متفرق مضامین

پاکستان کے قادیانی اسرائیلی فوج میں؟ حقیقت کیا ہے؟ (قسط سوم۔ آخری)

(ابو نائل)

گذشتہ قسط میں یہ جائزہ لیا گیا تھا کہ کس طرح حجاز کے مقامی حکمران شریف مکہ اور نجد کے حکمران السعود خاندان نے برطانیہ کی حکومت سے مل کر ترکی کی سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کا آغاز کیا۔شریف مکہ نے جون 1916ء میں حجاز میں عرب قبائل کی بغاوت شروع کرادی، اس بغاوت کی وجہ سے سلطنت عثمانیہ کو اپنی افواج کے ایک حصے کو اس بغاوت کو ختم کرنے کے لیے مقرر کرنا پڑا۔ اس وجہ سے وہ ان افواج کو بغداد اور بیت المقدس( یروشلم) جیسے اہم شہروں کے دفاع کے لیے نہیں بھجوا سکے۔ اس وجہ سے ان شہروں کا دفاع کمزور ہو گیا اور یہ پہلو برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے بہت فائدہ مند تھا۔

کویت میں برطانوی دربار

اب برطانوی عہدیداروں اورعرب سرداروں کے تعلقات مضبوط ہو رہے تھے۔ اس سے فائدہ اُٹھانے کے لیےان افسروں نے فیصلہ کیا کہ وہ کویت میں ایک برطانوی دربار منعقد کریں اوراس دربار میں شریف مکہ، سعودی خاندان کے بانی امیر عبد العزیز السعود کو بھی مدعو کریں۔چنانچہ 1916ء کے آخر میں یہ دربار منعقد کیا گیا تاکہ اس خطے میں برطانوی پالیسی کو مربوط بنایا جا سکے۔ کتاب The Kingdomکے مصنف Robert Laceyلکھتے ہیں کہ اس دربار کے موقع پر امیر عبدالعزیز السعود (سعودی عرب کے بانی )برطانوی حکام کی نظروں میں آ گئے۔اور ان حکام نے ان پر توجہ دینی شروع کی۔ اور یہ پہلا موقع تھا کہ عبد العزیز السعود ریل گاڑی یا کار میں بیٹھے اور انہوں نے جہاز اُڑتے ہوئے دیکھا۔ اور انہیں خوش کرنے کے لیے ان کے ہاتھ کا ایکس رے کر کے انہیں دکھایا گیا۔اس دربار کے آخر میں برطانوی حکام نے امیر عبد العزیز السعود کو’’ سر‘‘ کا خطاب بھی عطا کیا۔

(The Kingdom, by Robert Lacey, published by Hutchinson& Co. 1981, p122–127)

بغداد پر برطانوی قبضہ

شریف مکہ اور امیر عبد العزیز السعود کی مدد سے، اب برطانیہ اور اس کے اتحادی اس قابل ہو گئے تھے کہ گیلی پولی کے مقام پر اپنی شکست کا بدلہ لے سکیں۔ چنانچہ سب سے پہلے حملہ کر کے بغدادپر قبضہ کیا گیا۔اور بغداد کی اہمیت کے پیشِ نظر یہ ایک اہم پیش رفت تھی کہ یہ شہر سلطنت عثمانیہ کے ہاتھ سے نکل کر اتحادیوں کے قبضے میں چلا گیا۔

حیرت کی بات ہے کہ اب تک جماعت احمدیہ کے مخالفین بغیر کسی ثبوت کے یہ الزام لگاتے ہیں کہ اس موقع پر احمدیوں نے قادیان میں چراغاں کر کے ہمارے جذبات کو مجروح کیا تھا۔ حالانکہ اس سانحے پر مسلمانوں کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔

چنانچہ 1974ء میں قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی کی کارروائی کے دوران ایک ممبر محمد سلیمان صاحب نے جماعت احمدیہ کے خلاف تقریر کرتے ہوئے بڑے جوش میں کہا:

’’جب قسطنطنیہ اور بغداد پر قبضہ ہوا تو قادیان میں چراغاں کرایا۔‘‘(کارروائی صفحہ2634)

اور بغداد کی فتح کے موقع پر قادیان میں ہونے والا فرضی چراغاں اتنا اہم تھا کہ جب 1974ء میں قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی کی کارروائی اپنے اختتام کو پہنچ رہی تھی اور اٹارنی جنرل یحیٰ بختیار صاحب احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی وجوہات بیان کرنے کے لیے اس کمیٹی میں اختتامی تقریر کر رہے تھے تو اس تقریر کے آخر میں انہوں نے جماعت احمدیہ کے جرائم گنواتے ہوئے ایک اور جرم ان الفاظ میں بیان کیا:

Then Sir, when we are happy they are not happy; when we are unhappy they are happy, This is what the evidence has shown. Muslims were unhappy when British conquered Iraq in first war, and they had a چراغاںin Qadian.

ترجمہ: پھر جناب ،جب ہم خوش ہوں وہ نا خوش ہوتے ہیں اور جب ہم نا خوش ہوں تو وہ خوش ہوتے ہیں۔شواہد اسی بات کو ظاہر کرتے ہیں۔ جب برطانوی فوجوں نے پہلی جنگ عظیم میں عراق کو فتح کیا تو انہوں نے قادیان میں چراغاں کیا۔

گویا اٹارنی جنرل صاحب کے نزدیک بغداد پر قبضہ ہونے کے موقع پر یہ فرضی چراغاں اتنا اہم تھا کہ اسے ایک جماعت کو غیرمسلم قرار دینے کی دلیل کے طور پر بیان کیا جا رہا ہے۔ کسی نتیجے پر پہنچنے سے قبل یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ آخر برطانیہ اور اس کے اتحادی بغداد پر قبضہ کرنے میں کامیاب کیوں ہوئے؟ انہیں یہ کامیابی اسی لیے ملی کہ شریف مکہ اور سعودی خاندان نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت شروع کردی تھی۔ اور سلطنت عثمانیہ کی افواج کا ایک حصہ جو کہ ابن رشید کی افواج پر مشتمل تھا ان کی بغاوت کا خاتمہ کرنے میں صرف ہو رہا تھا اور اس وجہ سے بغداد اور یروشلم کے دفاع کے لیے موجود افواج کی تعداد کم ہوگئی تھی۔یہ کوئی خیالی نظریہ نہیں پیش کیا جا رہا۔ اس دور کی بہت سی فائلیں جو کہ پہلے خفیہ تھیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔اور برٹش لائبریری میں موجود ہیں۔ان فائلوں میں وہ تاریں بھی شامل ہیں جو اس وقت عرب ممالک کی صورت حال کے بارے میں برطانوی افسران ایک دوسرے کو بھجوا رہے تھے۔ ان میں سے ایک فائل کا عنوان ہے:

The Mission To Bin Saud: Relations between Bin Saud and The King of Hejaz

اس میں سر پرسی کوکس کی ایک تار بھی ہے جو انہوں نے 20؍ دسمبر 1917ء کو فارن سیکرٹری اور سیکرٹری آف سٹیٹ فار انڈیا کو بھجوائی تھی۔اس میں وہ لکھتے ہیں:

Hitherto Ibn Saud has done no more than keep his son Turki controlling tribal situation in Qasim and acting as watching outpost, mainly on defensive, but attacking and seducing Ibne Rasheed tribes as opportunity offered. Ibne Saud asks us to recognize however, that by so doing he has rendered it impossible for Ibn Rasheed to divert strength towards Mespotamia.

ترجمہ: اب تک ابن سعود نے سوائے اس کے کوئی کام نہیں کیا کہ اپنے بیٹے ترکی کو اس کام پر مقرر کر دیا ہے کہ وہ قاسم میں قبائل کو قابو رکھے اور وہ جائزہ لینے اور دفاع کے لیے ایک چوکی کا کام کررہے ہیں۔ مگر جب بھی موقع ملے تو وہ ابن رشید کے قبائل پر حملہ کرنا اور انہیں ورغلانا شروع کر دیتے ہیں۔ ابن سعود ہم سے یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم اس بات کو پیش نظر رکھیں کہ انہوں نے ابن رشید کی فوجوں کے لیے یہ ناممکن بنا دیا ہے کہ وہ اپنی قوت کا رخ میسیپوٹیمیا (عراق) کی طرف کر سکیں۔

جیسا کہ پہلے عرض کی گئی تھی کہ ابن رشید کی افواج اس علاقے میں سلطنت عثمانیہ کی طرف سے لڑ رہی تھیں۔ اور ان کو امیر عبدالعزیز السعود کی افواج کی بغاوت نے اتنا الجھا دیا تھا کہ وہ نہ عراق پر برطانوی قبضے کو روک سکیں اور نہ بعد میں عراق پر ان کا قبضہ ختم کر سکیں۔اس پس منظر میں جماعت احمدیہ پر اس بات کا الزام دھرنا کہ اس نے بغداد پر قبضہ ہونے پر فرضی چراغاں کیا تھا ایک مضحکہ خیز حرکت ہے۔ پڑھنے والوں کو یہ یاد کرانا ضروری ہے کہ 1974ء میں پاکستان کی حکومت مالی طور پر سعودی عرب کی مرہون منت تھی۔ اور بعد میں اس وقت کے وزیر خزانہ مکرم ڈاکٹر مبشر حسن صاحب نے ایک انٹرویو میں اعتراف بھی کیا کہ جماعت احمدیہ کے خلاف اس کارروائی کی پشت پر بھی سعودی عرب کی حکومت کا دبائو تھا۔(یہ انٹرویو خاکسار نے خود لیا تھا۔)

سقوط بغداد پر عرب رد عمل

اب یہ دیکھتے ہیں کہ جب برطانوی افواج نے بغداد پر قبضہ کر لیا تو ان عرب قائدین کا کیا ردعمل تھا؟ بغداد کی فتح کے بعد امریکہ کے ایک اخبار میں یہ خبر شائع ہوئی۔

The Kingdom of Hejaz evinced deep interest in the fall of Baghdad and the King sent a congratulatory telegram to the British high commissioner in Egypt praying that Allah grant victory and success to all those who are defending justice, civilization, and liberty of nations.

(New York Tribune, June 21 1917 p 3)

ترجمہ : حجاز کی بادشاہت کی طرف سے سقوط بغداد میں گہری دلچسپی لی گئی۔بادشاہ (مراد شریف مکہ) نے مصر میں برطانوی ہائی کمشنر کو مبارکباد کی تار دی ہے اور دعا کی ہےکہ اللہ ان تمام لوگوں کو فتح اور کامیابی سے نوازے جو انصاف، تہذیب اور قوموں کی آزادی کا دفاع کر رہے ہیں۔

اب یہ تو 1974ء کی قومی اسمبلی میں بیٹھے ہوئے ممبران بھی جانتے ہوں گے کہ حجاز کے بادشاہ یا شریف مکہ احمدی نہیں تھے۔ وہ تو اسی مسلک سے وابستہ تھے جن کے اراکین جماعت احمدیہ کو غیر مسلم قرار دینے کے لیے اتنے روز سے ہاتھ پائوں مار رہے تھے۔ حیرت تو اس بات کی ہے کہ سقوط بغداد کے موقع پر جو گروہ بغلیں بجا رہے تھے اور سلطنت برطانیہ کی فتح کو انصاف اور تہذیب کی فتح قرار دے رہے تھے، وہ آج قادیان میں جلنے والے فرضی چراغوں پر سیخ پا ہو رہے ہیں۔

برطانیہ کی سنی خلافت میں دلچسپی

اور یہ محض اتفاق نہیں تھا کہ شریف مکہ اور سعودی خاندان کے ساتھ برطانیہ کے تعلقات پروان چڑھ رہےتھے۔ یہ سب کچھ ایک منصوبہ بندی کے ساتھ کیا جا رہا تھا۔ اپریل 1915ء کو برطانیہ کےوزیر ہند کریو(Crewe) نے ایک رپورٹ لکھی اس کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:

’’میں نہیں سمجھتا کہ استنبول پر قبضہ ہو جانے کے بعد شریف مکہ حسین سے متعلق ہماری پالیسی کی وجہ سے ہمیں کوئی پریشانی ہو گی۔ہمیں چاہئے کہ ہم اسے ترکی کی غلامی سے نجات دلانے کے لئے ہمارے بس میں جو کچھ ہے کریں۔ لیکن اس سلسلہ میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے اور کسی کو یہ پتہ نہ چلے کہ ہم اسے خلافت کے مقام پر بٹھانا چاہتے ہیں۔ ہندوستان میں آجکل پین اسلام ازم کی جو تحریک چلی ہوئی ہے اس کا منبع اورمرکز استنبول ہے۔ یہاں کے مسلم اس بات کو قطعاً پسند نہیں کریں گے کہ خلافت عثمانیوں کے ہاتھ سے نکل جائے۔لیکن شریف مکہ یا کوئی اور عرب سنی لیڈر اپنے آپ کو عثمانیوں سے آزاد کر کے خلافت جیسے متبرک عنوان کو حاصل کر لے تو مسلمان رائے عامہ اس امر کو واقعی قبول کر لے گی اور ہندوستانی مسلمانوں کے لئے بھی ان کا ساتھ دینے کے سوا اور کوئی چارہ کار نہیں رہ جائے گا… لیکن اس کے با وجود میرا خیال یہ ہے کہ آئندہ مسئلہ خلافت کی بناء پر مسلمانوں میں پھوٹ پڑ سکتی ہے۔ در حقیقت اگر دیکھا جائے تو اس پھوٹ میں سراسر ہمارا فائدہ ہی ہے۔‘‘

(تحریک خلافت مصنفہ میم کمال اوکے، ناشر قائد اعظم اکیڈمی اگست 1991ءصفحہ54)

اسرائیل کی بنیاد ڈالی جاتی ہے

بہر حال بغداد کو حاصل کرنے کے بعد اتحادیوں کا اگلا اہم ہدف بیت المقدس (یروشلم) کا شہر تھا۔ فلسطین اور یروشلم کو حاصل کرنا صیہونی تنظیم کے لیے اہم تھا کیونکہ وہ فلسطین کے علاقے میں یہودیوں کو آباد کرنے کا کام تب ہی آگے بڑھا سکتے تھے جب فلسطین سلطنت عثمانیہ سے نکل کر برطانوی قبضے میں آ جائے۔1917ء کے آخر تک برطانوی فوجیں فلسطین میں داخل ہو چکی تھیں۔ اور ان کے مقابلے پر سلطنت عثمانیہ کی فوجیں کمزور ثابت ہو رہی تھیں کیونکہ عرب علاقوں میں عرب قبائل کی بغاوت کی وجہ سے اس سلطنت کی فوجیں وہاں پر بھی مصروف تھیں۔اس پس منظر میں حکومت برطانیہ نے بالفور اعلامیہ جاری کیا۔

یہ اعلامیہ مشرق وسطیٰ کی تاریخ کا ایک اہم موڑ ہے جس سے بہت سے عالمی المیوں نے جنم لیا۔یہ اعلامیہ برطانیہ کے سیکرٹری خارجہ آرتھر بالفور نے 2؍نومبر 1917ء کو جاری کیا۔اس کے الفاظ یہ تھے:

His Majesty‘s Government view with favour the establishment in Palestine of a national home for the Jewish people, and will use their best endeavours to facilitate the achievement of this objective.

ترجمہ: ہز مجسٹی کی حکومت فلسطین میں یہودی لوگوں کے لیے ایک قومی وطن بنانے کی حمایت کرتی ہے۔اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اپنی ہر ممکن کوشش کرے گی۔

جیسا کہ گذشتہ اقساط میں ذکر کیا جا چکا ہے کہ ایک طرف تو شریف مکہ اور عربوں کو یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ اس جنگ کے بعد عرب ممالک کو ایک متحدہ ملک کی صورت میں آزاد کر دیا جائے گا۔ اور شریف مکہ کو یہ یقین دلایا گیا تھا کہ تمام عرب آپ کی بادشاہت بلکہ خلافت کے تحت آزاد کیا جائے گا۔اوران وعدوں میں فلسطین کا علاقہ بھی شامل تھا۔ اور دوسری طرف اسی حکومت کی طرف سے یہ اعلان کیا جا رہا تھا کہ فلسطین میں یہودیوں کا وطن بنایا جائے گا۔اب ظاہر ہو رہا تھا کہ یہ وعدے محض وقتی حمایت حاصل کرنے کے لیے ہیں اور ان کو پورا نہیں کیا جائے گا۔

شاید کوئی یہ سوال کرے کہ اس اعلامیہ میں علیحدہ ملک بنانے کا ذکر نہیں ہے۔ تو اس وقت اخبارات میں شائع ہونے والی چند خبریں پیش خدمت ہیں، جن سے ظاہر ہوجاتا ہے کہ اُس وقت اس سے کیا مراد لی جا رہی تھی۔

17؍ دسمبر 1917ء کو اخبار The Sunمیں ایک خبر شائع ہوئی :

Zionists Prepare to restore Israel

An enthusiastic meetings of leading Zionists representing all parts of the East at the Belvedres Hotel launched an organization today leading to the establishment of A Zionist state in Palestine.

The outlines of an international Jewish fund of $ 1000000000 to make the Jewish reoccupation real and practical were given and within a few minutes upward of $ 100000 were raised

ترجمہ :صیہونی اسرائیل کو بحال کرنے کی تیاری کرتے ہیں

مشرق کے تمام نمایاں صیہونیوں کی ایک جوشیلی کانفرنس بیلویڈرے ہوٹل میں منعقد ہوئی۔ اس میں ایک تنظیم کی داغ بیل ڈالی گئی جو کہ فلسطین میں ایک صیہونی ریاست کو قائم کرے گی۔

یہودیوں کے دوبارہ قبضے کو حقیقی اور عملی بنانے کے لیے 1000000000ڈالر کے ایک فنڈ کے خدو خال سامنے رکھے گئے۔ اور چند منٹ میں ایک لاکھ ڈالر سے زیادہ رقم جمع بھی ہو گئی۔

عرب لیڈروں کا اسرائیل کے اعلان پر رد عمل

یہ صرف ایک مثال ہے ورنہ اس جیسی بیسیوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔سوال یہ ہے کہ اگر اس مرحلہ پر حکومت برطانیہ اور صیہونی تنظیم کے ارادے ظاہر ہو چکے تھے۔ تو اب عرب قائدین کا کیا رد عمل تھا؟ وہ تو سلطنت برطانیہ کے ایما پر ترکوں سے جنگ لڑ رہے تھے۔

جب اسرائیل بنانے کا اس طرح کھلم کھلا اعلان ہو رہا تھا تو کیا انہوں نے برطانیہ کے ساتھ تعاون کرنا بند کر دیا؟ اس بارے میں صیہونی تنظیم کے صدر اور اسرائیل کے پہلے صدر ویز مین (Weizman)سے بہتر کون بتا سکتا ہے۔انہوں نے 1918ء میں ایک صیہونی کمیشن کے رکن کی حیثیت سے فلسطین کا دورہ کیا۔یہودیوں کو فلسطین میں آباد کرنے کے بارے میں عرب لیڈروں کا رد عمل کیا تھا؟ وہ اپنی خود نوشت سوانح حیات میں تحریر کرتے ہیں:

Such prominent Arab spokesmen as there were had more or less acquiesced in the policy; at any rate, they made no protest. With some of them — like the old Mufti of Jerusalem, and Musa Kazim Husseini — we had established very friendly relations; and, as will be seen in the next chapter but one, the titular and actual leader of the Arab world, the Emir Feisal, was even enthusiastically with us.

(Trial and Error by Chaim Weizman , internet archives p223)

ترجمہ: اس وقت جو بھی عربوں کے نمایاں نمائندے موجود تھے وہ کم و بیش اس پالیسی سے واقف تھے۔ بہرحال انہوں نے کوئی احتجاج نہیں کیا تھا۔مثال کے طور پر یروشلم کے معمر مفتی اور موسیٰ کاظم حسینی کے ساتھ ہمارے بہت دوستانہ تعلقات تھے۔جیسا کہ اگلے باب میں جائزہ لیں گے۔ مگر عرب دنیا کے اصلی لیڈر امیر فیصل (مراد فیصل بن حسین ) تو گرمجوشی سے ہمارے ساتھ ملے ہوئے تھے۔

پھر ویز مین بیان کرتے ہیں کہ امریکہ کی صیہونی تنظیم کے سربراہ کی ایک ملاقات امیر فیصل سے ہوئی اور اس میں برطانوی ایجنٹ لارنس(جو کہ لارنس آف عریبیہ کے نام سے معروف ہیں) موجود تھے۔ اس کے چند دنوں کے بعد امیر فیصل نے اس صیہونی لیڈر کو ایک خط لکھا۔ اس خط میں امیر فیصل نے لکھا:

We feel that the Arabs and Jews are cousins in race, suffering similar oppressions at the hands of powers stronger than themselves, and by a happy coincidence have been able to take the first step toward the attainment of their national ideals together. We Arabs, especially the educated among us, look with the deepest sympathy on the Zionist movement. Our deputation here in Paris is fully acquainted with the proposals submitted by the Zionist Organization to the Peace Conference, and we regard them as moderate and proper. We will do our best, in so far as we are concerned, to help them through ; we will wish the Jews a most hearty welcome home. With the chiefs of your movement, especially with Dr. Weizmann, we have had, and continue to have, the closest relations. He has been a great helper of our cause, and I hope the Arabs may soon be in a position to make the Jews some return for their kindness.

(Trial and Error by Chaim Weizman , internet archives p 245 &246)

ترجمہ : ہم محسوس کرتے ہیں کہ عرب اور یہودی نسلی طور پر کزن ہیں۔جنہیں ایک ہی طرح اپنے سے زیادہ طاقتور طاقتوں کے مظالم کا نشانہ بننا پڑا ہے۔اور یہ ایک خوش آئند اتفاق ہے کہ دونوں ایک ساتھ اپنے قومی مقاصد کے حصول کے لیے قدم اُٹھا رہے ہیں۔ ہم عرب اور خاص طور پر تعلیم یافتہ عرب صیہونی تنظیم کے ساتھ گہری ہمدردی رکھتے ہیں۔ یہاں پیرس میں ہمارا وفد اس تجویز سے اچھی طرح واقف ہے جو کہ صیہونی تنظیم نے امن کانفرنس میں پیش کی ہے۔اور ہم اس تجویز کو معتدل اور مناسب سمجھتے ہیں۔اور ہم اس کو کامیاب بنانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ہم یہودیوں کا گھر آنے پر پُرجوش خیر مقدم کرتے ہیں۔آپ کی تنظیم کے قائدین اور بالخصوص ڈاکٹر ویز مین کے ساتھ ہمارے قریبی تعلقات ہیں۔وہ ہمارے مقاصد کے حصول کے لیے عظیم مددگار رہے ہیں۔اور میں امید کرتا ہوں کہ عرب جلد ہی یہودیوں کی اس مہربانی کا بدلہ دے سکیں گے۔

یہ اسرائیل کے پہلے صدر کی گواہی ہے۔ اُس شخص کی گواہی ہے جس نے تمام عمر صیہونی تنظیم کے اہم لیڈر کے طور پر کام کیا تھا۔ جماعت احمدیہ پر اس ڈھٹائی سے الزام لگانے والے شاید جانتے ہوں کہ شریف مکہ کے صاحبزادے، اردن کے بادشاہ کے جد امجد امیر فیصل احمدی نہیں تھے۔جھوٹ بولنے کی عادت اپنی جگہ لیکن الزام لگانے والوں کوکچھ تو شرم سے کام لینا چاہیے۔

اس کتاب میں ایک جگہ بھی ذکر نہیں کہ 1917ء اور اس کے بعد چند سالوں میں امیر عبد العزیز السعود نے صیہونی عزائم کی کوئی مخالفت کی تھی۔اور اس وقت برطانوی حکام میں عرب علاقوں کے بارے میں جو خط و کتابت ہو رہی تھی وہ برٹش لائبریری میں موجود ہے اور خاکسار نے حاصل کی ہے۔ اس سال اور اس سے اگلے سال امیر عبد العزیز السعود کی ساری سرگرمیاں برطانوی حکام کی مدد اور اجازت سے ہو رہی تھیں اور اس خط و کتابت میں کہیں یہ ذکر نہیں آتا کہ امیر عبد العزیز السعود نے بالفور اعلامیہ کی کوئی مخالفت کی ہو۔ ان کو زیادہ دلچسپی اس بات سے تھی کہ شریف مکہ کو سارے عرب کے بادشاہ ہونے کا خطاب نہ مل جائے یا اس بات کی فکر تھی کہ وہ برطانوی حکومت سے زیادہ سے زیادہ مراعات حاصل کرلیں۔خوف طوالت کے باعث یہ رپورٹیں یہاں پر درج نہیں کی جا رہیں۔

یروشلم پر قبضہ اور حضرت مصلح موعودؓ کی رہ نمائی

بہر حال 8؍دسمبر 1917ء کو یروشلم میں موجود سلطنت عثمانیہ کی افواج نے برطانوی افواج کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔اس کے صرف آٹھ روز کے بعد بالٹی مور(امریکہ) میں صیہونی تنظیم کا اہم اجلاس ہوا اور اس میں فلسطین کو یہودیوں کا ملک بنانے کے منصوبے کا اعادہ کیا گیا اور یہ اعلان کیا گیا کہ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ اور اس کے ساتھ صیہونی کے ایک جریدے نے یہ خبر بھی شائع کی کہ امریکہ کی حکومت نے بھی اس منصوبے کی حمایت کر دی ہے۔

(The American Jewish World , 21 Dec 1917)

اُس وقت تو ان نمایاں عرب لیڈروں نے اس منصوبے کی مخالفت نہیں کی تھی۔لیکن پھر یہ مخالفت پہلی مرتبہ کس کی طرف سے سامنے آئی ؟ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جون 1920ء میں ایک کتاب ’’ معاہدہ ترکیہ اور مسلمانوں کا آئندہ رویہ‘‘ تحریر فرمائی۔ یہ کتاب ایک تقریر کی صورت میں تحریک خلافت کے تحت الٰہ آباد میں منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں پڑھی گئی۔اس میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے تحریر فرمایا:

’’فلسطین کو جس کی آبادی کا 3/2حصہ مسلمان ہے ایک یہودی نو آبادی قرار دے دیا گیا ہے حالانکہ یہود کی آبادی اس علاقے میں 4/1کے قریب ہے۔ اور یہ آبادی بھی جیسا کہ انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا میں لکھا ہے 1878ء سے ہوئی ہے اور زیادہ تر ان پناہ گیروں کی ہے جنہوں نے ان ممالک سے آکر یہاں پناہ لی ہے جن میں یہودیوں پر ظلم کرنا سیاست کا ایک بڑا جزو قرار دیا گیا ہے۔…

پس ایسے علاقے سے ترکوں کو دستبردار کرانا اور یہود کے سپرد کر دینا جس میں کثیر حصہ آبادی مسلمان ہے اور جو یہود کے لئے ایک یہی جائے پناہ تھی کیا اس جرم کے سبب سے ہے کہ انہوں نے کیوں یہود کو اس وقت پناہ دی جبکہ مسیحی حکومتیں ان کو اپنے گھروں اور اپنی جائیدادوں سے بے دخل کر رہی تھیں۔‘‘

(معاہدہ ترکیہ اور مسلمانوں کا آئندہ رویہ، انوارالعلوم جلد 5 صفحہ 177)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے یہ احتجاج اس وقت فرمایا جب کسی مسلمان لیڈر کو یہ خیال نہیں آ رہا تھا کہ فلسطین میں اس منصوبے کا یہ نتیجہ نکلے گا کہ فلسطینی اپنے ہی ملک سے محروم کر دیے جائیں گے۔ خاص طور پر اس وقت کے عرب لیڈر، جن کی صرف چند مثالیں پیش کی گئی ہیں، برطانیہ سے مکمل تعاون کر رہے تھے۔ اور جیسا کہ شیم ویزمین کی کتاب کے حوالے درج کیے گئے ہیں، نمایاں عرب لیڈر صیہونی تنظیم سے بھی تعاون کر رہے تھے۔

شریف مکہ احتجاج شروع کرتے ہیں

لیکن جلد ہی حقیقت واضح ہونے لگ گئی کہ حضورؓ کا انتباہ درست تھا۔ اتحادیوں نے تمام معاہدوں کی اپنی مرضی کی تشریح کی اور عرب علاقوں کو اپنے زیر نگیں علاقوں میں بانٹ لیا۔اور کہیں خود مختاری دی بھی تو اپنے زیر سایہ رہنے کی شرط پر دی۔ اور فلسطین کے علاقے کو برطانوی مینڈیٹ میں دے دیا گیا۔اور وہاں پر بڑی تعداد میں یہودی آباد ہونے لگے۔شریف مکہ کو اس بات پر غصہ تو تھا کہ ان سے کیے ہوئے وعدے کیوں نہیں پورے کیے گئے۔ چنانچہ جب 1921ء میں برطانوی ایجنٹ لارنس ان کے پاس ایک معاہدہ لے کر آئے تو انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ اس میں فلسطین کو برطانوی مینڈیٹ کے تحت رکھا گیا تھا۔ جب لارنس نے کہا کہ فلسطین کے لوگ آپ کے تحت نہیں آنا چاہتے تو اس پر شریف مکہ نے جواب دیا کہ میں اپنے یا اپنی اولاد کے لیے کچھ نہیں مانگ رہا۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ برطانیہ اپنے وعدے پورے کرے۔شریف مکہ کی یہ ضد اتنی شدید تھی کہ ان کے اپنے بیٹے امیر فیصل کو جن کو برطانیہ نے عراق پر حکمران مقرر کیا تھا وہ بھی یہ کہنے لگ گئے کہ ان کے والد کے ذہن پر اثر ہو گیا ہے۔اب شریف مکہ کے بیٹے فیصل بھی ان کا ساتھ دینے کو تیار نہیں تھے۔

شریف مکہ کو راستے سے کس نے ہٹایا

1922ء میں برطانوی افسران نے رپورٹیں لکھنی شروع کیں کہ اگر امیر عبد العزیز السعود حجاز پر بھی قبضہ کرلیں تو بہتر ہوگا۔قصہ مختصر یہ کہ 1924ء میں امیر عبدالعزیز السعود نے حجاز پر حملے شروع کر دیے۔ شریف مکہ نے بار بار اپنے سابق سرپرست برطانیہ کو مدد کے لیے لکھا لیکن انہیں کوئی جواب نہیں موصول ہوا۔ ایک خون ریز جنگ کے بعد حجاز پر شریف مکہ کی حکومت ختم کر دی گئی۔ اور اس کے ساتھ کم از کم وقتی طور پر عرب لیڈروں میں فلسطین کو برطانوی مینڈیٹ کے تحت دینے اور وہاں پر یہودیوں کی آبادی کی مخالفت دم توڑ گئی۔

(The Kingdom , by Robert Lacey, published by Hutchinson& Co. 1981, p181–189)

کیا اب بھی کوئی ذی ہوش یہ گمان کر سکتا ہے کہ جماعت احمدیہ برطانوی حکومت کے ساتھ مل کر سازشیں کر رہی تھی؟ اور ترکوں اور عربوں کی لڑائی کرائی تو احمدیوں نے کرائی۔ اگر یہودیوں کو فلسطین میں آباد کرایا تو یہ بھی احمدیوں کی سازش سے ممکن ہوا۔ جیسا کہ گذشتہ قسط میں ذکر کیا گیا تھا کہ 1974ء میں سعودی سرپرستی میں کام کرنے والی تنظیم رابطہ عالم اسلامی نے جماعت احمدیہ کے خلاف جو قرارداد منظور کی تھی، اس میں یہ بھی لکھا ہوا تھا کہ

’’ قادیانیت برطانوی استعمار کا متروکہ بچہ ہےاور اس استعمار کی حفاظت اور مدد کے بغیر یہ تخریبی عقیدہ اوربدعت اپنی اصل فطرت اور منصوبوں کو ظاہر نہیں کر سکتا تھا۔ قادیانیت اعلانیہ طور پر اسلام کے بنیادی عقائد کی خلاف ورزی کرتی ہے اور استعماریت اور صیہونیت کو مضبوط بناتی ہے۔ یہ اسلام مخالف تحریکوں سے تعاون کر رہے ہیں تا کہ اسلام کو تباہ کیا جائے یا اس کا چہرہ مسخ کیا جائے…‘‘

مندرجہ بالا تاریخی حقائق کی روشنی میں یہ زہریلے الزامات ایک مضحکہ خیز اور بچگانہ جھوٹ سے زیادہ کیا حیثیت رکھ سکتے ہیں۔شاید یہ گروہ اپنے ماضی پر پردہ ڈالنے کے لیے اس قسم کی الزام تراشیوں کا سہارا لیتے ہیں۔

فلسطین میں یہودی آبادکاری کے بارے میں حضرت مصلح موعودؓ کا انتباہ

یہ حقائق واضح ہیں لیکن چند اور امور کا ذکر کرنا ضروری ہے۔1924ء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ یورپ کے دورے پر جاتے ہوئے فلسطین بھی گئے۔ اس وقت بظاہر وہاں یہودیوں کو آباد کرنے کی سکیم کو وقتی ناکامی کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا تھا۔ لیکن حضور کی فراست نے اس وقت بھی جان لیا تھا کہ اگر غفلت کی گئی تو کیا انجام ہو سکتا ہے؟حضور تحریر فرماتے ہیں:

’’اکثروہاں کے بڑے بڑے مسلمانوں سے میں ملا ہوں۔ میں نے دیکھا ہے کہ وہ مطمئن ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہودیوں کو نکالنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔مگر میرے نزدیک ان کی یہ رائے غلط ہے،یہودی قوم اپنے آبائی ملک پر قبضہ کرنے پر تلی ہوئی ہے۔اور جو ناکامی اس وقت ان کو ہوئی ہےوہ ان کے ارادے میں تذلل پیدا کرنے کا موجب نہیں ہو سکتی۔ اور زیادہ تر اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کام ان کے لئے بالکل نیا تھا۔‘‘

(دورہ یورپ،انوارالعلوم جلد 8 صفحہ 447)

دوسری جنگ عظیم میں کی جانے والی سازش

اور تاریخ گواہ ہے کہ حضور کا انتباہ حرف بحرف درست ثابت ہوا۔بہر حال اگلی دو دہائیوں میں فلسطین میں یہودیوں کو آباد کیا گیا اورآخر 1948ء میں اسرائیل کے قیام کا اعلان ہوا۔ اس مرحلے سے قبل دوسری جنگ عظیم کا مرحلہ بھی آیا۔ اس دوران کیا ہو رہا تھا؟اس بارے میں اسرائیل کے پہلے صدر ویز مین اپنی سوانح حیات میں لکھتے ہیں کہ 1942ء میں برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل نے انہیں کہا:

’’I want you to know that I have a plan, which of course can only be carried into effect when the war is over. I would like to see Ibn Saud made lord of the Middle East — the boss of the bosses — provided he settles with you. It will be up to you to get the best possible conditions. Of course we shall help you. Keep this confidential, but you might talk it over with Roosevelt when you get to America. There‘s nothing he and I cannot do if we set our minds on it.‘‘

(Trial and Error by Chaim Weizman , internet archives p 427)

ترجمہ : میں آپ کو ایک منصوبے کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں۔ ظاہر ہے کہ ہم اس پر اسی وقت عمل کر سکتے ہیں جب جنگ ختم ہو جائے۔ اگر وہ آپ سے معاملات طے کر لے تومیں ابن سعود کو مشرق وسطیٰ کا حاکم یا افسروں کا افسر دیکھنا چاہتا ہوں۔یہ تمہارے پر منحصر ہے کہ تم بہترین شرائط پر معاملہ طے کرو۔ یقیناََ ہم تمہاری مدد کریں گے۔ اس بات کو خفیہ رکھو لیکن جب تم امریکہ جائو تو روزویلٹ (صدر امریکہ) سے اس کے بارے میں بات کر سکتے ہو۔اگر ہم دونوں کچھ کرنے کا ارادہ کر لیں تو ایسا کچھ نہیں جو ہم نہیں کر سکتے۔

اسرائیل کی حکومت کس کی مدد کر رہی ہے؟

ان سب حقائق کی موجودگی میں یہ افسانہ بہت دلچسپ ہے کہ نعوذُ باللہ جماعت احمدیہ برطانوی استعمار کے سائے تلے پرورش پا رہی تھی۔جیسا کہ پہلی قسط میں یہ ذکر آیا تھا کہ اینکر عمران ریاض خان صاحب نے ایک کتاب Israel: A profileکا حوالہ دے کر یہ الزام لگانے کی کوشش کی تھی کہ احمدی اسرائیل کو سپورٹ کر رہے ہیں۔یہ الزام لگانے کے لیے تو انہیں غلط ترجمہ کرنا پڑا تھا لیکن اس سے چند صفحات پہلے اگر اس کتاب کا مطالعہ کیا جائے تو حقیقت کھل جاتی ہے کہ کون کس کو سپورٹ کر رہا ہے؟ اس کتاب کے صفحہ نمبر 72 پر لکھا ہے کہ اسرائیل کے مسلمانوں میں سب سے زیادہ تعداد سنی فرقہ کے لوگوں کی ہے۔ اور اسرائیل نے مسلمانوں کے حقوق میں کوئی کمی نہیں کی۔پھر لکھا ہے:

The decisions of Muslim courts are carried on by executive powers of the state.

ترجمہ: مسلمانوں کی عدالتوں کے فیصلوں کو ریاست کی انتظامی طاقت سے نافذ کیا جاتا ہے۔

پھر لکھا ہے:

The local budgets of Muslim communities trebled since 1960. The government has maintained in good repair about 130 mosques and has paid the salaries of more than 200 qadis, muezzins (callers to prayers) and other religious functionaries . Tens of thousands of copies of Koran, mainly from Turkey have been brought and shipped in for Muslim use in Israel.(Israel: A profile, by I.T. Naamani, p72_73)

ترجمہ : مسلمانوں کی مقامی آبادیوں کا بجٹ 1960ء سے تین گنا ہو چکا ہے۔ حکومت نے 130مساجد کی مرمت کراکے انہیں اچھی حالت میں رکھا ہوا ہے اور حکومت 200 قاضیوں، مؤذنوں اور دوسرے مذہبی عمال کی تنخواہیں دے رہی ہے۔قرآن کی ہزاروں کاپیاں اسرائیل کے مسلمانوں کے استعمال کے لیے ترکی سے منگوائی گئی ہیں۔

حیفا (فلسطین) میں موجود احمدیوں کا بجٹ کہاں سے آتا ہے۔ اس بارے میں مفتی محمود صاحب ایک احسان کر گئے ہیں۔ انہوں نے 1974ء میں قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی میں جماعت احمدیہ حیفا کے بجٹ کی کاپی پیش کر دی تھی۔(ملاحظہ کریں کارروائی سپیشل کمیٹی قومی اسمبلی 1974صفحہ 2049)۔اس شائع شدہ بجٹ سے ظاہر ہے کہ ساری غریبانہ آمد چندوں سے آ رہی تھی اور خرچ تبلیغ اور اشاعت لٹریچر پر ہو رہی تھی۔ فرق صاف ظاہر ہے۔

یہ حوالہ پڑھ کر قارئین خود ہی فیصلہ کر سکتے ہیں کہ اس کتاب کی رو سے بھی اس الزام کی حقیقت کیا ہے؟

اس سے بھی بڑھ کر لطیفہ ملاحظہ فرمائیں کہ اینکر عمران ریاض خان صاحب اپنی ویڈیو میں یہ سنسنی خیز انکشاف کرتے ہیں:

’’کتاب کا مصنف کہتا ہے کہ قادیانیوں کے انتہائی سینیئر رہ نما نے اپنے ریسٹورنٹ میں مانچسٹر میں ان کا ریسٹورنٹ تھا وہاں انہوں نے مجھ سے کہا

Give peace to the Ahmadis if you want peace in Karachi

کہ آپ قادیانیوں کو امن دیں اگر آپ چاہتے ہیں کہ کراچی کو امن ملے۔ اور یہ شخص پھر بتاتا ہے کہ یہ وہ وقت تھا کہ بے نظیر بھٹو کراچی میں کلین اَپ آپریشن کر رہی تھیں نصیر اللہ بابر کے ذریعہ سے۔‘‘

سمجھ نہیں آتی کہ اس انکشاف پر رویا جائے یا ہنسا جائے۔یہ تاثر دینے کی کوشش فرمائی جا رہی ہے کہ اسرائیل تو اسرائیل کراچی میں بھی جو امن و امان کی صورت حال ہے وہ بھی قادیانیوں کی سازش ہے۔ لیکن ملاحظہ فرمائیں کہ کراچی میں صورت حال خراب رکھنےکی دھمکی ایک اسرائیلی پروفیسر کو لگائی جا رہی ہے۔ اگر کوئی فرضی قادیانی اسرائیلی پروفیسر کو یہ فرضی دھمکی دیتا۔ تو زیادہ سے زیادہ یہی ہو سکتا تھا کہ وہ صاحب ہنس کر کہتے اپنے ریستوران میں اچھی سی کافی پلا دیں۔ مجھے کراچی کی کیا فکر؟ اور عمران ریاض خان صاحب کی ذہانت ملاحظہ ہو کہ فرما رہے ہیں کہ اس کتاب کے مصنف کو یہ بات اس قادیانی نے اس وقت بتائی جب بے نظیر صاحبہ کے دور میں کراچی میں آپریشن چل رہا تھا اور مصنف نے اپنی کتاب میں یہ بیان کر دیا۔ ان کا بھولپن دیکھیں کہ کتاب کا سرورق پڑھنا بھول گئے۔ یہ کتاب 1972ء میں شائع ہوئی تھی اور بے نظیر صاحبہ 1988ء میں پہلی مرتبہ وزیر اعظم بنی تھیں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button