متفرق مضامین

معاشرتی حسن سلوک

(سیّد میر محمود احمد ناصر)

بچپن سے ہم یہ پڑھتے اور سنتے آئے ہیں کہ انسان مدنی الطبع ہے مزاجاً اور طبعاً معاشرہ کی شکل میں رہنے کو پسند کرتا ہے۔ اور سوال صرف پسند کا نہیں بلکہ اپنی بقا کے لیے، اپنی حفاظت کے لیے، اپنے کھانے پینے اور اپنے لباس اور اپنی دوسری بنیادی ضروریات کے حصول کے لیے معاشرہ میں رہنے پر مجبور ہے۔ اس لیے قرآن و حدیث میں معاشرتی زندگی کی ہر شاخ میں ایک دوسرے سے محبت و تعاون اور حسن سلوک کی تعلیم دی گئی ہے۔ معاشرہ بہت سی شاخوں میں بٹا ہوا ہے اور قرآن و حدیث میں ہر شاخ کے لیے حکیمانہ ہدایات ‘‘حسن سلوک’’کی دی گئی ہیں۔ زیر تحریر مضمون میں ہم معاشرہ کی بعض شاخوں کے بارہ میں حسن سلوک کی اسلامی تعلیم مختصر اشاروں میں بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

(1)معاشرہ کی بنیادی اکائی عائلی تعلقات ہیں۔ میاں بیوی کے تعلقات معاشرہ کے بنانے یا بگاڑنے میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس بارہ میں تو قرآن شریف اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی تفصیل کے ساتھ ہدایات فرمائی ہیں۔ قرآن مجید میں تو اسلام کے بنیادی ارکان اور عبادت کی توضیح کے بعد ایک تفصیلی مضمون ‘‘میاں بیوی کے تعلقات’’کے بارہ میں ہے۔ جس کی تفصیل کا یہ مضمون متحمل نہیں۔ سارے مضمون کا خلاصہ ان دو باتوں میں نکالا جا سکتا ہے کہ عائلی تعلقات میں خا وند کو رَحْمَةً کی تلقین ہے اور بیوی کو مَوَدَّةً کی تلقین ہے۔

(2) میاں بیوی کے بعد ماں باپ اور اولاد کے تعلقات معاشرہ کا ایک اہم جزو ہیں۔اوراس بارہ میں بھی قرآن و احادیث میں بہت حکیمانہ نصائح ہیں۔ جن کا خلاصہ یہ ہے کہ باپ پر ،اولاد پر، شفقت کے ساتھ تربیت اور مالی ذمہ داریاں ڈالی گئی ہیں۔ اور ماں پر شفقت کے ساتھ گھریلو تربیت اور گھریلو ضروریات پوری کرنے کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے۔ اور اولاد پر ادب اور اطاعت کا فریضہ نافذ کیا گیا ہے۔

(3) قریب رہنے والے ہمسائے اور پڑوسی معاشرہ کی زندگی کا اہم حصّہ ہیں۔ اس پر تو احادیث میں اتنا زور ہے کہ فرمایا:

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا،عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا زَالَ يُوصِيْنِي جِبْرِيْلُ بِالْجَارِ،حَتّٰی ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُ۔

(صحیح بخاری کتاب الادب باب الوصاۃ بالجار حدیث:6014)فرمایا: جبریل مجھے ہمسایہ سے حسن سلوک کی اتنی تاکید کرتا رہا کہ مجھے خیال ہوا کہ وہ ہمسایہ کو ورثہ میں شریک بھی قرار دے دے گا۔

(4) حکومت اور رعایا کے باہمی تعلقات خصوصیت سے آج کی دنیا میں بہت نازک صورت اختیار کر گئے ہیں۔ ملک ملک میں رعایا حکومت کے خلاف جلوس نکالتی نظر آتی ہے اور حکومت اپنی ہی رعایا پر ہتھیار استعمال کرتی نظر آتی ہے۔ قرآن حکومت کو ایک امانت کا نام دیتا ہے اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ حاکم راعی کا مقام رکھتا ہے اور جس طرح چرواہا اپنی بھیڑوں پر شفقت کرتا ہے یہی کام حاکم کا ہے۔ حکومت کے انتظام کو رعایا کے مشورہ سے چلانے کی ہدایت ہے اور حکومت کے فرائض میں سے ہے کہ رعایا بنیادی ضروریات سے محروم نہ رہے اور رعایا کو قانون کی پابندی اور فساد نہ کرنے کا حکم ہے۔

(5) معاشرتی تقسیم کے بارہ میں ایک خاص تاکیدی حکم یہ ہے کہ کوئی بڑائی اور سبقت زبان یا رنگ یا نسل یا جسمانی طاقت یا قومیّت کی بنا پر جو کسی طبقہ کو اس کے حقوق سے محروم کرے جائز نہیں۔ دیانت داری اور قانون کی پابندی کے ساتھ اقتصادی حالات میں کمی بیشی ممکن ہے مگر اس کے ساتھ قرآن و حد یث میں ایسے قوانین بنا دیے گئے ہیں جو معاشرہ میں نافذ کیے جائیں تو امیر امیر تر نہیں ہو سکتا اور غریب غریب تر نہیں ہو سکتا۔

(6)قانونی پابندیوں کے ساتھ معاشرہ میں باہمی سلوک کی نصیحت اور نیک نمونہ اور آخرت کی بہترین جزا کے ذکر کے ساتھ بھی توجہ دلائی گئی ہے۔

(7) معاشرہ کے حسن سلوک کا ایک پہلو لوگوں کا دوسرے کے گھروں کےvisitکے متعلق ہے۔
اس کے متعلق ہدایات دی گئی ہیں۔(i)اجازت لے کر کسی کے گھر جاؤ (ii)سلام کر کے داخل ہو(iii)کسی کے دروازے پر، داخل ہونے سے پہلے کھٹکھٹاؤ (iv)تین دفعہ کھٹکھٹانے پر بھی جواب نہ ملے تو واپس آ جاؤ(v) اگر کہا جائے کہ واپس چلے جاؤ تو واپس چلے جاؤ برا نہ مناؤ(vi)کسی کے گھرجاؤ تو گھر والے کی جو خاص نشست مقرر ہے اس پر نہ بیٹھو۔

(8) معاشرہ کے ماحول کو خوبصورت اور بہتر بنانے کے لیے السلام علیکم کہنے کی تاکید ہے ۔ آتے جاتے سڑک پر جہاں بھی ملو سلام کہو یہ دعا بھی ہے اور خوشگوار انداز بھی۔

(9) معاشرہ کا ایک بہت ہی اہم پہلو قانونی عدل و انصاف ہے اس پر جتنا اسلام نے زور دیا ہے شاید ہی کسی نے دیا ہو۔ نیکی کے اعلیٰ ترین معیار تقویٰ کے سب سے قریب عدل و انصاف کو قرار دیا ہے۔ عدالتیں اگر عدل و انصاف سے کام کر رہی ہوں تو معاشرہ کے 90 فی صدی معاملات سلجھ سکتے ہیں۔

(10)اسلامی معاشرہ میں خدا کا گھر جوعبادت کے لیے مقرر ہے معاشرہ کے حسن سلوک کے لیے زبردست رہنمائی کرتا ہے اور معاشرہ کی اصلاح کے لیے سبق مہیا کرتا ہے۔ ایک سبق یہ ہے کہ سب لوگ برابر ہیں۔ دوسرا سبق یہ ہے کہ جو پہلے آتا ہے وہ اپنی جگہ پر بیٹھنے کا حق رکھتا ہے۔ تیسرا سبق یہ ہے کہ کسی کو اسے اٹھانے اور اس کی جگہ لینے کی اجازت نہیں۔ چوتھا سبق یہ ہے کہ ترتیب و تنظیم اور ٹیڑھے پن سے پاک بننے کا سبق مسجد دیتی ہے۔ پانچواں سبق یہ ہےکہ زینت اور صفائی اختیار کرو۔ چھٹا سبق یہ ہے کہ اپنی اجتماعی ذمہ داریاں، ایک امام کی اتباع میں، امام کی راہنمائی میں ادا کرو۔ یہ تو فرض نماز کا سبق ہے اور فرض کے علاوہ جو نفل ادا کیے جاتے ہیں وہ تمہیں اپنی انفرادی ذمہ داریاں پوری توجہ کے ساتھ ادا کرنے کا سبق دیتے ہیں۔ معاشرتی زندگی کے اس سبق کو نہ بھولو۔

(11)راستہ اور سڑکوں کا تعلق بھی معاشرہ پر اثر انداز ہوتا ہے ۔مدینہ کی گلیوں کے متعلق ارشاد ہوا تھا کہ 7ہاتھ سے 10 ہاتھ رکھی جائیں۔ اس کا تعلق چونکہ ٹریفک کی نوعیت سے ہے اس بارہ میں مدینہ کے بارہ میں اس اصولی ہدایت کے مطابق عمل ہونا چاہیے کہ راستے کشادہ ہوں۔

(12)بھائی بہنوں کے تعلقات معاشرہ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اس کا ذکر نمبر 2 میں ہونا چاہیے تھا۔ اس بارہ میں بنیادی ہدایت یہ ہے کہ ایمان کا حصّہ ہے کہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند کرو جو تم اپنے لیے پسند کرتے ہو۔

(13)یتامیٰ، مساکین، غرباء، مسافروں کی دیکھ بھال پر اسلام میں جتنا زور دیا گیا ہے شاید ہی کہیں دیا گیا ہو۔ یہ دیکھ بھال انفرادی طور پر بھی ضروری ہے اور اجتماعی طور پر بھی۔ اگر کہیں کوئی شخص کھانا نہ ہونے کی وجہ سے بھوکا سوتا ہے تو اسے بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے۔

(14)اسلام میں ایک طرف پیشہ ور گدا گری کو سختی سے منع کیا گیا تو دوسری طرف سائل کی درخواست کو حتی الوسع پورا کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button