متفرق مضامین

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے دعاوی کے بارے جاویدغامدی صاحب کے کچھ نظریات کا تاریخی تجزیہ

(ڈاکٹر مرزا سلطان احمد)

مکرم جاوید احمد غامدی صاحب کی ایک ویڈیو آج کل سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے اور اسے ایک لاکھ کے قریب لوگ دیکھ چکے ہیں اس میں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی کا زمانی لحاظ سے جائزہ پیش کیا ہے۔ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا ذکر کرنے سے پہلے وہ یہ ذکر کر رہے تھے کہ پرانے صوفیاء کے کلام میں اکثر یہ ذکر مل جاتا ہے کہ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے افراد کو نبوت کے کمالات حاصل ہوتے رہے ہیں لیکن ان کے دعاوی کو نبوت کا دعویٰ نہیں سمجھا گیا تھا۔ مناسب ہو گا اگر تفصیلات درج کرنے سے پہلے، اس ویڈیو میں بیان کردہ نکات کا خلاصہ درج کر دیا جائے۔ غامدی صاحب نے فرمایا

1۔ 1885ء تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر صوفیانہ رنگ لیے ہوئے تھی۔ جیسا کہ پرانے بزرگ صوفیاء کا انداز ہوتا تھا ویسا ہی آپ کا انداز تھا۔اور آپ محض یہ فرماتے تھے کہ میں دین کی تجدید کے لیے آیا ہوں اور اس سے زائد آپ کا کوئی دعویٰ نہیں تھا۔

2۔ 1885ء میں آپ کی ملاقات حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ سے ہوئی اور ان سے آپ کی خط وکتابت شروع ہوئی۔ اس کے بعد آپ کے دعاوی کے اظہارمیں تبدیلی آنی شروع ہوئی۔

3۔ 24؍ جنوری 1891ء کو حضرت مولوی نورالدین صاحب ؓنے آپ کو ایک خط لکھا کہ آپ کے صوفیانہ کمالات اور الہامات ایسے ہیں کہ اگر آپ مسیح ہونے کا دعویٰ کر دیں تو مناسب ہوگا۔ اور اس کے بعد اس تجویز کے زیر اثر رفتہ رفتہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسیح ہونے کا دعویٰ کیا۔ (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِک)

اس ویڈیو میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کے کچھ حوالے دکھائے گئے اور اس کے ساتھ یہ بھی بیان کیا گیاکہ یہ تحریر کس سال کی ہے۔

 ہر شخص کو اپنی رائے رکھنے کا حق ہے اور جماعت احمدیہ کی ہمیشہ یہ روایت رہی ہے کہ وہ دلیل اور رواداری کے ساتھ تبادلہ خیالات کا خیر مقدم کرتی ہے۔ لیکن کسی رائے کو صحیح یا غلط قرار دینے سے قبل یہ دیکھنا ضروری ہے کہ جن بیان کردہ حقائق کی بناء پر وہ رائے قائم کی جا رہی ہےکیا وہ درست بھی ہیں کہ نہیں۔ اس مضمون میں صرف اس ایک پہلو کو مد نظر رکھتے ہوئے اس ویڈیو کا تجزیہ پیش کیا جائے گا تاکہ حقائق واضح ہوجائیں۔

1۔ حضرت اقدس مسیح موعود ؑکے جو الہامات دعویٰ ’’مسیح موعود‘‘ سے قبل شائع ہو کر مشہور ہو چکے تھے، ان کےمطالعہ سے ہی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آپ کا مقام محض کسی عام صوفی یا بزرگ کی طرح کا نہیں تھا بلکہ اس سےبالکل منفرد تھا۔یہاں صرف قبل از دعویٰ آپ کے مکتوبات میں سے دو مثالیں درج کی جاتی ہیں۔ یہ دونوں مکتوب آپؑ نے میر عباس علی لدھیانوی صاحب کے نام تحریر فرمائے تھے۔ آپؑ نے 12؍ جون 1883ءکو میر عباس علی لدھیانوی صاحب کے نام ایک خط میں فرمایا :

’’اور یہ آیت

وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ

بار بار الہام ہوئے اور اس قدر متواتر ہوئے  کہ جس کا شمار خدا ہی کو معلوم ہے اور اس قدر زور سے ہوئے کہ میخ فولادی کی طرح دل میں داخل ہے۔ اس سے یقیناً معلوم ہوا کہ خداوند کریم ان سب دوستوں کو جو اس عاجز کے طریق پر قدم ماریں بہت سی برکتیں دے گا۔ اور ان کو دوسرے طریقوں کے لوگوں پر غلبہ بخشے گا اور یہ غلبہ قیامت تک رہے گا۔ اور اس عاجز کے بعد کوئی مقبول آنے والا نہیں جو اس طریق کے خلاف قدم مارے۔ اور جو مخالف قدم مارے گا خدا اس کو تباہ کرے گا اور اُس کے سلسلہ کو پائیداری نہیں ہو گی۔‘‘

( مکتوبات احمد جلد اول صفحہ534)

اسی طرح اس خط کے چند ماہ کے بعد 18؍ جنوری 1884ء کو آپؑ نے میر عباس علی صاحب کے نام تحریر فرمایا:

’’بہتر یہ ہے کہ آںمخدوم اس عاجز کی تکلیف بیعت کے لئے بہت زور نہ دیں کہ کئی اندیشوں کا محل ہے۔ یہ عاجز معمولی زاہدوں اور عابدوں کے مشرب پر نہیں اور نہ ان کی رسم و عادت کے مطابق اوقات رکھتا ہے بلکہ ان کے پیرایہ سے نہایت بیگانہ اور دور ہے۔ سَیَفْعَلُ اللّٰہُ مَا یَشَآءُ  اگر خدا نے چاہا تو وہ قادر ہے کہ اپنے خاص ایماء سے اجازت فرماوے۔ ہر ایک کو اس جگہ کے آنے سے روک دیں اور جو پردہ غیب میں مخفی ہے اس کے ظہور کے منتظر رہیں۔‘‘

(مکتوبات احمد جلد اول صفحہ589)

یہ بھی قابل غور امر ہے کہ جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریریں منظر عام پر آنی شروع ہوئیں تو اُس وقت ہندوستان میں بھی کئی سلسلوں سے وابستہ صوفی منش احباب موجود تھے، کئی مسلمان علماء موجود تھے، کتنے ہی مصنفین کی کتب شائع ہو رہی تھیں لیکن ان میں سے کتنے ایسے تھے جنہوں نے تمام ادیان کے نمایاں افراد کے نام چیلنج شائع کیا ہو کہ اگر وہ اپنی مقدس کتب میں سے ان معارف کا پانچواں حصہ بھی ثابت کر دیں جو کہ وہ قرآن کریم سے ثابت کر کے دکھائیں گے تو ان کی خدمت میں انعام پیش کیا جائے گا۔

2۔ مکرم جاوید احمد غامدی صاحب نے اس ویڈیو میں بیان کیا کہ 1885ء میں حضرت مولوی نورالدین صاحب ؓکی حضرت مسیح موعودؑ سے خط و کتابت شروع ہوئی۔ اُس وقت تک حضرت مسیح موعودؑ ویسی ہی باتیں بیان فرما رہے تھے جیسا کہ عموماً صوفیاء کرتے ہیں۔ لیکن اس کے بعد 1890ء میں حضرت مسیح موعودؑ نے یہ بیان کرنا شروع کیا کہ آیت

هُوَالَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ

کا ظہور میرے ذریعہ ہونے والا ہے اورغامدی صاحب نے کہا کہ بانی سلسلہ احمدیہؑ نے ابتدا یہاں سے کر دی۔ انہوں نے براہین احمدیہ کا یہ حوالہ پڑھا:

’’هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ  

 یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طورپر حضرت مسیح کے حق میں پیشگوئی ہے۔ اور جس غلبۂ  کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیا گیا ہے وہ غلبہ مسیح کے ذریعہ سے ظہور میں آئے گا۔ اور جب حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق واقطار میں پھیل جائے گا لیکن اس عاجز پر ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ خاکسار اپنی غربت اور انکسار اور توکل اور ایثار اور آیات اور انوار کے رو سے مسیح کی پہلی زندگی کا نمونہ ہے اور اس عاجز کی فطرت اور مسیح کی فطرت باہم نہایت ہی متشابہ واقع ہوئی ہے گویا ایک ہی جوہر کے دو ٹکڑے یا ایک ہی درخت کے دو پھل ہیں اور بحدی اتحاد ہے کہ نظر کشفی میں نہایت ہی باریک امتیاز ہے۔‘‘

(براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ593،حاشیہ در حاشیہ نمبر3)

اس ویڈیو میں مکرم جاوید احمد غامدی صاحب نے اس حوالے کی جو تاریخ بیان کی ہے کہ یہ حوالہ 1890ء کا ہے، یہ درست نہیں۔ یہ حوالہ براہین احمدیہ جلد چہارم کا ہے۔ اور براہین احمدیہ جلد چہارم 1884ء میں شائع ہو چکی تھی۔ اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اس سے بہت قبل یہ کتاب تحریر ہو کر پریس میں شائع ہونے کے لیے جا چکی تھی۔ جبکہ غامدی صاحب نے بیان کیا ہے کہ 1885ء میں حضرت مسیح موعودؑ اور حضرت حکیم نورالدین صاحب ؓکی خط و کتابت شروع ہوئی اور اس کے بعد 1890ء میں حضرت مسیح موعودؑ نے یہ  اپنی کتاب  میں تحریر فرمایا کہ میں مسیح کی پہلی زندگی کا نمونہ ہوں۔ تاریخی طور پر  یہ نظریہ درست نہیں ہو سکتا۔

3۔ غامدی صاحب نے یہ نظریہ پیش کیا کہ حضرت مسیح موعودؑ اور حضرت حکیم نورالدین صاحبؓ  کی خط و کتابت شروع ہوئی تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں حضرت حکیم نورالدین صاحبؓ نے بانی سلسلہ احمدیہ کو ایسی باتیں لکھیں کہ اگر آپ خود مسیح ہونے کا دعویٰ کر دیں تو مناسب ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس خط و کتابت کے آغاز سے قبل ہی حضرت مسیح موعودؑ یہ اعلان فرما چکے تھے اور یہ اعلان شائع بھی ہو چکا تھا کہ مجھ پر اللہ تعالیٰ نے یہ ظاہر کیا ہے کہ مجھ میں اور حضرت مسیح علیہ السلام میں گہری مماثلت ہے۔ اس لیے عقل اس نظریہ کو قبول نہیں کر سکتی۔

غامدی صاحب نے یہ نتائج حضرت مسیح موعودؑ کے خطوط کا شائع کردہ مجموعہ ’’مکتوبات احمد‘‘ کے مطالعہ سے اخذ کیے ہیں۔ اور اس بات کا ذکر انہوں نے اس ویڈیو میں کیا ہے اور’’مکتوبات احمد‘‘ کے کچھ صفحات اس ویڈیو میں دکھائے بھی جا رہے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ویڈیو میں ’’مکتوبات احمد‘‘ میں شامل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ پہلا خط بھی دکھایا گیا ہے  جو کہ حضرت حکیم نورالدین صاحب ؓکے نام لکھا گیا تھا۔ یہ خط 8؍ مارچ 1885ء کو لکھا گیا تھا۔ اس خط میں آپؑ نے لکھا:

’’یہ عاجز( مؤلف براہین احمدیہ) حضرت جلّ جلالہٗ کی طرف سے مامور ہوا ہے کہ نبی ناصری اسرائیلی کی طرز پر کمال مسکینی اور فروتنی اور غربت اور تذلل اور تواضع سے اصلاح خلق کے لئے کوشش کرے…‘‘

(مکتوبات احمد جلد 2 صفحہ9)

اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ حضرت مولوی نور الدین صاحبؓ سے خط وکتابت کے آغاز میں ہی بلکہ پہلے ہی خط سے حضرت مسیح موعودؑ نے یہ واضح فرما دیا تھاکہ آپ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے گہری مماثلت رکھتے ہیں۔ گو آپ ؑنے ابھی اللہ تعالیٰ کے اذن سے یہ اعلان نہیں فرمایا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پا چکے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ہی بطور مسیح موعود مبعوث ہوئے ہیں۔ اس حقیقت کی موجودگی میں یہ نتیجہ کس طرح نکالا جا سکتا ہے کہ آپ کا یہ دعویٰ نعوذُ باللہ حضرت حکیم نورالدین  صاحبؓ  کی کسی تجویز کا نتیجہ تھا۔

4۔ اس کے بعد غامدی صاحب بیان کرتے ہیں کہ کچھ عرصہ بعد حضرت حکیم نورالدین صاحبؓ نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو ایک خط لکھا جو کہ دستیاب نہیں لیکن اس کا جو جواب مرزا صاحب نے 24 ؍جنوری 1891ء کو تحریر کیا وہ محفوظ ہے۔ مرزا صاحب کے جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ حکیم نورالدین صاحب نے مرزا صاحب کو یہ مشورہ دیا کہ جو آپ کے متصوفانہ کمالات ہیں اور جو الہامات ہو رہے ہیں۔ اس کی روشنی میں اگر مسیح ہونے کا دعویٰ کر دیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ لہذا جواب سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مشورہ انہوں نے دیا۔ اس کے بعد غامدی صاحب حضرت مسیح موعود  کے خط کا یہ اقتباس پڑھا:

’’جو کچھ آں مخدوم نے تحریر فرمایا ہے کہ اگر دمشقی حدیث کے مصداق کو علیحدہ چھوڑ کر الگ مثیلِ مسیح کا دعویٰ ظاہر کیا جائے تو اس میں حرج کیا ہے؟ در حقیقت اس عاجز کو مثیلِ مسیح بننے کی کچھ حاجت نہیں۔ یہ بندا چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے عاجز اور مطیع بندوں میں شامل کر لیوے۔ لیکن ہم  ابتلا سے کسی طرح بھاگ نہیں سکتے۔‘‘

(مکتوبات احمد جلد 2 صفحہ98تا99)

پھر غامدی صاحب یہ نتیجہ اخذ فرماتے ہیں کہ اس خط کے کچھ ہی عرصہ بعد رفتہ رفتہ مرزا صاحب نے مسیح ہونے کا دعویٰ کر دیا۔ گویا یہ نتیجہ نکالا جا رہا ہے کہ نعوذُ باللہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا مسیح موعود ہونے کے دعوے کے پیچھےدراصل حضرت حکیم نورالدین صاحبؓ کے مشوروں کاعمل دخل تھا۔

اوّل تو اس خط کی عبارت سے ہی ظاہر ہے کہ اس دعوے کو پیش کرنے کا مطلب یہ تھا کہ عظیم آزمائش کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اور اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کسی ذاتی خواہش کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔بہر حال تمام اعتقادات اور عقیدت کو ایک طرف رکھ کر صرف بیان کردہ تاریخوں کی بنیاد پر اس نظریہ کا تجزیہ پیش کیا جاتا ہے۔

پہلی بات یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے الہامات کی بنا پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق مسیح موعود ہونے کا اعلان اپنی تصنیف ’’فتح  اسلام‘‘ میں فرمایا تھا۔ اور اس کے ساتھ ہی  مخالفت اور فتووں کا طوفان امڈ آیا تھا۔ کتاب ’’فتح اسلام‘‘ کے پہلے ایڈیشن کے سرورق پر اس کی تاریخ اشاعت جمادی الاوّل  1308 ہجری لکھی ہوئی ہے۔ اور انٹرنیٹ پر ہجری تاریخوں کو عیسوی تاریخوں میں بدلنے کی بہت سی سائٹس موجود ہیں۔ ان  سے چیک کیا جا سکتا ہے کہ جمادی الاوّل 1308 کا مہینہ 13 ؍دسمبر 1890ء سے شروع ہو کر 11 ؍جنوری 1891ء کو ختم ہوجاتا ہے۔ اب جس خط کا غامدی صاحب حوالہ دے رہے ہیں وہ 25؍ جنوری 1891ء کو لکھا گیا تھا۔ اور خود غامدی صاحب اقرار کر رہے ہیں کہ اُس وقت حضرت حکیم نورالدین صاحب نے مرزا صاحب کو یہ مشورہ دیا تھا کہ اگر آپ مسیح ہونے کا دعویٰ کر دیں تو مناسب ہوگا لیکن آپ اس پر آمادہ نہیں تھے اور لکھ رہے تھے کہ میں صرف خدا کے عاجز بندوں میں شامل ہونا چاہتا ہوں لیکن اگر خداتعالیٰ کی طرف سے حکم ہوجائے تو پھر یہ ایک ابتلاء ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ اُس وقت تک حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کایہ دعویٰ کہ آپ ہی ’’مسیح موعود‘‘ ہیں اور آپ ہی ’’مثیل مسیح‘‘ ہیں شائع ہو کر اپنے اور غیروں کے ہاتھ میں پہنچ چکا تھا۔ اور آپ ’’فتح اسلام’‘ میں یہ اعلان بھی فرما چکے تھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں۔ اور مخالفت کا طوفان بھی برپا ہو چکا تھا۔ اور ظاہر ہے کہ جب اس تاریخ تک یہ کتاب شائع ہو چکی تھی تو پریس میں اس سے بھی کافی پہلے گئی ہوگی کیونکہ اس وقت کتاب کی اشاعت پر بھی کافی وقت لگتا تھا۔ اور پریس میں جانے سے بھی کافی پہلے اس کا مسودہ تیار ہو کر اس کی کتابت ہوئی ہوگی۔ اس وقت ہاتھ سے کتابت کی جاتی تھی اور اس عمل پر کافی وقت خرچ ہوتا تھا۔ یہ سب قرائن ثابت کرتے ہیں کہ 24؍ جنوری 1891 ء کے اس خط سے قبل ہی اس دعوے کا اعلان ہو چکا تھا۔

5۔ صرف یہی ایک نکتہ اس نظریہ کو غلط ثابت کر دینے کے لیے کافی ہے۔ لیکن جیسا کہ جماعت احمدیہ کی روایت ہے مذہبی مباحثات میں وسیع البنیاد تحقیق پیش کرنی چاہیے تاکہ دوسرے مسالک سے وابستہ احباب کے دلوں کو بھی پوری تسلی ہوجائے۔ چنانچہ اب ہم اس نظریہ کا ایک اور پہلو سے جائزہ لیتے ہیں۔ غامدی صاحب نے اس ویڈیو  میں اپنے اس نظریہ کے حق میں ’’مکتوبات احمد‘‘ میں شائع کردہ خطوط کو پیش کیا ہے۔ غامدی صاحب نے حضرت مسیح موعودؑ کے جس خط کا حوالہ پیش کیا ہے اس کے آخر میں لکھا ہے:

’’معلوم نہیں کہ آنمکرم نے ابھی تک وہ خطوط جن کا وعدہ آپ نے فرمایا تھا، روانہ کئے ہیں یا نہیں۔ رسالہ ازالہ اوہام میں یہ بحث اس قدر مبسوط ہے کہ شاید دوسرے کسی رسالہ میں نہ ہو۔ اگر آپ کی طرف سے کوئی خاص تحریر آپ کی اس وقت پہنچی تو میں مناسب سمجھتا ہوں۔ اس کو رسالہ ازالہ اوہام میں چھاپ دوں۔ مضمون اگر اُردو عبارت میں ہو تو بہتر ہے تا عام لوگ اسے پڑھ لیں۔‘‘

(مکتوبات احمد جلد 2 صفحہ 99)

 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تصنیف ’’فتح اسلام‘‘ میں یہ اعلان فرمایا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق اللہ تعالیٰ نے مجھے ’’مسیح موعود‘‘ کے طور پر مبعوث فرمایا ہے۔ اس کے معاً بعد آپ نے دو مزید تصنیفات ’’توضیح مرام‘‘ اور ’’ازالہ اوہام‘‘ شائع فرمائیں۔ اور ان کتب میں بھی اپنے ان دعاوی کو  تفصیل اور ثبوتوں کے ساتھ بیان فرمایا۔خط کے آخری حصہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جس وقت یہ خط لکھا گیا۔ اُس وقت ’’فتح اسلام‘‘ اور ’’توضیح مرام‘‘ تصنیف ہو چکی تھیں اور’’ازالہ اوہام‘‘ کی تصنیف اپنے آخری مراحل پرتھی یا مکمل ہو چکی تھی۔ اور پہلی دو تصانیف میں حضرت مسیح موعودؑ اپنے ان دعاوی کو تفصیل سے بیان کر چکے تھے۔

5۔ اس خط سے پہلے  20؍ دسمبر 1890ء کو بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت حکیم نورالدین صاحب کو ایک خط لکھا۔ اس خط میں آپؑ تحریر فرماتے ہیں:

’’چونکہ کتاب فتح اسلام کسی قدر بڑھائی گئی ہے اور مطبع امرتسر میں چھپ رہی ہے اس لئے جب تک کل چھپ نہ جائے روانہ نہیں ہو سکتی۔ امید ہے کہ بیس روز تک چھپ کر آ جائے گی۔‘‘

(مکتوبات احمد جلد 2 صفحہ97)

اس خط سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت حکیم نورالدین صاحب کو دسمبر 1890 ءمیں یہ علم ہو چکا تھا کہ کتاب ’’فتح اسلام‘‘ شائع ہونی شروع ہو چکی ہے اور اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ فرمایا ہے۔ اس لیے یہ عجیب و غریب نظریہ قابل قبول نہیں رہتا کہ اس کے بھی ایک ماہ بعد تک نعوذُ باللہ حضرت حکیم نورالدین صاحب ؓآپ کو تجویز دے رہے تھے کہ آپ کو ’’مسیح موعود‘‘ ہونے کا دعویٰ کر دینا چاہیے اور آپ اس پر آمادہ نہیں تھے۔

6۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کی ہے کہ اس کتاب میں حضرت مسیحؑ کی وفات اور اس دعوے کی اشاعت تو ایک آخری مرحلہ تھا۔ اس سے کئی ماہ  پہلے یہ کتاب تصنیف ہوئی ہو گی اور  چھپنے کے لیے پریس میں گئی ہو گی۔ چنانچہ  غالب امکان یہی ہے کہ کم از کم ایک حلقے میں یہ خبر مشہور ہو چکی تھی کہ آپؑ نے یہ دعویٰ فرمایا ہے۔ اور اس کی خبر ایسے طبقے کو بھی ہوئی ہو گی جس نے اس دعوے کی بہر حال مخالفت کرنی تھی۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 15؍ جولائی 1890ء کو حضرت حکیم نورالدین صاحبؓ  کو ایک خط لکھا۔ اس میں آپ تحریر فرماتے ہیں:

’’مولوی محمد حسین صاحب نے پختہ ارادہ مخالفانہ تحریر کا کر لیا ہے اور اس عاجز کے ضال ہونے کی نسبت زبانی اشاعت کر رہے ہیں۔ مرزا خدا بخش صاحب جو محمد علی خان صاحب کے ساتھ آئے ہیں، ذکر کرتے ہیں کہ میں نے بھی ان کی زبانی ضال کا لفظ سنا ہے۔ کل بمشورہ مرزا خدا بخش صاحب اور محمد علی خان صاحب ان کی طرف خط لکھا گیا ہے کہ پہلے ملاقات کر کے اپنے شکوک پیش کرو۔ معلوم نہیں کیا جواب لکھیں۔ میں نے یہ بھی لکھ دیا ہے کہ اگر آپ نہ آ سکیں تو میں خود آ سکتا ہوں۔ مگر ان کے اس فقرے سے سب کو تعجب  آیا کہ میں عقلی طور پر مسیح کا آسمان سے اترنا ثابت کردوں گا۔‘‘

(مکتوبات احمد جلد 2 صفحہ 93)

 اس سے ظاہر ہوجاتا ہے کہ ’’فتح اسلام‘‘ کی اشاعت سے بھی چھ ماہ قبل زبانی طور پر آپ کا دعویٰ مشہور ہو چکا تھا اور اس کی مخالفت بھی شروع ہو چکی تھی۔ اور یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ خط غامدی صا حب کے علم میں بھی ہے کیونکہ وہ اسی ویڈیو میں اس کے ایک فقرے کا حوالہ دیتے ہیں اور وہ فقرہ یہ ہے:

’’اور میں نے سنا ہے کہ ان لوگوں نے کچھ دبی زبان سے کافر کہنا شروع کر دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ ایک بڑے امر کو ظاہر کرنا چاہتا ہے۔‘‘

(مکتوبات احمد جلد 2 صفحہ 93)

7۔ یہ حقائق بہت واضح ہیں لیکن شاید کوئی صاحب یہ اعتراض کریں کہ یہ تمام حوالے تو جماعت احمدیہ کے لٹریچر سے دیے گئے ہیں۔ اس لیے احتیاطاً  ایک حوالہ مخالفین کے لٹریچر سے دینا مناسب ہو گا۔ ہماری گذارش ہے کہ اس غرض کے لیے جماعت احمدیہ کے چوٹی کےمخالف مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے رسالہ اشاعۃ السنہ نمبر 1جلد نمبر 13 کو ملاحظہ فرمالیں۔ یہ شمارہ اوراس کے بعد کے کئی شمارے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت اور آپ کے خلاف فتووں سے بھرے ہوئے ہیں۔ اس شمارے کے صفحہ 13 پرمولوی محمد حسین بٹالوی صاحب نے حضرت حکیم نورالدین صاحب کے نام اپنا ایک خط شائع کیا ہے۔ یہ خط 10؍ فروری 1891ء کو لکھا گیا تھا۔ اور اس میں حضرت مسیح موعودؑ کے اس دعوے کے متعلق مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب زہرفشانی کر رہے ہیں۔ اور اس سے پہلے انہوں نے تحریر کیا ہے کہ اس خط سے قبل وہ حضرت مسیح موعودؑ  کو ان کے دعاوی کے بارے میں خطوط لکھ چکے ہیں۔ اس سے واضح ہے کہ  فروری 1891ء سے کافی پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس دعوے کی خبر مشہور ہو چکی تھی۔ اور فر وری میں تو مباحثوں کے چیلنج تک نوبت آ چکی تھی۔ اس پس منظر میں یہ دعویٰ کس طرح کیا جا  سکتا ہے کہ جنوری 1891ء کے آخر تک نعوذُ باللہ حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ بانی سلسلہ کو آمادہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ مناسب ہو گا کہ آپ مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ کر دیں اور آپ آمادہ نہیں ہو رہے تھے۔

یہ نظریہ پہلی مرتبہ پیش نہیں کیا گیا بلکہ پہلے بھی کئی مرتبہ اس قسم کے خیالات بیان ہوتے رہے ہیں۔ لیکن اگر تمام اعتقادی پہلو  پیش نظر نہ ہوں تب بھی تاریخی حقائق مکمل طور پر اس نظریہ کی تردید کر رہے ہیں۔ بلکہ یہ بات حیران کن ہے کہ ان واضح حقائق کی موجودگی میں اس قسم کے نظریات کو کن بنیادوں پر پیش کیا جا رہا ہے۔جیسا کہ پہلے عرض کی گئی تھی کہ کسی نظریہ کو صحیح یا غلط قرار دینے سے پہلے یہ جائزہ لینا ضروری ہوتا ہے کہ جن حقائق کی بنیاد پر وہ نظریہ پیش کیا جا رہا ہے، وہ بیان کردہ حقائق درست ہیں کہ نہیں۔ جب یہ حقائق ہی درست نہیں تو ان کی بنیاد پر پیش کردہ نظریہ کس طرح درست ہو سکتا ہے؟

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button