متفرق مضامین

زندہ خدا سے دل کو لگاتے تو خوب تھا

(فرید احمد نوید۔ پرنسپل جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل، گھانا)

ہمارے پیارے آقا حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کی آمد سے پہلے یہ زمین آسمانی پانی سے محرومی کے سبب روحانی اعتبار سے بالکل بنجر ہوچکی تھی۔ ایک تاریک اندھیری رات چار سو پھیلی ہوئی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے نور سے دور ہونے کے سبب ایک عالمگیر وبا کی طرح زمانے پر رات کا اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ شجر، حجر، بحر و بر سب اس تاریکی کی لپیٹ میں آچکے تھے اور وہ پھل اور میوے جو اللہ سے تعلق کا ثمر ہوا کرتے ہیں دنیا سے غائب ہوچکے تھے۔ ہر ایک قوم دنیا سے پیار کر رہی تھی اورابدی زندگی کا جام پینے کی خواہش رکھنے والے بہت تھوڑے سے باقی رہ گئے تھے۔ کروڑوں انسانوں کی دنیا میں خدا تعالیٰ سے تعلق رکھنے والے انگلیوں پر گنے جاسکتے تھے کیونکہ

لوگ زندہ خدا کو بھول چکے تھے

اللہ تعالیٰ کے ابدی قانون نے جب اپنی مخلوق کی اس حالت کو دیکھا تو اس کی اصلاح کی جانب متوجہ ہوا اور ایک ایسا رسول دنیا میں بھیجا جو روحانی اعتبار سے ایک روشن آفتاب تھا۔ جوسراج منیر تھا۔ جوحقیقی زندگی کی بقا کے لیے آسمان سے نازل ہونے والا آب زلال تھا۔ جس کے نور کے جلوے میں دنیا نے ایک مرتبہ پھر زندہ خدا کا چہرہ دیکھا۔ وہ زندہ خدا جو مدتوں پہلے دنیا کی نگاہوں سے اوجھل ہوچکا تھا اب دوبارہ مومنوں کے دلوں اور دماغوں میں ظاہر ہو چکا تھا اور ان کے اعمال اور افعال اور روزمرہ معاملات میں اللہ ہی اللہ نظر آرہا تھا۔ ایک ایسا خدا جو ربّ، رحمان، رحیم، مالک یوم الدین اور ایسی ہی بےشمار خوبصورت صفات کا حامل خدا تھا۔ ایک زندہ خدا جو ہر دَور میں اپنے ان بندوں کی مدد اور نصرت کے لیے موجود ہوتا ہے جو اسے پکارتے ہیں۔ جو دعاؤں کو سنتا اور فریادوں کا جواب دیتا ہے۔ ایسا خدا اس وقت کے لوگوں نے بھلا کہاں دیکھا تھا؟ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

’’دنیا میں جس قدر قومیں ہیں کسی قوم نے ایسا خدا نہیں مانا، جو جواب دیتا ہو اور دعاؤں کو سنتا ہو۔ کیا ایک ہندو ایک پتھر کے سامنے بیٹھ کر یا درخت کے آگے کھڑا ہو کر یا بیل کے روبرو ہاتھ جوڑ کر کہہ سکتا ہے کہ میرا خدا ایسا ہے کہ میں اس سے دعاکروں تو یہ مجھے جواب دیتاہے؟ ہر گز نہیں۔ کیاایک عیسائی کہہ سکتا ہے کہ میں نے یسوع کو خدا مانا ہے۔ وہ میری دعا کو سنتا اور اس کا جواب دیتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ بولنے والا خدا صرف ایک ہی ہے جو اسلام کا خدا ہے جو قرآن نے پیش کیا ہے۔ جس نے کہا

اُدۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ (المومن: 61)

تم مجھے پکارو میں تم کو جواب دوں گا اور یہ بالکل سچی بات ہے۔ کوئی ہو جو ایک عرصہ تک سچی نیت اور صفائی قلب کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہو۔ وہ مجاہدہ کرے اور دعاؤں میں لگا رہے۔ آخر اس کی دعاؤں کا جواب اُسے ضرور دیا جاوے گا۔ ‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ 148، ایڈیشن1988ء)

پس یہ زندہ خدا ہی دراصل حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کا خدا تھا اور ہم خوش قسمت ہیں کہ یہی ہم سب کا خدا ہےجو اپنی قدرتوں سے اپنی ذات کے تازہ ثبوت پیش کرتا ہے اور اس طریق پر دنیا اس کا چہرہ دیکھتی ہے، لیکن بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ خیال بھی آتا ہے کہ

زندہ خدا کی شناخت کیسے ہوسکتی ہے؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ گو اس کے لیے سینکڑوں ہزاروں ممکنہ راستے ہوسکتے ہیں لیکن اس کا سب سے آسان ذریعہ تو یہی ہے کہ ان وجودوں کی پیروی کی جائے جنہوں نے اپنی زندگی میں اس عظیم الشان خزانے کو نہ صرف حاصل کیا بلکہ اس تک پہنچنے کے ذرائع بھی بیان کردیے اور ان وجودوں میں سر فہرست وجود ہمارے پیارے آقا حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کا ہی ہے جنہوں نے ہمارے لیے یہ راستے بہت آسان کردیے جیسا کہ قرآن کریم کی سورۃ الاحزاب آیت22میں ہے کہ

تمہارے لئے اللہ کے رسول میں ایک اسوۂ حسنہ ہے۔

پس اس اسوہ ٔحسنہ کی پیروی انسان کو خدا تعالیٰ کے تمام تر انعامات کا وارث بنا سکتی ہے اور اس دَور آخرین میں یہی صدا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے دی گئی کہ؎

وہ خدا اَب بھی بناتا ہے جسے چاہے کلیم

اب بھی اس سے بولتا ہے جس سے وہ کرتا ہے پیار

لیکن افسوس کہ آپ کی دشمنی میں علمائے ظاہر اور شریرمخالفین نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ اس عظیم الشان نعمت کا ہی انکار کر دیا۔ حالانکہ یہی تو وہ نعمت ہے جو ایک مومن اور غیر مومن میں امتیاز کرکے دکھاتی ہے۔ جہاں مومن اللہ تعالیٰ کے فضل کے سائے میں دنیا کے بڑے سے بڑے ابتلا سے بھی کامیاب ہوکر گزر جاتے ہیں وہیں ان کے مخالفین ہمیشہ نامراد اور رسوا ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ تاریخ مذاہب کا یہ وہ سب سے بڑا سبق ہے جو قرآن میں مذکور تمام انبیاء کے واقعات میں مشترک نظر آتا ہے کہ اللہ کا گروہ ہی ہمیشہ غالب آیا کرتا ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام کے مخالفین سیلاب کی نذر ہوجاتے ہیں اور آپ پر ایمان لانے والوں کی کشتی پار لگا دی جاتی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے کے فرعون اور ہامان رسوا کردیے جاتے ہیں اورآپؑ اپنے ساتھیوں سمیت عزت کے ساتھ سمندر پار کر جاتے ہیں۔ حضور اکرمﷺ کے زمانے کے ظالم عتبہ، شیبہ، امیہ اور ابو جہل جنگ کے میدانوں میں اپنی تکبر سے بھری گردنوں سے محروم کردیے جاتے ہیں اور حضور اکرمﷺ کے غلاموں کے عَلم بلند سے بلند تر کردیے جاتے ہیں اور یہ سب انقلابات پیدا کرنے والی اصل طاقت اس خدا کی ذات تھی جس کا یہ وعدہ تھا کہ

کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغۡلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِیۡ(المجادلۃ:22)

یقینا ًمیں اور میرے رسول ہی غالب آئیں گے۔

سوشل میڈیا پر کمزورذہنوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے بعض شعبدہ باز آج بھی دنیا میں اس غلط فہمی کو پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے انبیاء انذاری پیشگوئیاں کیوں کرتے ہیں؟ کیوں وہ اللہ تعالیٰ سے رحمت کی دعائیں مانگ کر تمام عالم کو ایمان کی طرف نہیں لے آتے تو اس کا جواب یہ ہے کہ انبیاء دنیا میں اللہ تعالیٰ کے نمائندے اور خلیفہ ہوتے ہیں۔ جس طرح وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور کرم کے دروازے کھولنے والے ہوتے ہیں اسی طرح نافرمانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی قہری تجلی کی خبر بھی دیتے ہیں اسی لیے جہاں ہمارے آقا و مولا حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کو قرآن ایک طرف رحمۃ للعالمین کہتا ہے وہیں آپ کو سورۃ الفرقان میں لِلْعَالَمِیْنَ نَذِیْرًابھی قرار دیتا ہے۔ پس ہر نبی کی زندگی میں یہ دونوں چشمے اپنی تمام تر شان کے ساتھ متوازی طور پر بہتے ہوئے نظر آتے ہیں جو دونوں ہی صورتوں میں خداتعالیٰ کے وجود کو ظاہر کرنے کا باعث بنتے ہیں اور

دنیا دیکھ لیتی ہے کہ اللہ تعالیٰ بولتا اور جواب دیتا ہے۔

ہمارے آقا و مولا حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کی تکلیفوں کا سخت ترین دن وہ تھا جب آپ طائف تشریف لے گئے تھے اورطائف کے لوگوں کو اسلام کا پیغام پہنچایاتھا۔ قبیلے کے سردار نے نہ صرف انکار کیا بلکہ شہر کے اوباش بھی آپؐ کے پیچھے لگا دیے جو آپؐ کو پتھر مارنے لگے یہاں تک کہ آپؐ کے جوتے بھی خون سے بھر گئے۔ آپؐ نے اس موقع پر اپنے زندہ خدا کو ان الفاظ میں پکارا کہ

’’اے خداوند! میں اپنے ضعف وناتوانی، مصیبت اور پریشانی کاحال تیرے سوا کس سے کہوں ؟ مجھ میں صبر کی طاقت تھوڑی رہ گئی ہے۔ مجھے اپنی مشکل کے حل کی کوئی تدبیر نظر نہیں آتی۔ تیرا نام اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ ہے۔ تو رحم فرما! کیا تو مجھے دشمن کے حوالے کر دے گا جو مجھے تباہ وبرباد کردے۔ ‘‘

(المعجم الکبیر لطبرانی جلد11صفحہ174بیروت)

اس دَرد میں ڈوبی دعا نے عرش الٰہی کو ہلا کر رکھ دیا۔ آپؐ نے آسمان کی طرف نگاہ کی تو جبرائیلؑ کی آواز آئی کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی دعا کا جواب بھیجا ہے۔ ساتھ موجود ملک الجبال نے آپؐ کوسلام کیااور کہا کہ اے محمد! اگر آپ چاہیں تومیں سزا کے طور پر ان دو پہاڑوں کو اس وادی پر گرا کر تباہ کر دوں۔ آپؐ نے فوراً فرمایا کہ نہیں نہیں ! ایسا مت کرو۔ میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسلوں میں ایسے لوگ پیدا کرے گا جو خدائے واحد لاشریک کی عبادت کریں گے اوراس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔

(بخاری کتاب بدء الخلق باب ذکر الملائکۃ)

یہ تھا اسلام کا زندہ خدا جو اپنے بندوں کی درد بھری فریادوں کو سنتا او ر جواب دیتا ہے اور ان کے مخالفین پر گرفت بھی کرتا ہے۔ کبھی رحم کرتا ہے اور کبھی سزا بھی دیتا ہے جیساکہ شاہ فارس کسریٰ کواس کی بے ادبی کی سزا دی گئی اوراسے ہلاک کردیا گیاجس کے بارےمیں حضورﷺ پہلے ہی پیشگوئی فرماچکے تھے کہ

اللہ تعالیٰ اس کی بادشاہت کو پارہ پارہ کردے گا

حضور اکرمﷺ نے ایک تبلیغی خط بادشاہ فارس کسریٰ کو بھیجا جو اس مضمون پر مشتمل تھا کہ اللہ کے سوا کوئی لائقِ عبادت نہیں۔ وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد اس کے بندے اور رسول ہیں۔ میں تمہیں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، کیونکہ میں تمام انسانوں کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔ جب یہ خط کسریٰ کو پڑھ کر سنایا گیا تو اس نے غصے میں آکر اسےپھاڑدیا اور نہایت متکبرانہ انداز میں بولاکہ میری رعایا میں سے ایک حقیر غلام اپنا نام مجھ سے پہلے لکھتا ہے۔ رسول اللہﷺ کو اس واقعے کی جب خبر ہوئی تو آپؐ نے فرمایاکہ اللہ اس کی بادشاہت کو پارہ پارہ کردے گا، اور پھر وہی ہوا جو آپؐ نے فرمایا تھا۔ چنانچہ اس کے بعد کسریٰ نے غصہ میں آکر اپنے یمن کے گورنر باذان کو لکھا کہ یہ شخص جو حجاز میں ہے اس کی طرف اپنے دو توانا اور مضبوط آدمی بھیج دو کہ وہ اسے میرے پاس حاضر کریں۔ باذان نے اس حکم کی تعمیل کرتے ہوئے دو آدمی منتخب کیے اور انہیں ایک خط دے کر رسول اللہﷺ کے پاس روانہ کیا جس میں آپ کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ ان کے ساتھ کسریٰ کے دربار میں حاضر ہو جائیں۔ جب وہ مدینہ پہنچے اور آپؐ کے رو برو حاضر ہوئے توآپ نے انہیں اگلے دن جواب دینے کا کہا۔ یہاں مدینہ میں جس وقت یہ معاملات چل رہے تھے، الٰہی تقدیر کسریٰ کو مٹانے کی تیاری کرچکی تھی۔ کسریٰ کے اپنے گھرکے اندر سے اس کے خلاف بغاوت کا ایک زبردست طوفان امڈ کر باہرآ رہا تھا جس کے نتیجے میں عین اسی روز کسریٰ کا بیٹا شیرویہ اپنے باپ کو قتل کر کے خود بادشاہ بن بیٹھا اور اس نے اپنے باپ کے تمام ظالمانہ احکامات کو بھی منسوخ کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے رات کو حضور اکرمﷺ کو اس واقعے کا علم وحی کے ذریعہ دے دیا۔ جب صبح ہوئی اور دونوں فارسی نمائندے حاضر ہوئے تو آپؓ نے انہیں اس واقعے کی خبر دی اور کہا کہ واپس چلے جاؤ اور اپنے گورنر کو بتادو کہ میرے خدا نے کل رات تمہارے خدا کو قتل کردیا ہے۔ وہ دونوں نمائندے یہ بات سن کر ششدر رہ گئے اور مدینہ سے روانہ ہو کرگورنر باذان کے پاس پہنچے اور اسے ساری تفصیلات سے آگاہ کیا۔ مشورہ کے بعد انتظار کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور تھوڑے ہی دن کے بعد ایک خط آیا کہ شیرویہ نے اپنے باپ کو قتل کر دیا ہے اور اب وہ نیا بادشاہ ہے۔ شیرویہ نے اپنے اس خط میں یہ بھی ہدایت کی تھی کہ جس شخص کے بارے میں میرے والد نے تمہیں لکھا تھا اسے تا حکم ثانی گرفتار نہیں کرنا۔ چنانچہ اس واقعے کی وجہ سے باذان اور اس کے ساتھی جو یمن میں موجود تھے مسلمان ہو گئے۔

(بخاری کتاب المغازی باب کتاب النبی الی کسریٰ تاریخ الطبری 3/143)

یہ امر ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے اللہ تعالیٰ غضب میں دھیما ضرور ہے لیکن وہ شوخ اور گستاخ قانون شکن لوگوں کو دنیا کی طاقتور حکومتوں کی طرح سزا بھی دیتا ہے۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ انسان ایک معمولی دنیاوی قانون توڑنے پر تو سزا یا جرمانہ ادا کرنے کا پابند ہو لیکن بادشاہوں کے بادشاہ کی سلطنت میں بےپروا اور غیر محتاط رویہ اختیار کرے اور گرفت میں نہ آئے۔ کیا وجہ ہے کہ دنیاوی حکومت کی طرف سے نصب کردہ سگنل پر موجود ایک بے جان کھمبے کی سرخ روشنی پر نہ رکنے کی سزا تو سب کو تسلیم ہے لیکن مالکُ المُلک کی طرف سے بھیجے جانے والے نمائندوں کے متعلق یہ خیال کرلیا جاتا ہے کہ ان کی بات نہ مان کر بھی انسان اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کا حق دار ہوسکتا ہے۔ وہ بلاشبہ اللہ کی سخت گرفت میں آتا ہے جیسا کہ قریش کے وہ بد بخت آئے تھے جنوں نے بار بار ملنے والی مہلت سے فائدہ نہ اٹھایا اور شرارت اور ظلم میں بڑھتے چلے گئے کیونکہ حضرت اقدس محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب سے یہ التجا کی تھی کہ

اے اللہ!ان قریش سے تو خود بدلہ لے۔

ایک مرتبہ رسول کریمؐ بیت اللہ میں نماز پڑھ رہے تھے اور ابو جہل اور اس کے ساتھی بھی صحن کعبہ میں ہی مجلس لگائے بیٹھے تھے۔ ان بدبختوں میں کسی نے یہ مشورہ دیا کہ فلاں محلہ میں جواونٹنی ذبح ہوئی ہے کوئی جائے اور اس کی آلائشیں اٹھا لائے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ میں جائیں تو ان کی پشت پر رکھ دے۔ ان میں سے ایک بدبخت عُقبہ بن ابی مُعیط اٹھا اور اونٹنی کی سب آلائشیں اٹھا لایا اور جونہی آپ سجدہ میں گئے اس نے غلاظت بھرا وہ بوجھ آپؐ کی پشت پر رکھ دیا اور سب مخالفین اس نظارے کو دیکھ کر ہنسنے لگے۔ آپؐ نے جب سجدے سے سراٹھایا توان دشمنوں کے حق میں اپنے اللہ سے یہ فریاد کی اَللّٰھُمَّ عَلَیْکَ بِقُرَیْشٍ۔ اے اللہ!ان قریش سے تو خود بدلہ لے۔ یہ دعا قبول ہوئی اور رسول اللہؐ نے ان مخالفین کا یہ عبرت ناک انجام خود دیکھاکہ میدان بدر میں ان کی لاشیں اس حال میں پڑی تھیں کہ گرمی کی شدت کے سبب ان کے حلیےبگڑ چکے تھے۔

(بخاری کتاب الجہاد باب الدعاء علی المشرکین بالھزیمۃ2717)

وہ زندہ خدا کبھی اپنی قدرت اور طاقت کے رنگ معجزانہ واقعات کے اظہار سے بھی دکھاتا ہے جیسا کہ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہواتھا۔

سارا قرض ادا کرکے بھی مال بچ گیا

حضور اکرمﷺ کے ایک پیارے صحابی حضرت جابرؓ کے والد حضرت عبداللہؓ جنگ اُحد میں شہید ہوگئے تھے اور ان کے ذمہ یہودی تاجروں کا کچھ قرض تھاجس کا وہ حضرت جابرؓ سے بڑی سختی سے مطالبہ کررہے تھے۔ یہاں تک کہ ان کے تقاضوں سے تنگ آکر حضرت جابرؓ نے ان کو قرض کے عوض یہ پیشکش بھی کردی کہ اگر وہ چاہیں تو اس سال ان کے باغ کا تمام پھل لے کر قرض سے بری الذمہ قرار دے دیں۔ لیکن انہوں نے رسول اللہؐ کی سفارش کے باوجود ایساکرنے سے صاف انکار کردیا۔ اس پر رسول کریمؐ نے باغ میں تشریف لے جاکر دعا کی۔ اس دعا کی برکت سے کھجور کا اتنا پھل ہوا کہ قرض ادا کر کے بھی نصف کے قریب پھل بچ گیا۔

(بخاری کتاب المغازی باب غزوہ احد و کتاب الاستقراض)

مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد زندہ خدا سے دوری کے سبب ان واقعات کو محض ماضی کی داستانیں خیال کربیٹھی ہے اور اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھول گئی ہے کہ تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں پاؤ گے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا امت مسلمہ پر یہ احسان بہت ہی بڑا ہے کہ آپؑ نے اس دَور آخرین میں ایک مرتبہ پھر اوّلین کے اس خدا سے تعلق قائم کرکے اس پیارے خدا کا چہرہ پھر سے دنیا کو دکھا دیا اور یہ ثابت کردیا کہ اس کائنات کا خالق و مالک وہی ایک خدا ہے جو پہلے تمام انبیاء کا بھی خدا تھا اور اس کی تمام صفات ازلی ابدی ہیں۔ اگر وہ عاد اور ثمود اور دیگر اقوام عالم کو تباہ کرسکتا ہے۔ طوفان اور زلزلے ظاہر کر سکتا ہے، زمین کو زیر و زبر کرسکتا ہے تو اس میں یہ طاقت آج بھی موجود ہے کہ

اگر وہ چاہے تو آن کی آن میں

تمام شہر کو خاک میں ملا دے

ماسٹرمحمدنذیراحمد خان صاحب متوطن نا دون ضلع کانگڑہ نے بیان کیا کہ میں امتحان انٹرنس پاس کرنے کے بعد کچھ عرصہ کےلیے دھرم سالہ میں ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں امید وارمحرر ہوا تھا۔ ان دنوں کا واقعہ ہے کہ میں دفترمیں بیٹھا تھا اور میرے ہا تھ میں ریویوآف ریلیجنز کا پرچہ تھا کہ دھرم سالہ کے ڈسٹرکٹ بورڈ کا ہیڈ کلرک جس کا نام پنڈت مولا رام تھادفتر ضلع میں کسی کام کےلیے آیا۔ جب اس کی نظر ریویو آف ریلیجنز پر پڑی تو اس نے حیرا ن ہو کر مجھ سے پوچھا کہ کیا آپ بھی احمدی ہیں ؟ میں نے کہا ہاں میں احمدی ہوں۔ اس نے کہا تو پھرمیں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں جو حضرت مرزا صاحب کے ساتھ میرا گزرا ہے۔ چنانچہ اس نے بیان کیا کہ میں ایک مذہبی خیال کا آدمی ہوں اور چونکہ مرزا صاحب کی مذہبی امور میں بہت شہرت تھی میں نے ان کے ساتھ بعض مذہبی مسائل میں خط و کتابت شروع کی۔ اس خط وکتابت کے دوران میں مَیں نے ان کی خدمت میں ایک خط لکھا جس میں بعض اعتراض تھے۔ حضرت مرزا صاحب کا جو جواب میرے پاس اس خط کا آیا اس میں میرے اعتراضات کے متعلق کچھ جوابات لکھ کرپھر مرزا صاحب نے یہ لکھا تھا کہ پنڈت صاحب! آپ ان باتوں میں الجھے ہوئے ہیں حالانکہ میں دیکھتا ہوں کہ خدا کا غضب آسمان پر بھڑک رہا ہے اور اس کا عذاب سالوں میں نہیں، مہینوں میں نہیں، دنوں میں نہیں، گھنٹوں میں نہیں، منٹوں میں نہیں بلکہ سیکنڈوں میں زمین پر نازل ہونے والا ہے۔ ان الفاظ کو پڑھ کر مجھ پر بہت اثر ہوا اور میں نے دل میں کہا کہ خواہ کچھ بھی ہو مرزا صاحب ایک نیک آدمی ہیں ان کی بات یو نہی رائیگاں نہیں جا سکتی۔ چنانچہ میں ہر لحظہ اسی انتظار میں تھا کہ دیکھیے اب کیاہوتا ہے اور میں نے اسی خیال میں اس رات کو سوتے ہوئے مرزا صاحب کایہ خط اپنے سرہانے کے نیچے رکھ لیا۔ صبح کو جب میں اُٹھا تو حسب عادت اشنان کی تیاری کرنے لگا اور اپنے ملازم کو میں نے بازارسے دہی لانے کےلیے بھیجا اور اپنے مکان میں ادھر اُدھر ٹہلنے لگا۔ اس وقت اچانک زلزلے کاایک سخت دھکا آیا اور اس کے بعد پیہم اس طرح دھکوں کا سلسلہ شروع ہوا کہ میرے دیکھتے دیکھتے آناً فاناًدھرم سالہ کی تمام عمارتیں ریزہ ریزہ ہو کر خاک میں مل گئیں۔ اس وقت حضرت مرزاصاحب کے اس خط کا مضمون میری آنکھوں کے سامنے پھررہا تھا اور میرے منہ سے بے اختیار نکل رہا تھا کہ واقعی یہ دنوں اور گھنٹوں اور منٹوں کا عذاب نہیں بلکہ سیکنڈوں کا عذاب ہے۔ جس نے ایک آن کی آن میں تمام شہر کو خاک میں ملا دیا ہے اور اس کے بعد میں حضرت مرزا صا حب کابہت معتقد ہو گیا اور میں اُن کو ایک واقعی خدا رسیدہ انسان اور مصلح سمجھتا ہوں۔

(سیرت المہدی جلد 1، حصہ دوم صفحہ307روایت نمبر 335)

لیکن افسوس کہ یہ مضمون ایک صاحب نظر ہندو کو تو سمجھ میں آگیا لیکن بہت سے لوگ جو دین اسلام کو ماننے اور اس پر قائم ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ بھلا یہ کہنا کہ زلزلہ آئے گا یہ کیا نشان ہے؟ نشان تو یقینا ًہے لیکن قرآن یہ بھی بیان کرتا ہے کہ ہمارے نشانوں سے صرف اہل نظر لوگ ہی فائدہ اٹھایا کرتے ہیں۔ ایک سچے مومن کا تو قرآن یہ مقام بیان کرتا ہے کہ ان مومنوں کے لیے فرشتے اترتے ہیں۔

حضرت مولوی شیر علی صاحب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ

’’ان کے چچا چوہدری شیر محمدؐ صاحب مرحوم بیان کرتے تھے کہ شروع شروع میں جب حضرت مولوی نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ قرآن شریف کا درس دیا کرتے تھے تو کبھی کبھی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام بھی ان کا درس سننے کے لئے تشریف لے جاتے تھے اور بعض اوقات کچھ فرمایا بھی کرتے تھے چنانچہ ایک دفعہ جب حضرت مولوی صاحبؓ درس دے رہے تھے تو ان آیات کی تفسیر میں جن میں جنگ بدر کے وقت فرشتوں کی فوج کے نازل ہونے کا ذکر آتا ہے۔ حضرت مولوی صاحبؓ کچھ تاویل کرنے لگے کہ اس سے روحانی رنگ میں قلوب کی تقویت مراد ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سُنا تو فرمانے لگے کہ اس تا ویل کی ضرورت نہیں۔ اس وقت واقعی مسلمانوں کو فرشتے نظر آئے تھے۔ اور کشفی حالات میں ایسا ہو جاتا ہے کہ صا حب کشف کے علاوہ دوسرے لوگ بھی کشفی نظارہ میں شریک ہو جاتے ہیں۔ پس اس موقعہ پر بھی آنحضرتﷺ کے اس کشفی نظارہ میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کو شامل کر لیا تا کہ ان کے دل مضبوط ہو جائیں۔ ‘‘

(سیرت المہدی جلد 1، حصہ دوم صفحہ 342روایت نمبر375)

ایسے زندہ خدا کی شناخت کے لیے اگر بڑے بڑے نشانات نہ بھی تلاش کیے جاسکیں تب بھی ہمیں اپنی روزمرہ زندگی میں ہی اس کی قدرت کے ایسے رنگ نظر آجاتے ہیں کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے اور مامورین کے ساتھ تو اس کے یہ رنگ نہایت ہی غیر معمولی ہوا کرتے ہیں جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں ایک مرتبہ کھانے میں اضافہ کا ایسا معجزہ ہوا کہ

زردہ سب کے واسطے آیا اور سب نے کھایا اور پھر کچھ بچ بھی گیا

حضرت میاں عبداللہ صاحب سنوری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چند مہمانوں کی دعوت کی اور ان کے واسطے گھر میں کھانا تیار کر وایا مگر عین جس وقت کھانے کا وقت آیا اتنے ہی اور مہمان آگئے اور مسجد مبارک مہمانوں سے بھر گئی۔ حضرت صاحب نے اندر کہلابھیجا کہ اَور مہمان آگئے ہیں کھانا زیادہ بھجواؤ۔ اس پر بیوی صاحبہ نے حضرت صاحب کو اندر بلوا بھیجا اور کہا کہ کھانا تو تھوڑا ہے۔ صرف ان چند مہمانوں کے مطابق پکایا گیا تھا۔ جن کے واسطے آپ نے کہا تھا مگر شاید باقی کھانے کا تو کچھ کھینچ تان کر انتظام ہو سکے گا لیکن زردہ تو بہت ہی تھوڑا ہے اس کا کیا کیا جاوے۔ میرا خیال ہے کہ زردہ بھجواتی ہی نہیں باقی کھانا نکال دیتی ہوں۔ حضرت صاحب نے فر مایا نہیں یہ مناسب نہیں۔ تم زردہ کا برتن میرے پاس لاؤ چنانچہ حضرت صاحب نے اس برتن پر رومال ڈھانک دیا اور پھر رومال کے نیچے اپنا ہاتھ گزار کر اپنی انگلیاں زردہ میں داخل کر دیں اور پھر کہا اب تم سب کے واسطے کھانا نکالو خدا برکت دے گا۔ چنانچہ میاں عبد اللہ صاحب کہتے ہیں کہ زردہ سب کے واسطے آیا اور سب نے کھایا اور پھر کچھ بچ بھی گیا۔

(سیرت المہدی جلد 1، حصہ اول صفحہ133 روایت نمبر 144)

یہ ایک عظیم الشان واقعہ ہے لیکن اگر کسی شخص کے لیے یہ واقعات ازدیاد ایمان کا باعث نہ ہوں تو وہ اس دور آخرین میں بھی ویسے ہی واقعات تلاش کرسکتا ہے جیسے اسلام کے دور اول میں اللہ تعالیٰ نے ظاہر کیے تھے۔ عتبہ، شیبہ اور ابوجہل کی طرح اس دَور کے معاندین لیکھرام، ڈاکٹر ڈوئی اور عبداللہ آتھم بھی اللہ تعالیٰ کی قہری تجلی کا شکار بنے اور ابو لہب کی طرح محمد بخش تھانیدار کے ہاتھوں کے لیے بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہلاکت مقدر کردی گئی جن سے نہ تو انہیں کوئی دوست بچا سکا اورنہ ہی دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی طاقت جیسا کہ پادری عبد اللہ آتھم نے حضورؑ کی پیشگوئی کے ایام میں یہ اقرار کیا تھا کہ

مجھے تلواروں والے نظر آتے ہیں

ماسٹرقادر بخش صاحب لدھیانوی نے بیان کیا کہ آتھم کی پندرہ ماہی میعاد کے دنوں میں لدھیانہ میں لوئیس صاحب ڈسٹرکٹ جج تھا۔ آتھم چونکہ لوئیس صاحب کا داماد تھا اس لیے لدھیانہ میں لوئیس صاحب کی کوٹھی پر آکر ٹھہرا کرتا تھا۔ ایک دفعہ دوران میعاد میں آتھم لدھیانہ میں آیا۔ ان دنوں میں میرا ایک غریب غیر احمدی رشتہ دار لوئیس صاحب کے پاس نوکر تھا اور آتھم کے کمرے کا پنکھا کھینچا کرتا تھا۔ ایک دن میں نے اس سے پوچھا کہ تم آتھم کا پنکھا کھینچا کرتے ہو۔ کبھی اس کے ساتھ کوئی بات بھی کی ہے۔ اس نے کہا صاحب (یعنی آتھم) رات کو روتارہتا ہے۔ چنانچہ اس پر میں نے ایک دفعہ صاحب سے پوچھا تھا کہ آپ روتے کیوں رہتے ہیں تو صاحب نے کہا تھا کہ مجھے تلواروں والے نظر آتے ہیں۔ میں نے کہا تو پھر آپ ان کو پکڑوا کیوں نہیں دیتے۔ صاحب نے کہا وہ صرف مجھے ہی نظر آتے ہیں اَور کسی کو نظر نہیں آتے۔

(سیرت المہدی جلد 1، حصہ اول صفحہ169روایت نمبر 175)

محمد بخش کا ہاتھ کاٹا جائے گا

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی پیشگوئی کے مطابق اسلام کا دشمن اور آریہ مت کا ایک شوخ اور انتہائی بےباک لیڈرلیکھرام 6؍مارچ 1897ءکو عبرت ناک انجام سے دوچار ہوا تو آریوں نے بڑی شدت سے الزام لگایاکہ لیکھرام حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی سازش کے نتیجہ میں قتل کیا گیا ہے اور اس قتل کا بدلہ لینے کے لیے خفیہ اور اعلانیہ کارروائیاں شروع کر دیں۔ آریہ سماجیوں کے جذبات مشتعل دیکھ کر حکومت بھی حرکت میں آ گئی اور اس سلسلہ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے گھر کی مکمل تلاشی بھی لی گئی۔ یہ 8؍اپریل 1897ء کا واقعہ ہے۔ پولیس کا جو وفد تلاشی لینے کے لیے آیا تھا ان میں ایک میاں محمد بخش ڈپٹی انسپکٹر بٹالہ بھی شامل تھا۔ یہ گوجرانوالہ کا باشندہ تھا جو بٹالہ تھانے میں متعین ہوا۔ اس وفد نے دارالمسیح کے سب کمروں کی تلاشی لی اور ٹرنک کھول کر اپنا اطمینان کیا۔ دوران تلاشی میاں محمد بخش کی ایک زیادتی پر حضورؑ نے فرمایا آپ تو اس طرح مخالفت کرتے ہیں مگر آپ کی اولاد میرے حلقہ بگوشوں میں داخل ہو جائے گی۔

(تاریخ احمدیت جلد 17صفحہ172)

بعد ازاں میاں محمد بخش نے یکم دسمبر1898ء کو ڈپٹی کمشنر گورداسپور جی ایم ڈوئی کو رپورٹ بھجوائی کہ مرزا غلام احمد کے اشتہارات اور پیشگوئیوں سے نقص امن کا خطرہ ہے، چنانچہ اس کی رپورٹ اور مولوی محمد حسین بٹالوی کی درخواست پر مقدمہ درج ہوا۔ 11؍جنوری 1899ء کو گورداسپور کی عدالت میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اور میاں محمد بخش کے بیانات بھی ہوئے۔ مگر عدالت نے 24؍فروری 1899ء کو یہ مقدمہ خارج کر دیا۔ حضرت امام الدین صاحب پٹواری اس مقدمہ کے دوران ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

اس موقعہ پر میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ حضور محمد بخش تھانیدار کہتا ہے کہ آگے تو مرزا مقدمات سے بچ کر نکل جاتا رہا ہے۔ اب میرا ہاتھ دیکھے گا۔ حضرت صاحب نے فرمایا۔ میاں امام الدین! اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔ اس کے بعد میں نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ کی ہتھیلی میں سخت درد شروع ہو گئی۔ اور وہ اس درد سے تڑپتا تھا۔ اور آخر اسی نامعلوم بیماری میں وہ دنیا سے گزر گیا۔

(سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ 543-544)

میاں محمد بخش کے بیٹے حضرت شیخ نیاز محمد صاحب جو اس پیشگوئی کے مطابق حضور کی زندگی میں ہی احمدی ہوگئے تھے ان کا بیان ہے کہ 1901ء کے آخر میں ان کے والد صاحب کو ہاتھ میں کاربنکل کا پھوڑا نکلا جو مہلک ثابت ہوا۔ بیماری کے ایام میں انہوں نے یہ ارادہ ظاہر کیا کہ وہ تندرست ہونے کے بعد حضرت اقدس کی بیعت میں داخل ہو جائیں گے۔ مگر زندگی نے وفا نہ کی اور وہ 3؍مارچ 1902ء کو فوت ہو گئے۔

(تاریخ احمدیت جلد17صفحہ172)

لیکن جہاں یہ خدا اپنے ماموروں اور پیاروں کے دشمنوں کی تباہی اور بربادی کے فیصلے فرماتا ہے اور انہیں سزا دیتا ہے وہیں

وہ اپنے پیاروں کے لیے عجائب کام دکھلاتا ہے

حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ

’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے جبکہ میں سیالکوٹ میں تھا۔ ایک دن بارش ہو رہی تھی۔ جس کمرہ کے اندر میں بیٹھا ہوا تھا اس میں بجلی آئی۔ سارا کمرہ دھوئیں کی طرح ہوگیا اور گندھک کی سی بو آتی تھی لیکن ہمیں کچھ ضرر نہ پہنچا۔ اسی وقت وہ بجلی ایک مندر میں گری جو کہ تیجا سنگھ کا مندر تھا اور اس میں ہندوؤں کی رسم کے موافق طواف کے واسطے پیچ در پیچ ارد گرد دیوار بنی ہوئی تھی اور اندر ایک شخص بیٹھا تھا۔ بجلی تمام چکروں میں سے ہو کر اندر جاکر اس پر گری اور وہ جل کر کوئلہ کی طرح سیاہ ہوگیا۔ دیکھو وہی بجلی آگ تھی جس نے اس کو جلاد یا مگر ہم کو کچھ ضرر نہ دے سکی کیونکہ خدا تعالیٰ نے ہماری حفاظت کی۔ ایسا ہی سیالکوٹ کا ایک اور واقعہ ہے کہ ایک دفعہ رات میں ایک مکان کی دوسری منزل پر سویا ہوا تھا اور اسی کمرہ میں میرے ساتھ پندرہ یا سولہ آدمی اَور بھی تھے۔ رات کے وقت شہتیر میں ٹک ٹک کی آواز آئی۔ میں نے آدمیوں کو جگا یا کہ شہتیر خوفناک معلوم ہوتا ہے یہاں سے نکل جانا چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ کوئی چوہاہوگا خوف کی بات نہیں اور یہ کہہ کر سو گئے۔ تھوڑی دیرکے بعد پھر ویسی آواز آئی تب میں نے ان کو دوبارہ جگایا مگر پھر بھی انہوں نے کچھ پروا نہ کی۔ پھر تیسری بار شہتیر سے آواز آئی تب میں نے ان کو سختی سے اُٹھایا اور سب کو مکان سے باہر نکالا اور جب سب نکل گئے تو خود بھی وہا ں سے نکلا۔ ابھی دوسرے زینہ پر تھا کہ وہ چھت نیچے گری اوروہ دوسری چھت کو ساتھ لے کر نیچے جاپڑی اور سب بچ گئے۔

(سیرت المہدی جلد 1، حصہ اول صفحہ216روایت نمبر 236)

اللہ مومن کے دشمنوں کا دشمن بن جاتا ہے

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

’’یاد رہے کہ بندہ تو حسن معاملہ دکھلا کر اپنے صدق سے بھری ہوئی محبت ظاہر کرتا ہے۔ مگر خدا تعالیٰ اس کے مقابلہ پر حد ہی کردیتا ہے۔ اس کی تیز رفتار کے مقابل پر برق کی طرح اس کی طرف دوڑتا چلا آتا ہے۔ اور زمین اور آسمان سے اس کے لئے نشان ظاہر کرتا ہے۔ اور اس کے دوستوں کا دوست اور اس کے دشمنوں کا دشمن بن جاتا ہے اور اگر پچاس کروڑ انسان بھی اس کی مخالفت پر کھڑا ہو تو اُن کو ایسا ذلیل اور بےدست و پا کردیتا ہے جیسا کہ ایک مرا ہوا کیڑا اور محض ایک شخص کی خاطر کے لئے ایک دنیا کو ہلاک کردیتا ہے اور اپنی زمین و آسمان کو اس کے خادم بنادیتا ہے۔ اور اس کی کلام میں برکت ڈال دیتا ہے۔ اور اس کی تمام در و دیوار پر نور کی بارش کرتا ہے اور اس کی پوشاک میں اور اس کی خوراک میں اور اس مٹی میں بھی جس پر اس کا قدم پڑتا ہے ایک برکت رکھ دیتا ہے اور اس کو نامراد ہلاک نہیں کرتا۔ ‘‘

(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم،روحانی خزائن جلد 21صفحہ225)

اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس زندہ خدا کو پہچاننے اور اس سے زندہ تعلق قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button