متفرق مضامین

جان الیگزینڈر ڈوئی۔ گمنامی سے عروج تک(قسط اول)

(ڈاکٹر مرزا سلطان احمد)

حضرت مسیح موعود نے 1902ء اور پھر 1903ء میں ڈوئی کو روحانی مقابلہ کا چیلنج دیا ۔ اس کے نتیجہ میں معجزانہ طور پر ڈوئی  اپنے عبرتناک انجام کو پہنچا ۔ یہ اتنا بڑا معجزہ تھا کہ امریکہ کے اخبارات نے بھی برملا اس کا اعتراف کیا۔ان تفصیلات کا ذکر جماعت کے لٹریچر میں کئی مرتبہ کیا گیا ہے۔ لیکن اس اہم تاریخی واقعہ کی عظمت اور تفصیلات کو سمجھنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس  بات کا جائزہ لیا جا ئے کہ ڈوئی گمنامیوں سے نکل کر شہرت اور طاقت کے عروج تک کیسے پہنچا؟ اس کے دعاوی کیا تھے؟ اس کے اصل عزائم کیا تھے ؟ اس بات کا کیا سبب ہوا کہ حضرت مسیح موعود نے اسے یہ چیلنج دیا اور آخر میں یہ شخص حضرت اقدس مسیح موعود  کی پیشگوئی کے مطابق نہایت بے کسی کی حالت میں ہلاک ہوا۔ اس مضمون میں پیدائش سے لے کر اس مرحلہ تک ڈوئی کے حالات زندگی کا ذکر کیا جائے گا، جب پہلی مرتبہ ڈوئی کو حضرت مسیح موعود نے چیلنج دیا تھا۔

پیدائش ، بچپن اور تعلیم

جان الیگزینڈر ڈوئی(John Alexander Dowie) کے خاندان کے متعلق کچھ زیادہ معلومات مہیا نہیں ہیں۔ اس کے والد کا نام جان مرے ڈوئی (John Murray Dowie) تھا۔ اس کی والدہ کا نام Ann Macfarlane Mchardie تھا۔ اس کی عمر اپنے خاوند سے کافی زیادہ تھی۔ شادی سے قبل وہ اپنی ہونے والی بیوی کے کرایہ دار کی حیثیت سے سکاٹ لینڈ میں رہتا تھا۔ شادی کے وقت اس کی عمر بیس سال تھی۔

جان الیگزینڈر ڈوئی کی ولادت25مئی 1847ء کو ہوئی۔ اپنی زندگی کے آخری حصہ میں ڈوئی نے یہ انکشاف کیا کہ اس کے اصل باپ کا نام کچھ اور تھا۔چونکہ بعد میں ان کی والدہ نے جان مرے ڈوئی سے شادی کی اس لیے وہ تمام عمر ان کی طرف منسوب ہوتا رہا۔

ڈوئی نے زندگی کے ابتدائی تیرہ سال سکاٹ لینڈ میں ہی گزارے۔اپنے بچپن کے متعلق ڈوئی کا کہنا تھا کہ وہ زیادہ تر غربت اور بیماری میں ہی گزرا۔ مناسب کپڑے نہ ہونے کی وجہ سے وہ باقاعدہ سکول نہیں جا سکا۔ البتہ بچپن سے مذہب کی طرف رحجان تھا اور اپنے والد کے ساتھ مشنری دوروں پر جاتا رہا۔ اس کے متعلق یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس نے بائبل چھ سال کی عمر میں پڑھ لی تھی۔ جب ڈوئی کی عمر تیرہ سال تھی تو یہ خاندان نقل مکانی کر کے جنوبی آسٹریلیا میں Adelaideمیں رہنے لگا۔ یہاں پر ڈوئی کے ماموں کا جوتوں کا کاروبار تھا۔ کچھ عرصہ ڈوئی نے اپنے رشتہ دار کے ساتھ کام کیا اور پھر مختلف جگہوں پر ملازمتیں کیں۔ اپنے رشتہ دار کے ساتھ کام کرتے ہوئے ایک بار ڈانٹ پڑنے پر ڈوئی نے اسے مارنے کے لیے کوئی چیز اٹھا لی۔ اس وقت اس کاروبار کا مالک اتنا خوفزدہ ہو گیا کہ اسے وہ جگہ چھوڑنی پڑی۔ بعد میں اس نے کہا کہ اگر اس لڑکے کا مزاج اسی طرح رہا تو یہ مزاج اسے پھانسی کے پھندے تک  پہنچا دے گا ۔

عملی زندگی کا آغاز

لیکن جلد ہی ڈوئی نے اپنے لیے بہتر آمد کے مواقع پیدا کر لیے۔ بیس سال کی عمر میں اس نے اپنے لیے ٹیوٹر کا انتظام کیا اور پادری بننے کی تیاری شروع کی۔ پندرہ ماہ کی ابتدائی تعلیم کے بعد اس نے ایڈنبرایونیورسٹی میں داخلہ لیا اور تعلیم کے لیے واپس سکاٹ لینڈ آگیا۔ اسے ایڈنبرا میں قیام کے دوران وہاں کے ایک بڑے ہسپتال میں اعزازی پادری کی حیثیت سے کام کرنے کا موقعہ ملا۔بعد میں جان الیگزینڈر ڈوئی کی ڈاکٹروں کی شدید مخالفت کھل کر سامنے آئی۔ بعض کا خیال ہے کہ اس کی بنیاد انہی فرائض کی بجا آوری کے دوران پڑی تھی۔ تعلیم کے دوران اسے والد کے کاروبار میں نقصان کے باعث آسٹریلیا بھی آنا پڑا اور پھر آسٹریلیا میں ہی پادری کی حیثیت سے کام شروع کیا۔

(The personal letters of John Alexander Dowie, compiled by Edna Sheldrake, published by Wilber Glenn Voliva, Zion City, Illinois, USA 1912, p13&14)

(John Alexander Dowie, by Gordon Lindsay, published by Christ for the Nations INC. Dallas, Texas. 1980 p 6&9)

(John Alexander Dowie and the Christian Catholic Apostolic Church In Zion, by Rolvix Harlan, Published by Press of R.M.Antes Evansville Wis.1906,p 29)

پادری کی حیثیت سےکام کا آغاز

اس مرحلہ کے بعداپریل 1872ء میں ڈوئی نے جنوبی آسٹریلیا میں پادری کی حیثیت سے کام کا آغاز کیا۔ اس کی پہلی تقرری ALMAکے مقام پر ہوئی۔لیکن جلد ہی اسے اندازہ ہو گیا کہ اس مقام پر  کم وسائل کے چرچ سے وابستہ افراد کی تعداد بہت کم ہے۔اس لیے اسے وہاں پر اپنا کوئی مصرف نہیں نظر آتا تھا۔  اس لیے اس نے دسمبر میں ہی اس جگہ سے استعفیٰ دے دیا۔ اس کے بعد وہ سڈنی (SYDNEY) کے قریب MANLY BEACH پر پادری مقرر ہوا یہاں پر چرچ سے وابستہ افراد کی تعداد کافی زیادہ تھی۔ یہاں پر اس نے 1874ء کے اختتام تک کام کیا۔ وہ اب بڑی جگہوں پر کام کرنا چاہ رہا تھا۔ اس نے اس کے بعد سڈنی کے مضافات میں نیوٹن (NEWTON) کے مقام پر تقرری قبول کی۔ جب وہ یہاں کام کر رہاتو اس علاقے میں طاعون پھیل گئی اور ڈوئی کے علاقہ میں بڑی تعداد میں اموات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

ڈوئی کا دعویٰ تھا کہ یہیں پر اس کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اگر یسوع مسیح پر ایمان اٹھارہ سو سال قبل شفا دیتا تھا تواب کیوں نہیں دیتا۔ وہ اب تک آخری دم پر تیس مریضوں کے پاس جا چکا تھا اور کوئی چالیس اشخاص کی تدفین میں شرکت کر چکا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ ایک روز وہ ایسے خیالات میں غرق تھا کہ اس کے گھر سے باہر لوگوں کے چلنے کی آواز آئی اور دروازے پر دستک ہوئی اور اطلاع دی گئی کہ ایک لڑکی میری قریب المرگ ہے۔ جب وہ  اس کے سرہانے پہنچا تو مایوس ڈاکٹر پہلے سے وہاں موجود تھا۔ ڈاکٹر نے ڈوئی سے کہا کہ کیا خدا کے طریقے عجیب نہیں ہیں۔ ڈوئی نے لڑکی کی مایوس کن حالت دیکھی اور ڈاکٹر سے کہا کہ یہ خدا نہیں شیطان کا کام ہے اور اب وقت ہے کہ ہم شیطان کے خلاف خدا کی مدد طلب کریں۔ کیا تم دعا نہیں کر سکتے؟ ڈاکٹر نے کہا کہ اب تو مرحلہ ہے کہ یہ کہنا چاہیے کہ جیسے خدا کی مرضی ہے ویسے ہی ہو جائے۔ اور یہ کہہ کر وہاں سے رخصت ہو گیا۔ ڈوئی کا دعویٰ تھا کہ اس  نے وہاں پر بیٹھ کر دعا شروع کی۔ لڑکی کی ماں نے بے سدھ لڑکی کو دیکھ کر دریافت کیا کہ کیا یہ مر گئی ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں ا ورکھانے پینے کے لیے کچھ منگوایا۔ کچھ ہی دیر میں لڑکی ہوش میں آ گئی  اور صحت یاب ہو گئی۔ حقیقت کچھ بھی ہو لیکن اس کا دعویٰ تھا کہ یہاں سے اس کے نظریے Divine Healing یعنی روحانی علاج کا آغاز ہوا۔ جس کی بنیاد یہ تھی کہ بیماری شیطان کی طرف سے ہے اور اس کا صحیح حل یہی ہے کہ خدا کی مدد طلب کی جائے۔ باقی سب طریقے چھوڑ کر اس طریق کو اختیار کرنا ضروری ہے۔ یہ اس کی تحریک کا ایک بنیادی جزو بھی تھا اور اس کا سب سے زیادہ متنازعہ پہلو بھی اور ایک طویل عرصہ تک اس کے چرچ کی سب سے زیادہ مخالفت بھی اسی وجہ سے ہوتی رہی۔

(John Alexander Dowie, by Gordon Lindsay, published by Christ for the Nations INC. Dallas, Texas. 1980 p 6&9)

(The personal letters of John Alexander Dowie, compiled by Edna Sheldrake, published by Wilber Glenn Voliva, Zion City, Illinois, USA 1912, p314-316)

شادی اور تنازعات

1876ء میں انتیس سال کی عمر میں ڈوئی کی شادی اپنی رشتہ دار Jeanieسے ہوئی ۔زندگی کا یہ مرحلہ بھی کافی تنازعات کا شکار رہا۔عیسائیوں میں بالعموم کزن سے شادی کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے پہلے ڈوئی کی ہونے والی بیوی نے اس پیشکش کو قابل توجہ نہیں سمجھا اور لڑکی کے والد نے اس رشتہ کی مخالفت کی۔ لیکن ڈوئی کے والدین کی مداخلت سے آخر کار یہ شادی ہو گئی۔لیکن شادی کے بعد جلد ہی خسر سے اختلافات پھر شروع ہو گئے اور یہاں تک نوبت آئی کہ ایک وقت ڈوئی کی بیوی اپنے والد کے زیر اثر اپنے والد کے ساتھ چلی گئی۔ اس وقت کی خط و کتابت سے معلوم ہوتا ہے کہ اختلاف کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس کی بیوی کو یہ گلہ تھا کہ ڈوئی اپنی زندگی کو اس نہج پر لے آئے ہیں کہ وہ قلاش ہو چکے ہیں اور اپنی بیوی اور بچہ کا خرچ بھی نہیں اٹھا سکتے۔ لیکن  پھر دونوں میاں بیوی نے اکٹھے زندگی کا آغاز کیا۔ ڈوئی کے خسر اس کے کام کے طریقہ اور مالی معاملات سے خوش نہیں تھے۔ ایک مرحلہ پر اپنے خسر کے رویہ سے نالاں ہونے کی وجہ سے ڈوئی نے اپنی بیوی کو لکھا کہ اگر میں ایک ذلیل ترین بھونکنے والا کتا بھی ہوں اور جب مجھے ہر طرف سے زد و کوب کیا جا رہا تو میں ایک آخری احتجاج کے بغیر نہیں مروں گا۔اور ساتھ یہ بھی لکھا کہ میرے مالی حالات کیسے ہی کیوں نہ ہو جائیں میں تمہارے  والد سے کوئی مالی مدد نہیں لینا چاہتا۔ آخر کار اپنی بیوی سے اختلافات کا سلسلہ ختم ہو گیا۔

(John Alexander Dowie, by Gordon Lindsay, published by Christ for the Nations INC. Dallas, Texas. 1980 p24-30)

آزادانہ کام کرنے کا فیصلہ

اس مرحلہ پر ڈوئی نے ایسا فیصلہ کیا جس سے اس کی زندگی کی طرز بالکل تبدیل ہو گئی۔اب تک وہ منظم چرچوں میں کام کرتا رہا تھا۔ ابھی سے اس کے کام کی طرز میں ایک قسم کی انتہا پسندی پائی جاتی تھی جو کہ زیادہ پسندیدہ نہیں سمجھی جاتی تھی۔مثلاً شراب نوشی کے خلاف اس کی طرف سے سخت رویہ ظاہر ہوتا تھا جو کہ اس معاشرہ میں زیادہ قابل قبول نہیں سمجھا جاتا تھا۔ ڈوئی ایک علیحدہ طرز پر کام کرنے کا ارادہ کر رہا تھا۔ لیکن اس کے لیے اس کے پاس مالی وسائل نہیں تھے اور اسے یہ امید بھی نہیں تھی کہ اس کے رشتہ دار اس کی مدد کریں گے ۔اس کے ذہن میں جو منصوبہ تھا ، اس پر عملدرآمد شروع کرنے کے لیے اسے جگہ کرائے پر لینے کی ضرورت تھی۔ اس کے مالی وسائل پیدا کرنے کے لیے اس نے اپنے گھر کا ساز و سامان فروخت کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس کے لیے سب سے زیادہ مشکل اپنی پسندیدہ پیٹنگز کو فروخت کرنا ہو رہا تھا۔اس مرحلہ کے بارے میں وہ بعد میں بیان کرتا تھا:

So I looked around and saw a good many things without which my wife and I could get along. We thought we could get along with a smaller house, and I could do without the pictures and a great many other things; so I just called an auction, and sold all my magnificent pictures and a lot of my costly furniture. We took a smaller house, went into it with cheaper furniture, and I was able to do the work of the Lord in that city. My beautiful furniture and pictures were gone, but there came in place of them men and women that were brought to the feet of Jesus by the sale of my earthly goods.

ترجمہ: ”چنانچہ میں نے ارد گرد دیکھا ۔بہت سی چیزیں ایسی نظر آئیں جن کے بغیر میں اور میری بیوی گزارا کر سکتے تھے۔ ہم نے سوچا کہ ہم ایک چھوٹے گھر میں گزارا کر سکتے ہیں، میں اپنی تصویروں کے بغیر گزارا کر سکتا ہوں اور بہت سی ایسی چیزیں تھیں۔ چنانچہ میں نے نیلامی کی اور بہت سی عمدہ تصویریں اور مہنگا فرنیچر فروخت کر دیا۔ ہم نے چھوٹا گھر لے لیا اور سستے فرنیچر کے ساتھ اس میں منتقل ہو گئے۔ میں اس قابل ہو گیا کہ اپنے آقا کا کام شہر میں کر سکوں۔ میرا خوبصورت فرنیچر اور تصویریں چلی گئیں لیکن ان کی جگہ ان مردوں اور عورتوں نے لے لی جنہیں ان زمینی اشیاء کو فروخت کر کے یسوع مسیح کے قدموں میں جھکا دیا گیا تھا”۔

ڈوئی نے سڈنی میں 1878ء کے آغاز میں Theatre Royalکرائے پر لے کر واعظ شروع کیا۔ شروع میں کم لوگ متوجہ ہوئے لیکن آہستہ آہستہ زیادہ لوگ اس کے لیکچروں میں شامل ہونے لگے لیکن جگہ کا کرایہ بہت زیادہ تھا، اس لیے اسے کم درجہ کی جگہ پروٹسٹنٹ ہال میں منتقل ہونا پڑا۔ اس مرحلہ پر اس نے یہ اعلان کیاکہ وہ فری کرسچن چرچ کی بنیاد رکھنے کا ارادہ رکھتا ہے اور کئی لوگوں نے اس کا خیر مقدم کیا اور یہ سرگرمیاں Masonic Hallمیں منتقل کر دی گئیں۔ اس مرحلہ پر اس کے مالی وسائل ختم ہو چکے تھے اور قرض چڑھ چکا تھا۔ مالی مدد کے بہت سے وعدے عملًا پورے نہیں ہو رہے تھے۔ اس وقت بظاہر ایسا معلوم ہوتا کہ یہ منصوبہ اب ناکام ہو جائے گا لیکن چند ماہ کے بعد ڈوئی کے لیے حالات بہتر ہونے لگے۔اس کے ساتھ اس کے طریقہ کار کا ایک اور پہلو سامنے آنے لگا۔ اس نے سست عقیدہ عیسائیوں اور دوسرے چرچوں کو ہدف تنقید بنانا شروع کیا اور اس مضمون کے ٹریکٹ  سڈنی میں تقسیم کرنے شروع کر دیئے۔ ان میں شراب نوشی کے خلاف بھی لکھا گیا تھا۔ جب کسی دوسرے پادری نے اس پر اسے احتجاج کا خط لکھا۔ تو ڈوئی نے اتنا تلخ جواب دیا کہ اس کے بعد کم از کم صلح کی کوئی گنجائش نہیں رہتی تھی۔یہ واضح ہو رہا تھا کہ ڈوئی میں دوسرے کے نقطہ نظر کو برداشت کرنے یا  اس کا نرمی سے جواب دینے کا مادہ کم ہے۔

(John Alexander Dowie, by Gordon Lindsay, published by Christ for the Nations INC. Dallas, Texas. 1980 p31-34)

سیاست میں ناکامی

اس مرحلہ پر ڈوئی نے پارلیمنٹ کا الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔ یہ مشورہ اس کے بعض دوستوں نے دیا تھا۔ لیکن ایک تو وہ اس دوڑ میں آخر میں شامل ہوا تھا اور دوسرے کم از کم اس مرحلہ پر وہ سیاست کے میدان کے نشیب و فراز سے صحیح طرح آگاہ بھی نہیں تھا۔ڈوئی نے انتخابات کی مہم کے دوران اپنے ایک خط میں لکھا کہ میری انتخابی مہم  کی پہلی میٹنگ میں امید سے زیادہ لوگ شامل ہوئے اور یہ اظہار کیا کہ میرے دوستوں کا خیال ہے کہ میں قانون ساز اسمبلی میں پہنچنے میں کامیاب ہو جاؤں گا۔

(John Alexander Dowie, by Gordon Lindsay, published by Christ for the Nations INC. Dallas, Texas. 1980 p35-40)

(The personal letters of John Alexander Dowie, compiled by Edna Sheldrake, published by Wilber Glenn Voliva, Zion City, Illinois, USA 1912, p257-260)

لیکن جب انتخاب کا نتیجہ نکلا تو ڈوئی بھاری اکثریت سے الیکشن ہار گیا۔ اپنے والدین کے نام  ایک طویل خط میں اس نے اس بات کا گلہ کیا کہ وہ انتخاب ہارا نہیں بلکہ اسے قربان کیا گیا ہے۔ وغیرہ وغیرہ ۔اس ناکام تجربہ کے بعد وہ قرض میں بھی ڈوبا ہوا تھا اور اس کے چرچ کو بھی شدید دھچکا پہنچا تھا۔ اسے سڈنی میں اپنا کام بند کرنا پڑا۔ اس کے بعد ڈوئی کو ایک اور دھکا پہنچا اور وہ یہ تھا کہ ایک بہروپیےHolding نے بھاری رقم دلوانے کا جھانسا دیا اور ڈوئی نے اس پر اعتبار کر لیا۔ اس کے نتیجہ میں ڈوئی کو کافی نقصان اٹھانا پڑا۔علاقہ میں یہ خبر مشہور ہو گئی کہ اصل میں ڈوئی نے اس سے چرچ کی تعمیر کے لیے رقم لے لی تھی۔ یہ شخص بعد میں گرفتار ہو گیا۔

(The personal letters of John Alexander Dowie, compiled by Edna Sheldrake, published by Wilber Glenn Voliva, Zion City, Illinois, USA 1912, p265-275)

(John Alexander Dowie, by Gordon Lindsay, published by Christ for the Nations INC. Dallas, Texas. 1980 p39-43)

1882ء تک یہ صورتحال تھی کہ ڈوئی کے جو بھی عزائم تھے وہ مکمل طور پر ناکام نظر آتے تھے۔ اس کی شخصیت ہنسی مذاق کا نشانہ بنی ہوئی تھی۔ وہ سڈنی میں ایک چرچ قائم کرنا چاہتا تھا اس میں ناکامی  ہوئی۔ الیکشن میں شکست نے مزید نقصان پہنچایا۔ قرضوں کا بوجھ چڑھا ہوا تھا۔ اس صورت  حال میں اس نے اپنی بیوی کے نام خط لکھا کہ مجھے دن میں ایک وقت کا کھانا بھی میسر نہیں ہے اور بعض اوقات 48گھنٹے بغیر کچھ کھائے گزر جاتے ہیں اور کسی طرف سے مدد کی توقع پوری نہیں ہو رہی اور بعض مرتبہ تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ موت نزدیک ہے۔ اس پر مزید یہ صدمہ پہنچاکہ اس جوڑے کی چھوٹی بیٹی کا انتقال ہو گیا ۔

(John Alexander Dowie, by Gordon Lindsay, published by Christ for the Nations INC. Dallas, Texas. 1980 p44-49)

حالات میں بہتری آتی ہے

لیکن اس کے معاً بعد حالات میں بہتری آنی شروع ہوئی۔ پہلے ڈوئی کو ایک چرچ میں وقتی ملازمت ملی، جس سے مالی طور پر حالات بہتر ہوئے۔ پھر جس کام کو سڈنی میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تھا وہ ملبورن میں شروع کیا گیا۔ 1884ء میں  اسے مالی وسائل میسر آگئے جس سے ملبورن میں فری کرسچن چرچ قائم کیا گیا اور ایک Tabenacle (عبادت گاہ) تعمیر کی گئی۔ پھر ایک کنونشن میں Ministry of Divine Healing یعنی روحانی طریقہ علاج کا آغاز کیا گیا۔ اس کا بنیادی نظریہ یہ تھا کہ مرض شیطان کی طرف سے ہے اور اس سے شفا یسوع کی مدد سے ہی ہو سکتی ہے۔ اس کے بعد آسٹریلیا میں اس کی شہرت میں اضافہ ہونا شروع ہوا۔ یہ پروپیگنڈا شروع ہوا کہ اس روحانی طریقہ علاج سے مایوس مریضوں کو شفا مل رہی ہے۔ اب اس کے وعظ میں آنے والے لوگوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ ان میں بیس ہزار تک کی تعداد میں بھی لوگ شامل ہوتے رہے ۔ڈوئی کے وعظ سڑکوں اور گلیوں پر ہو رہے تھے کہ یسوع مسیح کی طرف آئیں۔ ان تقریروں میں شراب نوشی کے خلاف تقاریر بھی شامل تھیں۔ اس کے ساتھ ملبورن شہر میں بھی ڈوئی کی مخالفت شروع ہو گئی۔شہر میں یہ قانون  بنا دیا گیا کہ اب سڑکوں اور گلیوں پر میٹنگز اور وعظ نہیں ہوں گے۔ڈوئی نے یہ قانون ماننے سے انکار دیا اور کہا کہ اس نے انجیل کی تعلیمات پر عمل کیا ہے اور اس طرح کی میٹنگز اس نے انگلستان اور آسٹریلیا کے دوسرے مقامات پر بھی منعقد کی ہیں۔ اس کے نزدیک یہ غیر آئینی اور مذہبی تعلیمات کے خلاف تھا اور گلیوں پر اپنی میٹنگز جاری رکھیں۔ اسے گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا گیا اور پانچ پاؤنڈ کا جرمانہ کیا۔ ڈوئی نے جرمانہ ادا کرنے سے انکار کر دیا اور اس پاداش میں تیس روز کے لیے جیل جانا پڑا۔

ڈوئی کا ایک خواب

اس واقعہ کے بعد ملبورن میں اس کی شہرت میں اور اضافہ ہو گیا۔اسی دور میں اس کا کہنا تھا کہ ایک رات خواب میں یا نیم بیداری میں اس نے تین مرتبہ یہ منظر دیکھا کہ اس  کے بستر پر ایک جسم پڑا ہے اور اس کے اوپر چادر ہے۔ جب وہ چادر ا ٹھاتا ہے تو وہ اس کی اپنی مردہ لاش نکلتی ہے۔ اس کی تعبیر ڈوئی نے یہ کی کہ اس کے معاًبعد اس کے مرکز کو دھماکے سے اڑانے کی کوشش کی گئی تھی اور یہ اس کو مارنے کی سازش تھی۔ ضروری نہیں کہ اس خواب یا منظر کو اس کی ذہنی اختراع قرار دیا جائے۔ تعبیر الرؤیاء کی رو سے اگر کوئی دیکھے کہ وہ مرا ہے اور لوگ اس پر آہ و زاری کرتے ہیں یا اسے کفن میں لپیٹا ہے  یا قبر میں ڈالا ہے تو اس کی تعبیر یہ ہے کہ اس کا دین کبھی اصلاح نہیں پائے گا۔

(تعبیر الرؤیاء از علامہ ابن  سیرین ، ترجمہ ابولقاسم دلاوری ، ناشر مصطفےٰ برادرز لاہور ص421)

 اسی روز اس کے ایک دوست نے یہ منظر دیکھا  کہ ڈوئی مر گیا ہے اور اس کی لاش  بری طرح مسخ  کی گئی ہے۔ اس کی تعبیر بھی واضح ہے۔

(John Alexander Dowie, by Gordon Lindsay, published by Christ for the Nations INC. Dallas, Texas. 1980 p50-56)

امریکہ نقل مکانی

ڈوئی نے International Divine Healers Associationکی بنیاد رکھی۔ اب اس کا ارادہ تھا کہ اس  سے زیادہ وسیع پیمانے پر کام شروع کرے اور اس کے لیے اس نے اب امریکہ کے ملک کا انتخاب کیا۔ جون 1888ء کو ڈوئی کا گھرانہ نیوزی لینڈ کے راستے امریکہ پہنچا۔ امریکہ میں اپنی آمد کے بعد دو سال تک ڈوئی نے امریکہ کی مختلف ریاستوں کے دورے کئے، لیکچر دیئے اور روحانی علاج  (Divine Healing) کا پرچار کیا۔ 1890ء میں ڈوئی نے  شکاگو کے مضافات میں Evanston میں رہائش اختیار کی اور یہاں رہائش پذیر ہوتے ہی اخبارات اور بعض دوسرے حلقوں کی طرف سے ڈوئی کی مخالفت کا آغاز ہو گیا اور بعض حلقوں کی طرف سے ڈوئی کو جھوٹا اور بہروپیا قرار دیا گیا۔

مدعی مسیحیت سے ملاقات

انہی دنوں میں اس علاقے میں ایک شخص Jacob Schweinfurth  نے مسیح ہونے کا دعویٰ کیا ہوا تھا اور اپنی ایک جماعت بھی بنا لی تھی، جس میں عورتوں کی بڑی تعداد شامل تھی۔ ڈوئی کے مداحوں کے مطابق ڈوئی اس سے ملاقات کرنے گیا اور اس کو خوب لاجواب بھی کیا۔ اس ملاقات کی جو تفصیلات بیان کی گئی ہیں ان کے مطابق اس گفتگو  میں ڈوئی نے آنحضرت ۖ کے بارے میں گستاخانہ تبصرہ کیا۔ حال ہی میں انٹر نیٹ پر بعض مضامین مہیا کیے گئے ہیں جن میں یہ عجیب دعویٰ پیش کیا گیا ہے کہ ڈوئی نے کبھی مسلمانوں کے خلاف کچھ نہیں کہا تھا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اپنے دعاوی کا اعلان کرنے سے قبل ہی اس کی گستاخیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔

(John Alexander Dowie, by Gordon Lindsay, published by Christ for the Nations INC. Dallas, Texas. 1980 p67-72)

اس وقت بھی ملکی اخبارات میں ڈوئی کی تیز زبانی کا تذکرہ شروع ہو گیا اور ڈوئی نے عیسائیت کے دوسرے منادیوں کو بھی نشانہ بنانا شروع کیا اور ان کی طرف سے ڈوئی کے خلاف توہین کے مقدمات بھی درج کئے گئے اور اس بات کی شہرت شروع ہوئی کہ وہ جہاں بھی جاتا ہے تنازعات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔

(The  Morning Call, SanFrancisco, June  11th 1890, p8) (THE SAINT PATTTj DAILY GLOBE: SATURDAY MORNTffq TOLY 30, 1802.)

شکاگو میں رہائش

پہلے ڈوئی کا خیال تھا کہ وہ کچھ عرصہ امریکہ میں پرچار کرنے کے بعد برطانیہ چلا جائے گا لیکن 1893ء میں شکاگو میں ہونے والے عالمی تجارتی میلہ کے موقع پر اس نے شکاگو میں رہائش پذیر ہونے کا ارادہ کیا۔جہاں یہ میلہ ہو رہا تھا وہاں پر اپنا Tabernacle بنایا جو کہ لکڑی کی مختصر عمارت تھی۔ لیکن شروع میں اسے پبلک میں کوئی خاص پذیرائی نہیں ملی۔لیکن پھر لوگ زیادہ تعداد میں یہاں پر روحانی علاج کے لیے آنے لگے۔اور شکاگو کے علاوہ دوسرے مقامات سے بھی لوگ یہاں آنے لگے۔ اس کے ساتھ ہی ان لوگوں کی طرف سے  جو کہ طب کے پیشہ سے منسلک تھے اور اخبارات کی طرف سے ڈوئی کے روحانی طریقہ علاج کی مخالفت شروع ہو گئی۔ ان کے نزدیک ڈوئی بیماروں کو علاج کرانے سے روک رہا تھا اور ڈوئی کے گروہ کا مؤقف تھا کہ ان کا نظریہ ہے کہ بیماری کی صورت میں صرف روحانی طریق سے علاج کرانا چاہئے لیکن وہ اس پر کسی کو مجبور نہیں کرتے ۔ڈوئی اور اس کے گروہ نے کچھ گھر کرائے پر لے کر وہاں پر healing homes قائم کئے۔اس پر اخبارات میں مخالفت اور شدید ہو گئی۔اخبارات نے ان کو پاگل خانوں کا نام دیا اور لکھا کہ ان میں لوگوں کو بیوقوف بنا کر داخل کیا جاتا ہے اور جب ان کے پیسے ختم ہو جاتے ہیں تو انہیں سڑکوں پر  دھکے کھانے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔جب ان Divine Healing Housesمیں کسی کی موت ہوتی تو اخبارات میں اس کی خبریں شائع ہوتیں اور یہ بھی لکھا جاتا کہ جب ڈوئی سے ان اموات کے بارے میں پوچھا جاتا  ہے تو اسے غصہ آجاتا ہے۔ اسی دور میں ڈوئی نے اپنے اخبار لیوز آف ہیلنگ (Leaves of Healing) کا آغاز ہوا، جس کے بعد اس کو اپنے پروپیگنڈا میں آسانی ہو گئی۔

(The Princeton Union, 6th December 1894)

(Chicago Tribune 24 June 1894,p11)

مقدمات کا سلسلہ

اس مرحلہ پر ایک طرف تو ڈوئی کے مداحوں میں اضافہ ہو رہا تھا اور لوگ بڑی تعداد میں اس کےDivine Healing Homesکی طرف رجوع کر رہے تھے اور دوسری طرف ایک بہت بڑا طبقہ اس کی مہم کی پہلے سے زیادہ مخالفت کر رہا تھا اور اس کی مخالفت میں  شکاگو کا بورڈ آف ہیلتھ بھی شامل ہو گیا تھا۔ ڈوئی کی گرفتاری کے احکامات جاری کیے گئے۔ اسے عدالت میں ضمانت کرائی گئی۔مقدمہ شروع ہوا۔عدالت نے ڈوئی کو جرمانہ کی سزا سنائی اور ڈوئی نے جرمانہ ادا کرنے سے انکار کر دیا۔صحت کے شعبہ نے اپنےHEALING HOMESکو رجسٹر کرانے کو کہا تو ڈوئی نے اس سے بھی انکار کر دیا۔ اس مرحلہ پر بیسیوں مرتبہ ڈوئی کی گرفتاری کے وارنٹ جاری ہوئے اور ضمانت کرائی گئی۔ اس کے بہت مداحوں نے اس کے حق میں گواہی بھی دی۔

اس کے علاوہ محکمہ ڈاک نے اس کے جریدے لیوز آف ہیلنگ کو رعایتی نرخ دینے سے انکار کیا تو رعایتی نرخ کی بحالی کے لیے دارالحکومت واشنگٹن کا سفر کیا اور رعایتی نرخ بحال کرائے اور اس دوران امریکہ کے صدر Mckinley سے بھی ملاقات کی۔ اب  شکاگو میں اس کے لیکچروں میں ہزاروں لوگ شامل ہورہے تھے۔

(John Alexander Dowie, by Gordon Lindsay, published by Christ for the Nations INC. Dallas, Texas. 1980 p70-96)

نئے چرچ کا قیام

1896ء میں ڈوئی نے کرسچن کیتھولک چرچ (Christian Catholic Church)  بنانے کا اعلان کیا اور سال کے شروع میں اس سلسلہ میں دو کانفرنسیں منعقد ہوئیں۔ یہ چرچApostolic Churchکی طرز پر بنایا جا رہا تھا اور ڈوئی کو اس کا First Apostleمقرر کیا گیا۔ اس چرچ کے قیام کے بعد سب سے پہلے اس چرچ کے منادی مقرر کیے گئے۔ جو کہ شکاگو کے گھر گھر جا کر منادی کریں۔ جلد ان رضاکاروں کی تعداد تین ہزار تک پہنچ گئی۔ امریکہ کے دوسرے شہروں کے علاوہ آسٹریلیا، انگلینڈ، جنوبی افریقہ اور سکاٹ لینڈ میں اس چرچ کی شاخیں قائم کی گئیں۔لاکھوں ٹریکٹ شائع کر کے پھیلائے گئے۔ڈوئی کو اب اس چرچ کا  General Overseer کہا جاتا تھا۔

1899ء میں ڈوئی کے چرچ نے شکاگو میں برائیوں کے خلاف ”مقدس جنگ” کا اعلان کیا۔یہ بات قابل توجہ ہے کہ اس کا آغاز کرتے ہوئے  ڈوئی نے اپنی تقریر میں سب سے پہلے ”ملاکی”  نبی کی پیشگوئی پڑھ کر سنائی۔ کچھ عرصہ کے بعد اس نے یہ اعلان کرنا تھا کہ وہ اس پیشگوئی کا مصداق ہے۔ اس جنگ کی افتتاحی تقریب میں اپنے پیروکاروں کو یہ خوشخبری بھی سنائی گئی کہ گزشتہ مالی سال میں اس کے چرچ کو دس لاکھ ڈالر کے عطیات موصول ہوئے تھے۔ اس مہم کے موقع پر بھی ڈوئی نے ڈاکٹروں کے خلاف بہت کچھ کہا۔ اس کا کہنا تھا کہ ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ کوئی بچہ ان کی موجودگی  کے بغیر دنیا میں نہیں آ سکتا، اور نہ ہی کوئی شخص اس دنیا سے ان کے بغیر رخصت ہو سکتا ہے اور وہ پنگوڑھے سے لے کر قبر تک انسانیت کو قابو کر سکتے ہیں۔ڈوئی نے حاضرین سے کہا کہ اگر آپ اپنے بچے کا علاج نہیں کرانا چاہتے تو ڈاکٹر سمجھتے ہیں کہ یہ ان کا قانونی حق ہے کہ وہ اس کامنہ کھولیں اور اس میں دوائی ڈال دیں۔ اس دور میں حفاظتی ٹیکوں کی دریافتوں کا سلسلہ نیا نیا شروع ہوا تھا۔ ڈوئی نے اس کے خلاف بھی بہت غم و غصہ کا اظہار کیا اور کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ حفاظتی ٹیکوں کے نام پر ہر قسم کی گندی بیماری کو انسانوں کے جسم میں داخل کیا جائے، جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ انسان کا جسم گل سڑ جائے گا اور یہ خدا کے چرچ  کے خلاف ابلیس کی سازش ہے اور یہ سازش ناکام ہو گی۔اس کے علاوہ اس مہم میں شراب نوشی، تمباکو، سؤر کا گوشت کھانے اور جوئے کے خلاف مہم بھی شامل تھی۔

(Zions Holy War against the hosts of hell in Chicago, by John Alexander Dowie, p 1-225)

اسی مہم کے دوران ڈوئی نے19اکتوبر 1899ء کو شکاگو میں ایک لیکچر دینے کا اعلان کیا جس کا عنوان Doctors, Drugs and Devilتھا۔ جس کا ترجمہ ہے”ڈاکٹر، دوائیاں اور شیطان”۔ جیسا کہ عنوان ہی سے ظاہر ہے اس کا مقصد طبی دنیا  پر حملہ کرنا تھا۔ اس مرتبہ میڈیکل کالج کے طلباء اور طب کے پیشہ سے منسلک لوگوں نے ردعمل دکھانے کا فیصلہ کیا۔ ان میں سے کئی ایسی بوتلوں سے مسلح ہو کر گئے تھے جن میں امونیا (Ammonia) بھرا ہوا تھا۔ ان لوگوں کی تعداد اڑھائی ہزار کے قریب تھی۔ جونہی یہ تقریب شروع ہوئی ، ان لوگوں نے حملہ کر دیا۔

(The True Northerner, 25 October 1899, Perrysburg journal 27 October 1899)

اس کے بعد بھی شکاگو میں ڈوئی کے لیکچروں پر انڈوں اور سبزیوں سے حملے ہوئے اور ایک موقع پر تو ان کا گروہ ساری رات ہال میں محصور رہا۔

(Wheeling Daily Intelligencer Nov.2, 1899)

ڈوئی کی یہ شدید مخالفت صرف شکاگو تک محدود نہیں تھی۔ بلکہ1899ء کے سال میں شکاگو کے باہر بھی کئی مرتبہ ڈوئی کے لیکچروں پر ڈنڈوں اور پتھروں سے مسلح  لوگوں نے حملہ کیا۔

(Dakota Farmers Leaders, Nov 3,

1899)

(الفضل ربوہ 3 ستمبر 2015ء)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مکرم ڈاکٹر مرزا سلطان احمد صاحب جان الیگزینڈر ڈوئی۔ گمنامی سے عروج تک (قسط دوم آخر)

ڈوئی کی تحریک وسیع ہوتی ہے

1900ء کے سال کے واقعات بھی بنیادی طور پر اسی طرز پر نظر آتے ہیں، جس طرز پر 1899ء کا سال گزرا تھا۔ صرف فرق یہ ہے کہ اب ڈوئی اور اس کا چرچ جو کہ Zion کہلاتا تھا پہلے سے زیادہ مضبوط نظر آتا ہے۔ اب اس کی مہم پہلے سے زیادہ وسیع پیمانے پر چلائی جا رہی تھی اور زیادہ لوگ اس سے منسلک ہو رہے تھے لیکن اس کے ساتھ اس کی مخالفت بھی زیادہ وسیع ہو رہی تھی۔ اپنی تبلیغی مہم چلاتے ہوئے ڈوئی کے چرچ سے وابستہ افراد کو جو کہ Zionists کہلاتے تھے گرفتار کیا گیا۔ یہ گرفتاریاں شکاگو، Mansfieldاور انڈیانا میں ہوئیں اور کبھی کبھی یہ خبر بھی اخبارات میں شائع ہوتی کہ کسی خاوند نے ڈوئی پر ہرجانہ کا دعویٰ کر دیا ہے  کہ اس کے اثر کی وجہ سے اس کی بیوی گمراہ ہوئی ہے اور اس نے اسے چھوڑ دیا ہے اور بعض اوقات  ڈوئی کسی شخصیت کے متعلق توہین آمیز تبصرہ کر دیتا اور اس کی طرف سے ہرجانہ کا مقدمہ قائم کر دیا جاتا اور ایسا بھی ہوتا کہ ڈوئی کے اثر کی وجہ سے طبی علاج  سے انکار کرایا جاتا اور مریض کا انتقال ہوجاتا تو اس پر جلوس نکل آتا۔

(Akron Daily Democrat, 1st October 1900, p1, El Paso Daily Herald 18th August 1900, The Salt Lake Herald 10th February 1900, The Evening Star Feb. 9th 1900, The Honolulu Republic, 27th December 1900)

ڈوئی اور اس کے ساتھی Zionistsکے نظریات جو بھی تھے، اس بحث سے قطع نظر بسااوقات اس کے خلاف  کافی شدید رد عمل دکھایا جاتا تھا۔ ایک مرتبہ اس کے پیروکار  Mansfield ایک گھر میں اپنی تقریب منعقد کر رہے تھے کہ ایک مشتعل ہجوم نے اس گھر کا محاصرہ کر لیا اور اس گھر پر پتھراؤ کیا اور محصور افراد کے خلاف نعرے بازی شروع کی اور انہیں گالیاں دیں۔ اس مجمع سے یہ آوازیں بھی بلند ہوتیں کہ انہیں پھانسی دو۔ پولیس نے مجمع کو منتشر کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام ہوگئے۔ مجمع نے اس چرچ کے دو نمایاں افراد کو پکڑکر ان کے کپڑے اتار کر ان پر نیلا پینٹ کر دیا۔ پھر ان افراد کو جیل میں پناہ دی گئی۔

(Stark County Democrat, August 3 1900)

اس قسم کے حملوں کی وجہ سے ڈوئی اور اس کے رفقاء کار نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنی حفاظت کے لیے ایک فوجی کمپنی بنائیں گے۔ پہلے 200افراد پر مشتمل Zion Guard موجود تھی۔ پھر گورنر  Tanner کی منظوری سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس میں وسعت پیدا کی جائے۔

(Mower County Transcript, 7th February, 1900p 1)

اس کے ساتھ ہی اس چرچ نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ مغربی دنیا کے علاوہ مشرقی دنیا میں بھی اپنی سرگرمیاں شروع کرے۔ چنانچہ چین کے لیے ایک Overseerمقرر کیا گیا۔

(Barre Evening Telegram 9 November, 1900)

اس دلچسپ بات کا ذکر ضروری ہے کہ اس مرحلہ تک ابھی خود ڈوئی کا رسالت کا کوئی دعویٰ سامنے نہیں آیا تھا لیکن اس کے چرچ کے سرکردہ افراد نے اس بات کا اعلان شروع کر دیا تھا کہ ڈوئی اس زمانے میں یوحنا (حضرت یحییٰ   )کا بروز ہے اور ایلیا (حضرت الیاس ) کے رنگ میں آیا ہے۔ اور یہ دعاوی اخبارات  میں شائع ہونا شروع ہوگئے تھے اور چرچ کے سرکردہ افراد اس بات کا ذکر کر رہے تھے یہ سب کچھ حضرت عیسیٰ  کی آمد ثانی کی تیاری کے لیے ہو رہا ہے اور اس بات کا بھی اعلان کیا جا رہا تھا کہ اس چرچ کا نام Christian Catholic Church in Zion ہے اور لفظ Zion سے مراد خدا کے وہ چنیدہ لوگ ہیں جو کہ مسیح کی آمد ثانی کے لئے تیاری کر رہے ہیں۔ ابھی تو یہ چرچ  Zion (صیہون) کا حصہ ہے لیکن پھر تمام Zion اس چرچ میں ضم ہو جائے گا۔

(Semi Weekly Interior Journal, 25 May 1900 P1, The Scranton Tribune, 10th May 1900)

1900ء کے آخر میں ڈوئی اور اس کی تحریک کے حوالے سے دو اہم واقعات ہوئے جن کا اثراس تحریک کے مستقبل پر کافی زیادہ نظر آتا ہے۔ اس سال کے آخر میں میں ڈوئی نے انگلستان اور یورپ کا دورہ کیا اور اسی سال کے دوران ڈوئی نے اپنا شہر آباد کرنے کے لئے شکاگو کے قریب زمین خریدنے کا کام شروع کیا۔ پہلے اس کے دورہ یورپ کا مختصر ذکر کرتے ہیں۔

انگلستان اور یورپ کا دورہ

ڈوئی کا یہ دورہ اگست 1900ء میں شروع ہوا۔ شکاگو میں ڈوئی کے ہزاروں پیروکاروں نے اسے الوداع کیا۔ وہ اپنے وفد سمیت شکاگو سے نیویارک پہنچا اور وہاں سے یورپ کے لیے روانہ ہوا۔ اس وقت یہ اعلان کیا جا رہا تھا کہ ڈوئی نے یہ عہد کیا تھا کہ وہ اگلی صدی کے آغاز پر یروشلم میں داخل ہوگا، اس لیے ڈوئی یورپ سے یروشلم کے لئے روانہ ہو گا اور یہ کہا جا رہا تھا کہ ڈوئی یروشلم میں سوچ بچار اور عبادت میں اپنا وقت گزارے گا۔ یہ بات قابل  ذکر ہے کہ اس وقت اکثر اخبارات کی پالیسی ڈوئی کے ساتھ ہمدردانہ نہیں تھی لیکن اس موقع پر اخبارات یہ ذکر ضرور کر رہے تھے کہ ڈوئی بڑی شان و شوکت کے ساتھ یورپ کے دورہ پر روانہ ہو رہا ہے اور اس بات کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ ڈوئی بہر حال ایک غیر معمولی آدمی ہے جو کہ اتنی مخالفت کے باوجود تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ چنانچہ ایک اخبار THE EVENING TIMESنے لکھا:

 He has been reviled, mobbed and imprisoned more times than he himself can count, yet through opposition which would have speedily ended the career of an ordinary man, this remarkable person prospered and his pocketbook bulged with fatness.

(The Evening times Washington, 11th August 1900 p2)

ترجمہ: ”اس شخص کو حقارت کا نشانہ بنایا گیا، اس پر بلوائیوں نے حملے کئے اور اسے اتنی مرتبہ حراست میں لیا گیا کہ اسے خود بھی یاد نہیں ہو گا۔ اس مخالفت کے سامنے ایک عام آدمی کا مستقبل ختم ہوجاتا لیکن یہ غیر معمولی شخص ترقی کرتا گیا اور اب اس کی جیبیں بھری ہوئی ہیں۔

(The Evening times Washington, 10th August 1900, El Paso Daily Herald 11th August 1900)

ڈوئی نے اپنے سفر کا آغاز لندن میں اپنی سرگرمیوں سے کیا۔ سب سے پہلے اس نے سینٹ مارٹن ہال میں اپنی تقریر سے کیا لیکن اسے مخالفانہ ماحول کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں پر چار سو کے قریب مشتعل میڈیکل کے طلباء اس کے منتظر تھے۔ انہوں نے اس تقریب کو خراب کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ لندن میں ڈوئی کی مسلسل مخالفت جس طبقہ نے سب سے زیادہ کی وہ میڈیکل کے طلباء تھے۔ انہوں نے اس کی تقریروں کے مواقع پر ہنگامے شروع کر دیئے۔ وہ ڈوئی کی تقاریر کے مواقع پر ہال  میں داخل ہو جاتے۔ آوازیں کستے ، سٹیج پر کرسیاں پھینکتے ۔ڈوئی ایسے مواقع پر ان پر اپنے غصہ کا اظہار کرتا۔پولیس طلب کی جاتی۔ پولیس مظاہرین کو  گرفتار بھی کرتی لیکن پھر بھی یہ مخالفت جاری رہتی۔ جج نے ان طلباء کو جرمانے کیے یہ تنبیہ کی کہ وہ حیران ہیں کہ پڑھے لکھے لوگ اس قسم کے ہنگامے کر رہے ہیں۔ لیکن میڈیکل کے طلباء نے اپنی مہم جاری رکھی۔ کئی مواقع پر ڈوئی کو ہال سے تقریر ادھوری چھوڑ کررخصت ہونا پڑا۔ ڈوئی نے میڈیکل کے طلباء کے علاوہ فری میسن تنظیم اور پریس کو بھی اپنے خلاف مہم چلانے کا ذمہ دار قرار دیا۔ لیکن اس کے باوجود کچھ نہ کچھ لوگ ڈوئی کے چرچ کے رکن بنتے رہے۔ نومبر میں ڈوئی نے  لنڈن سے نکل کر لیڈز اور مانچسٹر میں تقاریر کی کوشش کی تو بھی میڈیکل کے طلباء ان تقریبات پر حملہ کر دیا۔

(The big Stone Gap post 11th October, The Abeville Press and Banner 24 Oct 1900, The Saint Paul Globe 19 October 1900, Indianapolis journal 14 October 1900،, Rock Argus Island Nov 22 1900, The Salt Lake Herald 24 th Nov. 1900)

انگلستان سے ڈوئی پیرس اور پھر سوئٹزرلینڈ کے لئے روانہ ہوا اور پھر وہاں سے واپس لندن آگیا۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ امریکہ سے نکلتے ہوئے اصل پروگرام یہ تھا کہ ڈوئی نئے سال کے آغاز میں یروشلم میں داخل ہو گااور مقدس مقامات پر کچھ عرصہ عبادت اور سوچ بچار میں گزارے گا۔ لیکن یہ واضح نہیں کہ کس وجہ سے یہ پروگرام ختم ہو گیا اور 3 جنوری 1901ء کو ڈوئی لندن سے واپس امریکہ کے لئے روانہ ہو گیا اور یروشلم کا رخ نہیں کیا۔

(El Passo Daily Herald 26 th Nov. 1900, Marshall County Independent 26 th December 1900, The Eveining Bulletin 4 January 1901)

صیہون کا منصوبہ

1900ء کے سال میں ہی ڈوئی کے قائم کئے جانے والے شہر صیہون (ZION) کا منصوبہ سامنے آ گیا تھا۔ یہ ایک ایسے شہر کا منصوبہ تھا جس میں ڈوئی کے پیروکاروں نے آباد ہونا تھا ۔اس نے ایک ایسا شہر بننا تھا جس میں ڈوئی کے اصولوں کی حکومت ہونی تھی۔ شکاگو کے نزدیک  اس شہر  کے لیے زمین مسلسل کوششوں سے مختلف اوقات میں خریدی گئی تھی اور خریدنے کے ساتھ ہی اس پر پانی ڈھونڈنے کا ابتدائی کام شروع ہو گیا تھا۔یہ زمین سو  دو سو ڈالر ایکڑ کے حساب  سے قیمت ادا کر کے مختلف مالکان سے خریدی جا رہی تھی۔1900ء کے آغاز میں ہی یہ خبریں گردش کرنے لگی تھیں کہ اس مجوزہ شہر کے لیے چھ ہزار ایکڑ زمین خرید لی گئی تھی اور پھر اس میں اضافہ ہوتا گیا۔ فروری میں ڈوئی کے پیروکار ایک ہزار کے وفد کی صورت میں اس مجوزہ شہر کی جگہ کو دیکھنے کے لیے آئے۔جولائی 1900ء میں اس شہر کے سنگ  بنیاد کی تقریب منعقد ہوئی  اور ڈوئی نے گرجا کی  جگہ پر کدال چلا کر اس  شہر کی تعمیر کا افتتاح کیا۔اس شہر کی اقتصادی ترقی کا منصوبہ آغاز سے ہی بنا لیا گیا تھا اور شروع میں کم از کم دو صنعتوں کو شروع کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ ان میں سے ایک Laceکے کپڑے کی صنعت تھی۔ امریکہ میں اب تک اس قسم کا کپڑا نہیں بنتا۔ اس کے لیے مشینری انگلستان سے در آمد کی گئی اور اس کو شروع کرنے کے لیے وہیں سے کام کرنے والے بھی بلوائے گئے تھے۔

(WORTHINGTON ADVANCE, FEBRUARY 2. 1900., Little Fall Herald 1900 January 1900, Phillipsburg Herald March 1, 1900,         The Argus July 16th 1900 p4, The Cape Girradeu Herald November 17 1900)

1901ء میں بھی صیہون (Zion) شہر کے لیے مزید زمین کی خرید کا کام جاری رہا ۔یہ منصوبہ وسیع سے وسیع تر ہو رہا تھا۔اب یہ کام اتنے بڑے پیمانے پر کیا  جا رہا تھا کہ ایک ڈوئی نے ایک ایسی بڑی کمپنی کو خریدنے کے لیے بیس لاکھ ڈالر کی رقم کی پیشکش کی جس کی اس علاقہ میں بہت بڑی اراضی تھی۔ اس کے علاوہ اس علاقہ کے فارم خرید کر بھی اس مجوزہ شہر میں شامل کئے جا رہے تھے۔اس شہر  کا اپنا بینک بھی قائم کر دیا گیا تھا  اور اس کو حکومت کی طرف سے شک کی نگاہ سے بھی دیکھا جا رہا تھا اور  سٹیٹ اسمبلی کی طرف سے ایک کمیٹی اس پر تحقیقات کے لیے قائم کی گئی تھی۔اس پر ردعمل دکھاتے ہوئے ڈوئی نے اعلان کیا کہ وہ سٹیٹ کی اسمبلی کو اس بات کی اجازت نہیں دے گا کہ وہ بینک کے کھاتے دیکھیں۔ لیکن اس کے ساتھ اس شہر کی تعمیر پورے زور و شور سے جاری تھی۔ 25 مارچ 1901ء کو ڈوئی شکاگو سے اپنے شہر میں اپنی نئی تعمیر کی گئی رہائش گاہ میں منتقل ہو گیا۔

(The Rock Island Argus 3rd September 1901 p1,     The Rock Island Argus, 19th February 1901 p1, The Rock Island Argus 25th Feb.1901 p1, The Indianapollis Journal 20 th February 1901 p1)

اصل منصوبہ کیا تھا؟

ڈوئی کا منصوبہ دنیا کے مختلف مقامات  پر ایسے  شہر آباد کرنے کا تھا  اور اس کے علاوہ یہ منصوبہ بھی تھا کہ سب سے بڑا Zionشہر یروشلم کے مقام پر آباد کیا جائے۔ تاکہ وہاں حضرت عیسیٰ   کی آمد ثانی کی تیاری کی جائے ۔ اس وقت یہ شہر ترکی کی سلطنت عثمانیہ کے تحت تھا۔ ڈوئی نے جون 1902ء میں یہ اعلان کیا تھا:

ZION WILL BUY UP JERUSALEM FOR THE KING. If we can establish three, four, five, six, seven or more Zion cities, and can get a million dollars a year, we can buy out the Turk, we can buy out the Mohammedan, we can buy out the Jew, we can buy out the infidel, and we can get possession of the sacred site of Jerusalem, and build it up in  preparation for the Coming of Christ our King to His holy hill of Zion.

(John Alexander Dowie, by Gordon Lindsay, published by Christ for the Nations INC. Dallas, Texas. 1980 p130-132)

ترجمہ: صیہون یروشلم کو اپنے بادشاہ کے لیے خرید لے گا۔ اگر ہم تین، چار ، پانچ ، چھ ، سات یا زیادہ صیہون شہر آباد کر لیں اور ہر سال دس لاکھ ڈالر  کا انتظام کر لیں تو ہم ترکوں کو خرید سکتے ہیں، ہم مسلمانوں کو خرید سکتے ہیں ، ہم یہودیوں کو خرید سکتے ہیں، ہم بے دینوں کو خرید سکتے ہیں۔ ہم یروشلم کی مقدس زمین کا قبضہ حاصل کر سکتے ہیں اور وہاں پر اپنے بادشاہ یسوع کی صیہون پر اس کی مقدس پہاڑی پر آمد کے لیے اس شہر کو تعمیر کریں گے۔

ان سب ترقیات کے ساتھ خود شکاگو اور اس کے مضافات میں بھی ڈوئی کی مخالفت بھی عروج پر تھی۔ بسااوقات ایسا ڈوئی کے پیروکار جب یہاں پر اپنی میٹنگ کرتے، یا اپنے نظریات کا پر چار کرتے  تو ان پر انڈوں اور پانی سے حملے کیے جاتے اور بسااوقات بڑے بڑے ہجوم ان کے خلاف اکٹھے ہو جاتے اور طب کے پیشے سے منسلک لوگوں کے ساتھ تصادم حسب  سابق جاری تھا۔

(The Independent 12 July 1901, Akron Daily Democrat 22 August 1901, The Kalispell 11 July 1901)

دعاوی کا اعلان

ڈوئی کی کہانی میں ایک بہت اہم موڑ 2 جون 1901ء کو آیا۔ جب اچانک ایک آڈیٹوریم میں پانچ ہزار کے مجمع میں ڈوئی نے یہ اعلان کیا:

"I am Elijah,the Prophet, who appeared first as Elijah himself, second as John the Baptist, and who now comes in me, the restorer of all things. Elijah was a prophet, John was a preacher, but I combine in myself the attributes of prophet, priest and ruler over men۔Gaze on me then: I say it fearlessly. Make the most of it, you wretches in ecclesiastical garb. I am He that is; the living physical and spiritual embodiment of Elijah, and my coming to earth a third time has been prophesied by Malachi, by Peter, and three thousand years go by Moses. All who believe me to be in very truth all of this; stand up.”

(The Watchman and Southron, June 5 1901)

ترجمہ: میں ایلیا (الیاس )نبی ہوں جو کہ پہلی مرتبہ خود ایلیا کی صورت میں آیا ، دوسری مرتبہ بتسمہ دینے والے یوحنا (یحییٰ) کی صورت میں ظاہر ہوا، اور اب میری صورت میں ظاہر ہو رہا ہے ۔میں تمام  چیزوں کو بحال کرنے کے لیے آیا ہوں۔ ایلیا ایک نبی تھا، یوحنا ایک مبلغ تھا۔لیکن مجھ میں ایک رسول کی خصوصیات بھی ہیں، ایک منادی کی خصوصیات بھی ہیں اور میں انسانوں پر حکمران بھی ہوں۔ میں بغیر کسی خوف کے کہتا ہوں کہ میں وہ ہوں جو کہ ایلیا کا جسمانی بروز بھی ہوں اور روحانی بروز بھی ہوں اور زمین پر میرے تیسری مرتبہ آنے کی پیشگوئی ملاکی نبی نے بھی کی تھی، پطرس نے بھی کی تھی اور تین ہزار سال قبل موسیٰ نے بھی کی تھی۔ جو مجھ پر ایمان لاتے ہیں کھڑے ہو جائیں”۔

اسی وقت تین ہزار سے زاید موجود افراد نے کھڑے ہو کر ڈوئی پر ایمان لانے کا اعلان کیا۔اس کے بعد ڈوئی نے اعلان کیا کہ وہ ایک مذہبی تسلط کا منادی ہے جس میں کسی سے مشورہ نہیں لیا جائے گا۔ یہ خدا کی حکومت اور خدا کے لیے حکومت ہو گی۔ اب جمہوریت ناکام ہو چکی ہے۔

(The Republican 9 june 1901)

اس طرح اب ڈوئی نے اللہ کے رسول ہونے کا دعویٰ کر دیا تھا۔ اس کی گستاخی صرف یہاں تک محدود نہیں تھی کہ اس نے رسالت کا دعویٰ کیا تھا بلکہ اس نے اس حضرت موسیٰ  کی اس پیشگوئی کے مصداق ہونے کا بھی دعویٰ کیا تھا جو کہ آنحضرت ۖ کے بارے میں تھی۔ یہ بھی ایک بڑی وجہ تھی کہ حضرت اقدس مسیح موعود نے اسے مباہلہ کا چیلنج دیا تھا۔ وہ اب برملا اس بات کا اظہار کر رہا تھا کہ  اس کے ذریعہ سے دنیا میں مذہبی سلطنت قائم کی جائے گی۔

ڈوئی کی مالی ترقی

ڈوئی کے دعوے کے بعد اس کی مخالفت سامنے آنا تو ایک قدرتی بات تھی لیکن اب اخبارات یہ بھی تذکرہ کر رہے تھے کہ ڈوئی مالی اعتبار سے ایک  بہت طاقتور حیثیت رکھتا ہے اور یہ خبریں شائع ہو رہی تھیں کہ اب ڈوئی کے پاس جمع اثاثوں کی مالیت دو کروڑ تیس لاکھ ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔ واضح رہے کہ اس وقت ڈالر کی قیمت اب  کے ڈالر کی نسبت بہت زیادہ تھی۔ سونے کی جو مقدار اب 1200اور1500ڈالر میں آتی ہے اس وقت 19ڈالر میں آ جاتی تھی اور یہ اس وقت کے لحاظ سے بہت زیادہ رقم تھی اور ہر سال لاکھوں ڈالر اس کے پاس آ رہے تھے۔ امریکہ اور یورپ میں بہت سے مقامات پر اس کے چرچ کی شاخیں قائم ہو چکی تھیں۔

(Mount Vernon Signal 31st Oct. 1902, Blue Grass Blade 26 th January 1902)

حضرت اقدس مسیح موعود نے 1902ء میں پہلی مرتبہ ڈوئی کو چیلنج دیا اور اس وقت تک اس کے مذکورہ دعاوی سامنے آ چکے تھے۔ اس وقت ڈوئی کی، اس کی تحریک کی، اس کے آباد کردہ شہر کی پوزیشن کیا تھی۔  اس کے بارے میں اس وقت کے ایک اخبار نے یہ تجزیہ شائع کیا تھا:

Less than a year ago John Alexander Dowie who calls himself   Elijah The Restorer and who is the founder and prophet of  the Catholic Church in Zion,  prophesied  ere another  twelve months should pass he would built a city for his  people . The prophecy ha s come true, and today Zion stands on the shores of lake Michigan. Marvelous is not too strong word to apply to Zion City. Seven months  it was a scattered settlement of 100 souls. Its residents today number  6000, and over a thousand homes have been erected.

(Essex County Journal 22 Augusy 1902 )

ترجمہ: ایک سال سے بھی کم عرصہ ہوا ہے کہ جان الیگزینڈر ڈوئی نے، جو سب کچھ بحال کرنے والی ایلیا ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور صیہون کے کیتھولک چرچ کا نبی ہے، یہ دعویٰ کیا تھا کہ بارہ ماہ نہیں گزریں گے کہ وہ اپنے پیروکاروں کے لئے  ایک شہر آباد کر ے گا۔ یہ پیشگوئی پوری ہو چکی ہے۔ اب صیہون کا شہر میشیگن کی جھیل کے کنارے آباد ہوچکا ہے۔ اس کے لیے شاندار کا لفظ کوئی مبالغہ نہیں ہے۔ سات ماہ پہلے اس جگہ پرصرف  ایک سو  نفوس پراگندہ طور پر آباد تھے ، اب یہاں چھ ہزار لوگ آباد ہو چکے ہیں اور ایک ہزار سے زائد مکان تعمیر ہو چکے ہیے”۔

پھر یہ اخبار لکھتا ہے:

Zion City on Lake Michigans shore, will be Dowies capital until his followers outgrow it. Ultimately he hopes to build a worlds capital near Jerusalem. There if his dream of religious conquest comes true, he or his successor will rule the Catholic Church in Zion for all the world.

ترجمہ: مشی گن جھیل کے کنارے پر آباد صیہون اس وقت تک ڈوئی کا مرکز ہو گا جب تک کہ اس کے پیروکار اس میں نہ سما سکیں۔ اسے امید ہے کہ وہ بالآخر دنیا کا دارالحکومت یروشلم میں تعمیر کرے گا۔ اگر مذہبی فتح کا اس کا خواب پورا ہوتا ہے تو وہ یا اس کا جانشین دنیا بھر میں صیہون کے کیتھولک چرچ  پر حکومت کرے گا۔

اس طرح ڈوئی کی زندگی کی کہانی اس مرحلہ تک پہنچی جب اس نے رسالت کا دعویٰ کیا اور حضرت مسیح موعود نے اسے چیلنج دیا۔ جیسا کہ یہ حقائق ظاہر کرتے جس وقت حضرت مسیح موعود  نے ڈوئی کو چیلنج دیا، اس وقت ڈوئی گمنامی سے نکل کر شہرت اور دولت میں اپنی ترقی کے عروج پر پہنچ رہا تھا۔ جب اس نے رسالت کا اعلان کیا تو اسی لمحہ تین ہزار افراد نے کھڑے ہو کر اس کی تائید کی تھی ۔جبکہ جماعت  احمدیہ کے پہلے جلسہ میں بمشکل ستر احباب شامل ہوئے تھے۔ اس دور میں حضرت مسیح موعود کے پیروکاروں کے پاس اتنے مالی وسائل بھی نہیں تھے کہ ایک مینارة المسیح کو تعمیر کر سکتے جبکہ ڈوئی کے پیروکار اس وقت ایک جدید شہر بمعہ صنعتوں کے تعمیر کر رہے تھے۔ جب یہ روحانی مقابلہ شروع ہوا اس وقت صرف یہی نہیں تھا کہ ڈوئی حضرت مسیح موعود سے عمر میں بہت چھوٹا تھا، بلکہ اس وقت مالی وسائل، شہرت اور دنیاوی طاقت کے لحاظ سے یہ صورتحال تھی کہ کوئی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ کسی دنیاوی اندازے کے بھروسے پر یہ چیلنج دیا گیا تھا۔

(الفضل ربوہ 4 ستمبر 2015ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button