متفرق مضامین

مورخہ9مارچ 1907ء کو ڈاکٹر جان الیگزنڈر ڈوئی کی عبرتناک ہلاکت

(مکرم کریم ظفر ملک صاحب)

سیدنا حضرت مسیح موعود کی ایک عظیم الشان پیشگوئی کا ظہور

اس نشان کا ظہور ساری دنیا خصوصاً امریکہ و یورپ کے لئے عبرت کا موجب بن گیا

1908ء میں شکاگو (امریکہ) کے رہنے والے ایک انگریز اور ان کی اہلیہ جو سیاحت کی غرض سے ملک ملک پھر رہے تھے اور ہندوستان کے بھی سیاسی اور مذہبی حالات سے واقفیت حاصل کرنے کے لئے لاہور پہنچے تو ایک سکاچ انگریزکے ہمراہ قادیان وارد ہوئے۔ انہوں نے حضرت مسیح موعود سے ملاقات کی درخواست کی۔ ترجمانی کی سعادت پہلے ڈپٹی علی احمد صاحب اور پھر حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو نصیب ہوئی۔ انہوں نے سیدنا حضرت مسیح موعود سے سوال کیا کہ کیا یہ درست ہے کہ مسٹر ڈوئی کو آپ نے کوئی چیلنج دیا تھا حضور نے فرمایا ہاں یہ درست ہے کہ ہم نے ڈوئی کو چیلنج دیا تھا۔ اس پر انہوں نے سوال کیا کہ کس بنا پر آپ نے اسے چیلنج دیا تھا اس کے جواب میں سیدنا حضرت مسیح موعود نے فرمایا ڈوئی نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ میں خدا کا رسول ہوں اور یہ کہ خدا نے مجھے بذریعہ الہام یہ بتایا ہے کہ مسیح خدا کا بیٹا اور خود خدا تھا اور کہ خود مسیح نے مجھے بحیثیت خدا ہونے کے ایسا الہام کیا ہے اور کہ (نعوذ باللہ) (۔) تباہ ہو جاوے گا…… چونکہ ہمیں خدا نے بذریعہ اپنے الہام کے یہ بتایا ہے کہ مسیح نہ خدا، نہ خدا کا بیٹا بلکہ صرف ایک پاکباز انسان اور رسول تھا اور کہ ڈوئی اپنے اس دعویٰ رسالت میں کاذب ہے کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ ایک ہی وقت میں اسی ایک ہی خدا کی طرف سے ایک دوسرے کے بالکل متضاد اور مخالف راہوں پر چلنے والے دو رسول موجود ہوں۔ پس چونکہ اس طرح سے دنیا میں فساد پیدا ہوتا اور حق و باطل میں امتیاز اٹھ جاتا ہے ہم نے اسے صادق اور کاذب کے فیصلہ کرنے کے واسطے چیلنج دیا ۔ …… ڈوئی نے تو اپنے اس دعویٰ سے خدا پر ایک افتراء کیا اور اس طرح سے خدا پر تہمت باندھ کر لوگوں کو گمراہ کرنا چاہا تھا اور وہ تو کہتا تھا کہ خود خدا نے مجھے ایسا بتایا ہے اور بحیثیت ایک خدا کے رسول ہونے کے وہ مسیح کی ابنیت اور الوہیت کی منادی کرکے لوگوں کو گمراہ کرتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اسے اس فیصلہ کے واسطے چیلنج دیا۔(ملفوظات جلد پنجم ص514)

انگریز مہمانوں کے ساتھ سیدنا حضرت مسیح موعود کی تفصیلی گفتگو ہوئی اور حضور نے ان کے سوالوں کے تفصیلی جوابات دئیے۔ ایک سوال انہوں نے یہ کیا ہم چاہتے ہیں آپ سے وہ دلائل سنیں جن سے آپ کو اپنے صدق کا یقین ہوا اور آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ آپ مامور ہیں۔

اس سوال کا جواب دیتے ہوئے حضرت مسیح موعود  نے فرمایا

خداتعالیٰ نے ہمیں اپنے کلام سے اس بات کا علم دیا ہے اور خداتعالیٰ کی طرف سے آنے والے لوگوں کے ساتھ خدائی نشان ہوتے ہیں جو کہ اقتداری اور غیب پر مشتمل زبردست پیشگوئیوں کے رنگ میں ان کو عطا کئے جاتے ہیں۔ کوئی دشمن ان پر فتح نہیں پا سکتا اور باوجود کمزور اور ناتواں اور بے سرو سامان، بے یارومددگار ہونے کے انجام کار انہی کی فتح ہوتی ہے ان کی مخالفت کرنے والوں کا نام و نشان مٹا دیا جاتا ہے منجملہ ہزاروں نشانات کے آپ لوگوں کے واسطے تو ایک ڈوئی کا معاملہ ہی جوکہ آپ کے ملک میں ہی ظہور میں آیا۔ اگر غور کریں تو کافی ہے۔ وہ دعویٰ کرتا تھا کہ مسیح خدا ہے۔ مگر ہمارے خدا نے ہم پر یہ ظاہر کیا کہ وہ خدا نہیں بلکہ ایک عاجز انسان ہے ۔ تب ہم نے اس سے اس معاملہ میں خط و کتابت کی مگر وہ اپنے دعویٰ سے باز نہ آیا۔ آخر ہم نے خدا سے خبر پا کر اس کی ہلاکت اور نامرادی کی پیشگوئی کی۔ جو ہماری زندگی میں پوری ہونی ضروری تھی چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا اور وہ پیشگوئی کے مطابق نہایت ذلت اور عذاب سے صادق کی زندگی میںہی ہلاک ہو گیا۔ اب کوئی غور کرنے والا دماغ اور مان لینے والا دل چاہئے کہ اس میں غور کرے کہ آیا یہ پیشگوئی اس قابل ہے یا کہ نہیںکہ اس کو خداتعالیٰ کی طرف سے یقین کیا جاوے یا کیا یہ بھی کوئی انسانی منصوبہ ہے۔

دوم۔ آپ لوگوں کا یہاں آنا بھی تو ہمارے واسطے ایک نشان ہے جو اگر آپ کو اس کا علم ہوتا تو شاید آپ یہاں آنے میں بھی مضائقہ اور تامل کرتے۔ اصل میں آپ لوگوں کا اتنے دور دراز سفر کرکے یہاں ایک چھوٹی سی بستی میںآنا بھی ایک پیشگوئی کے نیچے ہے اور ہماری صداقت کے واسطے ایک نشان اور دلیل ہے۔کہاںامریکہ اور کہاں قادیان۔(۔)انگریز مہمانوں نے ڈوئی کے جھوٹا ہونے کا اقرار کرتے ہوئے کہا۔

ڈوئی کے انجام کاتوہر شخص اندازہ لگا سکتا تھا کیونکہ اس نے ایک جھوٹا دعویٰ کیا تھا اور یہ صاف بات ہے کہ جھوٹا مدعی ذلیل ہوا کرتا ہے۔ ہم تو آپ کے دعویٰ کی عظمت کی وجہ سے یہاںآئے ہیں کہ اتنا بڑا دعویٰ کرنے والا انسان کیسا ہو گا نہ یہ کہ آپ کے واسطے نشان بننے کے واسطے آئے ہوں۔

حضرت اقدس مسیح موعود نے فرمایا:

اگر ڈوئی کو آپ لوگ ایسا ہی سمجھتے تھے اور جانتے تھے کہ وہ اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہے اور خدا پر بہتان باندھ رہا ہے تو پھر کیا اسی یقین سے آپ لوگوں نے لاکھوں بلکہ کروڑوں روپوںکے نذرانے اسے دئیے اور بیش قیمت تحائف اس کے واسطے دور دراز سے مہیا کئے؟ اور اس کی حد سے زیادہ عزت کی؟ حتیٰ کہ دس ہزار سے بھی زیادہ لوگ اس کے مرید بن گئے۔ تعجب کی بات ہے کہ ایک انسان کو باوجود جھوٹا یقین کرنے کے بھی کوئی یہ عزت و عظمت دیتا ہو اور اپنا مال و جان اس پر نثار اور تصدق کرتا ہو۔

امردوم کے لئے ان کو سنانا چاہئے کہ ایک ایسے وقت میں جبکہ ایک فرد واحد بھی ہمارا واقف نہ تھا اور کسی اور کوہمارے وجود کی خبر نہ تھی بلکہ بہت کم لوگ تھے جن کو قادیان کے نام سے بھی اس وقت واقفیت ہو گی… …سب دشمن ہو گئے مگر باوجود ان سب امور کے اللہ تعالیٰ کی نصرت ہمارے شامل حال رہی…… اگر کسی مفتری کے سوانح میں بھی اس کی نظیر ہے تو پیش کرو اگر ہماری پیشگوئی ماننے سے انکار ہے تو کوئی نظیر دو کہ بجز خداتعالیٰ کی تائید اور نصرت کے کسی مفتری نے بھی ایسا عروج پا لیا ہو۔(ملفوظات جلد پنجم ص 516)

ڈوئی کا تعارف

ڈاکٹر جان الیگزنڈر ڈوئی 1847ء میںسکاٹ لینڈ کے علاقہ ایڈ نبرگ (Edinburgh)میں پیدا ہوا۔ اس کا خاندان 1860ء میں آسٹریلیا منتقل ہو گیا لیکن 1867ء میں ڈوئی حصول تعلیم کے لئے واپس سکاٹ لینڈ آ گیا۔ وہاں اس نے دو تین سال مذہبی تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں آسٹریلیا آ کر کانگریشنل چرچ سے منسلک ہو گیا۔ پھر ملبورن چرچ میںمنسٹر کے عہدے پر نامزد ہوا۔ 1878ء میں اس نے انٹرنیشنل ہیلنگ ایسوسی ایشن (International Healing Association) بنا کر لوگوں میںشہرت حاصل کرنا شروع کی کہ وہ بیماروں کو شفا دے گا۔ ڈوئی کو اپنے بنیاد پرست اور انتہا پرست خیالات کی وجہ سے کئی دفعہ جیل جانا پڑا۔

1888ء میں امریکہ آیا اور سان فرانسسکو کے علاقے میں اپنی نام نہاد شفا کی کارروائیاں شروع کیں اور اپنے اخبار ’’اوراق شفا‘‘ (Leaves of Healing) کا اجراء کیا۔

1896ء میں کرسچین کیتھولک چرچ فرقے کی بنیاد ڈالی وہ تثلیث کے عقیدے کا سرگرم مبلغ تھا۔ 1901ء میں اس نے ایک شہر آباد کرنا شروع کیا جس  کا نام صیحون (زائن Illinois) رکھا جو شکاگو سے پچاس میل شمال کی جانب جھیل مشی گن (Michigan) کے ساتھ ساتھ واقع ہے۔ اس کی تعمیر کے لئے 6600ایکڑ اراضی خریدی گئی۔ تھوڑے عرصہ میں یہ شہر اپنی خوبصورتی وسعت اور عمارات کے لحاظ سے امریکہ کے مشہور شہروں میں شمار ہونے لگا یہاں ڈوئی کا اپنا اخبار ’’ لیوز آف ہیلنگ‘‘ بڑی آب و تاب سے نکلا کرتا تھا جس کی وجہ سے اس کی شہرت تمام امریکہ میںنہایت نیک نامی کے ساتھ پھیل گئی اور اس کے مریدوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہونے لگا جو لاکھوں تک پہنچ گئی یہ اس کے عروج کا زمانہ تھا۔

ایک شخص پارلان نامی نے ڈاکٹر ڈوئی کے حالات زندگی لکھے ہیں۔ اس کی کتاب کا پیش لفظ لکھتے ہوئے شکاگو کے ایک پروفیسر فرینکلین جانسن نے لکھا ہے۔

گزشتہ بارہ برس کے زمانہ میں کم ہی ایسے شخص گزرے ہیں جنہوں نے امریکن اخباروں میں اس قدر جگہ حاصل کی ہو جس قدر جان الیگزنڈر ڈوئی نے حاصل کی ہے۔

ڈوئی کا دعویٰ

1901ء میں ڈاکٹر ڈوئی نے دعو یٰ کیا کہ وہ حضرت مسیح کی آمد ثانی کے لئے بطور ایلیا کے ہے اور اس کا راستہ صاف کرنے آیا ہے۔ چونکہ علامات ظہور مسیح کے پورا ہونے کی وجہ سے مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو مسیح کی آمد کا انتظار لگ رہا تھا اس لئے اس دعوے سے اس کو بہت ترقی حاصل ہوئی اور اس نے تمام بلاد مسیحیہ میں اپنے مبلغین مقررکر دئیے۔

یہ شخص دین حق اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا شدید دشمن اور بدگو تھا اور ہمیشہ اس فکر میں رہتا تھا کہ جس طرح ممکن ہو دین حق کو صفحہ ہستی سے مٹا دے۔ چنانچہ اس نے اپنے اخبار لیوز آف ہیلنگ مورخہ 19 دسمبر1903ء میں لکھامیں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ دن جلد آوے کہ (دین حق) دنیا سے نابود ہو جاوے۔ اے خداتو ایسا ہی کر۔ اے خدا(دین حق) کو ہلاک  کر دے۔

پھر اپنے پرچہ 12دسمبر 1903ء میں اپنے تئیں سچا رسول اور سچا نبی قرار دیتے ہوئے لکھا ’’اگرمیں سچا نبی نہیں ہوں تو پھر روئے زمین پر کوئی ایسا شخص نہیں جو خدا کا نبی ہو‘‘۔

اس شخص نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ مجھے الہام ہوا ہے کہ پچیس برس تک یسوع مسیح آسمان سے اتر آئے گا اس نے یہ بھی اعلان کیا کہ اگر…… کے ماننے والے مسیحیت قبول نہ کریں گے تو سب کے سب ہلاک کر دئیے جائیں گے۔

حضرت مسیح موعود کا چیلنج

حضرت مسیح موعود کو ڈاکٹر ڈوئی کے اس دعویٰ کی خبر ملی تو فوراً اس کے خلاف 1902ء میں ایک اشتہار شائع کیا جس میں دین حق کے فضائل بیان کرتے ہوئے لکھا کہ مسیحیت کی صداقت ظاہر کرنے کے لئے کروڑوں آدمیوں کے ہلاک کرنے کی کیا ضرورت ہے میں خدا کی طرف سے مسیح موعود بنا کر بھیجا گیا ہوں مجھ سے مبا ہلہ کرکے دیکھ لو اس سے سچے اور جھوٹے مذہب میں فیصلہ ہو جائے گا۔

حضرت اقدس نے 1903ء میں ایک اور چٹھی کے ذریعہ اس مباہلہ کے چیلنج کو دوہرایا۔ آپ نے لکھا

’’ میں عمر میں ستر برس کے قریب ہوں اور ڈوئی جیسا کہ وہ بیان کرتا ہے پچاس برس کا جوان ہے لیکن میں نے اپنی بڑی عمر کی کچھ پرواہ نہیں کی کیونکہ مباہلہ کا فیصلہ عمروں کی حکومت سے نہیں ہو گا بلکہ خدا جو احکم الحاکمین ہے وہ اس کا فیصلہ کرے گا اور اگر ڈوئی مقابلہ سے بھاگ گیا…… تب بھی یقینا سمجھو کہ اس کے صیحون پر جلد تر آفت آنے والی ہے۔(حقیقة الوحی۔ روحانی خزائن جلد22ص 506)

جوچٹھی حضور اسے بھیجتے اس کی نقلیں امریکہ کے اخبارات کو بھی ارسال کی جاتی تھیں۔ چنانچہ امریکہ اور یورپ کے اخبارات میں بکثرت اس چیلنج مباہلہ کا ذکر کیا گیا۔چنانچہ 32اخبارات کے مضامین کا خلاصہ تو حضرت مسیح موعود نے حقیقة الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22ص 506تا 508پر درج فرمایا ہے۔

چیلنج قبول کرنے سے احتراز

ڈوئی نے سیدنا حضرت مسیح موعود کے اس کھلے چیلنج کو قبول کرنے سے احتراز کیا اور ان تحریروں کا کوئی جواب نہ دیا۔ لیکن اخباروںمیں شور مچ گیا اور ڈوئی پر دبائو بڑھنے لگا کہ اس کے متعلق کچھ بیان دے بِالآخر 26ستمبر1903ء میں تکبراور تعلی سے بھرپور انداز میں اپنے انگریزی اخبار میں لکھا۔

’’ہندوستان میں ایک بیوقوف محمدی مسیح ہے جو مجھے بار بار لکھتا ہے کہ یسوع مسیح کی قبر کشمیر میں ہے اور لوگ مجھے کہتے ہیں کہ تو اس کا جواب کیوں نہیں دیتا اور کہ تو کیوں اس شخص کا جواب نہیںدیتا مگر کیا تم خیال کرتے ہو کہ میں مچھروں اور مکھیوں کا جواب دوں گا اگر میں ان پر اپنا پائوں رکھوں تو میں ان کو کچل کر مار ڈالو ںگا۔(حقیقة الوحی۔ روحانی خزائن جلد22ص 509)

ڈوئی کا عبرت ناک انجام

ستمبر1905ء میں ڈوئی کے حکم پر ایک غیر معمولی جلسہ کا اعلان کیا گیا اور بڑے اہتمام سے اس کی تیاری کی گئی۔ ڈوئی اپنے زرق برق لباس میں جس کو وہ ’’پیغمبری ‘‘ لباس کہا کرتا تھا۔ ملبوس ہو کر آیا تو اچانک اس پر فالج کا حملہ ہوا۔ مسٹر نیوکومب جو مسٹر ڈوئی کا سوانح نگار ہے لکھتا ہے۔

ڈوئی اس روز اپنی فصاحت کے معراج پر تھا اصل تقریب قریب التکمیل تھی۔ ڈوئی کو صرف چند اختتامی الفاظ کہنا تھے۔ اچانک ڈوئی نے اپنے دائیں ہاتھ کو زور سے جھٹکا دیا جیسے کوئی گندہ کیڑا اس کے بازو کو آ چمٹا ہو پھر اس نے زور زور سے اپنے ہاتھ کو کرسی پر مارا لوگ اس کی غیر معمولی حرکت سے پریشان ہو گئے۔ اس کا رنگ زرد پڑ گیا۔ گرنے ہی لگا تھا کہ دو مریدوں نے اسے سہارا دیا اور گھسیٹتے ہوئے اسے ہال سے باہر لے گئے۔غرض ڈوئی پر فالج کی شکل میں خدائی غضب نازل ہوا۔ کچھ دن کے بعد افاقہ ہو گیا مگر د و ماہ بعد 19دسمبر کو فالج کا دوسرا حملہ ہو گیا جس کی وجہ سے وہ بالکل لاچار ہو گیا۔ اس نے اپنا کام اپنے نائبوں کے سپرد کر دیا اور خود ایک جزیرہ میں جس کی آب و ہوا فالج کے لئے اچھی تھی بود و باش اختیار کر لی۔

مریدوں کی بغاوت

صیحون سے چلے جانے کے بعد اس کے مریدوں کے دلوں میں شک پیدا ہوا کہ یہ تو اوروں کو دعا سے نہیں بلکہ اپنے حکم سے اچھا کرتا تھا یہ خود کیوں ایسا بیمار ہوا ہے۔ تحقیقات سے مریدوں کو معلوم ہوا کہ وہ نہایت  ناپاک اور سیاہ کار انسان ہے۔ مریدوں کو شراب سے منع کرتا تھا مگر خود گھر جا کر شراب پیتا تھا۔ چنانچہ اس کے پرائیویٹ کمرہ سے شراب برآمد ہوئی۔ اس کی بیوی اور لڑکے نے اس کے شراب پینے کی گواہی دی۔ مالی حسابات سے پتہ چلا کہ اپنی جماعت کے 50لاکھ روپیہ غبن کر چکا ہے۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ ایک لاکھ سے زیادہ روپیہ اس نے صرف بطور تحائف صیحون کی خوبصورت عورتوں کو دے دیا تھا۔

ڈوئی ان الزامات کی تردید نہ کر سکا چنانچہ اپریل1906ء میں کیبنٹ کی ایک میٹنگ ہوئی جس نے مشورہ کے بعد ڈوئی کو حسب ذیل تار دیا۔ کہ ہم تمہاری بجائے سر والوا کی قیادت کو تسلیم کرتے ہیں۔ جن افسروں کو آپ نے برخاست کیا ہے ان کو دوبارہ ان کے عہدوں پر بحال کرتے ہیں۔ اور آپ کی فضول خرچیوں، منافقت، جھوٹ اور غلط بیانیوں، مبالغہ آمیزیوں، لوگوں کی رقوم کے ناجائز استعمال اور ظلم اور بے انصافیوں کے خلاف زبردست احتجاج کرتے ہیں۔ اس تار میں اسے متنبہ کیا گیا کہ اگر اس نے نئے انتظام میں کوئی مداخلت کی تو اس کے تمام اندرونی رازوں کا پردہ چاک کر دیا جائے گا اور اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔ڈوئی نے جب یہ تار پڑھا تو اس کے ہاتھوںکے طوطے اڑ گئے۔ صحت پہلے ہی برباد ہو چکی تھی۔ رہی سہی عزت بھی خاک میں ملتی نظر آئی۔ اس نے یہ کوشش کی کہ عدالتوں کے ذریعہ صیحون پر اور روپے پر قبضہ حاصل کرلے مگر بری طرح ناکام ہوا۔

موت

وہ صیحون واپس آیا تو جہاں ہزاروںآدمی اس کے ادنیٰ اشارے پر چلتے تھے ایک بھی استقبال کے لئے موجود نہ تھا۔ جسمانی طور پر اس کی حالت بہت ہی خراب ہو گئی تھی۔ اس کا ایک عقیدت مند مسٹر لنڈزے لکھتا ہے کہ ان دنوں کوئی بیماری کی قسم ایسی نہ تھی جو ڈوئی کو لاحق نہ تھی۔ اس کی رہی سہی طاقت بھی جلد جلد کم ہو رہی تھی۔ بیماری کے دنوں میں صرف دو تنخواہ دار حبشی اس کی دیکھ بھال کرتے تھے اور اس کو ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ لے جاتے تھے بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا کہ اس کا مفلوج اور بے حس بھاری جسم پتھرکی طرح ان کے ہاتھوں سے گر جاتا اور ڈوئی اس طرح سے زمین پر گر جاتا جیسے ایک بے جان پتھر کسی کے ہاتھ سے چھوٹ کر گر پڑا ہو، ڈوئی اس قسم کی ہزاروں مصیبتیںسہتا ہوا دیوانہ ہوگیا اور بالآخر 9مارچ 1907ء کو بڑے دکھ اور حسرت کے ساتھ دنیا سے رخصت ہو گیا اور خدا کے مسیح کے یہ مقدس الفاظ کہ’’ وہ میرے دیکھتے ہی دیکھتے اس دنیائے فانی کو چھوڑ دے گا‘‘ عبرتناک رنگ میں پورے ہوئے۔

کھلا کھلا عالمگیر نشان

حضرت مسیح موعود نے ڈاکٹر ڈوئی کی ہلاکت پر لکھا

اب ظاہر ہے کہ ایسا نشان (جو فتح عظیم کا موجب ہے) جو تمام دنیا ایشیا اور امریکہ اور یورپ اور ہندوستان کے لئے ایک کھلا کھلا نشان ہو سکتا ہے وہ یہی ڈوئی کے مرنے کا نشان ہے۔کیونکہ اور نشان جو میری پیشگوئیوں سے ظاہر ہوئے ہیں وہ تو پنجاب اور ہندوستان تک ہی محدود تھے اور امریکہ اور یورپ کے کسی شخص کو ان کے ظہور کی خبر نہ تھی۔ لیکن یہ نشان پنجاب سے بصورت پیشگوئی ظاہر ہو کر امریکہ میں جا کر ایسے شخص کے حق میں پورا ہوا جس کو امریکہ اور یورپ کا فرد فرد جانتا تھا اور اس کے مرنے کے ساتھ ہی بذریعہ تاروں کے اس ملک کے انگریزی اخباروں کو خبر دی گئی چنانچہ پائونیر نے (جو الہ آباد سے نکلتا ہے) پرچہ 11مارچ 1907ء میں اور سول اینڈ ملٹری گزٹ نے (جو لاہور سے نکلتا ہے) پرچہ 12 مارچ 1907ء میں اور انڈین ڈیلی ٹیلیگراف نے (جو لکھنؤ سے نکلتا ہے) پرچہ 12مارچ 1907ء میں اس خبر کو شائع کیا ہے۔ پس اس طرح پر قریباً تمام دنیا میں یہ خبر شائع کی گئی۔ اور خود یہ شخص اپنی دنیوی حیثیت کی رو سے ایسا تھا کہ عظیم الشان نوابوں اور شاہزادوں کی طرح مانا جاتا تھا ۔ چنانچہ وب نے جو امریکہ میں …… ہے میری طرف اس کے بارہ میں ایک چٹھی لکھی تھی کہ ڈاکٹر ڈوئی اس ملک میںنہایت معززانہ اور شاہزادوںکی طرح زندگی بسر کرتا ہے۔ اور باوجود اس عزت اور شہرت کے جو امریکہ اور یورپ میں اس کو حاصل تھی۔ خداتعالیٰ کے فضل سے یہ ہوا کہ میرے مباہلہ کا مضمون اس کے مقابل پرامریکہ کے بڑے بڑے نامی اخباروں نے جو روزانہ ہیں شائع کر دیا اور تمام امریکہ اور یورپ میں مشہور کردیا۔ اور پھر اس عام اشاعت کے بعد جس ہلاکت اور تباہی کی اس کی نسبت پیشگوئی میں خبر دی گئی تھی وہ ایسی صفائی سے پوری ہوئی کہ جس سے بڑھ کر اکمل اور اتم طور پر ظہور میں آنا متصور نہیںہو سکتا۔ اس کی زندگی کے ہر ایک پہلو پر آفت پڑی۔ اس کا خائن ہونا ثابت ہوا اور وہ شراب کو اپنی تعلیم میں حرام قرار دیتا تھا۔مگر اس کا شراب خوار ہونا ثابت ہو گیا۔ اور وہ اس اپنے آباد کردہ شہر صیحون سے بڑی حسرت کے ساتھ نکالا گیا جس کو اس نے کئی لاکھ روپیہ خرچ کرکے آباد کیا تھا اور نیز سات کروڑ نقد روپیہ سے جو اس کے قبضہ میں تھا اس کو جو اب دیا گیا۔ اور اس کی بیوی اور اس کا بیٹا اس کے دشمن ہو گئے اور اس کے باپ نے اشتہار دیا کہ وہ ولدالزنا ہے۔ پس اس طرح پر وہ قوم میں ولدالزنا ثابت ہوا۔ اور یہ دعویٰ کہ میں بیماروں کو معجزہ سے اچھا کرتا ہوں۔ یہ تمام لاف و گزاف اس کی محض جھوٹی ثابت ہوئی اور ہر ایک ذلت اس کو نصیب ہوئی۔ اور آخر کار اس پر فالج گرا اور ایک تختہ کی طرح چند آدمی اس کو اٹھا کر لے جاتے رہے اور پھر بہت غموں کے باعث پاگل ہو گیا اور حواس بجانہ رہے اور یہ دعویٰ اس کا کہ میری ا بھی بڑی عمر ہے اور میں روز بروز جوان ہوتا جاتا ہوں اور لوگ بڈھے ہوتے جاتے ہیں محض فریب ثابت ہوا۔ آخر کار مارچ 1907ء کے پہلے ہفتہ میں ہی بڑی حسرت اور درد اور دکھ کے ساتھ مر گیا۔

اب ظاہر ہے کہ اس سے بڑھ کر اور کیا معجزہ ہو گا۔(۔) اگر میں اس کو مباہلہ کے لئے نہ بلاتا۔ اور اگر میں اس پر بددعا نہ کرتا اور اس کی ہلاکت کی پیشگوئی شائع نہ کرتا۔ تو اس کا مرنا (۔) کی حقیقت کے لئے کوئی دلیل نہ ٹھہرتا لیکن چونکہ میںنے صد ہا اخباروں میںپہلے سے شائع کرا دیا تھا کہ وہ میری زندگی میں ہی ہلاک ہو گا میں مسیح موعود ہوں اور ڈوئی کذاب ہے اور بار بار لکھا کہ اس پر دلیل یہ ہے کہ وہ میری زندگی میں ذلت اور حسرت کے ساتھ ہلاک ہو جائے گا چنانچہ وہ میری زندگی میں ہی ہلاک ہو گیا۔(حقیقة الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22ص 511)

غرض اس نشان کے ظہور کے ساتھ حضرت مسیح موعود  کی پیشگوئی پوری ہوئی جو تمام دنیا خصوصاً امریکہ کے لئے عبرت کا موجب بن گئی انسا ئیکلو پیڈیا آف بریٹینیکا نے اس کی وفات پر لکھا۔

ترجمہ:’’ اپریل 1906ء میں ڈوئی کے اقتدار کے خلاف شہر صیحون میں بغاوت ہو گئی اور اس پر غبن اور تعدد ازدواج کا الزام لگایا گیا اور اس کی بیوی اور اس کے لڑکے کی رضامندی سے اسے معزول کر دیا گیا۔ اب ڈوئی کی صحت تباہ ہو چکی تھی اور وہ بدیہی طور پر پاگل ہو چکا تھا۔ اسی حالت میں اس پر فالج کا حملہ ہوا جس کے باعث مارچ 1907ء میں وہ شہر صیحون میں مر گیا۔‘‘

اخبارات میں ذکر

ڈوئی کی شکست اور حضرت مسیح موعود کی فتح اتنی واضح تھی کہ اخبارات نے کھلے عام اس کا اقرار کیا مثلاً امریکہ کے اخبار ٹروتھ سیکر نے 15جون 1907کو لکھا۔

’’ قادیانی صاحب نے پیشگوئی کی کہ اگر ڈوئی نے اس چیلنج کو قبول کر لیا تو وہ میری آنکھوں کے سامنے بڑے دکھ اور ذلت کے ساتھ اس دنیا سے کوچ کر جائے گا…… یہ ایک عظیم الشان پیشگوئی تھی… … حالات اس کے مخالف تھے مگر آخرکار وہ جیت گیا۔(بحوالہ تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ 257)

ڈوئی کے عروج کے بعد زوال کی عکاسی کرتے ہوئے امریکن اخبار Chicago Eveningنے  9مارچ 1907ء کی اشاعت میں لکھا۔

"He Built a creed: He was Excommunicated.

He built a city: He was expelled from it.

He amassed a fortune of millions. He was reduced to virtual poverty.

He elevated Voliva to a great power: Voliva ruined him

He drew about him

thousands who worshiped him: He died deserted by all save a handful of the faithful."

ترجمہ:اس نے ایک الگ فرقہ بنایا مگر اس کو اسی مذہب سے اخراج کی سزا دی گئی۔ اس نے ایک شہر تعمیر کرایا۔ مگر اسے شہر بدر کر دیا گیا۔ اس نے کروڑوں کی دولت کے مزے لوٹے مگر بالآخر وہ غربت اور افلاس کا شکار ہوا۔ اس نے اپنے نائب والوا (Voliva) کو خوب ترقی دلائی۔ مگر اس نے ڈوئی کو تباہ و برباد کیا۔ اس نے اپنے گرد ہزار ہا مرید جمع کرلئے جو اس کو پوجتے تھے مگر اس کی ذلت آمیز موت کے وقت صرف مٹھی بھر لوگ اس کے ساتھ تھے۔

اس طرح خداتعالیٰ نے اس سے انتقام لیا اور اس کے تکبر کی سزا  اسے دی۔

   اللہ تعالیٰ دنیا کو توفیق عطا فرمائے کہ وہ اس     عظیم الشان اور عبرت ناک خدائی نشان سے فائدہ اٹھائے۔ آمین

(روزنامہ الفضل  ربوہ۔ 9مارچ2005ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button