھی ہوا۔ میرے ساتھ جو صاحب تشریف لے گئے وہ مرزا صاحب کے دعویٰ الہام کی وجہ سے سخت مخالف تھے اور مرزا صاحب کو فریبی اور مکار سمجھتے تھے۔ لیکن مرزا صاحب سے مل کر ان کے سارے خیالات بدل گئے اور میرے سامنے انہوں نے جناب مرزا صاحب سے اپنی سابق کی بدگمانی کے لئے معذرت کی۔ ‘‘

حضرت مولوی حسن علی صاحبؓ کو حضرت مسیح موعودؑ کی مہمان نوازی کو دیکھ کر بہت تعجب سا گزرا۔ انہوں نے اپنی اسی کتاب میں واقعہ لکھا ہے کہ

’’ایک چھوٹی سی بات لکھتاہوں جس سے سامعین ان کی مہمان نوازی کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ مجھ کو پان کھانے کی بُری عادت تھی۔ امرتسر میں تو مجھے پان ملا۔ لیکن بٹالہ میں مجھ کو کہیں پان نہ ملا ناچار الائچی وغیرہ کھا کر صبر کیا۔ میرے امرتسر کے دوست نے کما ل کیاکہ حضرت مرزا صاحب سے نہ معلوم کس وقت میری اس بری عادت کا تذکرہ کر دیا۔ جناب مرزا صاحب نے گورداسپور ایک آدمی روانہ کیا دوسرے دن گیارہ بجے دن کے جب کھانا کھا چکا تو پان موجود پایا۔ سولہ کوس سے پان میرے لئے منگوایا گیا تھا۔ ‘‘

(تائید حق صفحہ 54)

یہ واقعہ اس شخص نے بیان کیا ہے جو اسلامی جوش تبلیغ اور اپنی قربانی کے لحاظ سے بے غرض اور صاف گو تھا اور واقعہ اس زمانہ کا ہے جب کہ آپ کا کوئی دعویٰ مسیحیت یا مہدویت کا نہ تھا اور نہ آپ بیعت لیتے تھے۔ ایک مہمان کی ضرورت سے واقف ہو کر اس قدر تردد اور کوشش کہ سولہ کوس کے فاصلہ سے پان منگوا یا گیا۔ مہمان نوازی کے اس وصف نے اس شخص کو جو ہندوستان کے تمام حصوں میں پھرچکا تھا اور بڑے بڑے آدمیوں کے ہاں مہمان رہ چکا تھا، حیران کر دیا۔ حضرت مولوی حسن علی صاحبؓ کی سعادت اور خوش قسمتی تھی کہ جو آپ کو سات سال بعد1894ء میں پھر قادیان لائی اور اس کو حضرت اقدسؑ کی غلامی کی عزت بخشی جس پر وہ ساری عزتوں کو قربان کرنے کے لیے تیار ہو گیا۔

آپ کی اسلامی خدمات، مقبولیت اور عوام الناس پر اثر و رسوخ کا یہ عالم تھا کہ کہتے ہیں کہ جب مسٹر الیگزنڈر رسل ویب کے اسلام کا چرچا ہندوستان میں ہوا تو بمبئی کے متدین مسلمان اور میمن تاجر حاجی عبداللہ صاحب اشاعت اسلام کے شوق میں ویب کے پاس منیلا (فلپائن)گئے اور انہیں وہاں سفارت کے عہدے سے استعفیٰ دینے پر رضامند کرلیا اور خود واپس پہنچ کر ہندوستان کے مشہور مسلم مشنری حضرت مولوی حسن علی بھاگلپوری رضی اللہ عنہ کے ذریعہ سے حیدر آباد میں ایک بھاری جلسہ منعقد کرکے چھ ہزار روپے کا چندہ کرلیا۔

(تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحہ 307)

تلاش حق اور قبول حق کے بعد پیش آنے والی مخالفت میں بھی حضرت مولوی حسن علی بھاگلپوریؓ نمونہ تھے۔ آپ خود بتاتے ہیں کہ ہوایوں کہ 13؍جنوری 1894ء مَیں اپنے امام سے رخصت ہو کر لاہور میں آیا اور ایک بڑی دھوم دھام کا لیکچر انگریزی میں دیا جس میں حضرت اقدسؑ کے ذریعہ سے جو کچھ روحانی فائدہ ہوا تھا اس کا بیان کیا۔ جب میں سفر پنجاب سے ہو کر مدراس پہنچا تو میرے ساتھ وہ معاملات پیش آئے جو صداقت کے عاشقوں کو ہر زمانے و ہر ملک میں اٹھانے پڑتے ہیں۔ مسجد میں وعظ کہنے سے روکا گیا۔ ہر مسجد میں اشتہار کیا گیا کہ حسن علی سنت و جماعت سے خارج ہے کوئی اس کا وعظ نہ سنے۔ پولیس میں اطلاع دی گئی کہ مَیں فساد پھیلانے والا ہوں۔ وہ شخص جو چند ہی روز پہلے شمس الواعظین جناب مولانا مولوی حسن علی صاحب، واعظ اسلام کہلاتا تھا۔ صرف حسن علی لیکچرر کے نام سے پکارا جانے لگا۔ پہلے واعظوں میں ایک ولی سمجھا جاتا تھا اب مجھ سے بڑھ کر شیطان دوسرا نہ تھا۔ جدھر جاتا انگلیاں اٹھتیں۔ سلام کرتا جو اب نہ ملتا۔ مجھ سے ملاقات کرنے کو لوگ خوف کرتے ہیں۔ ایک خوفناک جانور بن گیا۔ جب مدراس میں مسجد یں میرے ہاتھوں سے نکل گئیں تو ہندوؤں سے پیچھا ہال لے کر ایک دن انگریزی میں اور دوسرے دن اُردو میں حضرت اقدس امام زمانؑ کے حال کو بیان کیا جس کا اثر لوگوں پر پڑا۔

(تائید حق، صفحہ78تا79)

مولوی حسن علی صاحب بھاگلپوریؓ لوگوں کو بتاتے تھے کہ لوگ مجھ سے کہتے ہیں کہ پوچھو کہ مرزا صاحب سے مل کر کیا نفع ہوا۔ اجی !بے نفع ہوئے، کیا مَیں دیوانہ ہو گیا تھا کہ ناحق بدنامی کا ٹوکرا سر پراٹھا لیتا اور مالی حالت کو سخت پریشانی میں ڈالتا۔ کیا کہوں کیا ہوا۔ مردہ تھا زندہ ہو چلا ہوں، گناہوں کا علانیہ ذکر کرنا اچھا نہیں۔ ایک چھوٹی سی بات سناتا ہوں۔ اس نالائق کو 30برس سے یہ قابل نفرت بات تھی کہ حقہ پیا کرتا تھا۔ بار ہا دوستوں نے سمجھایا خود بھی کئی بار قصد کیا لیکن روحانی قویٰ کمزور ہونے کی وجہ سے اس پرانی زبردست عادت پر قابو نہ ہو سکا۔ الحمدللہ مرزا صاحب کی باطنی توجہ کایہ اثر ہوا کہ آج قریب ایک برس کا عرصہ ہوتا ہے کہ پھر اس کمبخت کو منہ نہیں لگایا۔

حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نےمولوی صاحب کے بارے میں فرمایا کہ

’’مولوی صاحب شروع شروع میں ایمان لائے پھر احمدیت کی تبلیغ کے لئے ملک کے مختلف علاقوں میں پھرتے رہے۔ ‘‘

ایک اور موقع پر فرمایا کہ

’’وہ اسی طرح بغیر کسی معاوضہ کے دین کی خدمت کے لئے پھرتے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے لئے بطور شاہد کے تھے۔ ‘‘

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے اپنی کتاب انجام آتھم میں 313؍کبار اصحاب میں آپ کا نام 91ویں نمبر پر درج فرمایا۔ حضور علیہ السلام نے آپ کو انگلستان میں تبلیغ اسلام کے لیے بھجوانے کے لائق سمجھتے ہوئے اپنی جماعت کو ان کا معاون اور رقم فراہم کرنے کی تلقین فرمائی تھی۔ اور آپ کو تقی، ذکی اور برگزیدہ قرار دیا تھا۔ افسوس کہ آپ کی عمر نے وفا نہ کی اور محض ساڑھے تنتالیس سال کی عمر میں 2؍فروری 1896ء کو وفات پاگئے۔

مولوی صاحب کی کتاب ’’تائید حق‘‘ان کی سوانح عمری کا رنگ رکھتی ہے جو بیک وقت اُس زمانہ کی مذہبی تاریخ، شخصیات اور تحریکات کی ثقہ معلومات کو بھی سمیٹے ہوئے ہے۔

آپ کی اس کتاب کے کل ڈیڑھ صد صفحات ہیں، اس کتاب کے اب تک متعدد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ زیر نظر ایڈیشن 1897ء میں حضرت جناب سیٹھ عبدالرحمٰن مدراسی صاحب رضی اللہ عنہ نے پنجاب پریس سیالکوٹ سے منشی غلام قادر فصیح کے زیر اہتمام طبع کروایا تھا۔

اس کتاب میں مصنف نے اپنی بات کی تائید میں مشرق و مغرب کی مثالیں لانےکے ساتھ ساتھ آیات قرآنیہ اور موزوں اردو، فارسی اشعار سے بھی اپنا مافی الضمیر کماحقہ ادا فرمایا ہے۔ مضامین کے بیان میں مصنف کی کثرت مطالعہ، گہرے مشاہدہ اور حساس طبیعت کا اظہار ہوتا ہے۔ نثر کے ساتھ ساتھ منظوم کلام پر عبور نظر آتا ہے۔

اس کتاب میں آپ نے بتایا کہ سچے خیرخواہوں کے ساتھ ہمیشہ کیسا سلوک ہوا، موجودہ اہل اسلام کی روحانی حالت کیسی ہے، پہلا دشمن : یوروپین علوم و فلسفہ، دوسرا دشمن: عیسائی پادری صاحبان، تیسرا دشمن : آریہ سماج ہے، چوتھا دشمن: برہموسماج ہے، پانچواں دشمن: نیچری مذہب ہے، چھٹا دشمن: مولوی ہے، جبکہ ان مسلمانوں کا ساتواں دشمن بہکے اور بگڑے ہوئے مشائخ و صوفیاء ہیں۔

اور پھر اس کتاب میں مضامین کا رخ موڑ کر آپ لکھتے ہیں کہ کچھ حال اس خاکسار کا، کہ حضرت مہدیؑ کو کیوں کر ڈھونڈااور کس طرح پایا۔ یہاں سے وہ ایمان افروز سوانح عمری شروع ہوتی ہے کہ کس طرح سعید فطرت لوگوں کو تلاش حق میں مدد ملتی ہے۔ حضرت مولوی حسن علی صاحبؓ کی دین سے محبت کا یہ عالم تھا کہ آپ نے اپنی تصنیف محض 13؍برس کی عمر میں مکمل کی۔ 1872ء کی اس کتاب کو یاد کرکے آپ خود حیران ہوتے تھے کہ وہ زمانہ کہ جب ابھی مصنف کی داڑھی مونچھ بھی نہ نکلی تھی وہ قوم کے درد میں روتا اور اس کو نیند سے بیدار کرنےکے لیے بےچین رہتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مذاہب عالم کی بھی جستجو اور سیر نصیب کی، اپنے حالات زندگی کے بیان میں بتاتے تھے کہ آپ نے ایک کتاب معراج المومنین لکھی، جسے انجمن حمایت اسلام نے درسی کتب میں منتخب کیا، آپ کو اللہ تعالیٰ نے اولاد کی نعمت سے نوازا، آپ کے جاری کردہ رسالہ اور آپ کے لیکچرز کا شہرہ ہونے لگا۔ لوگ آپ کو مجدد گرداننے لگے۔ یہاں تک کہا گیا کہ جس طرح امام غزالی اپنے وقت میں کام کیا کرتے تھے، اسی طرح حسن علی بھی اپنے وقت میں مصروف کار ہے۔

اس کتاب میں اپنے حالات زندگی کے بیان میں آپ نے سر سید احمد خان کی شخصیت اور مشن کے متعلق بعض بڑے جاندار اور ٹھوس تبصرے اور تجزیے کیے ہیں۔ اسی طرح انجمن حمایت اسلام کے اندرونی معاملات پر روشنی ڈالی ہے۔ نیز ایک چارٹ بنا کر بتایا کہ کس طرح ہندوستان کے مختلف بڑے چھوٹے شہروں میں آپ کو دورے کرنے اور وہاں تبلیغ اسلام کے ساتھ ساتھ یتیم خانے اور مدرسے قائم کروانے کا موقع ملا، بعض دفعہ توان عوامی بھلائی کے منصوبوں کے لیے رؤساء شہر سے پانچ پانچ چھ چھ ہزار روپیہ چندہ جمع کرلیا کرتے تھے۔

حضرت مولوی حسن علی صاحبؓ نے دیگر عالیان مملکت، علمائے وقت اور نامی گرامی لوگوں کے تذکرے میں حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحبؓ سے ملاقات اور گفتگو کو بھی اس کتاب میں درج کیا ہے اورحضرت صوفی احمدجان صاحبؓ کی کتاب ’’طب روحانی ‘‘اور ان کے روحانی کمالات کے متعلق بھی لکھا ہے۔

حضرت مولوی حسن علی صاحبؓ نے حضرت سیٹھ اللہ رکھا عبدالرحمٰن صاحب کی معیت اوران کے اصرار پرقادیان میں اپنےتیرہ روزہ قیام کا احوال درج کیا ہے اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی صحبت، دیدار اور حسن سلوک کے غیر معمولی اثرات کا تفصیلی ذکر کیا ہے اور بتایا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی کون کون سی تصانیف دیکھنے اور پڑھنے کا موقع ملا، اوران کتب سے کیا روحانی اور علمی اوراخلاقی فوائدحاصل ہوئے۔ مخالفین احمدیت میں مولوی محمد حسین بٹالوی کی حالت کا ذکر کیا، اور کتاب کے اس حصہ کے آخر پر بیعت کے فوائد بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ

’’ قرآن کریم کی جو عظمت اب میرے دل میں ہے، خود پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت جو میرے دل میں اب ہے پہلے نہ تھی۔ یہ سب حضرت مرزا صاحب کی بدولت ہے۔ گومیرا جسم بھاگل پور یا بنگالہ میں ہوتا ہے لیکن میری روح قادیان میں ہی ہے۔ الحمدللہ علی ذالک‘‘

کتاب کے اگلے حصہ میں آپؓ نے ایک قابل قدر شہادت کے عنوان سے امریکہ میں تبلیغ اسلام، الیگزنڈر رسل ویب، سندھ کے پیر اشہد [رشید]الدین جھنڈے والے، حاجی عبداللہ عرب صاحب وغیرہ کے متعلق درست معلومات تفصیل سے درج کرکے بتایا کہ کس طرح ان لوگوں کو توجہ کرنے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی صداقت اورآپ کےعظیم الشان مشن کی کامیابی کے متعلق واضح ترین خوابوں کے ذریعہ رہ نمائی ملی۔ اسی طرح آپ نے لوگوں کو اس بابت استخارہ کرنے اور رہ نمائی طلب کرنے کے لیے دعائیں کرنے کی تلقین بھی کی۔

اس کتاب ’’تائید حق‘‘میں اگلی سرخی ’’کچھ اختلاف کا بیان‘‘ میں مولوی حسن علی صاحب نے ملک کے مولویوں کو آسان او رسادہ انداز اور الفاظ میں سمجھایا کہ کس طرح وہ بغیر کسی مشکل کے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے دعویٰ، مقام اور مشن کو پہچان سکتے ہیں۔ عاجزی اور انکساری کی تعلیم دیتے ہوئے آپؓ نے مسئلہ وفات مسیح اور صداقت حضرت مسیح موعودعلیہ السلام پر عقلی اورنقلی دلائل سے روشنی ڈالی ہے۔ حضرت مولوی حسن علی صاحبؓ نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے علم الکلام سے استفادہ کرتے ہوئے مخالفین احمدیت کے لیے دلائل و براہین کے انبار جمع کردیے ہیں۔ رسالہ ’’تائید حق ‘‘میں حضرت شاہ اسماعیل شہید کی کتاب ’’اربعین فی احوال مہدیین ‘‘میں درج پیش گوئی بابت امام مہدی اور رفع الی السماء اور دجال معہود، ابن صیاد وغیرہ کے موضوعات پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے مشن کی حقیقت بتا کر اس بابت ناروا اعتراضات کے جواب دیے ہیں۔

اس بظاہر ناتمام رسالہ کے آخر پر حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ کا دو صفحات پر مشتمل ایک نوٹ موجود ہے جو کتاب، مصنف اور موضوع پر حرف آخر ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button