ادبیاتمتفرق مضامین

ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب (قسط نمبر 51)

(محمود احمد طلحہ ۔ استاد جامعہ احمدیہ یو کے)

مسیح کی دعا قبول نہ ہوئی

پھر ایک اور پہلو سے بھی مسیح کی خدائی کی پڑتال کرنی چاہئے کہ اخلاقی حالت تو خیر یہ تھی ہی کہ یہود کے معزز بزرگوں کوآپ گالیاں دیتے تھے ۔لیکن جب ایک وقت قابو آگئے تو اس قدر دعا کی جس کی کوئی حد نہیں ۔مگر افسوس سے دیکھا جاتا ہے کہ وہ ساری رات کی دعا عیسائیوں کے عقیدے کے موافق بالکل ردّ ہو گئی اور اُس کا کوئی بھی نتیجہ نہ ہوا۔اگرچہ خدا کی شان کے ہی یہ خلاف تھا کہ وہ دعا کرتے ۔چاہئے تو یہ تھا کہ اپنی اقتداری قوت کا کوئی کرشمہ اُس وقت دکھا دیتے ۔جس سے بیچارے یہود اقرار اور تسلیم کے سوا کوئی چارہ ہی نہ دیکھتے۔ مگر یہاں الٹا اثر ہو رہا ہے اور

او خود گم است کرا رہبری کند

کا معاملہ نظر آتا ہے ۔ دعائیں کرتے ہیں ۔چیختے ہیں چلّاتے ہیں۔ مگر افسوس وہ دعا سنی نہیں جاتی اور موت کا پیالہ جو صلیب کی لعنت کے زہر سے لبریز ہے ، نہیں ٹلتا۔ اب کوئی اس خدا سے کیا پائے گا جو خود مانگتا ہے اور اُسے دیانہیں جاتا۔ ایک طرف تو خود تعلیم دیتا ہےکہ جو مانگو سو ملے گا۔دوسری طرف خود اپنی ناکامی اور نامرادی کا نمونہ دکھاتا ہے ۔اب انصاف سے ہمیں کوئی بتائے کہ کسی پادری کوکیا تسلی اور اطمینان ایسے خدائے ناکام میں مل سکتا ہے؟

(ملفوظات جلد سوم صفحہ 164-165)

٭…اس حصہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فارسی کا یہ مصرع استعمال کیا ہے ۔

اُوْ خُوْد گُمْ اَسْت کِرَا رَہْبَری کُنَدْ

ترجمہ :وہ تو خود ہی گمراہ ہے کسی کی رہنمائی کیا کرے گا۔

ملفوظات جلد سوم کے صفحہ نمبر167 پر بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسیح علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے یہ مصرع استعمال کیا ہے جس میں ’’خود ‘‘ کی بجائے ’’خویشتن ‘‘کا لفظ رکھا ہے ۔ چنانچہ فرمایا :

’’اول غور کرے کہ جب یہ بات مسلم تھی اور پہلے تورات میں کہا گیا تھا کہ وہ جو کاٹھ پرلٹکایا گیا وہ لعنتی ہے اور وہ کاذب ہے ۔تو بتاؤ جو خود ملعون او ر کاذب ٹھہر گیا وہ دوسروں کی شفاعت کیا کرے گا؟

او خویشتن گم است کرا رہبری کند‘‘

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ ’’خود‘‘جبکہ دوسری جگہ ’’خویشتن ‘‘کا لفظ استعمال کیا ہے اس حوالہ سے ذہن نشین رہے کہ دونوں یعنی ’’خود‘‘اور’’ خویشتن ‘‘کا ایک ہی مطلب ہے ۔

مکمل شعر اور حکایت

گلستان سعدی کا دوسرا باب ’’درویشوں کے اخلاق‘‘ کے بارہ میں ہے۔اس میں حکایت ہے ۔

ایک فقیہ نے اپنے والد سے کہا واعظوں کی ان رنگین باتوں کا میرے دل پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ کیونکہ میں ان کا عمل قول کےمطابق نہیں دیکھتاہوں ۔دنیا کو ترکِ دنیا کا سبق پڑھاتے ہیں۔ خود چاندی اور غلہ جمع کرتے ہیں ۔ جس عالم کا صرف کہنا ہی کہنا ہو وہ جو کچھ کہے گا اس کا اثر کسی پر نہ ہوگا۔عالم تو وہ ہے جو برے کام نہ کرے ۔نہ یہ کہ مخلوق کو کہتا رہےاور خود عمل نہ کرے۔ اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّوَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ۔کیا تم لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہو اور خود اپنی ذاتوں کو بھولتے ہو۔

عَالِم کِہْ کَامْرَانِیْ و تَنْ پَرْوَرِی کُنَدْ

اُوْ خِویْشْتَن گُمْ اَسْت کِہ رَا رَھْبَرِیْ کُنَدْ

ترجمہ:وہ عالم جو عیش وتن پروری کرے ۔ وہ تو خود ہی گمراہ ہے کسی کی کیا رہنمائی کرے گا۔

باپ نے کہا اے بیٹے!محض اس باطل خیا ل کی وجہ سے نصیحت کرنے والوں کی تربیت سے روگردانی نہ کرنی چاہیے۔اور علماء کو گمراہی کی طرف منسوب کرنا اور معصوم عالم کی تلاش میں علم کے فوائد سے محروم رہنا اس اندھے کی طرح ہے کہ جو ایک رات کیچڑ میں پھنس گیا تھا۔اور کہہ رہا تھا۔ اے مسلمانوں !میرے راستہ میں ایک چراغ رکھ دو ۔ایک خوش مزاح عورت نےسنا اور کہا ۔جب تجھے چراغ ہی نظر نہیں آتا تو چراغ سے کیا دیکھے گا ؟اسی طرح وعظ کی مجلس بزّاز کی دکان کی طرح ہے۔وہاں جب تک نقد نہ دوگے سامان نہیں لے سکتے ہو ۔اور اس مجلسِ وعظ میں جب تک عقیدت سے نہ آؤگے کوئی نیک بختی نہ حاصل کرسکو گے ۔عالم کی بات دل سے سنو اگرچہ اس کا عمل قول کی مانند نہ ہو ۔ڈینگیں مارنے والا یہ غلط کہتا ہے کہ سویا ہوا سوئے ہوئے کو کب بیدار کر سکتاہے۔ انسان کو چاہیے کہ کان میں ڈال لے اگرچہ نصیحت دیوار پر لکھی ہو۔

ایک صاحب دل خانقاہ سے مدرسہ میں آگیا درویشوں کی صحبت کے عہد کو توڑ کر ۔میں نے دریافت کیا عالم اور عابد میں کیا فرق ہے کہ تم نے اس فریق کو چھوڑ کر اس فریق کو پسند کیا ۔اس نے کہا وہ اپنی گدڑی موج سے بچا کر لے جاتاہے اور یہ کوشش کرتاہے کہ ڈوبنے والے کی دستگیری کرے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button