خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 09؍ اکتوبر 2020ء

عشرہ مبشرہ میں شامل آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت بدری صحابی حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

حضرت عمرو بن عاصؓ کی قیادت میں اسلامی لشکرنے فلسطین کےشہروں کو فتح کرتےہوئےبیت المقدس کا محاصرہ کیا تو حضرت ابو عبیدہؓ کا لشکر بھی اُن سے آن ملا

آپؓ نے58 برس کی عمر میں 18 ہجری میں وفات پائی

تین مرحومین پروفیسرڈاکٹر نعیم الدین خٹک صاحب (شہید) ابن فضل الدین خٹک صاحب ضلع پشاور، عزیزم اسامہ صادق ابن محمد صادق صاحب طالبِ علم جامعہ احمدیہ جرمنی اور مکرم سلیم احمد ملک صاحب استاد جامعہ احمدیہ یوکے کا ذکر ِخیر اور نماز ِجنازہ غائب

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 09؍ اکتوبر 2020ء بمطابق 09؍ اخاء 1399 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ  بنصرہ العزیز نے مورخہ 09؍ اکتوبر 2020ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت مکرم رانا عطاء الرحیم صاحب کے حصے میں آئی۔تشہد،تعوذ،تسمیہ اور سورةالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

گذشتہ خطبے میں حضرت ابوعبیدہؓ کاذکر ہورہا تھا آج اس کا بقیہ حصّہ بیان ہوگا۔ شام میں سب سے بڑا معرکہ 15 ہجری میں دریائے یرموک کے کنارےپیش آیا۔اس جنگ میں رومیوں کی تعداد ڈھائی لاکھ جبکہ مسلمانوں کی تعداد تیس ہزار کے قریب تھی جن میں سے ایک ہزار صحابہ رسول اللہﷺ اور ایک سَو کے قریب بدری صحابہ تھے۔ مسلمانوں نے حکمتِ عملی کے تحت عارضی طور پر حمص کے علاقوں سے اپنی فوجوں کو واپس بُلایا اور وہاں کی عیسائی آبادی سے وصول شدہ لاکھوں کاٹیکس واپس کردیا۔ مسلمانوں کی انصاف پسندی کا اُن عیسائیوں پر بہت اثر ہوا۔ دوسری طرف مسلمانوں کے حمص سے پیچھے ہٹنے کی وجہ سے رومیوں کی ہمّت اور بھی بڑھ گئی ۔جنگ سے پیشتر رومیوں کے سپہ سالار باہان نےجارج نامی ایک قاصدکو مسلمانوں کی طرف بھجوایا جس نے حضرت ابوعبیدہؓ سے چند سوالات کیے۔اس کے استفسار پر جب حضرت ابوعبیدہؓ نے حضرت عیسیٰؑ سے متعلق مسلمانوں کا عقیدہ بیان کیاتو وہ قاصد پُکار اٹھا کہ مسیح کے یہی اوصاف ہیں اور یوں وہ مسلمان ہوگیا۔ حضرت ابوعبیدہؓ نےاوّلاًعیسائی لشکر کو دعوتِ اسلام دی اوران کے انکار پر جنگ کی تیاری شروع کی گئی۔ لشکرِاسلام میں مجاہدین کو پانی پلانے اور زخمیوں کی دیکھ بھال کےلیے مسلمان خواتین بھی شامل تھیں۔ جنگ سے پیشترحضرت ابو عبیدہؓ نے عورتوں اور مردوں کو نصائح فرمائیں۔ دشمن کے لشکر کے آگے سونے کی صلیب تھی۔ اسی طرح ان کے اسلحے کی چمک سے آنکھیں چندھیائی جاتی تھیں۔ رومی لشکرسر سے پاؤں تک لوہےکی زرہوں میں ڈوبا ہوا تھا۔ عیسائی پادری انجیل کے اقتباسات پڑھ کر لشکر کو جوش دلاتے تھے۔ اُنہوں نے پہلے ہی پتہ لگالیا تھا کہ مسلمانوں کے لشکر میں کون کون صحابی ہیں چنانچہ رومی تِیرانداز ایک ٹیلے پر سے صحابہ کو نشانہ بناتے تھے۔ ایسے میں عکرمہؓ نے ابوعبیدہؓ سے عرض کی کہ صحابہ کی بجائے چارسَو نَوجوان سپاہیوں کو موقع دیا جائے کہ وہ لشکر کے قلب میں حملہ آور ہوں۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے اس تجویز پر تشویش کا اظہار فرمایا کہ اس طرح جتنے نَوجوان جائیں گے وہ سب مارے جائیں گے۔تاہم عکرمہؓ کے باربار اصرار پر حضرت ابوعبیدہؓ نے اجازت دےدی جس پر نَوجوان مجاہدین نےاس زور کا حملہ کیا کہ رومی فوج پسپا ہوگئی۔ اس لڑائی میں اکثر نَوجوان شہید ہوئے۔ جنگِ یرموک میں تقریباً تین ہزار مسلمان شہید ہوئے جبکہ اسّی ہزار کفّار دریائے یرموک میں ڈوب کر مرگئے۔ اسی طرح ایک لاکھ سپاہیوں کو مسلمانوں نے میدانِ جنگ میں ہلاک کیا۔

جنگِ یرموک میں مسلمانوں کے ایثار کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ جنگ کے اختتام پر حضرت عکرمہؓ اور اُن کے بارہ ساتھیوں کو تلاش کیا گیا۔ ایک مسلمان سپاہی نے عکرمہؓ کو دیکھا کہ اُن کی حالت بہت خراب ہے تو انہیں پانی پیش کیا۔ آپؓ نے پاس ہی موجود حضرت فضل بن عباسؓ کو دیکھا اور فرمایا کہ میری غیرت یہ گوارا نہیں کرتی کہ جن لوگوں نے رسول اللہﷺ کی اس وقت مدد کی جب مَیں آپؐ کاشدید مخالف تھاوہ اور ان کی اولاد تو پیاس سے مرجائے اور مَیں پانی پی کر زندہ رہوں۔وہ مسلمان یہ سن کر حضرت فضل بن عباسؓ کے پاس گیا تو انہوں نے اگلے زخمی کی طرف اشارہ کیا کہ وہ زیادہ مستحق ہے پہلے اسے پانی پلاؤ۔ یوں وہ تمام زخمی دوسرے کی طرف اشارہ کرتے رہے اور جب وہ سپاہی آخری زخمی تک پہنچا تو وہ فوت ہوچکا تھا وہ واپس دوسرے کی طرف آیا یہاں تک کہ عکرمہؓ تک پہنچا مگر وہ سب فوت ہوچکے تھے۔

شام کے لوگ جومختلف مذاہب کے پیروتھے وہ حضرت ابوعبیدہؓ کے عدل وانصاف کو دیکھ کر اسلام کی آغوش میں آگئے۔یرموک کی فتح سے چندروزقبل حضرت ابوبکرؓ کاوصال ہوگیا اور حضرت عمرؓ نے خلیفہ منتخب ہونے کے بعد شام کی نگرانی اور فوجو ں کی قیادت حضرت ابوعبیدہؓ کے سپرد کردی۔ تقرری کا یہ خط جب آپؓ کو ملا توجنگ زوروں پر تھی چنانچہ ابوعبیدہؓ نے دل شکنی کے خوف سےحضرت خالد بن ولیدؓ سے اس کا ذکر نہ کیا۔ جنگ کے بعد جب خالدؓ کا لشکرعراق جانے لگا تو آپؓ نے ابوعبیدہؓ کے متعلق لوگوں سے کہا کہ تمہیں خوش ہونا چاہیے کہ اس امّت کے امین تمہارے والی ہیں جس پر حضرت ابو عبیدہؓ نے فرمایا کہ مَیں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے کہ خالد بن ولید خدا کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے۔

حضورِانور نے اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئےفرمایاکہ غرض اس طرح محبت اوراحترام کی فضا میں دونوں قائد ایک دوسرے سے جُدا ہوئے۔ یہ ہے مومن کا تقویٰ کہ نام ونمود یا افسری اور عُہدے کی کوئی خواہش نہیں۔ مقصد ہے تو صرف ایک کہ خدا کی بادشاہت دنیا میں قائم کی جائے۔ پس یہ لوگ ہمارے لیےاسوہ ہیں جنہیں ہر عُہدےدار بلکہ ہر احمدی کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔

حضرت عمرو بن عاصؓ کی قیادت میں اسلامی لشکرنے فلسطین کےشہروں کو فتح کرتےہوئےبیت المقدس کا محاصرہ کیا تو حضرت ابو عبیدہؓ کا لشکر بھی اُن سے آن ملا۔قلعہ بندی سے تنگ آکرعیسائیوں نےصلح کی پیشکش کی لیکن شرط یہ رکھی کہ حضرت عمرؓاز خود تشریف لاکر صلح کا معاہدہ کریں۔ ربیع الاوّل16ہجری کو مدینے سے روانہ ہوکر حضرت عمرؓ صلح کے لیے پہنچے تو ابوعبیدہؓ کی قیام گاہ تشریف لے گئے۔ گھر میں تلوار،ڈھال،چٹائی اور ایک پیالےکے سِوا کچھ نہ تھا۔ اسی موقعے پر حضرت بلالؓ کے اذان دینے کا روح پرور واقعہ بھی پیش آیا۔

17ہجری میں رومیوں نے مسلمانوں سے شام واپس لینے کی آخری کوشش کی۔شمالی شام،الجزیرہ،شمالی عراق اور آرمینیا کے کُردوں، بدوؤں، عیسائیوں اور ایرانیو ں نے ہرقل سے مسلمانوں کے خلاف مدد کی اپیل کی۔اس موقعے پر حضرت عمرؓ کی ہدایت پر حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے کوفے سے امدادی فوج بھجوائی۔ اس کے باوجود رومی لشکر اور مسلم افواج کی تعداد میں بہت زیادہ فرق تھا۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے سپاہیوں سے ایک جوشیلا خطاب کیا ۔ اس شکست کے بعد کبھی قیصر کو شام کی طرف پیش قدمی کا حوصلہ نہ ہوا۔

رملہ سے بیت المقدس کے راستے پر چھ مِیل کے فاصلے پر طاعون عمواس نامی ایک بستی ہے۔ یہاں حضرت عمرؓ کی ملاقات حضرت ابوعبیدہؓ اور ان کی افواج سےہوئی جن سے آپؓ کو شام کے علاقوں میں طاعون کے پھوٹنے کی خبر ملی۔ اس صورتِ حال میں مشورے سےمزید پیش قدمی کی بجائے واپسی کا فیصلہ ہوا۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے اس موقعے پر حضرت عمرؓ سے عرض کیا کہ کیا اللہ کی تقدیر سے فرار ممکن ہے؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ہم اللہ کی قضا سے اس کی قدر کی طرف جا رہے ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ایک خاص اور ایک عام فیصلہ ہے۔پس حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ مَیں خداتعالیٰ کے فیصلے سے بھاگ نہیں رہا بلکہ اس کے ایک فیصلےسے دوسرے کی طرف جارہا ہوں۔

حضرت عمرؓ نے واپس جاکربےچینی محسوس کرتے ہوئےحضرت ابوعبیدہؓ کو بلوایا لیکن طاعون کے پھیلنے کے خطرے کے پیشِ نظر آپؓ واپس نہ گئے اور اپنے سپاہیوں کے درمیان ہی رہے۔ جب بھی کوئی مسلمان سپاہی طاعون سے شہید ہوتا تو حضرت ابو عبیدہؓ رو پڑتے اور اللہ سے شہادت طلب کرتے۔ بالآخر آپؓ نے58 برس کی عمر میں 18 ہجری میں وفات پائی۔

خطبے کے دوسرے حصّے میں حضورِانور نے تین مرحومین کا ذکرِ خیر اورنمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا۔

پہلا جنازہ پروپروفیسرڈاکٹر نعیم الدین خٹک صاحب ابن فضل الدین خٹک صاحب ضلع پشاورکا تھا۔ آپ کو مخالفین نے5؍ اکتوبر کو پشاورمیں گولیاں مارکر شہید کردیا تھا۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآاِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

مرحوم مائیکروانواِئرنمینٹل بیالوجی میں پی ایچ ڈی تھےاور سپیریئر سائنس کالج میںپروفیسرتھے۔ شہید مرحوم ہم دردیٔ خلق اور مہمان نوازی جیسی بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ جماعتی خدمت کےطور پرسیکیورٹی ڈیوٹی دینے کےلیے بھی حاضر ہوتے۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ تین بیٹیاں اور دو بیٹے شامل ہیں۔

دوسرا جنازہ عزیزم اسامہ صادق ابن محمد صادق صاحب طالبِ علم جامعہ احمدیہ جرمنی کا تھا۔ مرحوم کی گذشتہ دنوں دریائے رائن میں ڈوبنے سے بعمر بیس سال وفات ہوگئی تھی۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

مرحوم کم گو، سادہ طبیعت، سنجیدہ مزاج، عبادت کا ذوق اور تبلیغ کا شوق رکھنے والی شخصیت کے مالک تھے۔لواحقین میں والدین کے علاوہ پانچ بہنیں اورایک بھائی شامل ہیں۔

تیسرا ذکرِخیر سلیم احمد ملک صاحب کا تھا۔ آپ 87 سال کی عمر میں24؍ستمبر کووفات پاگئےتھے۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

مرحوم شعبہ تعلیم سے منسلک اور جیولوجیکل کیمسٹری کے پروفیسرتھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد جامعہ احمدیہ کے استاد رہے۔جامعہ احمدیہ کے قیام کے بارے میں بننے والی ابتدائی کمیٹی کے رکن رہے۔ اسی طرح جامعہ احمدیہ یوکے کے آغازپر آپ کو چیف ایڈمنسٹریٹر مقرر کیاگیا۔ مرحوم کو جماعت یوکے میں بطور سیکرٹری تعلیم و تربیت اور سیکرٹری اُمورِ خارجہ سمیت مختلف شعبوں میں خدمت کی توفیق ملی۔پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ تین بیٹیاں اور نواسے نواسیاں شامل ہیں۔

حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تمام مرحومین کی مغفرت اور درجات کی بلندی کےلیے دعا کی اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان کے بچوں کواور ان کی نسلوں کو بھی وفا کے ساتھ خلافت اور جماعت سے تعلق رکھنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button