سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

شمائل مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام

(’اے ولیم‘)

آپؑ کے حلیۂ مبارک کا بیان

اللہ تعالیٰ قرآنِ عظیم میں فرماتا ہے: طٰہٰ (سورۃ طہ: 2)یعنی کامل قوّتوں کا حامل مرد۔اسی طرح ایک اور آیت میں اللہ تعالیٰ انبیاء کی خصوصیات یوں بیان فرماتا ہے:۔
قَالَ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰهُ عَلَيْكُمْ وَ زَادَهٗ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَ الْجِسْمِ۔وَ اللّٰهُ يُؤْتِيْ مُلْكَهٗ مَنْ يَّشَآءُ۔وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ۔ (سورۃ البقرۃ: 248)

ترجمہ: اُس (نبی)نے کہا یقیناً اللہ نے اسے تم پر ترجیح دی ہے اور اُسے زیادہ کر دیا ہے علمی اور جسمانی فراخی کے لحاظ سے۔اور اللہ جسے چاہے اپنا ملک عطا کرتا ہے اور اللہ وسعت عطا کرنے والا (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے۔

وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا (سورۃ یوسف:110) اورہم نے تجھ سے پہلے بھی مردوں کوہی رسول بناکربھیجا۔

اللہ تعالیٰ نے جومخلوق بھی تخلیق کی ہر ایک میں اس کے حُسن کا جلوہ نظر آتا ہے۔اور ان مخلوقات میں سے حضرتِ انسان کو اشرف المخلوقات بنایا۔اور انسانوں میں سے اللہ تعالیٰ کے چُنیدہ اور پسندیدہ لوگ انبیاء ہیں ۔جو اللہ تعالیٰ کے حُسنِ ازل کا پرتَو ہیں۔ جن میں خدا کا حسین و مطہر چہرہ دنیا کو جھلکتا ہوا نظر آتا ہے۔اور اسی لیے انبیاء ہی دنیا میں حسین ترین وجود ہوا کرتے ہیں ۔جہاں اِن وجودوں میں روحانی حُسن جلوہ گر ہوتا ہے وہیں ظاہری حُسن میں بھی بے مثال ہوتے ہیں ۔اور یہی حُسن انبیاء کی صداقت کا ایک بیّن ثبوت بھی ہوتا ہے۔

قرآن کریم رہنمائی کرتاہے کہ مامورین الٰہی‘‘الرجال” یعنی مردانہ حسن کامکمل نمونہ ہواکرتے ہیں۔وہ جوان رعنا،’’بَشَرًاسَوِيًّا”کے مصداق مردانہ وجاہت کااعلیٰ اور مکمل ترین نمونہ ہوتے ہیں ۔ہرجمال وجلال کارنگ ان کے چہرے بشرےمیں پایاجاتاہے۔ایساحسن رکھتے ہیں کہ اس کودیکھنے والی ایک ایک آنکھ زلیخاصفت ہوکراس یوسف پر قربان ہوہوجاتی ہے۔مخالف سے مخالف اورانجان سے انجان لوگ بھی اس کاچہرہ دیکھتے ہی پکاراٹھتے ہیں‘‘اِنْ هَذَا إِلَّا مَلَكٌ كَرِيمٌ”۔اس کوملنے والے جب ایک بارمل لیتے ہیں توپھراس سے جداہونے کودل نہیں چاہتا،وہ اسی کے ہورہتے ہیں۔اوراگر‘رہین ستمہائے روزگار’کے تحت مجبوراًجداہونابھی پڑے تواس کی درودیوارپریہ لکھ جاتے ہیں کہ …

حسن وخوبی و دلبری بر تو تمام

صحبتے بعد از لقائے تو حرام

یعنی دلبری ودلربائی تم پرختم ہے۔اورجوبھی تجھے ایک بار مل لے تو پھر کسی اور حسین وخوبروسے ملنا اس پرحرام ہوجاتاہے

کہ اے عطرریختہ ،سراپاجمال !
رنگ وخوشبوکے حسن وخوبی کے
تم سے تھے جتنے استعارے تھے

آنحضرت ﷺ کااس چہرے کودیکھنااوربیان فرمانا:

امام مہدی علیہ الصلوٰۃوالسلام کی ایک اورامتیازی اورمنفردشان یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے کشفی طورپراس حسین دلرباچہرے کودیکھااوراس کواپنا سلام بھیجااوراپنی امت کو وصیت کی ،تاکیدی حکم دیاکہ اس حسین وجمیل کے پاس جانا خواہ برف کے پہاڑوں پرسے ہوکرگھٹنوں کے بل ہی کیوں نہ جاناپڑے (فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَبَايِعُوهُ وَلَوْ حَبْوًا عَلَى الثَّلْجِ، فَإِنَّهُ خَلِيفَةُ اللّٰهِ الْمَهْدِيُّ(ابن ماجہ ،باب خروج المہدی4084)کہ وہ پیاراہے،وہ دلبرہے ،وہ سب جمیلوں میں جمیل ہے۔وہ دیکھنے میں لبنان اور خوبی میں رشک سرو ہے۔جس کاظہورصبح کی مانند اور حسن میں ماہتاب اور نورمیں آفتاب ہے۔وہ حسین وجمیل ہے۔ایسا حسین وجمیل کہ جب وہ اس کھڑکی میں سےمکھڑانکالتے ہوئے آتا ،تویوں لگتاکہ جیسے بدلیوں میں سے چاندنکل آیاہو۔

بہرحال آنحضرت ﷺنے امام مہدی کواپنی آنکھوں سے دیکھا اوراپنی دعاؤں سے اس کے حسن میں رنگ بھرے۔

اورامام مہدی کوجن لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھااوردیرتک دیکھااوربڑے غورسے دیکھاوہ آپ کاحلیہ یوں بیان کرتے ہیں :

“مردانہ حسن کے اعلیٰ نمونہ تھے”

مگر یہ فقرہ بالکل نامکمل رہے گا اگر اس کے ساتھ دوسرا یہ نہ ہو کہ “یہ حسن انسانی ایک روحانی چمک دمک اور انوار اپنے ساتھ لیے ہوئے تھا۔”

آنے والے مسیحِ موعود کے حلیےکے بارہ میں رسولِ کریمﷺ نے فرمایا تھا:۔

عَنْ نَافِعٍ نافع سےروایت ہے،وَأَرَانِي اللَّيْلَةَ عِنْدَ الكَعْبَةِ فِي المَنَامِ اورایک رات میں نے خواب میں خانہ کعبہ میں دیکھاکہ، فَإِذَا رَجُلٌ آدَمُ كَأَحْسَنِ مَا يُرَى مِنْ أُدْمِ الرِّجَالِ ایک گندمی رنگ کاانتہائی خوبصورت جوان رعنا، تَضْرِبُ لِمَّتُهُ بَيْنَ مَنْكِبَيْهِ اس کے بال کندھوں تک پہنچ رہے ہیں ، رَجِلُ الشَّعَرِ بال سیدھے ہیں ، يَقْطُرُ رَأْسُهُ مَاءً سرسے پانی کے قطرے ٹپک رہے ہیں ، وَاضِعًا يَدَيْهِ عَلَى مَنْكِبَيْ رَجُلَيْنِ دومردوں کے کاندھوں پرہاتھ رکھے ہوئے،وَهُوَ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ خانہ کعبہ کاطواف کررہا ہے ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ میں نے کہا کہ یہ کون ہے ؟ فَقَالُوا: هَذَا المَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ لوگوں نے کہا یہ مسیح ابن مریم ہے۔

(صحیح بخاری، کتاب احادیث الانبیاء ،باب واذکرفی الکتاب مریم …حدیث3440)

رسولِ کریم ﷺ کے عاشقِ صادق حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کا حلیۂ مبارک کیساتھا؟ اِس بارہ میں ایک روایت حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں کہ:

“ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ آپ (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام) کے تمام حُلیہ کا خلاصہ ایک فقرہ میں یہ ہو سکتا ہے کہ آپؑ مردانہ حسن کے اعلیٰ نمونہ تھے۔مگر یہ فقرہ بالکل نامکمل رہے گا اگر اس کے ساتھ دوسرا یہ نہ ہو کہ یہ حسن انسانی ایک روحانی چمک دمک اور انوار اپنے ساتھ لیے ہوئے تھا۔اور جس طرح آپ جمالی رنگ میں اِس اُمّت کے لیے مبعوث ہوئے تھے اسی طرح آپ کا جمال بھی خدا کی قدرت کا نمونہ تھا اور دیکھنے والے کے دل کو اپنی طرف کھینچتا تھا۔آپ کے چہرہ پر نورانیت کے ساتھ رعونت، ہیبت اور استکبار نہ تھے بلکہ فروتنی ،خاکساری اور محبت کی آمیزش موجود تھی… آپؑ کا رنگ گندمی اور نہایت اعلیٰ درجہ کا گندمی تھا۔یعنی اس میں ایک نورانیت اور سرخی جھلک مارتی تھی اور یہ چمک جو آپؑ کے چہرہ کے ساتھ وابستہ تھی عارضی نہ تھی بلکہ دائمی۔کبھی کسی صدمہ، رنج، ابتلاء مقدمات اور مصائب کے وقت آپؑ کا رنگ زرد ہوتے نہیں دیکھا گیا اور ہمیشہ چہرہ مبارک کندن کی طرح دمکتا رہتا تھا۔کسی مصیبت اور تکلیف نے اس چمک کو دور نہیں کیا۔علاوہ اس چمک اور نور کے آپؑ کے چہرہ پر ایک بشاشت اور تبسم ہمیشہ رہتا تھا اور دیکھنے والے کہتے تھے کہ اگر یہ شخص مفتری ہے اور دل میں اپنے تئیں جھوٹا جانتا ہے تو اس کے چہرہ پر یہ بشاشت اور خوشی اور فتح اور طمانیت قلب کے آثار کیونکر ہو سکتے ہیں ۔یہ نیک ظاہر کسی بدباطن کے ساتھ وابستہ نہیں رہ سکتا اور ایمان کا نور بدکار کے چہرہ پر درخشندہ نہیں ہو سکتا۔”

(سیرت المہدی جلد اوّل روایت نمبر 447)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے ایک خطبہ میں حضوراقدسؑ کے حلیہ مبارک کے بیان کے متعلق روایات کاذکرفرمایاتھا۔حضورانورکے بابرکت الفاظ کی روشنی میں عرض کرتاہوں ۔

حضورانورایدہ اللہ بیان فرماتے ہیں :

“یعنی نبی کریم ؐ نے تمہیں اپنی روحانیت کی تاثیر کے ذریعہ سکھایا اور اپنی رحمت کا فیض تیرے دل کے برتن میں ڈال دیا تا تجھے اپنے صحابہ میں داخل کریں اور تجھے اپنی برکت میں شریک کریں اور تا اللہ تعالیٰ کی خبر واٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ اس کے فضل اور اس کے احسان سے پوری ہو۔

پس اس فیض نے آپ کو جہاں روحانی نور سے منور کیا وہاں ظاہری نور بھی عطا فرمایا تاکہ نیک فطرت ہر لحاظ سے اس نور سے فیضیاب ہو سکیں ۔کیونکہ آخرین کا امام ہونے کی وجہ سے صرف عام صحابہ کا نور آپ کو عطا نہیں ہوا تھا بلکہ اس سے بہت بڑھ کر اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو اپنے آقا کے حسن و احسان میں نظیر بنایا تھا۔”

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 29جنوری 2010ء بمقام مسجد بیت الفتوح لندن)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں:

“جیسا کہ یہ جماعت مسیح موعود کی صحابہ رَضِیَ اللّٰہ عَنْھُمْ کی جماعت سے مشابہ ہے ایسا ہی جو شخص اس جماعت کا امام ہے (یعنی حضرت مسیح موعودؑ)وہ بھی ظلّی طور پر آنحضرتﷺ سے مشابہت رکھتا ہے۔جیسا کہ خود آنحضرتﷺ نے مہدی موعود کی صفت فرمائی کہ وہ آپ سے مشابہ ہو گا۔”

(ایام الصلح ،روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 307)

پس یہ مشابہت ضروری ہے تاکہ آقا کا جلوہ غلام میں بھی نظر آئے۔آج مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ کے حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حسن اور نور اور آپؑ کے شمائل کا کچھ ذکر کروں گا۔

سب سے پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ آپؑ کے ظاہری حسن اور حلیہ کو کس طرح دیکھتے تھے۔

آپؑ کے حسن کا، آپ کے نور کاکیا خوبصورت نقشہ کھینچا ہے لیکن یہ ظاہری نور بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس لیے دیا تھا کہ آپؑ نور مصطفویؐ میں ڈوب کر اپنے وجود کو کلیتاً اپنے آقا و مطاع کے جسمانی اور روحانی نور میں فنا کر چکے تھے تاکہ آپ کے نور میں بھی نور محمدیؐ نظر آئے۔

اپنے ایک فارسی کلام میں آپ فرماتے ہیں :

وارثِ مصطفیٰ شدم بہ یقین
شدہ رنگین بہ رنگِ یارِ حسین

(نزول المسیح ،روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 477)

ترجمہ:مَیں یقیناً مصطفیؐ کا وارث اس حسین یار کے رنگ میں حسین ہو کر بن گیاہوں ۔آپؑ نے فرمایا :۔

لیک آئینہ ام زِ ربِّ غنی
از پئے صورتِ مہِ مدنی

(نزول المسیح ،روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 478)

ترجمہ: لیکن رب غنی کی طرف سے آئینہ کی طرح ہوں اس مدنی چاند کی صورت دکھانے کے لیے۔

پس آپ کا اپنا توکچھ نہ تھا۔روح و جسم نور محمدیؐ کا آئینہ دار تھا۔عبادات میں، عادات میں ، اخلاق میں غرض ہر چیز میں اپنے آقا و مطاع کے منہ کی طرف دیکھ کر اس کی پیروی کرتے تھے۔اپنے اس پیارے مسیح و مہدی اور غلام صادق کے بارہ میں ، اس کے مقام کے بارہ میں آنحضرت ﷺ نے بھی یوں فرمایا تھا کہ میرے اور میرے مہدی کے درمیان کوئی نبی نہیں ۔

(سنن ابی داؤد کتاب الملاحم باب خروج الدجال حدیث 4324)

پس یہ مقام نبوت بھی آپ کو اس فنا کی وجہ سے ملا۔یہ عشق و محبت کی باتیں ہیں جو حسن و احسان میں اور مقام میں نظیر بناتی ہیں۔لیکن انسان کامل ایک ہی تھا جو صرف اور صرف آنحضرت ؐکی ذات ہے۔

پھر ایک روایت حضرت مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ (ایک خاتون)
“امۃ الرحمٰن بنت قاضی ضیاء الدین صاحب مرحوم نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو مرزا فضل احمد صاحب مرحوم کی وفات کی خبر آئی (یہ آپ کے پہلے دو بیٹوں میں سے چھوٹے بیٹے تھے) تو مغرب کا وقت تھا اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس وقت سے لے کر قریباً عشاء کی نماز تک ٹہلتے رہے۔حضور علیہ السلام جب ٹہلتے تو چہرہ مبارک حضور کااس طرح ہوتا کہ گویا بُشرہ مبارک سے چمک ظاہر ہوتی ہے۔” (سیرت المہدی جلد دوم روایت نمبر 1596)

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button