سیرت صحابہ کرام ؓ

صحابہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کا عشق رسولﷺ

(غلام مصباح بلوچ۔ استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)

سچے عاشقِ رسولؐ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قربت اور تربیت کا ثمرہ

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کی ایک اہم شہ سرخی ‘‘عشق رسولؐ’’ ہے، یہ بات ہر وہ شخص جانتا ہے جس نے آپؑ کی تحریرات اور سیرت کا مطالعہ کیا ہوا ہے۔ آپؑ کے اس وصف کو نہ صرف اپنوں نے مشاہدہ کیا بلکہ غیروں نے بھی اس کی شہادت دی، ایک مسیحی پادری J. Murray Mitchellحضرت اقدس علیہ السلام کے بارے میں لکھتا ہے:

‘‘Although Ghulam Ahmad never mentions the name of Mohammed without invoking the blessing of God upon him, yet on very important points he abandons the doctrines of the Koran.’’

(The Missionary Review of the World, Vol: XVII (new series) February 1904 page 98, Funk & Wagnallis Company New York)

یعنی گو کہ(حضرت مرزا) غلام احمد کبھی بھی محمد (ﷺ) کا نام آپؐ پر درود پڑھے بغیر نہیں لیتے مگر پھر بھی بعض اہم باتوں میں قرآنی عقائد کو بھی نہیں مانتے۔ (یہاں قرآنی عقائد کو نہ ماننے سے مراد وفات مسیحؑ اور جہاد وغیرہ جیسے مسائل ہیں۔ ناقل)۔ پس یہ ایک حقیقت ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا اپنے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت نہایت عظیم الشان، بے مثال اور قابل رشک ہےیہی تو وہ جام تھا جو لبا لب آپؑ نے اپنے دل کو پلایا تھا۔

محبت رسولؐ کا ہونا ایمان کا لازمی جزو ہے اور اگر یہ جزو مفقود ہو تو ایمان بے معنی ہے۔ جس زمانے میں آپؑ مبعوث ہوئے اس میں مسلمانوں کے حُبّ رسولؐ کے زبانی دعوے تو تھے لیکن عملًا بدعات اور رسومات کی پیروی زیادہ حاوی تھی ، سنت نبویؐ کی اتباع کی بجائے اولیاء پرستی کو مدار نجات سمجھے بیٹھے تھے۔ کوئی حدیث کو قرآن پر مقدم کر رہا تھا اور کوئی سرے سے ہی حدیث کا منکر تھا۔ کوئی آپؐ کے لائے ہوئے انقلاب کو تلوار کا مرہون منت قرار دے رہا تھا تو کوئی اسلامی جنگوں پر مغربی حملوں کے سامنے معذرت خواہانہ رویہ اپنائے ہوئے تھا غرض آنحضرت ﷺ کی ذات کے متعلق مسلمان افراط و تفریط کا شکار تھے، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس ضمن میں فرماتے ہیں:

‘‘…اس میں کیا شک ہے کہ مدار نجات و رضامندی حضرت باری عزّ اسمہٗ ، اتباع رسول اللہ ﷺ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّٰـهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّٰـهُ لیکن اس دوسری بات میں بھی کچھ شک نہیں کہ آج کل جو دو گروہ اس ملک میں پائے جاتے ہیں جن میں سے ایک گروہ اہل حدیث یا موحد کہلاتے ہیں اور دوسرے گروہ اکثر حنفی یا شافعی وغیرہ ہیں اور دونوں گروہ اپنے تئیں اہل سنت سے موسوم کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک گروہ نے تفریط کی راہ لی اور دوسرے گروہ نے افراط کی اور اصل منشا نبوی کو یہ دونوں گروہ اس تفریط و افراط اور غلو کی وجہ سے چھوڑ بیٹھے ہیں۔’’(الحکم 24؍ستمبر 1901ء صفحہ 12)

آنحضور ﷺ کی قوت قدسیہ، روحانی فیض، مقام ختم نبوت، مقام قَابَ قَوْسَیْنِوغیرہ سے یہ لوگ غافل تھےاور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اس جملے کا مصداق تھے :

‘‘…افسوس کہ جیسا حق شناخت کا ہے اُس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا۔’’

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 119)

آپؑ نے آنحضور ﷺ کے فرمان ‘‘‏ لَوْ كَانَ الإِيْمَانُ عِنْدَ الثُّرَيَّا لَنَالَهُ رِجَالٌ أَوْ رَجُلٌ مِنْ هَؤُلاَءِ’’(بخاری کتاب التفسیر)کے مطابق ایمان کے اس پہلو کے احیاء میں بھی اہم کردار ادا کیا اور مسلمانوں کو آنحضرت ﷺ کے ارفع مقام و مرتبہ کی شناخت کرائی۔ آپؑ فرماتے ہیں:

‘‘اور میری حالت جو ہے وہ خداوند کریم خوب جانتا ہے اُس نے مجھ پر کامل طور پر اپنی برکتیں نازل کی ہیں اور اتّباع نبویؐ میں ایک گرم جوش فطرت بخش کر مجھے بھیجا ہے کہ تا حقیقی متابعت کی راہیں لوگوں کو سکھلاؤں اور اُن کو اُس علمی و عملی ظلمت سے باہر نکالوں جو بوجہ کم توجہی اُن پر محیط ہورہی ہے۔’’

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5صفحہ 34تا35)

ذیل میں چند صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقرار نامے درج کیے جاتے ہیں کہ کس طرح رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے اصل مقام و مرتبہ کی پہچان آپؑ کے ذریعے ہوئی۔

حضرت مولوی عبدالکریم سیالکوٹی صاحب رضی اللہ عنہ (وفات:11؍اکتوبر 1905ء) فرماتے ہیں:

‘‘اے میرے مرشد! میرے آقا مسیح موعودؑ! اللہ تعالیٰ کا سلام تجھ پر ہو …تیرے طفیل سے ہم نے خدا کو، قرآن کو اور حامل قرآن کو (علیہ افضل الصلوٰۃ و التسلیمات)پایا۔’’

(اصحاب احمد جلد اوّل صفحہ 28،جدید ایڈیشن)

حضرت نواب محمد علی خان صاحب رضی اللہ عنہ رئیس مالیر کوٹلہ(وصیت نمبر 137۔ وفات: 10؍فروری 1945ء) بیان کرتے ہیں:

‘‘… مرزا صاحبؑ نے آکر ہم پر خدا اور اسلام اور قرآن شریف حضرت محمد مصطفیٰ ؐکی اصل حقیقت روز روشن کی طرح کھول کر دکھلا دی اور وہ موہنی اور پیاری صورت ان چیزوں کی دکھلائی، وہ حسن و احسان دکھلایا(کہ) ہم کو ان کا عاشق بنا دیا۔ اب کوئی چیز ہم کو اس سے ہٹا نہیں سکتی۔ پھر پورا نمونہ حسن و احسان محمد مصطفیٰؐ اپنے عمل سے دکھایا کہ ہم لوگوں کو تمام طرف سے ہٹاکر …محمد مصطفیٰ ﷺ کا عاشق بنا دیا۔’’

(اصحاب احمد جلد دوم صفحہ 509، جدید ایڈیشن)

حضرت شہزادہ عبدالمجید صاحب لدھیانوی رضی اللہ عنہ (وفات: 23؍فروری 1928ء) نے ایک مرتبہ حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں لکھا:

‘‘میرے مولیٰ تونے تو خدا اور رسول کا پتہ دیا …ہم اِسمی اور رَسمی مسلمان تھے تُو نے ہی ہم کو حقیقی اسلام سے آگاہی بخشی … رسول خدا ﷺ کے انوار کا، اطوار کا، اخلاق کا، عادات کا، ریاضات کا، مجاہدات کا، محاربات کا کامل نمونہ آپ کی ذات میں مشاہدہ کرتے ہیں۔’’

(ایام الصلح، روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 376-378)

ہندومت چھوڑ کر اسلام قبول کرنے والے حضرت منشی عبدالرحیم شرما صاحب رضی اللہ عنہ (بیعت: 1904ء ۔ وفات: 25؍اکتوبر 1964ء) الٰہی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں:

‘‘اے میرے ربّ! … میرا علم اتنا کہاں تھا کہ میں جانتا کہ محمد ﷺ (میری جان ان پر فدا ہو) کون تھے؟ اور نبی کس کو کہتے ہیں؟ تونے خود میری مشکل کو حل کر دیا اور پکڑ کر ایک رہنما کے قدموں میں لا ڈالا اور اس منبع نور و ہدایت کی محبت سے میرے دل کو اس حد تک بھر دیا کہ میں بیعت کے لیے خود بخود کھنچا چلا گیا۔’’(اصحاب احمد جلد دہم صفحہ 69،جدید ایڈیشن)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رضائے الٰہی کے حصول کی کنجی ‘‘قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّٰـهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّٰـهُ’’(آل عمران:32) سے خود بھی بہت فائدہ اٹھایا اور بھٹکے مسلمانوں کو بھی اس سے آگاہی بخشی۔ آپؑ کے عشق رسولؐ کا نظارہ نہایت ہی ایمان افروز اور دل کش ہےجسے دیکھ کر دوسرے عاشقان رسولؐ دم بخود ہوجاتے ہیں اور آپؑ سے محبت رسولؐ کے انداز سیکھتے ہیں ۔چنانچہ آپؑ پر ایمان لانے والوں کا ایک بڑا طبقہ ایسا ہے جس نے آپؑ کے عشق رسولؐ سے اپنی محبت رسولؐ کی پیاس بجھائی ہے ۔عشق رسول ؐ سے پُر آپ کی تحریرات کا نمونہ جب متلاشیان حق تک پہنچا تو وہ بھی حضرت محمد ﷺ کے اس عاشق کے عشق میں گرفتار ہوگئے، سینکڑوں ایسے احباب تھے جو آپ کے اِس حسین پہلو کی وجہ سے سلسلہ بیعت میں داخل ہوئے، صرف دو مثالوں پر اکتفا کرتا ہوں۔ سونگھڑہ ضلع کٹک (صوبہ اڈیشہ۔ انڈیا) کے پہلے صحابی حضرت سید عبد الرحیم صاحب کٹکی رضی اللہ عنہ (وفات:12؍جنوری 1916ء) کی بیعت کے متعلق لکھا ہے کہ جب حضرت میر محمد سعید صاحب رضی اللہ عنہ آف حیدرآباد دکن نے انہیں ازالۂ اوہام پڑھ کر سنائی، شروع میں تو وہ کچھ کچھ لڑتے جھگڑتے رہے ۔ جلد اوّل کے ختم ہوتے ہی چپ ہو گئے اور جب ‘‘جائیکہ از مسیح و نزولش سخن رود’’ شروع ہوا تو پھر زار زار رونے لگے خصوصاً اس شعر پر

بعد از خدا بعشق محمدؐ مخمرم

گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم

حضرت میر صاحب قبلہ فرماتے ہیں کہ ازالۂ اوہام ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ مولوی صاحب لیٹے لیٹے اٹھ بیٹھے اور مجھے کہتے کہ مولوی صاحب اب دیر کیا ہے حق ظاہر ہو گیا ۔

(الحکم۔28؍مئی،7؍جون1939ء)

اسی طرح حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی رضی اللہ تعالیٰ عنہ (وفات 15؍دسمبر1963ء)اپنی بیعت کے پس منظر میں کتاب ‘‘آئینہ کمالات اسلام’’ کے مطالعے کی کیفیت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

‘‘جب میں نے نظموں کے اوراق پڑھنے شروع کئے تو ایک نظم اس مطلع سے شروع پائی :

عجب نوریست در جان محمدؐ

عجب لعلیست در کان محمدؐ

میں اس نظم نعتیہ کو اوّل سے آخر تک پڑھتا گیا مگر سوز و گداز کا یہ عالم تھا کہ میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہو رہے تھے۔ جب میں آخری شعر پر پہنچا کہ

کرامت گرچہ بے نام و نشان است

بیا بنگر ز غلمان محمدؐ

تو میرے دل میں تڑپ پیدا ہوئی کہ کاش ہمیں بھی ایسے صاحب کرامات بزرگوں کی صحبت سے مستفیض ہونے کا موقع مل جاتا ۔اس کے بعد جب میں نے ورق الٹا تو حضور اقدس علیہ السلام کا یہ منظومہ گرامی تحریر پایا :

ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکایا ہم نے

کوئی دیں دین محمدؐ سا نہ پایا ہم نے

چنانچہ اسے پڑھتے ہوئے جب میں اس شعر پر پہنچا کہ

کافر و ملحد و دجّال ہمیں کہتے ہیں

نام کیا کیا غم ملت میں رکھایا ہم نے

تو اس وقت میرے دل میں ان لوگوں کے متعلق جو حضور اقدس علیہ السلام کا نام ملحد و دجّال وغیرہ رکھتے تھے بےحد تاسف پیدا ہوا ۔ پہلا جملہ جو میری زبان سے حضور اقدس علیہ السلام کے متعلق نکلا وہ یہ تھا کہ دنیا بھر میں اس شخص کے برابر کوئی رسول اللہ ﷺ کا عاشق نہیں ہوا ہوگا ۔’’(حیات قدسی۔جلد اوّل،صفحہ16تا19)

عشق و سرور کی اس وجدی کیفیات سے پُر زندگی میں جب عیسائیوں اور آریوں کی طرف سے آنحضرت ﷺ کی ذات اطہر پر گستاخانہ اور بے باکانہ حملوں کی بات آپؑ کے علم میں آئی تو آپؑ کا دل بہت ہی مضطرب اور گداز ہوا اور آپؑ نے اپنے محبوب رسول ؐکی بابت کیے گئے اعتراضات کو جمع کرنا شروع کیا اور معترضین کو اُن کے تسلی بخش جوابات دے کر ہی دم لیا، آپؑ فرماتے ہیں:

‘‘ہمیں تو اسلام کی خوبیاں اور قرآن شریف کے منجانب اللہ ہونے کے دلائل دیتے اور ثبوت نبوت محمد ﷺ میں یہاں تک استیلا اور غلبہ ہے کہ ہمیں نہ کھانا اچھا لگتا ہے نہ پانی نہ نیند۔’’(تذکرۃ المہدی صفحہ 16)

چنانچہ امت مسلمہ کے وہ عاشقان رسولؐ جو آنحضور ﷺ پر لگائے جانے والے اعتراضات کی وجہ سے بے چین تھے اور جوابات کی تلاش میں مختلف علماء سے بھی مایوسی دیکھ چکے تھے، ان کے اطمینان اور خوشی کا باعث آپؑ کی ہی تحریرات ثابت ہوئیں۔ حضرت حافظ مختار احمد صاحب شاہجہانپوری رضی اللہ عنہ (وفات: 8؍جنوری 1969ء) بیان کرتے ہیں:

‘‘… مَیں اندرمن مرادآبادی کی کتابوں میں چند اعتراضات پڑھ چکا تھا، اُن میں سے یہ اعتراض مجھے بہت بے چین کرنے کا موجب ہوا کہ قرآن شریف میں نبی کریم ﷺ کے متعلق ضَال موجود ہے ۔ میں نے اپنے اس زمانے کی حالت کے مطابق بہت کوشش کی کہ مجھے اس کا صحیح حل معلوم ہو جائے …مگر تسلی بخش بات مجھے معلوم نہ ہوئی۔ جب محمد خان صاحبؓ (کپورتھلوی۔ ناقل) کی بھیجی ہوئی کتابیں عبدالکریم خان صاحب رسالدار میجر بہادر کے پاس پہنچیں تو … سب سے پہلے جن اوراق پر میرا ہاتھ پڑا وہ آئینہ کمالات اسلام کے اجزا تھے …سب سے پہلے جو صفحہ میرے سامنے آیا اس پر موٹے قلم سے لکھا تھا ‘‘وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَىٰ’’ (الضحیٰ: 8) اور یہ وہی چیز تھی جس کا میں دنوں سے متلاشی تھا ۔ میں نے وہیں سے پڑھنا شروع کر دیا اور آخر تک پڑھ گیا اور مجھے وہ راحت ، فرحت اور سرور حاصل ہوا جو الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتا۔اس مضمون نے میرے دل میں یہ امر راسخ کر دیا کہ صاحب مضمون نبی کریم ﷺ کے ساتھ عشق کے اس درجہ پر پہنچے ہوئے ہیں جس کی نظیر موجودہ لوگوں میں نہیں مل سکتی ۔ صرف اسی بات نے مجھے آپ کو راستباز اور صادق مان لینے پر مجبور کر دیا ۔ میری راہ میں نہ تو حیات و ممات کا مسئلہ حارج ہوا اور نہ نزول کا …آئینہ کمالات اسلام نے میرے خیالات کو بہت پختہ کر دیا کیونکہ و ہ ساری کی ساری کتاب نبی کریم ﷺ کے محامد اور اوصاف سے پر ہے ۔ اسی رنگ میں کہ نہ اس سے پہلے میں نے یہ انداز کسی کی تصنیف میں پایا اور نہ اس کے بعد ۔’’

(رجسٹر روایات صحابہ نمبر13،صفحہ92تا94)

آنحضرت ﷺ پر لگائے جانے والے اعتراضات کے جواب میں غیرت رسولؐ میں لکھی گئی آپؑ کی ایک کتاب ‘‘نور القرآن حصہ دوم’’بھی ہے ،حضرت ڈاکٹر پیر رحمت علی نوشاہی صاحب رضی اللہ عنہ آف رنمل ضلع گجرات (وفات: 10؍جنوری 1904ء) بیان کرتے ہیں:

‘‘مجھے اس امام صادق کی ایک کتاب نورالقرآن حصہ دوم کے دیکھنے کا اتفاق ہوا جس کے پڑھنے کے بعد ہی میں نے خدا کے فضل سے امام کی بیعت کر لی اور مجھے دوسری کتاب کے دیکھنے کی اُس وقت ضرورت نہ پڑی کیونکہ اس کتاب میں اس جری اللہ نے اپنے نبی کریم ﷺ کی عزت کے لیے ایسی غیرت ظاہر کی ہے کہ جب تک کوئی فنا فی الرسول نہ ہو ہرگز نہیں دکھا سکتا۔’’

(ضمیمہ اخبار بدر 28؍نومبرو 5؍دسمبر 1902ء صفحہ 2)

اصحاب احمدؑ کی یہ چند مثالیں ہیں جنہوں نے حضرت اقدس علیہ السلام کی تحریرات سے ہی اپنی محبت رسولؐ کی پیاس بجھائی، گو کہ محبت رسولؐ فطرتًا اُن کے دلوں میں موجود تھی لیکن اس عاشق رسولؐ کی محبت دیکھ کر یہ محبانِ رسولؐ حبّ رسول کے مزید اسباق سیکھنے کے لیے آپؑ کے پیچھے ہو لیے۔ حضرت اقدسؑ کے عشق رسولؐ کا رنگ ان صحابہ نے ابھی صرف تحریرات میں ہی دیکھا تھا لیکن جب یہ صحابہ آپؑ کی صحبت میں آ کر رہے تو عشق رسولؐ کے اور بھی ایمان افروز نظارے مشاہدہ کیے۔آپؑ کا ذرّہ ذرّہ عشق محمد میں فنا تھا، اللہ تعالیٰ کی محبت کے بعد آپ کے دل میں حضرت محمد ﷺ کی بے انتہا اور لازوال محبت تھی، آپؑ کا اکثر وقت ذکر الٰہی کے ساتھ ساتھ کثرت سے درود شریف کے پڑھنے میں گذرتا۔ حضرت حافظ محمد ابراہیم صاحب رضی اللہ عنہ (وصیت نمبر2737۔ وفات: مارچ 1948ء مدفون فیروزوالہ ضلع گوجرانوالہ) بیان کرتے ہیں:

‘‘آنحضرت ﷺ کا اسم گرامی جب بھی آپ لیا کرتے تو فرمایا کرتے تھے: ‘‘ہمارے آنحضرت ﷺ۔ بہت دفعہ کثرت سے میں نے حضور علیہ السلام کی زبان مبارک سے آنحضرت ﷺ کا ذکر سنا جب بھی آپ ذکر کیا کرتے تھے تو فرمایا کرتے تھے: ہمارے آنحضرت ﷺ ’’(الحکم 7 ؍مارچ 1935ء صفحہ 3کالم 2)

حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ (وفات: 13؍جنوری 1957ء) بیان کرتے ہیں:

‘‘لدھیانہ میں ٹمپرنس سوسائٹی (Temperance Society) کا جلسہ تھا اُس میں حضرت اقدس بھی چلے گئے، مختلف فرقوں کے لوگ جمع تھے۔ حاضرین کے عمائد نے بہت اصرار کیا کہ آپ بھی کچھ تقریر فرمائیں مگر آپ نے ان کی درخواست کو باوجود اصرار کے منظور نہ فرمایا۔ جب ڈیرے پر تشریف لائے تو پوچھا گیا کہ حضور نے تقریر کیوں نہ فرمائی؟ ارشاد کیا اگر میں تقریر کرتا تو ضرور تھا کہ میں بیان کرتا شراب سے روکنے والوں کا سردار محمدؐ رسول اللہ ہے، اس کی ان لوگوں نے اجازت نہ دینی تھی اور میں اس تقریر کو جس میں میرے آقا کا نام لیا جانے کی اجازت نہ ہو، پسند نہیں کرتا۔’’

(الفضل 24؍اگست 1922ء صفحہ 2کالم 1,2)

‘‘آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کون سی ادا پیاری لگی؟’’کے جواب میں حضرت بابو محمد اسماعیل صاحب ریٹائرڈ سٹیشن ماسٹردھرم پورہ لاہور (وفات: 16؍اکتوبر 1966ء مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ) بیان کرتے ہیں:

‘‘مجھے حضور علیہ السلام کا وہ کلام جو رسول اللہ ﷺ کی شان میں ہے اور حضور کا وہ عشق جو حضور کو سرور کائنات ﷺ سے تھا، بہت پیارا لگتا ہے۔’’(الحکم 26؍مئی 1935ء صفحہ 24کالم3)

عشق رسولؐ کے پیار بھرے یہ سبق جہاں آپؑ نے باہر دنیا کو سکھائے وہاں گھر میں بھی اپنے بچوں میں بچپن ہی سے آنحضور ﷺ کےواقعات اور آپؐ کے اعلیٰ اوصاف کے ذریعہ حضرت نبی اکرم ﷺ کی محبت کا درس دیا، حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ رضی اللہ عنہا (وفات: مئی 1977ء) بیان کرتی ہیں:

‘‘… مَیں نے کبھی نہیں دیکھا کہ آپؑ رسول کریم ﷺ کا ذکر کرتے ہوں اور آپؑ کی آنکھیں اشک آلود نہ ہوگئی ہوں … خود میرے دل میں بھی بہت چھوٹی عمر میں آپؑ کے اثر سے بہت ہی محبت اللہ تعالیٰ کے لیے پیدا ہوتی تھی اور حضرت رسول اللہ ﷺ کو دیکھنے کو دل تڑپا کرتا تھا۔ سنا تھا کہ آپؐ کو ٹھنڈا دودھ پسند تھا تو مَیں سوچا کرتی تھی کہ کسی طرح برف اور کیوڑہ ڈال کر ٹھنڈے دودھ کا گلاس مَیں آپ کو پلا دوں۔

بے شک میری یہ بچپن کی نادان سوچیں تھیں مگر دیکھنا یہ ہے کہ یہ کس وجود کی باتوں کا اثر تھا۔’’(الفضل 3؍جنوری 1974ء صفحہ 3)

عاشق رسولؐ باپ کی اس عظیم بیٹی کی شاعری بھی عشق رسول ﷺ میں ڈوبی ہوئی ہے جو آپ کی دلی محبت اور پیار کی مظہر ہے، آپ کا یہ پیارا شعر زبان زد عام ہے

بھیج درود اُس محسن پر تو دن میں سو سو بار

پاک محمدؐ مصطفیٰ سب نبیوں کا سردار

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے زیر سایہ پروان چڑھنے والے حضرت میر محمد اسحاق صاحب رضی اللہ عنہ (ولادت: 1890ء ۔ وفات: 17؍مارچ 1944ء) بھی تھے ، آپؑ کے عشق رسولؐ کا ہی اثر تھا جس نے بچپن سے ہی حضرت میر صاحبؓ کے دل میں آنحضور ﷺ کی محبت کا جوش پیدا کیا، حضرت میر صاحب لکھتے ہیں:

‘‘مجھے خدا کی بزرگ کتاب قرآن مجید کے بعد حضور رسول مقبول ﷺ کی احادیث سے عشق ہے اور سرورِ کائنات کا کلام میرے لیے بطور غذا کے ہے کہ جب تک روزانہ اچھی غذا نہ ملنے کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا اسی طرح بغیر سید کونین کے کلام کو ایک دو دفعہ پڑھنے کے میری طبیعت بے چین رہتی ہے۔ جب کبھی میری طبیعت گھبراتی ہے تو بجائے اس کے کہ میں باہر سیر کے لیے کسی باغ کی طرف نکل جاؤں مَیں بخاری یا حدیث کی کوئی اور کتاب نکال کر پڑھنے لگتا ہوں اور مجھے اپنے پیارے آقا کے کے پیارے کلام کو پڑھ کر خدا کی قسم وہی تفریح حاصل ہوتی ہے جو ایک غم زدہ گھر میں بند رہنے والے کو کسی خوشبودار پھولوں والے باغ میں سیر کر کے ہو سکتی ہے اور میری تو یہ حالت ہے کہ

باغ احمدؐ سے ہم نے پھل کھایا

میرا بستاں کلام احمدؐ ہے’’

(الفضل 20؍دسمبر 1940ء صفحہ 4)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عشق رسولؐ کے جو طریق صحابہ کو سکھائے تھے اُن میں سے ایک درود شریف کا کثرت سے ورد بھی ہے بلکہ آپؑ نے شرائط بیعت کی تیسری شرط میں حتی الوسع نبی کریم ﷺ پر درود بھیجنے میں مداومت اختیار کرنے کو بھی شامل فرمایا۔ وہ لوگ جو آپؑ کی بیعت سے قبل پیروں فقیروں اور گدی نشینوں کے بتائے ہوئے بدعتی وظیفوں، چلّوں اور نذر نیاز کے چڑھاووں کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھےبلکہ خود ایسے بعض گدی نشین جو تعویذ کیا کرتے تھے آپؑ کی بیعت میں آنے کے بعد ان چیزوں سے نکل کرحقیقی ذکر تسبیح و تحمید اور درود شریف کے عادی ہوگئے۔ طوالت کے ڈر سے اُن تفصیلات کا یہاں ذکر نہیں کیا جارہا ورنہ درود شریف کی اہمیت و برکات کے متعلق بھی آپؑ کی تعلیم و تاکید نہایت ایمان افروز ہے، اسی تعلیم و تربیت کا ثمرہ تھا کہ صحابہ کی ایک جماعت نے (جس میں بعض بعد کے مخلصین بھی شامل تھے) بڑی محبت اور محنت سے ایک رسالہ ‘‘درود شریف’’ بطور ہدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کیا اور دعا کی درخواست کی کہ ‘‘اس کے ذریعہ سے تمام عالم میں آنحضرت ﷺ کے احسانات کو یاد کر کے نہایت محبت اور کمال اخلاص سے آپؐ پر آپ کے مدارج اور مراتب کی ترقی کے لیے اور آپؐ کی کامیابیوں کے واسطے درود اور سلام بھیجنے کی ایک نہایت پُر زور اور کبھی نہ ختم ہونے والی اور ہر آن میں بے حد ترقی کرنے والی تحریک پیدا ہوجائے ’’

(رسالہ درود شریف مرتبہ حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب حلا لپوری رضی اللہ عنہ صفحہ ج)

اس کے ساتھ ہی اس محسن جس نے کہ آنحضور ﷺ کے حقیقی مقام و مرتبہ سے روشناس کرایا تھا، کا ذکر بھی ان الفاظ میں شامل فرمایا کہ

‘‘آپؐ کے مظہر اتم اور بروز اکمل حضرت مسیح موعود …. جن کے ذریعہ سے ہمیں آپؐ کے محاسن اور احسانات کا پتہ چلا اور جن کے طفیل آج تیرہ سو سال کے بعد دوبارہ آپؐ کا نورانی چہرہ اپنی حقیقی شان کے ساتھ دنیا کے سامنے جلوہ گر ہوا ہے۔’’

جیسا کہ اوپر ذکر ہوا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عشق رسولؐ کا ایک رنگ آنحضور ﷺ کی خاطر انتہائی غیرت کی صورت میں تھا اور اسی غیرت رسولؐ میں آپؑ نے اپنے پیارے محبوب ﷺ پر لگائے جانے والے اعتراضات کے جوابات دیےاور معترضین کے ردّ تحریر فرمائے۔ غیرت رسولؐ کی یہی روح آپؑ نے اپنی جماعت میں بھی پیدا فرمائی تھی، حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کے نام ایک مکتوب میں آپؑ تحریر فرماتے ہیں:

‘‘آج ہمارے مخالف ہمارے مقابلہ پر ایک جان کی طرح ہو رہے ہیں اور اسلام کو صدمہ پہنچانے کے لیے بہت زور لگا رہے ہیں۔ میرے نزدیک جو شخص میدان میں آتا ہے اور اعلائے کلمۃ الاسلام کے لیے فکر میں ہے وہ پیغمبروں کا کام کرتا ہے۔’’(مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ 43۔ مکتوب محررہ 26؍جولائی 1887ء)

چنانچہ اپنے مرشد و مطاع حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے غیرت رسولؐ کے یہ سبق سیکھ کر صحابہ نے بھی ہر سطح پر اپنے پیارے رسول ﷺ کے خلاف لگائے جانے والے الزامات کا جواب دیا اور معترضین کا جھوٹ اور دجل ظاہر کر کے آنحضورﷺ کا حقیقی چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا۔ آسٹریلیا میں احمدیت قبول کرنے والے سب سے پہلے بزرگ حضرت محمد حسن موسیٰ خان صاحبؓ (بیعت: 1903ء، آسٹریلیا جیسے دور ملک میں رہنے کی وجہ سے زیارت نہ کرسکے۔ وفات: 18؍اگست 1945ء مدفون پرتھ آسٹریلیا) آسٹریلیا میں اسلام احمدیت کے ایک پُر جوش مبلغ تھے۔ 1924ء میں آسٹریلوی شہر Perthسے شائع ہونے والے اخبار The Western Mailنے اپنے شمارے 25؍دسمبر میں Xmasنمبر شائع کیا جس کے Advertising حصے کے صفحہ نمبر 13 پر Boans Limited نامی ایک کمپنی نے اپنے اشتہار میں ایک خیالی تصویر کے ساتھ یہ محاورہ استعمال کیا کہ

“The mountain would not go to Mahomet, so Mahomet must perforce go to the mountain.”

(یہ ضرب المثل مستشرقین نے آنحضرت ﷺ کے خلاف ایک جھوٹے اور من گھڑت واقعہ کی بنیاد پر بنائی ہے کہ ایک دفعہ محمد (ﷺ) نے کفار کو کہا کہ میں اس پہاڑ کو آواز دے کر اس کے میرے پاس چل کر آنے کا معجزہ دکھا سکتا ہوں، جب آپؐ نے آواز دی اور پہاڑ چل کر نہ آیا تو محمد (ﷺ) نے کہا کہ کوئی بات نہیں اگر پہاڑ چل کر میرے پاس نہیں آ سکتا تو میں چل کر اس کے پاس چلا جاتا ہوں۔) اپنے پیارے رسول ﷺ کے خلاف ایسے الفاظ دیکھ کر حضرت محمد حسن موسیٰ خان صاحبؓ نے کمپنی کے مالک کو غیرت رسولؓ سے بھرا ہوا درج ذیل خط لکھا:

“……. If they desire to use the phrase as a mere figure of speech, they should subsitute the word “Jesus” for that of “Mahomet”, because it was Jesus Christ who claimed to remove the mountain by the power of faith. Jesus Christ is reported in the Holy Gospels to have said to his disciples:

“If ye shall say unto the mountain, Be thou removed, and be thou cast into the sea, it shall be done.”- St. Matthew, chap 21, V.21.

Unfortunately, it is not recorded in the New Testament anywhere whether Jesus Christ or any of his followers ever performed that feat or miracle of making the mountain move from its place by the power of faith only. The modern Christians are removing the mountains by means of explosives and not by Christian faith.”

ایسا منہ توڑ جواب ملنے پرمشتہر کمپنی کے مینیجنگ ڈائریکٹر نے معذرت کا خط لکھتے ہوئے آپ کو لکھا:

We must express our regret that the religious feelings of the Mohammedans have been injured.

(History of Islamism in Australia, From 1863–1932 by Mohammed Hasan Musakhan page 59,60)

ستمبر 1950ء میں یو این او (UNO) کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل Benjamin A. Cohen (وفات: مارچ 1960ء) نے ایک ٹیلی وژن پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے مندرجہ بالا محاورہ کا استعمال کیا، جس پر اس وقت کے پاکستانی وزیر خارجہ حضرت چودھری ظفر اللہ خان صاحبؓ نے مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے یونائیٹڈ نیشنز کے سیکرٹری جنرل کو شدید احتجاج کا خط لکھا جس پر مسٹر Cohen نے اپنے فعل پر ندامت اور معذرت کا اظہار کرتے ہوئے اگلے ٹی وی پروگرام میں اس کی تصحیح کا وعدہ کیا۔

(سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور۔ 20؍اکتوبر 1950ء)

ایسی اور کئی مثالیں تاریخ میں مرقوم ہیں کہ اپنے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے خلاف لگائے جانے والے بے بنیاد الزامات کے ردّ میں جماعت احمدیہ فوری طور پر میدان میں اتری ہے۔اس ضمن میں جہاں صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنا فرض ادا کیا ہے وہاں صحابیات بھی کسی سے پیچھے نہیں رہیں، محترمہ مسعودہ بیگم صاحبہ اپنی والدہ حضرت حسین بی بی صاحبہؓ (وفات: 24؍ستمبر 1921ء) زوجہ حضرت مولوی محمد علی بدوملہوی صاحب رضی اللہ عنہ کے متعلق بیان کرتی ہیں:

‘‘میرے بھائی ظفر اسلام صاحب گودی میں بیمار ہوگئے۔ والدہ صاحبہ ان کو شفاخانہ نارووال میں لے گئیں۔ مشن کے پاس پہلے جو عورت پیش ہوئی اس کے بچے کا نام محمد دین تھا پھر جب اِن کی باری آئی تو انہوں نے اپنے فرزند کا نام ظفر اسلام بتلایا، اس پر مِس نے کہا کہ محمدؐ اور اسلام نے ہی تو ڈبویا ہے۔ یہ اُسی وقت اپنے بچے کو لے کر اٹھ کھڑی ہوئی اور غصے اور زور سے کہا محمدؐ اور اسلام نے ہمیں تارا ہے، میں تجھ سے علاج نہیں کراؤں گی، میرا وہ مولا جس نے محمدؐ کو رسول کر کے اور اسلام دے کر بھیجا ہے وہ میرے بچے کو خود تندرستی بخشے گا … اور اپنے بچے کو بغیر علاج کروانے کے واپس لے آئی۔ مولا نے صحت بھی بخش دی۔’’

(الحکم 21؍اکتوبر 1921ء)

جماعت احمدیہ کا یہی جذبہ عشق رسولؐ اور غیرت رسولؐ دیکھ کر ایک مغربی مصنف E. J. Bolus M.A., B.D اپنی ایک کتاب میں احمدیت کے متعلق لکھتے ہیں:

“The Ahmadiyya is determined at all costs to clear the character of the Prophet.”

(The Influence of Islam by E. J. Bolus page 110, Lincoln Williams, Temple Bar Publishing Company Ltd. St. Martin’s Court W.C.2 1932)

یعنی احمدیت ہر حال میں پُر عزم ہے کہ وہ نبی (ﷺ) کا کردار صاف اورمعصوم ثابت کر کے دکھائیں گے۔

خلافت احمدیہ اُس روح کو زندہ رکھنے کا نام ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اس دنیا میں قائم فرمائی تھی، محبت رسولؐ کا ایک اور باب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے جاری کردہ جلسہ ہائے سیرت النبی ﷺ ہیں جن کو کامیاب بنانے میں صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی خلیفۂ وقت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے مثالی کردار ادا کیا ہے۔ 1928ء میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے پورے ہندوستان میں ایک ہی دن (17؍جون) جلسہ سیرت النبی ﷺ منعقد کرنے کی تحریک فرمائی ان دنوں حضرت میر محمد شفیع صاحب محقق دہلی رضی اللہ عنہ (وفات: 31؍اکتوبر 1941ء) کراچی میں تھے اور 17؍جون کو ہی بذریعہ ٹرین آپ کی واپسی تھی، آپ لکھتے ہیں:

‘‘17؍جون 1928ء کو میں کراچی میں تھا، اُس دن وہاں کے اس جلسہ میں شریک ہونے کو دل چاہتا تھا جو رسول کریم ﷺ کی سیرت پر لیکچر دینے کے لیے ہونا تھا مگر مجبوری تھی، ٹھہرنا مشکل تھا۔ آخر 3بجے گاڑی میں سوار ہوگیا اور اپنی سیٹ پر کھڑے ہوکر حضرت رسول کریم ﷺ خاتم النبیین کی سیرت پر لیکچر دینا شروع کر دیا۔ جب دوسرا اسٹیشن آیا تو اس کمرہ سے نکل کر دوسرے کمرہ میں جا پہنچا اور وہاں لیکچر دیا۔ غرضیکہ اسی طرح بفضلہ تعالیٰ سات گاڑیوں میں پہنچ کر 17جون کو 3بجے سے 12بجے تک میں نے لیکچر دیے….ہر لیکچر کی تمہید میں لوگوں کو یہ بتا دیتا تھا کہ میرے آقا اور مولا حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے حکم سے آج تمام ہندوستان میں لیکچر ہو رہے ہیں….تمام گاڑیاں کھچا کھچ بھری ہوئی تھیں اس لئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ قریباً آٹھ سو آدمیوں نے میرا لیکچر سنا، فالحمد للہ علیٰ ذالک۔ ’’

(الفضل 6؍جولائی 1928ء صفحہ 7کالم 1)

حضرت چودھری سر ظفر اللہ خان صاحب رضی اللہ عنہ مارچ 1958ء میں عمرے کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب تشریف لے گئے اور مکۃالمکرمہ اور مدینہ منورہ کے مقدس مقامات کی زیارت کا بھی شرف حاصل کیا۔ عالمی سطح پر اہم عہدے رکھنے والا شخص دنیا میں جہاں جاتا ہے مصروفیات اُسے گھیرلیتی ہیں لیکن آپؓ نے یہ وقت خاص طور پر تاریخ اسلام میں مذکور آنحضور ﷺ کی ذات اقدس سے وابستہ مقامات کی زیارت میں گزارا، حب رسولؐ میں درود شریف کا ورد آپ کا معمول رہا اور مدینہ میں محبت رسولؐ کے جذبات کو آپ نے اسد ملتانی کےاس شعر سے بیان کیا ہے ؎

ہر راہ کو دیکھا ہے محبت کی نظر سے

شاید کہ وہ گذرے ہوں اسی راہ گذر سے

آنحضور ﷺ کے روضۂ اطہر کے قرب میں دل کی کیفیت کے متعلق آپ فرماتے ہیں کہ ‘‘الفاظ میں ممکن نہیں’’ اور مولد و مسکن رسول ﷺ کی زیارت کے بعد واپسی پردلی کیفیت کو یوں بیان فرماتے ہیں کہ

‘‘دل میں پیہم جذبات کا ایک تلاطم برپا رہا اور آنکھوں سے آبشار جاری رہی اور زیر لب حسرت قلب کا اظہار ان پُر سوز الفاظ میں ہوتا رہا ؎

مے پریدم سوئے کوئے او مدام

من اگر مے داشتم بال و پرے’’

(تحدیث نعمت صفحہ 627تا631)

یہ فارسی شعر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی مشہور فارسی نعت ‘‘در دلم جوشد ثنائے سرورے’’ کا ہے جس کا مطلب ہے کہ میں ہمیشہ اُس کے کوچہ میں اُڑتا پھرتا اگر میں بال و پررکھتا۔ اور یہ صرف حضرت چودھری سر ظفر اللہ خان صاحبؓ کی ہی کیفیت نہیں بلکہ ہر صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کیفیت تھی کہ آپؑ سے عشق رسولؐ کا ثمر چکھ کر اس کے ذائقہ اور لذت سے عش عش کر اٹھا ۔ جس طرح چودھویں رات کا چاند سورج سے روشنی اخذ کرکے روشنی اور حسن میں اپنے پورے جوبن پر ہوتا ہے اسی طرح چودہ صدیاں گذرنے کے باوجود آپ نے قرآنی حکم قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہ پر عمل کرکے محبت رسولؐ اور سنت نبویؐ کے احیاء کواس قدر عروج تک پہنچایاکہ خدا کی طرف سے وقت کے مامور ہونے کا شرف پایا، حضور علیہ السلام اپنی معرکہ آراء کتاب ‘‘براہین احمدیہ’’ میں آنحضرت ﷺ کی مدح میں فرماتے ہیں:

اتباعش آں دہد دل را کشاد

کش نہ بیند کس بصد سالہ جہاد

یعنی اس (آنحضرت ﷺ) کی پیروی دل کو اس قدر انشراح بخشے کہ کوئی سو سال جہاد کر کے بھی نہ پائے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button