متفرق مضامین

حلال و طیب اشیاءکے بارے میں قرآنی آیات کا مجموعہ (قسط اوّل)

(جاوید اقبال ناصر۔مربی سلسلہ جرمنی)

اللہ تبارک وتعالیٰ نےاپنے کلام پاک میں

حَلٰلًا طَیِّبًا

کا لفظ کئی جگہ پراورمتعددمعنوں میں استعمال کیا ہے۔ طیب وپاک رزق اور حلال و طیب کھانوں کے لیے توکثرت سے

’’کُلُوۡا مِنۡ طَیِّبٰتِ‘‘’’ رَزَقَکُمۡ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ‘‘

اور

’’رَزَقۡنٰہُمۡ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ‘‘

کہہ کراستعمال ہوا ہے۔ لیکن اِس کے علاوہ

’’ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً‘‘

پاکیزہ ذریّت کے معنوں میں بھی آتاہے۔ خبیث کوطیب مال کے ساتھ نہ ملانے کے لیے بھی اس لفظ کو

’’لَا تَتَبَدَّلُوا الۡخَبِیۡثَ بِالطَّیِّبِ‘‘

کہہ کراستعمال میں لایا گیاہے۔

’’فَتَیَمَّمُوۡا صَعِیۡدًا طَیِّبًا‘‘

میں یہی لفظ طیب و پاک مٹی سے تیمم کرنے کے لیے قرآن کریم میں آیا ہے۔ پاک مُلک کو

’’الۡبَلَدُ الطَّیِّبُ‘‘

کہہ کر بھی پکارا گیاہے۔

’’مَثَلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ‘‘

میں کلمہ طیّبہ کی مثال، شجرۂ طیّبہ سے دی گئی ہے۔ مومن کو حیاتِ طیّبہ کی صورت میں دوبارہ زندہ کرنےکے معنوں میں بھی یہ لفظ قرآن کریم میں

’’فَلَنُحۡیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً‘‘

کے ساتھ استعمال ہواہے۔ جہاں جنّتیوں کو پاک قول کی طرف رہنمائی کا ذکر ہے وہاں پر

’’ ہُدُوۡۤا اِلٰی الطَّیِّبِ مِنَ الۡقَوۡلِ‘‘

کے ا لفاظ آتے ہیں۔

’’الطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِیۡنَ وَ الطَّیِّبُوۡنَ لِلطَّیِّبٰتِ‘‘

میں مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لیے بھی یہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ گھروں میں داخل ہوتے ہوئےایک دوسرے کو سلام کرنے کے عمل کو

’’مُبٰرَکَۃً طَیِّبَۃً‘‘

کے الفاظ میں ایک طیب تحفہ قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح سبا قوم کے مسکن کو

’’ بَلۡدَۃٌ طَیِّبَۃٌ‘‘

اور پاک کلمہ کو

’’الۡکَلِمُ الطَّیِّبُ‘‘

کہا گیاہے۔

’’اَذۡہَبۡتُمۡ طَیِّبٰتِکُمۡ ‘‘

میں جہاں اچھی چیزوں کی طرف اشارہ کیا گیاہے وہاں

’’مَسٰکِنَ طَیِّبَۃً‘‘

میں جنتیوں کے گھروں کی پاکیزگی کا ذکر کیا گیا ہے۔ کشتیوں کو چلانے والی خوشگوار ہواؤں کو

’’بِرِیۡحٍ طَیِّبَۃٍ‘‘

اور نیک لوگ جو جنّتی ہوتے ہیں اُن کو

’’طَیِّبِیۡنَ‘‘

کہا گیاہے۔ اللہ تعالیٰ نے تقریبا ً42آیات میں 46دفعہ طیب کا لفظ قرآن کریم میں استعمال فرمایاہے۔ اِن سطور میں اُن آیاتِ قرآنیہ کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی گئی ہے:

لوگوں کوحلال و طیب اشیاء کھانے کا حکم

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ کُلُوۡا مِمَّا فِی الۡاَرۡضِ حَلٰلًا طَیِّبًا ۫ۖ وَّ لَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِ ؕ اِنَّہٗ لَکُمۡ عَدُوٌّ مُّبِیۡنٌ۔ (البقرہ :169)

اے لوگو! اُس میں سے حَلال اور طیّب کھاؤ جو زمین میں ہے اور شیطان کے قدموں کے پیچھے نہ چلو۔ یقیناً وہ تمہارا کھلا کھلا دشمن ہے۔

فَکُلُوۡا مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّٰہُ حَلٰلًا طَیِّبًا ۪ وَّ اشۡکُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ اِنۡ کُنۡتُمۡ اِیَّاہُ تَعۡبُدُوۡنَ۔ (النحل:115)

پس جو کچھ تمہیں اللہ نے رزق عطا کیا ہے اس میں سے حلال (اور) طیّب کھاؤ اور اللہ کی نعمت کا شکرادا کرو اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو۔

رسولوں کو طیب چیزوں میں سے کھانے کی تاکید

یٰۤاَیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوۡا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعۡمَلُوۡا صَالِحًا ؕ اِنِّیۡ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ عَلِیۡمٌ۔ (المومنون:52)

اے رسولو! پاکیزہ چیزوں میں سے کھایا کرو اور نیک اعمال بجا لاؤ۔ جو کچھ تم کرتے ہو اُس کا میں یقیناً دائماً علم رکھتا ہوں۔

اہل کتاب کو طیب رزق کھانے کا ارشاد

وَ ظَلَّلۡنَا عَلَیۡکُمُ الۡغَمَامَ وَ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡکُمُ الۡمَنَّ وَ السَّلۡوٰیؕ کُلُوۡا مِنۡ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقۡنٰکُمۡ ؕ وَ مَا ظَلَمُوۡنَا وَ لٰکِنۡ کَانُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ یَظۡلِمُوۡنَ۔ (البقرہ:58)

اور ہم نے تم پر بادلوں کو سایہ فگن کیا اور تم پر ہم نے مَن اور سلویٰ اُتارے۔ جو رزق ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے پاکیزہ چیزیں کھاؤ۔ اور انہوں نے ہم پر ظلم نہیں کیا بلکہ خود اپنے اوپر ہی ظلم کرنے والے تھے۔

بنی اسرائیل کو رزق میں سے طیب چیزیں کھانے کی ہدایت

یٰبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ قَدۡ اَنۡجَیۡنٰکُمۡ مِّنۡ عَدُوِّکُمۡ وَ وٰعَدۡنٰکُمۡ جَانِبَ الطُّوۡرِ الۡاَیۡمَنَ وَ نَزَّلۡنَا عَلَیۡکُمُ الۡمَنَّ وَ السَّلۡوٰی۔ کُلُوۡا مِنۡ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقۡنٰکُمۡ وَ لَا تَطۡغَوۡا فِیۡہِ فَیَحِلَّ عَلَیۡکُمۡ غَضَبِیۡۚ وَ مَنۡ یَّحۡلِلۡ عَلَیۡہِ غَضَبِیۡ فَقَدۡ ہَوٰی۔ (طہ:81۔ 82)

اے بنی اسرائیل! یقیناً ہم نے تمہیں تمہارے دشمن سے نجات بخشی اور تم سے طُور کے دائیں جانب ایک معاہدہ کیا اور تم پر مَنّ اور سَلویٰ اُتارے۔ جو رزق ہم نے تمہیں عطا کیا ہے اس میں سے طیّب چیزیں کھاؤ اور اس بارہ میں حد سے تجاوز نہ کرو ورنہ تم پر میرا غضب نازل ہوگا اور جس پر میرا غضب نازل ہو تو وہ یقیناً ہلاک ہوگیا۔

حضرت موسیؑ کی قوم کوطیب چیزیں کھانے کی تاکید

وَ قَطَّعۡنٰہُمُ اثۡنَتَیۡ عَشۡرَۃَ اَسۡبَاطًا اُمَمًا ؕ وَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰی مُوۡسٰۤی اِذِ اسۡتَسۡقٰٮہُ قَوۡمُہٗۤ اَنِ اضۡرِبۡ بِّعَصَاکَ الۡحَجَرَۚ فَانۡۢبَجَسَتۡ مِنۡہُ اثۡنَتَا عَشۡرَۃَ عَیۡنًا ؕ قَدۡ عَلِمَ کُلُّ اُنَاسٍ مَّشۡرَبَہُمۡ ؕ وَ ظَلَّلۡنَا عَلَیۡہِمُ الۡغَمَامَ وَ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡہِمُ الۡمَنَّ وَ السَّلۡوٰی ؕ کُلُوۡا مِنۡ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقۡنٰکُمۡ ؕ وَ مَا ظَلَمُوۡنَا وَ لٰکِنۡ کَانُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ یَظۡلِمُوۡنَ۔ (الاعراف:161)

اور ہم نے ان کو بارہ قبیلوں یعنی قوموں میں تقسیم کردیا اور ہم نے موسیٰ کی طرف جب اس سے اس کی قوم نے پانی مانگا وحی کی کہ چٹان پر اپنے عصاسے ضرب لگا تو اس سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے اور سب لوگوں نے اپنے اپنے پینے کی جگہ معلوم کر لی اور ہم نے ان پر بادلوں کا سایہ کیا اور اُن پر مَن اور سَلوٰی اتارے۔ (اور کہا کہ) جو کچھ ہم نے تمہیں رزق عطا کیا ہے اس میں سے پاکیزہ چیزیں کھاؤ۔ اور انہوں نے ظلم ہم پر نہیں کیا بلکہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے تھے۔

مومنوں کو رزق میں سے طیب چیزیں کھانے کا حکم

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُلُوۡا مِنۡ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقۡنٰکُمۡ وَ اشۡکُرُوۡا لِلّٰہِ اِنۡ کُنۡتُمۡ اِیَّاہُ تَعۡبُدُوۡنَ۔ ( البقرہ:173)

اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جو رزق ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو۔

بنی آدم کو طیب چیزوں میں سے رزق دینے کا بیان

وَ لَقَدۡ کَرَّمۡنَا بَنِیۡۤ اٰدَمَ وَ حَمَلۡنٰہُمۡ فِی الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ وَ رَزَقۡنٰہُمۡ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلۡنٰہُمۡ عَلٰی کَثِیۡرٍ مِّمَّنۡ خَلَقۡنَا تَفۡضِیۡلًا۔ (بنی اسرا ئیل: 71 )

اور یقیناً ہم نے ابنائے آدم کو عزت دی اور انہیں خشکی اورتری میں سواری عطا کی اور انہیں پاکیزہ چیزوں میں سے رزق دیا اور اکثر چیزوں پر جو ہم نے پیدا کیں انہیں بہت فضیلت بخشی۔

بنی اسرائیل کو طیب چیزوں میں سے رزق دینے کا ذکر

وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ الۡکِتٰبَ وَ الۡحُکۡمَ وَ النُّبُوَّۃَ وَ رَزَقۡنٰہُمۡ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلۡنٰہُمۡ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ۔ (سورۃ الجاثیہ:17)

اور یقیناً ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب اور حکمت اور نبوت عطا کی اور پاک چیزوں میں سے انہیں رزق عطا کیا اور ان کو تمام جہانوں پر فضیلت دی۔

وَ لَقَدۡ بَوَّاۡنَا بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ مُبَوَّاَ صِدۡقٍ وَّ رَزَقۡنٰہُمۡ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ ۚ فَمَا اخۡتَلَفُوۡا حَتّٰی جَآءَہُمُ الۡعِلۡمُ ؕ اِنَّ رَبَّکَ یَقۡضِیۡ بَیۡنَہُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ فِیۡمَا کَانُوۡا فِیۡہِ یَخۡتَلِفُوۡنَ۔ (سورہ یونس:94)

اور ہم نے بنی اسرائیل کو ایک سچائی کا ٹھکانا عطا کیا اور انہیں پاکیزہ چیزوں میں سے رزق دیا۔ پس انہوں نے اختلاف نہیں کیا یہاں تک کہ علم اُن کے پاس آگیا۔ یقیناً تیرا ربّ قیامت کے دن ان کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں وہ اختلاف کیا کرتے تھے۔

اللہ تعالیٰ نے طیب چیزوں میں سے عالمین کو رزق عطا کیا

اَللّٰہُ الَّذِیۡ جَعَلَ لَکُمُ الۡاَرۡضَ قَرَارًا وَّ السَّمَآءَ بِنَآءً وَّ صَوَّرَکُمۡ فَاَحۡسَنَ صُوَرَکُمۡ وَ رَزَقَکُمۡ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ ؕ ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمۡ ۚۖ فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ۔ (المومن: 65)

اللہ وہ ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو قرار کی جگہ بنایا اور آسمان کو (تمہاری) بقا کا موجب بنایا اور اُس نے تمہیں صورت بخشی اور تمہاری صورتوں کو بہت اچھا بنایا اور تمہیں پاکیزہ چیزوں میں سے رزق عطا کیا۔ یہ ہے اللہ، تمہارا ربّ۔ پس ایک وہی اللہ برکت والا ثابت ہوا جو تمام جہانوں کا ربّ ہے۔

تمام طیب چیزیں اور اہلِ کتاب کے (پاکیزہ)کھانے کوحلال قرار دیا گیا

اَلۡیَوۡمَ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبٰتُ ؕ وَ طَعَامُ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ حِلٌّ لَّکُمۡ ۪ وَ طَعَامُکُمۡ حِلٌّ لَّہُمۡ ۫ وَ الۡمُحۡصَنٰتُ مِنَ الۡمُؤۡمِنٰتِ وَ الۡمُحۡصَنٰتُ مِنَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ اِذَاۤ اٰتَیۡتُمُوۡہُنَّ اُجُوۡرَہُنَّ مُحۡصِنِیۡنَ غَیۡرَ مُسٰفِحِیۡنَ وَ لَا مُتَّخِذِیۡۤ اَخۡدَانٍ ؕ وَ مَنۡ یَّکۡفُرۡ بِالۡاِیۡمَانِ فَقَدۡ حَبِطَ عَمَلُہٗ ۫ وَ ہُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ۔ (المائدہ:6)

آج کے دن تمہارے لئے تمام پاکیزہ چیزیں حلال قرار دی گئی ہیں اور اہلِ کتاب کا (پاکیزہ) کھانا بھی تمہارے لئے حلال ہے جبکہ تمہارا کھانا ان کے لئے حلال ہے اور پاکباز مومن عورتیں اور ان لوگوں میں سے پاکباز عورتیں بھی جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تمہارے لئے حلال ہیں جبکہ تم انہیں نکاح میں لاتے ہوئے ان کے حق مہر ادا کرو، نہ کہ بدکاری کے مرتکب بنتے ہوئے اور نہ ہی پوشیدہ دوست بناتے ہوئے۔ اور جو ایمان ہی کا انکار کر دے اس کا عمل یقیناً ساقط ہو جاتا ہے اور وہ آخرت میں گھاٹا پانے والوں میں سے ہوگا۔

طیب چیزوں کو اور شکاری جانورکے روکےہوئےشکار کو حلال کہا ہے

یَسۡـَٔلُوۡنَکَ مَاذَاۤ اُحِلَّ لَہُمۡ ؕ قُلۡ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبٰتُ ۙ وَ مَا عَلَّمۡتُمۡ مِّنَ الۡجَوَارِحِ مُکَلِّبِیۡنَ تُعَلِّمُوۡنَہُنَّ مِمَّا عَلَّمَکُمُ اللّٰہُ۫ فَکُلُوۡا مِمَّاۤ اَمۡسَکۡنَ عَلَیۡکُمۡ وَ اذۡکُرُوا اسۡمَ اللّٰہِ عَلَیۡہِ ۪ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ سَرِیۡعُ الۡحِسَابِ۔ (المائدہ:5)

وہ تجھ سے پوچھتے ہیں کہ اُن کے لئے کیا حلال کیا گیا ہے۔ تُو کہہ دے کہ تمہارے لئے تمام پاکیزہ چیزیں حلال کی گئی ہیں۔ اور شکاری جانوروں میں سے بعض کو سِدھاتے ہوئے جو تم تعلیم دیتے ہو تو (یاد رکھو کہ) تم انہیں اس میں سے سکھاتے ہو جو اللہ نے تمہیں سکھایا ہے۔ پس تم اس (شکار) میں سے کھاؤ جو وہ تمہارے لئے روک رکھیں اور اس پر اللہ کا نام پڑھ لیا کرو اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو یقیناً اللہ حساب (لینے) میں بہت تیز ہے۔

طیب چیزیں اِس دنیا میں اور قیامت کے دن ایمان والوں کے لیے ہیں

قُلۡ مَنۡ حَرَّمَ زِیۡنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیۡۤ اَخۡرَجَ لِعِبَادِہٖ وَ الطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزۡقِ ؕ قُلۡ ہِیَ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا خَالِصَۃً یَّوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یَّعۡلَمُوۡنَ۔ (الاعراف:33)

تو پوچھ کہ اللہ کی (پیدا کردہ) زینت کس نے حرام کی ہے جو اس نے اپنے بندوں کے لئے نکالی ہے۔ اور رزق میں سے پاکیزہ چیزیں بھی۔ تُو کہہ دے کہ یہ اس دنیا کی زندگی میں بھی ان کے لئے ہیں جو ایمان لائے (اور) قیامت کے دن تو خالصۃً (بلاشرکتِ غیرے صرف انہی کے لئے ہوں گی)۔ اسی طرح ہم نشانات کھول کھول کر بیان کرتے ہیں ایسے لوگوں کے لئے جو علم رکھتے ہیں۔

مومنین کو حلال وطیب چیزیں حرام نہ ٹھہرانے کی تاکید

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُحَرِّمُوۡا طَیِّبٰتِ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکُمۡ وَ لَا تَعۡتَدُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الۡمُعۡتَدِیۡنَ۔ وَ کُلُوۡا مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّٰہُ حَلٰلًا طَیِّبًا ۪ وَّ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیۡۤ اَنۡتُمۡ بِہٖ مُؤۡمِنُوۡنَ۔ (المائدہ:88تا89)

اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اُن پاکیزہ چیزوں کو جو اللہ نے تمہارے لئے حلال کر دی ہیں حرام نہ ٹھہرایا کرو۔ اور حد سے تجاوز نہ کرو۔ یقیناً اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اور اس میں سے جو اللہ نے تمہیں رزق دیا حلال (اور) پاکیزہ کھایا کرو۔ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جس پر تم ایمان لاتے ہو۔

قُلۡ اَرَءَیۡتُمۡ مَّاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ لَکُمۡ مِّنۡ رِّزۡقٍ فَجَعَلۡتُمۡ مِّنۡہُ حَرَامًا وَّ حَلٰلًا ؕ قُلۡ آٰللّٰہُ اَذِنَ لَکُمۡ اَمۡ عَلَی اللّٰہِ تَفۡتَرُوۡنَ۔ (سورہ یونس:60)

تُو کہہ دے کیا تم غور نہیں کرتے کہ اللہ نے تمہارے لئے جو رزق اتارا ہے اس میں سے تم نے خود ہی حرام اور حلال بنا لئے ہیں۔ تُو (ان سے) پوچھ کہ کیا اللہ نے تمہیں (ان باتوں کی) اجازت دی ہے یا تم محض اللہ پر افترا باندھ رہے ہو۔

وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَا تَصِفُ اَلۡسِنَتُکُمُ الۡکَذِبَ ہٰذَا حَلٰلٌ وَّ ہٰذَا حَرَامٌ لِّتَفۡتَرُوۡا عَلَی اللّٰہِ الۡکَذِبَ ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَفۡتَرُوۡنَ عَلَی اللّٰہِ الۡکَذِبَ لَا یُفۡلِحُوۡنَ۔ (النحل:117)

اور تم ان چیزوں کے بارہ میں جن کے متعلق تمہاری زبانیں جھوٹ بیان کرتی ہیں یہ نہ کہا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام تاکہ تم اللہ پر بہتان تراشو۔ یقیناً وہ لوگ جو اللہ پر جھوٹ گھڑتے ہیں کامیاب نہیں ہوا کرتے۔

طیب چیزوں میں سے رزق دینے کا ذکر

وَ اذۡکُرُوۡۤا اِذۡ اَنۡتُمۡ قَلِیۡلٌ مُّسۡتَضۡعَفُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ تَخَافُوۡنَ اَنۡ یَّتَخَطَّفَکُمُ النَّاسُ فَاٰوٰٮکُمۡ وَ اَیَّدَکُمۡ بِنَصۡرِہٖ وَ رَزَقَکُمۡ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ۔ (الانفال:27)

اور یاد کرو جب تم بہت تھوڑے تھے (اور) زمین میں کمزور شمار کئے جاتے تھے (اور) ڈرا کرتے تھے کہ کہیں لوگ تمہیں اُچک نہ لے جائیں تو اس نے تمہیں پناہ دی اور اپنی نصرت سے تمہاری تائید کی اور تمہیں پاکیزہ چیزوں میں سے رزق دیا تاکہ تم شکرگزار بنو۔

وَ اللّٰہُ جَعَلَ لَکُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ اَزۡوَاجًا وَّ جَعَلَ لَکُمۡ مِّنۡ اَزۡوَاجِکُمۡ بَنِیۡنَ وَ حَفَدَۃً وَّ رَزَقَکُمۡ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ ؕ اَفَبِالۡبَاطِلِ یُؤۡمِنُوۡنَ وَ بِنِعۡمَتِ اللّٰہِ ہُمۡ یَکۡفُرُوۡنَ۔ (النحل:73)

اور اللہ وہ ہے جس نے تمہارے لئے تمہاری جنس میں سے ہی جوڑے پیدا کئے اور تمہیں تمہارے جوڑوں میں سے ہی بیٹے اور پوتے عطا کئے اور تمہیں پاکیزہ چیزوں میں سے رزق دیا۔ تو پھر کیا وہ باطل پر تو ایمان لائیں گے اور اللہ کی نعمتوں کا انکار کر دیں گے؟

لوگوں کوخبیث چیزیں طیب کے ساتھ ملا کر نہ کھانے کی تاکید

وَ اٰتُوا الۡیَتٰمٰۤی اَمۡوَالَہُمۡ وَ لَا تَتَبَدَّلُوا الۡخَبِیۡثَ بِالطَّیِّبِ۪ وَ لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمۡوَالَہُمۡ اِلٰۤی اَمۡوَالِکُمۡ ؕ اِنَّہٗ کَانَ حُوۡبًا کَبِیۡرًا۔ (النساء:3)

اور یتامیٰ کو اُن کے اموال دو اور خبیث چیزیں پاک چیزوں کے تبادلہ میں نہ لیا کرو اور ان کے اموال اپنے اموال سے ملا کر نہ کھا جایا کرو۔ یقیناً یہ بہت بڑا گناہ ہے۔

یہودیوں کے ظلم کی وجہ سے طیب چیزیں بھی اُن پرحرام کر دی گئیں

فَبِظُلۡمٍ مِّنَ الَّذِیۡنَ ہَادُوۡا حَرَّمۡنَا عَلَیۡہِمۡ طَیِّبٰتٍ اُحِلَّتۡ لَہُمۡ وَ بِصَدِّہِمۡ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ کَثِیۡرًا۔ (النساء:161)

پس وہ لوگ جو یہودی تھے ان کے ظلم کے باعث اور ان کے اللہ کی راہ سے بکثرت روکنے کی وجہ سے ہم نے ان پر وہ پاکیزہ چیزیں بھی حرام کر دیں جو (اس سے پہلے) ان کے لئے حلال کی گئی تھیں۔

طیب چیزوں میں سے مومنین کوخرچ کرنے کا حکم

یٰۤاَیُّہَاالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡفِقُوۡا مِنۡ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبۡتُمۡ وَ مِمَّاۤ اَخۡرَجۡنَا لَکُمۡ مِّنَ الۡاَرۡضِ ۪ وَ لَا تَیَمَّمُوا الۡخَبِیۡثَ مِنۡہُ تُنۡفِقُوۡنَ وَ لَسۡتُمۡ بِاٰخِذِیۡہِ اِلَّاۤ اَنۡ تُغۡمِضُوۡا فِیۡہِ ؕ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیۡدٌ۔ ( البقرہ:268)

اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جو کچھ تم کماتے ہو اس میں سے اور اس میں سے بھی جو ہم نے تمہارے لئے زمین میں سے نکالا ہے پاکیزہ چیزیں خرچ کرو۔ اور (اللہ کی راہ میں) خرچ کرتے وقت اس میں سے ایسی ناپاک چیز کا قصد نہ کیا کرو کہ تُم اُسے ہرگز قبول کرنے والے نہ ہو سوائے اس کے کہ تم (سبکی کے خیال سے) اس سے صرفِ نظر کرو۔ اور جان لو کہ اللہ بے نیاز (اور) بہت قابلِ تعریف ہے۔

حضرت زکریاؑ کی طیب اولاد کے لیے دُعا

ہُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّہٗ ۚ قَالَ رَبِّ ہَبۡ لِیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً ۚ اِنَّکَ سَمِیۡعُ الدُّعَآءِ۔ (آل عمران:39)

اس موقع پر زکریا نے اپنے ربّ سے دعا کی اے میرے ربّ! مجھے اپنی جناب سے پاکیزہ ذریّت عطا کر۔ یقیناً تُو بہت دعا سننے والا ہے۔

رسول کریمﷺ طیب چیزوں کو حلال اور خبیث چیزوںکو حرام قرار دیتےہیں

اَلَّذِیۡنَ یَتَّبِعُوۡنَ الرَّسُوۡلَ النَّبِیَّ الۡاُمِّیَّ الَّذِیۡ یَجِدُوۡنَہٗ مَکۡتُوۡبًا عِنۡدَہُمۡ فِی التَّوۡرٰٮۃِ وَ الۡاِنۡجِیۡلِ ۫ یَاۡمُرُہُمۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہٰہُمۡ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ یُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیۡہِمُ الۡخَبٰٓئِثَ وَ یَضَعُ عَنۡہُمۡ اِصۡرَہُمۡ وَ الۡاَغۡلٰلَ الَّتِیۡ کَانَتۡ عَلَیۡہِمۡ ؕ فَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِہٖ وَ عَزَّرُوۡہُ وَ نَصَرُوۡہُ وَ اتَّبَعُوا النُّوۡرَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ مَعَہٗۤ ۙ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ۔ (الاعراف:158)

جواس رسول نبی اُمّی پر ایمان لاتے ہیں جسے وہ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ وہ ان کو نیک باتوں کا حکم دیتا ہے اور انہیں بُری باتوں سے روکتا ہے اور اُن کے لئے پاکیزہ چیزیں حلال قرار دیتا ہے اور اُن پر ناپاک چیزیں حرام قرار دیتا ہے اور اُن سے اُن کے بوجھ اور طوق اتار دیتا ہے جو اُن پر پڑے ہوئے تھے۔ پس وہ لوگ جو اس پر ایمان لاتے ہیں اور اسے عزت دیتے ہیں اور اس کی مدد کرتے ہیں اور اس نور کی پیروی کرتے ہیں جو اس کے ساتھ اتارا گیا ہے یہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button