متفرق مضامین

ایک خاص مذہبی طبقے کو نشانہ بناتے ہوئے فرانس میں تازہ ترین قانون سازی

(عرفان احمد خان۔ جرمنی)

فرانس جو یورپی یونین کا ایک اہم ملک ہے وہاں مسلمانوں کی تعداد ساٹھ لاکھ سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ ان میں اکثریت کا تعلق شمالی افریقہ کے ممالک الجزائر، مراکش اور تیونس سےہے۔ یہ ممالک فرانس کے زیر اثر رہے اور فرانسیسیوں نے بتدریج ان کو آزاد کیا۔ اس لیے ان ممالک کے شہری عربی کے ساتھ ساتھ اسی روانی سے فرنچ زبان بھی بولتے ہیں۔ گذشتہ چند سالوں میں جب سے اخبار میں شائع کیے جانے والے کارٹونوں کے خلاف مسلمانوں نے اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے حکومت نے آزادیٔ اظہار کا سہارا لے کر مسلمانوں کے گرد دائرہ تنگ کرنا شروع کر رکھا ہے۔ خصوصاً’ایک مسلمان‘ طالب علم کی طرف سے اپنے استاد کو ہلاک کیے جانے کے بعد فرانس کے صدر نے مسلمانوں سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ وہ یہ برداشت نہیں کریں گے کہ مذہب کی آڑ میں لوگوں کا خون بہایا جائے۔ اس موقعے پر فرانس کے صدر نے مسلمان تنظیموں کو ایک ماہ کی مہلت دی تھی کہ وہ وزیر داخلہ سے ملاقات کرکے امن و امان اور مساجد کے ماحول کو عبادت تک محدود رکھنے کے حوالے سے تحریری یقین دہانی کروائیں۔ اس حوالے سے وزارت داخلہ نے ایک مسودہ بھی جاری کیا۔ اس محدود مدت کے دوران مسلم تنظیموں کے اکابرین ایک مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دینے میں ناکام رہے۔ چنانچہ فرانس کی حکومت نے نیشنل اسمبلی میں اب ایک نیا قانون منظور کیا ہے جس کی سمت مسلمانوں کی جانب ہے۔ اس قانون میں مسلمانوں کا نام تو نہیں لیا گیا بلکہ اس قانون کی غرض انتہاپسندی کی روک تھام اور نفرت کا پرچار کرنے والوں کی کڑی نگرانی بتلائی جارہی ہے۔ اس قانون کے حق میں 347 ووٹ پڑے، 151 اراکین اسمبلی نے مخالفت کی جبکہ 65 ممبران ایوان سے غیر حاضر رہے۔ عوامی تنقید سے بچنے کے لیے حکومت کابیانیہ یہ ہے کہ اس اقدام کا مقصد فرانس میں رہنے والی تمام قومیتوں کے افراد کو فرانسیسی اقدار میں شامل کرنا مقصود ہے۔ اس قانون کے بعد فرانس میں رہنے والے ہر شہری کے لیے اپنے آپ کو سیکولر تشخص کے ساتھ ہم آہنگ کرنا لازمی ہو گا۔ اس قانون کے بننے کے بعد اب عبادت گاہوں کو قوم پرستی اور دوسرے ممالک کی حکومتوں کی حمایت کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکے گا۔ انتہا پسند عقیدے کو فروغ دینےوالی تنظیموں نیز عبادت گاہوں کی کڑی نگرانی کی جائے گی۔ حکومت کو یہ اختیار حاصل ہو گیا ہے کہ مذہبی تنظیموں پر پابندی لگا دے یا عبادت گاہوں کو بند کر دے اور کسی بھی ایسے مذہبی رہ نما کو جو فرانسیسی اقدار کے خلاف بات کرے یا لوگوں کو اکسائے معزول کر دے یا ملک بدر کر دے۔ مذہبی تنظیموں اور عبادت گاہوں کو بیرون ملک سے آنے والی امداد کا حساب رکھنا ہو گا اور کوئی بھی امداد جو دس ہزار سے زیادہ مالیت کی ہو اس کو فورا ًحکومت کے نوٹس میں لانا ہوگا۔ حکومتی ترجمان کے مطابق اب تک ترکی، قطر، سعودی عرب سے جو پریکٹس (practice)جاری تھی اب اس قانون کے بننے کے بعد اس کو ڈسپلن کا پابند کر دیا گیا ہے۔ مذہبی تنظیموں کے اکاؤنٹ اور کھاتوں کی جانچ پڑتال اب حکومت کرے گی اور مذہبی تنظیموں کی مالی شفافیت کے نئے اصول بنائے جائیں گے جس کی پابندی کرنا لازمی ہو گا۔ جو مذہبی تنظیمیں فرانس کی حکومت سے مالی معاونت کی طالب ہوں گی ان کو لکھ کر دینا ہو گا کہ وہ فرانس کی لبرل اور روشن خیال پالیسی کی حمایت کرتی ہیں۔ بلا اجازت سکول قائم کرنے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ شادی سے پہلے کنوارے پن کا ٹیسٹ کروانا یا کنوارے ہونے کا سرٹیفیکیٹ مہیا کرنا یا مطالبہ کرنا قابل گرفت ہو گا جس کی سزا مقرر کی جائے گی۔ زبردستی کی شادیوں کی حوصلہ شکنی کے لیے حکومتی اداروں کو اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ مرد اور عورت کا انٹرویو کر کے چاہیں تو تسلی کر لیں کہ یہ رشتہ والدین نے زبردستی توطے نہیں کروایا۔ ایک سے زائد شادیاں کرنے والوں کو فرانس میں رہائش کا اجازت نامہ اب نہیں دیا جائے گا۔ سوئمنگ پولز پر خواتین اور مردوں کے لیے علیحدہ علیحدہ اوقات مقرر نہیں کیے جائیں گے۔ کسی سرکاری ملازم کی نجی معلومات کسی دوسرے کو بتانا یا سرکاری ملازم کے خلاف کسی دوسرے فرد کو اکسانا بھی قابل گرفت جرم ہو گا۔ کوئی بھی فردیا تنظیم جو اس قانون کی خلاف ورزی کرے یا دوسروں کو خلاف ورزی پر مائل کرے اس کو پانچ سال قید اور 75ہزار یورو تک جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق فرانس میں 2015ء سے اب تک مسلمان شدت پسندوں کی طرف سے کی جانے والی کارروائیوں میں ڈھائی سو سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ حکومت کو امید ہے کہ اس نئے قانون کے نافذالعمل ہونے کے بعد مذہبی عبادت گاہوں میں دی جانے والی انتہا پسندانہ تعلیم اور رویّوں کو روکنے میں مدد ملے گی۔ جبکہ مسلمان تنظیموں کی رائے ہے کہ اس طرح مسلمانوں کو بطور خاص نشانہ بنانے سے فرانسیسی عوام اور مسلمانوں کے درمیان خلیج بڑھے گی۔ ہمارا تعلق فرانسیسی کالونیوں سے ہے اور ہم فرانسیسی کلچر سے خوب واقف ہیں۔ چند شدت پسندوں کو بنیاد بنا کر جو ہر مذہب اور معاشرے میں ہوتے ہیں ساٹھ لاکھ مسلمانوں کو متاثر کرنے والے فیصلے کرنا محض وقتی سیاسی فائدے اٹھانے کے لیے ہے۔ فرانس جو ایک سیکولر ملک ہے اس میں مذہبی کارڈ کا استعمال کسی طرح بھی ملک کے لیے فائدہ مند نہیں ہے۔ ساٹھ لاکھ مسلمانوں کے بچے سیکولر سکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یہ بچے فرانس کا مستقبل ہیں۔ ایسے قوانین بچوں کے ذہنوں میں تفریق کو جنم دیں گے۔ بعض مسلمانوں کا خیال ہے کہ فرانس کے صدر نے مسلم اکابرین کو گفت و شنید کے لیے جو ایک ماہ کی مہلت دی تھی اس سے فائدہ نہ اٹھا کر مسلمانوں نے خود اس تکلیف دہ قانون کی راہ ہموار کی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ فرانس میں اب کوئی ایسا واقعہ وقوع پذیر نہیں ہونا چاہیے جو انسانی ہلاکتوں کا باعث بنے۔ اب یہ بھی امکان ہے کہ فرانس کی تقلید میں یورپی یونین کے دیگر ممالک بھی اس طرح کی قانون سازی کی طرف متوجہ نہ ہو جائیں کیونکہ یورپ کے دیگر ممالک میں بھی انتہا پسندانہ سوچ رکھنے والی دائیں بازو کی سیاسی پارٹیاں مقبول ہو رہی ہیں اور مسلمانوں کو جکڑ کے رکھنا ان سب پارٹیوں کے منشور کا حصہ ہے جس کا اظہار سیاسی جلسوں میں کھل کر کیا جاتا ہے۔

فرانس کے حالیہ قانون کے خلاف دنیا کے 13؍ممالک سے تعلق رکھنے والی 36؍غیر سرکاری تنظیموں نے اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق میں اپیل دائر کی ہے کہ اقوام متحدہ اس قانون کو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام مسلمان ممالک، مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم او آئی سی و دیگر مسلمان این جی اوز بھی اٹھ کھڑے ہوں اور دنیا کے 13؍ ممالک کی 36؍ غیر سرکاری تنظیموں کا ساتھ دیں تاکہ ایک بھرپور قوت کے ساتھ فرانس کی طرف سے کی جانے والی نا انصافی کا مقابلہ کیا جا سکے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button