کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

ایک نووارد اور حضرت اقدس علیہ السلام (حصہ دوم)

…ہم یہ افسوس سے ظاہر کرتے ہیں کہ وہ مسلمان جن کو قرآن شریف میں سورہ فاتحہ کے بعد ہی

ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ(البقرۃ:3)

سکھایا گیاتھا اور جن کو یہ تعلیم دی گئی تھی

اِنۡ اَوۡلِیَآؤُہٗۤ اِلَّا الۡمُتَّقُوۡنَ(الانفال:35)

اور جن کو بتایا گیا تھا

اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الۡمُتَّقِیۡنَ(المآئدۃ:28)

ان کو کیا ہو گیا کہ انہوں نے اس معاملہ میں اس قدر جلد بازی سے کام لیا اور تکفیر اور تکذیب کے لیے دلیر ہو گئے۔ ان کا فرض تھا کہ وہ میرے دعاوی اور دلائل کو سنتے اور پھر خدا سے ڈر کر ان پر غور کرتے۔ کیا ان کی جلد بازی سے یہ پتہ لگ سکتا ہے کہ انہوں نے تقویٰ سے کام لیا ہے ۔جلد بازی اور تقویٰ کبھی دونو اکٹھے نہیں ہوسکتے۔ نبیوں کو اللہ تعالیٰ نے یہی کہا

فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ(الاحقاف:36)

پھر عام لوگوں کو کس قدر ضرورت تھی کہ وہ تقویٰ سے کام لیتے اور خدا سے ڈرتے۔

باوجودیکہ علماء کی اگر میرے دعویٰ سے پہلے کی کتابیں دیکھی جاتی ہیں تو اُن سے کس قدر انتظار اور شوق کا پتہ لگتا ہے گویا وہ تیرھویں صدی کے علامات سے مضطرب اور بیقرار ہو رہے ہیں مگر جب وقت آیا تو اوّل الکافرین ٹھہرتے ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ ہمیشہ کہتے آتے تھے کہ ہر صدی کے سر پر ایک مجدد اصلاح فساد کے لیے آتا ہے اور ایک رُوحانی طبیب مفاسد موجودہ کی اصلاح کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ اب چاہیے تو یہ تھا کہ صدی کا سر پا کر وہ انتظار کرتے۔ ضرورت کے لحاظ سے ان کو مناسب تھا کہ ایسے مجدد کا انتظار کرتے جو کسر صلیب کے لیے آتا کیونکہ اس وقت سب سے بڑا فتنہ یہی ہے۔ ایک عام آدمی سے بھی اگر سوال کیا جاوے کہ اس وقت بڑا فتنہ کونسا ہے؟ تو وہ یہی جواب دے گا کہ پادریوں کا۔ 30 لاکھ کے قریب تو اسی ملک سے مرتد ہو گیا۔ اسلام وہ مذہب تھا کہ ا گر ایک بھی مرتد ہوتا تو قیامت آجاتی اسلام کیا اور ارتداد کیا؟ ایک طرف اس قدر لوگ مرتد ہو گئے دوسری طرف اسلام کے خلاف جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان کو جمع کریں تو کئی پہاڑ بنتے ہیں۔بعض پرچے ایسے ہوتے ہیں کہ کئی کئی لاکھ شائع ہوتے ہیں اور ان میں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ بتائو ایسی حالت اور صورت میں

اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ(الحجر:10)

کا وعدہ کہاں گیا؟اس نے وہ گالیاں سید المعصومین کی نسبت سنیں جن سے دنیا میں لرزہ پڑگیا مگر اُسے غیرت نہ آئی اور کوئی آسمانی سلسلہ اس نے قائم نہ کیا؟کیا ایسا ہوسکتا تھا۔ جب چنداں بگاڑ نہ تھا تو مجدد آتے رہے اور جب بگاڑ حد سے بڑھ گیا تو کوئی نہ آیا۔ سوچو تو سہی۔ کیا عقل قبول کرتی ہے کہ جس اسلام کے لیے یہ وعدے اور غیرت خدا تعالیٰ نے دکھائی جس کے نمونے صدرِ اسلام میں موجود ہیں تو اب ایسا ہوا کہ نعوذ باللہ مر گیا۔ اب اگر پادری یا دوسرے مذاہب کے لوگ پو چھیں کہ کیا نشان ہے اس کی سچائی کا، تو بتائو قصہ کے سوا کیا جواب ہے۔ جیسے ہندو کوئی پستک پیش کر دیتے ہیں ویسے ہی یہ چند ورق لے کر آگے ڈال سکتے ہیں۔ بڑی بات یہ کہ معجزات کے لیے چند حدیثیں پیش کر دیں ۔مگر کوئی کب مان سکتا ہے کہ ڈیڑھ سو برس بعد کے لکھے ہوئے واقعات صحیح ہیں۔ مخالف پر حجت کیو نکر ہو۔ وہ تو زندہ خدا اور زندہ معجزہ کو مانے گا۔

اس وقت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اور خرابیوں کے علاوہ اسلام کو بھی مردہ مذہب بتایا جاتا ہے حالانکہ نہ وہ کبھی مُردہ ہوگا۔[ البدر میں ہے: ’’لیکن اسلام نہ مُردہ ہے اور نہ مُردہ مذہب ہو گا ‘‘۔ (البدر جلد 2 نمبر6صفحہ 45کالم اوّل مورخہ 27؍فروری 1903ء) ترتیب عبارت کے لحاظ سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ ’’نہ وہ مُردہ ہے نہ کبھی مُردہ ہو گا ‘‘ ہونا چاہیے۔ معلوم ہوتا ہے اس فقرہ کا پہلا حصہ سہواً رہ گیا ہے۔ (مرتب)] خداتعالیٰ نے اس کی زندگی کے ثبوت میں آسمان سے نشان دکھائے۔ کسوف خسوف بھی ہوا۔ طاعون بھی آئی۔ حج بھی بند ہوا۔

وَ اِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ (التکویر:5)

کے موافق ریلیں بھی جاری ہوئیں۔ غرض وہ نشان جو اس زمانہ کے لیے رکھے تھے پورے ہوئے مگر یہ کہتے ہیں ابھی وہ وقت نہیں آیا۔

ماسوا اس کے وہ نشان ظاہر کیے جن کے گواہ نہ صرف ہماری جماعت کے لوگ ہیں ۔بلکہ ہندو اور عیسائی بھی گواہ ہیں اور اگر وہ دیانت امانت کو نہ چھوڑیں تو ان کو سچی گواہی دینی پڑے گی۔ میں نے بارہا کہا ہے کہ صادق کی شناخت کے تین بڑے معیار ہیں۔ اوّل نصوص کو دیکھو۔ پھر عقل کو دیکھو کہ کیا حالات موجودہ کے موافق کسی صادق کو آنا چاہیے یا نہیں۔ تیسرا کیا اس کی تائید میں کوئی معجزات اور خوارق بھی ہیں؟ مثلاً پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دیکھتے ہیں کہ توریت انجیل میں بشارات موجود ہیں، یہ تو نصوص کی شہادت ہے اور عقل اس واسطے مؤید ہے کہ اس وقت بحروبر میں فساد تھا گویا نبوت کا ثبوت ایک نص تھا دوسرا ضرورت تیسرے وہ معجزات جوآپ سے صادر ہوئے۔

اب اگر کوئی سچے دل سے طا لب حق ہو تو اس کو یہی باتیں یہاں دیکھنی چاہئیں اور اس کے موافق ثبوت لے۔ اگر نہ پائے تو تکذیب کا حق اسے حاصل ہے اور اگر ثابت ہو جائیں اور وہ پھر بھی تکذیب کرے تو میری نہیں کل انبیاء کی تکذیب کرے گا۔

(ملفوظات جلدنمبر 5صفحہ 84-87۔ ایڈیشن 1984ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button