متفرق مضامین

تدوینِ احادیث۔ نئی تحقیقات کی روشنی میں

(سعادت احمد۔ جرمنی)

احادیث کی تدوین سے متعلق مستشرقین کا ایک طبقہ یہ اعتراض کرتا ہے کہ احادیث بہت بعد میں گھڑی گئی ہیں اور اس کی تدوین غیر یقینی ہے۔ علم حدیث کے حوالے سے مسلمانوں کے روائتی علم حدیث اور مستشرقین کی حدیث پر تحقیق کا ایک بنیادی فرق ہے۔ مسلمانوں میں علم احادیث میں اسناد اور روایت پر زیادہ زور دیا گیا ہے جبکہ عموماً یہی سمجھا جاتا ہے کہ احادیث صرف زبانی مروی کی گئیں اور امام مالک ابن انس رحمہ اللہ اور امام بخاری رحمہ اللہ وغیرہ کے زمانہ میں پہلی بار کتابی شکل میں اکٹھی کی گئیں۔ نیز کچھ محققین کا خیال ہے کہ امام شافعی کے زمانہ میں اصول الفقہ کی بنیاد پڑنے کے ساتھ احادیث کوزیادہ اہمیت حاصل ہونا شروع ہوئی کیونکہ فقہی مسائل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی طرح کچھ محققین علم فقہ کے آغاز کو حضرت عمرؓ کے زمانہ میں بیان کرتے ہیں اور بعض کے نزدیک اس کا آغاز اسلامی تاریخ کی دوسری صدی میں ہے۔

مستشرقین انیسویں صدی سے علم حدیث پرزیادہ تحقیق کر رہے ہیں۔ مسلمانوں میں رائج علم حدیث میں اسناد اور روایت کی تحقیق کی بجائے مستشرقین نے حدیث کے متن اور تاریخ پر زیادہ زور دیا ہے۔ مستشرقین گستاف وائل(Gustav Weil)،آلوئیس سپرینگر(Aloys Sprenger)، ایگناس گولدسیہر(Ignaz Goldziher) اور یوسیف شاخت (Josef Schacht) نے انیسویں صدی میں یہ دعویٰ کیا کہ احادیث جعلی اور من گھڑت ہیں۔ گو کہ آلوئیس سپرینگر(Aloys Sprenger) اپنی تحقیق میں اس بات کا بھی ذکر کرتا ہے کہ راویوں کی اکثریت احادیث کو یادداشت میں محفوظ رکھنے کے لیےتحریری نوٹس کا سہارا لیتی تھی۔ تاہم سپرینگر کی یہ تحقیق زیادہ مقبولیت حاصل نہ کر سکی۔

اس کے بالمقابل ایگناس گولڈ سیہر(Ignaz Goldziher) کی تحقیق کوبیسویں صدی سے آج تک زیادہ مقبولیت ملی۔ گولڈ سیہر کا دعویٰ تھا کہ احادیث کی اکثریت بعد میں آنے والے علماء کی ایجاد ہیں جنہوں نے اپنے اپنے مذہبی موقف کو ثابت کرنے کےلیے اقوال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیے۔لہذا احادیث دوسری اور تیسری صدی ہجری میں کی جانے والی مذہبی بحثوں کی محض عکاسی کرتی ہیں۔

یوسیف شاخت (Josef Schacht)گو لڈسیہرکے اس بیان کا سہارا لیتے ہوئے لکھتا ہے:

I may take it for granted, that the traditions from the Prophet and from his Companions do not contain more or less authentic information on the earliest period of Islam to which they claim to belong, but reflect opinions held during the first two and a half centuries after the hijra.

’’یہ بات تقریباً یقینی ہے کہ نبی اورآپ کے اصحاب کی طرف منسوب روایات اسلام کے ابتدائی دور کے بارے میں مستند معلومات نہیں دیتیں جیسا کہ ان کے متعلق بیان کیا جاتا ہے۔ بلکہ یہ محض ہجرت کے اڑھائی سو سال بعد میں پائے جانے والے خیالات کی عکاسی کرتی ہیں۔ ‘‘

اس قسم کے دعوے اس لیے کیے جاتے ہیں کیونکہ مسلمانوں میں تمام احادیث کا صرف زبانی طور پر مروی کرنے کا تصور زیادہ مشہور ہے۔

اس حوالے سے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدصاحبؓ نے اپنی تصنیف سیرت خاتم النبیین میں احادیث کی تدوین کے متعلق ایک دلچسپ بات بیان کی ہے۔ آپ لکھتے ہیں:

’’گو اصول روایت کے لحاظ سے کسی روایت کا لکھا ہوا ہونا ضروری نہیں ہے اور اسلامی روایات میں ایک بڑا حصہ ایسی روایتوں کا شامل ہے جو کم از کم ابتدا میں صرف زبانی طور پر سینہ بہ سینہ مروی ہوئی ہیں لیکن دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ابتدائے اسلام سے ہی بعض راویوں کا یہ طریق رہا ہے کہ جو حدیث بھی وہ سنتے تھے یا جو روایت بھی ان تک پہنچتی تھی اسے وہ فوراً لکھ کر محفوظ کر لیا کر تے تھے اور جب کسی کو آگے روایت سناتے تھے تو اس لکھی ہوئی یادداشت سے پڑھ کر سناتے تھے۔ جس سے ان روایات کو مزید مضبوطی حاصل ہو جاتی تھی۔ اس قسم کے لوگ صحابہ کرام میں بھی پائے جاتے تھے۔ ‘‘

مزید آپ تحریر کرتے ہیں:

’’لیکن اس میں ہر گز کسی شبہ کی گنجائش نہیں کہ اب جو احادیث کے مجموعے ہمارے سامنے ہیں ان سب میں ایک معتد بہ حصہ ایسی روایتوں کا شامل ہے جو زبانی انتقال کے ساتھ ساتھ تحریری طور پر بھی ایک راوی سے دوسرے راوی تک منتقل ہوتی ہوئی نیچے اتری ہیں۔‘‘

(سیرت خاتم النبیین صفحہ 19)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے جس بات کو بیان کیا ہے، اس سے متعلق جرمنی کے ایک معروف ترکی مسلمان مستشرق فواد سزگین Fuat Sezgin نے نہایت دلچسپ تحقیق کرتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ احادیث کی اسناد میں ایسے راویوں کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے صحابہ کے صحیفوں سے احادیث مروی کی ہیں۔

فواد سزگین Fuat Sezgin(پیدائش 24؍ اکتوبر 1924ء وفات2018ء)ایک ترک/جرمن مستشرق تھے اور کئی مسلم سائنسی رسائل اور فرینکفرٹ میں موجود دائرۂ تاریخ عربی اور اسلامی سائنس کے بانی ہیں۔آپ نے مسلمانوں کی سائنسی اور ادبی تاریخ پر بڑی گراں قدر تحقیق کی ہے اور اس موضوع پر دنیا کے سب سے بڑے محقق سمجھے جاتے ہیں۔سیزگین کی تیرہ جلدوں پر مبنی تصنیف Geschichte des arabischen Schrifttums (GAS) یعنیHistory of Arabic Literature اس موضوع پر لکھی جانے والی اب تک سب سے مستند کتاب ہے سیزگین نے اسی ضمن میں احادیث پر غیر معمولی تحقیقی کام کیا ہے اور تدوین احادیث کے مختلف مراحل بیان کیے ہیں۔

احادیث کا آغاز

اس تحقیق کے مطابق احادیث تین مراحل میں اکٹھی ہوئیں۔

1.کتابۃ الحدیث:

صحابہ اور تابعین کا احادیث کو نوٹس کی صورت میں درج کرنا جنہیں صحیفہ اور جز کہا جاتا ہے۔

2.تدوین الحدیث:

منتشر شدہ تالیفات کا جمع کرنا

3.تصنیف الحدیث:

احادیث کا سن 125ہجری میں مختلف مضامین کے مطابق تحریر کرنا۔

بنو امیّہ کے خلیفہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دورِ خلافت میںتدوین الحدیث کا سب سےپہلے ذکر ملتا ہے۔ کیونکہ احادیث کے یہ مجموعے اب موجود نہیں اس لیے ابن شہاب زہری (وفات 125ہجری) کو تدوین وتصنیف الحدیث کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ سزگین کی تحقیق کی رو سےاسلام کے ابتدائی زمانہ میں ہی حدیث کو مروی کرنے کا طریق کار موجود تھا جن کا اصول الحدیث کی تصانیف میں ذکر ملتا ہے جو درج ذیل ہیں:

1.سماع:

یعنی شاگرد اپنے استاد سے ایک حدیث سنتا ہے جو استاد اسے زبانی یا ایک تصنیف سے پڑھ کر سناتا ہے۔ ان احادیث کا راوی اسناد میں سمعت عن یا حدثنیسے آغازکرتا ہے۔

2.قراءۃ:

شاگرد استاد کو ایک حدیث زبانی یا اپنی تصنیف سے پڑھ کر سناتا ہے اور استاد اس کی تصحیح کرتا ہے۔ ان احادیث کا راوی اسناد میں اخبرنی یا قرأتُ علٰی سے آغازکرتا ہے۔

3.اجازۃ:

استاد شاگرد کو اجازت دیتا ہے کہ شاگرد استاد کی تصانیف سے روایت کرے۔ ان احادیث کا راوی اسناد میں أَخبرنییا أَجازنیسے آغازکرتا ہے۔

4.مناولۃ:

استاد شاگرد کو اپنی کتاب دیتا ہے کہ وہ اس سے روایت کرے یا پھر وہ اس کتاب کی کاپی کرکے روایت کرے۔ ان احادیث کا راوی اسناد میں أَخبرنی یا پھر شاذونادر ناول سے آغاز ہوتا ہے۔

5.کتابۃ یا مکاتبۃ:

استاد اپنی تصنیف کی ایک کاپی تیار کرتا ہے۔ ایسی کتاب سے دیکھ کر روایت کی جانے والی احادیث کا آغاز راوی کتب اِلیّ یا من کتاب سے کرتا ہے۔

6.استاد اپنی تصنیف اپنے شاگرد کے حوالےکرتا ہے اور اس کی روایت شاگرد پر چھوڑ دیتا ہے۔ ایسی احادیث کا آغاز راوی أَخبرنی یا عنسے کرتا ہے۔

7.وصیّۃ:

استاد شاگرد کو اپنی تصنیف کی روایت کی وصیت کرتا ہے۔ایسی احادیث کا آغاز راوی أَخبرنی وصیّۃً عنیا وصّانیسے کرتا ہے۔

8.وجادۃ:

اگر کسی راوی کی تصنیف کسی کے ہاتھ آئے اور وہ اس میں سے روایت کرے تو وجادتُ، قال، اُخبرت یا حُدِّثْتُ سے آغاز کرتا ہے۔

سزگین نے اپنی تحقیق میں اس بات کا ثبوت پیش کیا ہے کہ صحابہ کے زمانہ میں احادیث کو لکھا بھی جاتا تھا اور نامور صحابہ اپنے پاس تحریری نوٹس رکھتے تھے جنہیں وہ آگے بھی دیتے تھے اور جن سےان کے شاگردوں نے روایت بھی کی۔ تابعین کے زمانہ کے بعد بھی یہ تحریری روایت کا سلسلہ جاری رہا کہ تبع تابعین کی اکثریت نے بھی تابعین کی تصانیف سے روایت کی۔ لہذا اسناد میں نہ صرف ایسے راویوں کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے زبانی روایت کی بلکہ ایسے بھی مذکور ہیں جنہوں نے صحابہ کے صحیفوں سے احادیث مروی کی ہیں۔

(ماخذ:

حضرت مرزا بشیر احمد ؓ، سیرت خاتم النبیین، مطابق یکم جولائی 1920

Fuat Sezgin, Geschichte des arabischen Schrifttums, V. 1, Leiden 1967, Hadith, p. 53ff.)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button