خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 30؍ اکتوبر 2020ء

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت بدری صحابہ حضرت معاذ بن جبل اور حضرت عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہما کے اوصافِ حمیدہ کا ایمان افروز تذکرہ

حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں مَیں نےعمرو بن جموح کی بیوی ہند کو میدانِ جنگ سے آتے ہوئے دیکھا۔ اس نے اونٹ کی مہار پکڑی ہوئی تھی۔ مَیں نے پوچھا میدانِ جنگ کی کیا خبر ہے۔ اس نے کہا سب خیریت ہے رسول اللہﷺ خیریت سے ہیں۔ اتنے میں میری نظر اونٹ پر پڑی جس پر کچھ سامان لدا ہوا تھا۔ آپؓ نے پوچھا یہ کیا ہے تو وہ کہنے لگیں میرے خاوند اور بھائی کی نعشیں ہیں

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 30؍ اکتوبر 2020ء بمطابق 30؍ اخاء 1399 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 30؍ اکتوبر 2020ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت مکرم رانا عطا ءالرحیم صاحب کے حصے میں آئی۔تشہد،تعوذ،تسمیہ اور سورةالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

گذشتہ خطبے میں حضرت معاذ بن جبلؓ کا ذکر چل رہاتھا۔معاذؓ بہت فیاض تھے جس کی وجہ سے آپؓ کو قرض لینا پڑتا ۔ ایک مرتبہ قرض خواہوں نےآنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر حضرت معاذؓ سے قرض دلوانے کی گزارش کی۔ رسول اللہﷺ نے پہلے قرض معاف کرنے کی سفارش فرمائی جس پر بعض لوگوں نے قرض معاف کردیا پھر حضورﷺ نےآپؓ کی جائیداد ان لوگوںمیں تقسیم فرمادی۔ لیکن تب بھی قرض مکمل ادا نہ ہوا۔ آنحضرتؐ نے جب معاذؓ کونمائندہ اورقاضی بنا کر قرآن اور دین سکھانے کےلیےیمن کی طرف بھجوادیا تو اجازت مرحمت فرمائی کہ اگر کوئی ہدیہ دے تو قبول کرلینا۔ اس موقعے پر حضورﷺ نے اس خیال کا اظہار فرمایا کہ شاید معاذؓکی حضورﷺ سے دوبارہ ملاقات نہ ہو۔ یہ سُن کر معاذؓ زار وقطار رونے لگے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا لوگوں میں سے میرےنزدیک ترین متقی ہیں چاہے وہ کوئی بھی اور کہیں ہوں۔ یمن کے عاملین زکوٰة اکٹھی کرکے حضرت معاذبن جبلؓ کو بھجوایا کرتے۔رسول اللہﷺ نے حضرت معاذؓ کولوگوں کے درمیانے درجے کےمال میں سے صدقہ لینے اور مظلوم کی آہ سے بچنے کی خاص طور پر نصیحت فرمائی۔

آپؓ کے پاؤں میں لنگڑاہٹ تھی چنانچہ جب یمن پہنچ کر آپؓ نے نماز کی امامت فرمائی تو اپنی ٹانگ پھیلادی۔ لوگوں نے یہ دیکھ کر اسی طرح اپنے پاؤں پھیلادیے۔ نماز کے بعد حضرت معاذؓ نے لوگوں کےجذبۂ اطاعت کی تعریف کی اور اپنی مجبوری بتاکر سمجھایا کہ یہ سنّت نہیں ہے۔ آپؓ پہلے شخص تھے جنہوں نے رسول کریمﷺ کی اجازت سے ہدیے قبول کیے اور اللہ تعالیٰ کےمال سے تجارت کی۔

حضوراکرمﷺ کی وفات کےبعد حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ سے عرض کی کہ معاذؓ کو جواجازت رسول اللہﷺ نے دی تھی اس کی ضرورت اب ختم ہوگئی ہے لہٰذا اب آپؓ انہیں واپس بلوالیں ۔ حضرت ابوبکرؓ نے رسول اللہﷺ کی دی ہوئی اجازت کو ختم کرنا مناسب نہ سمجھا چنانچہ حج کے موقعے پر حضرت عمرؓکی جب معاذؓ سےملاقات ہوئی تو انہوں نے معاذؓ کو سمجھایا۔ پہلے تو آپؓ نے انکار کیا لیکن کچھ عرصے بعد معاذؓ نے ایک خواب دیکھا کہ آپؓ ڈوب رہے ہیں اور عمرؓ آپؓ کو بچاتے ہیں۔ چنانچہ اس خواب کی بنا پر آپؓ حضرت عمرؓکی بات کے قائل ہوگئے۔

حضورِانور نے فرمایا کہ یہاں مزید وضاحت ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ نےبھی اس وقت تک انہیں اس طرف متوجہ نہیں کیا جب تک حضرت معاذؓ کی ضرورت پوری نہ ہوگئی۔ جب قرضے اتر گئے اور کشائش پیدا ہوگئی تو خداتعالیٰ نے خود توجہ دلادی کہ اب تم نہ ہدیہ لےسکتے ہو اور نہ بیت المال میں سے خرچ کرسکتے ہو۔

جب رسول اللہﷺ نے حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن کی طرف بھیجا تو فرمایا کہ جب تمہیں کوئی معاملہ درپیش ہوگا تو کیسے فیصلہ کروگے۔ آپؓ نے کتاب اللہ پھر سنّتِ رسولﷺ اور پھر ذاتی اجتہاد کی نسبت عرض کیاتو رسولِ خداﷺنے اس پر اظہارِ خوشنودی فرمایا۔ حضورِاکرمﷺ نے حضرت معاذؓ کو نازونعم کی زندگی سے بچنے، اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے،مریضوں کی عیادت اور بیواؤں اور مساکین کی خبرگیری نیز لوگوں سے عمدہ اخلاق سے پیش آنے کی نصیحت فرمائی۔

حضورِانور نے دورِ حاضر کے مسلمانوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اصل چیز تو میلادالنبیﷺ منانے کی یہ ہے کہ آپؐ کے اسوے اور نصائح پر عمل کیا جائے۔

حضوراکرمﷺ نے اہلِ یمن کے نام اپنے خط میں تحریر فرمایا کہ مَیں نے تم پر اپنے لوگوں میں سے بہترین صاحبِ علم اور صاحبِ دین شخص کو حاکم بنایا ہے۔ مسند احمد کی روایت کے مطابق آنحضورﷺ نے حضرت معاذ بن جبلؓ کو شرک سے اجتناب، والدین کی فرمانبرداری، فرض نماز کو جان بوجھ کر ترک نہ کرنے،شراب اور گناہ سے بچنے، دشمن سے مڈھ بھیڑ کے وقت فرار اختیار نہ کرنے، طاعون جیسی وبا کی جگہ سے نہ نکلنےاور اپنےاہل وعیال پر طاقت کے مطابق خرچ کرنےنیز انہیں خوفِ خدا دلاتے رہنے کی نصائح فرمائیں۔

حضرت معاذ بن جبلؓ 9؍ ہجری تا 11؍ ہجری یمن میں رہے۔ ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے حضرت معاذؓ کوایک غلام کے ذریعےچارسَو دینار بھجوائے اور اسے تاکید کی کہ دیکھنا معاذؓ ان دینار کا کیا کرتے ہیں۔ آپؓ نے کھڑے کھڑے وہ تمام دینار تقسیم کردیے؛آپؓ کی اہلیہ نے کہا کہ ہم بھی مسکین ہیں کچھ گھر کےلیے بھی رکھ لیں اس پر آپؓ نے باقی ماندہ دو دینار اپنی اہلیہ کی طرف اچھال دیے۔ جب یہ بات حضرت عمرؓکو معلوم ہوئی تو آپؓ بہت خوش ہوئے۔ اسی طرح ایک موقعے پر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اگر میری وفات کا وقت قریب آجائے اور ابوعبیدہ بن جرّاحؓ بھی فوت ہوچکے ہوں تو مَیں معاذ بن جبلؓ کو اپنا خلیفہ مقرر کردوں گااور اگر میرے ربّ نے پوچھا کہ تم نے اسے کیوں خلیفہ مقرر کیاتو کہوں گا کہ مَیں نے تیرے رسولﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ وہ قیامت کے دن علماء کے آگے آگے لائے جائیں گے۔

جنگِ یرموک 15؍ ہجری میں آپؓ میمنہ کے ایک حصّے کے افسر تھے۔ عیسائیوں کا حملہ اس قدر شدید تھا کہ مسلمانوں کے ایک بار پاؤں اکھڑ گئے۔اس نازک صورتِ حال میں معاذ بن جبلؓ اور آپؓ کے بیٹے نے بڑی شجاعت اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا چنانچہ مسلمان سنبھل گئے اور فتح مسلمانوں کا مقدر بنی۔

حضرت معاذ بن جبلؓ کی دو بیویاں تھیں۔ آپؓ دونوں میں اتنا انصاف کرتے کہ جب باری کے مطابق ایک کےپاس ہوتے تو دوسری کے پاس پانی تک نہ پیتے۔ یہ دونوں بیویاں شام میں وبائی مرض سے فوت ہوگئیں۔دونوں کو ایک ہی قبر میں دفن کیاگیا۔ دفن کرتے وقت آپؓ نے قرعہ ڈالا کہ پہلے کس کو قبر میں داخل کریں۔

حضرت معاذبن جبلؓ کی وفات کا وقت نزدیک آیا تو آپؓ رونے لگے اور فرمایا کہ مَیں موت کے غم یا دنیا پیچھے چھوڑے جانے کی وجہ سےنہیں رو رہا بلکہ مَیں صرف اس لیے رو رہا ہوں کہ جنتی اور دوزخی دو گروہ ہوں گے اور مَیں نہیں جانتا کہ مَیں کس گروہ میں اٹھایا جاؤں گا۔

نبی کریمﷺ نے فرمایا تھا کہ عنقریب تم شام کی طرف ہجرت کروگے اور وہ تمہارے ہاتھوں فتح ہوگا لیکن پھوڑوں اور پھنسیوں کی ایک بیماری تم پر مسلّط ہوجائے گی۔ اللہ اس کے ذریعے لوگوں کو شہادت عطا فرمائے گا اور ان کے اعمال کا تزکیہ کرےگا۔ چنانچہ جب حضرت معاذؓ کی شہادت کی انگلی پر طاعون کی گلٹی نمودار ہوئی تو فرماتے تھے کہ مجھے اس کے بدلے میں سرخ اونٹ ملنا بھی پسند نہیں۔

حضرت معاذ بن جبلؓ نے 18؍ ہجری میں تینتیس، چونتیس یا اڑتیس برس کی عمرمیں وفات پائی۔

اگلے صحابی حضرت عبداللہ بن عمروؓ کا ذکر حضورِانورنے فرمایا۔ آپؓ کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو سلمہ سے تھا۔ ہجرتِ نبوی کے وقت آپؓ کی عمر چالیس برس تھی۔ آپؓ مشہور صحابی حضرت جابر بن عبداللہؓ کےوالد تھے۔ آپؓ بیعتِ عقبہ ثانیہ میں شامل ہوئےاورآنحضورﷺ کے مقرر کردہ بارہ نقیبوں میں سے ایک تھے۔آپؓ غزوۂ احد میں شہید ہوئے۔ آپؓ کے قبولِ اسلام کا واقعہ یوں بیان کیاجاتا ہے کہ بیعتِ عقبہ ثانیہ کے موقعے پر جب مدینے سے آنے والے مخلصین خفیہ طور پر رسول خداﷺسے ملنے کےلیے گئے تو انہوں نے عبداللہ بن عمروؓ سے کہا کہ اے ابوجابر! آپؓ ہمارے سرداروں اور شرفا میں سے ایک ہیں۔ہم نہیں چاہتے کہ آپ جہنم کا ایندھن بنیں۔ پس آپ نے اسلام کی اس دعوت کو قبول کیا اور رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر بیعتِ عقبہ میں شامل ہوئے اور نقیب مقررکیے گئے۔

حضورِ انور نے ’سیرت خاتم النبیین‘ کے حوالے سے بیعتِ عقبہ ثانیہ کی کچھ تفصیل بیان فرمائی۔ 13؍ہجری، ذوالحجہ کے مہینے میں حج کے موقعے پر اوس اور خزرج کے ستّر افراد مکّے میں نصف شب کے قریب آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔آنحضورﷺنے اس موقعے پر حقوق اللہ اور حقوق العباد کی کچھ مختصر تشریح فرمائی نیز فرمایا کہ مَیں اپنے لیے صرف اتنا چاہتا ہوں کہ جس طرح تم اپنے عزیزوں اور رشتےداروں کی حفاظت کرتے ہو اسی طرح اگر ضرورت پیش آئے تو میرے ساتھ معاملہ کرو۔

غزوۂ احد کے موقعے پر عبداللہ بن ابی بن سلول نے غدّاری کی تو حضرت عبداللہ بن عمروؓ نے اسے سمجھانے اور نصیحت کرنے کی کوشش کی۔

حضرت خلیفةالمسیح الرابعؒ نے خلافت سے دو تین سال قبل جلسہ سالانہ میں تقریر کرتے ہوئے حضرت عبداللہ بن عمروؓ کے بارے میں فرمایا کہ حضرت عبداللہ بن عمروؓ کی بہن یعنی عمرو بن جموحؓ کی اہلیہ بھی اپنے بھائی کی طرح رسول اللہﷺ کی محبت میں سراپا رنگین تھیں۔ خاوند، بھائی، بیٹا جنگ میں شہید ہوگئے لیکن آنحضورﷺ کی سلامتی کی خوشی ان سب غموں پر غالب آگئی۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں مَیں نےعمرو بن جموح کی بیوی ہند کو میدانِ جنگ سے آتے ہوئے دیکھا۔ اس نے اونٹ کی مہار پکڑی ہوئی تھی۔ مَیں نے پوچھا میدانِ جنگ کی کیا خبر ہے۔ اس نے کہا سب خیریت ہے رسول اللہﷺ خیریت سے ہیں۔ اتنے میں میری نظر اونٹ پر پڑی جس پر کچھ سامان لدا ہوا تھا۔ آپؓ نے پوچھا یہ کیا ہے تو وہ کہنے لگیں میرے خاوند اور بھائی کی نعشیں ہیں۔

حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد کو ایک چادر کا کفن دیاگیا۔ آپؓ کا رنگ سرخ ،قد زیادہ لمبا نہ تھا جبکہ سر کے اگلے حصّے پرزیادہ بال نہ تھے۔ خطبے کے آخر میں حضورِانور نے فرمایا کہ ان کا باقی ذکر ان شاء اللہ آئندہ بیان ہوگا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button