یورپ (رپورٹس)

سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ نیشنل عاملہ جماعت احمدیہ سویڈن کی (آن لائن) ملاقات

(منعقدہ مورخہ 29؍اگست 2020ء بروزہفتہ)

Covid-19 کی موجودہ وبائی صورتحال سے قبل دنیا کے مختلف ممالک سے نیشنل مجالس عاملہ اور ذیلی تنظیموں کی مجالس عاملہ اور دیگر جماعتی وفود یہاں مرکز میں حاضر ہوکر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے جہاں ملاقات کی سعادت پاتے وہاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز دورانِ میٹنگ شعبہ وار ان کی کارکردگی کا جائزہ لیتے اور بہت سی ہدایات اور قیمتی ارشادات سے نوازتے ۔ موجودہ وبائی صورت حال جب شدت اختیار کر گئی تو آمد و رفت کا سلسلہ منقطع ہو گیا اور افرادِ جماعت کی اپنے پیارے امام سے ملاقاتیں بھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا کچھ ایسا فضل ہوا کہ جدید ترقیات کی بدولت ماہ اگست 2020ء سے حضرت خلیفۃ المسیح ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوگیاجو مقام کی قید سے آزاد تھایعنی مشرق و مغرب سے تعلق رکھنے والے ممالک کے افراد اپنے اپنے مقام پر اکٹھے ہو کر حضورِ انور سےبراہِ راست ا ٓن لائن (virtual) ملاقات کی سعادت حاصل کرنے لگے۔ الحمد للہ

جماعت احمدیہ سویڈن کی نیشنل عاملہ نے حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے 29؍ اگست 2020ء کو (آن لائن) ملاقات کی سعادت پائی۔ دورانِ ملاقات حضورِ انور نے عہدیداران کو ان کے شعبہ جات کے حوالے سے جو ہدایات و رہنمائی عطا فرمائی وہ تمام دنیا میں خدمت پر مامور عہدیداران کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ اس میٹنگ کی کارروائی کو اس غرض سے شائع کیا جا رہا ہے تاکہ جماعتہائے احمدیہ کی مجالس عاملہ کے عہدیداران اپنے اپنے شعبوں میں اس سے رہنمائی حاصل کریں اور اس پر عمل پیراہوں۔

٭…حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے شاملینِ میٹنگ کے حوالہ سے دریافت فرمایا جس پر امیر جماعت سویڈن نے عرض کیا کہ یہاں نیشنل عاملہ کے علاوہ پانچ لوکل مجالس عاملہ کے کل 133 افراد موجود ہیں۔

٭…اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا کہ بیٹھ جائیں، پہلے دعا کرلیں۔

٭…دعا کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے امیر صاحب سے دریافت فرمایا کہ آپ کی کل جماعتیں کتنی ہیں اور کتنی جماعتیں ہیں جو آپ کو باقاعدہ رپورٹس بھجواتی ہیں؟

٭…امیر صاحب نے عرض کی کہ کُل پانچ جماعتیں ہیں اور تمام جماعتیں ماہانہ رپورٹس بھجواتی ہیں۔

٭…حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے جنرل سیکرٹری کے بارے میں دریافت فرمایا کہ کون ہیں؟ انہیں مائیکروفون تک پہنچنے میں کچھ دیر لگی، جس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے ہدایت فرمائی کہ ہر دفعہ اُٹھ کر آئیں گے تو وقت ضائع ہوگا۔ مائیکروفون کرسی پر ہونا چاہیے۔ جنرل سیکرٹری صاحب سے فرمایا کہ کرسی پر بیٹھ جائیں، فائل بھی آپ کو پکڑنے میں آسانی ہو جائے گی۔ فرمایا :کیمرا بھی جنرل سیکرٹری کی طرف کریں۔

٭…حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے جنرل سیکرٹری صاحب سے دریافت فرمایا کہ یہاں احمدیوں کی کل تعداد کیا ہے؟ اس پر جنرل سیکرٹری نے عرض کی کہ 1389 ہیں۔

٭…حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے دریافت فرمایا کہ بڑی جماعت کہاں ہے؟ جنرل سیکرٹری صاحب نے عرض کی کہ گوتھن برگ میں۔فرمایا کہ تمام جماعتیں اپنی رپورٹس بھجواتی ہیں؟ اس پر جنرل سیکرٹری صاحب نے عرض کی کہ جی حضور تمام جماعتیں رپورٹس بھجواتی ہیں۔

٭…جنرل سیکرٹری صاحب نے حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز کی اجازت سے سوال عرض کرتے ہوئے کہا کہ حضور ایک عہدیدار کو اپنے شعبہ کو کتنا وقت دینا چاہیے؟ اور اگر کوئی عہدیدار اپنے شعبہ کو وقت نہیں دیتا تو رہنمائی فرمائیں کہ کس طرح اس عہدیدار کو توجہ دلائی جائے؟

٭…اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا کہ یہ تو ان لوگوں کا کام ہے جو عہدیدار کو منتخب کرتے ہیں کہ وہ قرآنِ کریم کی گائیڈ لائن پر عمل کریں کہ امانتیں ان کے سپرد کرو جو اس امانت کے اہل ہیں۔ امانت کا اہل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ علاوہ اس علم کے جو اس شعبہ کے لیے ضروری ہے، اس شخص کے پاس وقت بھی ہو اور تقویٰ بھی ہو۔ تو یہ منتخب کرنے والوں کا فرض ہے کہ ان لوگوں کو ووٹ دیں جو وقت بھی دے سکیں، انصاف بھی کرسکیں اور اپنے عہدوں کا حق بھی ادا کرسکیں۔ اور جب سفارش آتی ہے اور عہدیدار کو مقرر کردیا جاتا ہے تو پھر اس کا کام ہے کہ وہ مکمل انصاف کرتے ہوئے اپنے عہدہ کو وقت دے۔ اگر وہ وقت نہیں دے سکتا تو تقویٰ کا تقاضا ہے کہ وہ بتا دے کہ میں وقت نہیں دے سکتا اور معذرت کرلے۔

٭… حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا: لیکن یہ کہنا کہ معین کردیں کہ کتنا وقت دینا چاہیے، یہ تو کام پر منحصر ہے۔ ہر شعبہ کا الگ کام ہے۔ بعض ایسے شعبے ہیں کہ ہفتہ میں ایک مرتبہ وقت دینے سے کام مکمل ہو جاتے ہیں۔ مثلاً ضیافت کا کام ہے تو وہ کوئی فنکشن ہو گا تو تبھی کام ہوگا۔ عمومی طور پر زیادہ زور نہیں ہوتا۔مال کا کام ہے کہ روزانہ کا کام کرنا۔ تربیت کا کام ہے کہ روزانہ کی تربیت کو دیکھنا۔ اصلاح و ارشاد کا کام ہے کہ تبلیغ کے لیے جائزے لینے، یہ تو اس بات پر منحصر ہے کہ آپ نےجو لائحہ عمل بنایا ہے اس پر مکمل عمل درآمد کرنے کے لیے آپ کس حد تک کوشش کرتے ہیں۔ جب کوشش کریں گے تو آپ کو پتہ لگ جائے گا کہ آپ انصاف کررہے ہیں کہ نہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کوئی hard and fast rule ہو کہ کتنا وقت دینا چاہیے، یہ تو ہر عہدیدار کو خود دیکھنا چاہیے۔ سیکرٹری مال کو تو روز ہی اپنے دیگر کاموں میں سے وقت نکال کر جماعتی کام کرنا پڑتا ہے۔

٭… حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا: باقی وہ عہدیدار جو جماعتی کام نہیں کرتے، بالکل ہی سست ہیں اور ان کو اپنے عہدوں میں کوئی دلچسپی ہی نہیں ہے، ان کے بارے میں تو کئی دفعہ میں کہہ چکا ہوں کہ نیشنل صدر جماعت کا یا امیر جماعت کا کام ہے کہ مجھے اطلاع کریں اور ان کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا جائے۔ ان کی جگہ کوئی بہتر کام کرنے والے مقرر کیے جائیں۔

٭… ان کے بعد نیشنل سیکرٹری تربیت نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے عرض کی کہ حالیہ وبا کے دنوں میں ہم نے آن لائن اجلاسات کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ کورونا کے حوالہ سے بھی رہ نمائی فراہم کی گئی ہے۔ اب ہمارا پلان ہے کہ آن لائن اجلاسات اور سوال و جواب کی مجالس کا انعقاد کیا جائے۔

٭…اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا کہ کورونا کی وجہ سے اب اجلاسات تو ہو نہیں سکے۔ آپ گذشتہ سال جولائی میں سیکرٹری منتخب ہوئے تھے اب ایک سال گزر گیا ہے۔ آپ تین سال کے لیے منتخب ہوئے تھے۔ اس میں سے one third گزر گیا۔ اب one third میں جوآپ نے پلان کیا تھا، جو لائحہ عمل بنایا گیا تھا، شوریٰ میں بہت سی تجاویز آئی ہوں گی۔ ان پر کس حد تک عمل درآمد کروایا ہے؟

٭…سیکرٹری تربیت نے عرض کی کہ ہم نے تربیتی کلاسز رکھی تھیں اور نوجوانوں کے لیے مختلف activities رکھی گئی تھیں۔

٭… حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا: سیکرٹری تربیت کا یہ کام ہے کہ افرادِ جماعت کی تربیت اس نہج پر کرے کہ ان کو پہلی بات تو یہ پتہ لگے کہ ہم احمدی ہیں اور ایک احمدی کی کیا ذمہ داریاں ہیں۔ ایک احمدی کو اللہ تعالیٰ سے کیسا تعلق قائم کرنا چاہیے، کس طرح تعلق پیدا کرنا چاہیے۔ اس کا ذریعہ نمازیں ہیں۔ کیا نمازوں کی طرف توجہ ہورہی ہے کہ نہیں ہو رہی؟ اس کے علاوہ دین کا علم حاصل کرنا ہے، جس کے لیے سب سے ضروری قرآنِ کریم ہے۔ کیا ہم روزانہ قرآنِ کریم پڑھتے ہیں۔ خاص طور پر عہدیدار۔ اگر آپ نیشنل سطح سے لے کر مقامی سطح تک تمام عہدیداروں کو ہی لے لیں، تو پچاس فیصد سے زیادہ تو آپ کی رپورٹیں انہی سے آجاتی ہیں۔ قرآنِ کریم کو پڑھتے ہیں؟ قرآنِ کریم کے بہت سے احکامات کہ کیا کام کرنے ہیں اور کیا کام نہیں کرنے، ان پر عمل ہوتا ہے؟ اگر کسی حکم پر عمل نہیں ہورہا تو پھر کیا پروگرام جماعت کو دینا چاہیے۔

٭…فرمایا: سب سے پہلے اپنے قریب سے شروع کریں۔ آپ کے سب سے قریب ترین جو لوگ ہیں وہ آپ کی نیشنل عاملہ کے لوگ ہیں۔ پھر آپ کی جماعتوں کی عاملہ کے ممبران ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر عاملہ ممبر کے گھر کے افراد ہیں۔ اب اگر ہر شخص اس نہج پر سوچے اور تربیت شروع کردے تو نوّے فیصد تو آپ کی جماعت cover ہو گئی۔ سیکرٹری تربیت کا کام پوراہو گیا۔ اگر صرف یہ کہنا ہے کہ ہم نے ایک پلان بنایا تھا، جماعتوں کو پروگرام دیا تھا، صدر جماعت نے رپورٹ مکمل کرکے بھجوا دی اور عملی طور پر کچھ نظر نہیں آیا تو پھر اس کا فائدہ کیا؟

٭…فرمایا: اصل بات تو یہ ہے کہ ایک احمدی کو معلوم ہو کہ اس کی ذمہ داریاں کیا ہیں اور اس کی سب سے بڑی ذمہ داری خداتعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا ہے۔ قرآنِ کریم کی تعلیم پر عمل کرنا ہے اوراُن احکامات کو خاص طور پر اپنی زندگیوں کا حصہ بنانا ہے جن کا آج کل کے دور کے مطابق حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے ذکر فرمایا ہے۔ حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کی بیعت میں آکر ہم نے کیا کرنا ہے، کیا ہماری ذمہ داریاں ہیں، کیا ہمارے نمونے ہونے چاہئیں۔ خلافت کے ساتھ ہم نے کیسا تعلق رکھنا ہے۔ خلافت سے مسلسل رہنمائی مل رہی ہوتی ہے، اس پر خود بھی اور اپنے گھروں میں بھی کیسے عمل کروانا ہے۔ خطبات سنتے ہیں کہ نہیں سنتے۔ سنتے ہیں تو کتنے لوگ سنتے ہیں۔ کیا عمل کر رہے ہیں۔ گھریلو حالات کیا ہیں؟ میاں بیوی کے تعلقات کیسےہیں، بچوں کی تربیت اور انہیں جماعت سے جوڑنے کے لیے کیا کررہے ہیں؟ اپنے بیوی اور بچوں کے لیے ہمارے اپنے رویے کیا ہیں؟ یہ چیزیں ہیں کرنے والی۔ یہ نہیں کہ چار لائنیں لگا کر کہہ دیا کہ ہم نے فارم بنایا تھا، یہ فِل کر کے دے دیا۔

٭… حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا: نماز پڑھنا تو ایک فرض ہے، جو نماز نہیں پڑھتا وہ تو گنہگار ہے۔ تو اگر نماز پڑھنے کا ستر فیصد یا پچاس فیصد ٹارگٹ پورا کر لیا تو یہ تو کوئی کمال نہیں کیا۔ نماز نہ پڑھنے والے کے بارے میں تو آنحضرتﷺ نے بڑے سخت الفاظ استعمال کیے ہوئے ہیں۔ نماز پڑھنا تو قرآنِ کریم کا بنیادی حکم ہے۔ ابتدا سے ہی اللہ تعالیٰ نے کہہ دیا کہ اَلَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيْمُوْنَ الصَّلوٰةَ، غیب پر ایمان لانے کے ساتھ ہی نماز کا حکم دے دیا۔ تو یہ کہہ دینا کہ ہم نے یہ کر لیا ہے، یہ تربیت نہیں ہے۔ آپ کے پاس ایک پلان ہونا چاہیے۔ اس پلان پر سب سے پہلے جن کو عمل کرنا چاہیے وہ آپ کی عاملہ کے ممبران ہیں۔ نیشنل عاملہ کے بھی اور لوکل عاملہ کے بھی۔پھر ان کا کام ہے کہ اپنے گھروں میں عمل کروائیں۔ تو جو میں نے باتیں بتائی ہیں اس لحاظ سے بتائیں کہ اس میں آپ نے کیا حاصل کیا ہے۔

٭… فرمایا: اگر آپ کی تربیت ہو جائے تو نہ آپ کے عائلی مسائل پیدا ہوں گے، میاں بیوی کے جھگڑے نہیں ہوں گے، بچوں کی تربیت کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔ نوجوانوں کی جو غیر لڑکیوں سے شادی کرنے کی طرف توجہ ہے وہ بھی ختم ہوجائے گی، لڑکیوں کے اچھے رشتے ملنے لگ جائیں گے، لڑکیوں کو خود احساس پیدا ہو جائے گا کہ ہم نے احمدیوں میں رشتہ کرنا ہے، احمدی لڑکے کو احساس ہو گا کہ ہم نے احمدی لڑکی سے رشتہ کرنا ہے۔ امورِ عامہ کے جھگڑے بھی ختم ہو جائیں گے۔ چندے کے مسائل بھی حل ہو جائیں گے۔ اس لیے تربیت کا شعبہ تو انتہائی اہم شعبہ ہے۔ اب بتائیں آپ کیا کہتے ہیں۔

سیکرٹری تربیت نے عرض کی کہ ہم نے یہ پروگرام بنایا ہے کہ ہر عاملہ ممبر نے ہر ماہ تین افرادِ جماعت سے ذاتی تعلق قائم کرنا ہے تاکہ ان سے دوستی ہو اور آہستہ آہستہ ان سے تعلقات بڑھیں۔ ہم نے آن لائن سوال و جواب کے پروگرام رکھے جہاں نوجوان یا جو بھی شاملین ہوں وہ جو بھی سوال کرنا چاہیں کر سکتے ہیں۔ پھر ایسے نوجوان جن کا جماعت سے رابطہ کم ہے، ہم انہیں مختلف خدمتِ انسانیت کے کاموں میں، ہیومینٹی فرسٹ کے کاموں میں آگے لا رہے ہیں تاکہ ان کا جماعت سے تعلق پیدا ہو۔

٭…اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا: ٹھیک ہے۔ پھر تربیت کا ایک یہ بھی کام ہے کہ آپ کا ہر ممبر بااخلاق ہونا چاہیے۔ کسی عاملہ ممبر پر کوئی اس طرح انگلی نہ اٹھائے کہ اس کے اخلاق اچھے نہیں ہیں۔

فرمایا :یہ تو آپ نے پروگرام گنوائے ہیں کہ تین افرادِ جماعت سے رابطہ کرنا ہے، کم رابطے والوں کو ساتھ ملانا ہے۔ اب آپ کے عہدے کا ایک تہائی وقت گزر چکا ہے۔ یہ بتائیں کہ آپ نے اس دوران حاصل کیا کیا ہے۔

٭…سیکرٹری تربیت نے عرض کی کہ نوجوان آنا شروع ہوئے ہیں۔

٭…حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا کہ کتنے آنا شروع ہوئے ہیں۔ مجھے فگرز(figures) بتائیں۔ کتنے لوگ تھے جو پہلے پروگراموں میں نہیں آتے تھے اور آپ کی کوششوں سے ان میں سے اتنے آگئے ہیں۔

٭…سیکرٹری تربیت نے عرض کی کہ حضور تقریباً تیس آگئے ہیں۔

٭…فرمایا :کہ تیس آگئے ہیں، تو کتنے تھے جو رابطہ میں نہیں تھے، جن میں سے تیس آئے ہیں۔ آپ کی تیرہ سو کی جماعت ہے۔ اتنی چھوٹی سی جماعت ہے۔ کتنے تھے جو نہیں آتے تھے۔اتنی تو یہاں ایک محلہ میں جماعت ہوتی ہے۔ چھوٹی جماعتوں کو تو آئیڈیل جماعت ہونا چاہیے کیونکہ ان کی ہر شخص تک رسائی ہو سکتی ہے۔ صدر جماعت کو، امیر جماعت کو، مشنری کو اور عہدیدار کو ہر ایک کا پتہ ہونا چاہیے۔ ان کے کوائف معلوم ہونے چاہئیں۔ میں دنیا میں ہزاروں لوگوں کو ذاتی طور پر جانتا ہوں تو آپ لوگ اپنی جماعت میں رہتے ہوئے کیوں نہیں جان سکتے۔

٭…سیکرٹری تربیت نے عرض کی کہ جی حضور آپ نے جو ہدایات عطا فرمائی ہیں ہم ان کے مطابق کام کرنے کی کوشش کریں گے۔

٭…اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا:ٹھیک ہے۔ کوشش کریں۔اللہ تعالیٰ فضل کرے۔ اب جو باتیں میں نے بتائی ہیں ان پر عمل کروا لیں اور پھر مجھے بتائیں کہ کتنا عمل ہوا ہے۔

٭…حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے دریافت فرمایا کہ آپ لوگ کہاں بیٹھے ہوئے ہیں، یہ مسرور ہال کہاں بنایا ہواہے؟

٭…اس پر امیر صاحب نے عرض کی کہ حضور یہ مالمو میں مسجد محمود کے ساتھ ہال ہے۔

٭…حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا کہ جب میں آیا تھااُس وقت تو یہ مکمل نہیں ہوا تھا۔ کام وغیرہ ابھی ہو رہا تھا۔ بعد میں افتتاح ہوا ہے یا آج افتتاح کرر ہے ہیں؟

٭…امیر صاحب نے عرض کی کہ جی حضور اس وقت اس کی اجازت نہیں تھی۔ بعد میں اس کا افتتاح ہو گیا تھا۔

٭…حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا: کہ مالمو میں تو سنا ہے کہ رات ہنگامے بھی ہوئے ہیں۔ آپ کے علاقہ میں سب خیریت رہی ہے؟

٭…امیر صاحب نے عرض کی کہ جی حضور رات کو ہنگامے ہوئے تھے، اب حالات ٹھیک ہیں۔

٭…بعد ازاں نیشنل سیکرٹری تبلیغ نے اپنا تعارف کروایا۔ اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے دریافت فرمایا کہ اس سال کتنے احمدی بنائے ہیں؟

٭…سیکرٹری تبلیغ نے عرض کی کہ حضور گذشتہ سال کے دوران کوئی بیعت حاصل نہیں ہوئی۔ اس سال ہم نے نیشنل عاملہ اور لوکل عاملہ کے ہر ممبر کے لیے ایک بیعت کا ٹارگٹ رکھا ہے۔ نیز جو گذشتہ سال پروگرام ہوئے ہیں، ان کی کچھ تفصیل پیش کرنا چاہتا ہوں۔

٭… حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا : ابھی تو اتنا وقت بھی نہیں ہے، مجھے simple یہ بتائیں کہ آپ نے جو ایک سال پروگرام کیے ہیں، ان کے نتیجہ میں کوئی بیعت ہوئی کہ نہیں ہوئی؟

٭…سیکرٹری تبلیغ نے عرض کی کہ حضور اس سال کوئی بیعت نہیں ہوئی۔

٭…فرمایا :کوئی بیعت حاصل نہیں ہوئی تو اب اس سال کیا ٹارگٹ رکھا ہے؟

٭…سیکرٹری تبلیغ نے عرض کی کہ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز کی جانب سے نیشنل اور لوکل سطح پر ہر عاملہ ممبر کو ایک بیعت حاصل کرنے کا ٹارگٹ ملا تھا۔ امیر صاحب نے اس سال دوبارہ وہی ٹارگٹ ریمائنڈ کروایا ہے۔ ان شاء اللہ اس سال ہم مزید کوشش کریں گے۔

٭…اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا کہ یہ ان شاء اللہ اب ماشاء اللہ میں تبدیل ہونا چاہیے۔ یہ تو ہمت کی بات ہے، کتنا وقت دیتے ہیں، کیا کرتے ہیں۔تبلیغ کا ٹارگٹ ہونا چاہیے۔ سویڈن میں مختلف قوموں کے افراد ہیں۔ عرب بھی کافی آچکے ہیں۔ ایشین بھی ہیں، افریقن بھی ہیں۔ لوکل سویڈش ہیں۔ ہر ایک کے لیے ان کی قومیت کے لحاظ سے پروگرام بنائیں اور پھر ان کی دلچسپی کے مطابق، ان کے سوالات کے مطابق آپ کے پاس لٹریچر بھی ہو۔ آپ کے پاس لٹریچر ہے؟ مالمو تو ایک چھوٹا شہر ہے، یہاں کی دس فیصد آبادی کو پتہ ہے کہ احمدیت کیا ہے؟

٭…سیکرٹری تبلیغ نے عرض کی کہ ہم ہر ماہ مالمو، سٹاک ہالم اور گوتھن برگ میں Ask A Muslim ٹینٹ لگاتے ہیں۔

٭…فرمایا :جب یہ ٹینٹ لگاتے ہیں تو کتنے افراد اس پر آتے ہیں اور استفادہ کرتے ہیں۔

٭…سیکرٹری تبلیغ نے عرض کی کہ حضور ہر ٹینٹ میں پچیس سے تیس افراد آتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم فیس بُک وغیرہ پر تشہیر کرتے ہیں اور میڈیا میں بھی آرٹیکلز لکھتے ہیں۔

٭…فرمایا :یہ تو ٹھیک ہے لیکن آپ کا کیا خیال ہے کہ مالمو یا کسی بھی چھوٹے شہر کی دس فیصد آبادی تک احمدیت کا تعارف ہو گیا ہے؟ احمدیت کیا ہے اور مسلمانوں کا کون سا فرقہ ہے اور کس بات پر یقین رکھتی ہے؟

٭…سیکرٹری تبلیغ نے عرض کی کہ زیادہ تر لوگوں کو ہمارے بارے میں پتہ ہے۔

٭… حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا: زیادہ تر لوگوں کو کیسے پتہ ہے۔ مجھے تو جو بھی ملتا ہے وہ یہی کہتا ہے کہ ہمیں تو نہیں پتہ۔ آپ کی مسجد کے افتتاح پر گیا تھا، وہاں جو ایم پی اور حکومتی نمائندے آئے ہوئے تھے، انہیں بھی پوری طرح علم نہیں تھا احمدیت کیا چیز ہے۔ حالانکہ آپ کی واقفیت کی وجہ سے آئے ہوئے تھے۔ انہیں صرف اتنا پتہ تھا کہ مسلمانوں نے ایک مسجد بنائی ہے اور وہاں جارہے ہیں۔

٭…فرمایا: جب تک آپ کی انفرادیت نہیں ہوگی، الگ پہچان نہیں ہوگی، لوگوں کو پتہ نہیں ہو گا کہ احمدیت کیا چیز ہے اور اسلام کی حقیقی تعلیم کیا ہے۔ لٹریچر اور پمفلٹ وغیرہ جو آپ تقسیم کرتے ہیں، آپ کے مربی صاحب کی بھی رپورٹوں میں آیا ہوتا ہے کہ ہم نے اتنے لاکھ تقسیم کردیے، وہ اتنے لاکھ تقسیم کرنے کے بعد بھی لوگوں کو تعارف نہیں ہے۔ اس کے بارے میں بھی پتہ ہونا چاہیے تاکہ اسلام کے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کرسکیں۔ اب جو ایک شخص کھڑا ہوا ہے کہ قرآن جلا دوں گا۔ ٹھیک ہے کہ پولیس نے اس کو اجازت نہیں دی لیکن ساتھ ہی اپیل کرنے کا بھی حق دے دیا اور اس کے بعض پیروکار یا گروپ کے افراد نے کل رات کو پارک میں جا کر جلا بھی دیا۔ تو یہ کیوں ہو رہا ہے؟ اس لیے کہ ان کو پتہ ہی نہیں ہے کہ اسلام کی تعلیم کیا ہے اورقرآنِ کریم کی تعلیم کیا ہے۔ مسلمانوں کے جو دہشت گرد عمل ہیں، وہ یہی ظاہر کرتے ہیں کہ شاید یہ قرآن میں ہی ہوگا۔ وہ ایک آیت کو تو پکڑ لیتے ہیں کہ قتال کرو یا جنگ کرو۔لیکن جو جنگ کی شرائط ہیں یا دیگر اخلاقی تعلیمات ہیں، ان کو نہیں دیکھتے۔ بائبل کو دیکھتے ہیں تو وہاں جنگ و جدال کے پانچ ہزار سے زائد حکم ہیں، قرآنِ کریم میں تو آدھے سے بھی کم ہیں۔ یہ چیزیں ان لوگوں کو پتہ ہونی چاہئیں۔ اس لحاظ سے بھی آپ تبلیغ کا پلان بنائیں۔

٭…ان کے بعد نیشنل سیکرٹری وقفِ نو نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے عرض کی کہ ہمارے 254 واقفین ہیں، جن میں 139 واقفین ہیں اور 115 واقفات ہیں۔

٭…حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے دریافت فرمایا کہ جو سیکنڈری ایجوکیشن مکمل کرنے کے بعد ہائر ایجوکیشن حاصل کررہے ہیں، وہ کتنے ہیں؟ 15 سال سے اوپر کے کتنے ہیں؟

٭…عرض کی کہ 15 سال سے اوپر کے 97 واقفین ہیں۔

٭…حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا کہ کیا ان تمام نے تجدیدِ وقف کر لیا ہوا ہے؟ اس پر سیکرٹری وقفِ نو نے عرض کی کہ حضور ان میں سے 78 نے renew کرلیے ہیں۔ گذشتہ سال میں ہم نے پچاس واقفین سے رینیو کروائےہیں اور کچھ ابھی رہ گئے ہیں۔

٭…حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا کہ وقفِ نو کا اجتماع کیا تھا، حاضری کتنی تھی۔

٭…عرض کی جی حضور ہم نے اس سال فروری میں وقفِ نو کا اجتماع کیا تھا۔ اور واقفات اور واقفین کی حاضری علم میں نہیں۔ لیکن باقی دیگر افراد ملا کر کل حاضری 223 تھی۔

٭…حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نےفرمایا کہ حاضری علم میں ہونی چاہیے۔ اصل میں تو ان کا اجتماع تھا۔پھر فرمایا :کیا آپ کا ان تمام واقفین سے رابطہ ہے؟ اور وہ تیار ہیں وقف کرنے کے لیے یا صرف ٹائٹل لگایا ہوا ہے؟

٭…اس پر سیکرٹری وقفِ نو نے عرض کی کہ حضور ان میں سے تین نے صرف وقف کے لیے پیش کیا ہے۔ ایک وقفِ نو ہے اور دو واقفات ہیں۔ باقی 25حضورِ انور کی اجازت سے جاب کر رہے ہیں۔

٭…فرمایا :ٹھیک ہے، جب ہمارے مطلب کی پڑھائی نہیں کریں گے تو پھر یہی کہیں گے کہ اپنی جاب کرلو۔ اصل چیز تو یہ ہے کہ انہیں encourageکریں کہ ہمیں ڈاکٹرز چاہئیں، ٹیچرز چاہئیں۔ ان فیلڈز میں زیادہ encourage کرنا چاہیے۔ جامعہ میں پڑھنے والے سویڈن سے صرف دو لڑکے ہیں۔ وہ بھی ایک ہی فیملی کے ہیں۔ باقی فیملیز کو بھی توجہ دلائیں۔

٭…سیکریٹر ی وقفِ نو نے سوال کرتے ہوئے عرض کی کہ وہ واقفینِ نو جو جامعہ میں داخل نہیں ہوتے اور اجازت لے کر اپنی تعلیم مکمل ہونے کے بعد متعلقہ شعبہ میں کام کرتے ہیں اور جماعتی کاموں کے لیے زیادہ وقت بھی نہیں دیتے۔ اس طریق سے یہ معلوم ہوتاہے کہ آنے والی نسلیں یہ تأثر رکھتی ہیں کہ وقفِ نو کا ٹائٹل رکھ لیا جائے اور عام آدمی کی طرح کام کیا جائے۔

٭… اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا: جو جماعت کا کام نہیں کرتے اور جماعت کو وقت نہیں دیتے، جس کو میں اجازت دیتا ہوں، اس کو ساتھ یہ بھی کہتا ہوں کہ اپنا کام کرو اور ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت جماعتی خدمت میں گزارو۔ والنٹیئرکرتے رہو۔ تمام ویک اینڈ جماعت کو دو اور اس کے علاوہ بھی جو زائد وقت ہے وہ جماعت کے لیے دو۔ اور جو بالکل ہی کام نہیں کرتا، دنیاداری میں ڈوب گیا ہے تو اس کی مرکز کواطلاع دیں تاکہ اس سے وقفِ نو کا ٹائٹل ختم کیا جائے۔ ہم نے ٹائٹل تو نہیں رکھنا۔ تعداد بڑھا کر ہم نے کیا کرنا ہے؟ وقفِ نو تو وہی ہے جس کو اگر ہم اجازت بھی دیتے ہیں، تب بھی وہ دنیا کا کام کرتے ہوئے بھی وقف کی روح کے ساتھ اپنے آپ کو والنٹیئر کے طور پر پیش کرے۔ بہت سارے لوگ ہیں جو دین کا کام کرتے ہیں لیکن وقف نہیں ہیں۔ ان میں دین کی خدمت کا ایسا جذبہ ہے کہ لگتا ہے کہ چوبیس گھنٹے دین کو ہی دیے ہوئے ہیں۔ تو یہ تو آپ کو رپورٹ کرنی چاہیے۔

٭…سیکرٹری وقفِ نو نے عرض کی کہ جی حضور اس حوالہ سے گذشتہ سال ہم نے تمام 18 سال سے بڑے واقفین کے ساتھ میٹنگ کی ہے اور ان کی رپورٹ تیار کرکے مرکز بھیجی ہے۔

٭…فرمایا :ٹھیک ہے، ان سے میٹنگ کی ہے۔ اُن لوگوں سے کریں جو جاب کررہے ہیں۔ انہیں توجہ دلائیں کہ تم وقفِ نو ہو،جماعت کے لیے وقت دو۔ اور کچھ نہیں تو ویک اینڈ پر تبلیغ کے لیے وقت دو۔ جا کر لٹریچر تقسیم کرو، پمفلٹ تقسیم کرو، سٹال لگاؤ، Ask a Muslim والے پروگرام میں شرکت کرو۔ واقفاتِ نو کے علاوہ بھی واقفینِ نو کی کافی تعداد ہے، ان ساروں کو پروگراموں میں شامل کرو۔

٭…بعد ازاں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے نیشنل سیکرٹری وصایا سے کل موصیان کی تعداد اور کمانے والے افراد کے حوالہ سے استفسار فرمایا۔ جس پر سیکرٹری وصایا نے عرض کی کہ حضور اس وقت ہمارے پاس 427 موصیان ہیں اور کمانے والے افراد 482 ہیں۔ ان میں سے 270 موصی ہیں۔

٭…حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے ارشاد فرمایاکہ اس کا مطلب ہے کہ آپ نے اپنا ٹارگٹ پورا کر لیا ہے۔ کمال کردیا ہے۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ چلو سویڈن والوں نے کوئی کام تو کیا۔ فرمایا: ان موصیان میں کتنی عورتیں ہیں؟ اس پر سیکرٹری وصایا نے عرض کیا کہ اس میں 28فیصد مرد ہیں اور 72 فیصد خواتین ہیں۔

٭…حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا کہ کمانے والی خواتین کتنی ہیں؟ اس پر سیکرٹری وصایا نے عرض کی کہ کل 32 خواتین ہیں۔

٭…فرمایاکہ ایسے موصیان جو کما نہیں رہے ان کی تعداد کیا ہے؟ اس پر سیکرٹری وصایا نے عرض کی کہ حضور 157 ایسے ہیں جو کما نہیں رہے۔ سٹوڈنٹس ہیں، ان میں ناصرات بھی ہیں،لجنہ بھی ہیں، انصار بھی ہیں۔

٭…فرمایا:صرف چندہ مقصد نہیں ہے کہ وصیت کروالی اور تعداد بڑھا لی۔ ان کے تقویٰ کے معیار بڑھانے کے لیے بھی کوئی کوشش کی ہے؟

٭…سیکرٹری وصایا نے عرض کی کہ اس کے لیے حضور ہر جماعت میں مجلسِ موصیان کا اجلاس کروا رہے ہیں اور اس میں موصی کی ذمہ داریاں اور معیار بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ مجھے دو ماہ پہلے ہی عہدہ ملا ہے۔

٭…فرمایا:موصی کوپانچ وقت کا نمازی ہونا چاہیے، روزانہ قرآنِ کریم کی تلاوت کرنے والا ہونا چاہیے، قرآنِ کریم کا ترجمہ جان کے ان احکامات پر عمل کرنے والا ہونا چاہیے۔ حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کی کتب کو پڑھنے والا ہونا چاہیے۔ خلفاء کی باتوں کو سننے والا ہونا چاہیے۔ خلیفہ وقت کے خطبات کو باقاعدگی سے سننے والا ہونا چاہیے، اپنے گھر میں اپنے بیوی بچوں کی تربیت کی طرف توجہ ہونی چاہیے۔ یہ خصوصیات موصی میں ہوتی ہیں۔ پھر اگر عورتیں ہیں تو ان کو اپنے پردہ کے معیار کو بہتر کرنا چاہیے اور دونوں کو اپنے اخلاق بہتر کرنے چاہئیں۔ ایک آئیڈیل موصی تو وہ ہے جو مالی قربانی کے لحاظ سے بھی اور اپنی دینی حالت کے لحاظ سے بھی، روحانی حالت کے حساب سے بھی، جماعتی اور انتظامی تعلق کے لحاظ سے بھی، خلافت سے تعلق کے لحاظ سے بھی اعلیٰ معیار کا ہونا چاہیے۔ تب ہی وصیت کا فائدہ ہے،نہیں تو صرف پیسے اکٹھے کرنے کے لیے تو ہم نے وصیت نہیں کروانی۔

٭…سیکرٹری وصایا نے عرض کی کہ ہم نے تمام ممبرانِ عاملہ کا سروے کروایا ہے تو پورے ملک میں اس وقت نیشنل اور لوکل عاملہ سے صرف تین افراد غیر موصی ہیں۔

٭…فرمایا :ٹھیک ہے۔ اس لحاظ سے ان کے اخلاق بھی اعلیٰ ہونے چاہئیں۔ اگرا ٓپ میں غصہ دبانے کی صلاحیت نہیں ہے، برداشت نہیں ہے اور عاملہ میں بھی ہیں اور موصی بھی ہیں، اگر کوئی آپ کے منہ پر گالی دیتا ہے اور آپ جواب گالی سے دیتے ہیں تو آپ کا نیشنل عاملہ کا ممبر ہونا یا موصی ہونا کوئی فخر کی بات نہیں ہے۔ برداشت کا مادہ بھی ہونا چاہیے۔ نیشنل عاملہ میں ہیں تو نیشنل عاملہ کو سب کے لیے نمونہ بھی ہونا چاہیے۔ آپ کی جماعت کے ممبران نیشنل عاملہ کو اپنا رول ماڈل سمجھیں۔ نیشنل عاملہ کو توجہ ہونی چاہیے کہ آپ نے لوگوں کو کیا نمونے دکھانے ہیں۔ ہر شعبہ دوسرے شعبہ سے جُڑا ہوا ہے۔ ہر شعبہ ایک دوسرے کی مدد کررہا ہو تو تب ایک آئیڈیل معاشرہ جنم لیتا ہے۔ موجودہ حالات میں ایک آئیڈیل نہ سہی بنیادی اسلامی احکام پر چلنے والا معاشرہ ہی قائم ہو جائے۔ تو یہ بھی وصیت کا کام ہے۔

٭… ان کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے نیشنل سیکرٹری مال سے دریافت فرمایاکہ کیا بجٹ میں شامل لوگ اپنی آمد کے مطابق چندہ دیتے ہیں۔ اس پر سیکرٹری مال نے عرض کی کہ جی حضور جو تشخیص آمد کرواتے ہیں، ان کا چندہ اس کے مطابق ہی آتا ہے۔ لیکن تمام اپنی تشخیص آمد نہیں کرواتے۔

٭…فرمایا: ٹھیک ہے۔ تو پھر وہ اجازت لے لیں کہ انہوں نے کتنا چندہ ادا کرنا ہے۔ اگر مالی حالات ایسے ہیں کہ چندہ نہیں دے سکتے تو پھر اجازت لے لیں کہ ہم چندہ نہیں دے سکتے، مجھے لکھ دیں۔ لیکن غلط بیانی کرکے اپنی آمد کم نہ لکھوائیں۔

٭…حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا: آپ نے کبھی اندازہ لگایا ہے کہ جو موصی ہیں اور جو غیر موصی ہیں، ان کے چندہ کے حساب سے آمد کے فرق کتنے ہیں؟ اس پر سیکرٹری وصایانے عرض کی کہ ان کی یہاں پر اوسط آمد 12 ہزار 670 ہے اور جو موصیان ہیں ان کی ماہانہ آمد 15 ہزار 420 بنتی ہے۔

٭…فرمایا:اس کا مطلب ہے کہ موصیان کی اچھی آمد ہے۔ آپ کی یہاں minimum wage کتنی ہے؟ اس پر سیکرٹری وصایا نے عرض کی کہ ایک عام ورکر کی ٹیکس وغیرہ کٹنے کے بعد آمد 15 سے 16 ہزار بنتی ہے۔

٭…فرمایا: اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے تمام موصیان عام ورکرز میں سے ہیں، کوئی اچھا کمانے والوں میں سے پروفیشنل افراد میں سے موصیان نہیں ہیں۔ اس پر سیکرٹری وصایا نے عرض کیا کہ حضور ان میں ہر قسم کے ہیں، بعض ان میں سے پینشنرز بھی ہیں، یہاں پینشن بھی کم ہوتی ہے، پھر بعض اچھے کمانے والے بھی ہیں۔ تو کل average اتنی ہی بنتی ہے۔

٭… حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے دریافت فرمایا: یہاں پینشن کتنی ہوتی ہے؟ اس پر سیکرٹری مال نے عرض کی کہ حضور یہاں جو عام ورکر ہے، جس کی آمد 16 سے 17 ہزار ہو، تو اس کی پینشن تقریباً 8 سے 10 ہزار کے قریب بن جاتی ہے۔

٭…فرمایا:آپ کے کتنے پینشنرزموصیان ہیں؟ سیکرٹری وصایا نے عرض کی کہ حضور اس وقت یہ ڈیٹا میرے پاس نہیں ہے۔

٭…فرمایا :بہرحال اس سے ایک تو فرق آپ کو پتہ لگ گیا کہ جو غیر موصی ہیں، وہ اپنی آمد کے مطابق صحیح چندہ ادا نہیں کررہے اور minimum wage سے بھی کم پر چندہ ادا کررہے ہیں۔ اگر ان کی مجبوریاں ہیں تو بتا کر اجازت لے لیں، لیکن یہ نہ کہیں کہ ہم below average income میں آتے ہیں۔ آپ لوگ below average income نہیں ہیں، بلکہ صرف چندہ دینے میں کمی ہے۔ اگر مجبوری ہے، حالات ایسے نہیں ہیں کہ چندہ دینے کے بعد بیوی بچوں کے ساتھ گزارہ ہوسکے تو پھر اجازت لے لیں۔

٭… حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا: جماعت احمدیہ یہ کہتی ہے کہ چندہ ایک مالی قربانی ہے۔ قربانی کا مطلب ہی تکلیف میں پڑنا ہے۔ لیکن اپنے بیوی بچوں کا بھی حق ادا کرنا ہے اور اگر تم سمجھتے ہو کہ تم حق ادا نہیں کرسکتے تو پھر تم اس میں چھوٹ لے لو۔ لیکن غلط بیانی نہ کرو۔ اگر غلط بیانی کرو گے تو اللہ تعالیٰ اس پیسے میں برکت نہیں ڈالتا۔ یہ ہر ایک کو realizeکروا دیا جانا چاہیے۔ یہ شعبہ تربیت کا بھی کام ہے کہ ہر ایک کو بتائے کہ چندہ اگر آمد کے مطابق نہیں بھی دے رہے تو پھر بھی آمد ٹھیک لکھواؤ۔ انکم نہیں بھی بتانی تو نہ بتائے، صرف یہ لکھ دے کہ میری انکم اس سے زیادہ ہے لیکن میرے حالات ایسے نہیں ہیں کہ میں اس سے زیادہ چندہ ادا کرسکوں، اتنی سٹیٹمنٹ آجائے اور یہاں مجھ سے اجازت لے لیں تو پھر کم از کم ان کے مال میں بھی برکت پڑے گی اور آپ کے پاس حقائق بھی صحیح ہوں گے۔

٭…سیکرٹری مال نے عرض کی کہ حضور میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ یہ جو مالی سال جون میں ختم ہوا ہے اس میں ہماری وصولی 106 فیصد ہوئی ہے۔

٭…اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے ارشاد فرمایا کہ ٹھیک ہے۔ اچھی بات ہے۔ لیکن اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کا بجٹ صحیح نہیں بنا تھا۔ کووِڈ 19 کی وجہ سے تو لوگوں کی آمد کم ہوئی ہے۔ اگر آپ کی وصولی بجٹ سے بھی زیادہ ہوئی ہے تو اس کا یہ مطلب تھا کہ آپ کا بجٹ صحیح نہیں بنا تھا۔ شامل افراد کی تعداد کم لکھی تھی اور چندہ دینے والے زیادہ تھے۔ یا یہ ہے کہ باقی دنیا میں تو لوگوں کی آمد گر گئی لیکن سویڈن کے حالات ایسے رہے کہ اس بیماری کووِڈ کے باوجود آپ کے لوگوں کی آمد بڑھ گئی۔ تبھی اضافہ ہوا ہےناں۔ دو ہی باتیں ہو سکتی ہیں۔ یا بجٹ صحیح نہیں تھا یا آپ کی آمد میں اضافہ ہوا ہے۔ یا تجنید صحیح شامل نہیں تھی۔ یہی باتیں ہو سکتی ہیں۔

٭…اس پر سیکرٹری مال نے عرض کی کہ جی حضور یہی وجہ ہے، تشخیصِ آمد میں سو فیصد لوگ شامل نہیں ہوتے تو اس سے فرق پڑ جاتا ہے۔

٭… حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا: تو پھر یہ فخر والی بات تو نہ ہوئی۔ یہ تو آپ کی کمزوری ہے۔ جب مجھے کوئی بتاتا ہے کہ اتنے فیصد اضافی وصولی ہوئی ہے تو وہاں یہ وضاحت بھی ہونی چاہیے کہ دورانِ سال اتنے نئے لوگ شامل ہوئے ہیں جس کی وجہ سے آمد زیادہ ہوئی ہے۔ یا دورانِ سال لوگوں نے یہ realize کیا کہ ہمیں صحیح آمد پر چندہ دینا چاہیے، اس وجہ سے ہماری آمد زیادہ ہوئی ہے۔ لیکن اگر یہ دونوں باتیں نہیں ہیں اور یہ کہہ دیا کہ ہمارا بجٹ اتنا تھا اور ہم نے اتنا اضافہ کر لیا تو یہ کوئی آپ کا کمال نہیں یہ آپ کی کمزوری ہے کہ آپ لوگوں نے بجٹ صحیح تشخیص نہیں کیا۔ اس لیے اس پر کریڈٹ لینے کی کوشش نہ کریں۔

٭…ان کے بعد سیکرٹری امورِ خارجیہ نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے عرض کی کہ ہمیں جو تبشیر اور IHRC سے رپورٹیں ملتی ہیں، ہم ان کا خلاصہ تیار کر کے پاکستان یونٹ فارن ڈیپارٹمنٹ اور اسی طرح دیگر سیاستدانوں کو بھجواتے ہیں۔

٭…حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے دریافت فرمایا کہ آپ نے لکھا تھا کہ قرآن جلانے کے معاملہ پر آپ اخبار میں لکھنا چاہتے تھے لیکن اخبار والوں نے انکار کردیا۔ میں نے کہا تھا کہ اَور بھی آرٹیکل لکھیں۔ اگر ایک اخبار انکار کرتاہے تو دیگر شائع کریں گے۔ اس کے بعد رپورٹ آئی کہ کئی اخبارات نے آرٹیکل شائع بھی کردیے اور خبر بھی دےد ی اور بہتر رسپانس مل گیا۔ اگر آپ کی صحیح اور concerted effort ہو اور سارے مل کر کام کررہے ہوں، ہر شہر میں ہر احمدی اور جماعت کی ہر تنظیم کررہی ہو تو پھر اس کا نتیجہ بھی نکلتا ہے۔ ایک دو دن پہلے تو اخبار انکار کررہے تھے اور پھر دو دن بعد آپ کو اخباروں نے رسپانس بھی دے دی۔ اس کا مطلب ہے کہ پہلے آپ کی کوشش صحیح نہیں تھی۔ اس لیے پہلی مرتبہ ہی صحیح پلاننگ کرکے کوشش کیا کریں۔

٭…سیکرٹری امورِ خارجیہ نے عرض کی کہ حضور اسی طرح 18 ممبرانِ پارلیمنٹ سے ہمارا اچھا رابطہ ہے۔ 12 ڈپٹی میئرز اور 10 میونسپل کونسلرز سے بھی رابطہ ہے۔

٭…فرمایا:بڑی اچھی بات ہے، رابطے کریں۔ لیکن سویڈن میں جو احمدی اسائلم کے لیے آتے ہیں ان کے اسائلم بھی پاس کروانے کے لیے کوشش کریں۔ اس پر سیکرٹری امورِ خارجیہ نے عرض کی کہ جی حضور دورانِ سال اسائلم کیسز کی رپورٹ یوں ہے کہ 70 احمدیوں کے اسائلم منظور ہوئے ہیں۔ 43پراسیس میں ہیں اور چھ افراد ہیں جن کے کیس ریجیکٹ ہوئے ہیں لیکن وہ اس وقت ملک میں ہی ہیں۔

٭…حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا کہ جن کے اسائلم ریجیکٹ ہوئے ہیں، ان کے بھی پاس کروانے کی کوشش کریں۔

٭…حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے دریافت فرمایاکہ آپ وکیل ہیں؟ اس پر سیکرٹری امورِ خارجیہ نے عرض کی حضور ویسے تو میں کمپیوٹر انجینیئرہوں لیکن اس وقت ٹیکسی چلا رہا ہوں۔

٭…ان کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے نیشنل سیکرٹری تعلیم القرآن و وقفِ عارضی سے دریافت فرمایا کہ اس سال کے دوران کتنے افراد نے وقفِ عارضی کی ہے؟

٭…سیکرٹری صاحب نے عرض کی کہ حضور چار افراد نے وقفِ عارضی کی ہے۔ اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے ارشاد فرمایا کہ بس؟ عاملہ کے ممبران سے ہی وقفِ عارضی کروا لیتے تو آپ کی تعداد بڑھ جاتی، کم از کم پندرہ بیس تو ہو جاتی۔ آپ باہر سے جو لیتے ہیں، عاملہ سے تو لیں۔ چراغ تلے اندھیرا۔ عاملہ کے ارکان تو وقفِ عارضی کیا کریں۔ آپ نے خود وقفِ عارضی کی تھی؟ اس پر سیکرٹری صاحب نے عرض کی جی حضور میں نے وقفِ عارضی نہیں کی۔ اس پر فرمایا کہ اگرآپ نے خود وقفِ عارضی نہیں کی تو لوگوں نے کیا نمونہ دیکھنا ہے آپ کا؟ آپ خود بھی دو ہفتہ کی وقفِ عارضی کرکے کہیں تبلیغ کرنے کے لیے جائیں یا بچوں کو قرآنِ کریم پڑھائیں یا کوئی اَور کام کریں۔ عاملہ والے لوگوں پر رعب ڈالتے رہتے ہیں، خود بھی تو کام کیا کریں۔ وقفِ عارضی خود بھی کریں، پھر آپ کے نمونہ سے دوسرے لوگ بھی کریں گے۔

٭…حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے مزید دریافت فرمایا کہ قرآنِ کریم پڑھانے کے حوالہ سے آپ نے کیا منصوبہ بنایا ہوا ہے؟ اس پر سیکرٹری صاحب نے عرض کی کہ جماعتوں میں قرآنِ کریم پڑھانے کی کلاسز ہو رہی ہیں۔ اس کے علاوہ نظارت تعلیم القرآن ربوہ کی طرف سے قرآنِ کریم کلاسز بند ہونے پر لوکل جماعت نے سیکرٹریان کے ساتھ مل کر خواہشمند طلباء کے نام جمع کیے ہیں اور ان کے لیے کلاس شروع کردی گئی ہے۔

٭…فرمایا: ٹھیک ہے، اچھی بات ہےکہ کلاس شروع ہو گئی ہے۔ یہاں سے بھی انٹرنیشنل کلاس کا پروگرام بنایا جارہا ہے۔ اس میں بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ لیکن ہر ملک اپنے طور پر بھی کرسکتا ہے۔ یہ تو کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے۔ اگر مخالفین یا حکومتوں نے ہمارا ایک راستہ بند کیا ہے تو دوسرے رستے کھلے ہیں۔ ہمیں پھر دوسرے رستے تلاش کرنے چاہئیں۔ اس لیے آپ خود اپنے اپنے ممالک میں کلاسز شروع کروائیں۔ اوّل تو آپ کے پاس استاد ہونے چاہئیں، مربیان کرسکتے ہیں، دوسرے بعض حفاظ بھی آپ کے ہیں جو کرسکتے ہیں۔لیکن اگرا ٓپ کے پاس استاد نہیں ہیں تو پھر یوکے سے مدد لی جاسکتی ہے۔ اگر نہیں ہے تو تبشیر کو لکھیں وہ آپ کی مدد کریں گے۔

٭…بعد ازاں نیشنل سیکرٹری اشاعت نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے عرض کی کہ ہم تین رسالے نکال رہے ہیں۔ ایک خدام کا ہے، ایک الہُدیٰ کے نام سے انصار اللہ کا رسالہ ہے۔ اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے ارشاد فرمایا کہ یہ تو آپ کے رسالے نہیں ہیں۔ جماعت کا کوئی رسالہ ہے؟

٭…سیکرٹری اشاعت نے عرض کی کہ حضور ہمارا ربوہ کے نام سے جماعتی رسالہ تھا جس کی اشاعت فی الحال بند ہے۔ ہم نے تمام جماعتوں میں ایک نیوز لیٹر شائع کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔

٭…اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے ارشاد فرمایا کہ آپ کی اتنی بڑی جماعت ہے، کوئی جماعتی رسالہ آنا چاہیے۔ آن لائن بھی دیاجانا چاہیے۔ اور کوئی کتاب شائع کی ہے آپ نے؟ سویڈش زبان میں کوئی جماعتی لٹریچر کا اضافہ کیا ہے؟

٭…اس پر سیکرٹری اشاعت نے عرض کی کہ اس سال کوئی شائع نہیں ہوئی۔

٭…اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے ارشاد فرمایا کہ اس سال کوئی شائع نہیں ہوئی تو پچھلے سال کوئی کتاب شائع ہوئی ہے؟ اس پر سیکرٹری صاحب اشاعت نے بتایا کہ حضور گذشتہ سال بھی کوئی شائع نہیں ہوئی۔

٭…حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیزنے فرمایا کہ اس سال نہیں کی، گذشتہ سال نہیں کی تو اگلےسال کا کیا پروگرام ہے؟ اس پر سیکرٹری اشاعت نے عرض کی کہ حضور ہمارے اس وقت آٹھ پروجیکٹ زیرِ کارروائی ہیں۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیزنے فرمایاکہ جب پروجیکٹس پر عمل ہو جائے تو رپورٹ بھجوا دیں۔

٭…ان کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے نیشنل سیکرٹری تعلیم سے دریافت فرمایا کہ آپ کے کتنے سٹوڈنٹس ہیں؟ اس پر سیکرٹری صاحب نے عرض کی کہ حضور ہمارے پاس تقریباً 90 سٹوڈنٹس ہیں۔ابھی تمام سویڈن سے ایک رپورٹ حاصل کی گئی تھی، جس کے مطابق پورے سویڈن میں یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرنے والے اور زیرِ تعلیم افراد کی کل تعداد 150 ہے۔ ہم نے گذشتہ ماہ سے سویڈش زبان میں ایک weekly book reading سیشن شروع کیا ہے۔

٭…حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا کہ ان سٹوڈنٹس کے کوئی سیمینار وغیرہ بھی منعقد کیا کریں۔ مذہب اور حالاتِ حاضرہ کے ایشوز پر سیمینارز ہوں، کسی کو کوئی ٹاپک دیں، تقریر تیار کریں تاکہ ان پڑھے لکھے لڑکوں میں جماعت سے تعلق کا شوق پیدا ہو۔ اور انہیں علم ہو کہ contemporary issues کے حوالہ سے اسلام کیا کہتا ہے؟ سائنس کے مختلف موضوعات کے حوالہ سے اسلام کیا کہتاہے۔ ان موضوعات پر کیسے بات کرنی ہے، کیسے ڈیل کرنا ہے۔ اس سے دلچسپی پیدا ہو گی اور لوگ آپ کے ساتھ attach ہوں گے۔

٭… ان کے بعد سیکرٹری رشتہ ناطہ نے اپنا تعارف کروایا۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے ان سے دریافت فرمایا کہ آپ نے کتنے رشتے کروائے ہیں؟ اس پر سیکرٹری رشتہ ناطہ نے عرض کی کہ حضور دورانِ سال جو ہماری لسٹ بنی ہے، اس میں پانچ کے قریب رشتے ہوئے ہیں۔

٭…حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے ارشاد فرمایا کہ یہ بتائیں کہ احمدی لڑکوں کے احمدی لڑکیوں سے کتنے رشتے آپ نے کروائے ہیں؟ احمدی لڑکوں کے غیر احمدی لڑکیوں سے کتنے رشتے کروائے ہیں اور نومبائعات سے کتنے کروائے ہیں یا نومبائع لڑکوں کے احمدی لڑکیوں سے کتنے رشتے کروائے ہیں؟

٭…اس پر سیکرٹری صاحب نے عرض کی کہ دورانِ سال دو ایسے رشتے ہوئے ہیں جہاں لڑکیاں احمدی نہیں تھیں۔

٭… اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نےارشاد فرمایا اگر احمدی لڑکے باہر شادیاں کرنے لگ جائیں گے تو پھر احمدی لڑکیاں کہاں جائیں گی؟ احمدی لڑکیوں کی بھی کوئی فکر کریں۔ احمدی لڑکیوں کے رشتے کروانے کی فکر کریں۔ اس طرف زیادہ توجہ دیں۔

٭… بعد ازاں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے سیکرٹری امورِ عامہ سے دریافت فرمایا کہ آپ جاب تلاش کرنے میں لوگوں کی مدد بھی کرتے ہیں کہ نہیں کرتے؟ سیکرٹری صاحب امورِ عامہ نے عرض کی کہ جی حضور کوشش کرتے ہیں لیکن آج کل کووِڈ کی وجہ سے جاب وغیرہ نہیں مل رہیں۔ اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیزنے دریافت فرمایا کہ کووِڈ کی وجہ سے نہیں ہیں تو اس سے چھ ماہ قبل آپ نے کیا کام کیا تھا اور اس کا کیا نتیجہ نکلا تھا؟ اس پر سیکرٹری صاحب نے عرض کی کہ حضور دو سے تین لوگوں کی مدد کی گئی تھی جنہیں جاب ملی تھی۔

٭…حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے دریافت فرمایا کہ اس وقت آپ کے اسائلم سیکرز جو بیٹھے ہوئے ہیں ان کی تعداد کیا ہے؟ اس پر سیکرٹری صاحب نے عرض کی کہ حضور یہ فگر سیکرٹری امورِ خارجیہ کے پاس ہے۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے اشاد فرمایا کہ ان کو روزگار وغیرہ فراہم کرنا تو آپ کا کام ہے۔ ان کے اسائلم کیس پاس کروانے کی کوشش کرنے کی ذمہ داری ان کی ہے لیکن ان کو سیٹل کرنا، ان کو عارضی طور پر کوئی جاب دینا، ان کے مسائل دور کرنا، ان کی ضروریات کو پورا کرنا یہ تو امورِ عامہ کا کام ہے۔ جھگڑے تو آپ کے پاس کوئی نہیں آتے۔ لڑائی کرنے تو آپ کے پاس کوئی نہیں آتا پولیس میں چلا جاتا ہے۔ یہ بتائیں کہ انتظامی طور پر میاں بیوی کے کتنے جھگڑے نمٹائے ہیں؟

٭…اس پر سیکرٹری امورِ عامہ نے عرض کی کہ حضور چھ سے سات نمٹائے ہیں۔ اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا کہ بڑی لڑائیاں کرتے ہیں۔ چھوٹی سی جماعت ہے پھر بھی میاں بیوی آپس میں لڑتے ہیں۔ سیکرٹری تربیت اور صدر لجنہ کو بھی اس میں کام کرنا چاہیے۔

٭…ان کے بعد سیکرٹری ضیافت نے اپنا تعارف کروایا۔ اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے مسکراتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اچھا ٹھیک ہے، ضیافت کرتے رہیں۔

٭…ان کے بعد صدر مجلس خدام الاحمدیہ نے اپنا تعارف پیش کیا۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے ارشاد فرمایا کہ آپ لوگ خدام الاحمدیہ اور جماعت آپس میں تعاون سے چلا کریں۔

٭…صدر مجلس خدام الاحمدیہ نے سوال کرتے ہوئے عرض کی کہ حضور یہاں کے جو بچے ہیں، وہ مذہب سے دوری اختیار کررہے ہیں، ان کو کیسے مذہب کے قریب لائیں۔

٭…اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا کہ ان کے دلچسپی کے سامان پیدا کریں۔ ان کو قریب لائیں۔ دوری اس لیے اختیار کررہے ہیں کہ ان کے عمل اور ان کی باتوں میں تضاد ہے۔ ان کی تربیت کریں۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ بڑوں کی تربیت کریں۔ نیشنل عاملہ کی تربیت کرو، اپنی مقامی عاملہ کی تربیت کرو تاکہ بچے ان کے نمونے دیکھ کر اپنی اصلاح کریں۔ اور خدام الاحمدیہ کا یہ کام ہے کہ ان کو سمجھائیں کہ تم نے نہ کسی عہدیدار کی بیعت کی ہوئی ہے نہ اس سے تمہارا کوئی تعلق ہے۔ اگر تم نے احمدیت کو سچا مانا ہے، بیعت کی ہے تو پھر تم ان کو نہ دیکھو۔ یہ دیکھو کہ صحیح تعلیم کیا ہے اور خلیفہ وقت تمہیں کیا کہتا ہے۔ خلافت سے تعلق رکھو تو ٹھیک رہو گے۔

٭… حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا دوسرا یہ کہ تربیت کی کمی ہے، نمازوں کی کمی ہے۔ جو contemporary issues ہیں، ان کی ان موضوعات پر آپس میں میٹنگ کروایا کریں۔ صرف ٹکسالی قسم کے اجلاسات نہ کرواتے رہیں بلکہ یہ دیکھیں کہ نوجوان جو پڑھا لکھا طبقہ ہے، ان کے کیا مسائل ہیں۔ ان کو کس طرح attract کرکے آپ قریب لا سکتے ہیں۔ مختلف عنوانات پر ان کے سیمینارز منعقد کروائیں۔ ان کی دلچسپی کے سامان پید اکریں تاکہ کچھ نہ کچھ attachment ہو۔ جب قریب آئیں گے تو ان کو ساتھ ساتھ مذہب کی تعلیم بھی دیتے رہیں۔

٭… حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا: مذہب سے دوری اس لیے ہے کہ دنیا داری پیدا ہو رہی ہے۔ دنیا میں عموماً ہر جگہ دنیاداری کا رجحان ہے۔ صرف سویڈن کی بات نہیں ہے، ہر جگہ یہی حال ہے۔ ان کو صرف کہو کہ اللہ تعالیٰ پر یقین ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کے احکامات پر بھی عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اس زمانہ میں جو احکامات ہیں ان پر عمل کریں۔ اگر بڑے کوئی کام صحیح نہیں کررہے تو نوجوانوں کا کام ہے کہ اس کو صحیح کریں اور آگے آئیں تاکہ ہماری آئندہ نسلیں سنبھالی جائیں۔ ان پر ذمہ داری ڈالیں، ان کو احساس دلائیں کہ تم ذمہ دار بنو، نہ یہ کہ کسی بڑے کے غلط رویہ کو دیکھ کر اپنے دین سے ہٹ جاؤ۔

٭…فرمایا: تو اس حوالہ سے ایک پلان بنائیں،پڑھے لکھے لڑکوں کی ایک کمیٹی بنائیں اور پھر غور کرکے سکیم بنائیں کہ کس طرح ان کو قریب کیا جاسکتا ہے۔ جب وہ سکیم بن جائے تو پھر مجھے بھیجیں۔

٭…فرمایا: مربیان کا بھی کام ہے کہ نوجوانوں سے تعلق رکھیں۔ کہتے تو ہیں کہ اب مربی انچارج صاحب نے نوجوانوں کو بلانا شروع کیا ہے، ان سے ملنا اور تعلق رکھنا، ان کے سوالات کے جواب دینا۔ اس کو مزید وسعت دیں اور زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کوقریب لانے کی کوشش کریں۔ خدام الاحمدیہ اور مشنری انچارج آپس میں تعاون سے ایک سکیم بنائیں۔ مبلغین کو اس میں شامل کریں اور امیر جماعت بھی اپنا مکمل تعاون ان کو دیں۔ شعبہ تربیت بھی شامل ہو۔ باقی ذیلی تنظیموں کو بھی اس میں شامل کریں۔ صدر خدام الاحمدیہ، صدر انصار اللہ اور صدر لجنہ بھی۔

٭…حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے ایڈیشنل سیکرٹری تربیت و وقفِ جدید برائے نومبائعین کو ہدایات دیتے ہوئے فرمایا: نومبائعین کے لیے تربیت کا پروگرام بنائیں تاکہ تین سال کے بعد وہ مین سٹریم میں شامل ہو جائیں۔ اگر کوئی غیر مسلم بیک گراؤنڈ سے آیا ہے تو اسے معلوم ہو کہ نماز کیا ہے، سورۃ فاتحہ کیا ہے، قرآنِ کریم کس طرح پڑھنا ہے۔ ان کی اس طرح تربیت ہونی چاہیے۔ جماعت کیا ہے، جماعت کا نظام کیا ہے۔ خلافت کیا ہے، خلافت سے کس طرح تعلق رکھنا ہے، یہ صحیح طرح علم ہونا چاہیے۔ پھر چندوں کا نظام کیا ہے اور اس میں کس طرح شامل ہونا چاہیے۔ یہ تمام ٹریننگ تین سال کے اندر ہو جانی چاہیے۔ ان کے اجتماع بھی کرتے رہیں۔

٭…ان کے بعد حضورِ انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیزنے سیکرٹری وقفِ جدید سے دریافت فرمایا کہ آپ جماعتوں کو وقفِ جدید کا ٹارگٹ دیتے ہیں یا کس طرح کرتے ہیں؟ سیکرٹری صاحب نے عرض کی کہ حضور لوکل جماعتیں وعدے لیتی ہیں۔

٭…حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا کہ آپ دفتر اطفال کی طرف بھی توجہ کریں۔ خدام الاحمدیہ اور لجنہ کی مدد سے بچوں اور بچیوں کو بھی وقفِ جدید کی طرف توجہ دلائیں۔ جس طرح میں اعلان کرتا ہوں کہ کینیڈا اور بعض دوسری جماعتوں نے بھی شروع کیا ہے، یہ سویڈن والوں کو بھی شروع کرنا چاہیے۔ بچوں کو انوالو (involve)کریں اور ان کو بتائیں کہ یہ تمہاری ذمہ داری ہے۔ چاہے ایک کرونر یا دو کرونر دو، لیکن کچھ نہ کچھ دو تاکہ تم لوگوں کو پتہ لگے کہ تم لوگ جماعت کے جو منصوبے ہیں، ان میں شامل ہوئے ہو۔

٭…ان کے بعد سیکرٹری سمعی و بصری نے اپنا تعارف کروایا۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے ان سے ارشاد فرمایا کہ اچھا ماشاء اللہ۔ آپ سمعی بصری کا معیار اور بہتر کریں۔ ابھی میں دیکھ رہا ہوں، اسے مزید بہتر ہونے کی ضرورت ہے۔ سیکرٹری صاحب نے عرض کی جی ان شاء اللہ حضور۔

٭…ان کے بعد ایڈیشنل سیکرٹری مال، انٹرنل آڈیٹر اور نیشنل امین نے باری باری اپنا تعارف کروایا۔ بعد ازاں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے دریافت فرمایا کہ تمام عاملہ ممبران ہو گئے ہیں؟ سیکرٹری تحریکِ جدید ہو گئے تھے؟ امیر جماعت نے عرض کی کہ حضور وہ بیمار تھے، جس کی وجہ سے نہیں آسکے۔

٭…ان کے بعد ایک صاحب نے سوال کرتے ہوئے عرض کی کہ دنیا وبائی مرض کی وجہ سے بالکل تبدیل ہو گئی ہے، ہمیں کچھ معلوم نہیں ہے کہ یہ صورت حال کتنی دیر تک چلتی رہے گی۔ ہم موجودہ صورت حال میں تبلیغ کے حوالہ سے کس طرح کام کریں؟

٭…حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے ارشاد فرمایا کہ ان دنوں میں تو آن لائن تبلیغ بہت شروع ہوگئی ہے۔ وٹس اَیپ پر، سوشل میڈیا پر۔ یہاں دیکھیں کہ لوگوں کے پاس کیا کیا سوال ہیں، کیا کیا ایشوز اٹھتے ہیں۔ مختلف سائٹس میں جاکر انہیں بتائیں کہ ان حالات میں ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف زیادہ جھکنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف آنا چاہیے اور اپنے خالق کی پہچان کرنی چاہیے۔ نہ یہ کہ دہریہ بن جائیں اور خداتعالیٰ کو چھوڑ دیں۔ یا یہ سمجھیں کہ خداتعالیٰ دعائیں قبول نہیں کرتا یا خداتعالیٰ نہیں ہے، یا دنیا ہی سب کچھ ہے۔

٭… حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا: اگر دنیا کو بچانا ہے تو یہ کرو، کیونکہ اس کے بعد پھر جو کرائسس آئے گا، اس وبا کے بعد جب دنیا کی اکانومی shrink ہوتی جائے گی تو اگلا کرائسس آئے گا کہ دنیا ایک دوسرے کے مال پر قبضہ کرنے کی کوشش کرے گی۔ جب ایک دوسرے کے مال پر قبضہ کرنے کی کوشش کریں گے تو پھر جنگیں شروع ہو جائیں گی۔ جس کے لیے بلاک بنتے ہیں۔ اور بلاک بننے شروع ہو چکے ہیں۔ تو اس سے بچنے کا یہی طریقہ ہے کہ خدا کی طرف آؤ اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو۔

٭… حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا: تو آن لائن ذرائع سے تبلیغ کریں اور جب موقع ملتا ہے، جہاں جہاں موقع ملتا ہے یہ پیغام پہنچائیں۔ لاک ڈاؤن میں اس طریق کو اختیار کریں اور جب لاک ڈاؤن میں نرمی ہو اور ذرا سی کوئی کھڑکی کھلے اور روشنی نظر آئے تو باہر نکلیں اور تبلیغ کریں۔ حالات کے مطابق دیکھیں کہ آپ نے کیا طریقے اختیار کرنے ہیں۔ دیکھیں کہ جس طرح حالات بدل رہے ہیں، ویسے کس طرح آپ جلدی سے حالات کے مطابق نئے طریق اختیار کرسکتے ہیں۔ لیکن جو بھی میڈیا ہے، آخر لوگوں کا رابطہ ہو ہی رہا ہے، اُس میڈیا کو آپ بھی استعمال کریں اور اس طریقہ کو آپ بھی استعمال کریں جو دنیا استعمال کررہی ہے۔

٭…اس کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا کہ اب ایک گھنٹہ گزر گیا ہے، اس سے زیادہ میں وقت نہیں دے سکتا۔ جو باتیں میں کہہ چکا ہوں ا ن پر عمل کرلیں۔ جو بعض ضروری باتیں تھیں وہ میں نے کہہ دی ہیں۔ باقی اللہ حافظ۔ جو نیشنل عاملہ کے علاوہ لوکل عاملہ کے افراد بیٹھے ہیں، انہوں نے باتیں سن لی ہیں،ان کو سمجھ آگئی ہے کہ ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں۔ جو نیشنل عاملہ سے میں باتیں کررہا ہوں، متفرق مجالس کے متعلقہ سیکرٹریان کے لیے بھی یہی باتیں ہیں۔ ان کو بھی یہی ہدایات مدِ نظر رکھنی چاہئیں اور ان کے مطابق اپنی پالیسی بنانی چاہیے اور عمل کروانا چاہیے۔

٭…حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نےفرمایا: اگر گراس روٹ لیول پر سارے کام ہونے شروع ہو جائیں تو، آپ کی مجالس کے متعلقہ شعبہ جات کے تمام سیکرٹریان اپنا اپنا کام کریں، اپنی ذمہ داری کو سمجھیں تو نیشنل عاملہ کا کام بھی آسان ہو جاتا ہے اور اُس مقصد کو بھی آپ پورا کرنے والے بن جاتے ہیں جس کے لیے آپ کو عہدیدار بنایا گیا ہے۔ اور اس طرح آپ خلیفہ وقت کے مددگار بھی بن جاتے ہیں۔ اور جماعتی خدمت کے کام کو بھی اچھے انداز سے سرانجام دیتے ہیں اور خداتعالیٰ کی نظر میں بھی آپ کی خدمت قبول ہوتی ہے۔ لیکن اگر صرف عہدہ رکھنا ہے اور عہدہ رکھ کر پھر کام نہیں کرنا اور اپنے غلط نمونے قائم کرنے ہیں۔ دعاؤں کی طرف توجہ نہیں دینی، آپس میں تعاون نہیں کرنا، مرکزی شعبوں اور ذیلی تنظیموں میں تعاون نہیں ہونا تو ایسے عہدوں کا کوئی فائدہ نہیں۔ ایسی تنظیم کا کوئی فائدہ نہیں۔ اور آپ لوگ مجھے تو دھوکا دے سکتے ہیں، نظامِ جماعت کو دھوکا دے سکتے ہیں لیکن خداتعالیٰ کو دھوکانہیں دیا جاسکتا۔ اس لیے ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہر کام کرتے ہوئے، ہر وقت یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ہر قول و فعل کو دیکھتا اور سنتا ہے۔ اس لیے ہم نے ہر کام اللہ تعالیٰ کی خاطر کرنا ہے۔ اور اس کے لیے اپنی تمام صلاحیتیں، اپنی تمام potentials کو استعمال میں لانا ہے، تاکہ ہم جماعت کے صحیح، فعال رُکن بھی بن سکیں اور جماعت کی صحیح رنگ میں خدمت بھی کرسکیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ و ناصر ہو۔

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

(رپورٹ: عبدالماجد طاہر۔ ایڈیشنل وکیل التبشیر اسلام آباد، یوکے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button