متفرق مضامین

تدوین حدیث اور پہلی تین صدیوں میں ضبط تحریر میں آنے والی کتب حدیث (قسط سوم۔ آخری)

(خواجہ عبد العظیم احمد۔پرنسپل جامعۃ المبشرین نائجیریا)

کتابت و تدوینِ حدیث اور تیسری صدی ہجری میں ضبط تحریر میں لائی گئی کتب ِاحادیث

تابعین و تبع تابعین کے مبارک دور میں تدوین حدیث کے عظیم الشان کام نے ایک باقاعدگی اختیار کر لی تھی۔ اب اس کی تدوین کو ایک ’’فن‘‘ کی حیثیت حاصل ہو چکی تھی۔ اس زمانہ میں ’’جامع‘‘، ’’السنن‘‘اور’’المسند‘‘کی اصطلاحات رائج ہو چکی تھیں۔ تیسری صدی ہجری کو بلا شبہ علم حدیث کے ضمن میں سنہری دَور کہا جا سکتا ہے۔ اب اس بنیاد پر جس کو دوسری صدی کے معمارانِ حدیث نے اپنے مبارک ہاتھوں سے رکھا ایک فلک بوس عمارت کھڑی ہونی تھی۔ اس عمارت کی زینت و آرائش آج تک جاری و ساری ہے۔

1۔ المسند…ابوبکرعبداللہ بن زبیر قرشی حمیدی

(ولادت:150ھ۔ وفات:219ھ)

آپ کا نام عبد اللہ بن الزبير بن عيسىٰ بن عبيد اللہ القرشی الاسدی الحميدی تھا۔ آپ کی کنیت ابو بكرتھی۔ آپ کی پیدائش مکہ معظمہ میں 150ھ میں ہوئی۔ آپ حضرت امام بخاری کے استاد تھے۔ آپ نے سماع حدیث امام الشافعی، مسلم بن خالد، وكيع، فضيل بن عياض وغيرہ سے کیا۔ ( تذکرۃ الحفّاظ، فی ذکرالحمیدی، جلد اوّل، صفحہ 413، مطبوعہ دائرۃ المعارف العثمانیۃ)مگر آپ کی زیادہ تر روایات سفيان بن عُيَيْنہسے ہیں آپ سفیان بن عیینہ کی صحبت میں 20سال رہے۔ آپ سے روایت کرنے والوں میں حضرت امام بخاری، ابو حاتم، مسلم، ترمذی، ابن ماجہ، النسائی اور ذہلی ہیں۔ ( تہذیب التہذیب (زیرعبداللہ بن زبیر)جلد 5صفحہ 215۔ الطبعۃ الاولیٰ۔ مطبوعہ مجلس دائرۃ المعارف۔ حیدرآباد دکن)آپ حضرت امام شافعی کے شاگرد رشید تھے۔ امام شافعی فرماتے کہ میں نے الحمیدی سے بڑھ کرحافظ محدث نہیں دیکھا انہوں نے سفیان بن عیینہ سے 10000(دس ہزار) حدیثیں نقل کیں۔ امام احمد حنبل فرماتےتھے:’’ الحمیدی ہم میں امام ہیں۔ ‘‘(تہذیب التہذیب (زیرعبداللہ بن زبیر)جلد 5صفحہ 215۔ الطبعۃ الاولیٰ۔ مطبوعہ مجلس دائرۃ المعارف۔ حیدرآباد دکن)آپ کی تصنیفات میں کتاب الدلائل، کتاب الرد علی النعمان، کتاب التفسیر اور مسند حمیدی ہیں۔ یہاں مضمون کی مناسبت سے مسند حمیدی کا تذکرہ کیا جائے گا۔ یہ عبداللہ بن زبیر الحمیدی کی تالیف ہے۔ آپ نے اس کو مسند کی طرز پر ترتیب دیا۔ اس میں کل 1360 احادیث ہیں۔ پہلے عشرہ مبشرہ سے مروی روایات کو لیا گیا اور بھی صحابہ و صحابیات کی روایات کو جمع کیا گیا۔ اس کتاب کو ام الکتب الحدیث بھی کہا جاتا ہے۔ اس مسند سے امام بخاری نے 96 احادیث لی ہیں۔ بخاری کی پہلی مبارک حدیث کے رواۃ میں بھی حمیدی شامل ہیں اور وہ حدیث بھی آپ نے امام حمیدی سے ہی لی۔ اس وقت جو مخطوطہ اس مسند کا موجود ہے وہ بشر بن موسیٰ کا روایت کردہ ہے۔ صاحب کشف الظنون نے بھی اپنی تصنیف میں اس مسند کو ریکارڈ کیا ہے۔

( کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون، جلد دوم، باب المیم۔ صفحہ 1682 دار احیاء التراث العربی، بیروت۔ لبنان)

2۔ المسند… مسددبن مسرہد

(ولادت:150ھ۔ وفات:228ھ)

آپ کا نام مسدد بن مسرهد بن مسربَل بن مُلمْتك البصری تھا۔ آپ کی کنیت ابو الحسن تھی۔ آپ نے سماع حدیث ابو عوانۃ، ابو الاحوص، الحارث بن عبيد، خالد بن عبد الله، عبد العزيز بن المختار، معتمر، سفیان بن عیینہ، فضيل بن عياض، يحيىٰ القطان، وكيع بن الجراح وغیرہ سے کی۔ آپ کے تلامذہ میں امام بخاری، ابو داؤد، محمد بن یحیٰ، ابو زرعۃ، ابو حاتم وغیرہ ہیں۔ ( تذکرۃ الحفّاظ، فی ذکرمسدد بن مسرھد، جلد اوّل، صفحہ421، مطبوعہ دائرۃ المعارف العثمانیۃ) تمام علمائے اسماء الرجال نے آپ کو ثقۃ صدوق قرار دیا۔ (تہذیب التہذیب (زیرمسددبن مسرھد)جلد 10صفحہ 108۔ الطبعۃ الاولیٰ۔ مطبوعہ مجلس دائرۃ المعارف۔ حیدرآباد دکن)صاحب کشف الظنون نے بھی اپنی تصنیف میں بیان کیا۔ ( کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون، جلد دوم، باب المیم۔ صفحہ 1684 دار احیاء التراث العربی، بیروت۔ لبنان) اسی بات کاذکر امام ذہبی فرماتے ہیں کہ’’ میں نے سنا ہے کہ آپ کی ایک مسند بھی ہے۔ ‘‘

(تذکرۃ الحفّاظ، فی ذکرمسدد بن مسرھد، جلد اوّل، صفحہ421، مطبوعہ دائرۃ المعارف العثمانیۃ)

جیسا کہ ذکر ہوا کہ آپ کی ایک مسند تھی۔ اب اس کا کچھ تعارف پیش کیا جائے گا۔ اس مسند کی ایک روایت ابو خلیفۃ سے ملتی ہے اور دوسری روایت معاذ بن مثنّیٰ سے ملتی ہے۔ اور ثانی الذکر اوّل الذکر سے زیادہ بڑی ہے۔ مسدد سے امام بخاری نے بڑی تعداد میں روایات اپنی صحیح میں لیں۔ ایسے ہی باقی ممتاز محدثین نے بھی لیں۔

3۔ المسند… علی بن عبد اللہ بن جعفرالمدینی

(ولادت:161ھ۔ وفات:234ھ)

آپ کا نام علی بن عبد اللہ بن جعفرتھا اور کنیت ابو الحسن تھی۔ آپ کا آبائی وطن مدینہ منورہ تھا تاہم بعد میں آپ بصرہ منتقل ہو گئے۔ آپ نے طلب علم کے لیے مکہ، مدینہ، بصرہ، کوفہ اور یمن کے اسفار کیے۔ آپ کے شیوخ میں آپ کے والد عبد اللہ بن جعفر مدینی، حماد بن زید، سفیان بن عیینہ، یحییٰ بن سعید القطان، عبد الرحمن بن مہدی اور ابو داؤد طیالسی وغیرہ ہیں۔ ( تہذیب التہذیب (زیر علی بن عبداللہ المدینی)جلد 7صفحہ 351۔ الطبعۃ الاولیٰ۔ مطبوعہ مجلس دائرۃ المعارف۔ حیدرآباد دکن)آپ کے علم و فضل کے سبھی معترف تھے۔ یحییٰ بن سعید القطان ان کے اساتذہ میں تھے، مگر وہ کہا کرتے تھے کہ علی بن المدینی نےجتنا مجھ سے استفادہ کیا اس سے کہیں زیادہ میں نے ان سے استفادہ کیا۔ اسی طرح مشہور محدث اور ان کے شیخ ابن مہدی کہا کرتے تھے کہ میں نے احادیث نبوی کا اتنا جاننے والا نہیں دیکھا۔

( تہذیب التہذیب (زیر علی بن عبداللہ المدینی)جلد 7صفحہ 351۔ الطبعۃ الاولیٰ۔ مطبوعہ مجلس دائرۃ المعارف۔ حیدرآباد دکن)

سفیان بن عیینہ کے یہ خاص اور محبوب تلامذہ میں تھے۔ بعض لوگوں کو ابن المدینی کے ساتھ ان کی نسبت و محبت ناگوار گزرتی تھی۔ ایک مرتبہ انہوں نے فرمایا کہ مجھے لوگ علی کی محبت پر ملامت کرتے ہیں۔ خدا کی قسم! انہوں نے مجھ سے جتنا کسب فیض کیا ہے، اس سے کچھ زیادہ میں نے ان سے استفادہ کیا ہے۔ (تذکرۃ الحفّاظ، فی ذکرعلی بن عبداللہ المدینی، جلد اوّل، صفحہ428، مطبوعہ دائرۃ المعارف العثمانیۃ)آپ سے حضرت امام بخاری، ابو داؤد، مسلم وغیرہ نے احادیث لیں۔ ان کے انتقال کے بعد کسی نے امام بخاری سے پوچھا کہ آپ کے دل میں کوئی خواہش باقی ہے؟ ایک خواہش ہے، وہ یہ ہے کہ ابن المدینی زندہ ہوتے اور عراق جا کر ان کی صحبت میں بیٹھتا۔

( تہذیب التہذیب (زیر علی بن عبداللہ المدینی)جلد 7صفحہ 352۔ الطبعۃ الاولیٰ۔ مطبوعہ مجلس دائرۃ المعارف۔ حیدرآباد دکن)

علامہ ذہبی نے آپ کو صاحب التصانیف لکھا ہے۔ (تذکرۃ الحفّاظ، فی ذکرعلی بن عبداللہ المدینی، جلد اوّل، صفحہ428، مطبوعہ دائرۃ المعارف العثمانیۃ)ابن ندیم نے ان کی چند تصانیف کے نام گنوائے ہیں : کتاب المسند بعللہ، کتاب المدلسلین، کتاب الضعفاء، کتاب العلل، کتاب الاسماء و الکنی، کتاب الاشربہ، کتاب النزیل۔ آپ کو صاحب کتاب کشف الظنون صاحب المسند قرار دیتے ہیں۔

( کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون، جلد دوم، باب المیم۔ صفحہ 1684 دار احیاء التراث العربی، بیروت۔ لبنان)

4۔ المصنف… ابوبکر بن ابی شیبہ

(ولادت:161ھ۔ وفات:235ھ)

آپ کا نام عبد اللہ بن محمد بن قاضی ابی شیبہ تھا اور کنیت ابو بکر تھی۔ آپ کی پیدائش 159ھ میں ہوئی۔ آپ کے اساتذہ میں عبد اللہ بن مبارک، شریک بن عبد اللہ القاضی، سفیان بن عیینہ، وکیع بن الجراح اور یحییٰ بن سعید القطان جیسے محدثین تھے۔ ان سے امام بخاری، امام مسلم، امام ابوداؤد، امام نسائی اور ابن ماجہ اور دوسرے کئی محدثین نے حدیث روایت کی ہے۔ (تذکرۃ الحفّاظ، فی ذکرعلی بن عبداللہ المدینی، جلد اوّل، صفحہ432، 433 مطبوعہ دائرۃ المعارف العثمانیۃ)آپ کی کتاب کا نام ’’المصنف لابی بکر بن ابی شیبہ‘‘ ہے۔ اس کتاب کا ایک مختصر تعارف پیش کیا جائے گا۔ اس سے پہلے کہ اس کتاب کا تعارف پیش کیا جائے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ المصنف کے بارے میں کچھ لکھا جائے۔

سید عبدالماجد الغوری کے نزدیک المصنف ہر اس حدیث کی کتاب کو کہتے ہیں جوفقہی تبویب پر مشتمل ہو۔ اس میں مرفوع، موقوف اور مقطوع احادیث موجود ہوں۔ یعنی اس کتاب میں احادیث نبویہ، آثار صحابہ اور اقوال تابعین، تبع تابعین کے فتاویٰ شامل ہوں۔ (موسوعۃ علوم الحدیث و فنونہ، الجزء الثالث۔ صفحہ 338۔ مطبوعہ دار ابن کثیر۔ دمشق۔ بیروت۔ 2007ء) المصنّفات کے جامعین میں وکیع بن الجراح، حماد بن سلمۃ، عبدالرزاق اور مصنف ابن ابی شیبہ وغیرہ شامل ہیں۔

یہ مصنف، مصنف عبدالرزاق کی طرز پر ہی ہے۔ اس کے ابواب فقہی ترتیب پر ہیں مگر اس کے ابواب المصنف لعبدالرزاق کے ابواب سے کسی حد تک کم ہیں۔ اس میں صحاح ستہ میں وارد ہونے والی احادیث کے علاوہ بھی احادیث موجود ہیں۔ یہ پہلی بار ہندوستان سے شائع ہوئی۔ اس کے علاوہ آپ کی معروف کتب میں المصنف فی الاحادیث والآثار، کتاب الایمان اور الادب وغیرہ شامل ہیں۔ علامہ ذہبی بھی آپ کو صاحب المسند اور صاحب المصنف قرار دیتے ہیں۔

( تذکرۃ الحفّاظ، فی ذکرابو بکر بن ابی شیبہ، جلد اوّل، صفحہ432، مطبوعہ دائرۃ المعارف العثمانیۃ)

امام ابن ابی شیبہ کی وفات سن 235ھ میں ہوئی۔

5۔ المسند…اسحاق بن راہویہ

(ولادت:161ھ۔ وفات:238ھ)

آپ کا نام اسحاق بن ابراہيم بن مخلد تھا آپ کی پیدائش 161ھ میں ہوئی۔ آپ خراسان میں بہت بڑے عالم تھے۔ (تذکرۃ الحفّاظ، فی ذکراسحٰق بن ابراھیم، جلد اوّل، صفحہ434، مطبوعہ دائرۃ المعارف العثمانیۃ)آپ کے اساتذہ میں امام شافعی تھے۔ آپ امام احمد بن حنبل، امام بخاری، امام مسلم، امام ترمذی، اور نسائی وغيرہ کے اساتذہ میں سے تھے۔ آپ كبار محدثین میں سے تھے۔ آپ کثیر الاسفار تھے۔ آپ نےعراق، حجاز، شام اور يمن کے سفر کیے۔ آپ کو گیارہ ہزار احادیث ازبر تھیں۔ ( تذکرۃ الحفّاظ، فی ذکراسحٰق بن ابراھیم، جلد اوّل، صفحہ434، مطبوعہ دائرۃ المعارف العثمانیۃ) آپ مرو کے رہنے والے تھے جو خراسان کا مضافاتی علاقہ تھا۔ آپ کے راہویہ لقب کی وجہ یہ ہے کہ ان کے والدین مکہ جا رہے تھے کہ یہ راستے میں پیدا ہوئے جس سے راہویہ کہلائے۔ آپ کی تصنیفات میں المسند، الجامع الكبير، الجامع الصغير اور المصنف وغیرہ ہیں۔ آپ کو صاحب کتاب کشف الظنون صاحب المسند قرار دیتے ہیں۔

( کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون، جلد دوم، باب المیم۔ صفحہ1685 دار احیاء التراث العربی، بیروت۔ لبنان)

6۔ المسند… امام احمد بن حنبل

(ولادت:164ھ۔ وفات:241ھ)

آپ کا نام احمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن اَسد بن اِدریس تھا۔ آپ کی پیدائش164ھ میں بغداد میں ہوئی۔ آپ کے والد تیس سال کی عمر میں ہی انتقال کر گئے تھے۔ والد کی وفات کے بعد امام احمد کی پرورش اور نگہداشت اُن کی والدہ نے کی۔ آپ نے بلا کا حافظہ پایا تھا آپ نے چار سال کی عمر میں قرآن کریم حفظ کر لیا تھا۔ آپ کی ابتدائی تعلیم بغداد میں ہوئی۔ پندرہ برس کی عمر میں انہوں نے حدیث کی تعلیم شروع کی اور اپنے استاد سے تین ہزار سے زائد حدیثیں پڑھیں۔ آپ سنی حنبلی فقہ (اسلامی فقہ) کے بانی تھے۔ آپ نے حدیث کا سماع ابو یوسف سے کیا۔ آپ نے 180ھ میں حج کیا۔ یمن میں حدیث کا سماع آپ نے امام عبدالرزاق الصنعانی سے کیا۔ آپ نے سولہ سال کی عمر میں حدیث کی باقاعدہ سماعت شروع کی۔ آپ کے شیوخ میں سے قاضی ابو یوسف، محمد بن ادریس شافعی، سفیان بن عیینہ، یحییٰ بن سعید القطان، عبد الرحمن بن مہدی، اسماعیل بن علیہ، ابو داؤد طیالسی اور وکیع بن جراح وغیرہ ہیں۔ آپ کے تلامذہ میں مؤلفین صحاح ستہ میں امام محمد بن اسماعیل بخاری، امام مسلم بن حجاج اور امام ابو داؤد سلیمان بن اشعث امام احمد بن حنبل کے بلاواسطہ شاگرد تھے۔ ( تذکرۃ الحفّاظ، فی ذکراسحٰق بن ابراھیم، جلد اوّل، صفحہ431، مطبوعہ دائرۃ المعارف العثمانیۃ) امام ابو عیسیٰ ترمذی احمد بن حسن ترمذی کے واسطہ سے امام ابو عبد الرحمان احمد بن شعیب نسائی عبد اللہ بن احمد بن حنبل کے واسطہ سے اور امام ابن ماجہ امام محمد بن یحییٰ کے واسطہ سے احمد بن حنبل کے شاگرد تھے۔

آپ بہت بڑے عالم تھے۔ یہاں مختصر طور پر مضمون کی مناسبت سے آپ کی حدیث پر مبنی کاوشوں کا ذکر کیا جائے گا۔ اور اس کتاب کا کچھ تعارف پیش کیا جائے گا۔

آپ کی کتاب المسند ہے۔ یہ مسند آپ نے 220ھ سے 237ھ کے درمیان لکھی۔ المسند اس حدیث کی کتاب کو کہتے ہیں جو فقہی ترتیب پر نہ ہو بلکہ صحابہ کے نام کی ترتیب پر ہو۔ خواہ ان کی مرویات میں صحیح، حسن یا ضعیف احادیث ہی کیوں نہ ہوں۔ اس کو حروف تہجی کی ترتیب پر جمع کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات صحابہ کے شرف کو بھی اس ترتیب میں مد نظر رکھا جاتا ہے۔ مثلاً مسانید میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی مرویات کو ان کے پہلے خلیفہ راشد ہونے کی وجہ سے سب سے پہلے لکھا جاتا ہے۔

( موسوعۃ علوم الحدیث و فنونہ، الجزء الثالث۔ صفحہ281۔ مطبوعہ دار ابن کثیر۔ دمشق۔ بیروت۔ 2007ء)

مسند احمد بن حنبل آپ کی ایک کتاب آپ نے مسودہ کی صورت میں اپنے پیچھے چھوڑی۔ اس میں تقریباً بیالیس ہزار احادیث موجود ہیں۔ یہ تمام احادیث متفرق اوراق میں تھیں آخری عمر میں ان کے بیٹوں اور چند خاص شاگردوں نے اسے جمع کیا اور پھر امام احمد نے انہیں جو کچھ بھی لکھا تھا اسے املا بھی کرا دیا۔ گو یہ سب اوراق مرتب نہیں تھے۔ بعد از وفات ان کے بیٹے عبد اللہ اور شاگرد ابو بکر القطیعی نے اس کتاب میں اپنے دیگر اساتذہ سے سنی ہوئی بعض احادیث بھی شامل کر کے اسے روایت کیا اور یوں یہ کتاب شائع ہو گئی۔ کتاب المسند میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے سات سو صحابہ کرام کی روایتیں ہیں۔ اور سات لاکھ بقول بعض ساڑھے سات لاکھ احادیث سے منتخب کر کے تیس ہزار حدیثوں کا مجموعہ ہے۔ یہ مسند کئی کتب احادیث کا مآخذ ہے۔ اس میں سب سے پہلے عشرہ مبشرہ سے روایات اکٹھی کی گئیں ہیں پھر چار اصحابِ کبار سےروایات اہل البیت پھراجلہ صحابہ کرام سے روایات پھراہل مکہ سے روایات ہیں، پھر اہل مدینہ سے روایات پھر اہل شام سے روایات پھراہل کوفہ سے روایات ہیں پھر اہل بصرہ سے روایات پھر انصار سے روایات اور آخر میں صحابیات سے روایات درج کی گئی ہیں۔ ان صحابیات میں سب سے پہلے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے مرویات کو درج کیا گیا۔

7۔ الجامع الصحیح …محمد بن اسمعیل بخاری

(ولادت:194ھ۔ وفات:256ھ)

آپ کا نام محمدبن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ تھا۔ آپ کی کنیت ابو عبد اللہ تھی۔ آپ امام بخاری کے نام سے زیادہ معروف ہیں۔ آپ کی ولادت 194ھ کو وسطی ایشیا کے شہربخارا میں ہوئی۔ آپ کے والد محترم بھی عظیم المرتبت محدثین میں سے تھے۔ آپ کے والد آپ کے بچپن میں ہی فوت ہو گئے۔ آپ کے اساتذہ میں سے ان میں امام احمد بن حنبل، علی بن المدینی، یحییٰ بن معین، اسحاق بن راہویہ، محمد بن یوسف، ابراہیم الاشعث۔ قتیبہ بن سعید وغیرہ ہیں۔ ( تذکرۃ الحفّاظ، فی ذکرالبخاری، جلد اوّل، صفحہ555، مطبوعہ دائرۃ المعارف العثمانیۃ)آپ کی تصنیفات میں سے التاریخ الکبیر، التاریخ الصغیر، الادب المفرد، الجامع الکبیراورالتفسیر الکبیر وغیرہ معروف ہیں۔

صحیح بخاری کا اصل نام’’الجامع المسند الصحیح المختصر من امور رسول اللّٰہ سننہ و ایامہ‘‘ہے۔ علماء کے ہاں صحیح بخاری کی عظیم الشان خصوصیات میں سے ایک اس کی جامعیت ہے۔ اس کتاب میں ایمان و عقائد، فقہ و احکامِ فقہ، سیر و مغازی، تفسیر، اخلاقیات، آداب وغیرہ کو جمع کر دیا ہے۔ محدثین کی اصطلاح میں ’’الجامع‘‘اسی کتاب کو کہا جاتا ہے جس میں صرف احکام کی روایات نہ ہوں بلکہ ایمانیات، تفسیر، اخلاقیات اور دیگر ضروری شعبوں کی روایات و ابواب بھی اس کا حصہ ہوں اور اس حوالے سے بخاری کو صحیح معنوں میں ’’الجامع ‘‘کا مقام حاصل ہے۔ دوسری خصوصیت اس کا صحت کا معیار ہے۔ امام بخاریؒ نے روایت کو قبول کرنے کے لیے اس کے مسند اور مرفوع ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی صحت کی ایسی شرائط قائم کی ہیں اور ان کی پابندی کا اہتمام کیا ہے جس نے جمہور محدثین کے ہاں بخاری شریف کو ’’اصح الکتب بعد کتاب اللّٰہ‘‘ کا درجہ دلا دیا ہے۔ اس کی تیسری خصوصیت یہ ہے کہ امام بخاری ایک ہی روایت سے کئی استنباطات کرتے ہیں۔ مثلاً اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَاتِوالی مشہور حدیث آپ آٹھ مختلف ابواب میں لائے ہیں۔ اسی لیے علماء کے ہاں یہ بات مشہور ہے کہ ’’فقہ البخاری فی تراجمہ‘‘ ابن الصلاح کے مطابق صحیح بخاری میں احادیث کی کل تعداد 9086ہے۔ یہ تعداد ان احادیث کو شامل کر کے ہے جو ایک سے زیادہ مرتبہ وارد ہوئی ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایک سے زیادہ تعداد میں وارد احادیث کو اگر ایک ہی تسلیم کیا جائے تو احادیث کی تعداد 2761رہ جاتی ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکرہے کہ اگر بخاری سے ما قبل کتب احادیث موجود تھیں تو بخاری کو کیا اہمیت حاصل ہے۔ اس سوال کا جواب علامہ الکتانی نے الرسالۃ المستطرفۃ میں دیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں :

’’ بخاری سے قبل کتب حدیث موجود تھیں جن میں صحیح احادیث بھی تھیں۔ مگر یہ خصوصیت کہ کسی بھی حدیث کی کتاب میں صرف اور صرف صحیح احادیث ہوں ایسا نہیں تھا۔ کیونکہ الموطا امام مالک میں صحیح احادیث کے ساتھ ساتھ مرسل اور منقطع احادیث بھی موجود تھیں۔ یہ بنیادی فرق ان دونوں کتابوں میں بہر حال تھا۔ ‘‘

(الرسالۃ المستطرفۃ صفحہ 4۔ الطبعۃ الخامسۃ۔ دار البشائر الاسلامیۃ۔ بیروت لبنان۔ 1993)

اس مبارک کتاب کی کئی شروحات لکھی گئیں اور آج تک اس کو اسلامی کتب میں قرآن کریم کے بعد مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ امام بخاری کی وفات 256ھ میں ہوئی۔

8۔ الجامع الصحیح …مسلم بن الحجاج قشیری

(ولادت:203ھ۔ وفات:261ھ)

امام مسلم کا نام مسلم بن الحجاج بن مسلم القشیری بن دردین تھا۔ آپ کی کنیت ابولحسین تھی اورلقب عساکر الدین تھا۔ آپ کا تعلق قبیلہ بنو قشیر سے تھا جو عرب کا ایک مشہور خاندان تھا۔ آپ کا موطن و مسکن خراسان کا مشہور شہر نیشاپور تھا۔ حضرت امام مسلم کے203ھ کے سن پیدائش میں اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک آپ 203ھ میں پیدا ہوئے اور بعض کے نزدیک 206ھ میں۔ آپ نے ابتدائی تعلیم نیشاپور ہی سے حاصل کی اور نہایت نیک اورپاکیزہ تربیت پائی۔ آپ نے سماع حدیث یحییٰ بن یحییٰ التمیمی نیشاپوری، قتیبہ بن سعید، محمد بن عبد الوہاب الفراء، اسحاق بن راہویہ، محمد بن مہران الحمال، ابراہیم بن موسى الفراء، علی بن الجعد، احمد بن حنبل، احمد بن یونس اور ابراہیم بن المنذر وغیرہ سے کی۔ آپ سے سماع حدیث کئی ممتاز ہستیوں نے کیا مثلاً الترمذی ابو الفضل احمد بن سلمہ، ابراہیم بن ابی طالب، شیخ محمد بن عبد الوہّاب الفراء، ابن خزیمہ، ابو حاتم رازی، اور ابراہیم بن محمد بن سفیان وغیرہ

( تذکرۃ الحفّاظ، فی ذکرالبخاری، جلد اوّل، صفحہ588، مطبوعہ دائرۃ المعارف العثمانیۃ)

آپ کثیر التصانیف بزرگ تھے آپ کی چیدہ چیدہ تصانیف میں المسند الکبیر علی الرجا ل، الا سماء والکنی، کتاب الجامع علی الابواب، الجامع الکبیر، کتاب السیر، کتاب علل، کتاب سوالا ت امام احمد بن حنبل وغیرہ ہیں۔

صحیح مسلم کا نام الجامع الصحیح ہے۔ یہ کتاب کتب الجوامع شمار ہوتی ہے۔ یعنی اس میں حدیث کے تمام ابواب عقائد، احکام، آداب، تفسیر، تاریخ، مناقب، رقاق وغیرہ پر مشتمل ہے۔ صحیح مسلم مسلمانوں کی ایک اہم حدیث کی کتاب ہے، قرآن مجید اور صحیح بخاری کے بعد تیسری سب سے صحیح کتاب مانی جاتی ہے۔ علامہ السرجسی کے بقول آپ نے صحیح مسلم میں موجود احادیث کا انتخاب 3 لاکھ احادیث میں سے کیا۔ ( تذکرۃ الحفّاظ، فی ذکرمسلم بن الحجاج، جلد اوّل، صفحہ589، مطبوعہ دائرۃ المعارف العثمانیۃ) کیونکہ انہوں نے حدیث کے مستند ہونے کی بہت سخت شرائط رکھی ہوئی تھیں تا کہ کتاب میں صرف اور صرف مستند ترین احادیث جمع ہو سکیں۔ بغیر تکرار کے احادیث کی تعداد صرف4000ہے۔ ان احادیث کا انتخاب کرتے ہوئے امام مسلم نے یہ شرط لگائی ہے کہ وہ اپنی صحیح میں صرف وہ حدیث بیان کر یں گے جس کو کم ازکم دوثقہ تابعین نے دوصحابیوں سے روایت کیا ہو اور یہی شرط تمام طبقات تابعین وتبع تابعین میں ملحوظ رکھی ہے یہاں تک کہ سلسلہ اسناد ان (مسلم ) تک ختم ہو۔ دوسرے یہ کہ راویوں کے اوصاف میں صرف عدالت پر ہی اکتفاء نہیں کرتے بلکہ شرائط شہادت کو بھی پیش نظر رکھتے ہیں۔ اس کتاب کی کئی ایک شروحات، مستدرکات، مستخرجات اور مختصرات لکھی اور اکٹھی کی گئیں۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی ایک جیسی روایات کو متفق علیہ بھی کہا جاتا ہے۔ ان متفق علیہ روایات کو بھی علمائے حدیث نے اکٹھا کیا۔ اس سلسلہ میں فؤاد محمد عبدالباقی کی تالیف اللؤلؤ والمرجان فيما اتفق عليه الشيخان اہم کتاب ہے۔

9۔ مسندکبیر… یعقوب بن شیبہ

(ولادت:180ھ۔ وفات:262ھ)

آپ کا نام يعقوب بن شيبہ بن الصلت بن عصفور تھا۔ آپ کی کنیت ابو يوسف تھی۔ آپ کا شمار تیسری صدی ہجری کے کبار علمائے حدیث میں ہوتا ہے۔ آپ مالکی المشرب تھے۔ آپ نے حدیث کا سماع بیس سال کی عمر میں کیا۔ علامہ ذہبی آپ کی مسند کے بارے میں فرماتے ہیں :

’’آپ کی مسند جیسی مسند کبھی بھی نہیں لکھی گئی مگر آپ اس کو مکمل نہ کر سکے۔ آپ کی مسند میں حضرات عشرہ مبشرہ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، حضرت عمارؓ اورحضرت عباسؓ کی مسانید تھیں۔ ‘‘

(تذکرۃ الحفّاظ، فی ذکریعقوب بن شیبہ، جلد اوّل، صفحہ577، مطبوعہ دائرۃ المعارف العثمانیۃ)

10۔ السنن …ابو عبد اللہ محمد بن یزید ابن ماجہ القزوینی

(ولادت:209ھ۔ وفات:273ھ)

آپ کا نام محمد بن یزید القزوینی تھا۔ آپ کی کنیت ابو عبداللہ تھی۔ آپ عراق کے مشہور شہر قزوین میں 209ھ پیدا ہوئے اور آپ کا تعلق قبیلہٴ ربیعہ سے تھا۔ آپ کے نام میں ’’ماجہ‘‘سے متعلق علماء مختلف الخیال ہیں۔ بعض کے نزدیک یہ ان کے دادا کا نام تھا، بعض اس کو آپ کی والدہ کا نام بھی بتاتے ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ ماجہ آپ کے والد یزید کا لقب تھا۔ تحصیل حدیث کے لیے آپ نے بہت اسفار کیے۔ مثلاً خراسان، عراق، حجاز، مصر، شام، بصرہ، کوفہ، مکہ، رے اور بغداد وغیرہ سفر کیے۔ آپ کے شیوخ میں سے ابراہیم بن مندر حزامی، ابوبکر بن ابی ثمبہ، جبارہ بن مغلس، صحدون بن عمارہ بغدادی، داؤد بن رشید، سہل بن اسحاق، ابراہیم واسطی اورعبد اللہ بن محمد وغیرہ تھے۔ آپ کے تلامذہ میں ابراہیم بن دینار جرشی، احمد بن ابراہیم قزوینی، ابو الطیب احمد بن روح، احمد بن محمد مدنی، اسحاق بن محمد قزوینی اور جعفر بن ادریس وغیرہ تھے۔ ( تذکرۃ الحفّاظ، فی ذکرابن ماجہ، جلد اوّل، صفحہ636، مطبوعہ دائرۃ المعارف العثمانیۃ)آپ کا عظیم الشان علمی کارنامہ السنن ابن ماجہ کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ اس میں انہوں نے احادیث کو کتاب اور ابواب کے اعتبار سے مرتب کیا ہے۔ احادیث کی کتابوں میں اس کتاب کے مقام میں علما ءکا اختلاف ہے چونکہ اس کتاب میں صحیح، حسن، ضعیف بلکہ منکر اور موضوع روایات بھی شامل ہیں لیکن بہت کم ہیں، موضوع احادیث دیگر احادیث کی نسبت کم ہیں۔ اس کتاب میں 4000سے زائد احادیث اور کل 1500 ابواب ہیں۔ (تذکرۃ الحفّاظ، فی ذکریعقوب بن شیبہ، جلد اوّل، صفحہ636، مطبوعہ دائرۃ المعارف العثمانیۃ)سنن ابن ماجہ کو پانچویں صدی ہجری کے آخر میں کتب ستہ میں شمار کیا جانے لگا۔ ( کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون، جلد دوم، باب السین۔ صفحہ 1004 دار احیاء التراث العربی، بیروت۔ لبنان)اس کے بعد ہر دَور میں یہ کتاب اپنی حیثیت منواتی گئی۔ صحت و قوت کے لحاظ سے صحیح ابن حبان، سنن دار قطنی اور دوسری کئی کتب سنن ابن ماجہ سے برتر تھیں لیکن ان کتب کو وہ پذیرائی اور قبول عام حاصل نہ ہو سکا جو سنن ابن ماجہ کو حاصل ہوا۔ سنن ابن ماجہ کی خصوصیات میں ایک اس کا اسلوب ہے۔ اس کے تراجم ابواب کی احادیث کی مطابقت نہایت واضح ہے۔ دوسری خصوصیت اس کی جامعیت ہے۔ امام ابن ماجہ نے اپنی سنن میں 482 ایسی صحیح احادیث کا اضافہ کیا ہے جو باقی کتب خمسہ(صحاح ستہ میں سے) میں نہیں ہیں۔

11۔ السنن… ابوداؤد

(ولادت:202ھ۔ وفات:275ھ)

آپ کا نام سلیمان بن الاشعث السجستانی تھا اور آپ کی کنیت ابو داؤد تھی۔ آپ سیستان میں 202ھ میں پیدا ہوئے۔ کم عمری میں ہی اخذ علم کے لیے سفر شروع کر دیا تھا، حجاز، شام، مصر، عراق اور خراسان وغیرہ بلادِ اسلامیہ کا سفر کرکے وہاں کے علماءاور مشائخ کی ایک بڑی جماعت سے حدیثِ پاک کا سماع حاصل کیا۔ آپ کے اساتذہ میں احمد بن حنبل، قعبی اور ابوالولید الطیالسی جیسے کبار مشائخ شامل ہیں۔ ( تذکرۃ الحفّاظ، فی ذکر ابو داؤد، جلد اوّل، صفحہ591، مطبوعہ دائرۃ المعارف العثمانیۃ) بعض ایسے اساتذہ بھی ہیں، جن سے اخذ علم میں آپ امام بخاری اور امام مسلم کے ساتھ شریک ہیں۔ مثلاً احمد بن حنبل، عثمان بن ابی شیبہ اور قتیبہ بن سعید وغیرہ۔ امام ابوداؤد نے بہت سا علمی ذخیرہ اپنی یادگار چھوڑا ہے جس کی مجمل فہرست درج ذیل ہے۔ مراسیل۔ الردعلی القدریہ۔ الناسخ والمنسوخ۔ ماتضروبہ اہل الامصار۔ فضائل الانصار۔ مسند مالک بن انس۔ المسائل معرفۃ الاوقات اور کتاب بدء الوحی وغیرہ۔ ان میں سب سے زیادہ اہم آپ کی السنن ہے۔ اسی کا تذکرہ ہم یہاں کریں گے۔

سنن ابی داؤد، کتب ستہ اور سنن اربعہ میں ایک اہم کتاب ہے۔ اس میں امام ابو داؤد نے 5275 احادیث کو پانچ لاکھ احادیث میں سے منتخب کر کے جمع کیا ہے۔ (تذکرۃ الحفّاظ، فی ذکر ابو داؤد، جلد اوّل، صفحہ591، مطبوعہ دائرۃ المعارف العثمانیۃ)آپ نے اپنی کتاب کو 36کتب میں تقسیم کیا ہے، اور ہر کتاب کو متعدد ابواب میں تقسیم کیا جس میں کل ابواب کی تعداد 1871 ہے۔ ہر حدیث پر علما ءکے استنباط پر مشتمل ترجمہ باندھا ہے۔ کتاب میں اکثر احادیث مرفوع ہیں، اسی طرح کچھ احادیث موقوف بھی ہیں اور کچھ علمائے تابعین کے آثار بھی ہیں۔ خطیب بغدادی کے نزدیک اس کا مرتبہ صحیحین کے بعد ہے۔ (الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع، بَابُ الْقَوْلِ فِي كَتْبِ الْحَدِيثِ عَلَى وَجْهِهِ، حديث رقم 1574)یعنی تیسرے نمبر پر ہے۔

لیکن آپ نے زندگی کا بڑا حصہ بغداد میں گزارا۔ وہیں اپنی سنن کی تالیف کی۔ آپ نے 271ھ میں بغداد کو خیر باد کہا اور زندگی کے آخری چار سال بصرہ میں گزارے جو اس وقت علم وفن کے لحاظ سے مرکزی حیثیت رکھتا تھا۔ آپ کی وفات 275ھ میں ہوئی۔

12۔ المسند …احمد بن حازم

(ولادت:180ھ۔ وفات:276ھ)

آپ کا نام احمد بن حازم بن محمد بن يونس بن قيس الغفاری الكوفی تھا۔ اور کنیت ابو عمر تھی۔ آپ کو ابن ابی غرزۃ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ آپ نے حدیث کی سماعت جعفر بن عون، يعلىٰ بن عبيد، عبيد الله بن موسى، اسماعيل بن ابان، احمد بن يونس وغیرہ سے کی ( تذکرۃ الحفّاظ، فی ذکرابن ابی غرزۃ، جلد اوّل، صفحہ 594، مطبوعہ دائرۃ المعارف العثمانیۃ)اور آپ کے تلامذہ میں مطين، ابراهيم بن عبد الله، ابو العباس بن عقدة وغیرہ ہیں۔ آپ کی وفات 276ھ میں ہوئی۔ آپ صاحب مسند تھے۔ اس میں آپ نے بعض ایسی صحیح الاسناد روایتیں بھی درج کیں جو صحاح ستہ میں نہیں ہیں۔ ( تذکرۃ الحفّاظ، فی ذکرابن ابی غرزۃ، جلد اوّل، صفحہ 595، مطبوعہ دائرۃ المعارف العثمانیۃ)

13۔ المسند …امام بقی بن مخلد

(ولادت:201ھ۔ وفات:276ھ)

آپ کا نام بقی بن مخلدبن یزید تھا اور کنیت ابو عبدالرحمٰن تھی۔ آپ نے سماع حدیث اندلس میں کی۔ جن میں محمد بن عيسىٰ الاعشى، یحیٰ بن یحیٰ اللیثی شامل ہیں۔ پھر آپ حجاز، مصر، بغداد، کوفہ اور بصرہ سماع حدیث کے لیے تشریف لے گئے۔ آپ نے لگ بھگ 284محدثین سے ملاقات کی اور احادیث کی روایت لی۔ صاحب کتاب کشف الظنون نے بھی اس مسند کا ذکر کیا ہے، آپ ابن حزم کے حوالے سےفرماتے ہیں کہ

’’اس مسند میں آپ نے 1300 صحابہ کی روایات اکٹھی کیں۔ پھر ان کو فقہی تبویب دی۔ اس طرح یہ ایک لحاظ سے مسند ہے اور دوسرے لحاظ سے مصنف۔ ‘‘

(کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون، جلد دوم، باب المیم۔ صفحہ 1679 دار احیاء التراث العربی، بیروت۔ لبنان)

علامہ ذہبی آپ کو ایک بڑی مسند اور اعلیٰ درجہ کی تفسیر کے مصنف قرار دیتے ہیں۔ ( تذکرۃ الحفّاظ، فی ذکربقی بن مخلد، جلد اوّل، صفحہ 629، مطبوعہ دائرۃ المعارف العثمانیۃ)آپ کی وفات 276ھ میں ہوئی۔

14۔الجامع للترمذی…شمائل الترمذی…ابوعیسیٰ محمدالترمذی

(ولادت:209ھ۔ وفات:279ھ)

آپ کا نام محمد بن سورہ بن شداد تھا۔ آپ کی کنیت ابوعیسیٰ تھی۔ آپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ پیدائشی نابینا تھے۔ اور بعض کے بقول آخری عمر میں نابینا ہو گئے تھے۔ آپ کی پیدائش 209ھ کی ہے اور آپ فارس کے شہر ترمذ میں پیدا ہوئے۔ آپ قبیلہ بنو سلیم سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کی ابتدائی تعلیم سن 220ھ کے قریب شروع ہوئی۔ آپ نے حضرت محمد بن اسمعیل بخاری اور امام عبد اللہ بن عبد الرحمن دارمی اور ابوزرواعہ رازی سے سماع حدیث کیا۔ آپ نے امام احمد ابن حنبل، امام بخاری اور امام ابو داؤد سے حدیث کا درس لیا۔

آپ کی دو تصانیف نہایت عظیم الشان ہیں۔ جن کے نام شمائل ترمذی ہے۔ اور دوسری احادیث کا مجموعہ جو جامع ترمذی کے نام سے مشہور ہے۔ دونوں کتابیں بہت وقیع اور مستند ہیں۔

( تذکرۃ الحفّاظ، فی ذکرالترمذی، جلد اوّل، صفحہ 633، مطبوعہ دائرۃ المعارف العثمانیۃ)

جامع ترمذی کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ امام ترمذی نے اس میں یہ اہتمام کیا ہے کہ حدیث بیان کرنے کے بعد صحابہ اور ائمہ مجتہدین کا مسلک بیان کرتے ہیں کہ اس حدیث پر کن کن حدیث بیان حضرات کا عمل رہا ہے۔ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ حدیث کا مقام صحیح، حسن، مشہور، غریب اور ضعیف وغیرہ بھی بیان کرتے ہیں۔ تیسری خصوصیت یہ ہے کہ ایک مسئلہ پر باب میں جو حدیث بیان کرتے ہیں اس کا متعلقہ حصہ ہی بیان کرتے ہیں ساری حدیث نہیں بیان کرتے چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ باب میں متعلقہ حدیث کی مخالف و موافق دونوں طرح کی احادیث بیان کرتے ہیں۔ پانچویں اور سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ فی الباب کہہ کر اس باب میں جتنے صحابہ سے روایت ہےکا ذکر کرتے ہیں اور بعد میں آنے والوں نے فی الباب کی احادیث کو تلاش کر کے جمع کیا ہے۔

15۔ المجتبیٰ من السنن … احمد بن شعیب النسائی

(ولادت:215ھ۔ وفات:303ھ)

آپ کا نام احمدبن شعیب بن علی بن بحر بن سنان النسائی۔ آپ کی کنیت ابو عبد الرحمن تھی۔ آپ کی پیدائش سن 215ھ میں ترکمانستان کے شہر مرو کے قریب نساء میں ہوئی۔ آپ کو اسی نسبت سے نسائی کہا جاتا ہے۔ آپ نے حدیث کی سماعت اپنے علاقے کے محدثین سے کی پھر خراسان، عراق، حجاز، جزیرہ، شام اور مصر وغیرہ تشریف لے گئے۔ مختلف مقامات کا سفر کیا، اس کے بعد مصر میں سکونت اختیار کرلی اور افادہ وتصنیف میں مشغول رہے۔ پھر مصر سے دمشق آگئے۔ ( تذکرۃ الحفّاظ، فی ذکرالنسائی، جلد اوّل، صفحہ 700، مطبوعہ دائرۃ المعارف العثمانیۃ)آپ کے شیوخ میں سے امام بخاری، امام ابوداؤد، امام احمدبن حنبل، اسحٰق بن راہویہ اور امام قتیبہ بن سعید، وغیرہ معروف ہیں۔ آپ کی تصنیفات کافی زیادہ ہیں جن میں السنن الکبریٰ، مسند علی، مسند مالک، کتاب التمیز، کتاب المدلسین، کتاب الضعفاء، کتاب الاخوۃ اور مسند منصور شامل ہیں۔ البتہ یہاں آپ کی بے نظیر تصنیف السنن کا تذکرہ کیا جائے گا۔ علماء کے ہاں اس کی افادیت اور عظمت اس لیے بھی زیادہ ہو جاتی ہے کہ امام نسائی نے امام بخاری اور مسلم کی طرز کو اس سنن میں مجتمع کر دیا اور اس حوالہ سے یہ جامع کتاب بنی۔ سنن نسائی صحاح ستہ میں تیسرے نمبر پر ہے۔ اس میں منتخب احادیث کی تعداد 5270ہے اور اس میں احادیث کی تکرار شامل ہے۔ آپ کی وفات سن 303ھ میں ہوئی۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسلّم کتب حدیث کے درجات کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں :

’’(قرآن کریم کے بعد) دوسری کتابیں جو ہماری مسلم کتابیں ہیں اُن میں اوّل درجہ پر صحیح بخاری ہے اور اس کی وہ تمام احادیث ہمارے نزدیک حجت ہیں جوقرآن شریف سے مخالف نہیں اور اُن میں سے دوسری کتاب صحیح مسلم ہے اور اس کو ہم اس شرط سے مانتے ہیں کہ قرآن اور صحیح بخاری سے مخالف نہ ہو۔ اور تیسرے درجہ پر صحیح ترمذی، ابن ماجہ، مؤطا، نسائی، ابوداؤد، دارقطنی کتب حدیث ہیں جن کی حدیثوں کو ہم اس شرط سے مانتے ہیں کہ قرآن اور صحیحین سے مخالف نہ ہوں۔ یہ کتابیں ہمارے دین کی کتابیں ہیں اور یہ شرائط ہیں جن کی رو سے ہمارا عمل ہے۔ ‘‘

(آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد 10صفحہ86تا87)

خاتمہ

اس مضمون سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حدیث اسلام، قرآن کریم اور سیرت نبویﷺ کے دقیق در دقیق پہلوؤں پر روشنی ڈالنے والاایک اصل ثابت ہوا جس کے ذریعہ اسلام، عقائد و اعمال، سنن و افعال نبویہﷺ، سیرت و مغازی، تاریخ اسلامی اور تفسیر قرآنی وغیرہ کے سمجھنے میں سہولت پیدا ہو گئی۔

آنحضرتﷺ نے بعض صحابہ مثلاً حضرت عمرو بن حزمؓ وغیرہ کو کچھ احادیث املاکروائیں تا کہ وہ صحابہ ان احادیث کی روشنی میں اسلامی مملکت کا نظام اور اس کی عملداری مضبوطی سے قائم کر دیں۔

آنحضرتﷺ نے ایک کتاب ’’ کتاب الصدقۃ‘‘ املا کروائی جس کو آپ نے تمام اسلامی ریاست کے زیر نگیں علاقوں میں بھجوانا چاہا مگر آپﷺ داغ مفارقت دے گئے۔ پھر بعد میں یہ کتاب حضرت ابو بکر صدیقؓ نے ان علاقوں کی جانب بھجوائی۔ اوّل اوّل جناب رسالت مآبﷺ نے اس کی تدوین کو ناپسند سمجھا کیونکہ قرآن کریم کی وحی کا نزول جاری تھا مگر بعد میں جب وحی متلو، اس کے تحفظ و کتابت کی ایک ادارہ کی صورت بن گئی تب آپؐ نے خود بعض صحابہ کو احادیث لکھنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ بعض صحابہ کرامؓ احادیث کو زبانی یاد کر لیا کرتے مگر بعد میں اپنی عمر کی زیادتی، یادداشت کی کمزوری کی بنا پر احادیث کو لکھنے لگ گئے۔ آپﷺ نے بعض صحابہ کے بارے میں فرمایا کہ ان کو احادیث لکھ کر دی جائیں۔ جو خطوط رسول کریمﷺ نے اس وقت کے بادشاہوں کو لکھے ان میں سے بعض خطوط اسی دَور میں محفوظ کر لیے گئے تھے۔ ان خطوط کے مندرجات بھی حدیث ہی کا حکم رکھتے ہیں۔

اس مضمون میں خلفائے راشدین اور ان کے علاوہ گیارہ دوسرے جلیل القدر صحابہ کرامؓ کے احادیث کے صحائف کا ذکر کیا گیا ہے۔ خیر القرون میں صحابہ کے بعدپہلی صدی ہجری کے تابعین کرام کی تدوین و جمع حدیث کے بارے میں تفصیلاً ذکر کیا گیا ہے۔ اس مضمون میں ان دس تابعین کرام کی سوانح اور ان کے صحائف و کتب حدیث سے متعلق معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ جس میں صحیفہ ہمام بن منبہ ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ یہ صحیفہ آج ہمارے پاس موجود ہے۔ اس کے بعد دوسری صدی ہجری سے تعلق رکھنے والے تابعین کرام کی کتب و صحائف احادیث کا تفصیلاً ذکر کیا گیا ہے۔ سب سے پہلے اس بات پر بحث اٹھائی گئی ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ وہ پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے تدوین و جمع حدیث کو باقاعدہ ایک سرکاری فرض کے طور پر شروع کیا اور مسلم ریاست کے گورنرز اور عمال کو خطوط لکھے کہ احادیث کو باقاعدہ جمع کیا جائے۔ دوسری صدی ہجری میں فن حدیث اپنے کمال کی جانب سفر طے کرتا رہا۔ اس دورمیں فن حدیث میں ’’الموطا‘‘، ’’المسند‘‘، ’’المصنف‘‘، ’’الجامع‘‘، اور ’’مغازی‘‘ جیسی اصطلاحات کا استعمال ہوا اور ان کے تحت احادیث کو جمع کیا گیا۔ اس ریسرچ پیپر میں کل پندرہ تابعین و تبع تابعین کرام کےعلم حدیث کے میدان میں کارہائے نمایاں، ان کےصحائف، کتب و تصنیفات، جوامع، مسانید، مصنفات اور سیر و مغازی کو بیان کیا گیا ہے۔ تیسری صدی ہجری علم حدیث کی سنہری صدی تھی۔ اس میں الموطا امام مالک، صحیحین اور کتب اربعہ جیسی با کمال کتب تصنیف ہوئیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ بخاری ومسلم سے ما قبل 7کتب احادیث کا تذکرہ(جو صحیحین کا مآخذ بھی تھیں )کیا گیا ہے۔ صحیحین و کتب اربعہ کے درمیانی ازمنہ میں لکھی جانے والی کتب کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے۔ تیسری صدی ہجری میں معرض تحریر میں آنے والی کل پندرہ سرتاج کتب حدیث کا تذکرہ کیا گیا ہے۔

اس تذکرے کے ساتھ ساتھ یہ مضمون اوّل طور پر اس عمومی غلط فہمی کا ازالہ کہ علم حدیث آنحضرتﷺ کے دو یا ڈھائی سو سال بعد معرض وجود میں آیا۔ چونکہ اس علم اور حضورﷺ کے درمیان دو سو سال کا عرصہ تھا اس لیے اسلام کے علم کلام میں کئی اصل سے دور، مصنوعی عقائد اور غیر معروف باتیں داخل ہو گئیں۔

یہ مضمون اس غلط فہمی کا بھی ازالہ ہےکہ بخاری و مسلم حدیث کی قدیم ترین کتابیں ہیں اور ان سے قبل حدیث سے متعلق کتب کا کوئی وجود نہ تھا۔ اس اصل کااثبات کہ حدیث اسلام کے بنیادی ہدایت کے ذرائع میں سے ایک ہے۔ جو اسلام کی عمارت ہم آج اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اس میں بہت کچھ حدیث کا عمل دخل ہے۔

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

  1. السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ ماشاءاللہ بہت مفصل مدلل اور علمی مضمون ہے۔ مضمون نگار نے بہت بہترین انداز سے کتب احادیث اور مؤلفین کا تعارف کروایا ہے۔ مولاکریم موصوف کے علم اور قلم میں برکت دے، اور ادارہ الفضل کو ہمیشہ ایسے خوبصورت اور علمی مضامین سے اخبار کو آراستہ کرنے کی توفیق عطا فرماتا رہے۔

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button