متفرق مضامین

کووِڈ19 سے نجات کیسے ممکن ہے؟ (قسط سوم۔ آخری)

کووڈ 19:ڈھونگ یا حقیقت؟… افواہیں ،ویکسین اور بچاؤ کے آسان طریق

ماہر متعدی امراض ڈاکٹرفہیم یونس صاحب کے ساتھ ایک نئی سیرحاصل گفتگو

نمائندہ: آپ ان لوگوں کو کیا پیغام دیں گے جو ویکسین نہیں لگوانا چاہتے،جو کہتے ہیں کہ ہمیں ویکسینوں پر اعتبارنہیں۔پہلے سیاستدان خود ویکسین لگوائیں پھر ہم لگوائیں گے۔تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا کیونکہ بہت سے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم نے ویکسین لگوانی ہی نہیں ؟

ڈاکٹر فہیم یونس:ہاں مجھے پتہ ہے۔میری رائے میں یہ ایک فلسفیانہ بحث ہے جو کبھی ختم نہ ہوگی۔کسی بھی چیز کے بارے میں ہمیشہ دوآراء ہوسکتی ہیں اور دو آراء رہیں گی۔میرے بعض بہت ہی قریبی دوست بھی یہی سوچ رکھتے ہیں، وہ اب بھی میرے دوست ہیں۔میں ذاتی طورپر یہ رائے نہیں رکھتا۔لیکن آپ اس سے کیسے نپٹتے ہیں ؟سب سے پہلے تو یہ کہ یہ نہ سمجھیں کہ آپ نے اس بحث کو لازماً جیتنا ہے۔یہ کوئی مباحثہ نہیں۔ بلکہ اس بارے یہ رویہ ہو کہ’’ آئیں، ہم باہم گفتگو کریں، ایک دوسرے کے مؤقف کو سنیں۔‘‘میں یہ کہوں گاکہ ہم سب جانتے ہیں کہ اوسط عمر 30سے بڑھ کر 40، پھر 50 اور اب بڑھ کر 80 ہو چکی ہے اور ہرکوئی اس پر خوش ہوتا ہےنا؟

نمائندہ: آپ کا مطلب ہے کووڈ سے فوت ہونے والوں کی اوسط عمر؟

ڈاکٹرفہیم یونس:نہیں نہیں، انسان کی اوسط عمر۔آپ جانتے ہیں، ہمارے بزرگ، 100سال پہلے ایک عام انسان کی اوسط عمر تیس، چالیس پینتالیس برس ہواکرتی تھی۔آج اوسط عمر کہیں بڑھ کر 85 ہو چکی ہے اور ہرشخص اس کا جشن مناتا ہے، ساری دنیا میں ایساہوتا ہے۔ جو بات لوگ نہیں جانتے، جب آپ اس کی تہ میں جاتے ہیں تو اس کاسہرا دو بڑی وجوہات کوجاتاہے۔دو ایسی چیزیں جس نے ساری شرح اوسط کو بدل ڈالا ہے۔یہ دوچیزیں آپ ہٹا دیں تو اوسط عمر 50 یا اس سے بھی کم پر آجائے گی۔

جانتے ہیں یہ دوچیزیں کیا ہیں ؟ایک تو شیرخوار بچوں کی شرح اموات (infant mortality) ہے اور دوسری ویکسینیں ہیں۔اگرآپ تاریخ انسانی پر نظر دوڑائیں تو یہ دو چیزیں ہیں جو’’بازی پلٹ‘‘ ( game changers ) ہیں۔ چونکہ بہت سے بچے پہلے چھ ماہ کے عرصہ میں فوت ہوجایا کرتے تھے اور یا پھر وہ 80 برس تک زندہ رہتے تھے۔اگر آپ ان اموات کی حد عمر گنیں تو 80 آئے گا لیکن ان سب کوجمع کرکے اوسط نکالیں توحاصل 40 آئے گا۔ تو ویکسینوں نے یہ اوسط بڑھادی، مجھے نہیں معلوم کوئی ان کے اثر کا انکار کیسے کرسکتا ہے، یہ تو حساب کا سیدھا سوال ہے۔

اگر ہم نے دنیا سے کچھ ختم کیا ہے تو ویکسین کی بدولت کیا ہے۔ چیچک کو لے لیں، میرا نہیں خیال کہ فی زمانہ کسی نے چیچک کا کوئی ایک کیس بھی دیکھا ہو۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے آج ہمارا کوئی ایک بچہ بھی چیچک میں مبتلا نہیں ہوتا اور یہ سب ویکسین کی بدولت ہوا ہے نہ کہ اس وجہ سے کہ وائرس کہیں غائب ہو گیا ہے۔

پس ویکسینوں نے جو اچھا کام کردکھایا ہے اس کے خلاف دلائل دینا بہت ہی مشکل ہے، یہ پہلی بات ہے۔

دوسری بات یہ دیکھنے والی ہے کہ یہ خوف آخر شروع کہاں سے ہوا؟

یہ لینسیٹ (Lancet میڈیکل میگزین ) میں شائع ہونے والا ایک مضمون تھا جس میں (ویکسینوں کا) تعلق ناجائز طورپر دماغی عارضہ آٹزم (autism) سے جوڑا گیا تھا۔ باوجودیکہ اس مضمون کو انہوں نے پھر واپس بھی لے لیا اور باوجودیکہ اس کے بعد (اسے غلط ثابت کرنے والی ) بہت ساری تحقیق بھی سامنے آئی لیکن جو بات ایک بارمشہور ہو گئی ہو، سب ہی اسے اپنا نا شروع کردیتے ہیں۔اس مہم میں کچھ مخصوص مفادپرست گروہ بھی شامل ہوگئے۔اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں عموماًلوگ منافع خور مادہ پرست معاشروں کو قابلِ اعتماد نہیں سمجھتے۔اگر ہم کہیں کہ ہمارے معاشرے میں ہر کام اخلاقیات کی بنیاد پرہوتا ہے تو یہ درست نہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ مال بنایا جا رہا ہوتا ہے اوراس عمل میں ہم عوام کا اعتماد کھو دیتے ہیں۔ وہی بات کہ سانپ کا ڈسا پھر رسی سے بھی ڈرتاہے۔ایک بارکے زخم خوردہ افراد کاپھر ہر چیزسے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ تو مجھے ان لوگوں کے ساتھ پوری پوری ہمدردی ہے جو ویکسینوں پر اعتماد نہیں کرتے، لیکن میں خود بھی ویکسین لگواتا ہوں اور اپنے بچوں کو بھی۔اور اگر کوئی اچھی کووڈ ویکسین آتی ہے تو میں اسے ضرور لو ں گا، مجھے کوئی مسئلہ نہیں۔

نمائندہ: تو آپ کی رائے میں وبا کے خاتمہ کے لیے لوگوں کی ایک مخصوص تعداد کا ویکسین لگوانا ضروری ہے؟

ڈاکٹرفہیم یونس: درست، بیماری کے رخصت ہوجانے کے لیے آپ کوعموماً 60 تا 70فیصد آبادی کا ویکسین یافتہ ہونا درکارہوگا۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ بیماری نے کچھ قدرتی مدافعت (immunity) تو پیدا کردی ہوگی، جو کہ درست ہے۔لیکن فی الحال زیادہ تر ممالک میں اس کی شرح 10 فیصد یااس سے کم ہے۔اگر یہ 10 فیصد ہے تو سوال یہ ہے کہ کیا یہ قدرتی مدافعت برقرار رہے گی یا کمزورہوتی جائے گی۔اگر کسی کو مارچ میں انفیکشن ہوا تھا تو کیا وہ اگلے مارچ تک بدستور محفوظ (immune) رہے گا ؟۔ یہ ایک بہت بڑاسوال ہے، جس کا جواب مجھے معلوم نہیں۔ لیکن اگر ان ویکسینوں کی دستیابی کے بعد انہیں ان افراد کے لیے بھی تجویزکیا جائے گا جوکووڈ سے صحتیاب ہوچکے ہوں گے تو مجھے کوئی تعجب نہ ہوگا۔کیونکہ ویکسین کی ودیعت کردہ قوت مدافعت اور مدافعاتی مادے (antibody) قدرتی انفیکشن کے مقابلے پرجسم میں تادیر قائم رہتے ہیں، یہ ایک اہم نکتہ ہے۔

بعض بیماریاں ہیں، مثلاً خسرہ ہوگیا، تو اس سے آپ کو تاحیات تحفظ مل جاتا ہے لیکن اگر انفلوئنزا ہے، اگر آپ کو ہوتا ہے تو اگلے برس یہ دوبارہ بھی ہوسکتا ہے۔

پس میری رائے میں 60 تا 70 فیصد آبادی کو ویکسین لینا پڑے گی۔لیکن کوئی بھی تعداد وبا کا زورتوڑنے میں ممد ومعاون ثابت ہو سکتی ہے۔چنانچہ 35 فیصد 30 فیصد سے بہتر ہے، 45 فیصد 40 فیصد سے بہتر ہوگا۔ پس ہم اس پر جتنی بھی شدومد سے زورڈال سکیں گے، ڈالیں گے۔

نمائندہ : تویہاں اس سے جڑا ایک منطقی سوال بھی پیدا ہوجاتا ہے۔ جب ویکسین کی دستیابی کی بات ہوتی ہے تو ہم سنتے ہیں کہ کچھ ممالک اس کی ذخیرہ اندوزی کرنا چاہتے ہیں۔کیا آپ کے خیال میں نتیجۃً یہ کچھ غریب ممالک کی دسترس سے دور رہ جائیں گی اور اگر ایسا ہواتو کیاوہاں اس وبا کے طویل المدت بداثرات دیکھنے کو ملیں گے؟

ڈاکٹر فہیم یونس: بدقسمتی سے ایسا ہی ہے اور بعینہٖ یہی صورت حال ہے جو ہمیں درپیش ہے۔ ہم نے یہ زخم خود اپنے آپ کولگایا ہے۔اگر آپ گذشتہ 100برسوں کو دیکھیں تو عالمی طورپر ہم زیادہ مادہ پرست ہوچکے ہیں۔ہم جانتے ہیں کہ ہمارے سامنے ایک تقسیم موجود ہے، بچے بھوک سے مر رہے ہیں۔ مَیں یہ تو نہیں کہوں گا کہ ہم نے اس کی پروا ہی نہیں کی، یوں کہہ لیں کہ ہم نے اسے ختم نہیں کیا۔ عین ہماری آنکھوں تلے امیر اور غریب کے مابین خلیج بڑھتی چلی جارہی ہے۔ہم جانتے ہیں کہ دولت کا کتنا فیصد گنتی کے چند لوگوں کے پاس ہے۔

تو یہ اس کا پس منظر ہے۔ ویکسین کے معاملے میں بھی یقیناً ایسا ہوگا۔ وہ ممالک جنہوں نے کئی بلین ڈالر ریسرچ پہ لگائے ہیں انہوں نےصرف یہی نہیں کہ مالی مفاد کی خاطر ایسا کیا ہے انہوں نے معاہدے کررکھے ہیں کہ جب تم ویکسین بنالوگے تو پہلی دس کروڑمجھے یا میرے ملک کو ملیں گی۔ چنانچہ فنانشل ٹائمز میں ایک جائزہ شائع ہوا ہے جس میں باقاعدہ گراف بنا کر بتایا گیا ہے کہ کون سا ملک کتنی ویکسینیں پیشگی خرید چکا ہے۔ اس فہرست میں کوئی 10-15ممالک شامل ہیں اور ذرا اندازہ لگائیں، دنیا 200سے زائد ممالک پر مشتمل ہے۔

تو وہ 185 ممالک جو اس فہرست میں شامل نہیں، ان کا کیا ہوگا؟ظاہر ہے انہیں انتظار کرنا پڑے گا۔ہوسکتا ہے ان کے حصہ میں کوئی کم معیار کی ویکسین آئے۔ہوسکتا ہے ان کے پاس کوئی ایسی ویکسین آئے جس پر زیادہ تحقیق نہ ہوئی ہو۔

ہم انتظارکریں گے اور دیکھیں گے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ویکسین کی تقسیم غیرمساویانہ ہی ہو گی۔ کیا حفاظتی لباس (PPE) کی تقسیم مساویانہ ہوئی؟ کیا کووڈ کے لیے ٹیسٹنگ کی تقسیم مساویانہ ہوئی؟ کیا رمڈیسیوِر Remdesivirنامی دوا جو ہم استعمال کرتے ہیں، سب کو ایک طرح دستیاب ہے؟ نہیں۔ بدقسمتی سے یہ ایک حقیقت ہے۔

نمائندہ :میرے خیال میں اس کے بالمقابل دوسری انتہا بھی موجود ہے۔ادھر ہم کووڈ کے بارے میں، ویکسین کے علاج کے بارے میںگفتگو کررہے ہیں اور کچھ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ’’ کووڈ 19 ایک ڈھونگ ہے، یہ انسان کا بنایا ہوا وائرس ہے۔ اصل میں یہ محض فلو (Flu)کی ایک قسم ہے جسے سرے سے شناخت ہی نہیں کیا گیا۔ اس کا وجود توہے لیکن اس کے بارےمیں بہت مبالغہ آرائی کی گئی ہے۔‘‘تو ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے آپ ان لوگوں کو کیا پیغام دیں گے۔کیونکہ ایک خاصی تعداد اس سوچ کی حامل ہے؟

ڈاکٹرفہیم یونس:میرے خیال میں وہی بات، کہ ’’انسان اپنی صحبت سے پہچانا جاتاہے۔‘‘ میں مذہب کوبیچ میں نہیں لانا چاہتا لیکن آپ جانتے ہیں کہ اسلام یہی تو ہے کہکُونُوا مَعَ الصَّادِقِین(صادقوں کے ساتھ ہو جاؤ۔ سورۃ التوبہ:119۔ ناقل)

آپ سمجھ گئے ہوں گےکہ میں کیا کہنا چاہتاہوں۔ آج کل جس طرح سے ہم میڈیا کا استعمال کرتے ہیں تو ہماری’’صحبت‘‘ یہی ہے۔یہ ہمارا مجازی مصاحب ( virtual company) بنا ہوا ہے۔اور اگر وہ میڈیا جسے میں استعمال کرتا ہوں مجھے باربار یہی باور کرا رہا ہو کہ کس طرح سے یہ محض ایک ڈھونگ ہے تو میں نے اس پر اعتبار تو کرنا ہے۔

کیا لوگ مبالغہ آرائی کرتے ہیں ؟ مجھے یقین ہے کہ کرتے ہیں، یہ سچ بات ہے۔

اپنے تجربہ کی بنا پرمجھے مارچ میں ہی اس بات کا احساس ہو گیا تھا کہ اب بھی ضرورایسا ہی ہوگا اسی لیے میں نے کووڈ سے متعلق اپنے ایک ابتدائی مضمون میں لکھا تھا کہ ہمیں ’’میں نہ مانوں ‘‘ والے رویہ اور’’اشد تشویش‘‘ کی دو انتہاؤں سے گریز کرنا چاہیے۔ہماری میانہ روی والی خوبصورت کیفیت ہونی چاہیے جہاں ہم ہر آن’’تیار‘‘رہتے ہوں۔

بدقسمتی سے ایک طرف یہ انتہا ہے جو کہتی ہے کہ یہ سب ڈھونگ ہے اور پھر دوسری انتہا ہے جو کہتی ہے کہ90 فیصد لوگوں کو مزمن کووڈ (long COVID) ہو جائے گا۔میرے مطابق یہ مبالغہ ہے۔ہم تو ایسا نہیں کہیں گے۔ہمیں علم نہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ ایسا بہت کم تناسب میں ہوگا۔کبھی ایسا نہ کہیں کہ 25 سالہ افراد مکھیوں کی طرح مررہے ہیں، یہ تو مبالغہ ہے۔ ہاں نوجوان افراد میں بھی کچھ اموات ہوں گی لیکن ہمیں بنیادی پیغام کے ساتھ نتھی رہنا چاہیے۔اور بنیادی پیغام یہ ہے کہ ہم سادہ طریق اختیارکرتے ہوئے اس مرض کا قلع قمع کرسکتے ہیں۔

پس بیانیہ کی یہ دو انتہائیں موجود ہیں لیکن میرے خیال میں ہمیں وسط میں رہنا چاہیے۔لوگ جس قسم کے ماحول میں خود کوقید کرلیتے ہیں بالآخراسی کو سچ سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے انہیں اس کا احساس نہیں ہوتا، اور خبروں کے اس دَور میں کوئی یہ بات سننا پسند نہیں کرے گا کہ ’’بے خبر‘‘ رہنے کااختیاربھی موجود ہے۔ ہم خود فیصلہ کرتے ہیں۔

نمائندہ :اس وبا کی بدولت ہم انسانوں کا بہترین اور بدترین دونوں روپ دیکھنے کے قابل ہوئے ہیں، ہم نے بےلوث ایثار کو اس کی انتہاؤں کو چھوتے دیکھا۔ ہمیں خالص خودغرضی کے مظاہرے بھی دیکھنے کو ملے، آپ کو یاد ہوگا وبا شروع ہوئی تو کس طرح لوگ نفسانفسی کے عالم میں خریداریاں کررہے تھے۔

شعبہ طب سے تعلق رکھنے کی حیثیت سے آپ کیا سمجھتے ہیں کہ وبا نے لوگوں کے ذہنوں میں ایمان اور مقصدِ حیات کے بارے میں زیادہ سوال اٹھانے پر مجبور کیا ہے؟

آپ نے اس سے قبل بتایا تھاکہ یہ سب کچھ تھم جائے گا لیکن اس کی زیرِسطح کوئی سونامی موجود ہوسکتی ہے تو کیااس سارے عمل کے نتیجے میں لوگ روحانی نوعیت کے سوالات زیادہ پوچھ رہے ہیں ؟

ڈاکٹرفہیم یونس: بہت عمدہ سوال ہے۔حقیقت یہ ہے کہ مجھے علم نہیں کیونکہ ایک عجیب طور سے میں بھی یہاں امریکہ میں اپنے ایک مخصوص ماحول کے اندررہتا ہوں۔تو مجھے نہیں معلوم کہ انڈیا میں لوگ کیسے سوچ رہے ہیں، پاکستان میں کیسے سوچ رہے ہیں، افریقہ میں، پیرو میں برازیل میں۔ساری دنیا میں اتنی ساری اموات واقع ہوئی ہیں۔

تو مجھے محسوس ہوتا ہے، میرے اندر کی سوچ یہ کہتی ہے کہ صورت حال میرے مشاہدہ سے کہیں زیادہ گھمبیر ہے، لیکن یہاں امریکہ میں مَیں نے کوئی تبدیلی نہیں دیکھی۔ اور میں آپ کو صحیح صحیح بتاتا ہوں۔میرے خیال میں لوگ جس تبدیلی پر زیادہ خوش ہورہے ہیں وہ یہ ہے کہ’’اوہ میرے خدا ہم زوم (Zoom)اور ویب ایکس (WebEx ) میٹنگیں کررہے ہیں !‘‘

میرے نزدیک تو یہ کوئی’’تبدیلی‘‘ نہیں۔میرا مطلب ہے کہ یہ کوئی سبق تو نہیں۔یہ تو ایک صورت حال کے مطابق خود کو ڈھالنے والی بات ہے، یہ تبدیلی نہیں کہلا سکتی۔

میں باہر نکلوں، بارش ہو رہی ہو اور میں اپنی چھتری کھول لوں اور کہوں واہ کیا انقلاب ہے ! نہیں اس میں کوئی اس قسم کی بات ہے ہی نہیں۔

میرے خیال میں جس گہری نوعیت کا سوال آپ نے کیا ہے، میں نے لوگوں کو اس طرح سے سوچتے نہیں دیکھا۔

اس وبا نے اگر کچھ کیا ہے تو یہ کہ اس نے ہمیں تھوڑا سا نچوڑا ہے۔چنانچہ جب آپ کسی پھل کو نچوڑتے ہیں، تو اس کے اندر جس قسم کا بھی رس ہوتا ہے، میٹھا، نمکین، کڑوا، وہ باہر نکل آتا ہے۔

تو اس نے ہمیں محض نچوڑا ہے۔ہم اپنے اندر جو کچھ چھپائے پھرتے تھے وہ اب باہرکو آرہا ہے۔ مثلاًاگر میں پہلے سے ایک کڑوا غصیلا انسان تھا تو اب میں مزید غصیلا ہو گیا ہوں، اور اگر کوئی رحم دل تھا تو اس کی یہ رحم دلی باہر کو پھوٹ رہی ہے۔

اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ ممکن ہے میں ایک لاٹھی سےسب کو ہانک رہا ہوں۔لیکن اس صور ت حال کے بارے میں میرا نامکمل عاجزانہ نکتہ نظریہی ہے کہ اس وبا نے ہم سب کو نچوڑا ہے اورمیں اپنے دائیں بائیں اس کے اثرات دیکھ رہا ہوں۔

نمائندہ : شکریہ۔ میری رائے میں آپ ان افراد میں سے ہیں جن کے بارے میں ہمیں بخوبی علم ہے کہ آپ انمول خدمت خلق بجا لارہے ہیں، پوری دنیا سے لوگوں کے سوالوں کے جوابات سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعہ دے رہے ہیں۔امریکہ اور اس سے باہر خاص کر برصغیر ہندوپاک سے آنے والے بہت سارے سوالات اور تبصروں کا جواب دے رہے ہیں۔آپ نے یہ سلسلہ کیسے شروع کیا اور اب تک یہ آپ کے لیے کیسا رہا ہے؟

ڈاکٹرفہیم یونس:دوباتیں ہیں۔ جب میں میڈیکل سکول میں تھا اس وقت میں نے فیصلہ کیا تھا کہ میں امریکہ جاؤں گا۔تو اس وقت ہمارے ایک پروفیسر ڈاکٹر فیصل مسعود صاحب ہو ا کرتے تھے، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، وہ بہت قابل انسان تھے اور انہوں نے ہماری شخصیت پر بہت ہی گہرا اثرڈالاہے، وہ یاتو پنجابی میں بات کیا کرتے تھے یا پھر انگریزی میں۔ اور مجھے اب بھی یاد ہے، انہوں نے مجھ سے یہ سن کر کہ میں نے امتحان پاس کر لیا ہے اور میں امریکہ جارہا ہوں، جبکہ میری توقع تھی کہ وہ میری پیٹھ پر تھپکی دیں گے، پنجابی میں کہا’’پُترجی بتی اُوتھے بالوجتھے ہنیراہووے، جتھے پہلے ای اینیاں بتیاں بلدیاں اوتھے جا کے بتی بالن دا کی فائیدہ؟‘‘ یعنی ’’بیٹا چراغ وہاں جلاؤ جہاں اندھیرا ہو، جہاں پہلے ہی اتنی روشنی ہے اور لاکھوں چراغ جگمگا رہے ہیں وہاں تم کیوں ایک اور چراغ روشن کرنا چاہتے ہو؟‘‘

تو اس لحاظ سے انہوں نے اپنی تشویش کا اظہار کیا۔اورپھریہاں میرے آنے کی جو بھی وجوہات تھیں، جب میں یہاں آیا تو مجھے اس کا احساس بھی ہوا کہ میں ایک ایسی جگہ میں محض ایک عدد اضافی چراغ تھا جہاں پہلے ہی لاکھوں چراغ روشن تھے۔

پس پہلی بات، اس وبا نے مجھے یہ موقع فراہم کیا، خداتعالیٰ کو یہی منظور تھا اور میں اس کا جتنا بھی شکرادا کروں کم ہے۔ میرے خیال میں ڈاکٹر فیصل مسعود صاحب (کی روح) کو بھی کچھ خوشی محسوس ہوئی ہوگی، کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ مجھے واقعۃً ایسی جگہوں پر روشنی پھیلانے کی توفیق ملی ہے جو تاریکی میں تھے۔

جب لوگ مجھ سے رابطہ کرتے ہیں، پیراگوائے، میکسیکو، گوئٹے مالا، جزائر سے، ایسی ایسی جگہوں سے جن کے بارے میں مَیں جانتا بھی نہ تھا کہ یہ بھی موجود ہیں، اور وہ کہتے ہیں :

“Well, thank you very much, that was a question that was bothering me, I appreciate it”

’’آپ کا بہت بہت شکریہ، یہی ایک ایسا سوال تھا جو مجھے پریشان کررہا تھا !‘‘

اسی نوعیت کاہے ایک اور اہم نکتہ ہے کہ جب یہ سلسلہ شروع ہوا اور دنیا بھر سے بڑے بڑے لوگوں نے مجھ سے رابطہ کرنا شروع کیا تو میں نے حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے رہ نمائی طلب کی کہ میں یہ خدمت کرنا چاہتا ہوں لیکن ظاہر ہے کہ مَیں کوئی سیاستدان نہیں، نہ ہی میں کوئی بلندپایہ پالیسی ساز شخص ہوں، میں ان معاملات سے دوررہنا چاہتا ہوں جن کا میں ماہر نہیں تو مجھے کیا کرنا چاہیے؟

جواباًحضورانور کی طرف جو ہدایت موصول ہوئی وہ بہت آسان تھی، فرمایا :

“Don‘t think about yourself and keep serving”

یعنی:’’ اپنے بارے میں مت سوچو اور خدمت کرتے رہو۔‘‘

بنیادی طورپر یہ کہ یہ توقع مت رکھوکہ کوئی تمہاری پیٹھ پہ تھپکی بھی دے گا، خود کو اہم بنانے کی کوشش مت کرو، شہرت کی خواہش مت رکھو، یہ تمہارے بارے نہیں۔ صرف انسانیت کے متعلق سوچواورپھر اس بارے پریشان نہ ہو۔ جو حقیقت ہے وہ بیان کرو۔

میں آپ کو بتا نہیں سکتا کہ یہ مختصر سی نصیحت میرے لیے کس قدرمفید ثابت ہوئی ہے۔

کیونکہ اگر میں یہ کہوں کہ ان چھ ماہ میں میرے دماغ میں شیطان نہیں آیاتو یہ جھوٹ ہوگا۔ کیونکہ میں انسان ہوں۔ اورمیرا شیطان کی دسترس میں آنے کا احتمال اتنا ہی ہے جتنا کسی دوسرے کا۔ لیکن حضرت صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے یہ الفاظ میرے لیے واقعی ایک ڈھال بن چکے ہیں۔

ایسے لمحے بھی آئے جب میں نے خود کو’’کیپٹن امریکہ‘‘ محسوس کیااوراس نصیحت نے مجھے بچالیا۔

واضح رہے کہ میں The Avengersکہانی کا کوئی کردار نہیں (جس میں کچھ افراد دنیا کو تباہی سے بچانے کا مشن اپنے سر لے لیتے ہیں۔ ناقل)، میری چھوٹی بیٹی ان میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے۔وہ ابھی بہت چھوٹی ہے جبکہ وبا بہت بھیانک۔

تو یہ ہے ساری صور ت حال ۔ اس لحاظ سے میں اچھا محسوس کرتا ہوں اور خود کو با مقصد۔

میں سمجھتا ہوں کہ یہی وقت ہےکہ اس خدمت کے ذریعہ ہم برکتیں سمیٹیں اور آخرت کے لیے کچھ زادِ راہ جمع کر لیں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ میں اپنے بارے میں اس سے پہلے کبھی اتنا بے فکر نہیں ہوا۔ کل یہ (وبا) ختم ہوتو میں گھر کی راہ لوں اور بات ختم ! مجھے تو گھر کے پچھواڑے میں بچوں کے ساتھ گیند سے کھیلنے میں بہت مزہ آتا ہے۔

میں نہیں جانتا کہ وہ لوگ جو خلافت احمدیہ کی نعمت سے محروم ہیں وہ کیسے زندگی گزارتے ہیں، کیونکہ خلافت نہ ہوتی تو جس طرح سے میرے سامنے بہت ساری راہیں موجود تھیں، مجھے یقین ہے میں ضرور کسی غلط سمت کا انتخاب کرسکتا تھا۔ لیکن حضرت صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے وہ الفاظ، اور پھر ہرہفتہ آپ حضور اقدس کے خطبات سنتے ہیں، ان پر غور کرتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ کی یہ نعمت جو اس نے ہمیں عطا کی ہے اس پر کچھ کہنا نہایت مشکل ہوجاتا ہے۔ بارباریہی دعا لبوں پہ جاری ہوتی ہے کہ

ربَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا

کہ اے ہمارے ربّ! ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ ہونے دے بعد اس کے کہ تو ہمیں ہدایت دے چکا ہو۔(سورۃ آل عمران: 9۔ ناقل)

نمائندہ:جزاک اللہ۔ یہ بہت ہی پیاری بات ہے۔ میری رائے میں آپ افواہوں کا قلع قمع کرنے والی ٹوئیٹس کے ذریعہ واقعی بہت سے لوگوں کے لیے روشن چراغ ثابت ہوئے ہیں۔آخر پر یہ دریافت کرنا مقصود ہے کہ کیا اس دوران آپ کو کسی غیرمتوقع رد عمل کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے؟

ڈاکٹرفہیم یونس:میرے خیال میں آپ کو اس کا جواب بھی معلوم ہے !

ایک چیز جس کا مجھے احساس ہواہے وہ یہ ہے کہ دنیا میں بہت ساری نفرت موجود ہے، بہت تعصب پایا جاتا ہے۔میں سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال نہیں کرتا، میں نے کبھی اپنی فیس بک نہیں بنائی نہ ہی میں Pinterest یا Snapchat وغیرہ پر ہوتاہوں۔ٹوئٹر کے بارے میں میرا خیال تھا کہ یہاں بالغ نظرلوگوں سے واسطہ ہوتا ہے لیکن پھر بھی لوگ دکھ دینے والی باتیں کرجاتے ہیں۔لوگ آپ کی نیت پر شک کرتے ہیں۔میں ان سب کو نظراندازکرنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن اس چیز کو بھی اہم سمجھتا ہوں کہ یہاں بھی اپنا کردارادا کروں۔

چنانچہ بعض دفعہ میں ایسے لوگوں کوبھی درس دیتا ہوں تاکہ جب تک میں اس ماحول میں موجود ہوں تو اسے پاک وصاف رکھوں۔میں جہاں بھی ہوتا ہوں احادیث مبارکہ کی روشنی میں جگہ کوجس حالت میں پایا ہوتا ہے اس سے زیادہ صاف حالت میں چھوڑنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں اسے اپنی سماجی ذمہ داری گردانتا ہوں۔

ایک وقت تھا جب ہندوستانی مجھ سے اس لیے نفرت کرتے تھے کہ میں پاکستانی ہوں، پاکستانی مجھ سے اس لیے نفرت کرتے تھے کہ میں احمدی ہوں، امریکی اس لیے نفرت کرتے تھے کہ میں مسلمان ہوں، اور باقی ساری دنیا مجھ سے اس لیے نفرت کرتی تھی کہ میں امریکی ہوں، توآپ خود دیکھ لیں !

لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسلام کی یہ حسین تعلیم ہے کہ

وَ اصۡبِرۡ عَلٰی مَا یَقُوۡلُوۡنَ وَ اہۡجُرۡہُمۡ ہَجۡرًا جَمِیۡلًا(سورۃالمزمل:11۔ ناقل)

اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ سے فرمایا کہ’’وہ جو کچھ بھی کہتے ہیں اس پر صبر کرو اوراحسن رنگ میں ان سے جدا ہوجاؤ۔‘‘

تو ایسے واقعات پر آپ سوچتے ہیں کہ ہم تو کچھ بھی نہیں، رسول پاکﷺ کے قدموں کی خاک بھی نہیں، لیکن جس درجہ کے دکھ اللہ تعالیٰ کے پیغمبروں کو دیے جاتے ہیں، یااس وقت ہمارے پیارے خلیفہ کو ہی دیے جاتے ہوں گے، تو مَیں تصوّر بھی نہیں کرسکتا کہ حضور انور کس طرح کی دلآزار باتیں سنتے ہوں گے لیکن وہ ہم سے اس کا ذکر تک نہیں کرتے۔ تو اس کا ہلکا سا مزہ آپ بھی چکھ لیتے ہیں اوریہ اچھی بات ہے۔

نمائندہ:جزاک اللہ، آپ کا بہت بہت شکریہ۔آپ کی ٹویئٹس سے خاکسار نے بھی بہت کچھ سیکھا ہے اور آپ نے ہمیں بہت سارا وقت بھی دیا۔ آپ کا بہت بہت شکریہ۔جزاک اللہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ڈاکٹرفہیم یونس: مجھے خوشی ہوئی۔ وعلیکم السلام۔

(ترجمہ و ترتیب: ڈاکٹر طارق مرزا۔ آسٹریلیا)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button