سیرت النبی ﷺ

رحمۃ للعالمینؐ کے انبیاء علیہم السلامپر عظیم احسانات

(میر انجم پرویز۔عربی ڈیسک یوکے)

وَ اِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیْھَا نَذِیْرٌ

ہم یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ جس قدر دنیا میں مختلف قوموں کے لیے نبی آئے ہیں اور کروڑہا لوگوں نے ان کو مان لیا ہے اور دنیا کے کسی ایک حصہ میں اُن کی محبت اور عظمت جاگزیں ہوگئی ہے اور ایک زمانہ دراز اس محبت اور اعتقاد پر گزر گیا ہے تو بس یہی ایک دلیل اُن کی سچائی کے لیے کافی ہے

کل شب رخشِ خیال مجھے ایک ایسی وادی میں لے گیا جہاں مختلف رنگ ونسل کے لوگ بستے تھے۔ ہر ایک کی تہذیب الگ اور مسلک ومذہب جدا تھا۔ ہر کوئی ایک دوسرے کو ظلمت میں سرگرداں اور اپنے تئیں جادۂ صواب پر گردانتا تھا۔ ایک ہی بستی کے باسی ہونے کے باوصف سب کے قبلے الگ الگ تھے اور بظاہر یوں محسوس ہوتا تھا کہ ان میں کوئی قدر مشترک نہیں۔ چشمِ تصور یہ نظارہ دیکھ کر حیران وپریشان تھی۔

اسی عالمِ تخیل میں میں ایک ہندو کے پاس گیا تو اس نے بتایا کہ ہم سب سے پرانی تہذیب ہیں اور ہمیں پرمیشور نے شروع ہی سے اپنے گیان اور پربھا (نور) سے نوازا۔ باقی دنیا تو ہمیشہ سے گھپ اندھیروں میں ہے۔ میں نے پوچھا کہ کیا کوئی بھگوان سمان راستباز آپ میں ایسا گزرا ہے جس نے آپ لوگوں کو یہ گیان کی راہ دکھائی ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہم میں رامچندر جی اور کرشن جی جیسے راستباز گزرے ہیں، جنہوں نے ہمیشہ سچائی کی خاطر کسی قربانی سے دریغ نہ کیا اور ایسے چمتکار اور نمونے دکھائے جو رہتی دنیا تک ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ میں نے جب رامچندرجی اور کرشن جی کے حالات زندگی سنے تو حیران رہ گیا کہ کیسے انہوں نے ہر کشٹ اٹھا کر لوگوں کو حق کی راہ دکھائی اور اپنے نمونے سے خلق ِکثیر کو متأثر کیا۔

اس کے بعد میں نےرخشِ خیال کی مہار موڑی تو ایک بدھ مت کے ماننے والے سےملاقات ہوگئی اور اس سے پوچھا کہ آپ کس راستباز کے پیرو ہیں ؟ تو اس نے بتایا کہ اصل راستباز تو حضرتِ گوتم بدھ تھے، جنہوں نے دنیا سے اپنے آپ کو الگ کرکے اپنے اندر کی دنیا کا کھوج لگایا اور حقیقی گیان تک رسائی حاصل کی۔ انہوں نے سب کچھ کھو کر اس سچائی کو پایا جس کی بدولت دکھ سے ابدی نجات حاصل ہو سکتی ہے۔ میں نے پوچھا کہ کیا کہیں اور بھی سچا گیا ن اور حقیقی نور پایا جاتا ہے تو انہوں نے کہا کہ باقی تو سب قصے کہانیاں ہیں، اس دنیا کے درد کا اصل مداوا صرف گوتم بدھ ہی ہیں۔

پھر رخشِ خیال آگے بڑھا اور مجھے ایک زرتشتی کے پاس لے گیا جس نے مجھے بتایا کہ کس طرح ان کے پیشوا حضرت زرتشت نے سچائی کی راہ میں قربانیاں دیں اور اپنے عظیم نمونے سے لاکھوں کی زندگیاں بدل دیں۔ میں نے دیکھا کہ ان کی جدوجہد اور کرامات بھی رامچندر، کرشن اور گوتم بدھ سے ملتی جلتی تھیں، لیکن جب پوچھا کہ کیا کہیں اور بھی سچائی پائی جاتی ہے تو جواب یہی تھا کہ اصل سچائی تو ان کے پاس ہے باقی سب محض خودفریبی کا شکار ہیں۔

آگے گیا تو ایک یہودی سے ملاقات ہوئی، جس نے مجھے بتایا کہ ہم خدا کی چنیدہ اور پسندیدہ قوم ہیں، ہم میں خدا نے بہت سے راستباز اور نبی بھیجے، جنہوں نے خدا کی محبت میں اپنے آپ کو فنا کر لیا اور اپنی بستیوں کی اصلاح کے لیے اپنی جان جوکھوں میں ڈالی اور پھر خدا نے حضرت موسیٰؑ جیسا عظیم نبی مبعوث کیا جس نے ہمیں تورات جیسی کتاب دی جوہدایت اور نور سے بھرپور ہے۔ ایک یہی سچائی کی راہ ہے، اس کے علاوہ کوئی راہ نجات کی راہ نہیں اور کوئی دوسری قوم خدا کی محبوب نہیں۔

میری حیرانی وپریشانی بڑھتی گئی کہ یاالٰہی! یہ کیا ماجرا ہے! ہر کوئی اپنے اپنے پیشوا اور رہ نما کو تو سچا کہتا ہے اور دوسرے مذاہب کے پیشواؤں کو گمراہ اور ناحق سمجھتا ہے حالانکہ ہر ایک کی زندگی ملتی جلتی ہے اور ہر ایک کی کرامات اور قربانیاں اور اپنی قوم کی اصلاح کے لیے جدوجہد باہم مشابہ ہے، پھر بھی کوئی ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں!

اسی افسردگی اور غم کی حالت میں میری ملاقات ایک مسیحی سے ہوگئی۔ اس نے جو حضرتِ مسیحؑ کی دردناک کہانی سنائی تو اس دکھے ہوئے دل سے رہا نہ گیا اور فرطِ غم سے آنکھیں اشکوں کا مینہ برسانے لگیں۔ اس نے بتایا کہ ہمارے مذہب کا بنیادی نقطہ محبت ہے تو میں سمجھا کہ شاید یہ سب انبیاء اور رشیوں کو تسلیم کرتے ہوں لیکن افسوس کہ یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور تھا۔ یہ جن انبیاء کو خدا کی طرف سے مانتے تھے ان کو بھی خطاکار اور گناہگار سمجھتے تھے اور طہارت وعصمت کو صرف حضرت مسیحؑ کا خاصہ قرار دیتے تھے۔ میں نے کہا کہ باقی امتوں اور قوموں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے تو کہنے لگے کہ وہ سب نجات سے محروم رہیں گی کیونکہ نجات صرف مسیح کے کفارے پر ایمان لانے سے نصیب ہو سکتی ہے۔

روشنی اور امید کی کرن

اب تو میں بالکل مایوس ہو چکا تھا اور میرا غم اپنی انتہا کو پہنچ گیا تھا کہ ایک دریچے سے یہ آواز آئی:

اِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیْھَا نَذِیْرٌ۔ (فاطر:25)

کہ دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں گزری جس میں خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی ہدایت دینے والا نہ آیا ہو۔ یہ آواز تو جیسے میرے زخموں کا مرہم ثابت ہوئی۔ میرے بجھے ہوئے اور مایوس دل میں روشنی اور امید کی ایک کرن نمودار ہوئی۔ میں نے اس دروازے پر دستک دی تو صاحبِ خانہ نے مجھے اندر آنے کو کہا۔ میں اندر گیا تو اس نے مجھے بٹھا کر مناسب مہمان نوازی کی اور پھر بتایا کہ ہم مسلمان ہیں اور ہمارا رسول رحمۃ للعالمین ہے جس نے ہمیں یہ تعلیم دی کہ ہمارا خدا رب العالمین ہے جس نے ہدایت دینےکے لیے کسی ایک قوم کو منتخب نہیں کیا بلکہ ہر قوم میں ہادی اور مصلح بھیجے جو لوگوں کو ان کے خالق کا پتہ دیتے تھے۔ تمام زبانیں اس خدا کی ہی زبانیں ہیں، وہ کسی ایک زبان میں کلام نہیں کرتا بلکہ اس نے ہر قوم کو ان کی زبان میں اپنا پیغام دیا اور سب نبی، رشی، اوتار اس خدائے واحد کے برگزیدہ اور راستباز اور پاکباز لوگ تھے جن کو خدا نے اپنی خاص رحمت سے عصمت کی ردا پہنائی اور شیطان کو ان پر کبھی سلطان عطا نہیں کی بلکہ ان انبیاء کے ماننے اور سچی پیروی کرنے والوں نے بھی اس ازلی دشمن سے دائمی آزادی پائی۔ سب نبیوں کو ماننا ہمارا جزوِ ایمان ہے اور ایمان کے لحاظ سے ہم کسی نبی میں فرق نہیں کرتے بلکہ سب کو سچا مانتے ہیں۔ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ۔

ہرچند یہ بات ایک خیال اور قصے کے رنگ میں ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ آنحضرتﷺ کا یہ غیرمعمولی احسان ہے کہ آپؐ نے ہمیں ایسی خوبصورت تعلیم دی جو تمام دنیا میں امن وآشتی اور اخوت ومحبت کی ضامن ہے۔

اللہ تعالیٰ رب العالمین ہے

ایک طرف تمام مذاہب کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہدایت ان سے خاص ہے تو دوسری طرف مسلمانوں میں بھی یہ خیال رواج پا گیا ہے کہ خدا کی طرف سے انبیاء مخصوص قوموں اور علاقوں میں آئے جن کاقرآن کریم نے ذکر کیا ہے۔ دیگر اقوام میں مصلح تو پیدا ہوئے ہیں لیکن وہ خدا کی طرف سے مبعوث نہیں تھے۔ حالانکہ یہ بات قرآنی تعلیم کے سراسر منافی ہے۔ ان کو جو بھی نام دے لیں لیکن وہ تھے خدا کے پیغمبر، کیونکہ ہدایت کے سامان کرنا خدا کا کام ہے اس لیے یہ کیونکر ممکن ہے کہ وہ خدا جو رب العالمین ہے اس نے بعض لوگوں کے لیے تو ہدایت کے سامان کیے ہوں مگر باقی لوگوں کو محروم اور بےیارومددگار چھوڑ دیا ہو؟

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

’’وہ (اللہ تعالیٰ۔ ناقل) رب العالمین ہے اور اس نے اناج، ہوا، پانی، روشنی وغیرہ سامان تمام مخلوق کے واسطے بنائے ہیں۔ اسی طرح سے وہ ہر ایک زمانہ میں ہر ایک قوم کی اصلاح کے واسطے وقتاً فوقتاً مصلح بھیجتا رہا ہے جیسا کہ قرآن شریف میں ہے

وَاِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيْرٌ

خدا تمام دنیا کا خدا ہے کسی خاص قوم سے اس کا کوئی رشتہ نہیں۔‘‘

(الحکم جلد 12نمبر 36 مورخہ 2؍ جون 1908ء صفحہ6)

مِنْھُمْ مَّنْ لَّمْ نَقْصُصْ عَلَیْکَ

محسنِ انسانیتﷺ نے جہاں ہمیں یہ بتایا کہ

لِکُلِّ قَوْمٍ هَادٍ (الرعد:8)

ہر قوم میں خدا کی طرف سے ہدایت دینے والے گزرے ہیں، وہاں

مِنْهُمْ مَنْ قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُمْ مَّنْ لَّمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ (غافر:79)

فرما کر یہ بھی باور کروا دیا کہ ہدایت کے لیے جس قدر انبیاء کی مثالیں بیان کرنی ضروری تھیں اس قدر بطور نمونہ قرآنِ کریم میں بیان کردی گئی ہیں۔ ان کے علاوہ بہت سے انبیاء ہیں جن کا ذکر نہیں کیا گیا۔ لاکھوں انبیاء کا ذکر تو یوں بھی ناممکن تھا، تاہم جن انبیاء کا ذکر قرآن کریم میں نہیں مگر ان کی اقوام دنیا میں موجود ہیں ان کی زندگی کا قرآن کریم میں مذکور انبیاء کے حالات کی روشنی میں جائزہ لے کر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ انبیاء یا مصلح یا رشی یا اوتار یا استاد بھی خدا کے سچے پیغمبر تھے جنہوں نے ہمیشہ اپنی قوموں کو سچائی اور توحید کی راہ دکھائی، مگر ان کے ماننے والے وقت کے ساتھ ساتھ راہِ حق سے دور چلے گئے۔ اتنے دور کہ جب دوبارہ ان کے پاس حق آیا تو انہوں نے اسے قبول کرنے سے ہی انکار کردیا اور اپنے باپ دادا کی راہوں اور رسموں کو چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ تاہم ہر قوم کے پیغمبر ایک خدا کی طرف سے ہی مبعوث ہوئے تھے اور انہوں نے اپنے دین کی بنیاد یقیناً حق پر ہی قائم کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی محبت وعقیدت آج تک لوگوں کے دلوں میں بٹھائی ہوئی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

’’ہم یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ جس قدر دنیا میں مختلف قوموں کے لیے نبی آئے ہیں اور کروڑہا لوگوں نے ان کو مان لیا ہے اور دنیا کے کسی ایک حصہ میں اُن کی محبت اور عظمت جاگزیں ہوگئی ہے اور ایک زمانہ دراز اس محبت اور اعتقاد پر گزر گیا ہے تو بس یہی ایک دلیل اُن کی سچائی کے لیے کافی ہے، کیونکہ اگر وہ خدا کی طرف سے نہ ہوتے تو یہ قبولیت کروڑہا لوگوں کے دلوں میں نہ پھیلتی۔ خدا اپنے مقبول بندوں کی عزت دوسروں کو ہرگز نہیں دیتا اور اگر کوئی کاذب اُن کی کرسی پر بیٹھنا چاہے تو جلد تباہ ہوتا اور ہلاک کیا جاتا ہے۔ اسی بنا پر ہم وید کو بھی خدا کی طرف سے مانتے ہیں اور اُس کے رشیوں کو بزرگ اور مقدس سمجھتے ہیں۔‘‘

(پیغام صلح، روحانی خزائن جلد23صفحہ 452)

اسی طرح آپ علیہ السلام مزید فرماتے ہیں :

’’میرا یہ مذہب نہیں ہے کہ اسلام کے سوائے باقی سب مذاہب کی بنیاد ہی جھوٹ پر رکھی گئی ہے۔ میرا یہ ایمان ہے کہ وہ خدا جو تمام مخلوق کا خدا ہے وہ سب پر نظر رکھتا ہے اور جیسا وہ سب کی جسمانی ضروریات کو پورا کر رہا ہے ایسا ہی روحانی ضروریات کو بھی پورا کرتا ہے۔ یہ سچ نہیں کہ دنیا کی ابتدا سے اس نے صرف ایک قوم کو ہی چن لیا ہے اور دوسروں کی کچھ پروا نہیں کی۔ … جو شخص یہ کہتا ہے کہ وہ (دیگر اقوام کے پیشوا۔ ناقل) راست باز نہ تھے وہ قرآن شریف کے خلاف کہتا ہے کیونکہ اس میں فرمایا ہے:

اِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيْرٌ

یعنی کوئی قوم اور امت ایسی نہیں گزری جس میں کوئی نذیر نہ آیا ہو۔ پس اس میں شک نہیں کہ ابتدا میں ان تمام مذاہب کی بنیاد حق اور راستی پر تھی مگر مرورِ زمانہ سے ان میں طرح طرح کی غلطیاں داخل ہوگئیں یہاں تک کہ اصل حقیقت انہیں غلطیوں کے نیچے چُھپ گئی۔‘‘

(ریویو آف ریلیجنز جلد 3نمبر 10صفحہ 352)

سب نبیوں کی صداقت آنحضرتﷺ کی مرہون منت ہے

آپؐ کے ذریعہ سےہمیں گذشتہ تمام انبیاء کی صداقت کا ثبوت ملا۔ یہی نہیں بلکہ آپؐ نے تمام انبیاء کے متفرق کمالات کو اپنی ذات میں جمع کر کے فیوض وبرکات کا ایک ایسا چشمہ جاری کردیا جو کبھی خشک ہونے والا نہیں۔ حق کے پیاسے اب اسی چشمے سے سیراب ہوتے اور عرفان کے جام بھرتے ہیں۔ گویا آپؐ سب انبیاء کا آئینہ ہیں۔ اگر آج ہم نے ان سب انبیاء کو دیکھنا ہو اور ان کے کمالات اور برکات کا مشاہدہ کرنا ہو تو آپ کی ذات میں دیکھ سکتے ہیں اور آپؐ کی پیروی کرکے ان برکات کا ذاتی تجربہ کر سکتے ہیں۔ اگر رسول کریمﷺ کے فیض سے ان برکات کا تجربہ کرنا ممکن نہ ہوتا تو گذشتہ انبیاء کی صداقت کا ہمارے پاس کیا ثبوت ہوتا؟ لہٰذا یہ کہنا بالکل بجا ہوگا کہ سب نبیوں کی صداقت آنحضرتﷺ کی مرہونِ منت ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

’’ہم خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں نہ آتے اور قرآن شریف نازل نہ ہوتا اور وہ برکات ہم بچشم خود نہ دیکھتے جو ہم نے دیکھ لیے تو ان تمام گذشتہ انبیاء کا صدق ہم پر مشتبہ رہ جاتا، کیونکہ صرف قصوں سے کوئی حقیقت حاصل نہیں ہوسکتی اور ممکن ہے کہ وہ قصّے صحیح نہ ہوں اور ممکن ہے کہ وہ تمام معجزات جو اُن کی طرف منسوب کیے گئے ہیں وہ سب مبالغات ہوں، کیونکہ اب ان کا نام و نشان نہیں، بلکہ ان گذشتہ کتابوں سے تو خدا کا پتہ بھی نہیں لگتا اور یقیناً نہیں سمجھ سکتے کہ خدا بھی انسان سے ہمکلام ہوتا ہے، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے یہ سب قصّے حقیقت کے رنگ میں آگئے۔ اب نہ ہم قال کے طور پر بلکہ حال کے طور پر اس بات کو خوب سمجھتے ہیں کہ مکالمہ الٰہیہ کیا چیز ہوتا ہے اور خدا کے نشان کس طرح ظاہر ہوتے ہیں اور کس طرح دُعائیں قبول ہو جاتی ہیں۔ اور یہ سب کچھ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے پایا۔ اور جو کچھ قصوں کے طور پر غیر قومیں بیان کرتی ہیں وہ سب کچھ ہم نے دیکھ لیا۔‘‘

(چشمۂ معرفت روحانی خزائن جلد23صفحہ 302)

نبی کریمﷺ کے بھائی کرشن اور رامچندر

حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں :

’’ہم دیکھتے ہیں کہ ہندوستان میں حضرت کرشنؑ اور رامچندرجی کو نبیوں کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے اور ان کا نام اوتار رکھا جاتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا کہ

کَانَ فِی الْھِنْدِ نَبِیًّا اَسْوَدُ اللَّوْنِ اِسْمُہٗ کَاھِنًا

یعنی ہندوستان میں ایک سیاہ فام نبی گزرے ہیں جن کا نام کنہیا یعنی کرشن تھا۔ اب دیکھو کہ ہندو کہتے ہیں کہ مسلمان ہمارے دشمن ہیں لیکن قرآن کہتا ہے

وَلِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍ

ہندوستان میں بھی ہمارے بعض بزرگ بندے گزرے ہیں۔ اور جب ہندوستان میں بھی محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بھائی گزرا ہے تو اُس کی اولاد کے ہم دشمن کیسے ہو سکتے ہیں۔ مسلمان ہرگز ہندوؤں کے دشمن نہیں کیونکہ ہندو حضرت کرشنؑ اور رام چندر جیؑ کی اولاد ہیں۔ یا کم سے کم اُن کی اُمت ہیں او راُن کے ماننے والے ہیں اور ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے ہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ تمام انبیاء آپس میں بھائی بھائی ہو تے ہیں۔ (بخاری کتاب الانبیاء) پس کرشنؑ اور رامچندر جیؑ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بھائی تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بھتیجوں کے ہم دشمن کیسے ہوسکتے ہیں۔ جو لوگ ہمارے آقا کے بھتیجے ہوں گے نہ ہمارا آقا اُن کا دشمن ہو گا اور نہ ہم اُن کے دشمن ہوں گے۔ یہ محض غلط فہمی اور ضِدّ ہے ورنہ مسلمان جو قرآن کریم سمجھتا ہے وہ نہ کسی ہندو کا دشمن ہو سکتا ہے اور نہ اس کی عداوت اس کے اندر پیدا ہو سکتی ہے۔‘‘

(سیر روحانی نمبر12، صفحہ نمبر 13)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

’’خدا تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا ہے کہ راجہ رام چندر اور کرشن جی وغیرہ بھی خدا کے راست باز بندے تھے اور اس سے سچا تعلق رکھتے تھے۔ میں اس شخص سے بیزار ہوں جو ان کی نندیا یا توہین کرتا ہے۔ اس کی مثال کنویں کے مینڈک کی سی ہے جو سمندر کی وسعت سے ناواقف ہے۔ جہاں تک ان لوگوں کے صحیح سوانح معلوم ہوتے ہیں ان سے پایا جاتا ہے کہ ان لوگوں نے خدا کی راہ میں بڑے بڑے مجاہدات کیے اور کوشش کی کہ اسی راہ کو پائیں جو خدائے تعالیٰ تک پہنچنے کی حقیقی راہ ہے۔ جو شخص یہ کہتا ہے کہ وہ راست باز نہ تھے وہ قرآن شریف کے خلاف کہتا ہے۔‘‘

(ریویو آف ریلیجنز جلد 3 نمبر 10صفحہ 352)

حضرت زرتشت کی نبوت

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس سوال کے جواب میں کہ زرتشت نبی تھا یا نہیں فرمایا:

’’ہم تو یہی کہیں گے کہ اٰمَنْتُ بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ خدا کے کل رسولوں پر ہمارا ایمان ہے… اتنے کروڑ مخلوقات پیدا ہوتی رہی اور کروڑ ہا لوگ مختلف ممالک میں آباد رہے۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ خدا تعالیٰ نے ان کو یونہی چھوڑ دیا ہو اور کسی نبی کے ذریعہ سے ان پر اتمامِ حجت نہ کی ہو۔ آخر ان میں رسول آتے ہی رہے ہیں ممکن ہے کہ یہ بھی انہیں میں سے ایک رسول ہوں، مگر ان کی تعلیم کا صحیح صحیح پتہ اب نہیں لگ سکتا کیونکہ زمانہ دراز گزر جانے سے تحریف لفظی اور معنوی کے سبب بعض باتیں کچھ کا کچھ بن گئی ہیں۔ حقیقی طور پر محفوظ رہنے کا وعدہ تو صرف قرآن مجید کےلیے ہی ہے۔ مومن کو سوءِظن کی نسبت نیک ظن کی طرف جانا چاہیے۔ قرآن مجید میں

وَاِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيْرٌ

لکھا ہے اس لیے ہو سکتا ہے کہ وہ بھی ایک رسول ہوں۔‘‘

(الحکم جلد 11نمبر 39مورخہ 31؍ اکتوبر 1907ء صفحہ 5)

حضرت کنفیوشس اور حضرت بدھؑ

حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں :

’’اسی طرح چین میں کنفیوشس کو پیش کیا جاتا ہے گو چینی زبان میں آپ کا نام نبی کی بجائے کچھ اَور رکھا گیا ہے اور آپ کو زیادہ تر اُستاد کے نام سے یاد کیا جاتا ہے مگر اسی کو عربی زبان میں ’’نذیر‘‘ اور ’’ہادی‘‘ کہتے ہیں۔ اِسی طرح برما اور سیلون میں حضرت بدھ علیہ السلام کو پیش کیا جاتا ہے کہ وہ خدا رسیدہ انسان تھے اور خدا کا کلام اُن پر نازل ہوتا تھا۔ گوبدھ علیہ السلام بہار میں پیدا ہوئے ہیں مگر بہر حال جن قوموں نے انہیں مانا وہ اُن کے لیے ہادی ہی تھے۔ ہندوستان نے بھی ایک دفعہ اُن کو مان لیا تھا لیکن بعد میں آپ کے ماننے والوں کو اُس نے ملک سے نکال دیا۔ چنانچہ اُن میں سے بعض تبت چلے گئے، بعض برما چلے گئے، کچھ سیلون یا جاپان چلے گئے۔‘‘

(سیر روحانی صفحہ774، شائع کردہ فضل عمر فاؤنڈیشن انڈیا، 2017ء)

سقراط بھی خدا تعالیٰ کا ایک نبی تھا

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ بیان فرماتے ہیں :

’’عام طور پر یہ خیا ل کیا جاتاہے کہ یونان میں کوئی نبی نہیں گزرا اور گویہ ہمارا کام نہیں کہ ہم وہاں کے کسی نبی کو تلاش کرتے پھریں مگر چونکہ قرآن کریم نے اصولی طور پر کہہ دیا ہے کہ ہر قوم میں کوئی نہ کوئی نبی گزرا ہے اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یونان میں بھی نبی آیا ہے اور سقراط کے متعلق تاریخ کہتی ہے کہ وہ کہا کرتا تھا مجھ پر فرشتے اُترتے ہیں اور مجھ سے باتیں کرتے ہیں۔ اُس وقت کی حکومت نے جو بُت پرست تھی اُس کے قتل کی تاریخ مقرر کر دی اُس کے ایک شاگرد نے یہ پیشکش کی کہ آپ یہاں سے بھاگ جائیں تو سقراط نے جواب دیا کہ مجھے تو فرشتوں نے بتایا ہے کہ تیری موت اِس طرح واقع ہوگی۔ مَیں اِس موت سے کِس طرح بھاگ سکتاہوں۔ (دائرۃ المعارف)‘‘

(سیر روحانی صفحہ775، شائع کردہ فضل عمر فاؤنڈیشن انڈیا، 2017ء)

دیگر اقوام کے انبیاء صداقتِ اسلام کا ثبوت

حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں :

’’قرآنِ کریم نے اصولی طور پر یہ بات بیان کی ہے کہ

اِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیْھَا نَذِیْرٌ (فاطر:25)

یعنی دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں گزری جس میں خد تعالیٰ کی طرف سے کوئی ہدایت دینے والا نہ آیا ہو۔ اِسی طرح فرماتا ہے وَلِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍ۔ (الرعد:8)ہر ایک قوم میں کوئی نہ کوئی ہادی گزرا ہے۔

…غرض قرآن کریم نے اس ایک آیت میں ہی تمام مذہبی تاریخِ عالَم بیان کردی اور سب تاریخوں پر روشنی ڈال دی۔ اب اگر ایک عیسائی یا ہندو چین جاتا ہے اور وہاں کنفیوشس کا ذکر سُنتا ہے تو وہ اپنی کتاب کے بچاؤ کی فکر میں پڑجا تا ہے کیونکہ اس نے انجیل اور وید میں پڑھا ہوتا ہے کہ خدا صرف عیسائیوں اور ہندوؤں کا خدا ہے باقی قوموں کا خدا نہیں لیکن اگر کوئی مسلمان غیر قوموں میں جاتا ہے اور وہاں اُن کے ہادیوں کا ذکر سُنتا ہے تو بجائے کوئی فکر کرنے کے الحمد للہ کہتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میری کتاب کی سچائی ظاہر ہوگئی۔ مجھے تاریخِ عالم میں تلاش کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی خود اِن قوموں نے میرے سامنے اپنے ہادی پیش کردیے اور میری کتاب کی سچائی ظاہر کردی۔ چین والے کنفیوشس کو پیش کرتے ہیں، برما اور سیلون والے بدھ علیہ السلام کو پیش کرتے ہیں تو ہندوکو فکر پڑجاتی ہے، عیسائی کو فکر پڑ جاتی ہے، یہودی کو فکر پڑ جاتی ہے کہ یہ کیا ہؤا ہمیں تو بڑی مشکل پیش آگئی، لیکن ایک مسلمان جہاں کہیں جاتا ہے اُسے کوئی فکر نہیں ہوتی۔ اُس کے سامنے کنفیوشس کا نام پیش کیا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے الحمدللہ۔ اُس کے سامنے زرتشت کا نام پیش کیا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے الحمدللہ۔ کرشن کا نام آتا ہے تو کہتا ہے الحمدللہ۔ رام چندرجی کا نام آتاہے تو کہتاہے الحمدللہ۔ بدھ کا نام آتا ہے تو کہتا ہے الحمدللہ۔ کیونکہ وہ سمجھتا ہے میری کتاب میں یہی لکھا ہے کہ ہر قوم میں ہادی آئے ہیں مجھے کوئی تلاش نہیں کرنی پڑی۔ ہندوؤں نے آپ ہی پیش کردیا ہے کہ ہمارے اندر کرشنؑ اور رامچندرجی وغیرہ آئے ہیں، بُدھوں نے آپ ہی پیش کردیا ہے کہ ہمارے اندر بدھ گزرے ہیں، عیسائیوں نے آپ ہی پیش کردیا ہے کہ ہمارے اندر حضرت عیسیٰ علیہ السلام گزرے ہیں، یہودیوں نے آپ ہی پیش کردیا ہے کہ ہمارے اندر موسیٰ علیہ السلام گزرے ہیں، یونانیوں نے آپ ہی پیش کردیا ہے کہ ہمارے اندر سقراط گزرا ہے۔‘‘

(سیر روحانی صفحہ773تا775، شائع کردہ فضل عمر فاؤنڈیشن انڈیا، 2017ء)

سب پاک ہیں پیمبر

پہلے انبیاء پر لوگوں نے طرح طرح کی تہمتیں لگائیں اور ایسی ایسی گھٹیا باتیں ان کی طرف منسوب کردیں جن کو پڑھ اور سن کر ایک باغیرت کا دل لخت لخت ہو جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہؤا کہ لوگوں کے دل سے انبیاء کی حقیقی محبت جاتی رہی اور وہ دین کی حقیقت اور نیکی کی راہ سے دور جا پڑے۔ کیونکہ جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ انبیاء بھی نفس کے تابع ہو کر اور شیطان کے تسلط میں آکر اخلاق سے گرے ہوئے کام کر سکتے ہیں تو ہم لوگ کس طرح ان سے بچ سکتے ہیں۔ مگر آنحضرتﷺ نے ہمیں بتایا کہ انبیاء کا مقام تو بہت بلند ہوتا ہے، ان سے ایسے کاموں کا سرزد ہونا تو دور کی بات ہے خداکے باوفا بندے اور مخلص مومنین بھی ان اعمالِ شنیعہ کےمرتکب نہیں ہوتے۔ جیسا کہ فرمایا:

اِنَّہٗ لَیۡسَ لَہٗ سُلۡطٰنٌ عَلَی الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَلٰی رَبِّہِمۡ یَتَوَکَّلُوۡنَ۔ اِنَّمَا سُلۡطٰنُہٗ عَلَی الَّذِیۡنَ یَتَوَلَّوۡنَہٗ وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ بِہٖ مُشۡرِکُوۡنَ۔ (النحل: 100-101)

کہ شیطان کو ایمان لاکر اللہ پر توکل کرنے والوں پر کوئی تسلط نہیں، اس کو تو اپنے دوستوں اور مشرکوں پر تسلط اور قبضہ حاصل ہوتا ہے۔ انبیاء تو اول المومنین ہوتے ہیں پھر وہ کیسے شیطان کے قبضے میں آ سکتے ہیں ؟

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

’’گناہوں سے معصوم انبیاء ہیں لیکن دوسرے لوگ توبہ و استغفار کے ذریعہ سے ان سے مشابہت پیدا کر لیتے ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ166، ایڈیشن1988ء)

ہر نبی قول اللہ کی عملی تصویر

نبی دنیا میں اس لیے آتے ہیں کہ نیکی اور تقویٰ کو قائم کریں اور ہدایت کو جاری کریں اس لیے وہ لوگوں کے لیے نمونہ ہوتے ہیں۔ اگر وہ نمونہ نہ ہوں تو پھر ان کی بعثت بےمعنی اور عبث ٹھہرتی ہے۔ نبیوں کی بعثت کی غرض ہی یہ ہوتی ہے کہ تا لوگ اللہ تعالیٰ کے قول کو عملی صورت میں دیکھ لیں اور ان کی عملی تصویر سے لفظی حقیقت کو معلوم کریں اور ان کے نمونے سے جرأت حاصل کر کے نیکی کی راہ میں ترقی کریں اور ان کی قوتِ قدسیہ سے طاقت حاصل کر کے اپنی کمزوریوں پر غالب آویں۔ آنحضرتﷺ نے نہ صرف یہ کہ اپنے عملی نمونے سے بتا دیا کہ نبی معصوم ہوتے ہیں بلکہ یہ تعلیم بھی دی کہ

وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللّٰهِ۔ (النساء:65)

آپؐ سے پہلے بھی تمام انبیاء اپنی اپنی قوم کے لیے قابلِ تقلید نمونہ تھے۔ پس اگر نمونہ برا ہوگا تو قوم نیکی کی راہ پر کیسے قدم مار سکتی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

’’عصمت انبیا کا یہی رازہے یعنی نبی کیوں معصوم ہوتے ہیں ؟ تو اس کا یہی جواب ہے کہ وہ استغراق محبت الٰہی کے باعث معصوم ہوتے ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلدسوم صفحہ33، ایڈیشن1988ء)

انبیاء پر لگائے جانے والے بعض الزامات کا جائزہ

نبی کریمﷺ کی بعثت اور قرآن کریم کے نزول سے قبل انبیاء کی تاریخ کا بڑا ماخذ بائبل ہے۔ جب اس کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کس کس طرح کے الزامات انبیاء پر لگائے گئے۔ آنحضرتﷺ نے جو کتاب ہدایت کے لیےدنیا کے سامنے پیش کی اس میں انبیاء کو ان تمام الزامات سے بری قرار دیا۔ چنانچہ ذیل میں قرآن کریم میں مذکور تاریخِ انبیاء کی روشنی میں انبیاء پر لگائے جانے والے بعض الزامات کی حقیقت کا جائزہ لیتے ہیں۔ اس موضوع پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :

حضرت لُوطؑ پر بائبل کا گندا الزام

’’بائبل میں حضرت لُوط علیہ السلام کے متعلق آتا ہے:

’’اور لوط ضُغر سے اپنی دونوں بیٹیوں سمیت نکل کر پہاڑ پر جا رہا کیونکہ ضُغر میں رہنے سے اُسے دہشت ہوئی۔ اور وہ اور اُس کی دونوں بیٹیاں ایک غار میں رہنے لگیں۔ تب پلوٹھی نے چھوٹی سے کہا کہ ہمارا باپ بوڑھا ہے اور زمین پرکوئی مرد نہیں جو تمام جہاں کے دستور کے موافق ہمارے پاس اندر آئے۔ آؤ ہم اپنے باپ کو مَے پلائیں اور اُس سے ہم بستر ہوں تا کہ اپنے باپ سے نسل باقی رکھیں۔ سو انہوں نے اُسی رات اپنے باپ کومَے پلائی اور پلوٹھی اندر گئی اور اپنے باپ سے ہم بستر ہوئی۔ پر اُس نے اُس کے لیٹتے اور اُٹھتے وقت اُسے نہ پہچانا۔ اور دوسرے روز ایسا ہؤا کہ پلوٹھی نے چھوٹی سے کہا کہ دیکھ کل رات کو مَیں اپنے باپ سے ہم بستر ہوئی آؤ آج رات بھی اُس کو مَے پلائیں اور تُو بھی جا کے اُس سے ہم بستر ہو کہ اپنے باپ سے نسل باقی رکھیں۔ سو اُس رات کو بھی انہوں نے اپنے باپ کو مَے پلائی اور چھوٹی اُٹھ کے اس سے ہم بستر ہوئی اور اُس نے اُس کے لیٹتے اور اُٹھتے وقت اُسے نہ پہچانا۔ سو لُوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں اور بڑی ایک بیٹا جنی اور اُس کا نام موآبؔ رکھّا وہ موابیوں کا جو اب تک ہیں باپ ہوا اور چھوٹی بھی ایک بیٹا جنی اور اس کا نام بنیؔ عمی رکھا۔ ‘‘

(پیدائش باب 19آیت 30تا 38)

قرآن کریم کا اعلانِ بریت

یہ وہ گندی تاریخ ہے جو دُنیا کے کُتب خانوں نے پیش کی اور جسے پڑھ کر شریف انسان کا دل لرزنے لگ جاتا ہے مگر جب قرآنی کتب خانہ کو دیکھا جائے تو ہمیں اس میں یہ لکھا ہؤا نظر آتا ہے

وَ لُوۡطًا اٰتَیۡنٰہُ حُکۡمًا وَّ عِلۡمًا وَّ نَجَّیۡنٰہُ مِنَ الۡقَرۡیَۃِ الَّتِیۡ کَانَتۡ تَّعۡمَلُ الۡخَبٰٓئِثَ ؕ اِنَّہُمۡ کَانُوۡا قَوۡمَ سَوۡءٍ فٰسِقِیۡنَ۔ وَ اَدۡخَلۡنٰہُ فِیۡ رَحۡمَتِنَا ؕ اِنَّہٗ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ۔

(الانبیاء:75تا76)

یعنی ہم نے لوطؑ کو حکم دیااور علم بھی اور ہم نے اُس کو ایسی بستی سے نجات دی جو نہایت ہی گندے کام کرتی تھی گویا بائیبل تو کہتی ہے کہ اپنی بستی سے نکل کر خود لوط علیہ السلام نے ہی گندے کام کرنے شروع کردیئے تھے او ر قرآن کریم کہتا ہے کہ لوطؑ کی قوم فسق وفجور میں مبتلاء تھی لوطؑ کو ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا تھا اور وہ ہمارے نیک بندوں میں سے تھا۔ اِس طرح قرآن کریم نے تاریخِ انبیاء بھی بیان کردی اور بائیبل میں جو جھوٹی باتیں داخل ہوگئی تھیں اُن کا بھی ردّکردیا۔ ہاں قرآن کریم نے حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی کے متعلق یہ بیان فرمایا ہے کہ وہ عذاب کا شکار ہو گئی تھی چنانچہ فرماتا ہے

فَنَجَّیۡنٰہُ وَ اَہۡلَہٗۤ اَجۡمَعِیۡنَ۔ اِلَّا عَجُوۡزًا فِی الۡغٰبِرِیۡنَ۔ (الشعراء:171-172)

یعنی ہم نے لوطؑ کو اور اُس کے تمام اہل کو بچا لیا تھا سوائے ایک بوڑھی عورت کے جو غابرینسے تھی۔ غبرکے معنی عربی زبان میں حقدیعنی کینہ کے ہوتے ہیں۔ (اقرب الموارد) پس یہ لفظ استعمال کرکے قرآن کریم نے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی میں بڑھیا ہونے کے باوجود ناجائز شرباقی تھا اور وہ آپ کے متعلق کینہ اور بُغض رکھتی تھی۔ اس کا تعلق اُن لوگوں کے ساتھ تھا جو حضرت لوط علیہ السلام کے مخالف تھے اِس لیے وہ عذاب سے نہ بچائی گئی۔ اب دیکھو! حضرت لوط علیہ السلام بنی اسرائیل کے نبی ہیں لیکن قرآن کریم اُن کی براء ت کرتا ہے۔ گویا داداتو وہ کسی اَور قوم کا ہے لیکن اُس کی طرف سے لڑائی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کررہے ہیں۔ حضرت لُوطؑ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے اور عرب اپنے آپ کو حضرت اسماعیلؑ کی نسل قرار دیتے تھے۔ حضرت لُوطؑ سے اُن کا کوئی تعلق نہیں تھا لیکن یہودی قوم کا حضرت لوط علیہ السلام سے قریبی رشتہ ہے مگر انہوں نے حضرت لوط علیہ السلام پر الزام لگادیا اور کہا وہ بدکار تھا لیکن قرآن کریم نے کہا کہ حضرت لوط علیہ السلام ایک بزرگ اور خدا رسیدہ انسان تھے اور اُن پر یہ محض جھوٹا الزام لگایا گیا ہے۔

حضرت داؤد علیہ السلام کی عزّت کی حفاظت

پھر قرآن کریم نے حضرت دائود علیہ السلام کی عزت کی بھی حفاظت کی تھی۔ آپ پر بھی بائبل یہ نہایت گندہ الزام لگاتی ہے کہ آپ نے (نَعُوْذ بِاللّٰہ) اوریاہؔ کی بیوی کے ساتھ زنا کیا اور اوریاہؔ کو جنگ میں بھجوا کر مروادیا اور پھر اس سے شادی کرلی چنانچہ اس میں لکھا ہے:

ایک دن شام کو ایسا ہؤا کہ دائود اپنے بچھونے پر سے اُٹھا اور بادشاہی محل کی چھت پر ٹہلنے لگااور وہاں سے اُس نے ایک عورت کو دیکھاجو نہا رہی تھی اور وہ عورت نہا یت خوبصورت تھی تب دائود نے اس عورت کا حال دریافت کرنے کو آدمی بھیجے۔ انہوں نے کہا۔ کیاوہ العام کی بیٹی بنت سبع حتی اُوریاہ کی جورونہیں ؟ اور دائود نے لوگ بھیج کے اس عورت کو بُلا لیا چنانچہ وہ اس کے پاس آئی او روہ اُس سے ہم بستر ہؤا۔‘‘

(3سموئیل باب11آیت2تا4)

لیکن قرآن کریم نے بائبل کے اِس الزام کی تردید کی ہے اور حضرت داؤد علیہ السلام کو نیک اور خدا تعالیٰ کا پاک بندہ قرار دیا ہے چنا نچہ فرماتاہے

وَ اذۡکُرۡ عَبۡدَنَا دَاوٗدَ ذَا الۡاَیۡدِ ۚ اِنَّہٗۤ اَوَّابٌ (ص:18)وَ اِنَّ لَہٗ عِنۡدَنَا لَزُلۡفٰی وَ حُسۡنَ مَاٰبٍ(ص: 26)

یعنی ہمارے بندے داؤدؑ کو یاد کرو جو بڑی طاقت کا مالک تھا اور خدا تعالیٰ کی طرف باربار جھکتا تھا۔ وہ ہمارا مقرب تھا اور اُسے ہمارے پاس بڑا اچھا ٹھکانہ ملے گا۔

ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا پیا را بندہ ایسے ظالمانہ افعال کا مرتکب نہیں ہو سکتا جو بائبل بیان کرتی ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ بائبل جس طرح یہودیوں کے ہاتھ میں ہے اسی طرح عیسائیوں کے ہا تھ میں ہے اور انجیل میں لکھا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام حضرت عیسیٰؑ کے دادا تھے گویا جس کو وہ خدا مانتے ہیں اُس کے دادا کو وہ زانی کہتے ہیں لیکن قرآن کریم جو حضرت مسیح علیہ السلام کی خدائی کا منکر ہے اور جس کے متعلق عیسائی کہتے ہیں کہ یہ ہمارا دشمن ہے وہ کہتا ہے کہ داؤدؑ کے متعلق ایسے الزامات مت لگاؤ وہ تو خدا تعالیٰ کا ایک نیک اور مقرب بندہ تھا۔

حضرت سلیمان علیہ السلام پر بائبل کے الزامات

اِسی طرح بائبل میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے کہ

’’جب سلیمان بوڑھا ہؤا تو اُس کی جوروؤں نے اُس کے دل کو غیر معبودوں کی طرف مائل کیا اور اُس کا دل خداوند اپنے خدا کی طرف کامل نہ تھا جیسا اس کے باپ داؤد کا دل تھا۔‘‘

(سلاطین باب11آیت 4)

پھر لکھا ہے کہ :

’’اُس کا دل خداوند اسرائیل کے خدا سے جو اُسے دوبار دکھائی دیا برگشتہ ہؤا۔ اس لیے خداوند سلیمان پر غضبناک ہؤا کہ اس نے اسے حکم دیا تھا کہ وہ اجنبی معبودوں کی پیروی نہ کرے پر اُس نے خداوند کے حُکم کو یا د نہ رکھا۔‘‘

(سلاطین باب11آیت9تا10)

گویا بائبل حضرت سلیمان علیہ السلام پر یہ الزام لگاتی ہے کہ وہ اپنے خدا سے برگشتہ ہو گئے تھے اور اس طرح انہوں نے کفر کیا تھا۔

قرآن کریم کی تردید

لیکن قرآن کریم فرماتاہے کہ جب ملکہ سبا حضرت سلیمان علیہ السلام کے بُلانے پراُن کے پاس آئی تو حضرت سلیمانؑ نے اُسے غیر معبودوں کی عبادت کرنے سے روکا (النمل : 44)گویا قرآن تویہ کہتا ہے کہ ملکہ سباجو اُن کی آخری بیوی تھی اُسے بھی انہوں نے غیر معبودوں کی عبادت کرنے سے روکا لیکن بائبل کہتی ہے کہ وہ اپنی بیویوں کے کہنے پر خدا وند تعالیٰ سے برگشتہ ہو گئے تھے یہ کتنا بڑا فرق ہے جو بائبل اور قرآن میں پایا جا تاہے۔

اِسی طرح قرآن کریم حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق فرماتاہے

وَ مَا کَفَرَ سُلَیۡمٰنُ وَ لٰکِنَّ الشَّیٰطِیۡنَ کَفَرُوۡا یُعَلِّمُوۡنَ النَّاسَ السِّحۡرَ۔ (البقرۃ:103)

یعنی جو لوگ کہتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے بُت پرستی کی تھی اور وہ کافر ہوگئے تھے وہ غلط کہتے ہیں بلکہ درحقیقت ایسا الزام لگا نے والے خود کا فر ہیں کیونکہ وہ خداتعالیٰ کے نبی پر اتنا بڑا اتہام لگا تے ہیں۔ پس قرآن کریم نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی صحیح تاریخ بیان کردی ہے حالانکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا نہیں تھے بلکہ حضرت داؤدؑ کے بیٹے ہونے کی وجہ سے حضرت مسیح علیہ السلام کے دادا تھے۔ یا بائبل میں اُن کا صحیفہ شامل ہونے کی وجہ سے وہ بنی اسرائیل کے بزرگ تھے اور وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد آئے تھے لیکن قرآن کریم اُن کی عزّت کی حفاظت کرتا ہے اور خود اُن کے اپنے پوتے پڑپوتے انہیں خداتعالیٰ سے برگشتہ اور بُت پرست قرار دیتے ہیں۔

حضرت ہارون علیہ السلام پر بائبل کے الزامات

پھر قرآن کریم نے حضرت ہارون علیہ السلام کی عزّت کی بھی حفاظت کی۔ بائبل میں لکھا ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام طُور پہاڑ پر تشریف لے گئے اور اُن کے بعد اُن کی قوم نے بچھڑا بنا لیا تو حضرت ہا رون علیہ السلام بھی اُن کے اِس فعل میں اُن کے ساتھ شریک ہوگئے تھے چنانچہ لکھا ہے:

’’اور جب لوگوں نے دیکھا کہ موسیٰ نے پہاڑ سے اُترنے میں دیر لگائی تو وہ ہارون کے پاس جمع ہو کر اُس سے کہنے لگے کہ اُٹھ ہمارے لیے دیوتا بنا دے جو ہمارے آگے آگے چلے کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ اس مردِ موسیٰ کو جو ہم کو ملک مصر سے نکال کر لا یا ،کیا ہوگیا۔ ہارون نے اُن سے کہا۔ تمہاری بیویوں اور لڑکوں اور لڑکیوں کے کانوں میں جو سونے کی بالیاں ہیں اُن کو اُتار کر میرے پاس لے آئو۔ چنا نچہ سب لوگ اُن کے کانوں سے سونے کی بالیاں اُتاراُتارکر اُن کو ہارون کے پاس لے آئے اور اُس نے اُن کو ان کے ہا تھوں سے لے کر ایک ڈھالا ہؤا بچھڑا بنایا جس کی صورت چھینی سے ٹھیک کی۔ تب وہ کہنے لگے۔ اے اسرائیل! یہی تیرا وہ دیوتا ہے جو تجھ کو مُلکِ مصر سے نکال کر لایا۔‘‘

(خروج باب32آیت1تا4)

غرض بائبل کہتی ہے کہ جب حضر ت موسیٰ علیہ السلام کو پہاڑ سے آنے میں دیر ہو گئی تو اُن کی قوم حضرت ہارونؑ کے پاس گئی اور کہا کہ موسٰیؑ ہمیں خدا کی باتیں سُنایا کرتا تھا لیکن پتہ نہیں وہ کہا ں چلا گیا ہے اب ہم خدا کے بغیر رہ گئے ہیں۔ تو اُٹھ اور ہمارے لیے خدا بنا جو ہمارے آگے آگے چلے۔

….انہوں نے سونے کا ایک بچھڑا ڈھا ل کر بنایا اور کہا۔ اے بنی اسرائیل! یہی تمہا را خدا ہے جو تمہیں مصر سے نکال کرلایا تھا۔ نعوذباللّٰہ من ذٰلک۔ حالانکہ حضرت ہا رون علیہ السلام خداتعالیٰ کے نبی تھے اور وہ اتنا بڑا شرک کر ہی نہیں سکتے تھے۔ پھر وہ اِس بات کو بھی جانتے تھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب بنی اسرائیل کو مصر سے نکال کر لائے تھے تو آپ نے فرعون سے بحث کی تھی کہ مَیں اپنی قوم کو بتوں کی پر ستش سے ہٹا کر خدائے واحد کی عبادت کی طرف لانا چاہتا ہوں۔ اتنے بڑے واقعہ کی موجودگی میں وہ یہ کہہ بھی کس طرح سکتے تھے کہ یہی وہ تمہارا خدا ہے جو تمہیں ملک مصر سے نکال کر لا یا تھا۔

بچھڑ ے کے لئے قربان گاہ بنانا

پھر لکھا ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام نے بچھڑے کے لئے ایک قربان گاہ بنائی اور انہیں کہا کہ یہ بچھڑاہی تمہا را خدا ہے۔ بائبل کے الفاظ اس بارہ میں یہ ہیں :

’’یہ دیکھ کر ہا رون نے اُس کے آگے ایک قربان گاہ بنائی اور اُس نے اعلان کر دیا کہ کَل خداوند کے لئے عید ہوگی۔ اور دوسرے دن صبح سویرے اُٹھ کر انہوں نے قربانیاں چڑھائیں اور سلامتی کی قربانیاں گزرانیں پھر اُن لوگوں نے بیٹھ کر کھایا پیا اور اُٹھ کر کھیل کُود میں لگ گئے۔‘‘

(خروج باب32آیت5تا6)

قرآن کریم کا اعلان کہ بچھڑا سامری نے بنایا تھا

گویا انہوں نے خدا تعالیٰ کے دوبارہ مل جانے پر بڑی خوشی منائی لیکن قرآن کریم کہتا ہے یہ بات بالکل غلط ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام نے بچھڑا بنایا تھا۔ وہ ہارونؑ نے نہیں بلکہ سامریؔ نے بنایا تھا ورنہ ہارون علیہ السلام نے تو بڑے زور سے اپنی قوم کو شرک سے روکا تھا اور توحید پر قائم رہنے کی تلقین کی تھی۔ چنا نچہ قرآن کریم میں آتاہے۔

وَ لَقَدۡ قَالَ لَہُمۡ ہٰرُوۡنُ مِنۡ قَبۡلُ یٰقَوۡمِ اِنَّمَا فُتِنۡتُمۡ بِہٖ ۚ وَ اِنَّ رَبَّکُمُ الرَّحۡمٰنُ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ وَ اَطِیۡعُوۡۤا اَمۡرِیۡ۔ (طٰہٰ:91)

یعنی حضرت ہارونؑ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی واپسی سے قبل اپنی قوم سے کہا تھا کہ اے میری قوم! بچھڑے کے ذریعہ تمہیں آزمائش میں ڈالا گیاہے۔ اگر حضرت ہارون علیہ السلام نے خود بچھڑا بنایا ہوتا تو ایسا کیوں کہتے؟ انہوں نے کہا

اِنَّ رَبَّکُمُ الرَّحْمٰنُ فَاتَّبِعُوْنِیْ وَاَطِیْعُوْآ اَمْرِیْ۔

تمہارا ربّ رحمٰن ہے۔ اِس بچھڑے نے تمہا ری کیا مدد کرنی ہے وہ تو پیدائش سے پہلے بھی تمہاری مدد کرتا رہا ہے۔ چنانچہ دیکھ لو انسان بعد میں پیدا ہواہے اور پانی پہلے پیدا ہو چکا تھا۔ اِسی طرح اور ہزاروں اشیاء ہیں جو پیدائش سے پہلے صفتِ رحمانیت کے ماتحت پیدا ہوچکی تھیں پس تم میری اتباع کرو میرے حکم کے پیچھے چلو، شرک مت کرو۔

انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا کا اعترافِ حقیقت

قرآن کریم میں یہ بیان کردہ حقیقت اتنی واضح ہے کہ انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا جس کو انگلستان کے بڑے بڑے عالموں نے مِل کر لکھا ہے اُس میں بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ ہارون علیہ السلام کے شرک کرنے کا واقعہ غلط ہے اور اِس سے مضمون نگار استدلال کرتا ہے کہ بائبل میں دوسرے لوگوں نے اَور بھی کئی باتیں ملادی ہیں اور کئی واقعات اُن کی طرف سے بڑھا دیے گئے ہیں۔

(انسائیکلو پیڈیا جلد4زیر لفظ گولڈن و جلد 5، زیر لفظ موسیٰ)

اَب دیکھو یہ کتنی عجیب بات ہے کہ قرآن کریم ایک تاریخ بیان کرتا ہے اور یہودیوں اور عیسائیوں کے باپ کو بَری قرار دیتا ہے حالانکہ وہ عیسائی اور یہودی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ) کذّاب کہتے ہیں۔ غرض قرآن کریم ایک گالی دینے والے کے باپ کی براءت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ مشرک نہیں تھا مشرک ایک اَور شخص تھا جس کا نام سامری تھا۔

حضرت مسیح علیہ السلام کی تاریخ

پھر حضرت مسیح علیہ السلام کی تاریخ بھی قرآن کریم نے بیان کی ہے۔ انجیل میں تو صرف اتنا آتا ہے کہ

’’مسیح اُن کے دیکھتے ہوئے اوپر اُٹھا یا گیا اور بدلی نے اُسے اُن کی نظروں سے چُھپا لیا۔‘‘

(اعمال باب 1آیت 9)

مگر کیا بدلی کے پیچھے چلے جانے سے مراد آسمان پر چلے جانا ہوتا ہے؟ ہزاروں آدمی روزانہ پہاڑوں پر بدلی کے پیچھے جاتے اور پھر واپس آ جاتے ہیں اور کوئی شخص اُن کے متعلق نہیں کہتا کہ وہ آسمان پر چلے گئے ہیں۔ غرض یہ ایک نہایت ہی غیرمعقول بات ہے جو انجیل نے بیان کی ہے مگر قرآن کریم اِس سارے واقعہ کو ایک علمی اور تاریخی رنگ دیتا ہے اور اُن کے بدلی میں نظروں سے غائب ہونے کے بعد کی تاریخ بھی بیان کرتا ہے چنانچہ فرماتا ہے

وَ اٰوَیۡنٰہُمَاۤ اِلٰی رَبۡوَۃٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّ مَعِیۡنٍ۔ (المؤمنون :51)

یعنی واقعۂ صلیب کے بعد ہم نے حضرت مسیحؑ اور اُس کی ماں کو ایک اونچی جگہ یعنی پلیٹیو (PLATEAU) پر پناہ دی۔ ربوہ سے مراد پہاڑی نہیں بلکہ اونچی جگہ ہے۔ ہم نے ربوہ کا نام بھی جو احمدیت کا موجودہ مرکز اور ضلع جھنگ میں واقع ہے اِسی لیے ربوہ رکھا ہے کہ یہ اونچی جگہ ہے۔ غرض قرآن کریم بتاتا ہے کہ ہم نے مسیحؑ اور اُس کی ماں کو ایک ایسی جگہ پناہ دی جو اونچی تھی اور بہتے ہوئے پانیوں والی تھی اور ٹھہر نے کے قابل تھی یعنی وہ جگہ سطح زمین سے بلند تھی اور وہاں چشمے بھی بہتے تھے۔ چنانچہ قدیم ہندوؤں اور بدھوں کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ شہزادہ یوز آسف جو خدا تعالیٰ کانبی تھا مغرب سے آیا اور کشمیر کی پہاڑیوں میں رہا اوراُس کے ہاتھوں اور پیروں پر زخم تھے۔ واقعہ یہ ہے کہ جب حضرت مسیح علیہ السلام کو صلیب پر لٹکایا گیا تو آپ کے ہاتھوں اور پاؤں پر میخیں لگانے کی وجہ سے زخم ہوگئے تھے جن کو مُندمل کرنے کے لیے ایک مرہم ایجاد کی گئی۔ جس کا بام طب کی مختلف کتابوں میں مرہمِ رُسُل یا مرہمِ حواریین بیان کیا گیا ہے۔ پھر کہیں جا کر وہ زخم درست ہوئے اِس کے بعد آپ کشمیر کی طرف آ گئے۔ چنانچہ افغانستان کے بارڈر پر جو قبائل بستے ہیں وہ اب تک یہی کہتے ہیں کہ ہم بنی اسرائیل ہیں گویا مسیح کے حواری۔ متی نے انجیل میں ایک نامکمل بات بیان کردی۔ لیکن قرآن کریم نے اُن حالات کو مکمل کردیا اور بتا دیا کہ صرف اِتنی بات نہیں کہ وہ واقعۂ صلیب کے بعد بدلیوں میں چُھپ کرغائب ہوگئے تھے بلکہ صلیب سے بچنے کے بعد وہ کشمیر میں آگئے تھے اور اسرائیلی قبائل کو ایک لمبے عرصہ تک تبلیغ کرتے رہے۔

(سیر روحانی صفحہ780تا786، شائع کردہ فضل عمر فاؤنڈیشن انڈیا، 2017ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button