ادبیات

علامات المقرّبین

(حافظ نعمان احمد خان ۔ استاد جامعہ احمدیہ ربوہ)

درّثمین اردو کی دسویں نظم

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا ساراکلام نظم و نثر آفاقی ہے۔ ہر زمانے اور خطّے کےلیے آپؑ کےفرمودات زندگی بخش پیغام لیے ہوئے ہیں۔ حضورؑ کے اردومنظوم کلام کا یہ مطالعہ ،ان نظموں پر غور کرنے کی ایک کوشش ہے۔

درِّثمین میں شامل دسویں نظم‘‘علامات المقربین’’ سیّدناحضرت اقدس مسیح موعودؑکی تصنیفِ لطیف‘نشانِ آسمانی’مطبوعہ 1892ءسے ماخوذ ہے۔چار اشعار کی اس مختصر نظم کی بحر متقارب مثمن محذوف مقصور ہے۔

اوائل 1892ء میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ نےایک طویل سفر اختیار فرمایا۔ اس دوران آپؑ لاہور،سیال کوٹ، کپورتھلہ اور جالندھر سے ہوتے ہوئےلدھیانہ پہنچے۔ یہاں آپؑ نے ‘نشانِ آسمانی’تصنیف فرمائی۔ اس کتاب میں حضورؑ نے حضرت شاہ نعمت اللہ ولیؒ اور جمال پور ضلع لدھیانہ کے ایک درویش مجذوب گلاب شاہ صاحبؒ کی پیش گوئی اُن کے شاگرد کریم بخش صاحب سے حلفیہ قلم بند کرواکے درج فرمائی۔اِن پیش گوئیوں سے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے دعوے کی صداقت ظاہر ہوتی ہے۔ اسی مناسبت سے اس کتاب کا دوسرا نام ‘شہادت الملہمین’بھی ہے۔‘نشانِ آسمانی’میں آپؑ نے حق کے متلاشی کےلیے ایک نہایت سہل طریق بھی تجویز فرمایا ہے۔ یعنی آپؑ کےبتائے ہوئے طریق کے مطابق دو ہفتے تک خدا تعالیٰ سے استخارہ کیا جائے۔

‘نشانِ آسمانی’کی طباعت میں معاونت کےلیے حضورؑ نے بعض مخلص ساتھیوں کو خطوط تحریر فرمائے تھے۔ کتاب کے اختتام پر اِن احباب کے جوابی خطوط کے خلاصے درج کیے گئے ہیں۔ جن میں حضرت سید تفضل حسین صاحبؓ، حضرت نواب محمدعلی خان صاحبؓ رئیس مالیر کوٹلہ، حضرت حکیم فضل دین صاحبؓ بھیروی اور حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحبؓ خلیفۃ المسیح الاول شامل ہیں۔

حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحبؓ اپنے خط میں فرماتے ہیں:

‘‘خاکسار بالکل نابکار اور خاکساری کےساتھ نہایت ہی شرمسار بحضور حضرت مسیح الزماں عرض پرداز۔اس خادم بااخلاص اور دلی مرید کاجوکچھ ہےبتمامہ آپ ہی کا ہے۔زن و فرزند و روپیہ۔آبُرو وجان۔میری یہی سعادت ہے کہ تمام خرچ میراہو۔پھر جسقدر حضور پسند فرمائیں۔’’

(نشانِ آسمانی،روحانی خزائن جلد چار، صفحہ406۔407)

اس خط کے درج فرمانے کے بعد حضورؑ فرماتے ہیں:

‘‘مولوی حکیم نور الدین صاحب اپنے اخلاص اور محبت اور صفت ایثاراورللہ شجاعت اور سخاوت اورہمدردی اسلام میں عجیب شان رکھتے ہیں۔کثرتِ مال کے ساتھ کُچھ قدر قلیل خداتعالیٰ کی راہ میں دیتے ہوئےتو بہتوں کو دیکھا۔مگرخودبُھوکےپیاسےرہ کر اپناعزیز مال رضائے مولےٰمیں اٹھا دینا اور اپنے لیےدُنیا میں سے کچھ نہ بنانایہ صفت کامل طور پرمولوی صاحب موصوف میں ہی دیکھی یا اُن میں جن کے دلوں پر انکی صحبت کا اثر ہے’’

(نشانِ آسمانی،روحانی خزائن جلد چار، صفحہ 407)

ان فدائی مخلصین کے ایثار و قربانی کو پیار بھرے الفاظ میں سراہنے کے بعد حاشیے میں حضورؑ نے یہ مختصر نظم درج فرمائی ہے۔اس پس منظرکو دیکھنے کے بعدعلامات المقرّبین کا مطالعہ بتاتا ہے کہ خداتعالیٰ کے فرستادے کے نزدیک اللہ کی راہ میں مال و جاں،آل اولاد قربان کرنے والوں کا کیا مقام ہے۔ وہ پاک لوگ کہ جو دن رات اسی کوشش میں مصروف رہتے ہیں کہ کسی طور خداتعالیٰ کی رضا کا حصول ممکن ہوسکے۔ وہ اُس کی بارگاہ میں ہر در سے داخل ہونے کی سعی کرتے ہیں۔حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے خط میں اپنےلیے ‘نابکار’کا لفظ استعمال فرمایا تھا۔ اس نظم کے تیسرے شعر میں حضورؑ فرماتے ہیں:

اُسے دے چکے مال و جاں بار بار

ابھی خوف دل میں کہ ہیں نابکار

نابکار فارسی زبان کا لفظ ہے جس کےمعنی بے فائدہ اور بےکار کے ہیں۔میرؔ کا شعر ہے:

کام کے جو لوگ صاحب فن ہیں سو محسود ہیں

بےتہی کرتے رہیں گے حاسدانِ نابکار

دوسرے شعر میں ‘دل دار’کی ترکیب استعمال ہوئی ہے۔ اس فارسی ترکیب کے معنی محبوب یا معشوق کے ہیں۔ اسی سے ‘دل داری’ بنا ہے یعنی تسلّی دینا یا ہم دردی کرنا۔شاہ نصیر کا لاجواب شعر دیکھیے:

لگا جب عکس ابرو دیکھنے دل دار پانی میں

بہم ہر موج سے چلنےلگی تلوار پانی میں

تلفّظ کے حوالے سے دوسرے شعر میں ‘فکر’کا لفظ ہے۔ اس لفظ کا درست تلفّظ ‘فِکْر’ ہے۔جسے بالعموم بول چال میں فِکَر کہہ دیا جاتا ہے۔ فِکْر کے معنی سوچ بچار، خیال یادھن کے ہیں۔

یہ اشعار تحریر فرمانے کے بعد حضورؑ نے خداتعالیٰ سے دعا کی کہ ‘‘خداتعالیٰ اس خصلت اور ہمّت کے آدمی اس امّت میں زیادہ سے زیادہ کرے۔آمین ثمّ آمین۔’’

آخر میں آپؑ نےفارسی شعر رقم فرمایا ہے:

چہ خوش بُودے اگر ہریک ز اُمّت نورِ دیں بُودے

ہمیں بُودے اگر ہر دِل پُر از نُورِ یقیں بُودے

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button