کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

تعبیر الرؤیا اور خوابوں کی اقسام

ایک صاحب نے ایک خواب سنائی جس میں ایک مردہ نے ان کو ان کی موت کی خبر دی تھی اور یہ خواب بیعت سے پیشتر آئی تھی۔ اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ جو بیعت کرتا ہے اس پر بھی ایک موت ہی آتی ہے۔ خوابوں میں موت سے مراد موت ہی نہیں ہوا کرتی اور بھی موت کے بہت سے معنے ہیں خدا کو کوئی نہیں پا سکتا جب تک اس کی اوّل زندگی پر موت نہ آوے۔

دریا کی تعبیر پر فرمایا کہ جو معارف اور علم رکھتا ہو اسے دریا سے ہی تعبیر کیا کرتے ہیں اور ابابیل سے مراد وہ جماعت اور لوگ جو اس سے فیوض حاصل کرتے ہیں۔

پھر موت کے ذکر پر فرمایا کہ موت کے معنے رفعت درجات بھی لکھے ہیں اور صوفی کہتے ہیں کہ انسان نجات نہیں پاسکتا جب تک اس پر بہت موتیں نہ آویں حتی کہ وہ ایک زندگی کو ناقص محسوس کرکے پھر اور ایک زندگی اختیار کرتا ہے۔ پھر اس پر موت ہوتی ہے۔ پھر ایک اور نئی زندگی اختیار کرتا ہے۔ اور اس طرح کئی موتیں اور کئی زندگیاں حاصل کرتا ہے۔

ایک شخص نے سوال کیا کہ خواب کی کتنی اقسام ہیں۔

خوابوں کے اقسام

حضرت اقدس نے فرمایا کہ تین قسمیں خوابوں کی ہوتی ہیں۔ ایک نفسانی۔ ایک شیطانی اور ایک رحمانی۔ نفسانی جیسے بلی کو چھیچھڑوں کے خواب۔ شیطانی وہ جس میں ڈرانا یا وحشت ہو۔ رحمانی خواب خدا تعالیٰ کی طرف سے پیغام ہوتی ہیں اور ان کا ثبوت صرف تجربہ ہے۔ اور یہ خد اکی باتیں ہیں جو اس دنیا سے بہت دور تر ہیں اگر ہم ان کے متعلق عقلی دلائل پر توجہ کریں تو نہ دوسرا اس سے سمجھ سکتا ہے نہ ہم سمجھا سکتے ہیں۔ یہ خدا تعالیٰ کی ہستی کے نشان ہیں جو غیب سے دل پر ڈالتا ہے اور جب دیکھ لیتے ہیں کہ ایک بات بتلائی گئی اور وہ پوری ہوئی تو پھر اس پر خود ہی اعتبار ہو جاتا ہے۔ اس عالم کے امور کا جو آلہ ہے وہ اسے شناخت نہیں کرسکتا۔ یہ روحانی امور ہیں۔ انہیں سے ان کو پہچانا جائے تو سمجھ آئے۔ اور خواب اپنی صداقت پر آپ ہی گواہی دیتی ہیں۔ خدائی امور ایسے ہی ہوتے ہیں کہ سمجھ میں نہیں آیا کرتے اور اگر آجاویں تو پھر خدا بھی سمجھ میں آجائے۔

ایک معجزانہ رؤیا

پھر اس کے بعد حضرت اقدس نے اپنے ایک خواب کا ذکر کیا جس میں آپ نے دیکھاکہ اﷲ تعالیٰ ایک حاکم کی صورت پر متمثل ہوا ہے اور آپ نے کچھ احکام لکھ کر دستخط کرائے ہیں۔ آپ نے وہ تمام کاغذات دستخط کے واسطے حضرت احدیت میں پیش کئے۔ اس وقت اﷲ تعالیٰ ایک کرسی پر بیٹھا ہوا تھا اور ایک دوات جس میں سرخ روشنائی تھی وہ پڑی تھی۔ اﷲ تعالیٰ نے قلم لے کر اس روشنائی سے لگائی مگر مقدار سے زیادہ روشنائی اس میں لگ گئی جیسے کہ دستور ہے کہ ایسی حالت میں چھڑک دیا کرتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے بھی چھڑک دیا اور کاغذات پر بلا دیکھے دستخط کر دیئے اور اس وقت میرے پاس عبد اﷲ سنوری اور حامد علی تھے۔ اور میں سویا ہوا تھا کہ یکایک انہوں نے جگایا کہ یہ سرخ قطرات کہاں سے آئے، دیکھا تو میرے کرتہ پر اور کسی جگہ پگڑی پر اور کہیں پاجامہ پر پڑے ہوئے تھے۔ میرے دل میں اس وقت بڑی رقّت تھی کہ خدا تعالیٰ کا مجھ پر کس قدر احسان ہے اور فضل ہے کہ کاغذات کو بلا دیکھے اور پوچھے دستخط کر دیئے ہیں۔ اب یہ کیا حیرانی کی بات نہیں ہے کہ میں نے تو ایک معاملہ خواب میں دیکھا اور اس کے قطرات ظاہر میں کپڑوں پر پڑےجو کہ اب تک موجود ہیں اور دو شاہد بھی ہیں۔

(ملفوظات جلد 4 صفحہ 368تا370۔ایڈیشن1984ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button