متفرق مضامین

مسیح موعود و مہدی معہودعلیہ الصلوٰۃ و السلام کے ارشادات کی روشنی میں فقر کی تعریف اور اس کی اہمیت (قسط اوّل)

(ڈاکٹر کاشف علی۔ مربی سلسلہ)

مقدمہ

انسان خداتعالیٰ کی ہستی پر یقین کیسے حاصل کرسکتا ہے اور اس سے کیسے برکات پا سکتا ہے اور اس کے کیا مراحل ہیں؟ ان سب امور پربہت لکھا اورکہا جاچکا ہے۔ خاکسار اپنے اس مضمون میں اپنی بساط کے مطابق کوشش کرے گا کہ اس سیرو سلوک کےسفر میں سے ایک مرحلہ یا مقام یعنی ’’فقر‘‘ کو بیان کرے۔ وباللّٰہ التوفیق۔

فقر کے لغوی معنی تنگدستی اور محتاجی کےہیں۔ فقر کو اس لیے بھی فقر کہتےہیں کہ اس میں مراد تک پہنچنے کے لیے کمرشکن حد تک محنت کرنی پڑتی ہے جیسا کہ قرآن شریف میں فَاقِرَۃٌ کا لفظ آیا ہے یعنی ایسی مصیبت جو کمر شکن ہوجیسا کہ فرمایا:

تَظُنُّ اَنۡ یُّفۡعَلَ بِہَا فَاقِرَۃٌ(القیامۃ:26)

یعنی وہ یقین کرلیں گے کہ اُن سے کمر توڑ سلوک کیا جائے گا۔

فقر کے اصطلاحی معنی دنیا اور اس کے اسباب سے دل نہ لگانا اور خدا کی ہستی کو اظہر من الشمس جاننا اور غیرالله سے بےنیازی اور خداتعالیٰ کی نیازمندی کا عملی ثبوت دینا ہے۔ بعض عارفوں کے نزدیک تصوف کا آخری مقام فقرہے جس میں انسان حال اور قال سے بالاتر ہوتا ہے۔

فقر دو قسم کا ہے: فقر مادی اور فقر عرفانی۔

مادی فقر میں انسان مادی چیزوں کی ضرورت کا احساس اور اظہار کرتا ہے۔

اور عرفانی فقر میں انسان صرف خداکو اپنے لیے ضروری سمجھتا اور باقی سب چیزوں کو ہیچ جانتا ہے۔

قرآن شریف میں فقر

قرآن شریف نے انسان کو اس کی ہر قسم کی ضروریاتِ زندگی کے لیے چاہے وہ دنیوی ہوں چاہے روحانی، خداتعالیٰ کا محتاج قرار دیا ہے، جیسا کہ فرمایا:

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اَنۡتُمُ الۡفُقَرَآءُ اِلَی اللّٰہِ ۚ وَ اللّٰہُ ہُوَ الۡغَنِیُّ الۡحَمِیۡدُ (الفاطر: 16)

اے لوگو! تم ہی ہو جو اللہ کے محتاج ہو اور اللہ ہے جو غنی (اور) ہر تعریف کا مالک ہے۔

پھر مادی فقر ہے جس میں مالی لحاظ سے انسان غریب ہوتا ہے جیسا کہ فرمایا:

اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلۡفُقَرَآءِ وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ الۡعٰمِلِیۡنَ عَلَیۡہَا…(التوبه:60)

اور آیت لِلۡفُقَرَآءِ الَّذِیۡنَ اُحۡصِرُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ لَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ ضَرۡبًا فِی الۡاَرۡضِ…(البقرۃ:274)

پھر قرآن شریف حقیقی فقر کی دعا سکھاتا ہے:

رَبِّ اِنِّیۡ لِمَاۤ اَنۡزَلۡتَ اِلَیَّ مِنۡ خَیۡرٍ فَقِیۡرٌ…(القصص:25)

ان تین آیات میں فقر کا لفظ محتاج اور ضرورت مند کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔

پس فقر یعنی ہر قسم کی مخلوقات سے بے نیاز ہونا اور خداتعالیٰ سے کامل تعلق جوڑنا اور اپنی ہر ضرورت کے لیے صرف اس کی طرف رجوع کرنا ہے۔

الله تعالیٰ نے حقیقی فقیر کی ایک علامت یہ بھی بیان فرمائی ہے کہ وه مادی فقر کودُور کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جس قدر ممکن ہو دوسروں کی مدد کرتے ہیں جیسا کہ فرمایا:

ہٰۤاَنۡتُمۡ ہٰۤؤُلَآءِ تُدۡعَوۡنَ لِتُنۡفِقُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ۚ فَمِنۡکُمۡ مَّنۡ یَّبۡخَلُ ۚ وَ مَنۡ یَّبۡخَلۡ فَاِنَّمَا یَبۡخَلُ عَنۡ نَّفۡسِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ الۡغَنِیُّ وَ اَنۡتُمُ الۡفُقَرَآءُ ۚ وَ اِنۡ تَتَوَلَّوۡا یَسۡتَبۡدِلۡ قَوۡمًا غَیۡرَکُمۡ ۙ ثُمَّ لَا یَکُوۡنُوۡۤا اَمۡثَالَکُمۡ(محمد:39)

کہ سنو! تم وہ لوگ ہو جن کو اس لئے بلایا جاتا ہے کہ تم اللہ کے راستہ میں خرچ کرو، اور تم میں سے بعض ایسے ہوتے ہیں جو بخل سے کام لیتےہیں اور جو بھی بخل سے کام لے وہ اپنی جان ہی کے متعلق بخل سے کام لیتا ہے ورنہ اللہ بے نیاز ہے اور تم ہی محتاج ہو۔ اور اگر تم پھر جاؤ، تو وہ تمہاری جگہ ایک اَور قوم کو بدل کر لے آئے گا اور وہ تمہاری طرح (سستی کرنے والے) نہیں ہو گے۔

آنحضرتﷺ کی زندگی میں فقر

رسالت مآبﷺ الله تعالیٰ تک پہنچنے کے سلوک کو کامل طور پر جانتے تھے اور آپؐ نے فقر کو اپنے لیےفخر کا باعث بیان فرمایا اور فرمایا: الفَقْرُ فَخْرِیْ۔ اور حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں کبھی صاع بھر گیہوں یا صاع بھر اناج نے رات نہیں گزاری حالانکہ آپ کے زیر کفالت 9 ازواج مطہرات تھیں۔ (صحیح بخاری )

حضرت عروہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ان سے فرمایا : بھانجے! ہم ایک چاند دیکھتے، پھر دوسرا اورپھر تیسرا، اوراس عرصہ میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں سے کسی گھر میں آگ نہیں جلتی تھی، میں نے عرض کیا : خالہ جان !آپ کی گزراوقات کس چیز پرہوتی تھی؟ آپ نے فرمایا : دوسیاہ چیزوں، کھجوروں اورپانی پر، ہاں البتہ حضورﷺ کے کچھ انصار پڑوسی تھے ان کے پاس دودھ دینے والے جانور تھے، وہ ان کا دودھ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بطور ہدیہ پیش کرتے تھے اورآپ ہمیں وہ دودھ پلادیتے تھے۔ (صحیح بخاری )

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں:

جب خیبر فتح ہوا تو ہم نے (ایک دوسرے سے ) کہا : اب ہم سیر ہوکر کھجوریں کھایا کریں گے۔ (صحیح بخاری)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ نے کبھی (مسلسل )تین روزتک سیر ہو کر نہیں کھایا حتیٰ کہ آپؐ اس دنیا سے رحلت فرماگئے۔ (صحیح بخاری)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہانےفرمایا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ جب سے مدینہ آئے، آپ کبھی تین راتیں مسلسل گیہوں کی روٹی سے سیر نہیں ہوئے حتیٰ کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاوصال ہوگیا۔ (صحیح بخاری)

پس روحانیت میں ترقی کے لیے فقر کا ایک خاص مقام ہے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے روزے کے حوالے سے فرمایا ہے کہ اس سے روحانی قویٰ ترقی پاتے ہیں اور آپ نے چھے ماه تک مسلسل روزے رکھے اور صوفیا ئےکرام نے بھی صوفی کی ایک نشانی یہ بیان کی ہے کہ وه کم کھاتے ہیں۔

صوفیاءکی نظر میں فقر کی اہمیت

جنید بغدادی (220تا298ہجری) فقر کو بندگی کا لازمی حصہ قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’توانگری کسوت ربوبیت است و دریشی کسوت عبودیت ‘یعنی امیری ربوبیت کا لباس ہے اور عبودیت کا لباس فقر اور درویشی ہے۔

رُوَیم بن احمد(متوفی 303 ہجری) فقر تقدیر الٰہی پر کامل طور پر راضی رہنے کو کہتے ہیں۔

محمد بن خفیف شیرازی (269تا371 ہجری) کہتے ہیں کہ درویشی نیستی ملک اور صفات سے باہر نکلنے کا نام ہے۔

اسماعیل بن عبدالرحمٰن صابونی (373تاا449ہجری)روایت کرتے ہیں کہ

اَلْفَقِیْرُ الصَّادِقُ الَّذِیْ یَمْلِکُ کُلَّ شَیْءٍ وَلَا یَمْلِکُهٗ شَیْءٌ

یعنی حقیقی معنوں میں فقیروه ہے جو سب چیزوں کا مالک ہوتا ہے لیکن کوئی چیز اس کی مالک نہیں ہوتی۔

ابو محمد الجریر ی (متوفی 923م)کہتے ہیں کہ فقر یعنی الله سے روزی صرف اس ڈر سےمانگنا کہ واجبات کی ادائیگی میں کمی نہ ہو۔

ابراہیم ادھم (100 تا 161ہجری) کہتے ہیں کہ ہم نے درویشی اور فقر چاہی اور ہمیں امیری مل گئی اور دنیاداروں نےا میری چاہی اور ان کو فقیری نصیب ہوگئی۔

ربیع بن خثیم (متوفی 63ہجری)سے کہا گیا کہ مہنگائی ہوگئی ہے تو آپ نے فرمایا: ہم اس سے زیادہ حقیر ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھوکا رکھے کیونکہ وہ بھوکا اولیا ءکو رکھتا ہے۔

ابن جلا کہتے کہ درویشی یہ ہے کہ کسی چیز کے مالک نہ ہو اور اگر مالک ہو تو وه تمہیں خدا سے غافل نہ کرسکے۔

یحیٰ بن معاذ رازی (متوفی 285ہجری) سےکسی نے پوچھا کہ امیری کیا ہے؟ جواب دیا کہ الله تعالیٰ پر توکل اور یقین ہونا، پھر پوچھا کہ درویشی کیا ہے تو جواب دیا اپنے خدا کے ساتھ تعلق قائم کرکے سب کائنات سے امیر ہونا فقیری اور درویشی ہے۔

ابوالقاسم قشیری (376تا 465ہجری)معتقد ہیں کہ فقر ایسی چیز ہے کہ صرف الله تعالیٰ اسے بے نیازی میں تبدیل کرسکتا ہے۔

علی ہجویری داتا گنج بخش(متوفی465ہجری)فقرکی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ

فقر کشف ابدی باشد بہ مشاہدت حق

یعنی حق تعالیٰ کے دیدار کے ابدی اور مسلسل کشف کا نام فقر ہے۔

خواجہ عبداللہ انصاری (396تا481ہجری)قرآنی آیت کی بنا پر فقر کی یہ تعریف فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

اے لوگو تم اللہ تعالیٰ کے محتاج ہو، فقر ملکیت کی نظر رکھنے سے مبرا ہونے کا نام ہے۔

العبادی مقام فقر کو حال اور قال سے بالاتر سمجھتے ہیں اور فقر کو ایسا علم قرار دیتے ہیں جس کو دل کے راستے سے سمجھا جاسکتا ہے۔ ان کی نگاہ میں تصوف کا آخری مقام فقر ہے جو کہ حال و قال سے بالاتر ہے۔

نصر بن حمامی کہتے ہیں کہ توحید کی پہلی منزل فقر ہے۔

ابراہیم ادھم خواص فقر کا اعلیٰ مقام بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ فقیر شرف کا لباس پیغمبروں کا جامہ اور متقیوں کا افسر و مومنوں کی خوبصورتی اور عارفوں کا سرمایہ و مریدوں کی خواہش اور مطیعوں کی پناہگاہ و گنہگاروں کی قید ہے اور فقیر برائیوں کو چھپانے والا، نیکیوں کو بڑا کرنے والا درجات کو بڑھانے والا منازل تک پہنچانے والا اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی دلانے والا اور علم رکھنے والے لوگوں کی شرافت ہے۔فقر پاک لوگوں کی علامت اور پرہیزگاروں کا طریق ہے۔

شاہ شجاع کرمانی (متوفی 291 ہجری) فقر کو اسرار الٰہی سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’فقر سر حق است نزدیک بندہ، چون فقر نہان دارد، امین بود و چون ظاہرگرداند اسم فقر از او برخاست‘ یعنی بندہ کے لیے سر حق ہے، جب تک وہ اس کو مخفی رکھتا ہے امین کہلاتا ہے اور جب اس کو ظاہر کردے تو فقر کا نام اس پر قائم نہیں رہتا۔ یعنی فقر میں انسان اپنے آپ کو بڑا نیک انسان نہیں کہہ سکتا۔

ابوحفص حداد(265ہجری)کہتے ہیں کہ ہر وقت اپنی کوتاہیوں اور تقصیرات کی وجہ سے شکستہ دل رہنا چاہیے۔ آپ سے کسی نے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ سے کس حالت میں ملاقات ہوگی؟ جواب دیا کہ فقیر جب غنی سے رُوبرو ہو تو فقر اور فروماندگی کے علاوہ کیا کرسکتا ہے۔

ابوعبداللہ دونی فقر کا کمال خداتک پہنچنے کو کہتے ہیں۔

ابوطالب مکی (متوفی 386ہجری)فقر کو صالح لوگوں کالباس قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب بھی دیکھو کہ تم پر فقیری کا زمانہ آگیا ہے تو اس نیک لوگوں کے لباس کو خوشی سے قبول کرو اور جب بھی دیکھو کہ امارت تمہیں مل رہی ہے تو دیکھو کہ یہ کوئی گناہ ہے جس کی سزا جلدی سے تمہیں مل رہی ہے۔

ابوبکر شبلی (247-334 ہجری) دنیا سے دل نہ لگانے کو سب سے چھوٹا درجہ فقر کا قرار دیتے ہیں اور سچے فقیر کے بارے میں کہتے ہیں کہ فقر میں سب سے ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ ساری دنیا کسی کی ملکیت ہوجائے تو وہ اس کو ایک ہی دن میں خرچ کردے لیکن اگر اس کے دل میں کل کے بارےمیں خیال آئے،کل کے لیے کچھ رکھ لے تو وہ درویشی میں سچا نہیں ہے۔

فقیر صادق کی ایک علامت یہ بیان کی جاتی ہے کہ سچا فقیر مخلوق پر شفقت کرتا ہے اور ان کے لیے آسائش اور سکون کا موجب بنتا ہے۔

(تلخیص از رسالہ قشیریہ صفحہ405-415،مصحح:مہدی محبتی، انتشارات ہرمس، ایڈیشن اول، سال نشر:2012ء)

مذکورہ اقوال سے معلوم ہوتاہے کہ صوفیا ء فقر کوآنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان کے مطابق اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ جانتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں اور فقیر بننا صرف خدا تعالیٰ کی توفیق سے وابستہ ہے۔

فقر کے ثمرات

بہشت کا ملنا، اللہ تعالیٰ کی دوستی کا مقام ملنا، بدکاروں سے ممتاز ہوجانا، اللہ تعالیٰ کا قرب مل جانا، آخرت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت کا ملنا، آخرت میں حساب کا آسان ہونا، بہشت میں اعلیٰ مقامات تک پہنچنا، قیامت میں شفاعت کا مقام ملنا، انسان کی زینت، آفات سے نجات پانا، روح کی تازگی اور دائمی خوشی اور سرور نصیب ہونا، لالچ اور طمع سے نجات پاجانا، عزت ملنا، معاشرہ میں اچھے اخلاق قائم کرنا، یہ فقر کے چند فوائدہیں جن کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

فقراء کی صفات

سالک سلوک کی آخری منزل تک پہنچنے کے لیے خاص صفات اپنانے کی کوشش کرتا ہے: جیسے پاکیزگی، عزت نفس، مالی پاکدامنی، دنیاطلبی سے دوری، عاجزی، تکبر سے دوری، قناعت اور اسراف سے احتراز، فقیری اور تنگدستی کو پسند کرنا اور اپنے تنگ حالات کا خدا کے سوا کسی سے ذکر نہ کرنا۔

فقر کے متعلق تین نظریات

فقر کے بارےتین نظریات پائے جاتے ہیں :

ایک یہ ہےکہ فقر غنا ءسے افضل ہے کیونکہ غنا ءمیں انسان کے دنیا کی طرف مائل ہوجانے اور ناشکری اور ناسپاسی کرنے کے امکانات زیادہ ہیں۔

دوسرا نظریہ یہ ہے کہ امیری فقیری سے افضل ہے کیونکہ امیر لوگ زیادہ خدمت دین کرسکتے ہیں، جیسے زیادہ صدقات و خیرات کرسکتے ہیں۔

تیسرا نظریہ یہ ہے کہ امیری یا فقیری کواپنی ذات میںایک دوسرے پر فضیلت نہیں۔اللہ تعالیٰ انسان کو جو بھی عطا کرے وہ اپنی حالت کے مطابق اپنے فرائض انجام دے یعنی اگر امیر ہوتو اپنی دولت کا صحیح استعمال کرے اور اس کو خدا سے دوری کا ذریعہ نہ بننے دے اور اگر فقیر ہو تو اپنی اس حالت پر شکرکرے اور شکوہ و غیرہ نہ کرے اور اپنی حاجات صرف خدا تعالیٰ کے حضور پیش کرے۔

عرفا ءاور صوفیاء کے نزدیک روحانیت کے سات مشہور مقام ہیں۔ابونصر سراج نے ان مقامات کو کتاب اللّمع میں اس طرح لکھا ہےکہ پہلا مقام توبہ،دوسرااور تیسرا زہد،چوتھا فقر پانچواں صبر اور چھٹا توکل اور ساتواں مقام رضا کا ہے۔

عطار نے ہفت وادی طریقت میں سے آخری مقام فقر کا رکھا ہے۔

فقر میں صرف ترک دنیا کافی نہیں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ اسے دنیا کی چیزوں کی کوئی خواہش ہی نہ ہو۔

فقیرکو اس بات کا اچھی طرح ادراک ہوتا ہے کہ

لِلّٰہِ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ

یعنی آسمانوں اور زمین کا صرف اللہ تعالیٰ ہی مالک ہے، پس وہ اپنے آپ کو کبھی بھی مالک تصور نہیں کرتا۔

فقر کے مراتب

عرفا ءنے فقر کے مختلف مراتب بیان کیے ہیں:

پہلا مرتبہ تہی دستی ہے یعنی فقیر دنیوی اسباب نہیں رکھتے۔

دوسرا مرتبہ دنیوی اسباب کا رکھنا لیکن خود کو ان کامالک نہ سمجھنا ہے۔ یعنی اس میں سالک دنیا اور اس کے اسباب کو اپنی ملکیت نہ جانے، خود کو مالک ہی نہ سمجھے تو جو بھی اس کو ملے اس کو خرچ کردے اور اس خرچ کرنے پر کسی قسم کے اجر کی توقع نہ دنیا اور نہ آخرت میں رکھے۔ بلکہ چیزوں کو اللہ تعالیٰ کی امانت سے بڑھ کر تصور نہ کرے۔

تیسرا درجہ فقر کا یہ ہے کہ کسی بھی صفت یا کمال کو اپنی طرف منسوب نہ کرنا یعنی وہ اپنی صفات کو بھی اپنا نہ سمجھیں اس لیے جو بھی نیک اعمال انجام دیں ان کو اپنا کمال نہ سمجھیں بلکہ خداتعالیٰ کی نعمت جانیں اور اس پر خداتعالیٰ کا شکر اپنے اوپر واجب سمجھیں۔ نعمت احسان میں اضافہ کرتی ہے اور وہ سب چیزوں کو اللہ تعالیٰ کی نعمت جانتے ہیں۔

چوتھا مرتبہ فقر کا یہ ہے کہ اپنے وجود کو بھی اپنا نہ سمجھیں۔ اس مقام میں سالک کی یہ حالت ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اپنی ذات کا مالک بھی نہیں جانتا ۔اس کے وجود سے ’’مَیں ‘‘ اور ’’میرا ‘‘اور’’مجھے‘‘ اور’’میری طاقت و استعداد‘‘ و ’’میرا حق‘‘ یہ سب غائب ہوجاتے ہیں۔ وہ اپنے کسی کام کو اپنی طرف نسبت نہیں دیتا۔

فقر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں فقرتوحید کا پہلا زینہ

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:

’’…ہریک شاندار کام کے شروع میں اس مبدء فیوض کے نام سے مدد چاہنا کہ جو رحمان و رحیم ہے۔ ایک نہایت ادب اور عبودیّت اور نیستی اور فقر کا طریقہ ہے۔ اور ایسا ضروری طریقہ ہے کہ جس سے توحید فی الاعمال کا پہلا زینہ شروع ہوتا ہے جس کے التزام سے انسان بچوں کی سی عاجزی اختیار کرکے ان نخوتوں سے پاک ہوجاتا ہے کہ جو دنیا کے مغرور دانشمندوں کے دلوں میں بھری ہوتی ہیں اور پھر اپنی کمزوری اور امداد الٰہی پر یقین کامل کرکے اس معرفت سے حصہ پالیتا ہے کہ جو خاص اہل اللہ کو دی جاتی ہے اور بلاشبہ جس قدر انسان اس طریقہ کو لازم پکڑتا ہے جس قدر اس پر عمل کرنا اپنا فرض ٹھہرالیتا ہے۔ جس قدر اس کے چھوڑنے میں اپنی ہلاکت دیکھتا ہے اسی قدر اس کی توحید صاف ہوتی ہے اور اسی قدر عُجب اور خودبینی کی آلائشوں سے پاک ہوتا جاتا ہے اور اسی قدر تکلف اور بناوٹ کی سیاہی اس کے چہرہ پر سے اٹھ جاتی ہے اور سادگی اور بھولا پن کا نُور اس کے مونہہ پر چمکنے لگتا ہے پس یہ وہ صداقت ہے کہ جو رفتہ رفتہ انسان کو فنا فی اللہ کے مرتبہ تک پہنچاتی ہے۔ ‘‘

(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 425حاشیہ در حاشیہ نمبر11)

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے فقر کا ایک نمونہ

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس حوالہ سے اپنے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے

’’بدی کرنے والوں سے نیکی کرکے دکھلائی اور وہ جو دلآزار تھے ان کو ان کی مصیبت کے وقت اپنے مال سے خوشی پہنچائی۔ سونے کے لئے اکثر زمین پر بستر اور رہنے کے لئے ایک چھوٹا سا جھونپڑا۔ اور کھانے کے لئے نانِ جَو یا فاقہ اختیار کیا۔ دنیا کی دولتیں بکثرت ان کو دی گئیں پر آنحضرت نے اپنے پاک ہاتھوں کو دنیا سے ذرا آلودہ نہ کیا۔ اور ہمیشہ فقر کو تونگری پر اور مسکینی کو امیری پر اختیار رکھا۔ اور اس دن سے جو ظہور فرمایا تا اس دن تک جو اپنے رفیق اعلیٰ سے جاملے۔ بجز اپنے مولیٰ کریم کے کسی کو کچھ چیز نہ سمجھا۔ اور ہزاروں دشمنوں کے مقابلہ پر معرکہ جنگ میں کہ جہاں قتل کیا جانا یقینی امر تھا۔ خالصاً خدا کے لئے کھڑے ہوکر اپنی شجاعت اور وفاداری اور ثابت قدمی دکھلائی۔ ‘‘

(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ290حاشیہ نمبر11)

صحابہ سچے اور اصلی فقیر تھے

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی معرکہ آرا تصنیف ’’سر الخلافہ ‘‘میں فرماتے ہیں کہ

إنَّ الصَّحَابَةَ کُلَّهُم کَذُکَاءِ

قَدْ نَوَّرُوْا وَجْهَ الوَریٰ بِضِیَاءِ

تَرَکُوْا أقَارِبَهُمْ وَ حُبَّ عِیَالِهِمْ

جَاءُوْا رَسُوْلَ اللّٰهِ کَالْفُقَرَاءِ

ذُبِحُوْا وَ مَا خَافُوْا الْوَریٰ مِنْ صِدْقِھِمْ

بَلْ آثَرُوْا الرَّحْمَانَ عِنْدَ بَلَاءِ

(سر الخلافہ، روحانی خزائن جلد 8 صفحہ397)

امام مہدی کو فقرا ءقبول کریں گے

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ

’’مہدی کو قبول کرنے والے اکثر عوام یا گوشہ گزیں یا پاک دل فقرا ہوں گے جو اپنی صحیح مکاشفات سے اس کو شناخت کرلیں گے۔ ‘‘

(انوار الاسلام، روحانی خزائن جلد 9صفحہ48)

علما ءاور فقراء آفتاب و ماہتاب کی مانندہیں

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ

’’علماء امت اور فقراء ملت زمین کے آفتاب اور ماہتاب کی طرح ہوتے ہیں اور انہیں کے ذریعہ سے دنیا کی تاریکی دور ہوتی ہے۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے آسمان کے اجرام چاند اور سورج کی تاریکی کو علماء اور فقراء کے دلوں کی تاریکی پر دلیل ٹھہرائی ہے۔ گویا پہلے کسوف خسوف زمین کے چاند اور سورج پر ہوا کہ علماء اور فقراء کے دل تاریک ہوگئے اور پھر اسی تنبیہ کے لئے آسمان پر خسوف کسوف ہوا۔ ‘‘

(انجام آتھم، روحانی خزائن جلد 11صفحہ 295)

فقر دعا اور تقویٰ کے بغیر دہریت پر منتج ہوسکتا ہے

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ

’’قاعدہ ہے کہ کامیابی پر ہمت اور حوصلہ میں ایک نئی زندگی آجاتی ہے، اس زندگی سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور اس سے اللہ تعالیٰ کی معرفت میں ترقی کرنی چاہیے، کیونکہ سب سے اعلیٰ درجہ کی بات جو کام آنے والی ہے وہ یہی معرفت ِ الٰہی ہے اور یہ خدا تعالیٰ کے فضل وکرم پر غور کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل کو کوئی روک نہیں سکتا۔

بہت تنگدستی بھی انسان کو مصیبت میں ڈال دیتی ہے۔ اس لیے حدیث میں آیا ہے

اَلْفَقْرُسَوَادُ الْوَجْہِ۔

ایسے لوگ مَیں نے خود دیکھے ہیں، جو اپنی تنگدستیوں کی وجہ سے دہریہ ہوگئے ہیں۔ مگر مومن تنگی پر بھی خداسے بدگمان نہیں ہوتا اور اس کو اپنی غلطیوں کا نتیجہ قراردے کر اس سے رحم اورفضل کی درخواست کرتا ہے اور جب وہ زمانہ گزر جاتا ہے اور اس کی دعائیں باروَر ہوتی ہیں، تو وہ اس عاجزی کے زمانہ کو بھولتا نہیں، بلکہ اسے یادرکھتا ہے۔ غرض اگراس پر ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ سے کام پڑنا ہے، تو تقویٰ کا طریق اختیار کرو۔ مبارک وہ ہے جو کامیابی اور خوشی کے وقت تقویٰ اختیار کرلے اور بد قسمت وہ ہے جو ٹھوکر کھا کر اس کی طرف نہ جھکے‘‘۔

(ملفوظات جلد 1صفحہ 99، ایڈیشن1988ء)

٭…٭…(جاری ہے)…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button