متفرق مضامین

رمضان المبارک۔ تنویر قلب کے لیے عمدہ مہینہ

(حافظ مظفر احمد)

تنویر قلب یعنی دل کاروحانی نور سے منور ہونے کاعمل، اپنی ذات میں ایک نہایت دلچسپ اور اہم مضمون ہے۔ جس کےبارہ میں کلام الٰہی ، سنت رسولؐ و احادیث نبوی ﷺسے تفصیلی رہنمائی ملتی ہے۔ ماہ رمضان چونکہ اس بنیادی غرض کےحصول کے لیے ایک عملی مشق کا زمانہ بھی ہے اس لیے اس میں مسلسل عبادات،مجاہدات ،روزہ ،تلاوت قرآن ، صد قہ و خیرات ،اعتکاف ،لیلۃ القدر،دعاؤں اور ذکر الٰہی کی برکات سے یہ روحانی عمل تیز تر ہو جاتا ہے۔اور انسان چند گنتی کےدنوں میں اپنی حقیقی منزل مقصود یعنی لقائے الٰہی کی طرف رواں دواں ہوکرنورانی وجودبن سکتاہے۔

حالات حاضرہ میں تو یہ مضمون مزید اہمیت اختیار کر گیا ہے جب کورونا کی عالمی وبا کے نتیجہ میں دنیا ایک آفت سماوی میں مبتلا ہےاورخداخوفی رکھنےوالا ایک طبقہ اپنے خالق و مالک کی طرف رجوع بھی کر رہا ہے۔اس صورت حال میں سچے مومن کے لیے یہ رمضان پہلے سے کہیں بڑھ کر حصول مغفرت و رحمت اورروحانی انوارو برکات کا ذریعہ ہوناچاہیے۔

رسول اللہﷺ کا قلب نورانی

اللہ تعالیٰ سورۃ النور آیت36میں فرماتا ہے کہ اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہےیعنی وہ تمام انوار اور رحمتوں کا سر چشمہ ہےاور رب العالمین کےنورکےفیض عام سےکوئی بھی خالی نہیں ۔مگر اس کے فیض خاص کی مثال کے لیے نورِ محمد مصطفی ﷺ کو پیش کرتے ہوئےفرمایا:

مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَوٰةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ

کہ جیسے ایک طاق میں چراغ اور چراغ شیشہ کی مصفٰی قندیل میں ہو۔

‘طاق سے مراد رسول اللہﷺ کا سینہ مبارک، چراغ سے وحی الٰہی اور شیشہ کی قندیل سے آنحضرت ﷺ کا پاک مقدس دل ہے جو تعلقات ماسوی اللہ سے پاک ہے۔پھر اس پاک دل کی تعریف میں یہ بیان ہے کہ

الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ

کہ وہ شیشہ ایسا صاف کہ ایک عظیم النور ستارہ ہے جو کہ آسمان پر بڑی آب و تاب کے ساتھ چمکتے ہوئے نکلتے ہیں یعنی حضرت خاتم الانبیاءﷺکا دل …کَوکَبٌ دُرِّیٌّ کی طرح نہایت منور اور درخشندہ ہے جس کی اندرونی روشنی اس کے بیرونی قالب پر پانی کی طرح بہتی ہوئی نظر آتی ہے…اور چراغ وحی اس شَجَرَۃٌ مُبَارَکۃٌ سے روشن کیا گیا ہے کہ نہ شرقی ہے نہ غربی یعنی…مظہر کمال اعتدال اور جامع بین الجمال و الجلال ہے۔پھر فرمایا

يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ

یعنی اخلاق فاضلہ اس نبی معصوم کے ایسے موزونیت و لطافت و نورانیت پر واقع کہ الہام سے پہلے ہی خود بخود روشن ہونے پر مستعد تھے۔پھرفرمایا:نُورٌ عَلیٰ نُورٌ۔ نورفائض ہوا نور پر یعنی وجود مبارک حضرت خاتم الانبیاء ﷺ میں کئی نور جمع تھے۔سو ان نوروں پر ایک اور نور آسمانی جو وحی الٰہی ہے وارد ہو گیا اور اس نور کے وارد ہونے سے وجود با جود خاتم الانبیاء کا مجمع الانوار بن گیا۔’

(ملخص از براہین احمدیہ حصہ سوم،روحانی خزائن جلد اول صفحہ177تا 182حاشیہ)

یہی وہ ‘‘سراج منیر’’ (الاحزاب46) اور نور کامل ہے جس کی آمد پر یہ اعلان ہوا:

قَدْ جَاءَكُمْ مِنَ اللّٰهِ نُورٌ وَ كِتَابٌ مُبِينٌ۔ يَهْدِي بِهِ اللّٰهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ وَيُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِهِ وَيَهْدِيهِمْ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ(المائدة:16-17)

یعنی یقیناً تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آچکا ہے اور ایک روشن کتاب بھی۔ اللہ اس کے ذریعہ انہیں جو اس کی رضا کی پیروی کریں سلامتی کی راہوں کی طرف ہدایت دیتا ہے۔اور اپنے اذن سے انہیں اندھیروں سے نور کی طرف نکال لا تا ہے اور انہیں صراط مستقیم کی طرف ہدایت دیتا ہے۔

خود ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفیٰﷺنے فرمایا:

أَوَّل مَا خَلَقَ اللّٰهُ نُورِي

(مرقاة المفاتیح شرح مشکوة المصابیح جزء1 صفحہ 169)

یعنی سب سے پہلے اللہ نے میرا نور پیدا فرمایا۔

ہماری کتنی بڑی خوش قسمتی ہے کہ تنویرقلب کے لیے ایساپاک اور برگزیدہ نورانی وجود ہمیں عطا ہوا، جس کی آمد کا بڑا مقصد ہی تاریک دلوں کو روشن کرنا اور صراط مستقیم پر گامزن کرنا تھا ۔اورپھر اسی مجمع الانوار برگزیدہ رسول خاتم الانبیاء ﷺنے پہلےتاریک جزیرہ عرب اورپھر ایک دنیا کو روحانی ضیاء بخشی۔اللھم صل علی محمد و آل محمدو بارک وسلم انک حمید مجید

رمضان اور تنویر قلب

رمضان کے روزے تو 2ھ میں فرض ہوئے مگر رسول اللہﷺ کا تو تئیس سالہ دورنبوت ہی اپنی تاثیر روحانی کے لحاظ سے رمضان المبارک تھا اورقرآنی بیان کے مطابق

إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ(القدر 2)

وہ ایک لیلۃ القدر کا دور تھا جس میں عرب کے بادیہ نشین اس ‘‘نور کامل’’ کے فیض روحانی سے منور ہوئے اور آسمان کے روشن ستارے بن کر ایک دنیا کے لیے موجب ہدایت بن گئے۔ عرش کے خدا نےان کے حق میں فرمایا کہ ‘‘یہ وہ لوگ ہیں جن کے دل میں اللہ نے ایمان لکھ رکھا ہے اور ان کی وہ اپنے امر سے تائید کرتا ہے اور انہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں اور وہ ان میں ہمیشہ رہتے چلے جائیں گے۔اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے’’۔(المجادلہ:23)

یہ وہ حقیقی تنویر قلب تھی جس کے نظارے دنیا نے ہمارے آقا ومولیٰ حضرت محمدمصطفیﷺ کے زمانہ میں دیکھے۔پھر اس روحانی سفر کی منزلیں بتدریج طے ہونے لگیں اور آج تک سعادت مند مومن رمضان کے ریفریشر کورس میں طے کرتے چلے آرہےہیں ۔

اللہ تعالیٰ فرماتاہے:

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ(البقرة :186)

کہ رمضان کا مہینہ جس میں قرآن انسانوں کے لیے ایک عظیم ہدایت کے طور پر اتارا گیا اور ایسے کھلے نشانات کے طور پر جن میں ہدایت کی تفصیل اور حق و باطل میں فرق کر دینے والے امور ہیں۔یعنی یہ مہینہ لوگوں کے لیے ہدایت کا موجب ہے اور ہدایت کے حق و باطل میں فرق کرنے والے روشن نشانات رکھتا ہے جو انسان کو اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے اور تنویر قلب عطا کرتا ہے۔

حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ ماہ رمضان کی عظمت و برکات بیان کرتے ہوئےفرماتے ہیں:

‘‘شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ

سےماہ رمضان کی عظمت معلوم ہوتی ہے۔صوفیاء نے لکھا ہے کہ یہ ماہ تنویر قلب کے لیے عمدہ مہینہ ہے۔ کثرت سے اس میں مکاشفات ہوتے ہیں۔صلوٰۃ تزکیہ نفس کرتی ہے اور صوم تجلی قلب کرتا ہے۔تزکیہ نفس سے مراد یہ ہے کہ نفس امارہ کی شہوات سے بُعد حاصل ہو جائے اور تجلی قلب سے مراد یہ ہے کہ کشف کا دروازہ اس پر کھلے کہ خدا کو دیکھ لے۔’’

(ملفوظات۔جلد چہارم۔صفحہ 256)

ایک اور موقع پر آپؑ نے فرمایا:

‘‘کم کھانا اور بھوک برداشت کرنا بھی تزکیہ نفس کے واسطے ضروری ہے۔اس سے کشفی طاقت بڑھتی ہے…روحانی قوی تیز ہوتے ہیں۔خدا سے فیض یاب ہونا چاہو کہ تمام دروازے اس کی توفیق سے کھلتے ہیں۔’’

(تقاریر جلسہ سالانہ،1904ء۔صفحہ20-21)

روزے اور رؤیا و کشوف

حضرت بانی جماعت احمدیہؑ نے مذکورہ بالاارشاد میں روزہ کے مجاہدات کےنتیجہ میں تنویر قلب کی ایک ظاہری نشانی رؤیا و کشوف بھی بیان کی ہے جو اللہ تعالی جسے چاہے اپنےفضل سے عطا فرما دیتا ہے۔جیسا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے اپنایہ تجربہ بھی بیان فرمایا کہ

‘‘ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ ایک بزرگ معمر پاک صورت مجھ کو خواب میں دکھائی دیا اور اس نے یہ ذکر کر کے کہ کسی قدر روزے انوار سماوی کی پیشوائی کے لیے رکھنا سنت خاندان نبوت ہے۔ اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ میں اس سنت اہل بیت رسالت کو بجالاؤں۔سو میں نے کچھ مدت تک التزام صوم کو مناسب سمجھا… غالباً آٹھ یا نو ماہ تک میں نے ایسا ہی کیا اور باوجود اس قدر قلت غذا کے کہ دو تین ماہ کا بچہ بھی اس پر صبر نہیں کر سکتا خداتعالیٰ نے مجھے ہر ایک بلا اور آفت سے محفوظ رکھا۔ اور اس قسم کے روزہ کے عجائبات میں سے جو میرے تجربہ میں آئے وہ لطیف مکاشفات ہیں جو اس زمانہ میں میرے پر کھلے۔ چنانچہ بعض گذشتہ نبیوں کی ملاقاتیں ہوئیں اور جو اعلیٰ طبقہ کے اولیاء اس امت میں گذر چکے ہیں ان سے ملاقات ہوئی۔ ایک دفعہ عین بیداری کی حالت میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معہ حسنین و علی رضی اللہ عنہ و فاطمہ رضی اللہ عنہا کے دیکھا۔ اور یہ خواب نہ تھی بلکہ ایک بیداری کی قسم تھی غرض اسی طرح پر کئی مقدس لوگوں کی ملاقاتیں ہوئیں جن کا ذکر کرنا موجب تطویل ہے اور علاوہ اس کے انوار روحانی تمثیلی طور پر برنگ ستونؔ سبز و سرخ ایسے دلکش ودلستان طور پر نظر آتے تھے جن کا بیان کرنا بالکل طاقت تحریر سے باہر ہے۔ وہ نورانی ستون جو سیدھے آسمان کی طرف گئے ہوئے تھے جن میں سے بعض چمکدار سفید اور سبز اور بعض سرخ تھے ان کو دل سے ایسا تعلق تھا کہ ان کو دیکھ کر دل کو نہایت سرور پہنچتا تھا اور دنیا میں کوئی بھی ایسی لذت نہیں ہوگی جیسا کہ ان کو دیکھ کر دل اور روح کو لذت آتی تھی۔ میرے خیال میں ہے کہ وہ ستون خدا اور بندہ کی محبت کی ترکیب سے ایک تمثیلی صورت میں ظاہر کیے گئے تھے یعنی وہ ایک نور تھا جو دل سے نکلا اور دوسرا وہ نور تھا جو اوپر سے نازل ہوا اور دونوں کے ملنے سے ایک ستون کی صورت پیدا ہوگئی یہ روحانی امور ہیں کہ دنیا ان کو نہیں پہچان سکتی ۔’’

(کتاب البریہ،روحانی خزائن جلد 13صفحہ 197-199)

تنویر قلب میں حائل روک کاعلاج!

تنویر قلب یعنی ظلمات سے نور کا مجاہداتی سفر رمضان میں ہو یا عام دنوں میں اپنے ساتھ مہم جوئی کی ایک داستان رکھتا ہے۔آیئے رمضان کے حوالے سے اس دلچسپ انقلاب انگیز حکایت کا مطالعہ فرقان حمیدکی روشنی میں کریں جس میں اس ایمان افروز کہانی کے کرداروں کی باطنی ظلمات کےاحوال اور ان کے تنویر قلب کی واردات کابخوبی تذکرہ ہےاور پھر اس بابرکت رمضان میں اپنا محاسبہ کرتے ہوئے یہ ظلماتی پردے چاک کر کے ‘‘مجمع الانوارﷺ’’کے نقوش پا میں نورِقلب پانے والے بن جائیں۔خداکرے کہ ایسا ہو!آمین

قرآن شریف سےرہنمائی ملتی ہے کہ دل کی روحانی بیماریوں میں بغض و کینہ، جھوٹ، بدظنی، تجسس،غیبت، قساوت قلبی ،غیض و غضب اور بخل،نفرت وعناد وغیرہ شامل ہیں۔ان امراض سینہ سے نجات کے لیے مجاہدات رمضان ایک مجرب نسخہ ہے۔

قرآن کریم نےروزہ کی غرض ہی لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (البقرة: 184) بیان فرمائی ہے کہ انسان اس مہینہ کی مشق کے نتیجہ میں جسمانی،اخلاقی اورروحانی سب کمزوریوں اورکوتاہیوں سے بچنے کی کوشش کرے۔اوراس پر مستزادیہ کہ ماہ رمضان کا مغفرت اور بخشش سے بھی بہت گہرا تعلق ہے۔رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ بڑا بدبخت ہے وہ شخص جس نے رمضان پایا مگر وہ بخشا نہ گیا۔(الأدب المفرد صفحہ 224)

آپ ﷺ نے رمضان کے پہلے عشرہ کو رحمت دوسرے کو مغفرت اور تیسرے کو آگ سے آزادی کا ذریعہ قرار دیا۔(شعب الإيمان للبیھقی جزء5صفحہ224)اورگناہوں کی معافی کے بعد ہی انسان کا دل نور الٰہی سے منور ہوتا ہے۔ایک بزرگ نے کیا خوب کہا:ع

‘‘و نور اللّٰہ لا یعطی لعاصی’’

کہ گنہگاراللہ کے نور سے محروم ہی رہتاہے۔ پس نور روحانی کےلیےہر وقت اپنے مولیٰ سے بخشش طلب کرنی بہت ضروری ہے۔جیسےاللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا تُوۡبُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ تَوۡبَۃً نَّصُوۡحًا ؕ عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یُّکَفِّرَ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ وَ یُدۡخِلَکُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ۙ یَوۡمَ لَا یُخۡزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ ۚ نُوۡرُہُمۡ یَسۡعٰی بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ ۔(التحريم :9)

یعنی اے لوگو جو ایمان لائے ہو!اللہ کی طرف خالص توبہ کرتے ہوئے جھکو۔بعىد نہىں کہ تمہارا ربّ تم سے تمہارى برائىاں دورکردے اور تمہىں اىسى جنتوں مىں داخل کرے جن کے دامن مىں نہرىں بہتى ہىں، جس دن اللہ نبى کو اور ان کو رُسوا نہىں کرے گا جو اس کے ساتھ اىمان لائے ان کا نور ان کے آگے بھى تىزى سے چلے گا اور ان کے دائىں بھى۔

دراصل گناہ کے پیدا ہونے میں جو تاریکیاں آڑے آتی ہیں ان میں ایک بڑی تاریکی ضعف ایمان ہے ۔یعنی اللہ اور یوم آخرت پر محض منہ زبانی ایمان رکھنا مگر فی الحقیقت ایمان کے تقاضے پورے نہ کر کے اپنے آپ کو اور لوگوں کو دھوکا دینا۔اس مہلک بیماری کا ذکر قرآن شریف نےسورۃالبقرۃکے آغاز میں ہی ‘‘نفاق’’ کی بیماری سے کیا ہے۔یہ بیماری بھی کورونا وائرس کی طرح ایسی منحوس ہے اور ایسے مخفی شیطانی وارکرتی ہے کہ انسان کو پتہ نہیں چلتا۔لہذا ایک مومن بھی اس سے بچنے کے لیے کسی خوش فہمی میں نہیں رہ سکتا۔حضرت عمرؓ جیسے خلیفۂ راشد کا یہ نمونہ اس بارہ میں قابلِ تقلید ہے جو اپنے بلند ترین مقام کے باوجود نفاق سے ڈرتے تھے اور حضرت حذیفہؓ جن کو رسول اللہﷺ نے منافقین کے نام رازدارانہ طور پر بتائے تھے،ان سے پوچھتے تھے کہ کہیں میرانام تو اس فہرست میں نہیں۔(الاموال لابن زنجویہ جزء2 صفحہ601) حالانکہ آپؓ کے بارے میں رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ شیطان بھی عمرؓ سے ڈرتا ہے اور جس راستہ سے وہ آرہے ہوں شیطان دوسرے رستہ پر چلاجاتا ہے۔(ترمذی کتاب المناقب باب مناقب عمر )لہذا ایک مومن کو اس روحانی بیماری کی علامات پیش نظر رکھ کر خصوصاً ماہ رمضان میں اپنا تنقیدی محاسبہ کرتے رہنا چاہیے۔

رسول کریم ﷺ نےنفاق کی بڑی علامات جھوٹ،وعدہ خلافی ،بد دیانتی اور گالی گلوچ بیان فرمائیں۔

(بخاری کتاب الایمان باب علامۃ المنافق)

رمضان المبارک کی عملی مشق سےاس بیماری کا موثر علاج ممکن ہے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ

‘‘مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالعَمَلَ بِهِ، فَلَيْسَ لِلّٰهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ’’

(بخاری کتاب الصوم باب من لم یدع قول الزور والعمل بہ فی الصوم)

جس نے روزہ کی حالت میں جھوٹ اور اس پر عمل نہیں چھوڑا اللہ تعالیٰ کو اس کے محض بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی حاجت نہیں۔نفاق کی دوسری علامت لڑائی جھگڑا اور گالی گلوچ ہےجس سے بچنے کےلیے آپ ﷺ نے یہ ہدایت فرمائی کہ

‘‘الصِّيَامُ جُنَّةٌ فَلاَ يَرْفُثْ وَلاَ يَجْهَلْ، وَإِنِ امْرُؤٌ قَاتَلَهُ أَوْ شَاتَمَهُ فَلْيَقُلْ: إِنِّي صَائِمٌ مَرَّتَيْنِ’’(بخاری کتاب الصوم باب فضل الصوم)

یعنی روزےڈھال ہیں۔پس روزہ کی حالت میں نہ کوئی شہوانی بات کرے نہ جہالت اور نادانی کرے اور اگر کوئی اس سے لڑائی یا گالی گلوچ کرے بھی تو وہ کہے میں توروزہ دار ہوں ،میں روزہ دار ہوں۔

نفاق کی ایک اورعلامت رسول کریم ﷺ نے نمازوں سے بے رغبتی بیان کی اور فرمایا کہ منافقوں پر فجر اور عشاء کی نمازیں(جن میں نیند قربان کرنی پڑتی ہے) بہت بھاری ہوتی ہیں۔اگرانہیں علم ہوکہ ان کی برکت اور اجر کیا ہے تو وہ ان میں ضرور آئیں خواہ گھٹنوں کے بل آنا پڑے۔

(مسند احمدجزء5صفحہ140)

رمضان کے با برکت ماحول میں مسلسل قیام نماز کی کوشش سےیہ بری عادت بھی ترک کی جا سکتی ہے۔رسول کریمﷺ نے فرمایاکہ

‘‘مَنْ صَلَّی لِلّٰهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا فِي جَمَاعَةٍ يُدْرِكُ التَّكْبِيرَةَ الأُولَى كُتِبَ لَهُ بَرَاءَتَانِ: بَرَاءَةٌ مِنَ النَّارِ، وَ بَرَاءَةٌ مِنَ النِّفَاقِ.’’(ترمذی ابواب الصلوٰة باب فی فضل التکبیرة الاولیٰ)

یعنی جو شخص اﷲکی خاطر چالیس دن تک نماز باجماعت ادا کرے اور تکبیر اولیٰ (یعنی امام کے اللہ اکبر کہہ کر نماز شروع کرنے کا وقت)پائے اس کے لیے دو آزادیاں لکھ دی جاتی ہیں ایک آگ سے آزادی دوسری نفاق سے بری الذمہ ہوجانا۔

اگر اس پہلو سےانسان کوشش کرے تو نفاق سےبراءت کی سندحاصل کرنے کارمضان سے بہتر کوئی موقع نہیں ہوسکتا۔

اسی طرح نفاق کی ایک اورعلامت قرآن کریم نے بخل اور خدا کی راہ میں مال خرچ نہ کرنا بتائی ہے۔(التوبۃ:75-76)۔ رمضان میں اس کا علاج صدقات و خیرات کی کثرت سے آسان بنایا گیا ہے۔پس رمضان نفاق کی بیماری سے شفائےکلّی حاصل کرنے کے لیے ایک اکسیر ہے جس سے فائدہ اٹھاکر انسان انوارروحانی سے اپنا سینہ بھرسکتا ہے۔

تنویر قلب کے لیے مضبوط ایمان اورمحبت الٰہی کی ضرورت!

دراصل انسان ایمانی کمزوری اور نفاق کا علاج کر کے ہی پختہ ایمان حاصل کر سکتاہے ۔قرآن شریف سے پتہ چلتا ہے کہ دلوں کی میل ،زنگ اور تاریکی دور کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ایمان حقیقی ہے۔یہ ایک ثابت شدہ امر ہے کہ انبیائےکرام کے ماننے والوں میں اللہ پرکامل ایمان کے نتیجہ میں ہی نور قلب اورصدیق و شہید کے درجے عطا ہوئے۔فرمایا:

وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللّٰهِ وَرُسُلِهِ أُولَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ وَالشُّهَدَاءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَنُورُهُمْ (الحديد:20)

اور وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسولوں پر اىمان لائے ىہى وہ لوگ ہىں جو اپنے ربّ کے حضور صدىق اور شہىد ٹھہرتے ہىں ان کے لیے ان کا اجر اوران کا نور ہے۔

پھرجب اس ایمان کے ساتھ تقوی اللہ بھی شامل ہوجائے تو یہ نور دوگنا ہو جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَآمِنُوا بِرَسُولِهِ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَحْمَتِهِ وَيَجْعَلْ لَكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِهِ وَيَغْفِرْ لَكُمْ وَاللّٰهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ(الحديد:29)

یعنی اے لوگو جو اىمان لائے ہو! اللہ کا تقوى اختىار کرو اور اس کے رسول پر اىمان لاؤ وہ تمہىں اپنى رحمت مىں سے دُہرا حصہ دے گا اور تمہىں اىک نور عطا کرے گا جس کے ساتھ تم چلو گے اور تمہىں بخش دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔

یہ بھی سچ ہے کہ ایمان حقیقی کا نور محبت الٰہی کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ ع

عشق است کہ ایں کار بصد شوق کنانند

اور اس کے لیے رمضان کا مہینہ نہایت موزوں ہے۔جسے روحانیت کا موسم بہار کہنا چاہیے۔حضرت مسیح موعود ؑفرماتے ہیں:

‘‘رَمَض سورج کی تپش کو کہتے ہیں۔رمضان میں چونکہ انسان ا کل وشرب اور تمام جسمانی لذتوں پر صبر کرتا ہے۔ دوسرے اللہ تعالیٰ کے احکام کے لیے ایک حرارت اور جوش پیدا کرتا ہے۔روحانی اور جسمانی حرارت اور تپش مل کر رمضان ہوا…روحانی رمض سے مراد روحانی ذوق وشوق اور حرارت دینی ہوتی ہے۔ ’’

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 209)

اور رمضان میں محبت الٰہی کا بڑا ذریعہ روزہ کے ساتھ پنجگانہ نماز باجماعت اور تہجد کا التزام ہے۔ آنحضرتﷺ نے نماز کو مومن کی معراج قرارفرمایا۔(شرح سنن ابن ماجہ للسیوطی جزء1 صفحہ313) اورحضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ‘‘صلوٰۃ ایسی چیز ہے کہ اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے قرب کا کوئی ذریعہ نہیں۔ یہ قرب کی کُنجی ہے۔’’

(ملفوظات جلد 2صفحہ 347-348)

اس پہلو سے رمضان محبت الٰہی کے حصول کا بھی عمدہ مہینہ ہے۔پس رمضان میں محبت الٰہی کی وہ دعا بکثرت دلی جوش سے کرنی چاہیے۔جوہمارے آقا ومولاﷺہمیشہ کیاکرتے تھے جن کے بارہ میں کفار تک گواہی دیتے تھے کہ محمدﷺ تو اپنے رب کا عاشق ہے۔(المنقذ من الضلال از امام غزالی صفحہ 511) مگرآپؐ اپنےنورعشق میں اور اضافہ چاہتے ہوئے یہ دعا کرتے تھے:

اللّٰہُمَّ ارْزُقْنِي حُبَّكَ وَحُبَّ مَنْ يَنْفَعُنِي حُبُّهُ عِنْدَكَ، اللّٰہُمَّ مَا رَزَقْتَنِي مِمَّا أُحِبُّ فَاجْعَلْهُ قُوَّةً لِي فِيمَا تُحِبُّ، اللّٰہُمَّ وَمَا زَوَيْتَ عَنِّي مِمَّا أُحِبُّ فَاجْعَلْهُ فَرَاغًا لِي فِيمَا تُحِبُّ’’

(ترمذی کتاب الدعوات باب 74)

کہ اے اﷲ!مجھے اپنی محبت عطا کر اور اس کی محبت بھی جس کی محبت مجھے تیرے حضور فائدہ بخشے۔ اے اﷲ! میری محبوب چیزیں جو تومجھے عطا کرے ان کو اپنی محبوب چیزوں کی خاطر میرے لیے قوت کا ذریعہ بنا دے اور میری جوپیاری چیزیں تو مجھ سے علیحدہ کر دے ان کے بدلے اپنی پسندیدہ چیزیں مجھے عطا فرمادے۔

تنویر قلب،تقوی اللہ اور خوف خدا

تیسرا ذریعہ نور روحانی کے حصول کا اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنا ہے۔اللہ تعالیٰ نے رمضان کی غرض ہی حصول تقویٰ بیان فرمائی اور تقویٰ کی ایک اہم علامت نمازوں میں خشیت و رقت بھی ہے۔جیسے فرمایا:

الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ(المؤمنون : 3)

یعنی وہ مومن کامیاب ہو گئے جو نمازوں میں خشوع اختیار کرتے ہیں۔گویااپنی تمام عبادات حضور قلب اور خوف خدا سے ادا کرنا اور قدم قدم پر اللہ کی ناراضگی سے بچنے کی کوشش اور اس کی رضا کو مقدم رکھناتقویٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے مومنوں کی صفت بیان کرتے ہوئےفرماتا ہے:

وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡتُوۡنَ مَاۤ اٰتَوۡا وَّ قُلُوۡبُہُمۡ وَجِلَۃٌ اَنَّہُمۡ اِلٰی رَبِّہِمۡ رٰجِعُوۡنَ (المؤمنون :61)

کہ مومن جوبھی خدا کی راہ میں دیتے ہیں تو اس وقت ان کے دل ڈرے ہوتے ہیں کہ وہ ا پنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں۔

حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ سے پوچھا کہ اللہ سے ان ڈرنے والوں سے مراد کیا شراب اور چوری جیسے گناہوں کا ارتکاب کرنے والے لوگ ہیں؟آپؐ نے فرمایا:اے صدیقؓ اکبر کی بیٹی! ایسا نہیں بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو روزے رکھتے اور نمازیں پڑھتے اور صدقے دیتے ہیں۔مگر پھربھی ڈرتے ہیں کہ آیا ان کی عبادات قبول بھی ہوں گی یا نہیں؟یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارہ میں اگلی آیت میں فرمایا کہ

أُولَئِكَ يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَهُمْ لَهَا سَابِقُونَ (المؤمنون :62)

کہ وہ نیکیوں میں ایک دوسرے سے مقابلہ کر کے سبقت لے جانے والے ہیں۔

(ترمذی ابواب التفسیرتفسیرسورۃ المومنون)

یہ رسول اللہﷺ کے وہ تربیت یافتہ صحابہ تھے جن کے دل خوفِ خدا سے لبریز تھے۔حضرت عمرؓ کی مثال مشہور ہے،فرماتے تھے کہ اگر آسمان سے آواز آئے کہ ایک آدمی جہنم میں جائے گا تو میں ڈرتا ہوں کہ کہیں میں نہ ہوں اور اگر ایک آدمی کے جنت میں جانے کی آواز آئے تو خدا سے اس کی امید رکھتا ہوں کہ شاید وہ خوش نصیب میں ہوں۔

(ازالة الخفاء جزء2صفحہ174)

تنویر قلب بذریعہ معرفت صفات الہٰیہ اوراخلاق فاضلہ

حصول نور روحانی کا ذریعہ صبغۃ اللہ کے مطابق الٰہی صفات کو اختیار کرتے ہوئے اخلاق فاضلہ کو اجاگر کرنا ہے۔کیونکہ حقیقی نور تو اللہ تعالیٰ کا نورانی رنگ چڑھانے سے ہی حاصل ہوسکتا ہے۔بطورخاص ایسےاخلاق فاضلہ جن کی طرف ماہ رمضان کسی نہ کسی رنگ میں بطورخاص توجہ دلاتا ہے،اور اتباع نبویؐ میں ان پاکیزہ صفات کے انوار جذب کرکے اپنا دل صیقل کرنے کی تحریک کرتا ہے ان صفات و اخلاق میں عبادت و محبت الٰہی،انقطاع و انابت،صدق و سداد،خوف و خشیت ،رافت و رحمت ،شجاعت،صبر و استقلال ،باہمی اخوت و الفت ،ایثار ،زہد و قناعت ،عجز و تواضع،حیاء اورجود و کرم وغیرہ ہیں۔ہر چند کہ موقع کی مناسبت سے اس وقت ان اخلاق فاضلہ کی تفصیل میں جانا ممکن نہیں۔اجمالاً یہ ذکر مناسب ہے کہ ان میں سے جن امور کا حقوق اللہ سے تعلق ہے اس میں قیام عبادت اور انقطاع الی اللہ ہے۔رمضان میں آپؐ آخری عشرہ تومکمل طور پر دنیا سے منقطع ہو کر اعتکاف بھی فرمایا کرتے تھے۔اور طاق راتوں میں خود بھی لیلۃ القدر کی نورانی رات برکات قبولیت دعا کی جستجو کرتے اوراپنے صحابہ کو بھی اس طرف توجہ دلاتے۔

ایک دفعہ حضرت عائشہؓ نے نبی کریمﷺ سے عرض کیا کہ اگر میں لیلة القدر پاؤں تو کیا دعا کروں؟آپﷺ نے یہ دعا سکھائی:

اَللَّهُمَّ إِنَّكَ عُفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي

(ترمذی ابواب الدعوات باب 85،سنن ابن ماجہ ابواب الدعاء باب الدعاء بالعفو والعافیة)

کہ اے اللہ تو بہت معاف کرنے والا ہے،توعفو کو پسند کرتا ہے۔پس مجھے معاف کردے۔

رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ‘‘معتکف دوران اعتکاف کئی گناہوں سے بچ جاتا ہے اوراعتکاف میں رکے رہنے کے باعث جن نیکیوں سے محروم ہوتا ہے اس کا ثواب بھی اس کے حصہ میں لکھا جاتا ہے۔’’

(سنن ابن ماجہ کتاب الصیام باب فی ثواب الاعتکاف)

حالیہ رمضان میں عالمی وبا کے باعث گھروں میں جو فرصت میسّر ہے اسے غنیمت جانتے ہوئے جس طرح باقی عبادات کی توفیق مل رہی ہے، گھرمیں حسب سہولت علیحدہ کمرے میں اعتکاف کا بھی اہتمام کیا جا سکتا ہے۔

دیگر اخلاق فاضلہ جو روزہ کے نتیجے میں صیقل ہوتے ہیں ان میں صدق و سداد ہے۔یہ ذکرہوچکا ہےکہ روزہ کو جھوٹ سے کوئی مناسبت نہیں بلکہ ایسے روزہ دار کا روزہ ہی مقبول نہیں اسی طرح روزہ ا نسان کو جھوٹی ریاکاری سے بچاکرسچی تواضع سکھاتا ہے۔حدیث قدسی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:‘‘ وَالصَّوْمُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ’’

(سنن الترمذي ابواب الصوم بَابُ مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الصَّوْمِ)

کہ روزہ خالص میرے لیے ہے اور میں خود اس کی جزا ہوں ۔یعنی اس کے نتیجہ میں وصال الہٰی ہوتا ہے۔ایک اور حدیث میں ہے کہ جو شخص بغیر ریا کے روزہ رکھتا ہے میں اس کی جزا بن جاتا ہوں۔(جامع الصغیر للسیوطی) اس کی علامت کے طور پر روز مرہ کی سطح پر انسانی قلب کی یہ نورانی کیفیت مشاہدہ کی جاسکتی ہے۔جورسول کریمﷺ نے فرمایا کہ روزہ دار کوایک خوشی افطارکے وقت نصیب ہوتی ہے اور دوسری اس وقت ہوگی جب وہ روزہ کے نتیجے میں اپنے رب سے ملے گا۔

(بخاری کتاب الصوم بَابٌ هَلْ يَقُولُ إِنِّي صَائِمٌ إِذَا شُتِمَ)

اسی طرح حیاء اور رافت و رحمت کا خلق ہے۔روزہ دار گالی گلوچ اور جھگڑے سے اجتناب کے ذریعہ اس خلق کو صیقل کرتا ہے۔نمازوں میں عموماً اور رکوع و سجود میں خصوصاً رقت و خشیت اس کی تواضع کو بڑھاتی ہے۔تو روزہ کی حالت میں بھوک اور فاقہ سے صبر و استقلال اور شجاعت کا حوصلہ نصیب ہوتا ہے اور ایثار کی توفیق ملتی ہے اور زہدو قناعت کا مادہ بڑھتا ہے۔پھر جودو کرم کے اعلیٰ خلق کا بھی رمضان سے بڑا تعلق ہے۔چنانچہ کسی عذر حقیقی سے روزے نہ رکھنے والوں کے لیے اس کا فدیہ ایک مسکین کو کھانا مقرر کیا تو رمضان کے آخر میں غرباء کو عید کی خوشیوں میں شریک کرنے کے لیے صدقۃ الفطر مقرر فرمایا جو ہر بالغ حتی کہ نومولود کی طرف سے بھی ادا کرنا چاہیے۔بلا عذر روزہ توڑنے کے کفارہ کے طور پر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا یا دو ماہ کے روزے مقرر فرمائے۔رمضان میں نفلی اور طوعی طور صدقات کا ثواب فرض عبادات کے برابر اور فرض عبادات زکوٰۃ وغیرہ کی ادائیگی کا اجر دوگنا قرار دیا۔روزے کی افطاری کا ثواب روزہ رکھنے کے برابر بیان کیا اور روزے دار کو سیر کر کے کھلانے والے کو حوض کوثر سے سیر کرنے کی خوشخبری دی۔(بیہقی بحوالہ مشکوۃ المصابیح کتاب الصیام)رمضان میں انفاق فی سبیل اللہ کے یہ مواقع تو عوام کے لیے پیدا کیے گئے۔دنیا میں ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیﷺ سے بڑھ کر تو کوئی شاہ دل اور سخی نہ تھا۔ آپﷺ نے خود فرمایا :‘‘سب سے بڑا سخی تو خدا تعالیٰ ہے،پھر میں انسانوں میں سب سے زیادہ سخاوت کرنے والا ہوں۔’’

(مجمع الزوائد للہیثمی۔جلد9،صفحہ 13۔بیروت)

حضرت جابرؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے تو جب بھی کسی نے مانگا یا سوال کیا تو آپ نے کبھی ‘‘نہ’’نہیں فرمائی۔(بخاری کتاب الادب باب حسن الخلق) ہر مانگنے والے کو عطا کیا۔مگر رمضان کے بارہ میں فرماتے تھے کہ سب سے افضل اور بہترین صدقہ وہ ہے جو رمضان میں خیرات کیا جائے۔(ترمذی کتاب الزکوٰةباب ماجاء فی فضل الصدقة) رمضان میں تورسول کریمﷺکا نمونہ یہ تھا کہ آپ باوجودیکہ صدقہ وخیرات میں تمام لوگوں سے زیادہ کشادہ دل اور سخی تھے،لیکن رمضان کے مہینہ میں تو آپ کے جود و سخا کا اور ہی عالم ہوتا تھا۔ا س زمانہ میں جب جبریل ؑ سے آپ کی ملاقاتیں بڑھ جاتی تھیں اور ان کے ساتھ قرآن سننے سنانے کا شغل رہتا تھا۔آپ اتنی سخاوت فرماتے تھے کہ تیز ہوائیں بھی اس کا مقابلہ نہ کر پاتیں جو بادلوں کو اٹھا کر لاتیں اور بارشیں برساتی ہیں۔

(بخاری کتاب بدء الوحی كَيْفَ كَانَ بَدْءُ الوَحْيِ إِلَى رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟)

تنویر قلب اورقرآن شریف

اللہ اور رسول کی محبت کےساتھ تنویر قلب کاایک اور اہم ذریعہ قرآن شریف ہے جسے اللہ تعالی نے نور مبین قرار دیا ہے۔فرمایا:

وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكُمْ نُورًا مُبِينًا (النساء 175)

ہم نے تمہاری طرف کھلا نور اتارا۔پس تلاوت قرآن کا حق ادا کرنے والوں کے دلوں کو نور عطا ہو تا ہے۔لہذاجب مومنوں کے سامنےقرآن کی تلاوت کی جاتی ہے تو ان کے ایمان بڑھ جاتے ہیں۔(الانفال:3)پھرخصوصاً فجر کے وقت توتلاوت کی برکت سب سے زیادہ ہے۔فرمایا:

اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُوْدًا۔(بنی اسرائیل:79)

کہ فجرکو قرآن پڑھنا ایسا ہے کہ اس کی گواہی دی جاتی ہے۔اور مشہود کے ایک معنی حاضر ہونے کے لحاظ سے یہ مفہوم بھی لیا گیا کہ اس تلاوت کے وقت فرشتے حاضر ہوتےاور یوں اضافۂ نور کا موجب بنتے ہیں۔رسول کریمﷺ کو تو یہ نور وافر عطا ہوا تھا اور آپ کے پاس رمضان کی ہر رات کو جبریل آکر قرآن سنتے اور سناتے تھے۔اور ہر رمضان میں قرآن کا ایک دور مکمل کرتے تھے۔زندگی کے آخری رمضان میں آپؐ نےتو دو دفعہ قرآن کا دور مکمل کیا۔الغرض قرآن کریم کی رمضان کے مقاصد سے خاص مناسبت ہےا س لیے رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ رمضان اور قرآن دونوں قیامت کے دن بندے کی شفاعت کریں گے۔

(شعب الایمان للبیھقی جزء3صفحہ378)

قرآن کریم جورمضان میں اترا،روحانی بیماریوں سے شفا کا بہترین ذریعہ ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُمْ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ (يونس:58)

کہ اے انسانو!یقیناًتمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت کی بات آچکی ہے۔اسی طرح جو بیماری سینوں میں ہے اس کی شفاء بھی۔اور مومنوں کے لیے ہدایت اور رحمت بھی۔

اورجولوگ تدبّر سے قرآن نہیں پڑھتے ان کے بارہ میں اللہ نے فرمایا:

أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا(سورةمحمد: 25)

کیا یہ لوگ قرآن پر غوروفکر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے ہیں۔

پس روحانی بیماریوں کے علاج کے لیے رمضان میں خاص طور قرآن شریف کی تلاوت اور اس کا ترجمہ و تفسیر پڑھ کر مطالب و احکام قرآنی سے آگاہی بہت ضروری ہے۔اس مقصد کے حصول میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ کا یہ نسخہ آج کل کے ماحول میں بہت کار آمد ہے۔فرمایا:

‘‘پھر قرآن کریم کے پڑھنے کا ڈھنگ یہ ہے کہ ایک بار شروع سے لے کر آخر تک خود پڑھے اور ہر ایک آیت کو اپنے ہی لیے نازل ہوتا ہوا سمجھے۔ آدم و ابلیس کا ذکر آئے تو اپنے دل سے سوال کرے کہ میں آدم ہوں یا شیطان۔اسی طرح قرآن کریم پڑھتے وقت جو مشکل مقامات آویں۔ ان کو نوٹ کرتے جاؤ۔ جب قرآن شریف ایک بار ختم ہو جائے تو پھر اپنی بیوی کو اور گھر والوں کو اپنے درس میں شامل کرو۔ اور ان کو سُناؤ۔ اس مرتبہ جو مشکل مقام آئے تھے انشاء اللہ تعالیٰ ان کا ایک بڑا حصہ حل ہو جاوے گا اور جو اب کے بھی رہ جائیں ان کو پھر نوٹ کرو۔اور تیسری مرتبہ اپنے دوستوں کو بھی شامل کرو اور پھر چوتھی مرتبہ غیروں کے سامنے سناؤ۔ اس مرتبہ انشاء اللہ سب مشکلات حل ہو جائیں گی۔مشکل مقامات کے حل کے واسطے دعا سے کام لو۔’’

(حیات نور باب چہارم صفحہ 252)

پھراصل مرحلہ احکام قرآنی کی معرفت کے بعد روزمرہ زندگی میں ان پر عمل پیرا ہونا ہے جس کے نتیجہ میں حقیقی نور میسر آتا ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓنے ایک حکم قرآنی کی تعمیل کی برکت ہی حصول نوربیان کی ۔آپ نے سورۃ النور کی آیت31قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِـمْ یعنی مومنوں سے کہہ دو کہ اپنی آنکھیں نیچی رکھیں کی تفسیر میں مولوی محمد اسماعیل صاحب شہیدؒ کا یہ قول نقل فرمایا ‘‘اگر کسی حسین پر پہلی نظر پڑ جائے تو تم دوبارہ ہرگز اس پر نظر نہ ڈالو اس سے تمھارے قلب میں ایک نور پیدا ہوگا۔’’(حقائق الفرقان جلد 3صفحہ 213)

صحابہ رسول ﷺ نے بھی اس نورقرآن سےمنورہوکر ظاہری اور باطنی دونوں لحاظ سے وافر حصہ پایا تھا۔وہ ہرحکم قرآنی کو واجب التعمیل سمجھتے اور اس پر عمل کی سعی کرتے تھے۔سورة النور کا ایک اور حکم یہ ہے کہ کسی کے گھر میں داخل ہونے سے قبل اجازت لے لیا کرو اور اگر اجازت نہ ملے اورکہاجائے کہ و اپس چلے جاؤتولوٹ جاؤ کہ تمہارے لیے زیادہ پاکیزگی کا موجب ہے۔(سورة النور:28-29)

حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ مہاجرین مدینہ میں سے ایک (صحابیٔ رسولؐ) نے مجھے بتایا کہ میں نے عمربھر اس آیت پر عمل کرنے کی خواہش کی مگر اس میں کامیاب نہیں ہوسکا۔تمنا یہ تھی کہ میں اپنے کسی بھائی کے پاس جاکر اندر جانے کی اجازت مانگوں اور وہ مجھے کہے کہ واپس چلے جاؤ اور میں اس قرآنی حکم کے مطابق واپس لوٹ جاؤں اور میرے اس اشتیاق کی وجہ اس حکم پر عمل کے نتیجہ میں اس برکت کا حصول تھا جو اللہ فرماتا ہے کہ یہ بات (یعنی واپس لوٹ جانا)تمہارے لیے زیادہ پاکیزگی کا موجب ہے۔(الدر المنثور للسیوطی تفسیر سورة النور زیر آیت20)

ظاہری نور کے نشان کی ایک مثال حضرت اسید بن حضیرؓ کا یہ واقعہ ہے کہ وہ ایک رات کو نماز تہجد میں سورۃ الکہف کی تلاوت کر رہے تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ ان کے سامنے ایک سائبان میں روشنیاں اور قمقمے ہیں۔صبح جب رسول کریمﷺ سے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا :یہ تو فرشتے تھے جو خوش الحانی سے تمہاری تلاوت قرآن سن کر قریب آگئے تھے اور انہوں نے چراغوں اور قمقموں کا روپ دھار لیا تھا اور اگر تم تلاوت جاری رکھتے تو دن چڑھ جانے پر بھی دنیا اس نور کا نظارہ کرتی کہ تمہاری تلاوت کے دوران آسمان سے نور نازل ہو رہا ہے اور قمقمے جگ مگ کر رہے ہیں۔

(بخاری فضائل القرآن کتاب نزول السکینۃ)

تنویر قلب اورمحبت واطاعت رسولؐ

سچے اور حقیقی ایمان کی ایک علامت محبت رسول ہے جس کے نتیجہ میں سچی اطاعت کی توفیق ملتی اورنور قلب میں اضافہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم اللہ کی محبت چاہتے ہو تومحمد مصطفیٰﷺ کی اتباع کرو۔(آل عمران:32)رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ کوئی شخص حقیقی مومن نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ میں اسے اس کے والدین اور اولاد سے زیادہ پیارا اور محبوب نہ ہو ں۔(بخاری کتاب الایمان)پس اگرانسان کو محبت رسول نصیب ہو جائے تو رسول اللہ ﷺ کی اتباع میں رمضان گزارنے کی توفیق بھی عطا ہو جائے گی۔لہذا رمضان المبارک کےمہینہ میں خصوصاًاتباع رسول کی بہت سعی کرنی چاہیے۔حضرت مسیح موعود ؑ نے تو فرمایا ہے:(رسول اللہﷺ) کے زیر سایہ دس دن چلنے سے وہ روشنی ملتی ہے جو پہلے اس سے ہزار برس تک نہیں مل سکتی تھی۔

(سراج منیر،روحانی خزائن جلد12صفحہ 82)

اور یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ ہمارے آقاومولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺکی پیروی کی برکت سے صحابہ کرامؓ کو بھی ایمانی بصیر ت کے اس نور کی نشانی کے طو ر پر ظاہری اورباطنی ہر دو رنگ میں یہ نور عطا کیا گیا۔ایک مثال حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے مسجد میں دوران خطبہ فرمایا: لوگو! بیٹھ جاؤ۔حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ مسجد کے باہر تھے۔آواز کان میں پڑی وہیں بیٹھ گئے۔رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تمہاری اطاعت خدا اوررسول کا یہ جذبہ اوربڑھائے۔(اصابہ جزء4صفحہ66)

رسول اللہﷺ جب حضرت عبد اللہؓ کے بارہ میں یہ فرماتے کہ وہ کتنا اچھا آدمی ہے(اصابہ جزء4صفحہ66)تو ان کا دل نورو سرور سے بھرجاتاہوگا۔

ان اصحاب میں سے دو اَورروشن ستارے حضرت اسیدؓ بن حضیر انصاری اور حضرت عبادؓ بن بشر تھےجواپنے آقا و مولیٰ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں ایک شب دیرتک مشاورت کے لیے حاضر خدمت رہے،واپس لوٹے تو رات تاریک تھی،دونوں صحابہ کے پاس اپنی اپنی لاٹھی تھی انھوں نے دیکھا کہ ان کی لاٹھیوں سے ایک روشنی نکل کر راستہ دکھا رہی ہے۔اسی روشنی میں ہی وہ اپنے گھر پہنچے تو وہ روشنی جدا ہو گئی۔(بخاری کتاب مناقب الانصار۔باب اسید بن حضیر) یہ وہ ظاہری اور علامتی نور تھا جو صحابہ کو نور بصیرت کے ساتھ بطور علامت عطا کیاگیا۔

حضرت عائشہؓ ان دونوں صحابہ کے بارہ میں فرمایا کرتی تھیں کہ انصار میں سے قبیلہ بنی عبد الاشہل کے ان اصحاب سے(رسول کریمﷺ کے بعد) کوئی افضل نہیں۔یعنی اطاعت و محبت رسولؐ کے لحاظ سے ان کا مقام دیگر انصار سے بڑھ کر ہے۔

(مستدرک حاکم جزء 3صفحہ254)

پس تنویر قلب کےلیے جملہ عبادات میں رسول اللہﷺ کانمونہ پیش نظررکھتے ہوئے رمضان گزارنے کی سعی کرنی چاہیے۔

تنویر قلب اوردعاوذکرالٰہی

قرآن شریف میں روزہ کے مقاصد بیان کرنے کے بعد قبولیت دعا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوْالِي وَلْيُؤْمِنُوْا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ۔(البقرۃ:187)

یعنی وہ لوگ جو مقاصد رمضان کے حصول کے ساتھ دعائیں بھی کرتے ہیں تو میں ان کی دعائیں قبول کرتا ہوں۔بشرطیکہ وہ بھی میرے حکموں کو مانتے ہوئے مجھ پر ایمان لائیں تاکہ رشد و ہدایت ان کو نصیب ہو۔

رمضان میں سحری کے وقت اٹھ کر نماز تہجد کی ادائیگی کی توفیق ملتی ہے۔یہ قبولیت دعا کا بہترین وقت ہوتا ہے۔حدیث میں آتا ہے کہ جب رات کا پہلا تہائی حصہ گزرجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ ورلے آسمان پر آکر فرماتا ہے میں بادشاہ ہوں کوئی ہے جو مجھ سے دعا کرے اور میں قبول کروں ،جو مجھ سے مانگے اور میں اسے عطا کروں۔کون ہے جو مجھ سے بخشش چاہے اور میں اسے بخش دوں۔

(مسلم کتاب ٍصلوٰة المسافرین و قصرھا باب الترغیب فی الدعاء)

رسول اللہﷺ کا نمونہ ماہ رمضان میں قیام نماز اور تہجد و نوافل کے لیے معمول سے کہیں بڑھ کر ہوتا تھا اور اگرچہ روزانہ تہجد کی رکعات تو گیارہ ہی رہتی تھیں مگر ان کا حسن اور طوالت اور ان میں توجہ الی اللہ و خشیت بہت بڑھ جاتی تھی۔اس کےعلاوہ روزہ کی حالت میں عموماً اور افطار کے وقت خصوصا ًقبولیت دعا کا وقت ہو تا ہے۔ اور دیگر دعاؤں کےساتھ خداتعالیٰ کے حضور تنویر قلب کےلیے یہ دعا بہت کثرت سے کرنی چاہیےجوخوداللہ تعالیٰ نے تنویرقلب کے لیے سکھائی ہے:

رَبَّنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُـوْرَنَا وَاغْفِرْ لَنَا ۖ اِنَّكَ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيْرٌ(التحریم :9)

کہ اے ہمارے ربّ! ہمارے لیے ہمارے نور کو مکمل کردے اور ہمىں بخش دے ىقىناً تو ہر چىز پر جسے تُو چاہے دائمى قدرت رکھتا ہے۔

اللہ تعالیٰ دعاؤں کے نتیجہ میں نور کے ظاہری و باطنی نشانات عطا فرماتا ہے۔جن سے دل نوراورمحبت الٰہی سے لبریزہوجاتے ہیں۔یہاں ایک ظاہری نشان کا تذکرہ کافی ہوگا۔یمن کے قبیلہ دوس کے سردار حضرت طفیل بن عمروؓ اسلام قبول کرنے کے بعد جب اپنی قوم کی طرف لوٹے تو رسول کریمﷺ سے دعا کی درخواست کی کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنی قوم کے مقابل کوئی نشان عطا کرے۔نبی کریمﷺ نے اسی وقت یہ دعا کی کہ اے اللہ! اسے کوئی نشان عطا فرمانا۔وہ بیان کرتے ہیں کہ وطن واپسی پر جب میں اس پہاڑی کی گھاٹی پر پہنچا جہاں آبادی کا آغاز ہوتا ہے تو میری آنکھوں کے درمیان پیشانی پر ایک چراغ جیسی روشنی محسوس ہونے لگی۔میں نے دعا کی کہ اے اللہ! یہ نشان میرے چہرے کی بجائے کہیں اور ظاہر فرمادے تو روشنی کا یہ نشان میری سواری کے چابک(چھڑی) کے سرے پر ظاہرہوگیا۔اور جب گھاٹی سے اترا تو لوگ میری اس روشنی کو ایک معلّق چراغ کی طرح دیکھ رہے تھے اور بالآخر اللہ تعالیٰ نے اس نشان کو قبیلہ دوس کی ہدایت کا ذریعہ بنادیا۔

(الاصابة فی تمییز الصحابة جلد3صفحہ521)

پس رمضان میں کثرت سے دعائیں اور ذکرالٰہی کرنا چاہیے۔استغفار،درودشریف کی کثرت کے ساتھ تسبیح و تحمید و تکبیر اور چند دعائیں آج کل کے حالات کی مناسبت سے کی جائیں۔مثلاً

یَا حَفِیْظُ یَا عَزِیْزُ یَا رَفِیْقُ۔ یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ أَسْتَغِیْثُ۔ رَبِّ کُلُّ شَیْئٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنَا وَانْصُرْنَا وَارْحَمْنَا

(یعنی اے میرے رب! ہر ایک چیز تیری خادم ہے۔ اے میرے رب! ہمیں اپنی حفاظت میں رکھ اورہماری مدد کر اور ہم پر رحم کر)اورلاَ حَولَ وَلَا قُوَّۃَاِلَّا بِاﷲِ العَلِیِّ العَظِیمِ(یعنی کسی کو کوئی قوت اور طاقت حاصل نہیں سوائے اﷲ کے جو بہت بلند شان والااور بڑی عظمت والا ہے)۔

الغرض رمضان المبارک برکتوں کا وہ نورانی مہینہ ہے جس میں حقیقی طور پر داخل ہونے والا مومن نورانی وجود بن کر اس سے نکلتا ہے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب رمضان داخل ہوتا ہے تو جنت اور رحمت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔(بخاری کتاب الصوم)اور رمضان کے اختتام کے بارہ میں فرمایا کہ اس کے آخر میں انسان آگ سے آزاد ہو کر باہر نکلتا ہے۔(مشکوۃ المصابیح کتاب الصوم)اوریہ کہ ایک رمضان دوسرے رمضان تک گناہوں کی معافی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔(صحیح مسلم کتاب الطھارة بَابُ الْصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ…الخ) نیزفرمایا اگر رمضان سلامت گزر جائے تو سمجھو پورا سال سلامت ہے۔ (شعب الإيمان للبیھقی جزء5صفحہ285) اس لحاظ سےرمضان میں خصوصیت سے تنویر قلب کی وہ دعا کرنی چاہیے جو رسول کریم ﷺ تہجد کے وقت کیاکرتے تھے:

اللّٰهُمَّ اجْعَلْ فِىْ قَلْبِىْ نُوْرًا وَّفِىْ بَصَرِىْ نُوْرًا وَّفِىْ سَمْعِىْ نُوْرًا وَّعَنْ يَّمِيْنِىْ نُوْرًا وَّعَنْ يَّسَارِيْ نُوْرًا وَّفَوْقِىْ نُوْرًا وَّتَحْتِىْ نُوْرًا وَّ اَمَامِىْ نُوْرًا وَّخَلْفِىْ نُوْرًا وَّ اجْعَلْ لِّیۡ نُوْرًا۔(بخاری کتاب الدعوات۔باب الدعاء اذا انتبہ بالیل)

یعنی اے میرے اللہ میرے دل میں نور پیدا کر دے اور میری آنکھوں میں نور بخش اور میری سماعت کو نور دےاور میرے دائیں بھی نور ہو اور بائیں بھی نور ہو۔اور میرے اوپر اور نیچے بھی نور ہو۔میرے مولیٰ! بس تو مجھے سراپا نور ہی بنا دے۔ آمین یا رب العالمین

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ رمضان کا حق ادا کرنے کی توفیق دے اور اس کی برکت سے رحمت و مغفرت نصیب فرماکر اپنے نوروافر سے حصہ عطا فرمائےاورموجودہ حالات میں ہمارے پیارے امام سیدنا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےجن دعاؤں کی طرف توجہ دلائی ہے ہمیں ان دعاؤں کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے جیساکہ حضورانورنے فرمایا:

‘ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے لیے دعاؤں کا راستہ کھلا ہے ۔ہمیں اس یقین کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے دعاؤں کا راستہ کھولا ہے اور خدا تعالیٰ دعائیں سنتا ہے۔ اگر خالص ہو کر اس کے آگے جھکا جائے تو وہ قبول کرتا ہے ،کس رنگ میں قبول کرتا ہے یہ وہ بہتر جانتا ہے۔ اپنے لیے، اپنے پیاروں کے لیے، اپنے عزیزوں کے لیے، جماعت کے لیے اور عمومی طور پر انسانیت کے لیے دعائیں کرنی چاہئیں…آج کل دعاؤں، دعاؤں اور دعاؤں پر بہت زور دیں۔ اللہ تعالیٰ جماعت کے ہر فرد کو ہر لحاظ سے اور مجموعی طور پر جماعت کو بھی ہر لحاظ سے اپنی حفظ و امان میں رکھے۔اللہ تعالیٰ مجھے بھی اورآپ کو بھی دعائیں کرنے اور دعاؤں کی قبولیت سے فیضیاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔’

(خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍اپریل2020ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button