متفرق مضامین

آنحضورﷺکی دشمنوں سے حفاظت کے ضمن میں ہستی باری تعالیٰ کے چند ناقابل تردید ثبوت

(م۔ الف۔ کاہلوں)

انبیا علیہم السلام کی الہامی پیشگوئیاں اپنے اندربشارتوں اور انذار کے پہلو لیے ہوئے ہوتی ہیں۔ ان میں نمایاں اور ممتاز پہلو ہستی باری تعالیٰ کا ثبوت اورذات حق کے فرستادہ اور ایستادہ کے منجانب اللہ ہونے کے ہوتے ہیں۔ اسی طرح کی ایک پیشگوئی قرآن کریم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے مذکور ہے کہ

وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ(المائدۃ:68)

یعنی اوراللہ تجھےلوگوں (کے حملوں ) سے محفوظ رکھے گا۔

یہ ایک جانب اللہ تعالیٰ کی ہستی کازندہ و تابندہ اور درخشندہ ثبوت ہے تو دوسری طرف حضرت خیرالانام صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کی صداقت وحقانیت کا نشان جاودانی ہے۔ اس پیشگوئی کی عظمت و جلال دیکھیے کہ اس میں جس امر کا ذکر ہےوہ کسی بھی انسان کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے یعنی موت و حیات۔ اس الہامی پیش خبری کے بعدحضرت سیدالانبیاءصلی اللہ علیہ وسلم کا باوصف پرخطرواقعات وحالات کے زندہ رہنا اور

اِذَا جَآءَ نَصۡرُ اللّٰہِ وَ الۡفَتۡحُ ۙ۔ وَ رَاَیۡتَ النَّاسَ یَدۡخُلُوۡنَ فِیۡ دِیۡنِ اللّٰہِ اَفۡوَاجًا۔ (النصر:2تا3)

کا روح پرورنظارہ دیکھ کر وصال فرمانا کیا یہ اس بات کا روشن اورتابناک ثبوت نہیں ہے کہ اس عالم آب و گل کا کوئی خالق و مالک اورقادرخدا بھی ہے۔ جس کے قبضہ قدرت میں کائنات کی حیات و موت ہے۔ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کی روشنی میں چند واقعات پیش ہیں جو اس مضمون کوجلا بخشتے ہیں کہ کس طرح وعدہ حفاظت الٰہی حضرت اقدس خیرالوریٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں پورا ہوا اور پوری شان وشوکت اور جاہ و جلال سے منصہ شہود پہ آیا۔ جوہستی باری تعالیٰ کے ناقابل تردیدثبوت بھی ہیں اوروادی فاران کے افق پرجلوہ گرہونے والے سراج منیرکی سچائی کا بین نشان بھی ۔وادئ بطحا سے جب یہ صدا بلندہوئی کہ اس عالم فانی کا ایک ہی خالق ومالک خدا ہے جو اپنی ذات، صفات اور اعمال وافعال میں یکتا و بے مثل ہے۔ وہ ذات حق جملہ خوبیوں اور صفات حسنہ کی مالک اورہرقسم کے نقائص اورکمزوریوں سے منزہ اور پاک ہے اورمیں اسی خداوندکریم کا فرستادہ اوررسول ہوں جو تمہاری ہدایت و رہ نمائی کے لیے مبعوث ہوا ہے۔ اس ندائے حق کا بلندہونا ہی تھا کہ تین سوبتوں کے پجاری آگ بگولہ ہوگئے۔ تندئ باد مخالف کے جھکڑ چلنے لگے۔ مخالفت کے طوفان بادوباراں امڈ آئے۔ مہیب خطرات کے سائے سراٹھانے لگے۔ نوبت یہاں تک آپہنچی کہ مکہ کے ایوان شوریٰ(دارالندوہ)میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نعوذباللہ قتل کی پلاننگ کی گئی اوراس سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا ننگی تلواروں سے محاصرہ بھی کرلیا گیا۔ لیکن تقدیرخداوندی غالب آئی اورآنحضورصلی اللہ علیہ وسلم بہ رعایت اسباب دشمنوں کے سروں پر خاک ڈالتے ہوئےبحفاظت غارثورپہنچ گئے۔ دشمن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کھوج وتلاش میں اپنے کھوجیوں سمیت اس غار کے دہانے تک پہنچ گیا۔ مولا کریم کے دست قدرت نے اپنی دستگیری فرمائی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم دشمن کی ناپاک نگاہوں سے محفوظ رہے۔ کھوجیوں نے بہتیرا کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی غار میں ہیں۔ اگرنہیں ہیں توپھر زمین کھا گئی ہے یا آسمان پہ چلے گئے ہیں۔ مگر کفارمکہ نہ مانے۔ کیونکہ قدرت حق نے جو ظاہری حفاظت کے سامان پیدا فرمائے تھے وہ کھوجیوں کی بات کی نفی کررہے تھے اس لیے کفار مکہ بے نیل ومرام واپس لوٹ گئے۔ سفرہجرت مدینہ بھی نہایت پر خطرتھا۔ قریش مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زندہ یا مردہ حالت پر سوسرخ اونٹوں کا انعام دینے کا اعلان عام کررکھا تھا۔ اس زمانہ میں سواونٹوں کا مالک ہونا عرب میں بہت بڑی امارت کی علامت متصور ہوتی تھی۔ اس انعام کے لالچ میں ہرکس وناکس تلاش میں نکل پڑا۔ مکہ اور مدینہ کےدرمیان قبائل بھی متحرک ہوگئے۔ سراقہ نامی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تعاقب میں آپ تک پہنچ گیا۔ اس نے متعدد بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کی جسارت کی مگرناکام رہا۔ یہاں بھی اللہ تعالیٰ کا وعدہ حفاظت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن گیر رہا۔ بلکہ سراقہ کواپنے اقدام قتل کی ناکامی کی صورت میں اپنی جان کے لالے پڑگئے اور اس نے بارگاہ نبوت میں نہایت الحاح اور عاجزی سےجان کی امان پانے کی التجا کی جو نبی رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے شفقت سے عطا فرمائی۔ سفرہجرت بھی بخیروخوبی طے ہوا اور اللہ تعالیٰ کی تائیدونصرت کے عظیم الشان جلوے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں ظاہر ہوئے۔

ابتدامیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مدینہ میں قیام دارالسروراوردارالامن جیسا نہ تھا۔ مکہ میں توصرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قبیلہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف تھا لیکن یہاں توکئی گروہ تھےجوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سخت معاند اوراشدترین دشمن تھےاورہمہ وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان لینے کے درپے تھے۔ اندرون شہر یہود کے تین قبیلے بنونضیر، بنوقینقاع اوربنوقریظہ تھے۔ اوس اور خزرج کے مشرکین، عیسائی(ابوعامر گروپ) اورمنافقین چارگروہ دشمنان اسلام تھے۔ بیرون مدینہ بنوغطفان، مضرقبائل اور کفار مکہ کے تجارتی قافلے اطراف واکناف میں تخریبی سرگرمیوں میں مصروف کار تھے۔ یہ سب اسلام دشمنی کوہوادینے میں پوری شدت سے سرگرم تھے۔ یہاں بھی رب العزت نے اپنی ہستی اورقدرت کاملہ کا نمونہ دکھایا اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت فرمائی۔

دشمنان اسلام نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف نارحرب بھڑکائی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کودفاع اسلام میں چاروناچار ان جنگوں میں شریک ہونا پڑا۔ ان غزوات میں حضرت سیدالانبیاءصلی اللہ علیہ وسلم کی ہی ذات مقدس دشمن کا اصل ٹارگٹ تھی۔ لیکن خداوند قدوس نے اپنے دست قدرت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو محفوظ و مامون رکھا۔ ایسے مواقع بھی آئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ عین دشمن کے نشانہ پرتھی اور بظاہر بچاؤ کے کوئی آثار بھی نظر نہیں آتے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت نمائی کا چہرہ دکھایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلامت رہے۔ غزوہ احد میں دشمن کا وار جان لیوا تھا۔ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دانت مبارک بھی شہیدہوئے۔ سرمبارک پر بھی شدید زخم لگے لیکن اس بھرپور وار کے باوجود دشمن اپنے ناپاک عزائم میں ناکام ونامراد رہا۔ خدا تعالیٰ کی نصرت غالب آئی۔ غزوہ حنین کے موقع پرافضل الانبیاءصلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک دشمن کے تیراندازوں کے نرغے میں تھی۔ جان کو خطرہ لاحق تھا مگرحضرت سیدالرسل صلی اللہ علیہ وسلم ہیں کہ ان پرخطرلمحات میں بھی بلندآواز سے فرما رہے ہیں کہ میں سچا نبی ہوں اور عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔ ربّ کریم نے اس موقع پربھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلامت رہے۔ دشمن نےآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان لینے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ ہرحربہ بروئے کار لائے۔ جنگ خیبر سے واپسی پر حضرت سروردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت ایک یہودی عورت نے کی اورگوشت میں ہلاکت خیززہرملا دیاایک صحابیؓ تواس سے شہید ہوگئے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کو اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا۔ ایک اور موقع پرایک بدباطن نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوسوتے پا کرتلوار کا وار کرنا چاہا مگر خدائے قادروتوانا نے دشمن کے اس حملہ کو ناکام بنا دیا بلکہ اس بدبخت کو اپنی جان بخشی کی التجا و فریاد کرنی پڑی جوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےقبول فرمائی۔

حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے کس خوبصورتی سے اس مضمون کواٹھایا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں :

قدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت

اس بے نشاں کی چہرہ نمائی یہی تو ہے

جس بات کو کہے کہ کروںگا یہ میں ضرور

ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button