متفرق مضامین

حفظ ِقرآن کی فضیلت اور برکات

(باسل احمد بشارت)

اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس لیے پیدا کیا کہ وہ اپنے خالق و مالک کو پہچان کر اس کی عبادت کرے اور صفات الہٰیہ کو اپناتے ہوئے اس کے رنگ میں رنگین ہوجائے۔چنانچہ اس نے اپنے بندوں کی رہ نمائی کے لیے ہر دَور میں انبیاءورسل مبعوث فرمائے اور انہیں ایسی شریعتیں عطاکیں جوان کےحالات زمانہ کے پیش نظراستعداد انسانی کے لحاظ سے کامل اور نجات دہندہ توتھیں مگرمختص القوم و مختص الوقت۔بسا اوقات تبلیغ وہدایت کے لیے بیک وقت کئی انبیاء اپنی اپنی قوم کی رہ نمائی و رہبری کا فریضہ انجام دیتے تھے ۔یہ سلسلہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک جاری رہا ۔بالآخر جب استعدادات انسانی اور قوائے بشریہ ارتقائی منازل طے کرتے ہوئےاپنے نقطۂ کمال کو پہنچ گئے اورتمام دنیا مرکز توحیدپر اکٹھے ہو کر خدائے عزوجل کے احکام کاملہ کی متحمل ہونے کے قابل ہوگئی تو خدائے بزرگ و برتر نے کُل عالم انسانیت کے لیے کامل رسول سیدالانبیاءحضرت محمد مصطفیٰﷺ کو آخری شرعی نبی کی حیثیت سے مبعوث فرماکرآپ ﷺ پرآخری شریعت قرآن کریم نازل فرمائی۔قرآن کریم وہ اکمل و اتم شریعت ہے جس نے نہ صرف پہلی الہامی کتب کی تعلیمات کو اپنے اندر سمیٹا ہوا ہے بلکہ انسان کو پیش آنے والے تمام مسائل بھی تفصیل سے بیان کر دیے ہیں جیساکہ فرمایا:

تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى (النحل :90)

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو بلاامتیازرنگ و نسل اور بلاتفریق قوم وملک سارے عالم کےلیے یکساں بطور ہدایت نازل کیا ہے جو تاقیامت تمام لوگوں کے لیے ایک مکمل ضابطہ حیات اور قابل عمل ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس آخری کتاب کی حفاظت کا خودذمہ لیتے ہوئے فرمایا:

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ (الحجر :10)

ىقىناً ہم نے ہى ىہ ذکر اُتارا ہے اور ىقىناً ہم ہى اس کى حفاظت کرنے والے ہىں۔

اسی طرح فرمایا:

إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ(القيامة :18)

ىقىناً اس کا جمع کرنا اور اس کى تلاوت ہمارى ذمہ دارى ہے ۔

قرآن کریم کی حفاظت سے مراد اس کے الفاظ اور معانی دونوں کی مکمل حفاظت ہے۔ پس اس آیت میں یہ پیشگوئی بھی تھی کہ اُمت میں تاقیامت ایسے وجود پیدا ہوتے رہیں گے جو اسے یاد رکھ کر اس کے الفاظ کی ایسی کامل حفاظت کرتے رہیں گےتاکہ اس میں کوئی تحریف نہ کرسکے۔
حضرت بانیٔ جماعت احمدیہؑ بیان فرماتے ہیں:
‘‘ قرآن شریف میں یہ وعدہ تھا کہ خدا تعالیٰ فتنوں اور خطرات کے وقت میں دین اسلام کی حفاظت کرے گا۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے:

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ (الحجر: 10)

سو خدا تعالیٰ نے بموجب اس وعدہ کے چار قسم کی حفاظت اپنی کلام کی کی۔ اوّل حافظوں کے ذریعہ سے اُس کے الفاظ اور ترتیب کو محفوظ رکھا۔ اور ہر ایک صدی میں لاکھوں ایسے انسان پیدا کئے جو اُس کی پاک کلام کو اپنے سینوں میں حفظ رکھتے ہیں۔ ایسا حفظ کہ اگر ایک لفظ پوچھا جائے تو اس کا اگلا پچھلا سب بتا سکتے ہیں۔ اور اس طرح پر قرآن کو تحریف لفظی سے ہر ایک زمانہ میں بچایا۔ دوسرے ایسے آئمہ اور اکابر کے ذریعہ سے جن کو ہر ایک صدی میں فہم قرآن عطا ہوا ہے جنہوں نے قرآن شریف کے اجمالی مقامات کی احادیثِ نبویہ کی مدد سے تفسیر کرکے خدا کی پاک کلام اور پاک تعلیم کو ہر ایک زمانہ میں تحریف معنوی سے محفوظ رکھا۔ تیسرے متکلّمین کے ذریعہ سے جنہوں نے قرآنی تعلیمات کو عقل کے ساتھ تطبیق دے کر خدا کی پاک کلام کو کوتہ اندیش فلسفیوں کے استخفاف سے بچایا ہے۔ چوتھے رُوحانی انعام پانے والوں کے ذریعہ سے جنہوں نے خدا کی پاک کلام کو ہر ایک زمانہ میں معجزات اور معارف کے منکروں کے حملہ سے بچایا ہے۔’’

(ایام الصلح،روحانی خزائن جلد14صفحہ288)

چنانچہ گذشتہ چودہ سو سال میں یہ پیشگوئی پوری شان سے پوری ہوئی اور لاکھوں حفاظ ہر زمانہ میں پیدا ہوکر حفاظت قرآن کے سامان کرتے رہے۔اسی طرح اس کے معنوں کی حفاظت کے لیے بھی خلفاء ومجددین اور اولیاء و علماء پیدا ہوتے رہے۔قرآن کریم آج بھی دنیا کی ایسی واحد کتاب ہے جو لفظا ًلفظاً خدائی کلام ہے اوردیگر الہامی کتب کے مقابل پر انسانی دست برد سے کلیةًمحفوظ ہے اور آج روئے زمین سے خدانخواستہ کسی ہولناک تباہی کے نتیجہ میں دنیا کی ساری کتابیں تو ضائع ہوسکتی ہیں مگرصرف قرآن ایک ایسی کتاب ہے جو سینوں میں تاقیامت محفوظ ہوگی یہ ایک عظیم الشان معجزہ ہے۔ایسا محض مذکورہ خدائی وعدۂ حفاظت کی بدولت ہی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی حفاظت کا مختلف ذرائع سے جوبندوبست کیا۔ان میں ایک ذریعہ حفظ قرآن کا ہے جس کےلیے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر ایک خاص انعام یہ کیا کہ انہیں غیر معمولی حافظے عطا فرمائے تاکہ قرآن کریم اہل علم کے سینوں میں تاقیامت محفوظ رہے۔قتادہؒ فرماتے ہیں:

أُعْطِيَتْ هَذِهِ الأُمَّةُ الْحِفْظَ، وَكَانَ مَنْ قَبْلَنَا لَا يَقْرَءُونَ كِتَابَهُمْ إِلَّا نَظَرًا، فَإِذَا أَطْبَقُوهُ لَمْ يَحْفَظْ مَا فِيهِ إِلَّا النَّبِيُّونَ

(تفسير يحي بن سلام(متوفی:200ھ)جزء2صفحہ635)

حفظ(کتاب)صرف اسی امت محمدیہ ہی کو عطا ہوا ہے اور امم سابقہ اپنی کتاب کو صرف ناظرہ ہی پڑھاکرتی تھیں اور جب کتاب کو بندکردیاکرتیں تو سوائے انبیاء کے اور کسی کو بھی اس کتاب کے مضامین مستحضر نہ ہوتے تھے۔

حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ فرماتے ہیں کہ

‘‘قرآن شریف کی حفاظت کا جو وعدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وہ توریت یا کسی اور کتاب کے لیے نہیں ہے۔’’

(الحکم17؍نومبر1905ء)

حفظ کرواناقرآن کے محفوظ کرنے اوراس کی حفاظت کا ایک عظیم الشان ذریعہ اور معجزہ ہے۔خود قرآن شریف نے اس طرف توجہ دلائی۔چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ

(القمر :18)

اس آیت میں لفظ لِلذِّكْر میں قرآن کریم کو حفظ کی خاطر آسان بنادیے جانے کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے۔خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ پس کیاکوئی ہے جو اسے یاد کرنے والاہو۔

علامہ فخر الدین الرازی(متوفی606ھ)نے اس آیت کی تفسیر میں ‘‘ذکر’’ کے پہلے معنی حفظ کے ہی کیے ہیں پھر نصیحت کے۔چنانچہ لکھتے ہیں:

‘‘قَالَ اللّٰہ تَعَالیٰ: وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ وَفِيْهِ وُجُوهٌ : الْأَوَّلُ : لِلْحِفْظِ فَيُمْكِنُ حِفْظُهُ وَيَسْهُلُ۔۔۔وَ قَوْلُہُ تَعَالیٰ: فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ أَيْ هَلْ مَنْ يَحْفِظ وَيَتْلُوْهُ’’

(مفاتيح الغيب التفسير الكبيرللرازیجزء29صفحہ300)

یعنی ذکر کے ایک معنی حفظ/یاد کرنےکے بھی ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے اس قرآن کو حفظ کی خاطر آسان بنایا اور مدکرسے مراد یہ ہے کہ کوئی ہے جو اسے حفظ/یاد کرے اور اس کی تلاوت کرے۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:

‘‘اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو اپنے خاص تصرف سے ایسے الفاظ اور ایسی ترتیب سے نازل فرمایا ہے کہ وہ سہولت سے حفظ ہوجاتا ہے۔’’

(تفسیر کبیر جلد چہارم صفحہ18)

ایک اور جگہ فرمایا کہ

‘‘عام طور پر یورپین مصنف اپنی ناواقفی کی وجہ سے یہ خیال کرلیتے ہیں کہ جبکہ دنیا میں بائبل کا کوئی حافظ نہیں ملتا تو قرآن شریف کا کوئی حافظ کہاں ہوسکتا ہے حالانکہ قرآن کریم کا یہ معجزہ ہے کہ وہ ایسی سریلی زبان میں نازل ہوا کہ اس کا حفظ کرنا نہایت ہی آسان ہے۔میرا بڑا لڑکا ناصر احمد(حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ۔ناقل)جو آکسفورڈ کا بی اے آنرز اور ایم اے ہے۔میں نے اسے دنیاوی تعلیم سے پہلے قرآن کریم کے حفظ پر لگایا اور وہ سارے قرآن کا حافظ ہے۔’’

(دیباچہ تفسیر القرآن صفحہ277)

خدا تعالیٰ کی ایک صفت میں مشارکت

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:


صِبْغَةَ اللّٰهِ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ صِبْغَةً(البقرة :139)


کہ اللہ کا رنگ پکڑو اور رنگ مىں اللہ سے بہتر اور کون ہو سکتا ہے۔یعنی اللہ کی صفات میں مشابہت اختیار کرو۔

حفظ قرآن کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ اس سے انسان اللہ تعالیٰ کی صفت میں مشارکت پیدا کرلیتا ہے کیونکہ سورة الحجرآیت10میں اللہ تعالیٰ نے خود اپنی ایک صفت‘‘حافظ قرآن’’ہونا بیان کی ہے۔اس لحاظ سے حفظ قرآن اہم واجبات دین میں سے ہے اور اس طرح حافظ قرآن اللہ کی صفت حافظ میں مشارکت کی وجہ سے برکت حاصل کرتا ہے۔

اتباع سنت رسولﷺ

رسول اللہﷺ نے سب سے بڑھ کر الٰہی صفات کو اختیار کیا۔آپﷺ قرآن کریم کے حافظ بھی تھے۔ اس پہلو سےحفظ قرآن سنت بھی ہے۔چنانچہ حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ‘‘جبرئیلؑ رسول اللہﷺ کو ہر سال ایک بار قرآن مجید سناتے اورسنتے، لیکن جس سال آپؐ کی وفات ہوئی اس سال جبرئیلؑ نے دو بار قرآن مجیدکا دورمکمل کیا۔

(بخاری کتاب فضائل القرآن باب بَابُ كَانَ جِبْرِيلُ يَعْرِضُ القُرْآنَ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ)

رمضان المبارک میں ہررات جبرئیلؑ رسول اللہﷺکے پاس تشریف لاتے اورقرآن کریم کے نازل شدہ حصوں کا دور کیا کرتے۔

(بخاری کتاب فضائل القرآن بَابُ كَانَ جِبْرِيلُ يَعْرِضُ القُرْآنَ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ)

چنانچہ اسوۂ رسولؐ پر عمل کرتے ہوئے رمضان المبارک کے بابرکت ایام میں دومرتبہ یاکم ازکم ایک مرتبہ قرآن کریم کا دور ضرور مکمل کرنا چاہیے۔حفظ قرآن سنت رسولؐ کی پیروی میں بھی باعث برکت و سعادت ہے۔

عہد نبویؐ میں حفظ قرآن کا اہتمام

قرآن کریم آنحضرتﷺ پر23سالوں میں وقفہ وقفہ سے نازل ہوا اور یہ وہ زمانہ تھا کہ قرآن کریم کتابی صورت میں نہیں بلکہ سینوں میں محفوظ ہورہا تھا۔جب قرآن کریم آپؐ پر نازل ہوتا تو نہ صرف آپؐ خود اسے حفظ فرماتے بلکہ آپؐ کاتبین وحی (جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے)کو بلواتے اور قرآن کریم لکھواتےاور پھر اپنی مجالس میں بھی ان نازل شدہ آیات کو پڑھ کر سناتے تاکہ سب تک خدا کا کلام پہنچ جائے۔ایسے حالات میں کبار صحابہ جن میں حضرت ابوبکرؓ،حضرت عمرؓ،حضرت عثمانؓ،حضرت علیؓ وغیرہ بھی شامل تھے قرآن کریم کے اس نازل شدہ حصوں کو حفظ کرتے تھے۔

عربوں میں لکھنے پڑھنے کا رواج کم اور حفظ کرنے کا زیادہ تھا۔ان کو سینکڑوں اشعار بر نوک زبان ہوتے تھے بلکہ اعلیٰ نسل کے گھوڑوں کے نسب نامے تک یاد ہوتے تھے۔لہذا وہ اپنی اس عادت کے مطابق قرآن مجید کو جلدیاد کر لیتے تھے۔ان کا حافظہ بلا کا تھا۔اس لیےخلفائے راشدین کے علاوہ حضرت معاذ بن جبلؓ،حضرت ابیؓ بن کعب،حضرت زید بن ثابتؓ،حضرت عبادہ بن صامتؓ،حضرت عبداللہ بن مسعودؓ،حضرت تمیم ؓبن اوس داری،حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ،حضرت عقبہ بن عامرؓ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ،حضرت ابودرداءؓ،حضرت طلحہ بن عبید اللہؓ،حضرت زبیر بن عوامؓ،حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ،حضرت حذیفہ بن یمانؓ،حضرت عبداللہ بن عباسؓ،حضرت قتادہ بن نعمانؓ وغیرہ کے حافظ قرآن ہونے کا ذکر ملتا ہے۔مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ باقی صحابہ حفاظ نہ تھے۔دراصل اس زمانہ میں حافظ کے لیے قاری یا صاحب قرآن کا لفظ استعمال ہوتا تھا۔4ھ میں بئر معونہ میں شہید ہونے والے ستر صحابہ حفاظ قرآن تھے۔حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم انہیں ‘‘قراء’’کہہ کرپکاراکرتے تھے۔

(بخاری کتاب الجھاد والسیربَابُ العَوْنِ بِالْمَدَدِ)

اسی طرح رسول اللہﷺکی حفظ قرآن کی تحریک کے نتیجہ میں تمام صحابہ کرامؓ جو حفظ کی اہلیت رکھتے تھے حفظ کی کوشش کیا کرتے تھے اور سورة المزمل کی آیات نمبر3تا5 پر عمل کرتے ہوئےنماز تہجد اور نوافل میں قرآن کا دور کیا کرتے تھے۔اس کے نتیجہ میں حفاظ کی اتنی کثرت ہوگئی کہ آپﷺ کی وفات کے معاً بعد جنگ یمامہ میں تیرہ ہزار کے لشکر میں تین ہزار حفاظ قرآن تھے اور شہید ہو نے والے مسلمانوں میں سے سات سو قراء و حفاظ تھے ۔اور بعض کے نزدیک اس سے بھی زیادہ تھے۔

(عمدہ القاری شرح البخاری للعینی(متوفی 855ھ)جلد 20صفحہ 16)

صحابہ کرامؓ نہ صرف خودقرآن کریم حفظ کرتے تھے بلکہ اپنے بچوں کو بھی کرواتے تھے۔اس زمانہ کی بنیادی تعلیم ہی حفظ قرآن و تعلیم حدیث تھی۔اہل بیت رسولﷺمیں سے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا قرآن کریم کی حافظہ تھیں۔حضرت علیؓ کے بارہ میں لکھا ہے کہ آپؓ حافظ قرآن تھے اور بکثرت تلاوت کیا کرتے تھے۔(معرفة القراء الكبار على الطبقات والأعصار صفحہ 13)حضرت امام حسینؓ خود حافظ قرآن تھے۔آپؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:‘‘قرآن کا باعمل حافظ قیامت کے روز اہل جنت کا سردار ہوگا۔’’

(المعجم الکبیر للطبرانی باب الحاء،الحسین بن علی)

ازواج مطہرات میں سے حضرت عائشہؓ،حضرت حفصہؓ، حضرت ام سلمہ ؓوغیرہ حافظہ قرآن تھیں۔(الاتقان فی علوم القرآن للسیوطی جزء1صفحہ249)اورتعلیم قرآن کےلیے حفظ کی طرز پردرس و تدریس اپنے ماحول میں دیاکرتی تھیں۔

حفظ قرآن کی فضیلت و برکات

صحابہ کرامؓ میں قرآن کریم حفظ کرنےکا یہ شوق اور رجحان خدا تعالیٰ اورآنحضرتﷺکی تعلیمات کی روشنی میں پیدا ہوا جن میں حفظ قرآن کی اہمیت ،فضائل و برکات اور درجات کا تذکرہ ہے۔اللہ تعالیٰ نے حفاظ قرآن کریم کو بہت فضیلت سے نوازا ہے اوررسول اللہﷺ نے مختلف احادیث مبارکہ میں حفاظ کے بیسیوں اعزازات و امتیازات بیان فرمائےہیں۔

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:

لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعة :80)

کوئى اسے چُھو نہىں سکتا سوائے پاک کئے ہوئے لوگوں کے۔

یہ آیت حفظ قرآن کی فضیلت و برکت بیان کرتی ہے کہ قرآن پاک کی اس پاکیزہ تعلیم کو صرف پاک لوگ ہی اپنے پاکیزہ حافظہ میں سموسکتے ہیں۔پس ایسا دماغ جس نے اس پاک کلام کو سمجھا،ایسے کان جنہوں نے اس پاک کلام کو سنا،ایسی آنکھیں جنہوں نے اس پاک کلام کو دیکھا،ایسی زبان جس نے اس پاک کلام کو پڑھا اور ایسا دل جس نے اس پاک کلام کی طرف توجہ کی غرضیکہ ایسا جسم جو پاکیزہ قرآنی تعلیم کے مطابق ڈھل چکا ہو اور اس پرعمل کرنےوالا ہو،کائنات میں سب سے زیادہ پاکیزہ اورخیر و فضیلت کا مصداق ہے۔
اسی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خوشخبری عطا کی ہے۔چنانچہ حدیث قدسی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
‘‘اللہ تبارک و تعالیٰ نے زمین و آسمان پیدا کرنے سے ایک ہزار سال قبل سورة طہ اور سورة یٰس پڑھی تو فرشتوں نے سن کر کہا کہ ‘‘اس امت کے لیے بشارت ہوجس پر یہ سورتیں نازل ہوں گی اور خوشخبری ہو ان سینوں کے لیے جو اس کلام کو یاد کریں گے اور مبارک ہو ان زبانوں کے لیے جو اس کی تلاوت کیا کریں گی۔’’

(سنن الدارمی کتاب فضائل القرآن باب فی فضل سورة طہ و یٰس)

قرآن پاک مسلمانوں کے لیے اﷲتعالیٰ کی طرف سے نعمت خاص ہےجس کی جتنی بھی قدر کی جائے کم ہے۔ رسول اللہﷺ نےفرمایا:

خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ القُرْآنَ وَعَلَّمَهُ

(بخاری کتاب فضائل القرآن باب خیرکم من تعلم القرآن)

یعنی تم میں سےبہترین شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔

علامہ ابن حجر (متوفی:852ھ)لکھتے ہیں:

‘‘ قرآن پاک کو سیکھنے اور سکھانے والا دو صفات وکمالات کا حامل ہوجاتا ہے۔ ایک تو وہ خود قرآن کریم سے نفع حاصل کرتا ہے پھر دوسروں کو اخلاص کے ساتھ نفع تقسیم کرتا ہے، اسی بناء پر اسے بہتر و اعلیٰ اور افضل قرار دیا گیا ہے۔’’

(فتح الباری لابن حجر جزء9صفحہ76)

علامہ شرف الدین طیبی(متوفی:743ھ) لکھتے ہیں:

‘‘کلام الٰہی بہترین کلام ہے اس لیے قرآن کریم سیکھنے اور سکھانے والے حضرات انبیاء کے بعد سب سے بہتر لوگ ہیں بشرطیکہ یہ تعلیم وتدریس اخلاص پر مبنی ہو ،اور جوان دونوں امور میں مخلص ہوگا اوربااخلاق ہوگا وہ نبیوں اور صدیقوں کے زمرہ میں داخل ہوگا۔’’

(شرح الطيبي على مشكاة المصابيح المسمی ب(الكاشف عن حقائق السنن) جزء5 صفحہ1634)

پھررسول اللہﷺ نے ساری امت کو قرآن کریم کا کچھ نہ کچھ حصہ حفظ کرنے کی تحریص دلاتے ہوئے فرمایا کہ

إِنَّ الرَّجُلَ الَّذِي لَيْسَ فِي جَوْفِهِ شَيْءٌ مِنَ القُرْآنِ، كَالْبَيْتِ الْخَرِبِ۔(مسند احمد جزء3صفحہ417)

یقیناً وہ شخص جس نے قرآن کریم کا کوئی حصہ بھی حفظ نہیں کیا وہ ویران گھر کی طرح ہے۔

نیزفرمایا کہ ‘‘جس نے ایک رات میں قرآن کریم کی پچاس آیات تلاوت کیں۔اس کا شمارحفاظ قرآن میں ہوگا۔’’

(سنن الدارمی کتاب فضائل القرآن باب من قرأ خمسین آیة)

حفظ قرآن موجب خشیت الٰہی و عاجزی

حفظ قرآن ایسی روحانی سعادت ہے جس کے مد مقابل تمام سعادتیں ثانوی درجہ رکھتی ہیں۔ حافظ قرآن پر تعلق باللہ کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور اُس کا اپنے مولیٰ سے خصوصی قرب کا تعلق قائم ہو جاتا ہے۔حفظ قرآن کے نتیجہ میں خشیت الٰہی پیدا ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں اللہ کے لطف و کرم،انوار و تجلیات اور خاص روحانی برکات کا نزول حافظ قرآن پر ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

لَوۡ اَنۡزَلۡنَا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیۡتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنۡ خَشۡیَۃِ اللّٰہِ ؕ وَ تِلۡکَ الۡاَمۡثَالُ نَضۡرِبُہَا لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمۡ یَتَفَکَّرُوۡنَ
(الحشر :22)

اگر ہم نے اِس قرآن کو کسى پہاڑ پر اتارا ہوتا تو تُو ضرور دىکھتا کہ وہ اللہ کے خوف سے عجز اختىار کرتے ہوئے ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا اور ىہ تمثىلات ہىں جو ہم لوگوں کے لئے بىان کرتے ہىں تاکہ وہ تفکّر کرىں ۔
قرآن کریم ایسی جلیل الشان شریعت ہے کہ اس کو پہاڑ بھی اٹھانے کے متحمل نہ تھے لیکن مسلمانوں کو یہ استطاعت اللہ تعالیٰ کے فضل اور رسول اللہﷺ کے فیضان سے عطا ہوئی۔چنانچہ حفظ قرآن کی ایک برکت یہ ہے کہ اس سے انسان میں خشیت الٰہی،خداخوفی پیدا ہوجاتی ہےاورعاجزی و انکساری میں اضافہ ہوتا ہے۔

حفظ قرآن موجب ثبات قلب اور تقویت ایمان

حفظ قرآن کی ایک اوربرکت یہ ہے کہ یہ ثبات قلب اور تقویت ایمان کا بھی موجب ہوتا ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَوۡ لَا نُزِّلَ عَلَیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ جُمۡلَۃً وَّاحِدَۃً ۚۛ کَذٰلِکَ ۚۛ لِنُثَبِّتَ بِہٖ فُؤَادَکَ وَ رَتَّلۡنٰہُ تَرۡتِیۡلًا
(الفرقان :33)

اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کىا وہ کہىں گے کہ اس پر قرآن ىک دفعہ کىوں نہ اُتارا گىا اسى طرح (اُتارا جانا تھا) تاکہ ہم اس کے ذرىعہ تىرے دل کو ثبات عطا کرىں اور (اسى طرح) ہم نے اسے بہت مستحکم اور سلىس بناىا ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن کے تدریجی نزول سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنین کے لیے آسانی اور ثبات قلب کا موقع بہم پہنچایا۔چنانچہ تدریجی نزول سے ایک طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ تعالیٰ سے مضبوط سے مضبوط ترتعلق قائم ہوتا گیا تو دوسری طرف صحابہ ؓ کے آپؐ سے اور اللہ سے تعلق میں پختگی پیدا ہوئی اور وہ اپنے ایمان میں ترقی کرتے چلے گئے۔پھر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ایسا مستحکم اور سلیس بنایا کہ اسے حفظ کرنے والوں کے لیے آسانی ہو ئی اور ان کا دل حفظ قرآن میں مشغول رہا۔چنانچہ حافظ قرآن بھی ان سب برکات سے حصہ پاتے ہیں اور حفظ کی برکت سے ان کے دلوں کو ثبات اورایمان میں تقویت عطا ہوتی ہے۔

حفظ قرآن بہتر اخلاق اوربہتر دینداری کا موجب

حفظ قرآن کی ایک بڑی برکت یہ ہے کہ اس سے انسان بااخلاق اوربہتر دیندار بن جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں رسول اللہﷺ کو مخاطب کرکے فرماتا ہے:

وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ (القلم:5)

اور ىقىناً تو بہت بڑے خُلق پر فائز ہے۔

حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا :

إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَكَارِمَ الْأَخْلَاقِ

کہ مجھے تو اعلیٰ اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گیا ہے۔

( السنن الكبرىٰ للبيهقي جزء10صفحہ 323)

حضرت سعد بن ہشامؓ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عائشہؓ کے پاس گیا اور عرض کی کہ اے ام المومنینؓ! مجھے آنحضرتﷺ کے اخلاق کے بارہ میں کچھ بتائیں ۔ انہوں نے فرمایا کَانَ خُلُقُہٗ الْقُرْآنَ۔ آپ کے اخلاق قرآن کے عین مطابق تھے۔ کیاآپ قرآن نہیں پڑھتے۔ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے متعلق فرمایا ہے:

وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ(القلم:5)

(مسند احمد بن حنبل ۔ باقی مسند الانصار۔ حدیث نمبر 24460)

رسول اللہﷺقرآن کریم کے حافظ ہونے کے ساتھ اس پر سب سے بڑھ کر عمل کرنے والے تھے۔جس کی وجہ سے آپﷺ خلق عظیم پر فائز ہوئے۔پس قرآن کریم حفظ کرانے کا ایک مقصد بہتر دینداری اور قرآن شریف پر عمل کے لیے سہولت پیدا کرناہے تاکہ ایک حافظ قرآن دوسروں سے بڑھ کر احکام قرآنی کو یاد رکھنے والا اوراس کےاحکام بجالانے والا ہواورجب وہ ایسا کرے گا تو ایک بااخلاق اور دیندار شخصیت کا حامل بن جائے گا۔

رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ‘‘حامل قرآن کے لیے ہرگز مناسب نہیں کہ اس کے سینے میں اللہ تعالیٰ کا کلام ہو اور وہ کسی بات پر غصہ کرے یا پھر جاہلوں کے ساتھ جہالت سے پیش آئے۔’’(مستدرک حاکم جزء1صفحہ738)
علامہ قرطبی حامل قرآن سے مراد صرف حفاظ قرآن ہی نہیں لیتے بلکہ آپ فرماتے ہیں:

وَحَمَلَةُ الْقُرْآنِ هُمُ الْعَالِمُونَ بِأَحْكَامِهِ، وَحَلَالِهِ وَحَرَامِهِ، وَالْعَامِلُونَ بِمَا فِيهِ

(الجامع لاحکام القرآن،تفسير القرطبي جزء1صفحہ26)

حامل قرآن سے مراد وہ لوگ بھی ہیں جو قرآن کریم کے احکام،اس میں بیان کردہ حلال و حرام کا علم رکھنے والے اورجو اس میں بیان ہوا ہے اس پر عمل کرنے والے ہیں۔

حفظ قرآن،موجب ازالہ ہموم و غموم

حفظ قرآن کی ایک برکت یہ ہے کہ انسان دنیاوی ہموم وغموم سے امن میں آجاتا ہے اوردکھ میں مبتلا نہیں ہوتا جیساکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے :

مَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَى (طه :3)

ہم نے تجھ پر قرآن اس لئے نہىں اُتارا کہ تُو دکھ مىں مبتلا ہو ۔

اسی طرح فرمایا:

أَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (الرعد :29)

کہ سنو! اللہ ہى کے ذکر سے دل اطمىنان پکڑتے ہىں۔

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:‘‘…جو لوگ اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں جمع ہو کر اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ اس کا تکرار کرتے (یعنی درس دیتے) ہیں تو ان پر (اللہ کی طرف سے)سکینت (تسکین و رحمت) نازل ہوتی ہے، رحمت انھیں ڈھانک لیتی ہے، فرشتے انھیں گھیر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان فرشتوں میں ان کا ذکر فرماتا ہے جو اس کے پاس ہوتے ہیں۔ ’’

(صحیح مسلم، کتاب الذکروالدعاء، باب فضل الاجتماع علی تلاوۃ القرآن )

پس اگر کوئی نامعلوم غم اور فکر میں مبتلاہو جائے تو وہ قرآن کریم کی تلاوت اخلاص سےشروع کردےتو اللہ تعالیٰ کے فضل سےاس کےغم وفکر دفعتاً زائل ہو جائیں گے اور سکینت عطا ہوگی۔

علوم نبوّت سے فیضیابی

رسول اللہﷺ نے قرآن کریم حفظ کرنے والوں کے بہت فضائل بیان فرمائے۔جن میں سے ایک فضیلت علوم نبوت سے حصہ پانا بھی ہے۔اللہ تعالیٰ نے سورة الجمعة آیت 3میں نبی کے چار کام بیان کیے ہیں جن میں سے ایک ‘‘وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ’’(الجمعة: 3)یعنی کتاب (قرآن) کی تعلیم دیناہے۔پس قرآن کریم کی تعلیم پانے والااورسکھانےوالا رسول اللہﷺکے فیضان کی برکت سےعلم نبوت میں سے حصہ پاتا ہے۔چنانچہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:‘‘جس شخص نے قرآن کریم پڑھا تو اس نے گویا نبوت کو اپنے دونوں پہلوؤں کے درمیان رکھ لیا،فرق صرف یہ ہے کہ قرآن کریم اس پر وحی کے ذریعہ نازل نہیں کیا گیا۔’’

(شعب الایمان للبیھقی جزء 4صفحہ177)

نیز باعمل حافظ قرآن کا مقام ومرتبہ بیان کرتے ہوئےآپؐ نے حفاظ قرآن کو اپنا،اپنے صحابہ کا اور سابقہ انبیاء کا جانشین قرار دیا۔(کنز العمال جزء 10صفحہ151)

حافظ قرآن ،اہل علم

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں حفظ قرآن کی فضیلت بیان کرتے ہوئےفرماتا ہے:

بَلْ هُوَ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ

(العنْكبوت:50)

کہ ىہ وہ کھلى کھلى آىات ہىں جو اُن کے سىنوں مىں (درج) ہىں جن کو علم دىا گىا۔

اس آیت میں‘‘الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ’’سے مراد مفسرین نے رسول اللہ ﷺ اور مومنین بھی مراد لیے ہیں۔(تفسیر یحی بن سلام جزء2صفحہ635)اس آیت کے مطابق اللہ تعالیٰ نے مومنین حفاظ کرام کو اہل علم قرار دیا ہے کیونکہ قرآن کریم تمام علوم و فنون کا منبع و مبدء ہے۔اس میں ہر چیز کی وضاحت موجود ہے جیساکہ فرمایا:

تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى (النحل :90)

پس جو مومنین قرآن کریم کے حافظ ہیں اور اس کےمعانی ومفاہیم کو سمجھ کراس پر عمل کرنے والےہیں ،ان کواس کا علم دیاگیا ہے۔چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

‘‘ایک اور آیت بھی بین قرینہ ہے اورؔ وہ یہ ہے

بَلْ هُوَ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ(العنْكبوت : 50)

یعنی قرآن آیات بینات ہیں جو اہل علم کے سینوں میں ہیں۔ پس ظاہر ہے کہ اس آیت کے یہی معنی ہیں کہ مومنوں کو قرآن کریم کا علم اور نیز اس پر عمل عطا کیا گیا ہے۔’’


(شہادت القرآن ،روحانی خزائن جلد6صفحہ350)

نیز حفظ کی برکت سے انسان روحانی علوم سے تو فیضیاب ہوتا ہی ہے لیکن علوم دنیوی سے بھی بہرہ ور ہوجاتا ہے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ (الأَنعام:39)

کہ ہم نے کتاب مىں کوئى چىز بھى نظر انداز نہىں کى۔چنانچہ علامہ مرسی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ

‘‘ قرآن تمام علوم اولین و آخرین کا جامع ہے،درحقیقت قرآن میں موجودعلم کا کوئی احاطہ ہی نہیں کرسکتاسوائے اس ذات کے جس نے یہ کلام نازل کیا۔اس کا جوعلم اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولﷺ کو سکھایا اس کے وارث عظیم باسعادت صحابہ کرام ہوئے جن میں خلفائے راشدین ،حضرت ابن مسعودؓ اورحضرت ابن عباس وغیرہ شامل ہیں۔حبر الامت حضرت عبد اللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں

لَوْ ضَاعَ لِي عِقَالُ بَعِيرٍ لَوَجَدْتُهُ فِي كِتَابِ اللّٰهِ تَعَالَى

یعنی میرے اُونٹ کی رسی بھی گم ہو جائے تو قرآن کے ذریعے تلاش کر لیتا ہوں۔’’

(الاتقان فی علوم القرآن جزء4صفحہ31)

غرضیکہ ہر مادی و غیرمادی چیز کا علم قرآن میں موجود ہے اورانسان کی نجی زندگی سے لے کر اقوام عالم کے باہمی تعلقات تک کے بارےمیں احکام وتعلیمات اور اصولی رہ نمائی اس میں موجود ہے اور حافظ قرآن اپنی استعداد اور محنت سےان سب تعلیمات سے فیضیاب ہوسکتا ہے۔

حفظ قرآن سےعلم لسان عربی سے شناسائی کے ساتھ علم تاریخ سے بھی واقفیت حاصل ہوجاتی ہے جیساکہ فرمایا کہ

نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ هَذَا الْقُرْآنَ وَإِنْ كُنْتَ مِنْ قَبْلِهِ لَمِنَ الْغَافِلِينَ(يوسف :4)

ہم نے جو ىہ قرآن تجھ پر وحى کىا اس کے ذرىعہ ہم تىرے سامنے ثابت شدہ تارىخى حقائق مىں سے بہترىن بىان کرتے ہىں جبکہ اس سے پہلے (اس بارہ مىں) تُو غافلوں مىں سے تھا۔

پھرفلسفہ،سائنس،علم ہئیت،علم المیقات،علم الفرائض، علم المیراث،علم النحو،علم التفسیر،علم الاصول،علم الکلام،علم الفقہ،علم تعبیر الرؤیا، علم المعانی، علم البیان، علم البدیع، علم تصوف، علم طب، علم ہندسہ، جغرافیہ، علم جدل، علم نجوم، علم مناظرہ وغیرہ بھی ان علوم میں سے ہیں جنہیں حفظ قرآن کے بعد غور و فکر سے انسان سیکھ سکتا ہے۔

حفظ قرآن موجب ازدیاد عقل و فراست

اللہ تعالیٰ نے انسانی قویٰ کی تخلیق اس طرز پر کی ہے کہ جس عضو کو زیادہ استعمال کیا جائے اس میں طاقت اور بڑھتی ہے۔قرآن کریم کے حفظ کی ایک برکت یہ ہے کہ اسے حفظ کرنے سے دماغ میں اور قوت حافظہ میں غیر معمولی اضافہ ہوتا ہے اور عقل و فراست کے ازدیاد کا موجب بنتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:

إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ (يوسف :3)

ىقىناً ہم نے اسے عربى قرآن کے طور پر نازل کىا تاکہ تم عقل کرو ۔

حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

‘‘تمامؔ قویٰ انسانیہ کا قیام اور بقا محنت اور ورزش پر ہی موقوف ہے۔ اگر انسان ہمیشہ آنکھ بند رکھے اور کبھی اس سے دیکھنے کا کام نہ لے(تو جیسا کہ تجارب طِبّیہ سے ثابت ہوگیا ہے) تھوڑے ہی دنوں کے بعد اندھا ہوجائے گا اور اگر کان بند رکھے تو بہرہ ہوجائے گا۔ اور اگرؔ ہاتھ پاؤں حرکت سے بند رکھے تو آخر یہ نتیجہ ہوگا کہ ان میں نہ حس باقی رہے گی اور نہ حرکت۔ اسی طرح اگر قوت حافظہ سے کبھی کام نہ لے تو حافظہ میں فتور پڑے گا۔ اور اگر قوتِ متفکرہ کو بیکار چھوڑ دے تو وہ بھی گھٹتے گھٹتے کالعدم ہوجائے گی۔ سو یہ اس کا فضل و کرم ہے کہ اس نے بندؔوں کو اس طریقہ پر چلانا چاہا جس پر ان کی قوت نظریہ کا کمال موقوف ہے۔’’

(براہین احمدیہ ،روحانی خزائن جلد اول صفحہ 507تا510)

پس حفظ قرآن کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ حافظ قرآن کوایک خارق عادت برکت عطا کرتاہے اور نور فراست عطا کردیتاہے جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کو نمایاں دینی و دنیاوی خدمات کی توفیق عطا ہوتی ہے۔تاریخ اسلام میں بہت سےحفاظ کی بڑی بڑی دینی و دنیاوی خدمات ہیں۔معروف مؤرخ ابن خلدون جو سوشل سائنس کے بانی سمجھے جاتے ہیں حافظ قرآن تھے۔مشہور فارسی شاعر حافظ نے بھی قرآن کریم حفظ کیا تھا۔مشہور عالم اور محدث علامہ سیوطی بھی حافظ قرآن تھے۔مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر نے بھی قرآن کریم حفظ کیا۔ترکی سیاستدان مروے کاوکچی،ترکی کا وزیر داخلہ اورشاعر اور صحافی احمد کمال بک،صومالی قومی لیڈر محمد عبد اللہ حسن،مصری مفکر اور مصنف ڈاکٹر طہ حسین وغیرہ بھی قرآن کریم کے حافظ تھے۔ اورایسے بے شمار حافظ قرآن ہیں جنہوں نے دین و دنیا کے میدان میں کارہائے نمایاں سر انجام دیے۔

حفظ قرآن باعث شرف وعزت

احادیث رسولﷺ میں حفظ قرآن کےبے شمارفضائل بیان ہوئے ہیں۔جن میں سےایک فضیلت یہ ہے کہ اس سے انسان کو شرف و عزت عطا ہوتی ہے۔چنانچہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ

‘‘ أَشْرَافُ أُمَّتِي حَمَلَةُ الْقُرْآنِ وَأَصْحَابُ اللَّيْلِ’’

(شعب الایمان للبیھقی جزء4صفحہ233)

یعنی میری امت کے معزز ترین لوگ حاملین قرآن اور رات کو عبادت کرنےوالے ہیں۔

نیزفرمایا کہ‘‘سفیدریش مسلمان کی تعظیم کرنا اﷲ تعالیٰ کے جلال و اکرام اور تعظیم کا ایک حصہ ہے، اور قرآن مجید کے عالم کی جو اس میں تجاوز کرتا ہو نہ اس (کی تعلیمات) سے پیچھے ہٹتا ہو (اس کی تعظیم کرنا بھی اللہ تعالیٰ کی تعظیم کا حصہ ہے)، اور اسی طرح عادل حکمران کی تعظیم کرنا (بھی تعظیم اِلٰہی کا ایک حصہ ہے)۔’’

(ابو داؤد کتاب الادب باب فی تنزیل الناس منازلھم)

سب سے زیادہ غنی حفاظ قرآن

حفظ قرآن کی دولت ایسی انمول دولت ہے جس کے سامنے ہر قیمتی چیز ہیچ ہے اوراسے کوئی چھین نہیں سکتا۔چنانچہ رسول اللہﷺ نے اس دولت کو سمیٹنے والے حافظ قرآن کے متعلق فرمایا کہ‘‘ لوگوں میں سے سب سے غنی حاملین قرآن یعنی حفاظ قرآن ہیں جن کے سینے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن محفوظ کردیا ہے۔’’

(کنزالعمال جلد2صفحہ293)

ایک اور جگہ فرمایا کہ ‘‘جس نے قرآن پڑھنے کے بعد کسی صاحب نعمت کو دیکھ کر یہ خیال کیا کہ اسے مجھ سے افضل نعمت عطا کی گئی ہے تواس نے اس نعمت کو عظیم سمجھا جسے اللہ نے ادنیٰ بنایا اور اس نعمت کو ادنیٰ گردانا جسے اللہ تعالیٰ نے عظیم قراردیاہے۔’’

(کنزالعمال جلد1صفحہ525)

مستجاب الدعوات

حفظ قرآن کی ایک اہم برکت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ باعمل حافظ قرآن کی دعائیں قبول فرماتا ہے۔چنانچہ رسول اللہﷺفرماتے ہیں کہ‘‘ تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو قرآن کریم خود بھی پڑھتا ہے اور اسے پڑھاتا بھی ہےکیونکہ حامل قرآن جو دعائیں کرتا ہے وہ یقینا ًقبول کی جاتی ہیں۔’’

(شعب الایمان للبیھقیجزء2صفحہ405)

اولیاء اللہ

اللہ تعالیٰ باعمل حافظ قرآن سے محبت کرتا ہے اور اسے اپنا دوست سمجھتا ہے۔چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ حفاظ قرآن اولیاء اللہ یعنی اللہ کے دوست ہیں۔پس جس نے ان سے دشمنی کی اس نے اللہ سے دشمنی کی اور جس نے ان سے دوستی کی اس نے اللہ تعالیٰ سے دوستی کی۔

(کنزالعمال جزء1صفحہ515)

قابل رشک شخصیت

حفظ قرآن کی برکت یہ ہے کہ یہ انسان کو قابل رشک بنادیتا ہے۔ اس کی فضیلت و برکت کی وجہ سے لوگ خواہش کرتے ہیں کہ کاش وہ یا ان کی اولاد میں کوئی حافظ قرآن ہو۔رسول اللہﷺ کا بھی ارشاد ہے کہ ‘‘سوائے دو آدمیوں کے کسی پر رشک کرنا جائز نہیں۔ ایک وہ آدمی جسے اللہ نے قرآن عطا کیا (یعنی اسے حفظ کرنے کی توفیق دی) پس وہ اس کے ساتھ رات اور دن کی گھڑیوں میں قیام کرتا ہے (یعنی اللہ کی عبادت کرتا ہے) اور دوسرا وہ آدمی جسے اللہ نے مال و دولت سے نوازا تو وہ اسے (اللہ کی راہ میں ) رات اور دن کی گھڑیوں میں خرچ کرتا ہے۔ ’’

(صحیح بخاری کتاب فضائل القرآن بَابُ اغْتِبَاطِ صَاحِبِ القُرْآنِ)

حافظ قرآن اللہ کے سایہ کے نیچےہوگا

رسول اللہﷺ نےحفاظ قرآن کے دیگرمتعدد فضائل کے علاوہ درج ذیل پانچ فضائل بھی بیان فرمائے جن کا ذکر کرتے ہوئے علامہ قرطبی لکھتے ہیں کہ ‘‘قرآن کریم ہر ایک چیز سے افضل ہے۔پس جس نے قرآن کی عزت کی اس نے گویا اللہ کی عزت کی اور جس نے قرآن کی ناقدری کی اس نے اللہ کی ناقدری کی گویا کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے حق میں کمی کی۔1۔حاملین قرآن اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سائے میں ہیں2۔کلام اللہ کی عظمت قائم کرنےوالے ہیں،3۔نوراللہ میں ملبوس ہیں4۔جوان سے دوستی رکھتا ہے وہ اللہ تعالیٰ سےدوستی رکھتاہے اورجوان سے دشمنی کرتا ہے بے شک اس نےاللہ تعالیٰ کے حق کی ناقدری کی۔’’

(تفسیر القرطبی جزء 1 صفحہ26)

ہوش وحواس کھودینے والی عمر سے محفوظ

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جس نے قرآن حفظ کیا وہ ارذل العمریعنی ہوش وحواس کھودینے والی عمر سے محفوظ ہوجاتا ہے تاکہ وہ کسی چیز کے علم کے بعد بے علم نہ ہوجائے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا (التين :6-7)

فرمایا:

إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا

سے مراد

إِلَّا الَّذِينَ قَرَءُوا الْقُرْآنَ

ہیں یعنی قرآن کریم پڑھنے اور حفظ کرنےوالے۔

(مستدرک حاکم جزء2صفحہ576)

حفظ قرآن باعث اوّلیت وترجیح

حضرت ابو مسعود انصاری ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:‘‘لوگوں کی امامت وہ کروائے جو سب سے زیادہ قرآن پڑھنے والا ہو(یعنی قرآن کا علم زیادہ رکھنے والا ہو)۔(صحیح مسلم کتاب المساجد باب من احق بالامامة)اسی ارشاد کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی آمدِمدینہ سے قبل جب اولین مہاجرین قبا کے قریب عصبہ مقام پرآئے تو ان کی امامت سالم مولیٰ ابو حذیفہ کرواتے تھے کیونکہ آپ کو سب سے زیادہ قرآن مجید یاد تھا۔( بخاری کتاب الاذان باب امامة العبد و المولی) اسی طرح حضرت عمر بن سعدؓ کو ان کی قوم نے کم عمری کے باوجوداپنا امام بنالیا۔(بخاری کتاب المغازی باب 55)

رسول اللہﷺ نے نہ صرف حفاظ کرام کی زندگی میں ہی ان کی عزت کو قائم فرمایا بلکہ وفات کے موقع پر بھی اس کا خیال رکھا۔چنانچہ حضرت جابر بن عبد اﷲؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ شہداء اُحد میں سے دو، دو صحابہ کرام کو ایک کپڑے (کفن) میں جمع فرماتے اور پوچھتے کہ ان میں سے قرآن کس کو زیادہ یاد تھا؟ جب ان میں سے ایک کی طرف اشارہ کیا جاتا تو اسے قبر میں آگے کر دیتے اور فرماتے: میں قیامت کے دن ان سب پر گواہ ہوں گا۔

(بخاری کتاب فضائل القرآن باب خیرکم من تعلم القرآن و علمہ)

حفظ قرآن موجب بلندیٔ درجات

رسول اللہﷺ نے دنیاوی زندگی کے علاوہ اخروی زندگی میں بھی حفظ قرآن کی فضیلت و برکت کے بارہ میں اپنی امت کو آگاہ فرمایا۔آخرت میں حفظ قرآن کی بدولت جو برکات حاصل ہونگی ان میں سے ایک بلندیٔ درجات ہے۔چنانچہ رسول اللہﷺ فرماتے ہیں کہ

‘‘صاحب قرآن (قرآن پڑھنے اور اسے حفظ کرنے والے)سے (قیامت کے دن)کہا جائے گا کہ قرآن کریم پڑھتا جا اور (درجات)میں ترقی کرتا جا اور اس طرح آہستہ آہستہ عمدگی سےتلاوت کر جیسے تو دنیا میں ترتیل سے پڑھتا تھا پس تیرا مقام وہ ہو گا جہاں تیری آخری آیت کی تلاوت ختم ہو گی۔’’

(ترمذی ابواب فضائل القرآن باب 18)

علامہ ملا علی قاری کہتے ہیں کہ ‘‘یہاں صاحب قرآن سے مراد ایساحافظ قرآن مراد ہے جو تلاوت قرآن کریم کو اپنے پر لازم کرتا ہے اورقرآن کریم(کے احکامات) پر عمل کرتا ہے۔’’

(مرقاة المفاتیح شرح مشکوة المصابیح جزء 4 صفحہ 1469)

حافظ قرآن کے بلند درجہ کے بارہ میں ایک اور روایت حضرت ابوہریرہ ؓسے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے روز قرآن کو لایا جائے گا اور وہ کہے گا کہ اے میرے رب!اسے خلعتِ فاخرہ عطا فرما تو اس شخص(حافظ قرآن)کو عزت و کرامت کا تاج پہنایا جائے گا۔پھرقرآن کہےگاکہ اے میرے رب !اسے مزید عطاکرتو اسے بزرگی کا حلّہ پہنایاجائے گا۔پھر قرآن عرض کرے گا کہ اے میرے رب!تواس سے راضی ہوجا تو اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوجائے گا۔پھراس شخص(صاحب قرآن) سے کہاجائے گا کہ قرآن پڑھتے جاؤ اور(درجات) میں اوپربڑھتے جاؤ۔اورہر آیت پر ایک نیکی زیادہ کی جائے گی۔

(ترمذی، کتاب فضائل القرآن باب فیمن قرأ حرفا من القرآن)

باعمل حافظ کامقام و مرتبہ

حفظ قرآن کے فضائل میں سے ایک اور فضیلت یہ ہے کہ باعمل ماہر حافظ قرآن کو معززخاص فرشتوں کی معیت عطا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت کرتا ہے۔چنانچہ حضرت عائشہؓ سےروایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اس شخص کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے اور وہ حافظ ہے تو سفرہ کرام (معززبزرگ فرشتوں)کے ساتھ ہوگا اور اس شخص کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے اور وہ اس کو حفظ کرتا ہے اور حفظ کرنا اس پر دشوار ہوتا ہے تو اس کے لیے دو اجر ہیں۔

(بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورة النبأ آیت 18)

صحیح مسلم میں ‘‘وَهُوَ حَافِظٌ لَهُ’’کی بجائے‘‘الْمَاهِرُ بِالْقُرْآنِ’’ کے الفاظ ہیں۔

(مسلم کتاب صلاة المسافرین باب فضل الماھر فی القرآن)

باعمل حافظ قرآن کی مثال خوش ذائقہ اور خوشبودار پھل کی طرح ہوتی ہے۔

چنانچہ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:

‘‘قرآن کریم پڑھنے والے مومن کی مثال نارنگی کی سی ہے کہ جس کا مزہ بھی اچھا ہوتا ہے اور خوشبو بھی عمدہ ہوتی ہے اور اس مومن کی مثال جو قرآن کریم کی تلاوت نہیں کرتا وہ کھجور کی طرح ہے کہ اس کا مزہ تو اچھا ہے لیکن اس کی خوشبو نہیں ہوتی۔اور اس فاجر کی مثال جو قرآن کریم کی تلاوت کا عادی ہے گل ریحان کی طرح ہے جس کی خوشبو تو اچھی ہوتی ہے لیکن اس کا مزہ کڑوا ہوتا ہے۔اور اس فاجر کی مثال جو قرآن کریم نہیں پڑھتا حنظل کی طرح ہے جس میں مہک اور خوشبو بھی نہیں ہوتی اور اس کا مزہ بھی تلخ اور کڑوا ہوتا ہے۔’’

(ابو داؤد کتاب الأدب باب مَنْ يُؤْمَرُ أَنْ يُجَالَسَ)

حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

‘‘قرآن سیکھو اور اس کو پڑھو اور سو جاؤ (یعنی تمام رات نہ جاگو) اس لیے کہ قرآن کی مثال اور اس شخص کی مثال جس نے قرآن سیکھا پھر اس کو رات میں پڑھا اس تھیلی کی سی ہے جو کستوری سے بھری ہو۔ جس کی مہک ہر سو پھیل رہی ہو اور اس شخص کی مثال جس نے قرآن سیکھا اور سینے پر رکھ کر سو رہا اس تھیلی کی سی ہے جس کو کستوری سے بھر کر اوپر سے باندھ دیا گیا ہو۔

(ابن ماجہ کتاب السنة باب فی فضل من تعلم القرآن وعلمہ)

اسی طرح ایک فضیلت یہ ہے کہ حامل قرآن (باعمل حافظ قرآن)اسلام کے علم بردار ہوںگے۔اورجس نے ان کی عزت کی اس نے اللہ کی عزت کی اور جس نے ان کی اہانت کی کوشش کی تو اس پر اللہ عزوجل کی لعنت ہے۔’’

(فردوس الاخبار للدیلمی جزء 2صفحہ214زیر لفظ‘‘ح’’)

روزقیامت قرآن کی سفارش

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:

مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ (البقرة:256)

کون ہے جواس کے حضور شفاعت کرے مگر اس کے اذن کے ساتھ۔

روزقیامت اللہ تعالیٰ کے حضور قرآن کریم اذن الٰہی سے اپنے قاری کی سفارش کرے گا۔رسول اللہﷺ نے فرمایا:

اقْرَءُوا الْقُرْآنَ فَإِنَّهُ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ شَفِيعًا لِأَصْحَابِهِ

(مسلم کتاب صلاة المسافرین و قصرھا باب فضل قراءة القرآن)

قرآن پڑھا کرو،قیامت کے روز یہ تمہارا سفارشی بن کر آئے گا۔

حافظ قرآن،والدین کے لیے موجب برکت و مغفرت اور شفاعت

قرآ ن حفظ کروانا سنت رسولؐ ہے اور ایک نہایت نیک اور قابل تعریف عمل ہے جو رسول اللہ ﷺکے ارشادات کی روشنی میں نہ صرف حفظ کرنے والے کے لیے بلکہ اس کے والدین کے لیےبھی موجب برکت و مغفرت ہے جیسا کہ فرمایا :

‘‘جو شخص قرآن کریم پڑھے اور پھر اس کے احکام سیکھے نیز اس پر عمل بھی کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے والدین کو نور کا تاج پہنائے گا، اس کی روشنی سورج جیسی ہو گی، اس کے والدین کو دو ایسے لباس پہنائے جائیں گے کہ پوری دنیا بھی اس کے برابر نہ پہنچ سکے، تو والدین کہیں گے: پروردگار! یہ ہمیں کس کے عوض پہنایا گیا؟ تو انہیں کہا جائے گا: تمہارے بچوں کے قرآن سیکھنے کی وجہ سے۔

(مستدرک حاکم جزء1صفحہ756)

ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ

‘‘جس نے قرآن پڑھا اور اس پر عمل کیا۔قیامت والے دن اس کے والدین کو ایسا تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی اس سورج سے بھی زیادہ ہوگی جو دنیاوی گھروں کو روشن کرتا ہے اور اگر تمہارے پاس یہ سورج ہو اور اس کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے جو اس (قرآن کریم) پر عمل کرتا ہو۔’’

(سنن ابوداؤد کتاب الوتر باب فی ثواب قراءة القرآن)

پھر حافظ قرآن کے والد کے اجر کے بارہ میں فرمایاکہ

‘‘قیامت کے دن اسے چودہویں کے چاند جیسی صورت پر اٹھایا جائےگا اور اس کے بیٹے سے کہاجائے گا کہ قرآن پڑھنا شروع کرو جب وہ پڑھے گا تو ہر آیت کے بدلے اللہ تعالیٰ اس کے باپ کا ایک درجہ بلند فرماتا رہے گا حتیٰ کہ حافظ اس حصہ قرآن کے آخر تک پہنچ جائے جو اس کو یاد تھا۔’’

(المعجم الاوسط للطبرانی جزء2صفحہ264)

حفظ قرآن نہ صرف حافظ قرآن کو عذاب سے محفوظ رکھے گا جیساکہ حدیث نبویؐ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے دل کو عذاب نہیں دے گا جس نے قرآن کریم زبانی یاد کیا ہو۔(سنن الدارمی کتاب فضائل القرآن باب فضل من قرأ القرآن)بلکہ اس کے اہل خانہ کے لیے شفاعت کا باعث ہوگا۔قرآن کریم حافظ قرآن کی شفاعت کرے گا تو حافظ قرآن اپنے اہل خانہ کی۔چنانچہ حضرت علی بن ابی طالبؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے قرآن پڑھا اور اس کو یاد کیا پھر اس پر عمل کرتے ہوئے اس میں بیان شدہ حلال کو حلال اور حرام کو حرام جانا تواللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل کرے گا اور اس کو(روزقیامت)اس کے گھر والوں میں سے ایسے دس افراد کے متعلق شفاعت کا حق دیاجائے گا جو (اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے)دوزخ اپنے اوپر واجب کر چکے ہوں گے۔

(ترمذی کتاب فضائل القرآن باب ماجاء فی فضل القاری)

حفاظ قرآن پرذمہ داری

قرآن و احادیث میں حفاظ قرآن کے بارہ میں جس قدر فضائل و برکات کاذکر ملتا ہے اس سے ان پر ایک ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ قرآن کریم کو سیکھنے اور حفظ کرنے کے بعد اس کی حفاظت کرتے ہوئےاس کی دہرائی پر مداومت اختیار کریں، اس کو بھولنے نہ دیں ، قرآن کریم پر غوروفکر اور تدبر سے کام لیں اور اس کے احکامات پر عمل کریں۔رسول اللہﷺ نے حفاظ کرام کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

تَعَاهَدُوا القُرْآنَ، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَهُوَ أَشَدُّ تَفَصِّيًا مِنَ الإِبِلِ فِي عُقُلِهَا

(صحیح البخاری، کتاب فضائل القرآن،باب استذکار القرآن وتعاہدہ)

قرآن (بارباردہراکراس)کی حفاظت کرو، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یہ قرآن (سینوں سے) اس طرح تیزی سے نکل جاتا ہے کہ اتنی تیزی سے اونٹ بھی رسیاں تڑا کر نہیں بھاگتے۔

اسی طرح حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا:

‘‘صاحب قرآن کی مثال (قرآن کے یاد رکھنے میں) اونٹوں والے کی سی ہے جو رسی سے بندھے ہوئے ہوں اگر وہ اونٹوں کی حفاظت و نگرانی کرے (اور انھیں باندھ کر رکھے) تو وہ ان کی حفاظت میں کامیاب رہے گا اور اگر وہ رسی سے باندھے بغیر ان کو چھوڑ دے گا تو وہ بھاگ جائیں گے۔ ’’

(صحیح البخاری، کتاب فضائل القرآن،باب استذکار القرآن وتعاھدہ)

قرآن کریم بھلادینے کی شناعت

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ بری بات ہے کہ کوئی تم میں سے یہ کہے کہ میں فلاں فلاں آیت بھول گیا، بلکہ یہ کہے کہ وہ مجھ سے بھلادی گئی، تم لوگ قرآن کو یاد رکھو کیوں کہ یہ لوگوں کے سینوں سے نکل جانے میں وحشی جانور سے زیادہ بھاگ جانے والا ہے۔

(صحیح البخاری، کتاب فضائل القرآن،باب استذکار القرآن وتعاہدہ)

پھررسول اللہﷺنے اپنی امت کے گناہوں میں سے سب سے بڑا گناہ قرآن کریم کی کوئی سورت یا آیت یاد کرکے بھلادینے کا بیان فرمایا ہے۔

(ترمذی کتاب فضائل القرآن باب 19)

بے عمل حافظ قرآن کو تنبیہ

رسول اللہﷺنےجہاںباعمل حافظ کابلند مقام و مرتبہ اور فضیلت بیان کی،وہاں بے عمل حافظ کو تنبیہ بھی کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جس نے قرآن کو پڑھا اور حفظ کیا اور اس کی معانی و مفاہیم اور تفسیر کی معرفت حاصل کی لیکن اس پر عمل نہ کیا تو اس نے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنایا۔

(کنزالعمال جزء1صفحہ545)

قرآن کریم یاد رکھنے کا طریق

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں رسول اللہﷺ کو فرماتا ہے:

قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا ۔نِصْفَهُ أَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِيلًا ۔أَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا۔(المزمل:3تا5)

رات کو قىام کىا کر مگر تھوڑا ۔اس کا نصف ىا اس مىں سے کچھ تھوڑا سا کم کر دےىا اس پر (کچھ) زىادہ کردے اور قرآن کو خوب نکھار کر پڑھا کر۔

آنحضرتﷺتو اس حکم الٰہی پر عمل کیاکرتے تھے اور ساری عمر کرتے رہے۔لیکن اپنی امت کے حفاظ کرام کو بھی قرآن کریم یاد رکھنے کا یہ طریق بتلا دیا کہ اگر صاحب قرآن قیام اللیل والنہار(یعنی نماز تہجد و نوافل وغیرہ ادا)کرے گا اور ان میں قرآن کریم کو پڑھتا رہے گا تو اسے قرآن کریم یاد رہے گا اور اگر وہ قیام نہیں کرے گا تو وہ بھول جائے گا۔

(مسلم کتاب صلاة المسافرین باب الامر بتعھد القرآن)

حفظ قرآن اور جماعت احمدیہ

خدائی وعدہ اور رسول اللہﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق چودہویں صدی میں اسلام کی نشاة ثانیہ اور اصلاح امت کے لیے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی موعود علیہ السلام مبعوث ہوئے جنہوں نے ایمان کو ثریا ستارے سے لاکر دوبارہ زمین پر زندہ کردیا اور قرآن کی حکومت کو قائم کردکھایا۔

حضرت بانیٔ جماعت احمدیہؑ میں قرآن کی محبت ودیعت تھی۔ دوران ملازمت اور فارغ اوقات میں بھی تلاوت قرآن کریم کے ساتھ اس پر غوروتدبر فرماتے۔آپؑ کی کثرت تلاوت قرآن کریم کے متعلق خان بہادر مکرم مرزا سلطان احمد صاحب فرماتے ہیں کہ‘‘ایک قرآن تھا جس پر نشان کرتے رہتے تھے۔وہ کہتے ہیں کہ میں بلا مبالغہ کہہ سکتا ہوں کہ شاید آپ نے دس ہزار مرتبہ اس(قرآن) کو پڑھا ہو۔’’

(حیات احمد مرتبہ حضرت یعقوب علی عرفانی صاحبؓ جلد اول صفحہ128)

حضرت بانیٔ جماعت احمدیہؑ نے اپنی جماعت کو بھی یہی تعلیم دی کہ‘‘قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے جو لوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول پر قرآن کو مقدم رکھیں گے اُن کو آسمان پر مقدم رکھا جائے گا۔ نوع انسان کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن۔ اور تمام آدم زادوں کیلئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم۔’’

(کشتی نوح،روحانی خزائن جلد 19صفحہ13)

حضرت مسیح موعودؑ کی دلی تمنا تھی کہ جماعت میں حفظ قرآن کا کوئی باقاعدہ انتظام ہو۔ایک دفعہ حضرت یعقوب علی عرفانی صاحب نے عرض کیا کہ مدرسہ تعلیم الاسلام میں ایک حافظ قرآن بھی مقرر کیا جائے جو قرآن مجید حفظ کرائے۔آپ نے فرمایا ‘‘میرا بھی دل چاہتا ہے اللہ تعالیٰ جو چاہے گا کرے گا۔’’

(تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ168)

آپؑ فرماتے ہیں کہ

‘‘آنحضرتﷺ نے خوش الحانی سے قرآن سنا تھا اور آپ اس پر روئے بھی تھے جب یہ آیت سنی‘‘

وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدًا ’’(النساء 42)

آپﷺ روئے اور فرمایا:بس کر میں آگے نہیں سن سکتا۔آپﷺ کو اپنے گواہ گزرنے پر خیال گزرا ہوگا۔ہمیں خود خواہش رہتی ہے کہ کوئی خوش الحان حافظ ہوتو قرآن سنیں۔’’(ملفوظات جلد سوم صفحہ161تا162)

چنانچہ اسی خواہش کے تحت حافظ محبوب الرحمان سے ایک دفعہ دوران سیر سورةا لدہر سنی۔

(ملفوظات جلد 5صفحہ197)

آپؑ نے اپنے عشق قرآن کاکیا خوب اظہارفرمایا کہ

دل میں یہی ہے ہردم تیرا صحیفہ چوموں

قرآن کے گرد گھوموں کعبہ میرا یہی ہے

صحابہ رسولﷺ کی طرح اصحاب احمدؑ بھی عشق قرآن میں مخمور تھے۔اور آپ کے 313رفقائے خاص میں سے بائیس22حفاظ قرآن کا موجودریکارڈ میں ذکرملتا ہے۔جن کے اسماء یہ ہیں:حضرت حکیم حافظ نورالدین صاحبؓ(خلیفة المسیح الاولؓ)، حضرت حافظ حکیم فضل دین صاحبؓ آف بھیرہ، حضرت حافظ فضل دین صاحبؓ آف کھاریاں،حضرت حافظ حاجی مولوی احمد اللہ خان صاحبؓ آف امرتسر،حضرت حافظ نور محمدصاحبؓ آف فیض اللہ چک،حضرت حافظ فضل احمد صاحبؓ آف لاہور،حضرت حافظ مولوی محمد یعقوب خان صاحبؓ آف ڈیرہ دون،حضرت مولوی رحیم اللہ صاحبؓ آف لاہور، حضرت میاں عبد العلی صاحبؓ آف شاہپور،حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحبؓ،حضرت حافظ محمد بخش صاحبؓ آف کوٹ قاضی، حضرت حافظ قاری محمد صاحبؓ آف جہلم،حضرت حافظ نور احمد صاحبؓ آف لدھیانہ،حضرت حافظ احمددین صاحبؓ آف چک سکندر گجرات، حضرت میاں محمد اسحاق صاحبؓ اوورسیئر بھیرہ،حضرت حافظ محمد سعید صاحبؓ آف بھیرہ،حضرت مولوی حافظ محمد صاحبؓ آف بھیرہ،حضرت مولوی فضل دین صاحبؓ آف خوشاب،حضرت حکیم محمد حسین صاحبؓ آف لاہور،حضرت شیخ حافظ الہ دین صاحبؓ آف جھاوریاں،حضرت حافظ غلام محی الدین صاحبؓ آف بھیرہ،حضرت حافظ محمد امین صاحبؓ کتاب فروش جہلم۔

(تخریج ازتین سو تیرہ اصحاب صدق وصفااز نصر اللہ خاں ناصر صاحب)

ان کے علاوہ جنہوں نے قرآن کریم حفظ کیا ان کی تعداد بےشمار ہے۔جن میں حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ بھی شامل ہیں۔ جن کے کسی مضمون سے متعلقہ آیت فوری پیش کردینے کے کمال کے بارے میں حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے فرمایا کہ

‘‘حافظ صاحب میں یہ بڑا کمال تھا کہ انہیں جب بھی کوئی مضمون بتادیا جاتا وہ اس مضمون کی آیتیں فوراً نکال دیا کرتے…’’

(الفضل 26؍جولائی 1944ء)

حضرت حافظ سید مختار شاہجہانپوری صاحبؓ کا حافظہ بلا کا تھا ایک سال آپ کے والد محترم نے تراویح پڑھانے کا انتظام آپ کے سپرد کردیا جبکہ آپ کو صرف ایک تیسواں پارہ حفظ تھا،چنانچہ آپ نے رمضان المبارک میں بقیہ انتیس پارے بھی حفظ کرلیے اور صرف ایک ماہ میں قرآن کریم حفظ کرلیا۔

(حیات حضرت مختارصفحہ213-214)

اصحاب احمدؑ کے علاوہ حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ کی بیعت کرنےوالی خواتین نے بھی حفظ قرآن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ نے دریافت فرمایا کہ آپ میں کتنی خواتین حافظہ قرآن ہیں؟اس بات نے زمیندار گھرانے سے تعلق رکھنے والی حضرت حافظہ زینب بی بی صاحبؓ پر گہرا اثر کیااور تین بچوں کی دیکھ بھال کے باوجود قرآن کریم حفظ کرنا شروع کیا اور بالآخر قرآن کریم حفظ کرلیا۔

(الفضل 5؍جولائی1999ءصفحہ6)

خلفائے احمدیت بھی حفظ قرآن کی اہمیت و فضیلت کے پیش نظر وقتاًفوقتاً تحریکات فرماتے رہے ہیں۔حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے 7؍دسمبر1917ء کو حفظ قرآن کی تحریک کرتے ہوئےفرمایا کہ

"جو لوگ اپنے بچوں کو وقف کرنا چاہیں وہ پہلے قرآن کریم حفظ کرائیں کیونکہ مبلّغ کے لئے حافظِ قرآن ہونا نہایت مفید ہے۔ بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ اگر بچوں کو قرآن حفظ کرانا چاہیں تو تعلیم میں حرج ہوتا ہے لیکن جب بچوں کو دین کے لئے وقف کرنا ہے تو کیوں نہ دین کے لئے جو مفید ترین چیز ہے وہ سکھا لی جائے۔ جب قرآن کریم حفظ ہو جائے گا تو اور تعلیم بھی ہو سکے گی۔ میرا تو ابھی ایک بچہ پڑھنے کے قابل ہوا ہے اور میں نے تو اس کو قرآن شریف حفظ کرانا شروع کرا دیا ہے۔ ایسے بچوںکا تو جب انتظام ہوگا اور اس وقت ہوگا اور جو بڑی عمر کے ہیں وہ آہستہ آہستہ قرآن حفظ کر لیں گے۔”

(خطبہ جمعہ فرمودہ 7؍دسمبر1917ء مطبوعہ خطبات محمود جلد5صفحہ674)

حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ کی دلی خواہش کے مطابق آپ کے پسر موعود حضرت مصلح موعودؓ نے 1920ء سے قبل ہی حافظ کلاس کا آغاز فرمادیا تھا اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفة المسیح الثالثؒ نے اسی کلاس سے 17؍اپریل1922ء کوقرآن کریم حفظ کیا تھا۔قیام پاکستان کے بعد ربوہ میں مختلف مقامات پریہ کلاس جاری رہی۔1976ء میں باقاعدہ مدرسة الحفظ قائم ہوا۔پاکستان کےعلاوہ قادیان، برطانیہ، گھانا، نائیجیریا، کینیڈا وغیرہ میں بھی مدرسة الحفظ قائم ہوچکے ہیں جن سے درجنوں احمدی بچے قرآن کریم حفظ کرنے کی سعادت پاچکے ہیں اور مسلسل پا رہے ہیں۔اسی طرح مارچ1997ء میں عائشہ دینیات اکیڈمی کے قیام کے بعداحمدی بچیوں کےلیے حفظ قرآن کا بھی انتظام کیا گیا۔چنانچہ اس ادارہ سے بھی ہرسال کئی حافظات قرآن بن رہی ہیں۔

ہمارے پیارے امام سیدناحضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم کی فضیلت و برکات بیان کرتے ہوئےفرماتے ہیں:

‘‘پس آج ہر احمدی کا فرض ہے کہ اس رمضان میں اس نصیحت سے پُر کلام کو،جیساکہ ہمیں اس کے زیادہ سے زیادہ پڑھنے کی توفیق مل رہی ہے ،اپنی زندگیوں پر لاگو بھی کریں۔اس کے ہر حکم پر جس کے کرنے کا ہمیں حکم دیا گیاہے،اس پر عمل کریں اور جن باتوں کی مناہی کی گئی ہے،جن باتوں سے روکاگیا ہے ان سے رکیں،ان سے بچیں اور کبھی بھی ان لوگوں میں سے نہ بنیں جن کے بارے میں خود قرآن کریم میں ذکر ہے ۔فرمایا کہ

وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا (الفرقان :31)

اور رسول کہے گا اے میرے رب یقیناً میری قوم نے اس قرآن کو متروک کرچھوڑا ہے۔

یہ زمانہ اب وہی ہے جب بہت ساری دلچسپیوں کے سامان پیدا ہوگئے ہیں۔انٹرنیٹ وغیرہ ہیں جن پر ساری ساری رات یا سارا سارا دن بیٹھے رہتے ہیں۔اس طرح ہے کہ نشے کی حالت ہے اور اس طرح کی اور دلچسپیاں ہیں…قرآنی تعلیم کو پس پشت ڈال کر اپنی مرضی کی تعلیمات پر ہر جگہ عمل ہورہا ہے۔یہی زمانہ حضرت مسیح موعودؑ کا زمانہ ہے۔اسی زمانہ کے بارے میں کہاگیا کہ قرآن کو متروک چھوڑدیا ہےتو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ہی ہیں جنہوں نے قرآن کریم کی اس متروک شدہ تعلیم کو دنیا میں دوبارہ رائج کرنا ہے اور آپؑ نے یہ رائج کرنا تھا بھی اور آپؑ نے یہ رائج کرکے دکھایا بھی ہے۔آج ہم احمدیوں کی ذمہ داری ہے، ہر احمدی کی ذمہ داری ہے کہ وہ قرآنی تعلیم پر نہ صرف عمل کرنے والا ہو،اپنے پر لاگو کرنے والا ہو بلکہ آگے بھی پھیلائے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کا یہ فقرہ ہمارے ذہن میں ہونا چاہیے کہ جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے۔ہم ہمیشہ قرآن کے ہر حکم اور ہر لفظ کو عزت دینے والے ہوں اور عزت اس وقت ہوگی جب ہم اس پر عمل کررہے ہوں گے۔اور جب ہم اس طرح کررہے ہونگے تو قرآن کریم ہمیں ہر پریشانی سے نجات دلانے والااور ہمارے لیے رحمت کی چھتری ہوگا جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ وَلَا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلَّا خَسَارًا (بنی اسرائیل :83)

اور ہم قرآن مىں سے وہ نازل کرتے ہىں جو شفاءہے اور مومنوں کے لئے رحمت ہے اور وہ ظالموں کو گھاٹے کے سوا کسى اور چىز مىں نہىں بڑھاتا ۔’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ 21؍اکتوبر 2005ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 11؍ نومبر2005ء صفحہ6)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآنی احکام،احادیث نبویہؐ،ارشادات حضرت مسیح موعودؑ و خلفائے احمدیت کی روشنی میں قرآن کریم کوسیکھنے،اسے پڑھنے اورحفظ کرکے اس کی پاکیزہ تعلیم پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

متعلقہ مضمون

تبصرے 2

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button