متفرق مضامین

بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل

(پروفیسر نصیر حبیب۔ لندن)

تمام آدم زادوں کے لئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفی ٰصلی اللہ علیہ وسلم

انیسویں صدی میں دجّالی فتنوں کا طوفان اس قدر تند و تیز تھا کہ دامان خیال یار چھوٹا جا رہا تھا خصوصاً 1857ء کے ہنگامے کے بعد سر سید لکھتے ہیں کہ اس غم نے مجھے بوڑھا کر دیا اور سوچا کہ یہاں سے ہجرت کر جاؤ ں۔

مسلمانوں کے لیے کوئی امید کی کرن نظر نہیں آتی تھی۔ مغرب کے سیاسی اور فکری غلبہ کا یہ عالم تھا کہ بقول غالب کعبہ میرے پیچھے ہے اور کلیسا میرے آگے۔سر سید کہتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دین کے معاملات میں ہمارے مطاع ہیں لیکن دنیا کے معاملات میں نہیں۔اورحیرت یہ ہے کہ علمائے کرام کے سامنے بھی اس جگر سوز اور جاں گداز صورت حال میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ نہیں تھا۔

چنانچہ مفتی محمود صاحب نقش حیات کے دیباچہ میں لکھتے ہیں:

’’عام لوگ سمجھتے ہیں کہ جھوٹ ہر حالت میں برا اور حرام ہے حالانکہ جھوٹ بعض اوقات فرض اور واجب ہوتا ہے۔ ہمارے بزرگوں نے 1857ء میں سب کچھ کیا مگر جب انگریز حکام نے پوچھا تو سب انکار کر کے چلے آئے۔‘‘

( نقش حیات جلد دوم صفحہ 205)

آج سے چودہ سو سال قبل دانائے سبل ختم الرسل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا یہ صدی جس میں مَیں ہوں بڑی خیروبرکت کی بھری ہوئی ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دوسری صدی بھی خیر و برکت والی ہوگی اور پھر تیسری صدی پر بھی اس کا اثر پڑے گا پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یَفْشُوْاالْکَذِبُ۔ حالانکہ قرآن پاک موجود تھا۔ تعامل اور حدیث ان میں تھی لیکن کوئی مزّکی نہیں رہا تھالہٰذا زہر قوم میں سرایت کر گیا۔آج بھی جس کا رونا لوگ رو رہے ہیں۔وہ کسی نے خوب کہا ہے کہ ؎

جو باتیں پی گیا تھا میں وہ باتیں کھا گئیں مجھے

اسی کا ہی شاخسانہ ہے کہ مسلم دنیا میں کرپشن کا مسئلہ سب سے بڑا مسئلہ ہے۔علماء کا یہ حال تھا اور مسلمانوں میں جو طبقہ مغربی تعلیم سے آراستہ تھا اس کے بھی آئیڈیل بدل گئے تھے۔وہ بھی آہستہ آہستہ آستانِ یار سے اٹھ رہا تھا۔چنانچہ پاکستان کے ایک سابق وزیر اعظم اپنی بیٹی کو لکھتے ہیں:

You have all the books you need. Read about Napoleon Bonaparte. The most complete man of modern History

(Daughter of the East page 37)

یہ وہ اثر تھا جو کہ سرسید احمد خان کے خیالات کے نتیجے میں مغربی تعلیم یافتہ طبقہ کے خیالات پر پڑا۔

’’ جو زہر پی چکا ہوں تمہی نے مجھے دیا ‘‘

نپولین تو دنیا کے معاملات میں بھی میرے آقا و مطاع صلی اللہ علیہ وسلم کی خاک پا بھی نہیں۔جب واٹر لو کے میدان میں اس کی فوجیں بھاگ رہی تھیں اور نپولین یہ سوچ رہا تھا کہ اپنے آپ کو جرمنوں کے حوالے کروں یا انگریزوں کے۔اور اسی طرح کا معاملہ جب غزوہ حنین میں پیش آیا تیروں کی بوچھاڑ میں مکے کے نو مسلم بھاگ کھڑے ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ثابت قدم رہے اور فرمایا :

اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ

اَنَا اِبْنُ عَبْدِ المُطَّلِبْ

اس وحشت ناک ماحول میں جب آنحضرت ﷺ کی صدا بلند ہوئی تو آپؐ کے جانثار صحابہ آپؐ کے روحانی حسن کی کشش سے اپنی بھاگتی ہوئی اونٹنیوں کی گردنیں کاٹتے ہوئے واپس پلٹے اور دشمن کو میدان چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔

اگر خواہی دلیل عاشقش باش

محمدؐ ہست برہان محمدؐ

چنانچہ یہ وہ عشق رسولؐ تھا جسے دلوں میں جاگزیں کرنے کے لیے حضرت مسیح موعود ؑتشریف لائے۔او ر اس تناظر میں جب علماءجھوٹ بول کر چلے آرہے تھے اورمغربی تعلیم سے متاثرطبقہ مغرب کی دریوزہ گری کر رہا تھا آپؑ نے آوازۂ حق بلند کیا کہ

’’تمام آدم زادوں کے لئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفی ٰصلی اللہ علیہ وسلم سو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ وجلال کے نبی کے ساتھ رکھو اور اُس کے غیر کو اُس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ‘‘

(کشتی نوح،روحانی خزائن جلد 19صفحہ 13تا14)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button