خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 23؍ اکتوبر 2020ء

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت بدری صحابی حضرت معاذ بن جبلرضی اللہ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا ایمان افروز تذکرہ

حضرت معاذ بن جبلؓ نبی کریمﷺکے ساتھ نماز پڑھتے اور پھر اپنے لوگوں کےپاس آتے اور انہیں نماز پڑھاتے

تین مرحومین مکرم مولوی فرزند خان صاحب مبلغ انچارج ضلع خوردہ دنیا گڑھ اڑیشہ، مکرم عبد اللہ موسیکو صاحب لوکل مشنری ملائیشیا اور مکرم عبد الواحد صاحب معلّم سلسلہ قادیان کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 23؍ اکتوبر 2020ء بمطابق 23؍ اخاء 1399 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامسایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 23؍اکتوبر 2020ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت مکرم رانا عطا الرحیم صاحب کے حصے میں آئی۔تشہد، تعوذ، تسمیہ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

آج مَیں جن صحابی کا ذکر کروں گا اُن کا نام ہے حضرت معاذ بن جبلؓ۔ آپؓ کا تعلق قبیلہ خزرج کی شاخ أُدی بن سعد بن علی سے تھا۔ آپؓ کا چہرہ انتہائی سفید ، دانت چمک دار اور آنکھیں سرمئی تھیں۔ معاذ بن جبلؓ اپنی قوم میں سب سے خوب صورت نیز انصار کے نَوجوانوں میں سب سے سخی،بردبار اورباحیا تھے۔آپؓ نے 18 برس کی عمر میں بیعتِ عقبہ ثانیہ کے موقعے پر اسلام قبول کیا اور غزوۂ بدر سمیت دیگر تمام غزوات میں شامل ہوئے۔ آپؓ کی مؤاخات حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے ساتھ قائم ہوئی۔قبولِ اسلام کے بعدمعاذؓ نے بنو سلمہ کے نَوجوانوں کے ساتھ مل کر اپنےقبیلےکے بُت توڑے تھے۔ یہ واقعہ حضرت معاذ بن عمروؓ کے ذکر میں پہلے بھی بیان ہوچکا ہے کہ کس طرح بنو سلمہ کے بعض نَوجوان معاذ بن عمروؓ کے والد کے بُت کو تین متواتر دنوں تک محلّے کی کچراکُنڈی میں پھینکتے رہےاور بالآخر یہ ترکیب حضرت عمروؓ کے قبولِ اسلام کا باعث بن گئی۔

رسول اللہﷺ سے حضرت معاذ بن جبلؓ کے اخلاص ومحبت کا ثبوت یوں ملتا ہے کہ غزوۂ احد سے واپسی پر جب مدینے کی انصار خواتین اپنے شہداء پر رو رہی تھیں تو نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ حمزہؓ کےلیے کوئی رونے والا نہیں۔ اس پر آپؓ اور بعض دیگر انصار صحابہ نے مدینے کی رونے والی عورتوں کو جمع کیااور حضرت حمزہؓ کےلیے رونے کا حکم دیا۔ حضورِانور نے فرمایا کہ یہ آنحضرتﷺ سے عشق تھا،گو اسلام میں رونا اور نوحہ کرنا منع ہے لیکن رسول خداﷺ نےاِن جذبات کو دیکھ کر اظہار فرمایا کہ کاش حمزہؓ کےلیے بھی جذبات کا اظہار ہوتا ورنہ عمومی طور پر اسلام میں یہ سب منع ہے۔ غزوۂ حنین کے موقعے پر آپؐ نے معاذ بن جبلؓ کو مکّےمیں پیچھے چھوڑا تاکہ وہ اہلِ مکّہ کو اسلام سکھا سکیں۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ چار اشخاص سے قرآن سیکھو ابنِ مسعود،سالم مولیٰ ابی حذیفہ، ابی بن کعب اور معاذ بن جبل۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ یہ چار چوٹی کے استاد تھے جن کا کام یہ تھا کہ رسولِ خداﷺ سے قرآن پڑھیں اور لوگوں کو پڑھائیں۔آپؐ نے فرمایا کہ میری امّت میں سب سے زیادہ حلال و حرام کو جاننے والے معاذ بن جبلؓ ہیں۔ اسی طرح ایک اور موقعے پر فرمایا کہ معاذ بن جبل کیا ہی اچھے آدمی ہیں۔ایک مرتبہ رسول اللہﷺ نے آپؓ کا ہاتھ تھام کر فرمایا کہ مَیں یقیناً تم سے محبت کرتاہوں پس ہر نماز کےبعد یہ ذکر کرنا اور اسے ترک نہ کرنا کہ اے اللہ! اپنے ذکر،شکر اور عبادت کی خوب صورتی کےلیے میری مدد فرما۔ اسی طرح ایک اور روایت میں آپؐ نے حضرت معاذ بن جبلؓ کو لاحول پڑھنے کی تاکید فرمائی اور اسےجنّت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ قرار دیا۔ آپؓ نے ایک مرتبہ افضل ایمان کےمتعلق پوچھا تو حضورﷺ نے فرمایا کہ افضل ایمان یہ ہےکہ تم محبت اور نفرت اللہ کےلیے کرواور اپنی زبان کو اللہ کے ذکر میں لگائے رکھو۔

حضرت معاذ بن جبلؓ نبی کریمﷺکے ساتھ نماز پڑھتے اور پھر اپنے لوگوں کےپاس آتے اور انہیں نماز پڑھاتے۔ ایک مرتبہ آپؓ نے عشاء کی نماز میں سورۂ بقرہ شروع کردی۔ نماز کی طوالت کی وجہ سے ایک شخص باجماعت نماز سے علیحدہ ہوگیا۔ جب یہ معاملہ حضورﷺ تک پہنچا تو آپؐ نےحضرت معاذ کو تاکید کرتے ہوئے فرمایاکہ تم لوگوں کو آزمائش میں ڈالتے ہو اور سورۂ شمس،الضحیٰ،اللیل اور سورۂ اعلیٰ وغیرہ سورتیں پڑھنے کی نصیحت فرمائی۔حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریمﷺ نے ان سورتوں کو اوسط سورتوں میں قرار دیا ہے۔ خاص اوقات میں انسان بےشک لمبی سورتیں پڑھ لے یا تکلیف اور بیماری میں چھوٹی سورتیں پڑھ لے لیکن اوسط سورتیں یہی ہیں جنہیں عام طور پر بالجہر نمازوں میں پڑھنا چاہیے۔

ایک مرتبہ حضرت معاذ بن جبلؓ سواری پر نبی کریمﷺ کے پیچھے بیٹھے ہوئےتھےتو آپؐ نے فرمایا کہ اللہ کا بندوں پر یہ حق ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اور کسی کو اس کاشریک نہ بنائیں۔ پھر آپؐ کچھ دیر چلے اور فرمایا اے معاذ بن جبل ؓ! بندوں کا اللہ پر یہ حق ہے کہ جب وہ اللہ کی بات مان لیں اوراپنا حق ادا کردیں تو ان کا حق بنتا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں عذاب نہ دے۔

ایک مرتبہ حضرت معاذ بن جبلؓ نے آنحضرتﷺ سے ایسے عمل کے متعلق پوچھا جو جنّت میں داخل اور آگ سے دُور کردے تو آپؐ نے ارکانِ اسلام پر بھرپور طریق سے کاربند ہونے کی تاکید کی نیز فرمایا کہ مَیں تمہیں خیر کے دروازوں کےمتعلق بتاتا ہوں : روزہ ڈھا ل ہے اور صدقہ گناہوں کو ایسے بجھاتا ہے جیسے پانی آگ کو۔ رات کے درمیان آدمی کا نماز یعنی تہجد پڑھنا۔ فرمایاان سب کی بلند چوٹی اور ستون ’جہاد‘ ہے اور وہ چیز جس پر اس سب کا مدار ہے وہ یہ کہ انسان اپنی زبان کو روک رکھے۔ فرمایا اے معاذ! لوگوں کو آگ میں اوندھےمنہ نہیں گراتی مگر ان کی زبانوں کی کاٹی ہوئی فصلیں۔

رسول اللہﷺ کے زمانے میں مہاجرین اور انصار میں سے تین تین آدمی فتویٰ دیا کرتے تھے۔ان میں حضرت عمرؓ،عثمانؓ، علیؓ، ابی بن کعبؓ، زید بن ثابتؓ اور حضرت معاذ بن جبلؓ شامل تھے۔ یہ تمام اصحاب حضرت ابوبکرؓ کے زمانۂ خلافت میں بھی فتویٰ دیا کرتے تھے۔

حضرت معاذ بن جبلؓ حضرت ابوبکرؓ کے دَور میں شام چلے گئے تو حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ان کی روانگی نے مدینہ اور اہلِ مدینہ کو عِلْمِ فقہ میں محتاج بنادیا ہے۔ آپؓ نمازِ تہجد میں یہ دعا مانگا کرتے کہ اے اللہ! آنکھیں سوئی ہوئی اور ستارے ٹمٹمارہے ہیں تُو حیّ و قیّوم ہے ۔ جنّت کےلیے میری طلب سُست اور آگ سے میرا بھاگنا کم زور اور ضعیف ہے۔ اے اللہ! میرے لیے اپنے ہاں ہدایت رکھ دے ۔

آنحضرتﷺ نے حضرت معاذ بن جبلؓ سے فرمایا کہ جو کوئی دل کی سچائی سے یہ گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اورمحمدﷺ اللہ کے رسول ہیں تواللہ ضرور اس کو آگ پر حرام کردے گا۔ حضرت معاذؓ نے عرض کیا کہ یارسول اللہﷺ! کیا مَیں لوگوں کو اس کے متعلق خبر نہ دوں کہ وہ خوش ہوجائیں۔ آپؐ نے فرمایا تب تو لوگ خوش ہوکر باقی نیکیاں ترک کردیں گے چنانچہ حضرت معاذؓ نے مرتے وقت صاحبِ عِلْم لوگوں کو یہ بات بتائی۔ حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اپنی شرح بخاری میں فرماتے ہیں کہ بعض علمی باتوں کو خاص لوگوں تک محدود کرنا اس لیے ضروری ہے کیونکہ بعض باتیں فتنے میں مبتلا کرتی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح مومن ساز لوگوں نے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کے محض زبانی اقرار کو اپنے لیے آڑبنا رکھا ہے۔ شریعت کی تکلیفوں سے آزاد کرکے ان کو ایمان کا سرٹیفکیٹ دےدینا چاہتے ہیں۔

حضورِانور نے فرمایا کہ اس حدیث سے جس میں کلمہ پڑھنے والوں پر آگ کے حرام ہونے کا ذکر ہے، یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ یہ جزا اللہ تعالیٰ نے دینی ہے اور کسی انسان کا یہ کام نہیں کہ کسی کلمہ گو پر فتوے لگائے۔ آج کل بڑا مشہور ہے کہ مسلمان عید میلاد النبی منا رہے ہیں پس اصل تو یہ ہے کہ ہم آپؐ کی تعلیم اور اسوے کو اپنائیں۔

حضرت معاذ بن جبلؓ غزوۂ تبوک کے موقعے پر رسول اللہﷺ کے ایک معجزے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تبوک کے چشمےمیں بہت تھوڑا پانی تھا ۔آنحضرتﷺ نے اس چشمے کے پانی سے اس طرح ہاتھ منہ دھویا کہ پانی وہیں چشمے پر گرتا جاتا تھا۔ جیسے جیسے پانی چشمے پر تیزی سے گرا تو چشمہ تیزی سے بہنے لگا۔ پھر آپؐ نے معاذ بن جبلؓ کو مخاطب کرکے فرمایا اے معاذ! اگر تیری عمر لمبی ہوئی تو تُو دیکھ لےگا کہ یہ جگہ باغوں سے بھرگئی ہے۔ حضورِانور نے مختلف ادوار کے حوالے پیش فرمائے جن سے معلوم ہوتا تھاکہ تبوک کا علاقہ باغوں سے بھرا ہوا ہےاور وہاں اتنا وافر پانی موجودہے کہ مدینے اور خیبر کے سِوا کہیں اتنا پانی نہیں ۔

خطبے کے آخر میں حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تین مرحومین کا ذکرِ خیر اورنماز جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا۔ پہلا ذکر مکرم مولوی فرزند خان صاحب مبلغ انچارج ضلع خوردہ دنیا گڑھ اڑیشہ کا تھا۔ مرحوم 10؍ستمبر کو وفات پاگئے تھے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ مرحوم منکسر المزاج،نرم دل، دعاگو شخصیت کے مالک تھے۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹا اور ایک بیٹی سوگوار چھوڑے ہیں۔

دوسرا جنازہ مکرم عبداللہ موسیکو صاحب لوکل مشنری ملائیشیا کا تھا۔ آپ 7؍اکتوبر کو 68 برس کی عمر میں وفات پاگئے تھے۔اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ مرحوم نے جلسہ سالانہ تاکینابالو1973ء میں شرکت کی اور اُس روحانی ماحول سے متاثر ہوکر بیعت کی توفیق پائی۔ آپ بڑے مہمان نواز، صاحبِ عِلْم، تبلیغ کاشوق رکھنے والےبڑے disciplined آدمی تھے۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ آٹھ بچےشامل ہیں۔

تیسرا ذکرِ خیر مکرم عبدالواحد صاحب معلّم سلسلہ قادیان کا تھا جو 12؍ستمبر کو 56 برس کی عمر میں وفات پاگئے تھے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ بڑےاطاعت گزار اور محنتی شخصیت کے مالک تھے۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹا اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔

آخر میں حضورِانورنے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ تمام مرحومین سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائےاور ان کی اولادوں کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button