از افاضاتِ خلفائے احمدیت

شرائط بیعت اور ہماری ذمہ داریاں: جھوٹ ہی تمام برائیوں کی جڑ ہے

جھوٹ ہی تمام برائیوں کی جڑ ہے

دوسری شرط بیعت

حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

‘‘یہ کہ جھوٹ اور زنا اور بدنظری اور ہر ایک فسق و فجور اور ظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچتا رہے گا اور نفسانی جوشوں کے وقت ان کا مغلوب نہیں ہو گا اگرچہ کیسا ہی جذبہ پیش آوے’’۔

اس ایک شرط میں نو قسم کی برائیاں بیان کی گئی ہیں کہ ہر بیعت کرنے والے کو، ہراس شخص کو جو اپنے آپ کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں شامل ہونے کا دعویٰ کرتاہے ان برائیوں سے بچناہے۔

سب سے بڑی برائی ۔ جھوٹ

اصل میں توسب سے بڑی برائی جھوٹ ہے ۔ اس لئے جب کسی شخص نے آنحضرت ﷺ سے یہ کہاکہ مجھے کوئی ایسی نصیحت کریں جس پر مَیں عمل کرسکوں کیونکہ میرے اندر بہت ساری برائیاں ہیں اورتمام برائیوں کومَیں چھوڑ نہیں سکتا۔ آپؐ نے فرمایا کہ یہ عہد کرو کہ ہمیشہ سچ بولو گے اور کبھی جھوٹ نہیں بولو گے ۔اس وجہ سے ایک ایک کرکے اس کی ساری برائیاں چھوٹ گئیں کیونکہ جب بھی اسے کسی برائی کا خیال آیا اور ساتھ ہی یہ خیال آتاکہ جب پکڑاگیا تو آنحضرت ﷺکے سامنے پیش ہوں گا۔جھوٹ نہ بولنے کا وعدہ کیاہے ۔سچ بولا تو یاتو شرمندگی ہوگی یا سزا ملے گی۔ اس طرح آہستہ آہستہ کرکے اس کی تمام برائیاں ختم ہوگئیں۔ اصل میں تو جھوٹ ہی تمام برائیوں کی جڑ ہے۔

اب اس کی مَیں مزید وضاحت کرتاہوں۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

ذٰلِکَ ٭ وَ مَنۡ یُّعَظِّمۡ حُرُمٰتِ اللّٰہِ فَہُوَ خَیۡرٌ لَّہٗ عِنۡدَ رَبِّہٖ ؕ وَ اُحِلَّتۡ لَکُمُ الۡاَنۡعَامُ اِلَّا مَا یُتۡلٰی عَلَیۡکُمۡ فَاجۡتَنِبُوا الرِّجۡسَ مِنَ الۡاَوۡثَانِ وَ اجۡتَنِبُوۡا قَوۡلَ الزُّوۡرِ۔(الحج: آیت31 )

اس کاترجمہ یہ ہے : اور جو بھی اُن چیزوں کی تعظیم کرے گا جنہیں اللہ نے حرمت بخشی ہے تو یہ اس کے لئے اس کے ربّ کے نزدیک بہتر ہے۔ اور تمہارے لئے چوپائے حلال کر دئیے گئے سوائے ان کے جن کا ذکر تم سے کیا جاتا ہے۔ پس بتوں کی پلیدی سے احتراز کرو اور جھوٹ کہنے سے بچو۔

یہاںشرک کے ساتھ جھوٹ بھی رکھاگیاہے۔پھر فرمایا:

اَ لَا لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ ۔ وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖ اَوْلِیَآئَ مَا نَعْبُدُھُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَا اِلَی اللّٰہِ زُلْفٰی۔ اِنَّ اللّٰہَ یَحْکُمُ بَیْنَھُمْ فِیْ مَا ھُمْ فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ۔ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِیْ مَنْ ھُوَ کٰذِبٌ کَفَّارٌ۔(الزمر:آیت4)

ترجمہ :خبردار! خالص دین ہی اللہ کے شایانِ شان ہے اور وہ لوگ جنہوں نے اُس کے سوا دوست اپنا لئے ہیں (کہتے ہیںکہ) ہم اس مقصد کے سوا اُن کی عبادت نہیں کرتے کہ وہ ہمیں اللہ کے قریب کرتے ہوئے قرب کے اونچے مقام تک پہنچادیں۔ یقیناً اللہ اُن کے درمیان اُس کا فیصلہ کرے گا جس میں وہ اختلاف کیا کرتے تھے۔ اللہ ہرگز اُسے ہدایت نہیں دیتا جو جھوٹا (اور) سخت ناشکرا ہو۔

صحیح مسلم میں ایک حدیث ہے۔عبداللہؓ بن عمرو ابن العاصؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا چار باتیں ایسی ہیں جو جس میں پائی جائیں وہ خالص منافق ہے۔ اورجس میں ان میں سے ایک بات پائی جائے اس میں نفاق کی ایک خصلت پائی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ اس کو چھوڑ دے۔ (1)جب وہ گفتگوکرتاہے توکذب بیانی سے کام لیتاہے۔ (جب وہ باتیں کررہاہوتاہے تواس میں جھوٹ کی ملاوٹ ہوتی ہے اور جھوٹی باتیں کررہاہوتاہے)۔ (2) اورجب معاہدہ کرتاہے توغداری کامرتکب ہوتا ہے۔ (3) اور جب وعدہ کرتاہے تو وعدہ خلافی کرتاہے۔ (یہ بھی جھوٹ کی ایک قسم ہے)۔(4) اورجب جھگڑتاہے تو گالی گلوچ سے کام لیتاہے ۔

یہ ساری باتیں جھوٹ سے تعلق رکھنے والی ہیں۔

پھر ایک حدیث ہے۔ حضرت امام مالکؒ بیان کرتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ عبد اللہ بن مسعودؓ کہا کرتے تھے۔ تمہیں سچائی اختیار کرنی چاہئے کیونکہ سچ نیکی کی طرف راہنمائی کرتا ہے اور نیکی جنت کی طرف راہنمائی کرتی ہے۔ جھوٹ سے بچو کیونکہ جھوٹ نافرمانی کی طرف لے جاتا ہے اور نافرمانی جہنم تک پہنچا دیتی ہے ۔ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ کہا جاتا ہے کہ اس نے سچ بولا اور فرمانبردار ہو گیا اور جھوٹ بولا تو مبتلاء فجور ہو گیا۔

(مؤطا امام مالک۔ کتاب الجامع۔ باب ماجاء فی الصدق و الکذب)

پھر مسند احمد بن حنبل کی ایک حدیث ہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جس نے کسی چھوٹے بچے کوکہا آئو مَیں تمہیں کچھ دیتاہوںپھر وہ اس کو دیتاکچھ نہیں تو یہ جھوٹ میں شمار ہوگا۔

(مسند احمد بن حنبل۔ جلد 2۔ صفحہ 452۔ مطبوعہ بیروت)

یہ تربیت کے لئے بہت ضروری ہے ۔ بچوں کی تربیت کے لئے دیکھیں مذاق مذاق میں بھی ایسی باتیں نہیں ہونی چاہئیں۔ورنہ اسی طرح مذاق مذاق میں ہی بچوں کو بھی غلط بیانی کی عادت پڑ جاتی ہے جو آگے چل کر جب پکی عادت ہوجائے تو جھوٹ بولنے میں بھی عار نہیں سمجھتے اوراس کااحساس ہی ختم ہوجاتا ہے ۔

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اورنیکی جنت کی طرف۔ اور جو انسان ہمیشہ سچ بولے اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ صدیق لکھا جاتاہے اورجھوٹ گناہ اورفسق وفجور کی طرف لے جاتاہے اور فسق وفجور جہنم کی طرف ۔ اور جو آدمی ہمیشہ جھوٹ بولے و ہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کذّاب لکھا جاتاہے۔

(صحیح بخاری۔ کتاب الادب۔ باب قول اللّٰہ اتّقوا اللّٰہ وکونوا مع الصّادقین)

حضرت عبداللہ ؓ بن عمرو بن العاصؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یارسول اللہ جنت کاعمل کیاہے۔ آنحضورﷺ نے فرمایا: سچ بولنا۔ اور جب کوئی بندہ سچ بولتا ہے تو وہ فرمانبردار بن جاتاہے۔ او ر جب وہ فرمانبردار بن جاتاہے تو حقیقی مومن بن جاتاہے۔ اور جب کوئی حقیقی مومن ہوجاتاہے تو انجام کار وہ جنت میں د اخل ہو جاتاہے۔ اس شخص نے دوبارہ دریافت کیا کہ یارسول اللہ دوزخ میں لے جانے والا عمل کون ساہے ۔ آنحضرت ﷺنے فرمایا : جھوٹ ۔ ایک شخص جھوٹ بولتاہے تو نافرمانی کرتاہے اور جب کوئی نافرمانی کرتاہے توکفر کرتاہے اورجب کوئی کفر پر قائم ہو جاتاہے تو انجام کار وہ دوزخ میں داخل ہو جاتا ہے۔

(مسند احمد بن حنبل۔ جلد 2۔ صفحہ 176۔ مطبوعہ بیروت)

حضرت اقد س مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

‘‘قرآن شریف نے جھوٹ کو بھی ایک نجاست اور رجس قرار دیا ہے ۔جیسا کہ فرمایا ہے۔

فَاجۡتَنِبُوا الرِّجۡسَ مِنَ الۡاَوۡثَانِ وَ اجۡتَنِبُوۡا قَوۡلَ الزُّوۡرِ(الحج: آیت31 )

دیکھویہاں جھوٹ کو بت کے مقابل رکھا ہے اور حقیقت میں جھوٹ بھی ایک بت ہی ہے۔ ورنہ کیوں سچائی کو چھوڑ کر دوسری طرف جاتا ہے۔ جیسے بت کے نیچے کوئی حقیقت نہیں ہوتی اسی طرح جھوٹ کے نیچے بجز ملمّع سازی کے اور کچھ بھی نہیں ہوتا۔ جھوٹ بولنے والوں کا اعتبار یہانتک کم ہو جاتا ہے کہ اگر وہ سچ کہیں تب بھی یہی خیال ہوتا ہے کہ اس میں بھی کچھ جھوٹ کی ملاوٹ نہ ہو۔ اگر جھوٹ بولنے والے چاہیں کہ ہمارا جھوٹ کم ہو جائے تو جلدی سے دور نہیں ہوتا۔ مدت تک ریاضت کریں تب جا کر سچ بولنے کی عادت ان کو ہو گی۔’’

(ملفوظات۔ جلد سوم۔ صفحہ350 )

حضرت اقد س مسیح موعود علیہ السلام مزید فرماتے ہیں :

‘‘اور منجملہ انسان کی طبعی حالتوں کے جو اس کی فطرت کا خاصہ ہے سچائی ہے۔ انسان جب تک کوئی غرض نفسانی اس کی محرک نہ ہو جھوٹ بولنا نہیں چاہتا۔ اور جھوٹ کے اختیار کرنے میں ایک طرح کی نفرت اور قبض اپنے دل میں پاتا ہے۔ اسی وجہ سے جس شخص کا صریح جھوٹ ثابت ہو جائے اس سے ناخوش ہوتا ہے اور اس کو تحقیر کی نظر سے دیکھتا ہے۔ لیکن صرف یہی طبعی حالت اخلاق میں داخل نہیں ہو سکتی بلکہ بچے اور دیوانے بھی اس کے پابند رہ سکتے ہیں۔ سو اصل حقیقت یہ ہے کہ جب تک انسان ان نفسانی اغراض سے علیحدہ نہ ہو۔ جو راست گوئی سے روک دیتے ہیں تب تک حقیقی طور پر راست گو نہیں ٹھہر سکتا۔ کیونکہ اگر انسان صرف ایسی باتوں میں سچ بولے جن میں اس کا چنداں ہرج نہیں(کچھ حرج نہیں) اور اپنی عزت یا مال یا جان کے نقصان کے وقت جھوٹ بول جائے اور سچ بولنے سے خاموش رہے تو اس کو دیوانوں اور بچوں پر کیا فوقیت ہے۔ کیا پاگل اور نابالغ لڑکے بھی ایسا سچ نہیں بولتے؟ دنیا میں ایسا کوئی بھی نہیں ہوگا کہ جو بغیر کسی تحریک کے خواہ نخواہ جھوٹ بولے۔ پس ایسا سچ جو کسی نقصان کے وقت چھوڑا جائے حقیقی اخلاق میں ہرگز داخل نہیں ہوگا۔ سچ کے بولنے کا بڑا بھاری محل اور موقع وہی ہے جس میں اپنی جان یا مال یا آبرو کا اندیشہ ہو۔ اس میں خدا کی تعلیم یہ ہے۔

فَاجۡتَنِبُوا الرِّجۡسَ مِنَ الۡاَوۡثَانِ وَ اجۡتَنِبُوۡا قَوۡلَ الزُّوۡرِ(الحج: آیت31)۔ وَ لَا یَاۡبَ الشُّہَدَآءُ اِذَا مَا دُعُوۡا (البقرۃ:آیت283)۔ وَ لَا تَکۡتُمُوا الشَّہَادَۃَ ؕ وَ مَنۡ یَّکۡتُمۡہَا فَاِنَّہٗۤ اٰثِمٌ قَلۡبُہٗ(البقرۃ:آیت284)۔ وَ اِذَا قُلۡتُمۡ فَاعۡدِلُوۡا وَ لَوۡ کَانَ ذَا قُرۡبٰی(الانعام:آیت153)۔ کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ بِالۡقِسۡطِ شُہَدَآءَ لِلّٰہِ وَ لَوۡ عَلٰۤی اَنۡفُسِکُمۡ اَوِ الۡوَالِدَیۡنِ وَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ(النساء:آیت136)۔ وَ لَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعۡدِلُوۡا(المائدۃ:آیت9)۔ وَ الصّٰدِقِیۡنَ وَالصّٰدِ قٰتِ(الاحزاب:آیت36)۔وَتَوَاصَوۡا بِالۡحَقِّ ۬ۙ وَ تَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ (العصر:آیت4)۔ لَا یَشۡہَدُوۡنَ الزُّوۡرَ (الفرقان : آیت73)۔

اس کے ترجمہ میں آپ فرماتے ہیں:

‘‘بتوں کی پرستش اور جھوٹ بولنے سے پرہیز کرو۔یعنی جھوٹ بھی ایک بت ہے جس پر بھروسہ کرنے والا خدا کا بھروسہ چھوڑ دیتا ہے۔ سو جھوٹ بولنے سے خدا بھی ہاتھ سے جاتا ہے۔ اور پھر فرمایا کہ جب تم سچی گواہی کے لئے بلائے جائو تو جانے سے انکار مت کرو۔ اور سچی گواہی کو مت چھپائو اور جو چھپائے گا اس کا دل گنہگار ہے۔ اور جب تم بولو تو وہی بات منہ پر لائو جو سراسر سچ اور عدالت کی بات ہے اگرچہ تم اپنے کسی قریبی پر گواہی دو۔ حق اور انصاف پر قائم ہو جائو۔ اور چاہیئے کہ ہر ایک گواہی تمہاری خدا کے لئے ہو۔ جھوٹ مت بولو اگرچہ سچ بولنے سے تمہاری جانوں کو نقصان پہنچے۔ یا اس سے تمہارے ماں باپ کو ضرر پہنچے یا اور قریبیوں کو جیسے بیٹے وغیرہ کو۔ اور چاہئے کہ کسی قوم کی دشمنی تمہیں سچی گواہی سے نہ روکے۔ سچے مرد اور سچی عورتیں بڑے بڑے اجر پائیں گے۔ ان کی عادت ہے کہ اوروں کو بھی سچ کی نصیحت دیتے ہیں۔ اور جھوٹوں کی مجلسوں میں نہیں بیٹھتے’’۔

(اسلامی اصول کی فلاسفی ۔روحانی خزائن۔ جلد10۔ صفحہ360-361)

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button