متفرق مضامین

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ گزرے ہوئے چند لمحات کی دل نشیں یادیں

(سید شمشاد احمد ناصر۔ مبلغ سلسلہ امریکہ)

آپ کی نصائح، مسائل کا حل ،شفقتوں اور دلداریوں کا ذکر

مکرم عابدوحیدخان صاحب نے Covid-19کے ایام کے بارے میں جو ڈائری لکھی خاکسار جب اس کے آخری حصہ پر پہنچا جس میں انہوں نے حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے چند ماہ قبل اپنے باغیچہ میں گرنے کا واقعہ بیان کیا تھاتو اس میں درج تھا کہ ’گرنے کے باوجود حضور نے اپنے آپ کو اٹھایا اور جا کر اپنا پورا کام کیا اور پھر گھر کی طرف گئے۔ ‘ محترم عابد صاحب نے اس واقعے کے ساتھ یہ بھی لکھا کہ اس کے بیان کا مقصد صرف یہ ہے کہ حضور کی ہمت اور بہادری تمام افراد کے لیے ایک مثال ثابت ہو۔

گھانا میں تربیت کا ایک واقعہ

میں نے جب یہ واقعہ پڑھا تو فوراً خاکسار کے ذہن پر ایک اَور واقعہ حضور انور کی تربیت کا بجلی کی طرح گرا اور یہی واقعہ بھی اس مضمون کو لکھنے کا سبب بنا اور وہ واقعہ اس طرح ہے کہ میں گھانا میں خدمت بجا لارہا تھا ۔ایک دفعہ اکرا سے واپسی پر کوفوریڈوا جانا تھا تو میں نے اکرا سے سویڈروکی بس لی۔ وہاں پر احمدیہ ہسپتال تھا جس کے انچارج ڈاکٹر طارق احمد صاحب تھے جو آج کل قادیان میں احمدیہ ہسپتال میں خدمت بجا لارہے ہیں۔ سویڈرو کے ساتھ ہی وہ جگہ تھی جہاں پر اس وقت حضور پُر نور ایک سیکنڈری سکول میں خدمات بجا لارہے تھے۔ چنانچہ میں سویڈرو سے حضور (صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب) کو ملنے کے لیے چلا گیا۔ ہم باہر مکان کے صحن میں بیٹھے تھے کہ اچانک صاحبزادہ مرزا وقاص احمد صاحب ( جو اس وقت شاید سال ڈیڑھ سال کے ہوں گے) ہماری طرف چل کر آنے لگے لیکن راستہ ہی میں کنکریوں کی وجہ سے گر گئے۔ میں اپنی کرسی سے اٹھا ہی تھا کہ انہیں اٹھاؤں ۔آپ نے مجھے فوراً بٹھا دیا کہ اسے خود اٹھنے دو۔ میں نے کہا: میاں صاحب وہ بچہ ہے گر گیا ہے۔ آپ نے فرمایا اسی طرح گر کر خود اٹھنے سے ہمت پیدا ہوتی ہے۔ زندگی میں تو انسان کو کئی دفعہ اس قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انسان کو گر کر خود سنبھلنا چاہیے۔ دوسروں کا انتظار نہیں کرنا چاہیے اور یہی سبق اسے (مرزا وقاص احمد صاحب کو) دینا ہے کہ اگر کبھی گر جاؤ تو خود سنبھلو۔ الفاظ تو میرے ہیں لیکن مفہوم وہی ہے جو آپ نے ارشاد فرمایا تھا۔

ہر شخص اس بات سے اندازہ لگا سکتا ہے کہ اس نصیحت میں کتنا بڑا وزن اور کتنا بڑا وِژن ہے۔ زندگی مشکلات سے بھری پڑی ہے لیکن اگر انسان خدا پر توکل کر کے خود ہی اس سے نکلے تو اس کا مزا کچھ اور ہے اور اس طرح دوسروں سے شکوہ بھی کبھی پیدا نہ ہو گا کہ فلاں وقت میری مشکل میں کوئی کام نہ آیا۔ اللہ تعالیٰ حضور انور کو ہمیشہ ہر قسم کی مشکلات اور پریشانیوں سے محفوظ رکھے۔ آمین۔

اب بات چل پڑی ہے ڈائری سے اور پھر حضور انو رکے ساتھ بیتے ہوئے کچھ لمحات کی یاد کو تازہ کرنے کی۔

خاکسار ابھی گھانا میں آیا ہی تھا تو کچھ ماہ اکرا میں رہ کر کام کرنے کا موقع ملا۔ اس کے بعد جب میری تقرری محترم امیر عبدالوہاب بن آدم صاحب(مرحوم) نے کوفوریڈوا میں کی تو جلد ہی وہاں پر ریجنل جلسہ کرنا تھا۔ خاکسار نے مکرم امیر صاحب گھانا کی خدمت میں لکھا کہ وہ اس ریجنل جلسہ کی صدارت کے لیے تشریف لائیں جو آپ نے منظور کر لیا۔ ساتھ ہی خاکسار نے چند اَور دوستوں کو بھی دعوت دی اور سیدنا مرزا مسرور احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ کو بھی دعوت دی۔ آپ نے بھی ارشاد فرمایا کہ ٹھیک ہے میں آؤں گا۔

اس زمانے میں گھانا کے معاشی حالات بڑے خراب تھے۔ چیزوں کا ملنا بہت ہی مشکل تھا خصوصاً خورو نوش کی اشیاء۔ حتیٰ کہ صابن، ٹوتھ پیسٹ، دودھ وغیرہ کا حصول بھی بہت مشکل ہوتا تھا۔ اور مہنگائی بھی بہت زیادہ تھی۔ جب سیدنا حضرت مرزا مسرور احمد صاحب تشریف لائے تو دو باتیں اس وقت کی بہت اچھی طرح یاد ہیں۔ ایک تو یہ کہ جب ہمارا ریجنل جلسہ ختم ہوا تو آپ نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ گھانا کیسا لگا؟ اور دوسرے کام میں کچھ مشکلات تو نہیں؟

خاکسار نے عرض کی کہ کام تو بہت ٹھیک جارہا ہے خداتعالیٰ کے فضل سے اس میں کوئی مشکلات نہیں۔ البتہ کھانے سے متعلق ایک دقّت ہے۔ آپ نے پوچھا وہ کیا؟ عرض کی یہاں ایک تو مہنگائی بہت ہے دوسرے گوشت بہت مہنگا اور تیسرے یہاں پر گوشت کھال سمیت ملتا ہے اور جب گوشت سے کھال اتار کر پھینک دو تو گوشت کی مقدار نصف سے بھی کم رہ جاتی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ کھال سمیت پکایا کرو اور کھا لیا کرو۔ میں نے کہا لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ۔ اس پر آپ نے فوراً میری رہ نمائی فرمائی کہ یہ کھال گھٹنے سے اوپر حرام کیسے ہے جبکہ گھٹنے سے نیچے حلال ہو جاتی ہے۔ یعنی جب پائے پکائے جاتے ہیں کھال سمیت پکاتے ہیں اور وہ لذیذ بنتے ہیں۔

میں نے تو اپنی ناسمجھی میں اس وقت

لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃ

کہہ دیا۔ لیکن اس کے بعد سے گوشت کو کھال سمیت پکایا اور اس کا مزہ دوبالا ہو گیا اور پھر افریقہ میں بقیہ سال کھال سمیت ہی گوشت کو پکا کر کھاتے رہے اور لذت اٹھاتے رہے۔

یہ واقعہ نئے مربیان کے لیے بھی فائدہ مند ہو سکتا ہے جو افریقہ میں جاتے ہیں کیونکہ شروع شروع میں جب وہ ان چیزوں کو دیکھتے ہیں تو دل میں کچھ تنگی محسوس کرتے ہیں۔ لیکن یہ بات بہت ہی فائدہ مند ثابت ہوئی اور آپ نے مسئلہ کا حل فوراً نکال دیا۔ افریقن ممالک میں اکثر جگہ گوشت (خواہ بکرے، بھیڑ یا گائے کا ہو) کھال سمیت پکاتے ہیں اور مارکیٹ میں بھی کھال سمیت ہی فروخت ہوتا ہے۔

اس واقعہ کے بعد اب تک افریقن دوستوں کا کھانا میں تو شوق سے کھاتا ہوں اور اگر اس میں ایسا گوشت ہو جس پر کھال نہ ہوتو اس کی لذت میں کمی محسوس ہوتی ہے۔

اس موقع پر دوسرا واقعہ یہ ہوا کہ سیدنا حضرت مرزا مسرور احمد ریجنل جلسہ کے لیے تشریف لائے تھے۔ دوپہر کے کھانے پر خاکسار نے انہیں ثابت مونگ کی دال اور چاول کھلائے۔ حضور نے کھانے کی اس سادگی پر خاکسار کو کچھ نہیں فرمایا بلکہ نہایت بشاشت کے ساتھ تناول فرمایا۔

کینیڈا میں دلنشیں یادیں

تین چار سال پہلے حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ جب کینیڈا تشریف لے گئے تھے تو امریکہ سے بھی عشاقِ خلافت وہاں پہنچے۔ ہمیں بھی اجازت اور سعادت ملی کہ ہم وہاں چلے جائیں اور حضور انورکی معیت سے برکت اور استفادہ حاصل کریں۔

کینیڈا میں بھی ملاقاتیں ہو رہی تھیں۔ مکرم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب سے ہم ملے کہ ہم نے بھی ملاقات کرنی ہے۔ وہ کہنے لگے کہ کینیڈا کے لوگوں کی ملاقات ہی ہو گی۔ ہم بھی دو تین دن اپنی عرضی پیش کرتے رہے اور ہمیں مکرم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کی طرف سے یہی جواب ملتا کہ کینیڈا کے لوگوں کو ترجیح ہے۔ ہم جواب سن کر خاموش ہوجاتے۔ ملاقاتوں کا آخری دن تھا۔ مکرم ظہیر احمد باجوہ صاحب اور خاکسار نے مل کر درخواست دی کہ ہمیں سب سے آخر میں بس زیارت کروا دیں۔ عین نوازش ہو گی۔

چنانچہ اس آخری دن کی ملاقاتوں میں سب سے آخر پر ہمارا دونوں کا نام اس طرح درج تھا۔

سید شمشاد احمد مبلغ امریکہ مع ظہیر احمد باجوہ صاحب۔

جب ہماری باری آئی تو حضور انور سے ملاقات کے کمرے میں داخل ہوئے۔ حضور نے شفقت سے کھڑے ہو کر ہمیں خوش آمدید کہا اور پھر کرسیوں پر بیٹھتے ہی از راہِ تفنّن فرمایا کہ باجوہ صاحب آپ شمشاد صاحب کے ’مع‘ کب سے بنے ہیں۔ اس کے بعد ہم نے اپنی اپنی باتیں کیں۔ اس دوران حضورِ انور نے خاکسار سے پوچھا کہ آپ کہاں ٹھہرے ہوئے ہو۔ میں نے عرض کی کہ یہاں نزدیک ہی گیسٹ ہاؤس ہے، اس میں۔ آپ نے فرمایا وہاں کہیں ’شیشہ‘ نہیں لگا ہو ا۔ میں نے فوراً اپنے منہ اور داڑھی پر ہاتھ پھیرا کہ شاید میں نے کوئی چیز کھائی ہے جو منہ پر یا داڑھی پر لگی رہ گئی ہے۔ حضور انورنے جب دیکھا کہ میں اپنی داڑھی اور منہ پر جلدی سے ہاتھ مار رہا ہوں تو فرمانے لگے نہیں۔ تم نے خط نہیں بنایا ہوا۔ میں نے عرض کی جی حضور ہفتہ میں دو بار بناتا ہوں کل کو بنانا تھا۔

بظاہر یہ بہت معمولی بات ہو گی لیکن حضورانور نے اس میں مجھے پیغام دیا کہ مربی کا چہرہ، لباس، اٹھنا بیٹھنا ہر وقت خوبصورت ہونا چاہیے۔ اس کے بعد سے خاکسار نے اب ہفتہ میں 3 بار خط بنانا شروع کر دیا ہے تا حضور کی بات پر عمل ہوتا رہے۔

اسی دوران آپ نے باجوہ صاحب کو فرمایا کہ شمشاد صاحب جب گھانا میں تھے تو ان کو گوشت کھانے کی عادت تھی اور گوشت ملتا نہیں تھا۔ تو شمشاد تھوڑا سا گوشت لے کر اس میں کبھی دال اور کبھی کوئی سبزی ڈال لیتے تھے اور جب وہ ختم ہونے لگتا اَور پانی ڈال لیتے تھے۔ حضور نے اتنا ہی فرمایا تھا کہ باجوہ صاحب کہنے لگے کہ حضور ’’اسی وجہ سے میں شاہ صاحب کا مرید ہوں۔ ‘‘ اس پر حضور نے فرمایا کہ ’’نہیں مرید تم نے ایک ہی کا رہنا ہے۔ شاہ صاحب سے تم کام کرنا سیکھو کہ کس طرح کام کیا جاتا ہے۔ مرید تم نے ایک ہی کا رہنا ہے۔ ‘‘

اسی طرح حضور نے فرمایا کہ شمشاد صاحب گھانا میں ڈبل روٹی بھی نہیں کھاتے تھے۔ مَیں نے عرض کی حضور! ڈبل روٹی تو میں اَب بھی نہیں کھاتا۔ حضور نے فرمایا: کبھی کبھی کھا لینی چاہیے۔ میٹنگ کے اختتام پر خاکسار گیسٹ ہاؤس گیا اور جاتے ہی سب سے پہلے ڈبل روٹی کھائی تاکہ حضور کی بات پر عمل ہو جائے۔ اور اب اس کے بعد کبھی کبھی روٹی کی موجودگی میں بھی ڈبل روٹی ہی کھا لیتا ہوںتا نصیحت پر عمل ہو جائے اور ثواب ہو۔

امریکہ میں تربیت کا ایک واقعہ

اب میں ایک ایسا واقعہ لکھنے لگا ہوں جس میں حضور انور کی ناراضگی اور میرے لیے سزا کا پہلو ہے۔ لیکن اس بات کے لکھنے کا مقصد صرف اور صرف حضورِ انور کے اپنے غلاموں کی تربیت کو ہر چیز پر ترجیح دینے کے دل نشیں انداز کو اجاگر کرناہے۔ خلیفۂ وقت ہر معاملہ میں نظام جماعت کی برتری چاہتے ہیںجس میں کسی چھوٹے بڑے کا سوال نہیں ہے۔ نظام جماعت اور تعلیم و تربیت ہر لحاظ سے اولیت رکھتے ہیں، شخصیت نہیں۔ ہوا یوں کہ خاکسار 2005ء میں لاس اینجلیس میں متعین تھا۔ ہمارے ایک مربی صاحب کے بیٹے کی شادی تھی۔ مجھے مربی صاحب کی طرف سے بھی ولیمہ میں شامل ہونے کی دعوت تھی۔ اور دوسری طرف میرے دوست تھے جن کی بیٹی کی ان مربی صاحب کے بیٹے کے ساتھ شادی تھی۔ اس طرح خاکسار رخصتی اور ولیمہ دونوں میں شامل ہوا۔ ایک اَور مربی صاحب بھی جو یہاں متعین تھے اس میں شامل تھے۔

جس دن ولیمہ تھا جو کہ ایک ریستوران میں ہوا تھا وہاں پر بیک گراؤنڈ میں میوزک چل رہا تھا۔ میں نے اس کی طرف بالکل دھیان نہیں دیا اور دوستوں کو ملنے اور ملاقات میں مصروف رہا۔ کیونکہ خاکسار یہاں پر عرصہ چار سال سے زائد بطور مربی سلسلہ خدمات بجا لا چکا تھا سب سے واقفیت تھی اور وہی ایک موقع تھا جس پر سب دوستوں سے ملاقات ہو رہی تھی۔ خیر ولیمے کی دعوت ختم ہوئی سب چلے گئے۔

کسی دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں اطلاع دی کہ مربی صاحب کے بیٹے کا ولیمہ تھا اور دیگر مربی بھی تھے اور ولیمہ کے موقع پر میوزک چل رہا تھا جس پر حضور انور نے ہم سے استفسار فرمایا کہ کیا ہوا ہے؟ ہم نے اپنی اپنی وضاحت لکھ کر بھیج دی جس پر مکرم عبدالماجد طاہر صاحب ایڈیشنل وکیل التبشیر لندن کی طرف سے 8؍ اگست 2005ء کا لکھا ہوا خط مکرم امیر صاحب امریکہ کے نام آیا اس وقت امیر مکرم ڈاکٹر احسان اللہ ظفر صاحب تھے۔ اس میں حضور کی طرف سے ہدایت تھی کہ

………… کو واپس پاکستان بھجوا دیں۔ حضور نے فرمایا ہے ’’دَف بجانے کی اجازت سے میوزک اور فلمی گانوں کا جائز ہونا کہاں سےنکال لیا ہے۔ یہ لوگ تاویلیں نہ گھڑا کریں۔ دَف تو صرف اس لیے بجائی جاتی تھی کہ نکاح کا اعلان ہو، نہ کہ فخریہ اظہار کے لیے۔ دَف بجانے کے تعلق میں حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایاہے:

’’فقہاء نے اعلان بالدف کو نکاح کے وقت جائز رکھا ہے اوریہ اس لیے کہ پیچھے جو مقدمات ہوتے ہیں تواس سے گویا ایک قسم کی شہادت ہو جاتی ہے۔ ہم کو مقصود بالذ ات لینا چاہئے۔ اعلان کے لیے یہ کام کیا جاتا ہے یا اپنی کوئی شیخی اور تعلّی کا اظہار مقصود ہے۔

فرمایا باجا بجانا اس صورت میں جائز ہے جبکہ یہ غرض ہو کہ اس نکاح کا عام اعلان ہو جائے اورنسبت محفوظ رہے۔ …… البتہ ریاکاری فسق و فجور کے لیے یا صلاح و تقویٰ کے خلاف کوئی منشاء ہو تو منع ہے۔ ‘‘

حضورِ انور نے فرمایا ہے دونوں مبلغین مکرم سید شمشاد احمد ناصر صاحب اور ………… جو اس تقریب میں شامل ہوئے ہیں وہ جلسہ سالانہ یو ایس اے کے موقع پر کھڑے ہو کر اعلان کریں کہ اس ولیمہ کی تقریب میں جو میوزک اور فلمی گانوں کا پروگرا م ہوا ہے یہ انتہائی غلط ہوا ہے اور ہم جو اس میں شامل ہوئے تھے ہم سے غلطی ہوئی تھی۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا۔ ہم جماعت کو بتانا چاہتے ہیں جو ہوا ہے وہ غلط ہوا ہے اور اس کو ہرگز روایت نہیں بنانا چاہئے۔ ‘‘

حضور نے فرمایا ہے دونوں مربیان ایک لاکھ مرتبہ استغفار کریں۔

مکرم امیر صاحب کی طرف سے جب یہ خط ملا تو استغفار شروع کر دیا اور اس کے ساتھ ساتھ صدقہ بھی دیتا رہا۔ اب جلسہ سالانہ پر اعلان کرنا تھا۔ چنانچہ جلسہ کا پہلا دن تھا اور اجلاس کی صدارت امیر صاحب امریکہ ڈاکٹر احسان اللہ ظفر صاحب فرما رہے تھے۔ جلسہ کے سیشن کے اختتام پر آپ نے ہم دونوں مبلغین کو سٹیج پر بلایا جہاں سے سب لوگ ہمیں بھی دیکھ سکتے تھے۔ پوڈیم سے تھوڑا الگ ہو کر ہم دونوں مبلغین سب کے سامنے کھڑے تھے۔ محترم امیر صاحب نے چند ابتدائی کلمات کہے کہ ہمیں کیوں سٹیج پر بلایا گیا ہے اور حضورِ انور کی ہدایت سنائی۔ مجھ سے پہلے دوسرے مبلغ بھائی نے اسی طرح الفاظ پڑھ دیے جس طرح کہ خط میں ہدایت تھی۔ اس کے بعد امیر صاحب نے خاکسار کو بلایا۔ خاکسار نے اعوذ باللّٰہ من الشیطان الرجیم، بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم اوراہدنا الصراط المستقیم۔ صراط الذین انعمت علیہم غیرالمغضوب علیہم ولا الضالینپڑھا۔ اور پھر یہ کہا کہ

اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ پر خاص فضل اور احسان کیا ہوا ہے کہ ہمیں خلافت کی نعمت سے نوازا ہے۔ ہم میں سے جب بھی کسی بڑے یا چھوٹے یا کسی سے بھی کوئی غلطی ہوتی ہے تو حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہمیں نصیحت فرماتے اور ہدایت فرماتے ہیں تا وہ غلطی درست ہو جائے اور تقویٰ پر ہم چل پڑیں اور خداتعالیٰ کا قرب حاصل کریں۔

خلافت کی رہ نمائی میں جو ہدایات ہم (احمدی) لیتے ہیں وہ کسی اَور کو نہیں ملتیں۔ ہم اس نعمت پر خداتعالیٰ کے شکرگزار ہیں۔ اس لیے ہم میں سے ہر ایک کو چاہیے کہ وہ حضرت خلیفۃ المسیح کی ہدایات کی پوری طرح اور خوش دلی کے ساتھ مکمل اطاعت کریں۔

آج اس وقت میں آپ کے سامنے کھڑا ہوں اور حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے ساتھ کہ یہ اعلان کروں کہ وہ شادی جس میں مَیں اور میرے دوسرے مربی بھائی شامل ہوئے تھے۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں فرمایا ہے کہ جلسہ سالانہ کے موقع پر کھڑے ہو کر ہم یہ اعلان کریں کہ اس ولیمہ کی تقریب میں جو میوزک اور فلمی گانوں کا پروگرام ہوا ہے یہ انتہائی غلط ہوا ہے مجھے اس میں قطعاً شرکت نہیں کرنی چاہیے تھی۔ اس لیے میں اپنی غلطی کا اعتراف کرتا ہوں اور آئندہ میں اس قسم کی کسی مجلس میں شریک نہیں ہوں گا۔ میرے شامل ہونے سے جماعت یہ نہ سمجھے کہ چونکہ اس قسم کی مجلس میں مربی شامل تھا اس لیے ہم بھی شامل ہو سکتے ہیں۔

میں دلی طور پر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا ہوں اور اس بات سے مجھے شرم محسوس ہوئی ہے کہ میں کیوں اس میں شامل ہوا۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اور میں پیارے حضور سے بھی معافی کا خواستگار ہوں کہ آئندہ کوشش کروں گا کہ حضور کی توقعات کے مطابق کام کروں۔ ان شاء اللہ

رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِیْ فَاغْفِرْلِیْ ذُنُوْبِیْ فَاِنَّہٗ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ۔

اس دعا کا ترجمہ انگریزی پڑھنے کے بعد خاکسار نے تین دفعہ خلافت احمدیہ زندہ باد کے نعرے لگائے۔

حضور انور کے ارشاد پر جلسہ کے اس سیشن پر ہم نے یہ اعلان کر دیا۔ اعلان کرنے کے بعد جوں ہی سٹیج سے میں نیچے اترا جلسہ میں شامل ہونے والوں کا ایک جم غفیر خاکسار کی طرف بڑھا۔ سب سے پہلے مجھے یاد ہے کہ مکرم شیخ فضل احمد صاحب مرحوم آف لاہور (برادر اصغر مولانا شیخ مبارک احمد صاحب مرحوم) خاکسار کی طرف تیزی سے بڑھے۔ انہوں نے مجھے اپنے سینے کے ساتھ چمٹا لیا اور بہت پیار کیا اور ساتھ ہی کہنے لگے کہ آج حضرت مصلح موعودؓ کا زمانہ یاد آگیا ہے۔ کہنے لگے کہ ایک موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے حضرت مولانا درد صاحب کو بھی اسی قسم کا جلسہ پر اعلان کرنے کے لیے ارشاد فرمایا تھا۔

ان کے بعد باری باری لوگ مجھے اپنی بانہوں میں لے رہے تھے اور اکثر دوستوں نے اس وقت یہ کہا کہ ہمیں آپ پر رشک آرہا ہے۔ آپ نے حضرت امیر المومنین کی ہدایت کی پوری پوری اطاعت کی ہے۔ آج کے بعد آپ کی عزت ہماری نظروں میں پہلے سے بہت زیادہ ہو گئی ہے۔ کئی لوگ دعا بھی دے رہے تھےاورکہہ رہےتھےکہ آپ نے طاعتِ امام کا زندہ ثبوت فراہم کیا۔ کئی ہمارے لیے دعائیں کر رہےتھے اس موقعے پر میری جو کیفیت اور حالت تھی وہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور میں دل ہی دل میں بس۔ الحمد للہ۔ الحمد للہ۔ الحمدللہ پڑھتا جا رہا تھا۔ اور استغفار کا سلسلہ اس کے بعد بھی جاری رکھا۔

1۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضور انور کی ہدایت پر عمل کرنے سے خاکسار کو مزید عزت ملی اور نہ صرف عزت بلکہ لوگوں نے جس محبت اور اخلاص کا مظاہرہ کیا اس کا میں ذکر کر چکا ہوں۔ اس پر میں اللہ تعالیٰ کا بے حد شکرگزار ہوں۔

2۔ بادی النظر میں ہزاروں کے مجمع کے سامنے یہ کہناکہ میں نے بھی غلط کام کیا ہے بڑا مشکل معلوم ہوتا ہے لیکن اس کے پیچھے بھی ایک طاقت جس نے یہ سارا کام آسان کر دیا اور وہ طاقت بھی حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی دعاتھی۔ مجھے سو فی صد کامل یقین ہے کہ جب پیارے حضور نے ہمارے لیے یہ ہدایات بھیجیں تو ہمارے لیے دعائیں بھی کیں۔ بس ان دعاؤں سے یہ سارا کام آسان ہوا۔

3۔ پھر میرے ذہن میں حضرت مصلح موعودؓ کی دو باتیں تھیں ایک یہ جس میں آپؓ نے فرمایا:

’’خلافت کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ جس وقت خلیفہ وقت کے منہ سے کوئی لفظ نکلے اس وقت سب سکیموں، سب تجویزوں اور سب تدبیروں کو پھینک کر رکھ دیا جائے اور سمجھ لیا جائے کہ اب وہی سکیم وہی تجویز اور وہی تدبیر مفید ہے جس کا خلیفہ وقت کی طرف سے حکم ملا ہے۔ جب تک یہ روح جماعت میں پیدا نہ ہو اس وقت تک سب خطابات رائیگاں، تمام سکیمیں باطل اور تمام تدبیریں ناکام ہیں۔ ‘‘

دوسری چیز جو خاکسار کے مدنظر تھی وہ یہ کہ آپؓ نے فرمایا تھا:

’’مبلغین اور واعظین کے ذریعہ بار بار جماعتوں کے کانوں میں یہ آواز پڑتی رہے کہ پانچ روپے کیا، پانچ ہزار روپیہ کیا، پانچ لاکھ روپیہ کیا، پانچ ارب روپیہ کیا، اگر ساری دنیا کی جانیں بھی خلیفہ کے ایک حکم کے آگے قربان کر دی جاتی ہیں تو وہ بے حقیقت اور ناقابل ذکر چیز ہیں۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍جولائی 1936ء مطبوعہ خطبات محمود جلد 17 صفحہ 457)

4۔ چوتھے خاکسار نے یہ واقعہ اس لیے بھی لکھا ہے تاکہ ہم میں سے ہر ایک احمدی مرد و عورت بچہ اس واقعہ کو پڑھ کر نصیحت حاصل کرے کہ اسلام کے احکامات پر عمل کرنے کے لیے ہی اس جماعت کا قیام عمل میں آیا ہے۔ دوسرے حضرت خلیفۃ المسیح کی ہر حال میں اطاعت و فرمانبرداری کرنی ہے، تیسرے یہ کبھی نہیں سوچنا کہ اس میں ہماری بے عزتی ہے۔ عزتیں تو ساری اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں لوگوں کے پاس نہیں اور جو خدا کی خاطر احکامات پر عمل کرتا ہے اللہ تعالیٰ خود اس کی عزت کے سامان پیدا کر دیتا ہے۔

اس سلسلہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے اس ارشادکو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارا جسم امام کے ہاتھ میں میت کی طرح ہونا چاہیے جب یہ کیفیت ہو گی تو پھر انسان عزت یا بے عزتی کا تصور نہیں کر سکتا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں:

’’جو جماعتیں منظم ہوتی ہیں ان پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، جن کے بغیر ان کے نام کبھی بھی صحیح طور پر نہیں چل سکتے…… ان شرائط او رذمہ داریوں میں سے ایک اہم شرط اور ذمہ داری یہ ہے کہ جب وہ ایک امام کے ہاتھ پر بیعت کر چکے تو پھر انہیں امام کے منہ کی طرف دیکھتے رہنا چاہئے کہ وہ کیا کہتا ہے۔ اور اس کے قدم اٹھانے کے بعد اپنا قدم اٹھانا چاہئے اور افراد کو کبھی بھی ایسے کاموں میں حصہ نہیں لینا چاہئے جن کے نتائج ساری جماعت پر آکر پڑتے ہوں…… امام کا مقام تو یہ ہے کہ وہ حکم دے اور ماموم کا مقام یہ ہے کہ وہ پابندی کرے۔ ‘‘

(روزنامہ الفضل 26؍اپریل 2003ء صفحہ 1)

خاکسار کوئی علمی مضمون نہیں لکھ رہا لیکن یہ باتیں اس واقعہ کے ساتھ بتانی ضروری ہیں۔ تا احباب جماعت کے ذہنوں میں یہ بات مستحضر رہے کہ خلیفۂ وقت کی نگاہ میں کسی چھوٹے بڑے کا سوال نہیں ہے بلکہ جماعت کا کارندہ اور کارکن اگر کوئی غلطی کرے تو اس پر بھی اسی طرح سرزنش ہوتی ہے جس طرح عام احمدی پر۔ یہ ایسا اصول ہے جس کی طرف جماعت کو توجہ دلانا مقصود ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو خلیفۂ وقت کا حقیقی مطیع اور جاں نثار بنائے تاکہ ہم اُن کے سلطان نصیر ثابت ہوں اور ہماری طرف سے آپ کی آنکھیں ہمیشہ ٹھنڈی رہیں۔ آمین۔

لاس اینجلیس میں حضور انور کی دل داری

یہ 2013ء کا واقعہ ہے جب حضور انور کیلیفورنیا تشریف لائے۔ غالباً 13، 14دن کا دورہ تھا۔ مسجد بیت الحمید میں آپ کا قیام تھا۔ ہر روز بہت مصروف گزر رہا تھا، جماعت نے ایک دن سیر کاپروگرام بنایا کہ حضور کو مسجد بیت الحمید سے غالباً 30، 35 میل دور ایک جگہ Big Bear Lakeجھیل تھی وہاں لے جائیں۔ چنانچہ آپ کے ساتھ ہمیں بھی جانے کی سعادت نصیب ہوئی۔ آپ نے ایک درخت کےنیچے سب خدام کے ساتھ بیٹھ کر چند لمحات گزارے۔ جب واپس آرہے تھے تو بڑی بوٹ (Boat) تھی اس میں سب خدام ہی تھے، حضور کی خدمت میں خاکسار نے عرض کی کہ حضور آپ کو جھیل اور جگہ پسند آئی۔ حضور نے فرمایا میں نے تو اس سے بھی بہت عمدہ عمدہ، خوبصورت اور بڑی جھیلیں دیکھی ہیں۔ میں تو آپ کی دل داری کی خاطر آگیا ہوں۔

یہ بات واقعی درست تھی۔ حضور نے تو ضرور عمدہ، خوبصورت اور بڑی جھیلیں دیکھی تھیں۔ لیکن آپ کی وجہ سے ہمیں بھی یہاں سیر کرنے اور اس علاقہ اور جھیل کو دیکھنے کا موقع مل گیا۔ میں یہاں مسجد بیت الحمید میں دس سال رہا ہوں اور یہ جگہ مسجد سے کوئی 35میل دور ہو گی لیکن اس سے قبل وہاں کبھی جانے کا موقع نہ ملا تھا۔ یہ حضور کی شفقت اور دلداری تھی کہ آپ کی برکت سے ہم وہاں گئے اور آپ کے ساتھ چند یادگار لمحات گزارنے کی سعادت مل گئی۔ جس کی لذت اب تک محسوس ہوتی ہے۔ الحمد للہ علیٰ ذالک۔

یہاں پر جب ظہر و عصر کی نمازیں پڑھیں تو نماز کے بعد خاکسار اپنے جوتے پہننے لگا۔ مکرم منیر احمد جاوید صاحب بیٹھ کر اپنے جوتے پہن رہے تھے۔ میں نے اپنے جوتے پہننے کے لیے مکرم منیر جاوید صاحب کے کندھے پر ہاتھ رکھ لیا تا سہارا مل جائے۔ حضور نے دیکھ کر فرمایا کہ شمشاد یہ کیا؟ آپ کی کتنی عمر ہے۔ منیر جاوید صاحب بولے حضور! یہ مجھ سے جامعہ میں سینئر تھے۔ حضور نے فرمایا: عمر کیا ہے؟ میں نے اپنی عمر بتائی۔ آپ نے فرمایا یہ تو کوئی ایسی عمر نہیں کہ سہارا لے کر جوتا پہنو۔ حضور انور نے چند سیکنڈوں ہی میں خاکسار کے ذہن میں یہ بات ڈال دی کہ خود ہمت کرنی چاہیے سہارا نہیں لینا چاہیے اور یوں مجھے جوان بنا دیا۔

قبل از خلافت پاکستان میں شفقت

خاکسار امریکہ سے چھٹی پر پاکستان گیا۔ ایک دن تحریک جدید کے دفاترمیں بزرگان سلسلہ سے ملنے گیا تو برآمدہ میں وکیل المال ثانی مکرم مبارک مصلح الدین صاحب مرحوم کے دفتر سے حضور پُر نور نکل رہے تھے، وہیں آپ سے آمنا سامنا ہوا۔ آپ نے پوچھا کب آئے ہو؟ خاکسار نے بتایا۔ آپ نے میرے دائیں بازو کو کہنی سے اوپر والے حصہ کو بڑے زور سے پکڑا اور اپنے ساتھ ہی اپنے دفتر میں لے گئے۔ آپ کا دفتر سامنے گیلری میں ایک طرف تھا، جب وہاں لے کر گئے تو میں حیران ہوا اور پوچھا کہ آپ کا یہ دفتر ہے؟ وہاں 5، 7اَور کارکنان بھی کام کر رہے تھے ایک کونے میں آپ کا دفتر تھا۔ آپ نے کرسی پر مجھے بٹھایا اور پھر آئس کریم سے تواضع کی۔ اور کچھ امریکہ کی باتیں ہوتی رہیں۔ آپ اُس وقت بطور نائب وکیل المال (ثانی) فرائض سرانجام دے رہے تھے۔

اسی طرح ایک اَور دفعہ جب میں چھٹی پر پاکستان آیا اس وقت آپ بطور ناظر اعلیٰ اور امیر مقامی خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ خاکسار دفتر ملنے گیا اور عرض کی کہ آپ کی خدمت میں بتانے آیا ہوں کہ میں آج کل ربوہ میں ہوں اور چھٹی پر آیا ہوں۔ آپ نے میرا پروگرام پوچھا۔ میں نے بتایا کہ چند دنوں میں اپنی ہمشیرگان کے پاس حیدرآباد سندھ جاؤں گا۔ اور واپس آکر میں نے احمد نگر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا Hutیا ڈیرہ دیکھنا ہے۔ آپ نے فرمایا ٹھیک ہے۔

میں حیدرآباد وغیرہ گھوم پھر کر آیا اور وہاں کچھ دن زائد لگ گئے جس کی وجہ سے ربوہ بھی تاخیر سے پہنچا اور ایک دو دن بعد میری واپسی کی فلائٹ تھی۔ الوداعیہ کے طور پر ملنے گیا اور عرض کی دو تین دن میں واپس جارہا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ آپ نے تو ابھی خلیفۃ المسیح الرابعؒ والا Hutدیکھنا تھا۔ وہاں کیوں نہیں جارہے۔ میں نے کہا کہ ایک تو گاڑی نہیں ہے دوسرے دن بھی تھوڑے رہ گئے ہیں۔ آپ نے فرمایا آج جاسکتے ہو؟ میں نے عرض کی گاڑی نہیں ہے کیسے جاؤں گا۔ آپ نے پوچھا کتنے بجے جانا چاہتے ہو؟ میں نے کہا 4؍بجے سہ پہر سے 6؍بجے شام تک۔ آپ نے فرمایا 4؍بجے تیار رہنا۔

ٹھیک 4؍بجے ایک نئی گاڑی، وین ہمارے دروازے پر پہنچ گئی اور خاکسار اپنی فیملی، بچوں اور خالہ، بہنوں کے ساتھ وہاں جگہ دیکھنے گیا۔ الحمدللہ۔ فجزاہ اللّٰہ احسن الجزاء۔ آپ نے مجھ پر بے حد شفقت فرمائی۔ یاد بھی رکھا اور سواری بھی مہیا فرمادی۔

ایک مضمون پر تبصرہ

ایک دفعہ خاکسار نے ’’سیرت داؤد‘‘ کے متعلق ایک مضمون لکھا۔ مضمون میں حضرت سید میر داؤد احمدصاحب کے ساتھ گزرے ہوئے واقعات، لمحات، آپ کی شفقتوں اور تعلیم و تربیت کا طریق کار بیان کیا تھا۔

خاکسار نے مضمون اس لیے لکھا کہ الفضل میں شائع کراؤ ں گا لیکن ساتھ یہ خیال بھی آیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھ سے کسی یادداشت میں غلطی ہو گئی ہو یا کوئی واقعہ نامناسب ہو اور بعد میں اس کی تصحیح ہو۔ بہتر اور بابرکت ہو گا کہ پہلے حضور انور کی خدمت میں پیش کر دوں۔ اس میں بھی ڈر تھا کہ شاید حضور کی خدمت میں پیش کرنے کے لائق بھی ہے کہ نہیں۔ میں نے مضمون پر ایک نوٹ مکرم منیر احمد جاوید صاحب کی خدمت میں لکھا کہ یہ مضمون ارسال ہے پہلے آپ پڑھ لیں اگر مناسب ہو تو حضور کی خدمت میں پیش کریں ورنہ نہیں۔ مکرم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے مجھے بتایاکہ میں نے ابتدائی چند صفحات پڑھے تھے اور حضور کی خدمت میں پیش کر دیا۔ خاکسار نے اس کے چند دن بعد ہی حضور انور کے ارشاد پر سیرالیون جلسہ سالانہ پر نمائندہ کے طور پر جانا تھا اس لیے ملاقات بھی ہونی تھی۔ خاکسار کے ذہن میں اس مضمون کے بارے میں کوئی خیال نہ تھا۔ سیرالیون جانے اور ہدایات لینے کے بارے میں ذہن میں سوالات تھے جن کے بارے میں حضور سے رہ نمائی لینی تھی۔

خاکسار جب ملاقات کے لیے اندر داخل ہوا تو حضور نے کھڑے ہو کر عاجز کو شرف مصافحہ عنایت فرمایا۔ اور فرمایا کہ تمہارا مضمون سیرت داؤد والا پڑھا۔ تمہارا پتہ لگ گیا ہے کہ تم کتنے لائق ہو؟

خاکسا رنے عرض کی حضور! میں تو پہلے بھی نالائق تھا۔ اب بھی نالائق ہوں۔ یہ تو حضور کی شفقت اور مہربانی ہے کہ پردہ پوشی فرما رہے ہیں اور اللہ کا احسان ہے کہ خدمت کی توفیق مل رہی ہے۔ پھر حضور نے فرمایا میں نے اس پر نوٹ لکھ دیا ہے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب سے لے لیں۔

جب خاکسار ملاقات کے بعد پرائیویٹ سیکرٹری صاحب سے ملا تو انہوں نے مسودہ مضمون کا دکھایا جس پر حضور نے اپنے دست مبارک سے تحریر فرمایا تھا :

’’اس مضمون کو شائع کروائیں۔ یہ صرف آپ سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ آج جامعہ کے اساتذہ، طلباء، مربیان، واقفینِ زندگی سب کے لیے لائحہ عمل ہے اللہ تعالیٰ میر صاحب کے درجات بلند فرماتا چلا جائے۔ آمین۔ ‘‘

بعد میں یہ مضمون الفضل انٹرنیشنل، روزنامہ الفضل ربوہ، انصار الدین یوکے اور احمدیہ گزٹ امریکہ میں بھی شائع ہوا۔

خاکسار نے مکرم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب سے درخواست کی کہ اس مسودہ پر جو حضور نے اپنے دست مبارک سے لکھا ہے تبرک کے طور پر اس کی کاپی مجھے بنا کر دیں۔ جو میرے پاس محفوظ ہے۔ الحمدللہ

بنگلہ دیش سے واپسی پر ملاقات

خاکسار کو بنگلہ دیش میں بھی ان کے جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کے لیے بطور نمائندہ جانے کی سعادت ملی۔ خاکسار نے درخواست کی کہ بنگلہ دیش سے واپسی پر حضور انور کی ملاقات کے لیے بھی آنا چاہتا ہوں۔ حضور انور نے از راہ نوازش یہ درخواست منظور فرمائی۔

جلسہ کے بعد بنگلہ دیش سے واپسی پر خاکسار کی طبیعت خراب ہو گئی اور جب لندن پہنچا بخار اور کھانسی بہت زیادہ تھی۔ حضور سے ملاقات میں عرض کی حضور شدید کھانسی ہے۔ آپ نے فرمایا ہاتھ کرو۔ میں نے دایاں ہاتھ آگے بڑھایا آپ نے دعا کے ساتھ اپنے دراز سے ایک شیشی نکالی اور ہومیو پیتھی کی ایک خوراک عنایت فرمائی جسے خاکسار نے لے لیا۔ لندن میں 3، 4دن کا قیام رکھوایا تھا تاکہ حضور کے پیچھے نمازیں پڑھنے کی سعادت بھی مل جائے۔ آخری دن واپسی کے لیے اجازت بھی لینی تھی اور دفتری ملاقات کی درخواست کی جو حضور انور نےاز راہ شفقت منظور فرمائی۔

خاکسار ایک لسٹ بنا کر لے گیا تھا کہ یہ یہ باتیں حضور کے ساتھ کرنے والی ہیں اورہدایات لینی ہیں اور شاید 20، 25منٹ لگیں گے۔

حضور انور نے پہلا سوال کیا کہ کھانسی کا کیا حال ہے؟ میں نےعرض کی بہت معمولی افاقہ ہے۔ آپ نے فرمایا میں نے کون سی دوا دی تھی۔ عرض کی حضور میں نے تو پوچھا ہی نہیں تھا کہ یہ کون سی دوا ہے۔ آپ نے پھر ایک اَور شیشی نکالی اور دوائی دی۔ ساتھ ہی فرمایا کہ آپ ’’چاکلیٹ کھایا کریں‘‘ اس سے بھی اس قسم کی کھانسی میں فرق پڑتا ہے۔

پھر آپ نے پوچھا کہ کیا پروگرام ہے؟ خاکسار نے بتایا کہ کل امریکہ کے لیے روانگی ہے۔ فرمایا تو اَور کیا ہے تمہارے پاس۔ میں نے ایک ایک سوال کر کے سب کچھ بتایا۔ آپ خطوط پر دستخط بھی فرما رہے تھے اور اگلے 3، 4منٹ میں سب سوالوں کے جواب اور رہ نمائی عطا فرما دی۔

ساری باتیں سن کر حضور انور نے فرمایا کہ یہ سب کچھ لکھ کر تبشیر کے دفتر میں دے دیں۔ جو کہ خاکسار نے دے دیا۔ جب 3، 4منٹ میں سب کچھ ہو گیا تو آپ نے فرمایا ’’اَور‘‘۔ جب کچھ نہ تھا تو عرض کی ایک دو باتیں ویسے ہی عرض کر دوں۔ آپ نے فرمایا کرو۔ خاکسار نے عرض کی کہ جماعت میں خداتعالیٰ کے فضل سے الیکشن ہوتے ہیں لیکن ایک بات جس پر عمل کرنا ضروری ہے اس میں کمی ہے۔ آپ نے فرمایا وہ کون سی؟ خاکسار نے عرض کی کہ حضور! الیکشن کے باوجود جس شخص کے ووٹ زیادہ ہوں اسے کبھی وہ عہدہ نہ بھی دیا جائے تاکہ پتہ چلے کہ جماعت میں یہ قانون بھی ہے کہ ضروری نہیں جس کے ووٹ زیادہ ہوں اسے ہی عہدہ دیا جائے۔ آپ نے فرمایا کہ ہاں یہ بات ٹھیک ہے اور میں نے اس سال کئی جگہ پر ایسا کیا ہے۔

امریکہ میں حضور انور کا دورہ

اگلے دن خاکسار کی فلائٹ تھی اور طبیعت ابھی بھی بہت خراب تھی۔ بخار، کھانسی کے علاوہ شدید متلی تھی۔ خاکسار جب ایئرپورٹ پر پہنچا تو حضور کی ہدایت یاد آئی کہ چاکلیٹ کھاؤں۔ خاکسار نے ایئر پورٹ سے ہی چاکلیٹ خریدی اور استعمال کی۔ الحمدللہ۔ اب جب بھی کھانسی شدت اختیار کرے تو خاکسار حضور کے دو نسخے استعمال کرتا ہے اور فائدہ ہوتا ہے۔ گلے اور کھانسی کے لیے آپ نے خاکسار کو فرمایا تھا کہ ایکونائٹ کی ایک ہزار میں خوراک شروع میں لے لیا کروں جب بیماری کی علامات ظاہر ہونے لگیں۔ د وسرے چاکلیٹ کا استعمال کرتا ہوں۔ الحمدللہ

2018ء اکتوبر میں سیدنا حضور انور امریکہ کے تین ہفتے کے دورے پر تشریف لائے۔ امیر صاحب امریکہ مکرم صاحبزادہ مرزا مغفور احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ نے خاکسار کی ڈیوٹی شعبہ ملاقات میں لگائی اور ہدایت یہ دی کہ زیادہ سے زیادہ ایسے افراد کی ملاقات کرائی جائے جن کی اس سے پہلے کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ چنانچہ ہم نے لسٹوں کا کام شروع کیا۔ یہ تعداد بہت زیادہ ہو گئی۔ ملاقات کے پروگرام میں تین جگہوں پر ملاقات تھی۔ میری لینڈ مسجد بیت الرحمٰن، فلاڈلفیا کی نئی مسجد میں اور ہیوسٹن میں۔

ملاقات کرنے والوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جارہی تھی اور ایک اندازے کے مطابق دس ہزار افراد کے نام رجسٹرڈ کیے گئے۔ لیکن جیسا کہ بتایا کہ پروگرام میں تینوں جگہ پر صرف 26گھنٹے ملاقات کے لیے مختص تھے اور اتنی بڑی تعداد کی ملاقات 26گھنٹوں میں ناممکن تھی۔ مکرم امیر صاحب کی بار بار ہدایت یہ تھی کہ صرف اور صرف ایسے لوگوں کو ترجیح دی جائے جن کی کبھی پہلے ملاقات ہوئی ہی نہیں۔

اب ہم صرف ایسے احباب کی ہی لسٹ بنانے میں مصروف تھے، ان کی تعداد بھی کچھ کم نہ تھی۔ ہم نے سوچا کہ کیوں نہ ایسا کریں کہ بجائے ہر فیملی کی الگ الگ ملاقات کے، ایسی فیملیز بھی دیکھیں جو آپس میں رشتہ دار ہوں، تا زیادہ سے زیادہ فیملیز کو ملاقات کا موقع مل جائے۔ چنانچہ ہم نے صدران جماعت کو فون کیے اور انہوں نے ہمیں بتایا کہ ہماری جماعت میں فلاں فلاں آپس میں رشتہ دار ہیں ان کی اکٹھے ملاقات ہو سکتی ہے۔ ہم نے بذریعہ فون ان کو بتایا اور پوچھا کہ کیا آپ رشتہ دار ہیں اور آپ سب کی اکٹھے ملاقات ہو جائے تو ٹھیک ہے ورنہ مشکل لگ رہا ہے۔ سب نے جواب دیاکہ ٹھیک ہے لیکن ساتھ ہی کہا کہ کیا ہماری حضور کے ساتھ فیملی کی الگ تصویر ہو جائے گی۔ ہم نے جواب دیا کہ آپ حضور سے درخواست کرلیں۔ امید ہے ہو جائے گی۔ چنانچہ خداتعالیٰ کے فضل سے ایسا ہی ہوا اور اچھا ہوا۔ جب احباب ملاقات کے لیے مسجد بیت الرحمٰن پہنچے، ہم ایک بار پھر ایسے لوگوں سے اور فیملیز سے پوچھ لیتے۔ خاکسار بھی اور خاکسار کی ٹیم کے جملہ افراد بھی خاص طور پر جن فیملیز کو اکٹھا کیا ہوتا دریافت کرتے کہ آپ آپس میں رشتہ دار ہیں وہ کہتے کہ ہاں تو ہم ان کو اندر ملاقات کے لیے بھیجتے۔

ایک دن ایسا ہوا کہ دوران ملاقات دو فیملیز اندر گئیں۔ اندر جا کر وہ الگ الگ ہو کر بیٹھ گئے۔ حضور انور نے دریافت فرمایا کہ آپ کا آپس میں کیا رشتہ ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ حضور ہم تو آپس میں رشتہ دار نہیں ہیں، پتہ نہیں کیوں ہمیں اندر اکٹھا بھیجا گیا ہے۔

جس پر حضور نے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب سے دریافت فرمایا کہ آج ملاقاتیں کون کرارہا ہے؟ خاکسار کو بھی اس کی اطلاع مل گئی۔ مجھے ڈر بھی محسوس ہوا اور استغفار پڑھنا شروع کر دیا۔ خاکسار نے امیر صاحب کی خدمت میں بھی اطلاع کر دی۔ انہوں نے کہا دعا کریں۔

حضور ملاقاتوں سے فارغ ہو کر اپنے دفتر سے نماز ظہروعصر پڑھانے کے لیے تشریف لاتے تو سب کارکنان باہر قطار میں حضور کی زیارت اور دیدار کے لیے کھڑے ہوتے تھے۔ خاکسار بھی اپنی ٹیم سمیت وہاں موجود ہوتا تھا لیکن اس واقعہ کی وجہ سے خاکسار اس دن باہر کھڑا نہ ہوا۔ شام کی ملاقاتوں کے بعد بھی ایسا ہی ہوا کہ میں پھر باہر کھڑا نہ ہوا۔ جس پر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دریافت فرمایا کہ شمشاد صاحب کہاں ہیں؟ حضور فرما کر نماز کے لیے مسجد میں چلے گئے۔ اب میرے لیے کوئی چارہ نہ تھا۔ اگلے دن ملاقات کے بعد حضور پھر نماز ظہر و عصر پڑھانے کے لیے اپنے کمرہ سے باہر تشریف لائے تو خاکسار لائن میں نظریں نیچی کیے ہوئے کھڑا تھا۔ تو آپ نے فرمایا شمشاد صاحب کیا ہوا؟ خاکسار کو موقع مل گیا اور ساتھ ہی ہو لیا۔ عرض کی کہ حضور کل جو واقعہ ہوا اس کی وجہ سے شرمندگی ہے۔ اور اصل واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے حضور کے سامنے سچ سے کام نہیں لیا۔ حالانکہ میں نے بھی پوچھا تھا اور ٹیم کے افراد نے بھی۔ حضور صرف مسکرائے اور کچھ بھی نہیں فرمایا اور دیگر باتیں ملاقات کے ضمن میں ہوئیں اور حضور نماز کے لیے مسجد میں داخل ہو گئے۔

خاکسار نے احتیاطاً یہ سارا واقعہ لکھ کر پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کو بھی دے دیا کہ اس طرح مجھے لگ رہا ہے کہ اس فیملی نے حضور کے سامنے سچ سے کام نہیں لیا۔ حضور نے خط ملاحظہ فرمایا اور اس پر لکھا کہ ’’ہو سکتا ہے آپ کے ساتھ سچ سے کام نہ لیا ہو۔ ‘‘

حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی اس بات میں بہت گہرائی اور صداقت ہے کہ انہوں نے خلیفۂ وقت سے سچ بولا ہے، آپ سے نہیں۔ کیونکہ ہم سے انہیں اندیشہ تھا کہ اگر کہہ د یا ہم رشتہ دار نہیں ہیں تو ہو سکتا ہے ملاقات ہی نہ ہو۔ لیکن مجھ سے انہوں نےسچ کہا ہو گا۔ اس میں خلافت کے ادب اور احترام کا سبق بھی ہے۔

ملاقاتوں کی تعداد کا تو ذکر کر چکا ہوں کہ ہم نے کتنی رجسٹرڈ کیں۔ جس دن حضور انور نے واپس لندن تشریف لے جانا تھا صبح کے وقت سب کارکنان کی اور معاونین شعبہ جات کی حضور کے ساتھ تصاویر ہونی تھیں۔ جب ملاقات کی ٹیم کی تصویر کی باری آئی تو حضور انور نے خاکسار سے پوچھا کہ کُل کتنی ملاقاتیں ہوئی ہیں؟ خاکسار نے بتایا کہ اندازاً ساڑھے تین ہزار۔ آپ نے فرمایا آپ کی ساڑھے تین ہزار ہیں میرے تو سات ہزار مصافحے ہیں۔ بعد میں جب خاکسار نے چیک کیا اور لندن اطلاع بھجوائی تو معلوم ہوا کہ قریباً چار ہزار کے لگ بھگ ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ الحمد للہ علیٰ ذالک۔

حضور انور کی ایک اَور ہدایت

خاکسار کا تبادلہ ایک جماعت میں ہوا تو وہاں پر جلسہ سالانہ یوکے کے موقع پر عالمی بیعت میں شرکت ہونی تھی۔ خاکسار نے ساری جماعت کو آگاہ کیا کہ وہ اس وقت مسجد میں پہنچیں اور عالمی بیعت میں شامل ہوں۔

جب سب دوست آگئے اور عالمی بیعت ہونے لگی تو میں نے محسوس کیا کہ لوگ آگے آگے سرکتے جارہے ہیں جہاں ٹی وی رکھا ہوا ہے تاکہ بیعت کے وقت وہ ٹی وی پر ہاتھ رکھیں۔ میں نےا حباب سے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ اتنے میں لوگوں نے ایک دوسرے کے کندھوں پر بھی ہاتھ رکھ لیے اور ٹی وی کے نزدیک والے ٹی وی پر ہاتھ رکھنے لگے۔ خاکسار نے بتایا کہ یہ طریق غلط ہے۔ لوگ کہنے لگے کہ ہم تو ایسا ہی کرتے ہیں۔ میں نے کہا کہ نہیں ایسا ٹھیک اور مناسب نہیں ہے۔ نہ ہی ٹی وی پر اور نہ ہی کندھوں پر ہاتھ رکھنے ہیں۔ صرف حضور کے ساتھ بیعت کے الفاظ دہرائیں اور دعا میں شامل ہوں۔ کچھ لوگوں کو یہ بات اچھی نہ لگی۔

خاکسار نے حضور انور کی خدمت میں خط لکھ کر ہدایت لینا چاہی اور خط میں دو باتیں لکھ دیں۔ ایک یہ کہ عالمی بیعت کےو قت ٹی وی پر اور ایک دوسرے کے کندھوں پر ہاتھ رکھا جائے یا نہ رکھا جائے۔ دوسرے حضور کی خدمت میں یہ بھی عرض کر دی کہ حضور جب خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہیں اور بعض حوالہ جات حضرت مسیح موعود ؑ کی کتب سے پڑھتے ہیں تو ساتھ ہی حوالہ بھی بتادیا کریں تاکہ ہم جب خطبہ دیں تو وہ حوالہ تلاش کر کے تو خطبہ جمعہ میں سنا دیا کریں۔ اس پر حضور انور نے جو ہدایت بھجوائی وہ یہ تھی:

’’آپ کا خط ملا۔ عالمی بیعت کی تقریب میں جو لوگ ٹیلیویژن کے ذریعہ شامل ہوتے ہیں انہیں بتائیں کہ کندھوں پر یا ٹیلیویژن پر ہاتھ رکھنا غلط طریق ہے۔ کندھوں پر ہاتھ صرف اس وقت رکھے جاتے ہیں جب خلیفۂ وقت بیعت لینے کے وقت خود موجود ہوں۔ باقی جہاں تک خطبہ میں پڑھے جانے والے اقتباسات وغیرہ کے حوالوں کے بیان کرنے کا تعلق ہے اس سلسلہ میں آپ خود کوشش کر کے حوالے تلاش کر لیا کریں۔ اللہ آپ کو اپنی جناب سے ہر خیر کا وارث بنائے اور دین و دنیا کی سعادتیں عطا فرمائے۔ آمین ‘‘

یہ دونوں ہدایات حضور انور کی ہم سب مبلغین کرام کے لیے خصوصی توجہ کے لائق ہیں۔ یہ کہ مطالعہ کی عادت اور خود حوالہ جات کی تلاش کرنی چاہیے۔

قریبی رشتہ داروں سے حسنِ سلوک کی نصیحت

جلسہ سالانہ یوکے2019ء میں خاکسار مع اہلیہ شامل ہوا۔ یہ میری اہلیہ کا لندن کے جلسہ میں شمولیت کا پہلا موقع تھا۔ ہم دو تین دن پہلے چلے گئے تھے اورملاقات کے لیے حسبِ دستور پہلے سے ہی درخواست کر رکھی تھی۔ جلسہ سے دو دن پہلے بدھ کے دن ہماری ملاقات تھی۔ حضور انور نے جاتے ہی پہلے مجھ سے پوچھا کہ کہاں ٹھہرے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ میرے ماموں کی بیٹی، میری کزن ہیں (حسن طاہر بخاری مربی سلسلہ کی بہن) ان کے گھر۔ آپ نے فرمایا فضل الرحمٰن کے گھر کیوں نہیں ٹھہرے؟ یہ میری اہلیہ کے بھائی ہیں۔ میری اہلیہ نے جواب دیا حضور وہ تو جلسہ کی ڈیوٹی کی وجہ سے مصروف تھے۔ آپ نے فرمایا کہ ان کی بیگم تو تھیں۔ میری اہلیہ نے جواب دیا کہ حضور وہ بھی جلسے کی ڈیوٹی کی وجہ سے مصروف تھیں۔ آپ نے فرمایا:

شمشاد کو سنبھالنا کوئی آسان کام تو نہیں ہے۔ پھر اہلیہ نے شہد کی بوتل تبرک کرنے کے لیے پیش کی جو انہوں نے اپنے والد صاحب کے لیے ربوہ بھجوانا تھا۔ وہ ان دنوں بیمار تھے۔ حضور نے شہد کو متبرک فرمایا اور پھر ہم نے بچوں کے لیے دعا کی درخواست کی۔ حضور نے ملاقات میں نزدیکی اور قریبی رشتہ داروں (بہن، بھائی) کے ساتھ تعلق بڑھانے کی طرف توجہ دلائی۔ خاکسار نے جلسے کے بعد پھر فضل الرحمٰن ناصرصاحب جو جامعہ میں استاد ہیں کے گھر جا کر بقیہ ایام گزارے تا حضور کی ہدایت پر عمل ہو۔

میرے بیٹے کے ساتھ

ایک دفعہ جب سیرالیون کے جلسہ سے واپس آیا تو میں نے اپنے بڑے بیٹے ممتاز کو کہا جو امریکہ میں تھے کہ میں فلاں دن لندن پہنچوں گا۔ آپ بھی ٹکٹ کرواؤ اور لندن پہنچو تا حضور کے ساتھ ہم دونوں ملاقات کریں۔ چنانچہ عزیزم ممتاز احمد نے اپنی جہاز کی ٹکٹ بک کرائی اور لندن پہنچ گیا۔

حضور نے خاکسار کے بیٹے کے ساتھ بڑے بے تکلفی اور دوستانہ ماحول میں اس کی شادی اور دیگر امور کے بارے میں تفصیل سے گفتگو کی جس سے خاکسار کو اندازہ ہوا کہ اپنی اولاد کے ساتھ بھی کس طرح مسائل سے نپٹنا چاہیے وہ میرے لیے بھی ایک سبق تھا۔

میری بیٹی کا نکاح

2009ء اکتوبر میں حضور انور نے میری بیٹی عزیزہ سیدہ صبیحہ بشریٰ کے نکاح کا اعلان مسجد فضل لندن میں فرمایا۔ خاکسار نے حضور کی خدمت میں اجازت کے لیے لکھا کہ حضور نکاح پڑھائیں اور اس کے لیے چھٹی لی۔ جب میری حضور سے ملاقات ہوئی تو حضور نے فرمایا کہ بس نکاح پڑھوانے کے لیے اب آئے ہو۔ عرض کی کہ جی حضور۔ آپ نے فرمایا کہ جلسہ پر کیوں نہیں بتایا میں جلسہ پر نکاح پڑھ دیتا۔

(نکاح 31؍ اکتوبر 2009ء میں ہوا تھا اور خاکسار اسی سال کچھ عرصہ قبل جلسہ میں بھی شامل ہوا تھا)

خطبہ نکاح میں حضور انور نے فرمایا:

’’دوسرا نکاح مکرمہ سیدہ صبیحہ بشریٰ صاحبہ بنت مکرم سید شمشاد احمد ناصر صاحب (مبلغ سلسلہ کیلیفورنیا۔ امریکہ) کا مکرم عطاء المومن بھٹی صاحب ابن مکرم نوید احمد بھٹی صاحب (ہیرس برگ، امریکہ) کے ساتھ مبلغ دس ہزار ڈالر حق مہر پر طے پایا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مکر مہ سیدہ صبیحہ بشریٰ صاحبہ کے متعلق بتایا کہ ان کے والد سید شمشاد احمد ناصر اللہ تعالیٰ کے فضل سے مبلغ سلسلہ ہیں۔ گھانا میں بھی رہے ہیں اور جب میں گھانا میں تھا اس وقت بطور مبلغ رہے اور اچھے مبلغین میں سے تھے اور اب بھی اللہ تعالیٰ کےفضل سے اچھا کام کر رہے ہیں۔

حضور انور نے فرمایا کہ ان کے خاندان میں احمدیت 1932ء میں ان کے دادا سید امیر احمد شاہ صاحب کے ذریعہ سے آئی تھی۔ ان کی شرقپور رجولی ضلع انبالہ میں کوئی گدی تھی۔ احمدیت قبول کرنے کی وجہ سے ان کے دادا کو وہاں سے نکلنا پڑا اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن بہرحال اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا کہ احمدیت کی برکت ہے کہ آگے ان کی نسلیں پڑھی لکھی بھی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں…… حضور نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کے بعد یہ گدیاں تو ختم ہو چکی ہیں۔ کوئی پیری مریدی نہیں رہی۔ بلکہ حضرت مسیح موعودؑ نے تو آکر اپنے ماننے والوں کو یہ کہا ہے کہ

’’تم ولی بنو ولی پرست نہ بنو اور پیر بنو پیر پرست نہ بنو۔ ‘‘

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہر احمدی کو اِن روایتی پیروں کے پیچھے چلنے کی بجائے خود اللہ تعالیٰ سے ایک تعلق جوڑنا چاہئے جو ایک خاص تعلق ہو اور جو تقویٰ کے اعلیٰ معیاروں کی طرف لے جانے والا ہو۔ ‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 11؍تا 17 دسمبر 2009ء صفحہ8)

حضور انور کے ساتھ سیر

ایک دفعہ خاکسار لندن آیا، موقع تو یاد نہیں رہا سردیوں کا موسم تھا۔ مجھے پتہ چلا کہ حضور انور صبح نماز فجر کے بعد سیر کرنے تشریف لے جاتے ہیں۔ خاکسار نے میجر محمود صاحب سے کہا کہ وہ میرے لیے حضور سے ایک دن کے لیے اجازت لے لیں میں بھی سیر میں ساتھ جانا چاہتا ہوں۔ حضور انور نے ازراہ شفقت اجازت مرحمت فرمائی۔ اگلے دن نماز فجر کے بعد میں بھی تیار ہو کر ساتھ گیا۔ 15، 20منٹ کی واک کے بعد اچانک حضور واپس تشریف لے آئے۔ ہم جب مسجد فضل واپس آئے تو گاڑی سے نکل کر میں پھر اسی علاقہ میں واک کرنے کے لیے نکل گیا۔ شام کو حضور سے ملاقات تھی اور اگلے دن میری واپسی تھی۔ شام کو جب ملاقات ہوئی تو حضور نے ’’واک‘‘ کے متعلق پوچھا کہ ٹھیک ہو گئی؟ میں نے عرض کی کہ حضور اتنی چھوٹی واک سے میرا تو کچھ نہیں بنا۔ میں تو پھر دوبارہ واک کرنے چلا گیا تھا۔ حضور صرف مسکرائے اور کچھ نہیں فرمایا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد پھر لندن جانا ہوا اور خاکسار نے پھر سیر کے لیے ساتھ جانے کی درخواست کی۔ چنانچہ اجازت مل گئی۔ اس دفعہ حضور نے معمول کے مطابق 45منٹ سے ایک گھنٹہ کےدرمیان واک کی۔ تو بعد میں حضور نے ازراہِ مزاح فرمایا کیوں اس دفعہ تمہاری واک ٹھیک ہو گئی ہے۔ عرض کی جی حضور۔ حضور کو وہ بات یاد تھی کہ میں نے کہا تھا کہ 15، 20منٹ کی واک سے میرا تو کچھ نہیں بنا میں تو دوبارہ واک کرنے گیا تھا۔

ایک غلط رجحان اور بدعت کی تردید

مکرم ومحترم عابد خان صاحب کی ڈائری کے ذکر سے ہی یہ سب یادداشتیں ذہن میں آئی ہیں جو لکھی ہیں۔ ڈائری میں حضور انور نے ایک اَور غلط بات اور رجحان کو روکنے اور جماعت کو صحیح خطوط پر گامزن رکھنے کی ایک ہدایت یوں لکھی ہے کہ عابد صاحب نے حضور کی خدمت میں ان پوسٹس کا ذکر کیا جو لوگوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے متعلق اپنی یادیں بیان کر کے سوشل میڈیا پر کی تھیں۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ 19 اپریل 2003ء حضورؒ کی رحلت کا دن تھا۔ اس کو سننے پر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

اس دن کی نشاندہی کرنا جس دن کسی کی وفات ہوئی ہو نہ صرف ایک غیرضروری امر ہے بلکہ یہ غلط ہے۔ اسلام میں برسی جیسی کوئی تعلیم نہیں ہے…… حضور نے مزید فرمایا کہ اگر احمدی چاہتے ہیں کہ وہ صحیح معنوں میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی عزت کریں تو انہیں چاہیے کہ وہ حضرت مسیح موعودؑ اور خلفاء کی نصائح پر عمل کریں۔

جماعت کو حضور انور کی اس بات کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا کس قدر احسان ہے کہ جب بھی کوئی غلط بات خواہ کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو اور اس کے پیچھے خواہ نیت کتنی ہی صاف اور نیک کیوں نہ ہو خلفائے کرام اس کا نوٹس لیتے ہیں اور جماعت کی صحیح رہ نمائی فرماتے ہیں اور دراصل جماعت احمدیہ کے قیام کا مقصد ہی یہ ہے کہ خالص توحید اور سنتِ رسول اللہﷺ کا احیاء اور غلط باتوں سے اجتناب اور بدعات سے روکا جائے۔ میرے ساتھ بھی ایک ایسا ہی واقعہ ہوا ہے۔ جو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی ہدایت اور نصیحت ہے جس کا ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔

ہوا یہ کہ خاکسار جب امریکہ آیا تو اسی مہینے یعنی ستمبر 1987ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا دورۂ امریکہ طے شدہ تھا۔ حضورؒ دورے پر تشریف لائے اور بہت ساری جماعتوں میں آپ نے وزٹ کیا اور ڈیٹن بھی تشریف لائے۔ اس کے بعد حضورؒ نے خاکسار کی تقرری بھی ڈیٹن میں فرمائی اور ہدایات بھی بھجوائیں کہ کیا کرنا ہے۔

خاکسار نے 1988ء میں ٹھیک اسی تاریخ کو جس تاریخ میں حضورؒ نے ڈیٹن کا دورہ کیا تھا ’’طاہر ڈے‘‘ کے نام سے ایک پروگرام کیا اور اس میں حضورؒ کی آمد پر حضور نے جو باتیں وہاں کیں جو نصائح کیں وغیرہ بیان کرنے کے ساتھ ساتھ جماعت کےا حباب کو بھی دعوت دی کہ وہ حضور کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات اور یادوں کو بیان کریں اور خاکسار نے آخر میں خلافت کی اہمیت اور برکات پر تقریر کی۔ یہ پروگرام ہو گیا اور لوگوں نے اس میں حصہ بھی لیا۔ خاکسار نے جب اپنی رپورٹ میں اس کا تفصیل سے ذکر کر کے حضورؒ کو بھجوائی تو حضور نے مجھے ہدایت فرمائی کہ آپ نے یہ کیا کیا کہ طاہر ڈے منایا۔ میں تو ہر ملک میں ہر جماعت میں جاتا ہوں اگر سب ہی ’’طاہر ڈے‘‘ منانا شروع کر دیں پھر کیا ہو گا؟ اصل بات یہ نہیں ہے کہ نام کے ساتھ کوئی دن منایا جائے اگر کرنا ہی تھا تو جماعت کو اکٹھا کر کے خلافت کی اہمیت و برکات اور پھر خلیفہ وقت کی باتوں پر اور نصائح پر عمل کرنے کے لیے کہتے۔ اصل یہ ہے نہ کہ طاہر ڈے منانا۔

اب اگر کوئی دنیاوی لیڈر ہوتا تو وہ خوش ہوتا کہ میرے نام سے دن منایا گیا ہے لیکن یہاں تومعاملہ ہی الٹ ہے۔ جو کچھ ہے وہ اللہ تعالیٰ اور محمد رسول اللہﷺ کی عزت کو دنیا میں قائم کرنا اصل مقصد ہے۔

یہاں پر ایک اَور بات بھی لکھنا چاہتا ہوں۔ جب مجھے حضورؒ کی یہ ہدایت ملی تو لازماً اپنی بے وقوفی کی وجہ سے شرمندگی تو ہونی ہی تھی اور ادھر یہ خیال بھی آیا کہ حضور نے ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے۔ اب کیا کیا جائے! استغفار کرنا شروع کر دیا اور مکرم ومحترم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کو فون کیا تا ان سے یہ بات کروں کہ میں اب کیا کروں حضور ناراض ہو گئے ہیں۔ فون پر محترم میاں مظفر احمد صاحب نے دریافت فرمایا کہ کیا حال ہے؟ میں نے کہا ٹھیک نہیں ہے۔ پوچھنے لگے کہ کیا ہوا؟ میں نے ساری بات بتا دی۔ آپ نے حوصلہ دیا اور تسلی دی۔… کہنے لگے کہ حضورؒ کو خط لکھ دیں کہ غلطی ہو گئی ہے اور استغفار کرتے رہیں۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔

ان ساری باتوں کے لکھنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ ہمیں چاہیے ہم خلیفۂ وقت کی بات کو سنیں اور اس پر عمل کریں۔ جس طرف خلیفۂ وقت لے کر جائے اسی طرف چل پڑیں، اپنی طرف سے کوئی کام نہ کریں یا اگر کوئی ذہن میں بات آبھی جائے تو جیسا کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک دفعہ جرمنی میں فرمایا تھا کہ خلیفۂ وقت موجود ہے اس سے پوچھ لیں اور رہ نمائی لے لیں۔ یہ ایک ایسا نسخہ ہے جو ساری بیماریوں، کوتاہیوں اور غفلتوں کا علاج ہے۔

خلیفۂ وقت سے پوچھ لینا زیادہ بہتر ہے بجائے اس کے کہ آدمی اپنی عقل لڑائے اور کام غلط کر بیٹھے۔ اس سے مجھے ایک اَور واقعہ یاد آگیا جو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا ہی ہے۔

ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ امریکہ کے دورہ پر تھے۔ ملاقاتیں ہو رہی تھیں۔ ملاقاتوں کے فوراً بعد مسجد بیت الرحمٰن میں نکاحوں کا اعلان تھا اور پھر نماز ظہر و عصر کی ادائیگی تھی۔

ملاقاتیں ختم ہوتے ہی حضورؒ مسجد میں تشریف لے آئے اور خاکسار نے حضور کی ہدایت پر حضو رکی موجودگی ہی میں نکاحوں کا اعلان کرنا تھا۔ آپ نے مجھے فرمایا نکاحوں کا اعلان کر دو۔ میں نے کھڑے ہو کر حسبِ دستور خطبہ نکاح میں جو قرآنی آیات پڑھنی ہوتی ہیں وہ پڑھ دیں۔ ابھی ان آیات کو ختم ہی کیا تھا کہ حضورؒ نے مجھے فرمایاکہ پتہ تو کر لو کہ جن کے نکاح پڑھانے ہیں وہ پارٹیاں موجود بھی ہیں کہ نہیں۔ پتہ کیا گیا تو فریقین میں سے ایک فریق موجود نہ تھا۔ حضور نے فرمایاکہ اچھا بیٹھ جاؤ۔ انتظار کر لیتے ہیں۔ میں بھی حضور کے ساتھ ہی پیچھے ہٹ کر پوڈیم کے ساتھ ہی بیٹھ گیا۔ 5، 6 منٹ انتظار کے بعد پتہ چلا کہ فریق ثانی پہنچ گیا ہے۔ حضور نے فرمایا اب کر دو۔

اب مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ میں خطبہ نکاح دوبارہ پڑھوں یا صرف اعلان ہی کر دوں۔ میں نے فوراً آگے ہو کر حضورؒ کی خدمت میں عرض کی کہ حضور خطبہ نکاح دوبارہ پڑھوں یا صرف اعلان کر دوں۔ حضورؒ نے فرمایا صرف اعلان کر دو۔ خطبہ نکاح پڑھنے کی دوبارہ ضرورت نہیں ہے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو احسن رنگ میں خلیفۂ وقت کا جاںنثار اور سلطان نصیر بنائے اور بہتر رنگ میں خدمت سلسلہ کی توفیق دے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

  1. محترم شمشاد صاحب کا مضمون پڑھا ۔ یادیں تو یقیناً بہت پیاری ہیں مگر آپکے سادہ الفاظ میں لکھنے کا انداز نہایت دلکش ہے۔ مضمون بہت جلد ختم ہوگیا امید ہے کہ آپ مذید لکھیں گے۔
    جلسہ سالانہ سیرالیون میں آپ سے واقفیت بڑھی اور ملاقات رہی۔ میں اسوقت “بو” ہی تھا جہاں جلسہ پر آپ تشریف لاۓ۔ ہماری ننھی سی کاوش سیرالیون میں گرلز سکول کا قیام کو بہت سراہا۔ جزاکم اللّٰہ احسن الجزاء۔

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button