متفرق مضامین

حاصل مطالعہ

نوٹ: ادارہ الفضل انٹرنیشنل کا مضمون نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں

امت کا حصر تہترفرقوں میں یہ خالص مسلمان کہاں سے آٹپکا؟

مولاناصوفی محمد اللہ دتا صاحب لکھتے ہیں:

’’یہ بات بھی یاد رکھیں کہ نبی کریمﷺ نے اپنی امت کا حصر تہترفرقوں میں فرمایاہے کہ جو بھی مسلمان کہلانے والا ہوگا اس کا ان تہتر گروہوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ضرور تعلق ہوگا۔ ان تہترگروہوں سے باہر کوئی مسلمان نہ ہوگا۔

اقتدارکے بھوکے لوگوں نے ووٹوں کی خاطریہ کہنا شروع کردیا ہےکہ ہمارا کسی بھی فرقےسے تعلق نہیں۔

پیر 5 مارچ 1979ء کے روزنامہ امروز کے صفحہ اول پر (نام نہاد) قومی اتحاد کےسربراہ مفتی محمود کا بیان موجود ہے کہ ’’میں خالص مسلمان ہوں کسی فرقے کے مسلک سے تعلق نہیں رکھتا۔ ‘‘

اقتدار کا نشہ اس کو کہتے ہیں کہ مفتی صاحب نے خودکوامت محمدیہﷺ سے ہی خارج کرلیا ہے کیونکہ جس طرح جہنمیوں کے بہتر 72 فرقے ہیں اسی طرح جنتیوں کا بھی ایک فرقہ ہے جس کا مسلک نبیﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی راہ وروش پر چلنا ہے۔

کیا(نام نہاد) اتحاد کاسربراہ یہ بتاسکتا ہےکہ جب اس کا کسی فرقہ کے مسلک سے کوئی تعلق ہی نہیں، جنتیوں سے نہ جہنمیوں سے، تویہ خالص مسلمان کہاں سے آٹپکا۔ ‘‘

(اقتباس از:’’اسلام کے بدترین دشمن‘‘۔ تصنیف امام المناظرین مفسر قرآن علامہ مولاناصوفی محمد اللہ دتا۔ شائع کردہ ادارہ اشاعت العلوم لاہور صفحات21تا22)

اگر صرف مسلمان نام ہو تو

شناخت کا تمغہ کیونکر ظاہر ہو

بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’اسلام بہت پاک نام ہے اور قرآن شریف میں یہی نام آیا ہے۔ لیکن جیسا کہ حدیث شریف میں آچکا ہے اسلام کے تہتّر (73) فرقے ہو گئے ہیں اور ہر ایک فرقہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے۔ انہی میں ایک رافضیوں کا ایسا فرقہ ہے جو سوائے دو تین آدمیوں کے تمام صحابہؓ کو سبّ و شتم کرتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ازواجِ مطہرات کو گالیاں دیتے ہیں۔ اولیاء اﷲکو بُرا کہتے ہیں۔ پھر بھی مسلمان کہلاتے ہیں۔ خارجی حضرت علی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کو بُرا کہتے ہیں اورپھر بھی مسلمان نام رکھاتے ہیں۔ بلا دِ شام میں ایک فرقہ یزید یہ ہے جو امام حسینؓ پر تبرّہ بازی کرتے ہیں اور مسلمان بنے پھرتے ہیں۔ اسی مصیبت کو دیکھ کر سلفِ صالحین نے اپنے آپ کو ایسے لوگوں سے تمیز کرنے کے واسطے اپنے نام شافعی، حنبلی وغیرہ تجویز کئے۔ آجکل نیچریوں کا ایک ایسا فرقہ نکلا ہے جو جنت، دوزخ، وحی، ملائک سب باتوں کا منکر ہے۔ یہاں تک کہ سید احمد خاں کا خیال تھا کہ قرآن مجید بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیالات کا نتیجہ ہے اور عیسائیوں سے سُن کر یہ قصے لکھ دیئے ہیں۔ غرض ان تمام فرقوں سے اپنے آپ کو تمیز کرنے کے لیے اس فرقہ کا نام احمدیہ رکھا گیا۔ ‘‘

فرمایا:

’’اگر صرف مسلمان نام ہو تو شناخت کا تمغہ کیونکر ظاہر ہو۔ خدا تعالیٰ ایک جماعت بنانا چاہتا ہے اور اس کا دوسروں سے امتیاز ہونا ضروری ہے۔ بغیر امتیاز کے اس کے فوائد مترتب نہیں ہوتے اور صرف مسلمان کہلانے سے تمیز نہیں ہو سکتی۔ امام شافعی اور حنبل وغیرہ کا زمانہ بھی ایسا تھا کہ اس وقت بدعات شروع ہو گئی تھیں۔ اگر اس وقت یہ نام نہ ہوتے تو اہل حق اور ناحق میں تمیز نہ ہوسکتی۔ ہزار ہاگندے آدمی ملے جلے رہتے۔ یہ چار نام اسلام کے واسطے مثل چار دیواری کے تھے۔ اگر یہ لوگ پیدا نہ ہوتے تو اسلام ایسا مشتبہ مذہب ہو جاتا کہ بدعتی اور غیربدعتی میں تمیز نہ ہو سکتی۔ اب بھی ایسا زمانہ آگیا ہے کہ گھر گھر ایک مذہب ہے۔ ہم کو مسلمان ہونے سے انکار نہیں، مگر تفرقہ دور کرنے کے واسطے یہ نام رکھاگیا ہے۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے توریت والوں سے اختلاف کیا اور عام نظروں میں ایک تفرقہ ڈالنے والے بنے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہ تفرقہ خود خدا ڈالتا ہے۔ جب کھوٹ اور ملاوٹ زیادہ ہو جاتی ہے تو خد اتعالیٰ خود چاہتا ہے کہ ایک تمیز ہو جائے۔ ‘‘

فرمایا:

’’جو لوگ اسلام کے نام سے انکار کریں یا اس نام کو عار سمجھیں۔ ان کو تو میں لعنتی کہتا ہوں۔ میں کوئی بدعت نہیں لایا۔ جیسا کہ حنبلی شافعی وغیرہ نام تھے ایسا ہی احمدی بھی نام ہے بلکہ احمد کے نام میں اسلام کے بانی احمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اِتّصال ہے۔ اور یہ اِتّصال دوسرے ناموں میں نہیں۔ احمد، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ہے۔ اسلام احمدی ہے اور احمدی اسلام ہے۔ حدیث شریف میں محمدی رکھاگیا ہے۔ بعض اوقات الفاظ بہت ہوتے ہیں مگر مطلب ایک ہی ہوتاہے۔ احمدی نام ایک امتیازی نشان ہے۔ آجکل اس قدر طوفان زمانہ میں ہے کہ اوّل آخر کبھی نہیں ہوا اس واسطے کوئی نام ضروری تھا۔ خدا تعالیٰ کے نزدیک جو مسلمان ہیں وہ احمدی ہیں۔ ‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 500تا 502۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

ہرمسلک کے مسلمانوں کے پیچھے نمازپڑھ لینا

’’یہ دینداری نہیں دکانداری ہے‘‘

شیخ محمد منظورنعمانی صاحب لکھتے ہیں :

’’جماعت اسلامی کے بعض ترجمان حضرات نے ’’فرقہ‘‘ نہ ہونے کی دلیل کے طورپریہ بات بھی باربارلکھی ہے کہ ہم تو جماعت سے تعلق نہ رکھنے والے ہر مسلک کے مسلمانوں کے پیچھے نمازپڑھ لیتے ہیں، ہم فرقہ کیسے ہوسکتے ہیں۔ راقم سطورعرض کرتا ہے کہ یہ طرزِ عمل کہ ہرخیال اورہرمسلک کے پیچھے نمازپڑھ لی جائے (اگرچہ معلوم ہو کہ اس کا عقیدہ توحیدبھی صحیح نہیں ہے، قبرپرست یا تعزیہ پرست ہے، یا مودودی صاحب اور جماعت اسلامی کی کل دین اور خالص حق کی دعوت پہنچ جانے کے بعد بھی اس نے اس کو قبول نہ کرکے بلکہ ردکرکے وہ پوزیشن اختیارکرلی ہے جو قوم یہود نے اختیارکی تھی) ’’فرقہ‘‘ نہ ہونے کی دلیل تو کسی منطق کی رو سے نہیں ہو سکتی۔ ہاں اس بات کی علامت ضرور ہو سکتی ہے کہ نماز کو بھی ’’سیاست‘‘ بنالیا گیا ہے۔ وہ مولانا مودودی کے پیچھے بھی پڑھی جا سکتی ہے اور مسٹرجناح جیسے کسی آغاخانی یا اسماعیلی کے پیچھے بھی، علیٰ ہٰذہ کسی تعزیہ دار یا قبرپرست کے پیچھے بھی۔ ظاہر ہے کہ یہ دینداری نہیں دوکانداری ہے۔ ‘‘

(’’مولانا مودودی کے ساتھ میری رفاقت کی سرگزشت اور اب میرا مؤقف‘‘مصنفہ شیخ محمدمنظورنعمانی صفحہ 143)

غیرصحابہ کو ’’رضی اللہ عنہ ‘‘ کہنا کیسا ہے؟

علامہ غلام مرتضیٰ ساقی صاحب کتاب ’’اسلام اور ولایت‘‘ میں آیات ’’اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے‘‘(سورۃ توبہ:100، سورۃ البینہ :9)۔ اور ’’اپنے پروردگارکی طرف لوٹ آ، اس حال میں کہ تو اس سے راضی اور اور وہ تجھ سے راضی۔ ‘‘(سورۃا لفجر:29) سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’مذکورہ بالا آیا ت بینات سے روز روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ ہر ولی اور ہرنیک فرد کو رضائے خداوندی حاصل ہوتی ہے…تو معلوم ہوا ہر نیک، متقی اور پارسا شخصیت کو رضی اللہ عنہ کہہ سکتے ہیں…اسے صرف صحابہ کرام کے ساتھ مخصوص سمجھنا علم دین سے دوری کا نتیجہ ہے…صحابہ کرام کے علاوہ متبعین شریعت اورعالمین سنت کو خود اللہ رب العالمین نے ’’رضی اللہ عنہم ‘‘کہا ہے…اب وہ حضرات جواب دیں جو صحابہ کرام کے علاوہ دیگر بزرگان دین کو ’’رضی اللہ عنہ‘‘ کہنے کو بدعت قراردیتے ہیں کہ کیا اللہ تعالیٰ کی سنت پرعمل کرنا بھی بدعت ہے؟۔ استغفراللہ العظیم‘‘۔

(’’اسلام اور ولایت ‘‘۔ مصنفہ ابوالحقائق علامہ غلام مرتضیٰ ساقی مجددی۔ مطبوعہ ستمبر 2004ء۔ ناشر نوریہ رضویہ پبلی کیشنز لاہور۔ صفحات 108، 109)

آنحضورﷺ کے معجزات جو آپؐ کی رحلت کے بعد ظاہر ہوںگے

علامہ غلام مرتضیٰ ساقی صاحب اپنی تالیف ’’اسلام اور ولایت‘‘میں لکھتے ہیں:

’’اولیاء کرام سے جو کرامات صادر ہوتی ہیں وہ ان کے نبیوں کے معجزے ہوتے ہیں…کیونکہ ’’مقام ولایت‘‘ اور ’’درجہ کرامت‘‘نبیﷺ کی اطاعت اورپیروی کے بغیرناممکن ہے…انبیاء کرام کے فیوض وبرکات سے ہی ان کے امتیوں کو یہ بلند مقام حاصل ہوتا ہے…لہٰذاجو خلاف عادت کام کسی نبی سے صادر ہوتو اسے معجزہ قراردیں گے اور اگر وہی کام کسی ایسے شخص سے ظاہرہواجو متقی، پرہیزگارہو، جس نے نبوۃ کا دعویٰ نہ کیاہوتو وہ خلاف عادت کام کرامت کہلائے گا۔ نبیوں کے معجزات کا ولیوں کے ہاتھوں پر ظاہر ہونے میں ان کے دین کی صداقت اور ان کی صحت پر دلالت مقصود ہوتی ہے۔

امام ابو حفص نسفی فرماتے ہیں:

ویکون ذلک معجزۃ للرسول الذی ظھرت ھذہ الکرامۃ لواحد من امۃ

(شرح عقائد صفحہ 147)

اور کرامت اس رسول کا معجزہ ہوتی ہے جو اس کی امت (کے کسی ولی ) سےظاہرہوتی ہے۔

شیخ محقق شاہ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں:

دراصل یہ خارق عادت امر اس نبی کے معجزے کا عکس ہوتا ہے جس کی امت سے ولی ہو مثلاًنبی کریمﷺ کے معجزات کئی انواع اقسام کے ہیں۔ بعض معجزات بعثت سے پہلے وقوع پذیرہوئے اور انہیں ارہاصات کہتے ہیں اور بعض معجزے بعثت کے بعد حیات طیبہ میں رونما ہوئے جب کہ معجزات ایسے بھی ہیں جو آپ کی رحلت کے بعد تابعین اوراولیاء امت سے ظاہر ہوئے، دراصل یہ تمام کرامات گویا کہ آنحضرتﷺ کے معجزات ہیں جو آپ کے دین کی سچائی اورصحت پردلالت کرتے ہیں۔

(تکمیل الایمان مترجم صفحہ 158)

امام نسفی اور حضرت شیخ محقق علیہ الرحمہ کی ان عبارات سے بھی یہ ظاہر ہواکہ حضورﷺ کے کچھ معجزات پوشیدہ رہے ہیں جو اب آپ کی امت کے اولیاء سے کرامات کی صورت میں ظاہر ہورہے ہیں۔

(’’اسلام اور ولایت ‘‘۔ مصنفہ ابوالحقائق علامہ غلام مرتضیٰ ساقی مجددی۔ مطبوعہ ستمبر 2004ء۔ ناشر نوریہ رضویہ پبلی کیشنز۔ صفحات 454 تا 456)

’’جو کچھ میرے تائید میں ظاہر ہوتا ہے دراصل وہ سب آنحضرتﷺ کے معجزات ہیں‘‘

حضرت مرزاغلام احمد قادیانی مسیح موعود ومہدی معہود علیہ السلام فرماتےہیں:

’’اصل بات یہ ہے کہ سچا کراماتی وہی ہے جس کی کرامات کا دریا کبھی خشک نہ ہو۔ سو وہ شخص ہمارے سید و مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ خداتعالیٰ نے ہر ایک زمانہ میں اس کامل اور مقدس کے نشان دکھلانے کے لئے کسی نہ کسی کو بھیجا ہے اور اس زمانہ میں مسیح موعود کے نام سے مجھے بھیجا ہے۔ دیکھو آسمان سے نشان ظاہر ہو رہے ہیں اور طرح طرح کے خوارق ظہور میں آرہے ہیں اور ہر ایک حق کا طالب ہمارے پاس رہ کر نشانوں کو دیکھ سکتا ہے گو وہ عیسائی ہو یا یہودی یا آریہ۔ یہ سب برکات ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیں۔ ‘‘

(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد13صفحہ154تا 157حاشیہ)

نیز فرمایا:

’’کسی نبی سے اس قدر معجزات ظاہر نہیں ہوئے جس قدر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے… ہمارے نبیﷺ کے معجزات اب تک ظہور میں آ رہے ہیں اور قیامت تک ظاہر ہوتے رہیں گے جو کچھ میرے تائید میں ظاہر ہوتا ہے در اصل وہ سب آنحضرتﷺ کے معجزات ہیں۔ ‘‘

(تتمہ حقیقہ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22صفحہ 468تا469)

(مرسلہ :طارق احمد مرزا۔ آسٹریلیا)

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button