حضرت مصلح موعود ؓ

دعوتِ علماء (قسط سوم۔ آخری)

از: سیدناحضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

اسی طرح آپ قادیان کے لوگوں سے قادیان کی وہ حالت جو آج سے تیس سال پہلے تھی دریافت کریں اور پھر ایک طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ جو اللہ تعالیٰ نے وعدہ کئے تھے ان کو دیکھیں اور قرآن کریم کی آیات

وَقَدْ خَابَ مَنِ افْتَرٰیَ (طٰہٰ:62)

جس نے جھوٹ باندھا وہ ناکام و نامراد رہ گیا اور

وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوْ کَذَّبَ بِاٰیٰتِہٖ اِنَّہٗ لَایُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ (الانعام:22)

(اور اس سے زیادہ ظالم کون ہے جس نے اللہ تعالیٰ پر افتراء کیا یا اس کے نشانوں کو جھٹلایا تحقیق ظالم کامیاب نہیں ہؤا کرتے) پر غور کریں اور دوسری طرف آپ کے سلسلہ اور کام میں جو روز افزوں ترقی ہورہی ہے اس کو دیکھیں اور سوچیں کہ آیا یہ نصرت کبھی کسی مفتری علی اللہ کو ملی ہے اور پھر خاص کر اس قدر تحدی کی پیش گوئیوں کے بعد۔

اگر اس طریق پر آپ عمل کریں گے تو مَیں اللہ تعالیٰ سے یقین رکھتا ہوں کہ وہ آپ پر حق کھول دے گا اور آپ امام وقت کی مخالفت سے بچ جائیں گے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے

وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا(العنکبوت:70)

جو لوگ ہمارے راستہ میں ہمارے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق کوشش کرتے ہیں ہم ان کو ضرور اپنے سچے راستوں کی طرف راہنمائی کر دیتے ہیں لیکن اگر اس طریق سے آپ لوگوں کی تسلی اور تشفی نہ ہو یا آپ اس طریق پر عمل کرنا اپنی کسر شان سمجھیں تو پھر ایک اور طریق بھی ہے اور وہ یہ کہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر ایک عام جلسہ کیا جائے جس میں ایک نمائندہ آپ لوگوں کی طرف سے ہو اور ایک احمدیوں کی طرف سے اور مسائل مختلفہ پرتبادلۂ خیالات ہوجائے اس تبادلۂ خیالات کی غرض مباحثہ اور مناظرہ نہ ہو بلکہ حق کی تلاش اصل مقصد ہو۔ آپ کا نمائندہ بھی اور احمدیوں کا نمائندہ بھی قسم کھائے کہ مَیں جو کچھ کہوں گا سچ سچ کہوں گا اور ضد اور ہٹ نہیں کروں گا جو بات مجھے اپنی کمزور معلوم ہوگی اس کا اقرار کر لینے میں مجھے عذر نہ ہوگا اور اس پر مَیں اصرار نہیں کروں گا۔ اسی طرح سننے والوں کو بھی دونوں ہدایت کریں کہ یہ دین کا معاملہ ہے۔ ہم قیامت کے دن آپ کے جواب دِہ نہیں ہوسکتے۔ آپ لوگ اپنی خدا دادعقل سے کام لیں اور جو بات آپ کو سچی معلوم ہو اس کے قبول کرنے سے جھجکیں نہیں اور یہ خیال دل سے نکال دیں کہ ہمارا مولوی جیت گیا یا دوسرا مولوی جیت گیا۔ مذہبی اختلاف جوئے بازی نہیں کہ اس میں جیت ہارکا فیصلہ کیا جائے۔ ہر شخص نے مر کر خدا تعالیٰ کے حضور جوابدہ ہونا ہے۔ اگر ایک منٹ کی خوشی کے لئے بندہ اسے ناراض کر دے تو اس سے زیادہ جہالت اور کیا ہوگی۔ اس نیت اور ارادہ کے بعد جو تبادلہ خیالات ہوگا مَیں یقین رکھتا ہوں کہ وہ انشاء اللہ تعالیٰ بہت مفید ثابت ہوگا اور بہتوں کے لئے موجب ہدایت ہوگا۔

مَیں جانتا ہوں کہ آپ میں سے بہت سے لوگ اپنے دلوں میں یہ فیصلہ کرچکے ہیں کہ مرزا صاحب نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ اپنے دعویٰ میں جُھوٹے تھے مگر آپ لوگ اس امر پر بھی غور کریں کہ جب تک زبردست دلائل اور خدا کی تائید ساتھ نہ ہو انسان اپنے فیصلہ میں غلطی کر سکتا ہے۔ ابھی دیکھئے ایک سال کے قریب ہی عرصہ ہؤا کہ قریباً تمام علماء نے یہ فتویٰ دے دیا تھا کہ ہندوستان دارالحرب ہے اور اب یہاں سے ہجرت کر جانا چاہیئے۔ کس شان سے ہجرت کی تیاریاں ہوئیں مگر پھر کیا انجام ہؤا؟ شریعت کی بناء پر یہ فیصلہ دیا گیا تھا وہ شریعت اب بھی اسی طرح موجود ہے اور وہ حالات بھی اب تک موجود ہیں مگر ہجرت کا حکم منسوخ کرنا پڑا۔ یہ جلد بازی کا نتیجہ تھا مَیں نے اس وقت بھی کہہ دیا تھا کہ یہ کام اچھا نہیں اور اسلام کی تعلیم کے خلاف ہے اس کا انجام اچھا نہ ہوگا اور دشمنوں کو اس پر ہنسی کا موقع ملے گا چنانچہ اسی طرح ہؤا۔

اسی طرح نان کوآپریشن (NON COOPERATION)کا فیصلہ تمام ہندوستان کے علماء نے آیات قرآنیہ کی بناء پر کیا اور بعض کے نزدیک تو گویا سارا قرآن کریم ہی اسی غرض سے نازل ہؤا تھا مگر باوجود اس کے اب تک سرکار کا کوئی دفتر یا کوئی محکمہ خالی نہیں ہؤا بلکہ خود مفتیان اپنی اغراض و مقاصد کے لئے سرکار سے تعلقات قائم کرتے ہیں اور خود اپنے بیان کردہ فتویٰ کے خلاف کر رہے ہیں۔ یہ جوش بھی اب کم ہورہا ہے اور تھوڑے دنوں میں جھاگ کی طرح بیٹھ جائے گا اور صرف اس قدر اثر اس کا باقی رہ جائے گا کہ دشمنان اسلام اسلام کے خلاف اس فتویٰ کو پیش کرتے رہیں گے۔ اس کے متعلق بھی مَیں نے بڑے زور سے مسلمانوں کو نصیحت کی تھی لیکن گو اس وقت ان کو وہ نصیحت بُری معلوم ہوئی مگر آج بہت سے لوگوں کے دل اس کی قدر محسوس کر رہے ہیں اور آئندہ اور بھی کریں گے۔

غرض انسان غلطی سے پاک نہیں ہے اور غلطیاں اس سے ہوجاتی ہیں۔ پس اس امر میں بھی آپ کو اس قدر اصرار سے کام نہیں لینا چاہیئے اور سچے دل سے غور کرنا چاہئے تا ایسا نہ ہو کہ اس نعمت سے جو اللہ تعالیٰ نے بندوں کے لئے اُتاری ہے آپ محروم رہ جائیں۔

……بالآخر میں دوبارہ پھر آپ لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ آپ لوگ اپنی ہی جانوں کے ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ ہزاروں آدمی جو آپ کے اقوال کو خدا اور رسول کا کلام سمجھ کر آپ کی بات کو تسلیم کر لیتے ہیں ان کے اعمال کے بھی آپ ذمہ دار ہیں۔ پس دیانت اور تقویٰ چاہتا ہے کہ آپ بہت سوچ سمجھ کر قدم اُٹھائیں اور ہار جیت کے خیال کو دل سے بالکل نکال دیں۔ مَیں آپ سے سچ سچ کہتا ہوں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مَیں حضرت مرزا صاحبؑ کے دعویٰ کو یقین کے ساتھ صحیح سمجھتا ہوں اور قرآن کریم کے بتائے ہوئے معیاروں کے مطابق اسے درست پاتا ہوں اور مَیں نے اس کی صداقت کے نشان اپنے اندر بھی پائے ہیں اور اپنے اردگرد بھی مشاہدہ کئے ہیں۔ مَیں نے آپ پر ایمان لا کر اللہ تعالیٰ کی زبردست قدرتوں کا مشاہدہ کیا ہے اور میں آپ پر علی وجہ البصیرت ایمان لایا ہوں نہ صرف دلائل عقلیہ سے بلکہ مشاہدات یقینیہ کی بناء پر اور میں آپ لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ کیا آپ لوگ بھی اپنے نفسوں میں اللہ تعالیٰ کے نشانات کو اسی طرح دیکھتے ہیں اور اس کی نصرت کو اسی طرح پاتے ہیں۔ اگر یہ بات نہیں اور آپ لوگ اپنے اور خدا تعالیٰ کے درمیان ایک دیوار حائل دیکھتے ہیں اور اس کی تائید اور نصرت کو اپنی ذات کے لئے مشاہدہ نہیں کرتے تو پھر سمجھ لیں کہ آپ کا انجام خطرہ میں ہے آپ خود بھی ایسی زمین پر چل رہے ہیں جس کا حال آپ کو معلوم نہیں اور ان لوگوں کو بھی اپنے ساتھ لے جارہے ہیں جو آپ پر اعتبار کر کے اندھا دھند آپ کے پیچھے چلے جارہے ہیں۔

آخر میں مَیں اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتا ہوں کہ وہ آپ لوگوں کو ہدایت دے اور وقت کے امام کی شناخت کی توفیق عنایت فرمائے اور آپ کے دلوں میں خشیت پیدا کرے اور دین کو کھیل اور تماشا بنانے سے آپ کو بچائے اور اپنے بندوں پر رحم کر کے اسلام کے لئے ان کے دل کھول دے۔ اَللّٰھُمَّ اٰمِیْن

خاکسار مرزا محمود احمد (خلیفۃ المسیح الثانی) 25؍مارچ 1922ء

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button